اتفاق، نیچرل ازم اور عدمِ کارکردگی
Chance, naturalism, and inefficiency
تمہید
اسلامی فکری تاریخ میں متعدد فکری دھارے موجود رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں دھارا علم کلام کہلاتا ہے، جسے مغربی علمی روایت میں scholastic theology کے قریب سمجھا جا سکتا ہے، اگرچہ یہ ترجمہ اس کی مکمل معنویت کا احاطہ نہیں کرتا۔ علم کلام کی اس روایت کی نمائندگی بنیادی طور پر تین مکاتبِ فکر نے کی: معتزلہ، اشاعرہ، اور ماتریدیہ (Jackson 2009)۔ متعدد تاریخی و فکری عوامل کے نتیجے میں اشعری اور ماتریدی مکاتب کو اہلِ سنت کی معتبر اور مرکزی اعتقادی روایت کی حیثیت ملی، اور ان کے ساتھ ایک غیرکلامی دھارا، جسے اثری مکتب کہا جاتا ہے، بھی اس روایت کا حصہ سمجھا گیا (Winters 2008; Schmidtke 2014). امام غزالی اشعری مکتب سے وابستہ تھے اور انہوں نے اس مکتب کے عقائد کو منظم، مضبوط اور مرتب صورت دینے کے لیے متعدد بنیادی رسائل تحریر کیے (2000؛ 2013؛ 2016)۔
اس باب میں ہم اس نظریاتی روایت (یعنی اشعری مکتب) کے بعض بنیادی اصولوں کا جائزہ لیں گے، بالخصوص اُن پہلوؤں کا جو نظریہ ارتقا سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات اور اعتراضات کو سمجھنے میں ہماری معاونت کرتے ہیں۔ اس باب میں تین مخصوص مسائل زیرِ بحث آئیں گے: نیچرل ازم کا مسئلہ، اتفاق کا مسئلہ، اور بظاہر عدمِ کارکردگی / غیر موثریت کا مسئلہ۔ اسی مقصد کے لیے اس باب کی ساخت کچھ یوں ہے:
سب سے پہلے ہم اشعری مکتبِ فکر کے عمومی اصولوں کا ایک مختصر خاکہ پیش کریں گے۔ یہ نہ صرف اس باب کے مباحث کی بنیاد فراہم کرے گا بلکہ باب 7 اور باب 8 کے لیے بھی تمہیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگلے حصے میں ہم سائنس اور مذہب کے معاصر مباحث کا تعارف پیش کریں گے، خصوصاً Divine Action Project جو اشعری تناظر کو سمجھنے کے لیے ایک مفید تقابلی فریم مہیا کرے گا۔ اس کے بعد ہم نیچرل ازم کے مسئلے پر گفتگو کریں گے۔ باب 4 میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ بعض مفکرین نظریہ ارتقا کو نیچرل ازم اور الحاد سے جوڑتے ہیں۔ اس لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کیا ارتقا کو سمجھنے کا یہی واحد زاویہ ہے؟
دوسرا مسئلہ جس پر اس باب میں گفتگو ہوگی وہ اتفاق کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی دو جہتیں ہیں۔ پہلی جہت یہ ہے کہ اتفاق (chance) کا خدا سے تعلق کیا ہے؟ اگر خدا ایسا نظام چلاتا ہے جس میں اتفاق کا کردار دکھائی دیتا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نعوذ باللہ جانتا نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ یا کیا اتفاق کسی طرح اس کی قدرتِ کاملہ اور علمِ کامل کو کمزور دکھاتا ہے؟ دوسری جہت اتفاق اور غایت (teleology) کا تعلق ہے، یعنی کیا فطرت میں مقاصد پائے جاتے ہیں؟ اگر زندگی کی پوری تخلیقی تاریخ ایک ایسے عمل پر مبنی ہو جس میں اتفاقی عناصر غالب ہوں، جیسے ارتقا، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان محض حادثاتی وجود ہے؟ تو پھر یہ تصور اُس قرآنی تعلیم سے کیسے میل کھاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خدا نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے تخلیق کیا؟
اس باب میں تیسری اور آخری بحث عدمِ کارکردگی یا بظاہر غیر موثریت سے متعلق ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے اس دنیا کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کا اہتمام نہیں کیا۔ طویل عرصے پر محیط اس حیاتیاتی عمل میں بے شمار جاندار پیدا ہوئے، تکلیف برداشت کی، اور فنا ہو گئے۔ کیا خدا براہِ راست ایسا نظام تخلیق نہیں کر سکتا تھا جس میں اتنی مشقت، طوالت، اور حیاتیاتی ضیاع نہ ہوتا؟ دوسرے لفظوں میں، اس مسئلے کا عمومی اعتراض یہ ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے نظامِ عالم میں نعوذباللہ کوتاہی نظر آتی ہے، اور وہ دنیا کو اس سے کہیں بہتر انداز میں بنا سکتا تھا۔ Top of Form یہاں یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ اشعری تصورِ خدا کے اندر ان میں سے کوئی بھی اعتراض حقیقی مسئلہ نہیں بنتا۔ ہر اعتراض کو ایک خاص انداز سے واضح اور مقید کیا جا سکتا ہے، جس کے بعد وہ مسئلہ اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہتا۔ تاہم یہ سوالات بعض دوسرے مباحث ، جیسے تخلیق کے نظم و ڈیزائن کا مسئلہ اور اخلاقیات سے متعلق سوالات ، پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ موضوعات اپنی جگہ مستقل اور تفصیلی بحث کے متقاضی ہیں، اس لیے انہیں بالترتیب باب 7 اور باب 8 میں زیرِ بحث لایا جائے گا۔
اشعری مکتب
اشعری مکتب فکر میں علم کلام کا بنیادی نقطہ نظر دو اہم فلسفیانہ نظریات پر قائم ہے جنہیں متکلمین نے باقاعدہ ایک مربوط نظامِ فکر کی صورت دی۔ یہ دو نظریات اُکیشنل ازم (Occasionalism) اور ایٹم ازم (Atomism) ہیں (Malik 2019)۔ اُکیشنل ازم وہ تصور ہے جو بتاتا ہے کہ خدا دنیا کے ساتھ کس طرح عمل کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق خدا ہی ہر چیز کا اصل اور بنیادی سبب ہے۔ کائنات میں موجود تمام چیزیں جیسے ذرّات، درخت، جانور، انسان، سیّارے، کہکشائیں، اور حتیٰ کہ ممکنہ ملٹی ورس اپنے وجود اور ہر طرح کی علت و تاثیر کے لیے براہِ راست خدا کی مشیت اور قدرت پر منحصر ہیں۔ اس تصور کا تقابل عموماً دی ازم (Deism) سے کیا جاتا ہے، جس کے مطابق خدا نے دنیا کو پیدا تو کیا، لیکن اس کے بعد وہ اس کے نظم اور بقا میں براہِ راست مداخلت نہیں کرتا، دنیا کچھ اسی طرح چلتی رہتی ہے جیسے ایک گھڑی بن جانے اور چلنے لگنے کے بعد اپنے بنانے والے سے آزاد ہو جاتی ہے (Larmer 2014, 7–23)۔ اُکیشنل ازم اور دی ازم کے درمیان فعلِ الٰہی کو سمجھنے کے کئی دوسرے طریقے بھی پیش کیے گئے ہیں، اور سائنس اور مذہب کے معاصر مباحث میں ان پر مستقل بحث ہوتی رہتی ہے (Lee 2020)۔
ایٹم ازم وجودیات (ontology) کا ایک نظریہ ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ دنیا بنیادی طور پر کن اکائیوں پر مشتمل ہے (Koca 2020, 29–32)۔نام سے ظاہر ہے کہ اشاعره کا عقیدہ تھا کہ ہر مخلوق کو بنیادی، ناقابلِ تقسیم ایٹمی اجزا تک تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ اشاعره نے اس نظریے کو اس لیے اختیار کیا کہ تخلیق کی ساخت کو محدود رکھا جائے اور ایسے غیر معقول نتائج سے بچا جائے جو لامحدود تقسیم سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک لازم تھا کہ تقسیم کا کوئی آخری نقطہ مانا جائے؛ ورنہ پوری کائنات کو لامتناہی طور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے، جو معقول نہیں۔ شلومو پائنز(Shlomo Pines 1997, 15) اس غیر معقول نتیجے کی ایک مثال بیان کرتے ہیں، جو کلامی مباحث میں عام پائی جاتی ہے: "اگر اجسام لامحدود طور پر تقسیم ہو سکتے ہوں تو رائی کا ایک دانہ بھی اتنے ہی اجزا پر مشتمل ہوگا جتنے ایک پہاڑ میں ہوتے ہیں۔"
یہ بات واضح رہے کہ اشاعره کے نزدیک صرف مادہ ہی ایٹمی اکائیوں پر مشتمل نہیں، بلکہ دیگر بنیادی اقسام بھی اسی اصول کے تابع ہیں۔ یعنی صرف اجسام نہیں بلکہ وقت جیسی کیفیات بھی ان کے نزدیک ایٹمی نوعیت رکھتی ہیں۔ مختصراً یہ کہ اشاعره کے نزدیک پوری تخلیق جدا جدا حصوں پر مشتمل ہے (Pines 1997; Altaie 2016, 16–18; Hassan 2020; Ibrahim 2020)۔
اُکیشنل ازم اور ایٹم ازم دونوں کو اشاعره نے مختلف مقاصد کے لیے اختیار کیا تھا۔ اُکیشنل ازم اختیار کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ خدا کی قدرتِ کاملہ کو ایسے"قدرتی قوانین" کے تابع نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ بعض دیگر فلسفی تصورات کی طرح، خدا کی مداخلت کو محدود کر دیں۔ اشاعره یہ بھی چاہتے تھے کہ یہ تصور کبھی پیدا نہ ہو کہ دنیا کے جاری معاملات میں کسی لمحے خدا کی شمولیت ختم ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ اُکیشنل ازم متکلمین کے لیے اس وجہ سے بھی پرکشش تھا کہ اس سے فطرت (nature) میں کسی "باطنی" یا "ذاتی" طاقت کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق فطرت اور اس میں انسان بھی، کسی اندرونی قوت کے حامل نہیں، بلکہ خدا کی مطلق مشیت کا ظہور ہیں۔ ایٹم ازم اس لیے اختیار کیا گیا کہ تخلیق کو بنیادی طور پر محدود دکھایا جائے، اور یہ واضح کیا جائے کہ اس کے ہر بنیادی حصے پر خدا کا مکمل اور براہِ راست اختیار ہے۔ جب کائنات کے بنیادی اجزا کا تعلق براہِ راست خدا سے جوڑا جاتا ہے، تو نتیجتاً فطرت میں کسی بھی قسم کی ذاتی طاقت کی نفی ہو جاتی ہے، اور تمام طاقت خدا کے خارجی اور کامل اختیار کے تحت آجاتی ہے۔ اس تصور میں خدا ہر لمحہ پوری کائنات کو عدم سے وجود میں لا رہا ہوتا ہے، یعنی خدا ہر آن پوری دنیا کو دوبارہ پیدا کر رہا ہے (Koca 2020, 32–34)۔ ایک تمثیل سے بات یوں سمجھیں کہ دنیا ایک کمپیوٹر اسکرین کی "ریفریش ریٹ" کی طرح ہے، جہاں خدا ہر وقت ہر"پکسل" کو کنٹرول کرتا ہے۔ کائنات اپنی اصل میں ایک ایسی مخلوق ہے جو ہر لمحہ خدا کے فعل سے دوبارہ وجود میں آتی رہتی ہے۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اُکیشنل ازم اور ایٹم ازم منطقی طور پر ایک دوسرے پر منحصر نہیں۔ اُکیشنل ازم سے ایٹم ازم لازم نہیں آتا، اور نہ ایٹم ازم کو قبول کرنے سے اُکیشنل ازم خود بخود ثابت ہو جاتا ہے۔ اس کتاب کے مقاصد کے لحاظ سے ہماری اصل توجہ اُکیشنل ازم پر رہے گی۔ تاریخی اعتبار سے ایٹم ازم نے اشعری مکتب کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا (اور شاید آج بھی کسی درجے میں رکھتا ہو)، لیکن اس بحث میں اس کی اہمیت بنیادی نہیں، سوائے اس کے کہ بعض جگہوں پر اسے مثال کے طور پر سمجھانا مفید ہوتا ہے۔ اشعری تناظر کی تفصیلات سمجھنے کے لیے ہم امام غزالی کی پیش کردہ تعبیر سے رہنمائی لیں گے، تاکہ خدا کی ذات، اس کی قدرت، تخلیق کی نوعیت، اور قوانینِ فطرت کے بارے میں اشعری نقطۂ نظر کو واضح طور پر سمجھا جا سکے۔
خدا کی مشیت، علم اور قدرت
اشعری نقطہ نظر میں خدا کی کچھ بنیادی صفات ہیں، اور تخلیق کے مسئلے سے براہِ راست تعلق رکھنے والی تین صفات یہ ہیں: مشیت، علم اور قدرت۔ امام غزالی خدا کی مشیت کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
دنیا جس وقت وجود میں آئی، جس کیفیت کے ساتھ آئی، اور جس مقام پر آئی، یہ سب خدا کی مشیت کے تحت ہوا۔ مشیت وہ صفت ہے جس کا کام کسی چیز کو اس کی مماثل اشیا سے ممتاز کرنا ہے۔ اگر یہ امتیازی کام درکار نہ ہوتا، تو صرف قدرت کافی ہو جاتی۔ لیکن چونکہ قدرت کا تعلق تو دو متضاد امکانات سے یکساں طور پر قائم رہتا ہے، اس لیے ایک ایسی صفت کی ضرورت تھی جو ان میں سے کسی ایک امکان کو متعین کر دے۔ چنانچہ کہا گیا کہ خدا کی ذات میں قدرت کے علاوہ ایک ایسی صفت بھی ہے جس کا کام کسی ایک امکان کو اس کے مثل سے الگ کر کے متعین کرنا ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ سوال کرتا ہے کہ مشیت نے خاص طور پر انہی دو مماثل امکانات میں سے ایک کو کیوں اختیار کیا؟ اس کا سوال ویسا ہی ہے جیسے کوئی یہ پوچھے کہ علم اپنے معلوم کو ویسا ہی کیوں محیط کرتا ہے جیسا وہ ہے؟ اس سوال کا جواب یہی دیا جائے گا کہ علم اُس صفت کا نام ہے جس کا کام ہی یہی ہے۔ اسی طرح مشیت بھی اس صفت کا نام ہے جس کا کام ،بلکہ جس کی حقیقت کسی چیز کو اس کے مثل سے ممتاز کرنا ہے۔(Al-Ghazālī 2000, 22)
اس پیراگراف میں امام غزالی مشیت کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ اس کا کام مختلف متبادلات میں سے ایک کو منتخب کرنا ہے۔ اگر یہ کام مطلوب نہ ہوتا تو پھر صرف قدرت ہی کافی ہو جاتی، لیکن قدرت کے پاس انتخاب کی صلاحیت نہیں ہوتی، قدرت تو صرف اُس چیز کو ظاہر یا نافذ کرتی ہے جسے منتخب کیا جا چکا ہو۔ مثال کے طور پر ایک ویٹ لفٹر کے پاس سو کلو اٹھانے کی طاقت ہو سکتی ہے، لیکن وہ کسی بھی دن چاہے تو پانچ، دس، پچاس یا پورے سو کلو اٹھا سکتا ہے۔ اس کا انتخاب مشیت ہے، جبکہ وزن اٹھانا قدرت کا نتیجہ ہے۔ اس طرح مشیت اور قدرت دو الگ صفات ہیں۔ البتہ اس پیراگراف میں یہ بات قدرے غیر صریح رہتی ہے کہ مشیت کے لیے علم کیوں ضروری ہے۔ اگر متبادل امکانات کا علم ہی نہ ہو تو انتخاب کیسے ممکن ہوگا؟ اسی لیے امام غزالی (2016 ,8–10) کے مطابق مشیت کے لیے علم کا ہونا لازمی ہے، کیونکہ بغیر علم کے کسی ایک امکان کو دوسرے پر ترجیح دینا ممکن نہیں۔ ایک اور مقام پر امام غزالی (2013 ,104) نہایت واضح انداز میں بیان کرتے ہیں کہ خدا کس طرح لامتناہی ممکنہ جہانوں میں سے ایک جہان کو "چنتا" ہے:
سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا خدا کے علم کی کوئی حد ہے؟ ہم کہتے ہیں: نہیں۔ اگرچہ فی الحال موجود چیزیں گنتی میں محدود ہیں، لیکن مستقبل میں ممکنہ وجود رکھنے والی چیزیں لامحدود ہیں۔ خدا ان تمام ممکنہ چیزوں کے بارے میں جانتا ہے، چاہے وہ انہیں وجود میں لانا چاہے یا نہ لانا چاہے۔ اس طرح خدا کا علم لامحدود ہے۔ بلکہ اگر ہم ایک ہی چیز کے مختلف پہلوؤں، تعلقات اور اندازوں کو ذہن میں رکھ کر ان کی تعداد بنانا چاہیں، تو یہ پہلو کسی بھی محدود حد سے بڑھ جائیں گے، اور خدا ان سب کو جانتا ہے۔
یقیناً خدا کا "چننا" انسانی انتخاب سے بالکل مختلف ہے۔ چونکہ خدا ازلی ہے، زمان و مکان سے ماورا ہے، اس لیے اُس کا انتخاب کسی انسانی عمل کی طرح نہیں ہوتا (Al-Ghazālī 2016, 4–6; Kraft 2016)۔
الٰہی قدرت
اشعری نقطہ نظر کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ خدا ہر اُس چیز پر قادر ہے جو عقلاً ممکن ہو۔ اس لیے اگر خدا چاہے تو تین سروں والے انسان پیدا کر سکتا ہے، یا کسی بھی قسم کی غیر معمولی یا فرضی مخلوق پیدا کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ عقلاً ممکن ہو۔ یہ سب خدا کی قدرت کے دائرے میں آتی ہیں (Al-Ghazālī 2000, 175)۔
ناممکن وہ چیز ہے جو خدا کی قدرت کے دائرے میں نہیں آتی۔ اور ناممکن وہ ہوتا ہے جس میں کسی چیز کو ایک ہی وقت میں ثابت بھی کیا جائے اور اس کی نفی بھی، یا کوئی خاص بات ثابت کی جائے لیکن اس کے عمومی مفہوم کی نفی کر دی جائے، یا دو باتوں کو ایک ساتھ مانا جائے مگر ان میں سے ایک ہی کی نفی کر دی جائے۔ جو چیز اس قسم کی متناقض صورتوں میں نہ آتی ہو، وہ ناممکن نہیں۔ اور جو ناممکن نہیں، وہ خدا کی قدرت کے دائرے میں ہے۔
جو چیز عقلی طور پر ناممکن ہو، وہ خدا کی قدرت کے دائرے میں نہیں آتی (Al-Ghazālī 2000, 38)۔
مثال کے طور پر اگر ہم یہ فرض کریں کہ دنیا اپنی موجودہ جسامت سے ایک بالشت بڑی یا چھوٹی ہو، تو ذہن کوئی ایسی بات فرض نہیں کر رہا جو اس کے مشابہ ہو کہ ایک ہی جگہ پر سیاہی اور سفیدی دونوں جمع ہوں — یعنی وجود اور عدم ایک ساتھ قائم ہوں۔ ناممکن دراصل نفی اور اثبات کو یکجا کرنے کا نام ہے۔ اور تمام ناممکن چیزیں آخرکار اسی اصول پر آکر ٹھہرتی ہیں۔
اس طرح امام غزالی کے نزدیک خدا کی قدرت قانونِ عدمِ تناقض (law of non-contradiction) کے تابع ہے۔ یعنی دو متضاد چیزوں کو یکجا کرنا ممکن نہیں، کیونکہ وہ عقلاً ناممکن ہیں۔ لیکن جو چیز منطقی طور پر ممکن ہو، وہ خدا کی قدرت کے دائرے میں آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا جو کچھ بھی پیدا کرتا ہے، وہ منطقی امکان کے اصول کے مطابق ہوتا ہے (Kukkonen 2000a; 2000b; 2006)۔
تخلیق کا امکان
تخلیق کے بارے میں اشعری نقطہ نظر یہ ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے یا جو کچھ وہ پیدا کر سکتا ہے، وہ اپنی اصل میں ممکنُ الوقوع ہے (Ormsby 2017, 52–55)۔ مثال کے طور پر ایک گاڑی کو لیجیے۔ گاڑی کو کئی مختلف طریقوں سے بنایا جا سکتا ہے: مختلف انجن، مختلف رنگ، نشستوں کی مختلف ترتیب، اندرونی ڈیزائن کے مختلف انداز، یعنی اس کے ڈیزائن میں بہت سے امکانات ہیں۔ بالکل اسی طرح اس تصور کو پوری کائنات تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ کائنات بھی ایک ایسی چیز ہے جو مختلف انداز سے وجود میں آسکتی تھی، یہ اپنی اصل میں ممکنُ الوقوع ہے، ضروری نہیں۔ البتہ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ امکان کی دو مختلف اقسام ہیں۔
امکان کی پہلی قسم صرف وجود اور عدمِ وجود کے تعلق سے ہے۔ خدا کو یہ مطلق اختیار حاصل ہے کہ جس چیز کو چاہے وجود دے اور جسے چاہے عدم میں رہنے دے۔ کائنات کا پیدا ہونا ضروری نہیں تھا، خدا چاہتا تو اسے پیدا نہ کرتا۔ لیکن اُس نے عدم کے بجائے اسی کائنات کو وجود میں لانا پسند فرمایا۔ امام غزالی (2013، 28–29) اس بارے میں لکھتے ہیں:
جب ہم کسی چیز کے'حادث' ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے موجود نہیں تھی، پھر موجود ہوئی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا وجود، وجود میں آنے سے پہلے، ناممکن تھا یا ممکن؟ یہ کہنا غلط ہے کہ وہ ناممکن تھا، کیونکہ جو چیز واقعی ناممکن ہو، وہ کبھی وجود میں نہیں آسکتی۔ اگر وہ ممکن تھی تو 'ممکن' سے ہماری مراد وہ چیز ہے جس کا وجود بھی ممکن ہو اور عدم بھی ممکن ہو۔ وہ نہ تو ضروری الوجود تھی، کیونکہ اس کا وجود اس کی اپنی ذات سے واجب نہیں ہوتا، اگر اس کا وجود اس کی ذات سے لازمی ہوتا تو وہ ممکن نہیں، ضروری ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ وجود میں آنے سے پہلے اس چیز کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اس کے عدم پر وجود کو ترجیح دے کر اسے وجود عطا کر دیتی۔ اگر وہ عدم ہی میں رہتی، تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی کہ کوئی ایسا سبب موجود نہ ہوتا جو عدم پر وجود کو ترجیح دے۔ جب تک کوئی ترجیح دینے والا سبب نہ ہو، وجود واقع نہیں ہوتا۔
امکان (contingency) کی دوسری قسم اُن چیزوں سے متعلق ہے جو کسی شے کے وجود میں آ جانے کے بعد اس کی کیفیت اور ساخت سے تعلق رکھتی ہے۔ کائنات جس صورت میں ہے، اس کا مخصوص نظام، قوانینِ فطرت، سیاروں کی حرکات، حیاتیات اور کیمیا کے اصول، یہ سب ایک خاص ترتیب کے ساتھ موجود ہیں۔ لیکن خدا چاہتا تو بالکل مختلف قوانین کے ساتھ ایک اور طرح کی کائنات پیدا کر سکتا تھا۔ اسی طرح ایک اور مثال پیریاڈک ٹیبل (Periodic Table) کی ہے۔ آج کی پیریاڈک ٹیبل میں 118 کیمیائی عناصر موجود ہیں، مگر خدا چاہتا تو ایسے عناصر پیدا نہ کرتا، یا بالکل مختلف عناصر کے ساتھ ایک اور نوعیت کی دنیا بنا دیتا۔ امام غزالیؒ (2000، 37) اسی نکتے کو کائنات کے حجم کی مثال سے واضح کرتے ہیں:
سوال یہ ہے: کیا یہ خدا کی قدرت میں تھا کہ وہ بالائے بالا آسمان (سب سے اونچے آسمان) کو اس سے ایک بالشت زیادہ موٹا پیدا کرتا جسے اُس نے پیدا کیا ہے؟ اگر وہ کہیں 'نہیں' تو یہ خدا کی قدرت میں نقص لازم آئے گا۔ اور اگر کہیں 'ہاں' تو پھر لازم آئے گا کہ خدا چاہتا تو اسے دو بالشت، تین بالشت، اور اسی طرح لامحدود طور پر جتنا چاہتا اتنا زیادہ موٹا پیدا کر سکتا تھا۔
پس یہاں امام غزالی اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تخلیق میں کوئی چیز اپنی ذات میں ضروری (intrinsically necessary) نہیں۔ ہر چیز ممکنُ الوقوع ہے، اور یہ مکمل طور پر خدا کی مشیت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو کس صورت میں پیدا کرے یا کس ترتیب میں قائم رکھے (Davidson 1987, 154–212; Kukkonen 2000a; Al-Ghazālī 2016, 14)۔
قوانینِ فطرت
پچھلے نکات کو اب قوانینِ فطرت کی بحث کے ساتھ مربوط کرنا ضروری ہے۔ اشعری نقطہ نظر میں خدا صرف تخلیق ہی نہیں کرتا بلکہ ہر لمحہ پوری کائنات کو برقرار بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے قوانینِ فطرت نہ صرف کائنات کے اعتبار سے ممکنُ الوقوع ہیں (یعنی خدا چاہے تو یہ قوانین مختلف بھی ہو سکتے تھے) بلکہ ہر لمحے کے اعتبار سے بھی ممکنُ الوقوع ہیں۔ اگر ہم کائنات کو لمحات کے ایک سلسلے کے طور پر سوچیں (ایک طرح کے "ایٹمی وقت" کی صورت میں)، تو ہر لمحہ خدا کے قائم رکھنے سے وجود میں رہتا ہے۔ ہر لمحے خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا ظاہر کرنا ہے۔ وہ ایک ہی عمل کو برقرار رکھے تو ہمیں قوانینِ فطرت اسی صورت میں ملتے ہیں، اور اگر خدا چاہے تو ان قوانین میں تبدیلی پیدا کر دے، تو ہمیں معجزات جیسی چیزیں نظر آتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، مادی اشیا کے درمیان جو علّی (causal) تعلقات سائنس سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، وہ سب خدا کی مشیت کے تابع ہیں (Al-Ghazālī 2000, 166):
ہمارے نزدیک کسی چیز کا سبب بننا اور کسی دوسری چیز کا اس کا نتیجہ ہونا اپنی ذات میں ضروری نہیں۔ جو ربط ہمیں عادتاً نظر آتا ہے، وہ لازمی نہیں بلکہ خدا کا بنایا ہوا ہے۔ خدا ہی ہے جو ان دونوں کو ایک ساتھ پیدا کرتا ہے نہ یہ کہ ان میں کوئی ایسا رشتہ ہو جو توڑا نہ جا سکے۔ اس کے برعکس، خدا کی قدرت میں یہ سب ممکن ہے کہ وہ بغیر کھلائے پیٹ بھر دے، بغیر سر قلم کیے موت دے دے اور سر قلم ہونے کے بعد بھی زندگی باقی رکھ دے۔ اسی طرح، جن چیزوں کو ہم لازمی طور پر ایک دوسرے سے جڑا ہوا سمجھتے ہیں، خدا چاہے تو انہیں ایک دوسرے سے الگ بھی کر سکتا ہے۔
اس نکتے کے بارے میں دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں عقلی ضرورت (logical necessity) اور طبیعی ضرورت (physical necessity) میں فرق کرنا چاہیے۔ عقلی ضرورت کی مثالیں ریاضی میں ملتی ہیں؛ مثلاً ایک جمع ایک لازماً دو ہی ہوتا ہے۔ یہ عقلی طور پر ضروری ہے اور اس کے خلاف کہنا خود تضاد ہے۔ اس کے برعکس، یہ کہنا کہ "آگ روئی کو جلا دیتی ہے" اپنی ذات میں کوئی ضروری بات نہیں۔ یہ نتیجہ ہم تجربے اور مشاہدے سے اخذ کرتے ہیں۔ ممکن ہے کسی دوسری کائنات میں قوانینِ فطرت مختلف ہوں، جہاں روئی آگ سے جلتی نہ ہو۔ اگر ہم ایسی کائنات میں رہتے تو آگ کا روئی کو جلانا ہمارے لیے کوئی لازمی بات نہ ہوتی۔ لہٰذا طبیعی ضرورت اتنی مضبوط نہیں جتنی عقلی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے ہم تجربات کرتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ چیزیں عملاً کیسے کام کرتی ہیں۔ تاہم یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ امام غزالی طبیعی مظاہر کے درمیان سخت عقلی ضرورت کے قائل نہیں، لیکن وہ ان کے درمیان مسلسل ساتھ پیش آنے (constant conjunction) کا انکار بھی نہیں کرتے (Koca 2020, 240). یہی پے در پے تکرار جسے خدا برقرار رکھتا ہے (جسے قرآن میں سنّت اللہ یا عادت کہا جاتا ہے) ہمارے ذہن میں قوانینِ فطرت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ امام غزالیؒ (2000، 170) لکھتے ہیں: "کسی چیز کا بار بار، مسلسل ایک ہی طرح سے واقع ہونا ہمارے ذہنوں میں اس کے اسی طرح واقع ہونے کا پختہ یقین پیدا کر دیتا ہے۔" اس لیے اُکیشنل ازم (Occasionalism) کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس کو ردّ کر دیا جائے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ طبیعی مظاہر کی بنیاد میں جو حقیقت ہے، وہ خدا کی مشیت پر منحصر ہے۔ اسی وجہ سے فرانک گرفل (Frank Griffel 2020) کہتے ہیں کہ اشعری اُکیشنل ازم کے تحت چلنے والی دنیا اور اُن قوانینِ فطرت کے تحت چلنے والی دنیا میں کوئی ظاہری فرق محسوس نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ سمجھنی چاہیے کہ چونکہ خدا بالکل آزاد فاعل ہے اور ہر وہ کام کر سکتا ہے جو عقلاً ممکن ہو، اس لیے خدا ایسی کائناتیں بھی پیدا کر سکتا ہے جن میں قوانینِ فطرت سرے سے موجود ہی نہ ہوں۔ ایسی کائنات کا تصور کریں جہاں کوئی باقاعدگی نہ ہو، ہر چیز بالکل بے ترتیب ہو۔ ایسی دنیا میں سائنس ممکن ہی نہیں، کیونکہ سائنس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ چیزیں کسی نظم کے ساتھ پیش آئیں (چاہے وہ نظم قطعی ہو یا غیر قطعی۔ اس فرق کو ہم آگے واضح کریں گے)۔ دوسرے لفظوں میں، سائنس انحصار کرتی ہے استقرا (induction) پر۔ مثال کے طور پر اگر ہم دو کیمیکلز کو ملائیں اور ہر بار بالکل مختلف نتیجہ نکلے، یعنی ایک بھی تجربہ کبھی دوسرے سے نہ ملے، تو ہم کوئی کیمیائی قانون اخذ ہی نہیں کر سکیں گے۔ سائنس فطرت میں نظم و تکرار پر قائم ہے، خواہ وہ حتمی ہو یا غیر حتمی اور اس کے بغیر سائنس ناممکن ہے۔ لیکن جیسا کہ امام غزالی نے کہا، طبیعی علّیت (physical causation) مکمل طور پر ممکنُ الوقوع ہے اور خدا کی مشیت پر منحصر ہے۔ لہٰذا سائنس کے جو نتائج قوانینِ فطرت پر قائم ہیں، وہ خود خدا کی مشیت کے تابع ہیں۔ لیکن اس کا اُلٹ سچ نہیں، یعنی خدا کی مشیت قوانینِ فطرت تک محدود نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں: سائنس کے تمام ممکنات (scientific possibilities) الٰہی ممکنات (theological possibilities) کے اندر آتے ہیں، لیکن الٰہی ممکنات کے تمام امکانات سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔
آزاد ارادہ (Free Will)
اگرچہ آزاد ارادے کا سوال براہِ راست ہماری مرکزی بحث سے متعلق نہیں، پھر بھی اس پر چند باتیں کہنا ضروری ہے۔ اُکیشنل ازم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ہی ہر چیز کا اصل اور بنیادی فاعل ہے، تو پھر انسان کا آزاد اختیار کہاں رہ جاتا ہے؟ اگر خدا سب کچھ جانتا بھی ہے اور سب کچھ کنٹرول بھی کرتا ہے، تو آزاد ارادے کا حقیقی مفہوم کیا رہ جاتا ہے؟ خدا کی قدرتِ کاملہ، اُس کے علمِ کامل، اور انسان کے حقیقی آزاد ارادے کو آپس میں ہم آہنگ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشاعره اس مقام پر ایک بڑے الٰہیاتی چیلنج کا سامنا کرتے ہیں۔
اس مسئلے کے جواب میں اشاعره نے ایک نظریہ پیش کیا جسے نظریہ کسب theory of acquisition (kasb) کہا جاتا ہے (Al-Ghazālī 2001, 36; Koca 2020, 34–38)۔ اس نظریے کے مطابق انسانی عمل دو پہلوؤں پر مشتمل دکھائی دیتا ہے۔ انسان کسی کام کا ارادہ خود کرتا ہے، لیکن اس ارادے کا فعل میں بدل جانا خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ اٹھانا چاہے اور اس کا ارادہ کرے تو ارادہ کرنا انسان کا عمل ہے، لیکن ہاتھ کا حقیقتاً حرکت کرنا خدا کا فعل ہے۔ لیکن یہ نقطہ نظر ایک مسئلہ بھی پیدا کرتا ہے: اگر اشاعره کے نزدیک ہر چیز پر خدا ہی کا مکمل اختیار ہے تو پھر انسان کے ارادہ کرنے کو الگ سے معنی دینا کیا اہمیت رکھتا ہے؟ کیا ارادہ بھی خدا کے اختیار ہی کے تحت نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر انسان کا ارادہ بھی خدا کے کنٹرول میں ہوا۔ اُکیشنل ازم کے اسی داخلی تناؤ کے باعث یہ حیرت کی بات نہیں کہ امام غزالی خود بھی اس مسئلے کا کوئی مکمل حل پیش نہیں کر سکے۔ اُن کے نزدیک شاید یہ معاملہ روحانی سطح پر سمجھ آنے والی چیز ہے کیونکہ ہر چیز کو تجربے اور عقل کی بنیاد پر پوری طرح سمجھایا نہیں جا سکتا (Al-Ghazālī 2001; Marmura 2004; De Cillis 2016, 96–166; Al-Ghazālī 2016, 45–47; Rouzati 2018)۔ جیسا کہ کرٹ (Kurt 2012, 130) نے لکھا ہے: "روح کی حقیقت اور اس کے جسم سے تعلق کی کیفیت انسان کے لیے نامعلوم ہی رہتی ہے۔ کلاسیکی الٰہیات کے مطابق یہ تعلق ایک ایسا 'راز' ہے جو خدا ہی کے علم میں پوشیدہ ہے۔"
اگرچہ اس معاملے میں ایک قسم کا راز اور ابہام موجود ہے، پھر بھی اُکیشنل ازم کے ہوتے ہوئے انسانی آزاد ارادے کو بچانے کے لیے مختلف فلسفیانہ کوششیں کی گئی ہیں (Muhtaroglu 2010)۔ اس کے علاوہ جدید تجزیاتی الٰہیات (analytical theology) میں بھی کچھ نئے رجحانات سامنے آئے ہیں، خصوصاً "تضادی الٰہیات" (contradictory theology) جو اس طرح کے مباحث میں کسی درجے میں مدد دے سکتے ہیں (Ahsan 2019; Chowdhury 2020; Ahsan 2021)۔ یہ بات کہ یہ تجاویز یا تحقیقی راستے کتنے قابلِ اعتبار یا مفید ہیں، اور آیا انہیں اشعری مکتب کے تناظر میں شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ سب اس کتاب کے دائرہ بحث سے باہر ہے۔ یہاں قابلِ توجہ بات صرف یہ ہے کہ اشعری مکتب میں حقیقی انسانی آزاد ارادے اور اُکیشنل ازم کے درمیان ایک معلوم تناؤ پایا جاتا ہے (Koca 2020, 247–249)۔
الٰہی فعل کا منصوبہ (Divine Action Project – DAP)
گزشتہ تین دہائیوں میں الٰہیات اور جدید سائنس کے تعلق کو سمجھنے کے لیے جس تحقیقی کاوش نے غیر معمولی اہمیت حاصل کی، اسے الٰہی فعل کا منصوبہ (Divine Action Project – DAP) کہا جاتا ہے۔ یہ Centre of Theology and Natural Science اور Vatican Observatory کا ایک باہمی مشترکہ منصوبہ تھا، جس نے مذہب اور سائنس کے مکالمے میں ایک نئی جہت پیدا کی۔ اس منصوبے میں مسیحی دنیا کے معروف فلسفیوں، الٰہیات دانوں اور سائنس دانوں نے حصہ لیا۔ ایئن باربر (Ian Barbour)، تھامس ٹریسی (Thomas Tracy)، فِلِپ کلیٹن (Philip Clayton)، جان پولکنگ ہورن (John Polkinghorne)، ویسلی وائلڈمین (Wesley Wildman)، نینسی مرفی (Nancey Murphy)، کیتھ وارڈ (Keith Ward)، ولیم ڈریس (William Dress) اور ولیم جے اسٹوئگر (William J. Stoeger) جیسے نام اس میں شامل ہیں جنہوں نے اس علمی سلسلے کو عالمی سطح پر پہچان بخشی۔
DAP کے تحت منعقد ہونے والی متعدد کانفرنسوں میں سائنس اور الٰہیات کے درمیان تعلق کو مختلف سائنسی حوالوں سے پرکھا گیا۔ مثلاً ارتقا، اعصابی سائنس (Neuroscience)، کوانٹم میکینکس، کیاؤس تھیوری اور دیگر اہم شعبے۔ ان مباحث کا نتیجہ کئی جلدوں پر مشتمل معیاری علمی مطبوعات کی صورت میں سامنے آیا (Russell et al. 1995, 1996, 2001, 2008)۔ اس پورے منصوبے کے اہم منتظم رابرٹ رسل (Robert Russell) تھے، جنہوں نے تمام جلدوں کی ادارت کی اور ہر کتاب کی ترتیب میں مرکزی کردار ادا کیا۔ مختصر یہ کہ DAP نے مذہبی الٰہیات اور جدید سائنسی نظریات کے مابین پل بنانے کے لیے ایک مضبوط علمی بنیاد فراہم کی، اور آج بھی یہ منصوبہ سائنس و الٰہیات مکالمے کا ایک سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔
اس پورے منصوبے کی بنیاد اس بات پر تھی کہ طبیعی علوم کو سنجیدگی سے لیا جائے اور معجزات کے تصور کو علمی بحث کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔
وائلڈمین (Wildman 2008, 141) اس منصوبے کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں:
یہ خیال کہ خدا ایک ہاتھ سے فطرت اور اس کے منظم قوانین کو قائم رکھے، اور دوسرے ہاتھ سے انہی قوانین کو معجزانہ طور پر توڑ دے، معطل کر دے یا نظر انداز کر دے، منصوبے کے اکثر ارکان کے نزدیک ایک کھلی ہوئی متناقض بات محسوس ہوتی تھی۔
منصوبے میں شریک زیادہ اہل علم کا یقین تھا کہ خدا ایک ایسا منظم اور مرتب عالم پیدا نہیں کرے گا جس میں خالق کے لیے اس نظم کو توڑے بغیر عمل کرنا ممکن ہی نہ ہو۔
اسی مقصد کے تحت DAP کا بنیادی ہدف یہ رہا کہ ایسے الٰہی فعل کے ماڈلز تیار کیے جائیں جو طبیعی علوم کے ساتھ مطابقت بھی رکھتے ہوں اور ساتھ ہی تخلیق میں خدا کی شمولیت اور کارفرمائی کو بھی محفوظ رکھیں اور یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کو "الٰہی فعل کا منصوبہ" کہا جاتا ہے۔ اس علمی گروہ نے الٰہی فعل کو سمجھنے کے لیے چند اہم تقسیمات وضع کیں، جو بعد کی گفتگو میں بنیادی حوالہ بن گئیں۔ جن میں سے چار اقسام ہمارے لیے کافی ہیں۔ ان اقسام کو واضح کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم موجودہ علمی مکالمے میں اشعری نقطہ نظر کو زیادہ بہتر طور پر جگہ دے سکیں۔
1. عمومی الٰہی فعل اور خصوصی الٰہی فعل
الٰہی فعل کو سمجھنے کی پہلی اہم تقسیم "عمومی الٰہی فعل" (General Divine Action: GDA) اور "خصوصی الٰہی فعل" (Special Divine Action: SDA) کے درمیان کی جاتی ہے۔ اگرچہ مختلف مفکرین کے ہاں ان کی تعریفیں کچھ فرق کے ساتھ ملتی ہیں، لیکن وائلڈمین کے مطابق :
عمومی الٰہی فعل سے مراد یہ ہے کہ خدا پوری حقیقت کو پیدا کرتا ہے اور اسے برقرار رکھتا ہے، اس حد تک کہ یہاں خدا کے کسی خاص مقصد یا ارادے کا ضروری طور پر مفروضہ نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف خصوصی الٰہی فعل وہ مخصوص ربانی اعمال ہیں جو خدا کے ارادے، تدبیر اور منصوبے کے تحت اس دنیا میں واقع ہوتے ہیں، کبھی خاص وقت اورخاص جگہ پر، اور کبھی ہر وقت اور ہر جگہ پر (Wildman 2008, 140)۔
سادہ الفاظ میں، GDA کو قوانینِ فطرت کی الٰہی تعبیر کہا جا سکتا ہے، یعنی وہ مسلسل نظم جو کائنات میں جاری ہے اور جسے سائنس دریافت کرتی ہے۔ اس کے برعکس، SDA اُس حالت کو کہتے ہیں جس میں خدا کسی خاص لمحے اپنی مشیت سے ایسا اثر پیدا کرے جو چیزوں کے معمول کے بہاؤ سے مختلف ہو، یعنی اگر خدا وہ مداخلت نہ کرتا تو معاملہ ویسے پیش نہ آتا۔ مختصراً، یہ خدا کا ایسا ارادی مگر غیر معجزاتی عمل ہے جو کسی نظام، ڈھانچے یا واقعے میں تبدیلی پیدا کرتا ہے، لیکن قوانینِ فطرت کے اندر رہتے ہوئے۔ یہ بات واضح رہے کہ SDA کو معجزات کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ خصوصی الٰہی فعل وہ تبدیلیاں ہیں جو قوانینِ فطرت کے اندر رہ کر واقع ہوتی ہیں، جبکہ معجزات ان قوانین کو معطل کر دیتے ہیں یا ان سے ماورا ہو کر پیش آتے ہیں۔ اگلی تقسیم کے تناظر میں یہ فرق مزید نمایاں ہو جائے گا۔
2. مداخلت اور عدمِ مداخلت (Interventionism & Non-interventionism)
الٰہی فعل کی دوسری اہم تقسیم"مداخلت" (interventionism) اور "عدمِ مداخلت" (non-interventionism) کے درمیان کی جاتی ہے۔ مداخلت سے مراد وہ تصور ہے کہ خدا ایسے انداز میں عمل کرتا ہے جس سے فطرت کے قائم کردہ ڈھانچوں، نظم اور قوانین میں تعطل، تبدیلی یا نظراندازی واقع ہو جائے۔ اس کے برعکس عدمِ مداخلت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا عمل فطرت کے انہی قائم کردہ قوانین اور نظم کے مطابق واقع ہوتا ہے اور انہیں توڑے بنا انجام پاتا ہے (Wildman 2008, 141)۔
یہ تقسیم بنیادی طور پر اس بات سے متعلق ہے کہ خدا دنیا کے معاملات اور قوانینِ فطرت کے ساتھ کس نوعیت کا تعلق رکھتا ہے۔ اسی بحث کے ضمن میں کوپرْسکی (Koperski 2020, 3–5) ایک تیسری درمیانی پوزیشن کی نشاندہی کرتے ہیں، جسے وہ "عدمِ خلاف ورزی" (non-violationism) کہتے ہیں، اور جس کا ذکر DAP کے متون میں نظر نہیں آتا۔ اس موقف کے مطابق خدا چاہے تو دنیا میں مداخلت کر سکتا ہے، لیکن اسے قوانینِ فطرت کو توڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ وہ انہی موجود قوانین کو استعمال کرتے ہوئے جو چاہے وجود میں لاسکتا ہے۔
3. ہم سازیت (Compatibilism) اور عدمِ ہم سازیت (Incompatibilism)
اس تیسری تقسیم کو سمجھنے کے لیے پہلے طبیعی جبریت (physical determinism) اور غیر جبریت (indeterminism) کے فرق کو جان لینا ضروری ہے۔ طبیعی جبریت کا مطلب یہ ہے کہ جب کائنات ایک مرتبہ پیدا ہو گئی، تو اس کے بعد حرکت و عمل کے تمام قوانین طے شدہ ہیں۔ اس تصور میں دنیا ایک لمبی قطار میں رکھی ڈومینو اینٹوں کی مانند ہے،ایک اینٹ گرتی ہے تو اگلی کا گرنا پہلے سے مقرر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، غیر جبریت ایک نسبتاً کھلا نظام ہے جس میں علت کا نتیجہ ہمیشہ یکساں نہیں ہوتا۔ ایک ہی سبب مختلف اوقات میں مختلف نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ اس تصور میں قوانین احتمالی یا اتفاقی انداز اختیار کرتے ہیں (Briggs 2016)۔ ایک سادہ مثال پاسے پھینکنے کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاسے پر کون سے ممکنہ نمبرز آسکتے ہیں، لیکن جب تک پاسا پھینکا نہ جائے، نتیجہ غیر یقینی رہتا ہے۔ یہ مثال بتاتی ہے کہ حقیقت کے کچھ حصّے اس قسم کے غیر جبری امکانات کے تابع ہو سکتے ہیں، جو کائنات کو ایک کھلا، غیر قطعی ڈھانچہ دیتے ہیں۔ DAP کا بنیادی مقصد یہ سمجھنا تھا کہ فطری علوم (نیچرل سائنسز) کس طرح اس خدا کے تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں جو قوانینِ فطرت کو توڑے بغیر دنیا میں فعال رہتا ہے۔ یعنی خدا کو قوانینِ فطرت کے "باہر" بھی نہیں دھکیلا جاتا، اور قوانینِ فطرت "منسوخ" بھی نہیں ہوتے۔ اس لیے DAP نے ایسے الٰہیاتی ماڈلز میں دلچسپی ظاہر کی جن میں خدا خصوصی الٰہی فعل (SDA) کے ذریعے دنیا میں کارفرما رہ سکتا ہو، وہ بھی غیر مداخلتی (non-interventionist) اور غیر خلاف ورزی (non-violationist) انداز میں۔
اب اس پس منظر اور جبریت ،غیر جبریت کی بحث کے بعد ہم سازیت (compatibilism) اور عدمِ ہم سازیت (incompatibilism) کی تیسری تقسیم سامنے آتی ہے۔
ہم سازیت کے مطابق یہ فرق کوئی معنی نہیں رکھتا کہ کائنات جبری ہے یا غیر جبری، کیونکہ SDA کو ایسے طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے جو غیر مداخلتی یا غیر خلاف ورزی والے ماڈل کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے۔ یعنی قوانینِ فطرت بھی برقرار رہیں، اور خدا کا عمل بھی۔ اس کے برعکس، عدمِ ہم سازیت یہ موقف رکھتی ہے کہ اگر کائنات جبری (deterministic) ہو تو غیر مداخلتی طریقے سے خصوصی الٰہی فعل (SDA) ممکن نہیں رہتا۔ لہٰذا عدمِ ہم سازیت والے مفکرین فطرت میں غیر جبریت (indeterminacy) کے راستے تلاش کرتے ہیں جن سے خدا کی کارفرمائی کو جگہ مل سکے (Wildman 2008, 143)۔
اسی وجہ سے کوانٹم میکینکس، کیاؤس تھیوری، ایمرجنس اور ارتقا جیسے سائنسی نظریات، جن میں کسی نہ کسی درجے میں غیر جبریت پائی جاتی ہے، عدمِ ہم سازیت کے قائلین کے لیے خاص طور پر اہم اور مفید ثابت ہوتے ہیں۔
4. تجویزی (Prescriptive) اور توصیفی (Descriptive) قوانین
قوانینِ فطرت کی آخری اور اہم تقسیم ان کی تعبیر سے متعلق ہے، یعنی آیا قوانینِ فطرت کو تجویزی طور پر سمجھا جائے یا توصیفی طور پر۔ اگر قوانینِ فطرت کو تجویزی حیثیت دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا کوئی حقیقی وجود ہوتا ہے جسے سائنس دریافت کرتی ہے، یعنی یہ قوانین خود کائناتی ساخت کا حصہ ہیں اور فطرت انہی کے مطابق چلتی ہے۔ لیکن اگر قوانینِ فطرت کو محض توصیفی سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس دراصل فطرت میں دکھائی دینے والے نمونوں اور تکرار کو بیان کرتی ہے، نہ کہ کسی حقیقی، لازمی قانون کو دریافت کرتی ہے۔ وائلڈمین کے مطابق اس صورت میں قانون وہ نہیں ہوتا جو کائنات پر حکم چلاتا ہو، بلکہ وہ ہوتا ہے جو ہم کائنات کے مشاہدے سے اخذ کرتے ہیں۔
یہ فرق معجزات کی بحث کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ اگر قوانین توصیفی ہوں تو معجزات ممکن ہیں، کیونکہ وہ صرف ہماری موجودہ تفہیم یا بیان سے باہر ہوتے ہیں، فطرت کے اندر اصل قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی بلکہ ہماری سمجھ کی حد عبور ہوتی ہے۔ مگر اگر قوانین تجویزی ہوں تو معجزات کو سمجھانا کافی مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ پھر کسی واقعے کا پیش آنا ان قوانین کی حقیقی خلاف ورزی ہوگا، اور اس کے لیے مضبوط عقلی جواز درکار ہوگا۔ اسی بنا پر، اگر قوانینِ فطرت کو محض توصیفی مان لیا جائے تو DAP جیسے منصوبے کی بنیادی ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ رِچی کے الفاظ میں (Ritchie 2019, 48):
اگر قوانین صرف ممکنہ تکرار کی توصیفات ہوں تو مداخلت اور عدمِ مداخلت کی پوری بحث بےمعنی ہو جاتی ہے، کیونکہ مداخلت تبھی سمجھ میں آتی ہے جب قوانین حقیقی اور تجویزی ہوں۔ یوں کہ خدا کے لیے ان قوانین سے "ہٹنے" یا ان میں "تبدیلی" کا مفہوم پیدا ہو سکے۔ اگر قوانین خود ontological درجہ ہی نہ رکھتے ہوں تو ان کی خلاف ورزی کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، اور نہ خدا کے مداخلتی یا غیر مداخلتی رویے پر بحث کی ضرورت رہتی ہے۔
اس بحث سے متعلق ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے سائنسی نظریات فطرت کے ڈھانچے کی وضاحت میں کس حد تک جامع اور مکمل ہیں۔ یہاں ایک فرق قائم کیا جا سکتا ہے: ایک طرف فطرت کے بارے میں ہماری موجودہ سائنسی سمجھ ہے، اور دوسری طرف فطرت جیسی کہ وہ حقیقت میں ہے۔ پہلی چیز کو "قوانینِ سائنس" اور دوسری کو "قوانینِ فطرت" کہا جا سکتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو سائنس ہمیں فطرت کی صرف ایک نوع کی تخمینی تعبیر (approximation) فراہم کرتی ہے۔ البتہ یہ تخمینی نقطہ نظر، چاہے قوانینِ فطرت کو تجویزی (prescriptive) مانا جائے یا توصیفی (descriptive)، دونوں تعبیرات کے ساتھ بآسانی ہم آہنگ ہو سکتا ہے (Ritchie 2019, 51–54)۔
تاہم یہ پوری طرح واضح نہیں کہ DAP کے شرکا ان تقسیمات کے سلسلے میں خود کس موقف پر کھڑے ہیں۔ مثال کے طور پر، رَسَل (Russell 2008, 151–211) کوانٹم نظریات کی مدد سے خدائی فعل کی وضاحت پر خاصا زور دیتے ہیں، گویا وہ قوانینِ فطرت کو تجویزی انداز میں دیکھ رہے ہوں۔ مگر اسی کتاب کے ایک اور مقام پر وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ وہ قوانینِ فطرت کی توصیفی تعبیر اختیار کرتے ہیں (Russell 2008, 119)۔ اسی تضاد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے رِچی (Ritchie 2019, 50) لکھتے ہیں: یہ دل چسپ بات یہ ہے کہ بہت سے مفکرین عملی طور پر قوانینِ فطرت کو تجویزی حیثیت دیتے ہوئے استدلال کرتے ہیں، لیکن اپنے نظری دعوے میں انہیں توصیفی قرار دیتے ہیں ، اور یہی الٰہی فعل کی بحث کا سب سے زیادہ الجھا دینے والا پہلو ہے۔
DAP کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جدید طبیعی علوم کے دعووں کا احترام کرتے ہوئے خدا کے فعل کے لیے بھی کوئی مناسب گنجائش رکھی جائے۔ اس منصوبے کا نقطہ آغاز یہ مفروضہ ہے کہ خدا فطرت کے قائم کردہ نظم اور قوانین کے خلاف کام نہیں کرتا، بلکہ انہی کے اندر رہ کر عمل کرتا ہے۔ چنانچہ معجزات کو شروع ہی سے بحث سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف، خدا کو دنیا کے معاملات سے یکسر الگ کر دینا ڈی ازم (deism) کی طرف لے جاتا ہے، جسے DAP کے شرکا قبول نہیں کرتے۔ اس لیے اس منصوبے کی سب سے بڑی کاوش یہ ہے کہ ایسے الٰہاتی ماڈلز تلاش کیے جائیں جن میں قوانینِ فطرت بھی برقرار رہیں اور خدا کا فعال تعلق بھی قائم رہے۔ اسی پس منظر میں خصوصی الٰہی فعل (SDA) اور عدمِ مداخلت یا عدمِ خلاف ورزی جیسے تصورات اختیار کیے گئے، جن کے ذریعے خدا کو کائنات کے اندر کام کرنے کی ایک ایسی صورت دی جاتی ہے جو سائنسی دائرے سے باہر نہیں نکلتی۔
تاہم طبیعی جبریت (physical determinism) اس راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ اگر کائنات پوری طرح جبری ہو تو قوانینِ فطرت کے اندر رہتے ہوئے خدا کی کوئی فعال کارفرمائی ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سائنسی نظریات جن میں غیر جبریت (indeterminacy) کی گنجائش ہو، جیسے کوانٹم میکینکس، کیاؤس تھیوری، ایمرجنس اور ارتقا DAP کے شرکا کے لیے زیادہ مفید اور پرکشش ہیں، اور اسی باعث وہ عدمِ ہم سازیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اس پورے منصوبے کو مضبوط بنیاد اس وقت ملتی ہے جب قوانینِ فطرت کو کسی نہ کسی درجے میں تجویزی حیثیت دی جائے، کیونکہ اگر قوانین صرف توصیفی ہوں تو ان کی خلاف ورزی یا عدمِ خلاف ورزی کا مفہوم ہی ختم ہو جاتا ہے، اور نتیجتاً DAP جیسا منصوبہ غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا، شرکا کے اپنے مؤقف میں اس معاملے پر کچھ ابہام موجود ہے۔
DAP پر متعدد جلدوں اور مضامین پر مشتمل ایک وسیع علمی ذخیرہ موجود ہے، لیکن ہماری بحث کے لیے ان بنیادی نکات کا جان لینا کافی ہے۔ ان کی روشنی میں اب ہم اشعری مکتب کے نقطہ نظر کو موجودہ سائنسی و الٰہاتی مباحث کے اندر بہتر طور پر سمجھ اور جگہ دے سکتے ہیں۔
(جاری)
