اگر اشیاء اور کیفیات کے ان گنت نام ہیں تو تلفظ ان پر مستزاد۔ کالے کو کوئی اسود کہے تو کوئی سیاہ۔ بلیک کہنے پر تسلی نہ ہو تو وہ ڈارک پر خوش ہو جائے۔ اس لسانی اختلاف کا خالق انہیں اپنی نشانیاں قرار دے تو اسی کے محرم راز صلی اللہ علیہ وسلم ان اختلافات کو رحمت کا سبب کہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہم انسانوں میں گفتگو کا آغاز بالعموم اختلاف سے ہوتا ہے۔ اختلاف کے مختلف النوع پیرائے تہذیبِ انسانی کی پہچان ہیں جن میں حسنِ بیان، احترامِ آدمیت، سلیقہ اور آگے بڑھتے وقت پچھلا دروازہ بند نہ کرنے کا داعیہ ہو تو واپس مڑ کر بھی انسان آگے ہی کو رہتا ہے۔ الٹے پاؤں چلنے والے کو اس کی فکری بالیدگی سیدھا رکھتی ہے، بھلے وہ الٹے پاؤں چلے۔
اپنے بر صغیر کی زوال آشنا تہذیب کا نوحہ پڑھنے کا وقت شاید ابھی نہ ہو لیکن قعر مزلت کو لڑھکتی ’’پہلے آپ، اجی نہیں صاحب، پہلے آپ‘‘ والی اپنی اس خوبصورت تہذیب کی ناک میں اگر آپ کو آکسیجن کی نلی نظر نہ آئے تو برصغیر کے ٹی وی چینلوں پر چند مذاکرے بھگت لیجئے۔ تشنگی رہے تو فیس بک اور یوٹیوب پر چلے جائیے جہاں اختلاف رائے پر مبنی مکالمہ ’’آپ جناب‘‘ کو بھلا کر ابے تبے، توتکار سے پھسلتا ہوا گالم گلوچ اور گاہے سر پھٹول کرتا بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر آپ گوشہ نشین ہو کر ان چیزوں سے دور ہیں تو کسی واٹس ایپ گروپ میں آپ یقیناً ہوں گے۔ آپ نے وہاں بھی یہی کچھ دیکھا ہوگا۔
پروفیسر خورشید احمد رحمہ اللہ کی رحلت پر چند مضامین لکھتے ہوئے میں بعض اکابر دیوبند کا قدرے ناقدانہ ذکر کر بیٹھا جو میرا اپنا حاصلِ مطالعہ تھا۔ دوسروں کی راۓ برعکس ہو سکتی ہے لیکن توسع دیکھیے کہ فقیہ دہر مولانا زاہد الراشدی نے میرا ایک مضمون ماہنامہ الشریعہ مئی میں من و عن شائع کر دیا۔ بعض قارئین نے اپنی اختلافی آرا مجھے لکھیں تو انہیں بھی مقدور بھر مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جدہ میں مقیم محبی ڈاکٹر قاری عبدالباسط صاحب نے مجھے جدہ ہی کے محترم عبدالجبار سلفی صاحب کا محاکمہ ارسال کیا۔ اس میں میری تحریر پر بھرپور و مبسوط گرفت تھی۔ ان کو بھی مقدور بھر جواب دے دیا۔ پھر ان کا جواب الجواب آیا۔ آخر میں محبی عبدالباسط نے اسے یوں سمیٹا کہ ہم دونوں فارغ ہو گئے۔
ایک دن مجھے اچانک خیال آیا کہ ہم تینوں کی یہ مراسلت اگر شائع کر دی جائے تو ممکن ہے سوشل میڈیائی اسالیب ’’مکالمہ‘‘ میں کچھ رد و بدل اور ترمیم و اضافہ ہو۔ شاید کسی ایک کے دل میں یہ مراسلت اتر جائے۔ چنانچہ میں نے اپنے ان دونوں ممدوحین کو اذن اشاعت کی عرضی گزاری۔ دونوں نے بخوشی اجازت مرحمت کر دی۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ روزنامہ پاکستان میں شائع میرے مضامین یا الشریعہ مئی 2025ء میں ان میں سے ایک مضمون کی مکرر اشاعت پڑھ کر اس مراسلت پر ناقدانہ نظر ڈالیں۔ پہلے میری مذکورہ تحریر پر محترم عبدالجبار سلفی کا محاکمہ ملاحظہ ہو جو محترم قاری ڈاکٹر عبدالباسط صاحب کے توسط سے مجھے موصول ہوا تھا:
جناب ڈاکٹر شہزاد اقبال کی تنقیدات اور اکابر دیوبند
چند دن قبل جدہ میں مقیم کاتب السطور کے کرم فرما اور نہایت صالح و ذی استعداد عالم دین جناب مولانا قاری عبدالباسط صاحب زید مجدہ نے ایک کالم کی جانب توجہ دلائی تھی۔آج فرصت میں وہ کالم پڑھا تو زیرِنظر قلم برداشتہ تحریر وجود میں آ گئی جو پیشِ خدمت ہے۔ محترم ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کا ایک کالم مورخہ 20 اپریل 2025ء کے روزنامہ پاکستان میں ’’پروفیسر خورشید احمد، متبرک حلقہ ہائے زنجیر کی آخری کڑی‘‘ کے زیرِعنوان نظر سے گزرا، جس میں بعض تاریخی و فکری مبالغات اور اکابرِ امت پر تنقیدی اشارات نے علمی اضطراب کو جنم دیا۔ اس خاکسار نے طے کیا کہ ان اشارات و تنقیدات کا علمی، تحقیقی اور معروضی جائزہ پیش کیا جائے۔ فلہٰذا ذیل میں ڈاکٹر صاحب کے منتخب اقتباسات درج کر کے ان پر طائرانہ تبصرہ کیا جا رہا ہے۔
اقتباس اول: ’’مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور ابوالکلام آزاد مرحوم جیسی قد آور شخصیات بھی ابھریں۔ اول الذکر کی فکر و میراث مسلکی تنگنائیوں میں یوں الجھی کہ آج یہ لوگ برصغیر اور اردگرد میں دین کے کسی جزیے کو لے کر چل رہے ہیں‘‘۔
الجواب بعون اللہ الملک الوھاب: یہ جملہ مولانا نانوتویؒ کی شخصیت و خدمات سے شدید ناانصافی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا قیام، اس کے ذریعہ برصغیر کے لاکھوں علماء کی تربیت، حدیث، فقہ، تصوف اور دین کے جملہ شعبہ جات میں گراں قدر خدمات کوئی جزوی یا مسلکی کارنامہ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر علمی تحریک ہے۔ دیوبندیت کسی جزوِ دین کی قائل نہیں بلکہ قرآن و سنت پر مبنی پورے دین کی داعی ہے۔ امام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے ’’تحذیر الناس‘‘ جیسے عمیق مباحث اور ان کے مجددانہ افکار ہر صاحبِ علم کے لیے مشعل راہ ہیں۔
اقتباس دوم: ’’ابوالکلام آزاد اعلیٰ فکری خوبیوں کے باوجود افسوس وطنی قومیت کے آسیب کا شکار ہو کر شعلہ مستعجل بن گئے‘‘۔
الجواب بعون اللہ الملک الوھاب: مولانا آزاد پر قومیت کے غلبے کی شکایت کی جا سکتی ہے، قطع نظر اس سے کہ یہی شکایت مولانا مودودی سے بھی کی جا سکتی ہے، مگر مولانا آزاد مرحوم کی تفسیر قرآن مجید، ان کے خطبات، اور اسلامی تاریخ پر ان کی گہری نظر اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کا ذکر ایک ’’شعلہ مستعجل‘‘ کے بجائے ایک عہد ساز مفسر، ادیب اور مفکر کے طور پر کیا جائے۔ ان کی ’’ترجمان القرآن‘‘ اسلامی علوم کا ایک گراں مایہ خزینہ ہے۔
اقتباس سوم: ’’سید مودودی باہر نکل کر پاکستان ہی نہیں کُل عالَم کو اللہ کا گھر بنانے پر تل گئے‘‘۔
الجواب بعون اللہ الملک الوھاب: یہ جذبہ اگرچہ قابلِ ستائش ہے، لیکن مولانا مودودی کی بعض تحریریں علمی نقد سے بالا نہیں۔ اکابرِ دیوبند مثلاً مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا محمد سرفراز خان صفدر، قائد اہل سنت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہم اللہ اور دیگر بزرگوں نے ان کی بعض آراء پر دلائل کے ساتھ تنقید کی ہے، خصوصاً خلفائے راشدین پر تنقیدی اسلوب، اور فقہائے کرام سے بے نیازی جیسے امور انہیں دیوبندی اکابر کے فکری تسلسل سے الگ کرتے ہیں۔
اقتباس چہارم: ’’نتیجہ نکالا کہ شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، علامہ اقبال اور سید مودودی کا دمکتا ہوا تسلسل پروفیسر خورشید احمدؒ ہی تھے۔‘‘
الجواب بعون اللہ الملک الوھاب: یہ دعویٰ مبالغہ آمیز ہے۔ پروفیسر خورشید احمد بلاشبہ ماہرِ معیشت اور اسلامی فلاحی ریاست کے علمبردار ہوں گے، لیکن انہیں ان حضرات کا جامع تسلسل قرار دینا تاریخی ترتیب، فکری رسوخ، اور دینی جامعیت کے اعتبار سے درست نہیں۔ کیونکہ حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ کا تسلسل دراصل اکابرِ دیوبند میں محفوظ و متحرک ہے۔
اقتباس پنجم: ’’مرحوم بلاشبہ چاروں مذکورہ بالا شیوخ کے سلسلے کی آخری کڑی تھے‘‘۔
الجواب بعون اللہ الملک الوھاب: فکری اور روحانی تسلسل کبھی کسی ایک فرد پر ختم نہیں ہوتا۔ اسلامی تاریخ کی روح یہی ہے کہ ہر صدی میں مجددین، مصلحین، اور علماء حق اس تسلسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ آج بھی علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے تلامذہ اس تسلسل کو عزت، تدبر اور توازن کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہے، ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کی نیت اپنی جگہ نیک ہو گی اور ان کی اپنے ممدوحین سے محبت بھی خالص ہو گی، مگر انصاف کے ترازو پر تولیں تو اکابر دیوبند کی ہمہ گیر دینی خدمات اور فکری رسوخ کسی جزوی، مسلکی یا محدود دائرے کا نام نہیں، بلکہ وہی شاہ ولی اللہی فکر کا اصل تسلسل ہے جو علم، تصوف، دعوت، سیاست، اور معیشت سب پر محیط ہے۔ مودودی صاحب اور پروفیسر خورشید احمد کی انفرادی خوبیوں کا اعتراف ضرور کریں کہ وہ آپ کی جماعتی و فکری وابستگی کا حق ہے، لیکن تنقیدی توازن کے بغیر انہیں اکابرِ امت پر ترجیح دینا کسی علمی دیانت سے مطابقت نہیں رکھتا۔(عبدالجبار سلفی،27 اپریل 2025ء لاہور)
یہ مکتوب مجھے قاری ڈاکٹر عبدالباسط صاحب کے توسط سے موصول ہوا تھا لہٰذا میں نے اپنا درج ذیل معروضہ انہی کی خدمت میں پیش کیا۔ تاہم اس کی نقل محترم جناب عبدالجبار سلفی صاحب کو ارسال کر دی۔ معروضہ ملاحظہ ہو:
محترم جناب ڈاکٹر قاری عبدالباسط صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
دو دن پہلے مجھے آپ کے توسط سے محبی عبدالجبار سلفی صاحب کا مکتوب بسلسلہ میری ایک تحریر کے موصول ہوا۔ محترم عبدالجبار سلفی صاحب نے جس متوازن اور دل نشین پیرائے میں اپنے نقطہ نظر کا ابلاغ کیا ہے، یقین جانیے دل سے ان کے لیے دعائیں نکلی ہیں۔ ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ نے ایک دفعہ بڑی حسرت سے کسی معاملے میں اپنا دل چیر کر میرے آگے یوں رکھا تھا: ’’میری یہی خواہش ہے کہ اہل علم ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھ جائیں۔‘‘ حق یہ ہے کہ محبی عبدالجبار سلفی نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ اللہ انہیں جزا دے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ میری تحریر میری سوچ کی عکاس ہے جو سوچ سمجھ کر اس ایمان کے ساتھ لکھی ہے کہ مذکورہ جملہ ممدوحین کا مرتبہ و مقام اس دنیا کے احوال کے مطابق ہے۔ رہا اللہ کے ہاں ان کا تقرب تو وہ نہ مجھے پتا ہے نہ کسی اور کو۔ ممکن ہے اللہ کا قرب حاصل کرنے میں میرے ممدوح وہ مرتبہ نہ پا سکیں جو آپ کے ممدوح لے پائیں (اگرچہ یہ تمام بزرگان دین ہم دونوں کے ممدوحین ہیں) اور اسی کو آپ بالعکس بھی متصور کر لیجئے۔ میں نے تو اپنے فہم کے مطابق ایک تجزیہ کیا تھا۔ نہ تو، اللہ معاف کرے، کسی کو نیچا دکھانا مطلوب تھا اور نہ کسی کی فوقیت ثابت کرنا میرے پیش نظر تھا۔
جو باتیں محترم عبدالجبار سلفی نے نسبتاً اختلافی پیرائے میں بیان کی ہیں، صاحب میرا تو اپنا وہی نقطہ نظر ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے تو اس برصغیر کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ بہت کم لوگوں کی توجہ ادھر جا پاتی ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی تحریک کی کم و بیش 90-95 فیصد اٹھان علمائے دیوبند کی تحریک اور انہی کے تربیت یافتہ افراد پر ہے۔
علمائے دیوبند کے دین کو کلی طور پر لے کر چلنے کے بارے میں اب یوں کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے، بالخصوص پاکستان میں، واقعتاً ایسے ہی ہے جیسے آپ نے بیان کیا ہے۔ اس کی ایک بڑی اور روشن مثال عالی مقام مولانا زاہد الراشدی ہیں۔ بلا شبہ مولانا اجتہادی بصیرت سے مالامال ہیں۔
مجھے خوشی ہوئی کہ محترم عبدالجبار سلفی صاحب کے لیے میری قدرے ناپسندیدہ تحریر کے سبب مجھے اپنے سے کہیں بہتر بھائی کا تعارف حاصل ہوا۔ میں ان کی یہ تحریر سنبھال کر رکھتا ہوں اور موقع بہ موقع اس سے روشنی لیتا رہوں گا۔شہزاد اقبال شام 29 اپریل 2025ء
محترم عبدالجبار سلفی صاحب نے میری ان وضاحتوں کا جو جواب الجواب دیا، اب وہ ملاحظہ کیجیے:
بخدمت گرامی قدر، محترم المقام جناب شہزاد اقبال صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر و عافیت ہوگا۔ آپ جناب کے ایک بصیرت افروز کالم پر راقم نے نہایت اخلاص کے ساتھ ایک برادرانہ تبصرہ پیش کیا تھا، جس پر آپ کی وسعتِ ظرف، شگفتہ مزاجی اور دل نوازی نے جس محبت و شفقت کا مظاہرہ فرمایا، وہ میرے لیے باعثِ افتخار و انبساط ہے۔ آپ جیسے اصحابِ علم و وقار کا تعلق دلوں کو وقار بخشتا ہے، اور جن کی صحبت میں فہم و ادراک کے دریچے وا ہوتے ہیں۔ میری دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ ربّ کریم آپ کو ہمہ وقت صحت و عافیت کے حصار میں رکھے، آپ کی فکر و دانش کو مزید جِلا عطا فرمائے، اور آپ کا قلم ہمیشہ سچائی، خیر اور علم کے فروغ کا علم بردار بنا رہے۔ میں اس برادرانہ تبادلہ خیالات کو اپنی زندگی کی نیک ساعتوں میں شمار کرتا ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ کی علمی صحبت سے کسبِ فیض کا سلسلہ قائم رہے گا۔(عبدالجبار سلفی لاہور)
اس تحریری ’’دنگل‘‘ پر کسی کے بیچ بچاؤ کرانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی لہٰذا مراسلت کی درج ذیل آخری کڑی کو مصالحت نامہ نہ سمجھ لیجئے۔ قاری ڈاکٹر عبدالباسط صاحب کا درج ذیل محبت نامہ میرے لیے کتنا گراں قدر ہے یہ میں ہی جانتا ہوں۔۔ یہ کوئی روایتی مکتوب نہیں، یہ ان کی وہ شہادت ہے جسے میں نے ’’وہاں‘‘ کے لیے رکھ لیا ہے۔ مکتوب ملاحظہ ہو:
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ، میرے انتہائی صد احترام بلکہ واجب احترام مکرم محترم عزیز بھائی جناب ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب۔
میرے دل میں آپ کا جو احترام اور محبت پہلے سے تھی اور محترم جناب بھٹہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ واسكنہ فسيح جناتہ … ان کے ہاں کئی بار ملاقات اور گفتگو بھی رہی۔۔ وہ مقام اب آپ کی اس تحریر کے بعد کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ آپ نے حضرت ڈاکٹر غازی صاحب رحمہ اللہ کا ذکر خیر اور ان کا تاریخی جملہ بھی تحریر فرما دیا۔ یقیناً یہی دراصل وہ حسن و جمال ہے جو اختلافِ أمتی رحمۃ… والے جملہ میں پوشیدہ ہے۔ آپ کا اپنی تحریر و مضمون کے بارے میں یاددھانی اور بعض ملاحظات پر جو میرے انتہائی قابل قدر ساتھی مولانا عبدالجبار سلفی صاحب نے لکھے، ان پر جو رد عمل سامنے آیا وہ آپ کے بڑے پن اور اس اصل شخصیت کا روپ ہے جو علم نافع کے شام تلے پلی بڑھی اور جسے مشاہیر اہل علم و عمل کی طویل دیرینہ صحبتوں نے چار چاند لگا دئیے۔ یہ انہی بڑوں کی تربیت ہے جن جن مشاہیر میں سے اکثر کا ذکر آنجناب کی تحریروں میں آتا رہتا ہے۔ سید مودودی رحمہ اللہ جیسی عبقری شخصیت ہو یا ان کے بعض جانشینوں کا ذکر مبارک، ہمارے برصغیر میں اگر یہ روشنی شروع دن سے عام ہو جاتی جسے رواداری اور عدل و توازن کہا جاتا ہے تو یہ دوریاں نہ ہوتیں جن کی وجہ سے دین کی نسبتوں والے آج بھی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ اللہ تعالٰی آپ کو سلامت رکھے کہ آپ نے اس تاریک ترین تعصب زدہ ماحول میں بھی حسن تکلم، جمال قلم، ذخيرۂ علم ادب اور ہر صاحبِ علم کا دلی احترام جیسی صفات لئے اپنا علم بلند کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ اللہ گواہ ہے، عرب کہتے ہیں يعلم اللہ۔ میرے دل میں آپ کا جو احترام ہے، مجھے حیا آئی اور ادب مانع ہوا کہ آپ کی اس مذکورہ تحریر پر کچھ کہوں۔ سلفی صاحب سے تذکرہ ہوا تو دورانِ گفتگو عرضی پیش کر دی۔ ساتھ میں تاکید بھی کر دی کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا میرے دل میں جو مقام ہے اس کا خاص طور پر لحاظ رکھا جائے۔ بہرحال مجھے خوشی ہوئی کہ ان کا مضمون آپ کی نظر میں بھی معقول ہی رہا بلکہ یہ ہم سب کے قریب سے قریب تر ہونے کا ذریعہ بن گیا۔ واللہ ہو الموفق وہو ولی ذلک والقادر علی کل شیءآپ کا بھائی عبد الباسط محمد جدہ