(یوٹیوب چینل Usmania Media Official پر نشر ہونے والی ایک نشست کی گفتگو)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی ہماری گفتگو کا عنوان ہے ’’اسلامی نظام کی اہمیت اور ضرورت‘‘۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی نظام کیا ہے؟ اللہ رب العزت نے جب نسلِ انسانی کو اس زمین پر آباد کرنے کا آغاز کیا اور حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو زمین پر اتارا تو اس وقت ایک بات فرمائی تھی کہ ’’اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ (البقرۃ ۳۸) کچھ عرصہ تم نے اور تمہاری اولاد نے اس زمین پر رہنا ہے، ہدایات میری طرف سے آئیں گی، جس نے ان ہدایات کی پیروی کی وہ خوف اور غم سے نجات پائیں گے اور کامیاب ہو کر واپس آئیں گے۔ تو اسلامی نظام وہی ہے جو اللہ رب العزت نے پہلے دن آدم اور حوا علیہما السلام سے کہا تھا کہ ’’اما یاتینکم منی ھدی‘‘ ہدایت میری طرف سے آئے گی، اس کی پیروی لازمی ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا، زمین پر بسایا اور اللہ ہی وسائل مہیا کر رہا ہے۔ جیسا کہ پہلے دن اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی فرما دی تھی کہ ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین‘‘ قیامت تک کا وقت متعین ہے جب تک زمین میں رہنے کی جگہ بھی ہو گی اور اسباب بھی ہوں گے۔ یعنی آج کی اصطلاح میں روٹی، کپڑا اور مکان ملیں گے۔ تو جب اللہ کی زمین پر اللہ کی دی ہوئی زندگی اور اسباب کے ساتھ رہنا ہے تو ہدایات بھی اللہ کی طرف سے ہوں گی۔ ہدایات کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر مکمل ہوا۔ درمیان میں ہزاروں رسول اور پیغمبر علیہم الصلوات والتسلیمات آئے۔ اور جو ہدایات قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی صورت میں مکمل ہوئیں، اسی کا نام اسلامی نظام ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً قائم کر کے دکھایا۔
حضورؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں سے مل کر باقاعدہ ایک ریاست قائم کی، اس میں مسلمان بھی تھے، یہودی بھی تھے، اور لوگ بھی تھے۔ میثاقِ مدینہ ہوا تھا۔ آپؐ نے یثرب کو مدینہ میں تبدیل کر کے اسلامی ریاست قائم کی جو اس وقت تو ایک سمندری پٹی میں تھی، جسے بحیرہ کہتے ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک دس سال کے عرصہ میں یہ ریاست پورے جزیرۃ العرب کو گھیرے میں لے چکی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بطور خلیفۃ الرسول منتخب ہوئے تو پورے جزیرۃ العرب کا انہوں نے انتظام سنبھالا تھا۔ پھر خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد خلفاء نے اسے باقاعدہ نظام کی شکل دی جو صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کرتا رہا۔ چنانچہ وہ نظام جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت کی شکل میں دیا، جو خلافتِ راشدہؓ کے دور میں اور بعد کے ادوار میں عملاً نافذ رہا، وہ اسلامی نظام ہے۔
آج بھی دنیا کو اس نظام کی ضرورت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کسی بھی مشین کو اس کے بنانے والے کی ہدایات کے مطابق چلایا جائے تو وہ صحیح کام کرتی ہے، اگر چلانے والا اپنی مرضی کرے گا تو گڑبڑ کرے گا۔ سادہ سی بات ہے کہ آج بھی کوئی بڑی صنعت نئی مشین ایجاد کرتی ہے تو مشین کے ساتھ اس کا تعارف بھی ہوتا ہے اور استعمال کا طریقہ کار بھی ہوتا ہے۔ انسان بھی ایک مشین ہے اور انسانوں سے مرتب ہونے والا سماج بھی۔ انسانی چمڑے کے اندر کائنات کی پیچیدہ ترین مشینری ہے۔ انسان اور انسانی سماج تب صحیح نتائج دے گا جب اسے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق اور خلفاء راشدین کی راہنمائی میں چلایا جائے گا۔
مگر گزشتہ دو تین سو برس سے دنیا ایک خودساختہ فلسفہ کے تحت زندگی بسر کر رہی ہے، جو انقلابِ فرانس سے شروع ہوا تھا، کہ سوسائٹی اپنا نفع و نقصان سمجھتی ہے، وہ اپنے فیصلے خود کرے گی، اپنا قانون خود بنائے گی، اور اسے باہر سے کسی ڈکٹیشن یا ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ واپس اس طرف جایا جائے کہ انسانی سماج کو انسانی تصورات و خواہشات کے دائرے سے نکال کر بنانے والے خدا اور اس کے رسول کی ہدایات کے مطابق منظم کیا جائے۔
افغانستان میں جو تبدیلیاں آئی ہیں کہ افغان قوم نے اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل کیا ہے، میں اسے اس پہلو سے دیکھتا ہوں کہ یہ آسمانی تعلیمات ’’اما یاتینکم منی ھدی‘‘ کی طرف واپس جانے کا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ ورنہ گزشتہ دو ڈھائی سو سال ہم نے جس غلامی میں گزارے ہیں، پہلے وہ صریح غلامی تھی اور اب ریموٹ کنٹرول غلامی ہے۔ مسلم ممالک کو آپ دیکھ لیں کہ ان کی غلامی پر آزادی کا ایک پردہ چڑھا ہوا ہے۔ مسلمان حکمران بظاہر آزاد اور خودمختار کہلاتے ہیں لیکن ہمارے فیصلے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ ہماری دستور و قانون سازی اور پالیسی سازی عالم اسلام میں کہیں بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، ہم پر بین الاقوامی ادارے اور معاہدات مسلط ہیں، اور ہم پر عالمی استعمار مسلط ہے جو اپنی مرضی کے فیصلے کروا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ موقع بڑی طویل جدوجہد اور بڑی قربانیوں کے بعد دیا ہے اور افغان قوم تو بیچاری ذبح ہو گئی ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے کہ وہ دنیا سے یہ کہہ سکیں کہ ہمارے کاموں میں مداخلت نہ کرو، ہمیں اپنا کام کرنے دو، ہمارا اپنا ایک فلسفہ ہے، ہمارے پاس اپنا ایک نظام ہے، ہماری ایک تہذیب ہے، ہمیں دنیا کو چلا کر دکھانے تو دو۔
میرا ایمان ہے کہ قرآن و سنت کے احکام و تعلیمات کو خلافتِ راشدہ کی روشنی میں دنیا کے کسی خطے کے اندر دس سال آزادی کے ساتھ کسی بیرونی مداخلت کے بغیر عملداری کا موقع مل جائے تو ان شاء اللہ العزیز دنیا دیکھے گی کہ آسمانی تعلیمات کی برکات کیا ہیں اور اسلامی نظام کے ثمرات کیا ہیں۔ جبکہ اسی بات سے دنیا کے بہت سے حلقے ڈر رہے ہیں کہ اگر آسمانی تعلیمات کو اپنی عملداری کے لیے کسی خطہ میں دس پندرہ سال آزادانہ موقع مل گیا تو اس کے نتائج پوری دنیا کے لیے نمونہ ہوں گے۔ میں اس لحاظ سے افغانستان کی صورتحال پر خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ ہمیں ایک موقع مل رہا ہے کہ ہمارا ایک طبقہ اور خطہ یہ کہنے کی پوزیشن میں ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کریں گے ، آپ صرف دیکھتے رہیں کہ ہم کیا کرتے ہیں، اگر نتائج اچھے ہوئے تو آپ بھی قبول کر لینا۔
بہرحال انسانی سماج پر اللہ اور اس کے رسول کے احکام و قوانین کے نفاذ کا نام اسلامی نظام ہے۔ اور یہ نفاذ پورے خلوص اور آزادی کے ساتھ ہو جیسے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا تھا ، اور اس کے بعد بھی اس کا تسلسل رہا ہے، آج اس تسلسل کو دوبارہ تاریخ کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں یہ قوت اور اسباب دیں کہ ہم خلافتِ اسلامیہ اور اسلامی نظام کی صورت میں خدا کی زمین پر خدا کے نظام کا منظر ایک دفعہ پھر پیش کر سکیں اور اس کے ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں (آمین)۔