قائد اعظم کا تصورِ مُملکتِ پاکستان

قائد اعظم کا تصورِ پاکستان

علامہ اقبال اگر مصورِ پاکستان تھے تو قائد اعظم معمارِ پاکستان کہلاتے ہیں۔ ایک نے مسلمانوں کو تِیرہ و تار راہ گزر پر روشنی دکھائی تو دوسرا انہیں اس روشنی کے مخرج — اسلام اور پاکستان — کی طرف لے گیا۔ ان دونوں کی فکر میں حیرت انگیز مماثلت، یکسوئی اور یگانگت ملتی ہے۔ جس بات کو علامہ نے سوچا، اسی پر قائد اعظم نے عمل کر دکھایا۔ اس اعتبار سے دونوں برصغیر کے مسلمانوں کے رہبر و راہ نما تھے۔

پاکستان کے بارے میں قائد اعظم کی تقاریر، تحریروں، خطوط، بیانات، انٹرویو، یا ان کی طرف سے اظہار کے کسی بھی ذریعے کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ان کی ایک ہی سوچ ملتی ہے کہ وہ پاکستان کو اسلام کے لیے ایک ایسی سرزمین کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جو دنیا کے دوسرے لوگوں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہو اور جس سے لوگ روشنی لیں۔ ان کا یہ تصورِ پاکستان ہمیں ان کی تمام زندگی میں یکساں تسلسل سے ملتا ہے۔ 

جنوری ۱۹۳۸ء میں گیا (بہار) مسلم لیگ کی کانفرنس میں اپنے خطاب میں انہوں نے مسلم لیگ کے پرچم کو اسلام کا پرچم قرار دیا (This flag is the flag of Islam)۔ انہوں نے مزید کہا: 

اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات مرحمت کرتا ہے۔ یہ محض ایک مذہب نہیں بلکہ یہ قوانین، فکر و فلسفہ اور سیاسیات پر مشتمل ہے۔ فی الحقیقت یہ ہر اس شے پر مشتمل ہے جو صبح سے لے کر رات تک انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔16

شمال مغربی سرحدی صوبے کی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے انہیں کوئی پیغام دینے کے لیے کہا تو ان کا جواب تھا:

میں آپ کو کیا پیغام دے سکتا ہوں؟ اپنے لیے راہنمائی اور بصیرت حاصل کرنے کے لیے ہم نے قرآن سے ایک عظیم ترین پیغام حاصل کیا ہے۔ …… آئیے ہم اپنی بہترین صلاحیتیں صحیح سمت میں استعمال کریں۔ آیئے ہم اپنی ذاتی دلچسپیوں اور خواہشات کو اپنے لوگوں کی اجتماعی بھلائی اور ایک اعلیٰ اور مقدس مقصد کی خاطر فراموش کر دیں۔ یہی پاکستان کے پیش نظر ہے۔ بشرطیکہ ہم متحد اور منظم ہو کر جمع ہو جائیں۔ اور اپنے مقصد سے ہماری لگن ہوئی تو ہماری وہ منزل دور نہیں کہ جب ہم اپنا مقصد حاصل کر لیں گے اور اپنے آپ کو اپنے حیرت انگیز اور تابناک ماضی کے حسبِ حال ثابت کریں گے۔17

علامہ اقبال کی فکری اُٹھان ہی اسلام اور اسلامی فلاسفی ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم عربی، فارسی اور علومِ اسلامیہ سے عبارت تھی۔ اس لیے جب ہم ان کی فکر کا محور اسلام کو دیکھتے ہیں تو یہ امر باعثِ تعجب نہیں ہوتا۔ لیکن جب قائد اعظم کی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں سیّد میر حسن جیسا کوئی استاد نہیں ہے۔ نہ ان کے مطالعے کا رُخ بظاہر اسلامی قانون یا شریعت کی طرف تھا۔ اس کے باوجود جب ان کی زندگی کا معروضی مطالعہ کیا جاتا ہے تو بڑی آسانی سے یہ نتیجہ نکل آتا ہے کہ اسلام اور اسلامی قانون کے بارے میں ان کی سوچ، فکر یا عمل کبھی کسی کجی کا شکار نہیں رہا۔ ان کی زندگی میں ہمیں یکساں تسلسل ملتا ہے جو بالآخر قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے قانون دان تھے، ان کی زندگی قانون کے مطالعے سے عبارت تھی۔ قانون کی اعلیٰ تعلیم انہوں نے برطانیہ کی مشہور قانونی درس گاہ لنکن اِن (Lincoln's Inn) سے حاصل کی تھی۔ بیرسٹری کی تعلیم کے لیے برطانیہ میں تین دیگر درس گاہیں ہیں لیکن ان کے مادرِ علمی کے اس انتخاب کا سبب یہ تھا کہ اس کے صدر دروازے پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے عظیم ترین شارعین میں سے ایک کے طور پر لکھا ہوا تھا۔18

ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قانون، وقف علی الاولاد پر مباحثہ ہوا تو انہوں نے مولانا شبلی نعمانی اور ندوۃ العلماء کے دیگر علماء کے مشورے سے اپنی رائے تشکیل دی اور امپیریل لجسلیٹیو کونسل میں اس موضوع پر تقریر کرتے ہوئے مولانا شبلی نعمانی کا تذکرہ نہایت اچھے الفاظ میں کیا۔ گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ 

میرا یہ ایمان ہے کہ ہماری نجات ان سنہرے اصولوں کی پیروی پر منحصر ہے جو ہمارے عظیم شارع (law giver) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیئے ہیں۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کا سنگِ بنیاد صحیح اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔ رب العزت نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ ریاستی امور میں ہمارے فیصلے بحث و مباحثے اور مشاورت پر ہوں گے۔19

ان کی تقریر کے اس اقتباس کا عربی میں ترجمہ کیا جائے تو اس کی یہ صورت بنتی ہے:

وامرھم شوریٰ بینھم۔20
اور وہ (مسلمان) اپنے امور باہمی مشاورت سے چلاتے ہیں۔

اور یہی قائد اعظم کا منشاء تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ قرآن میں امرھم کو مطلق معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جس کا اطلاق زندگی کے جملہ امور پر ہوتا ہے جن میں ریاستی امور بھی شامل ہیں۔ قائد اعظم نے اسے ریاستی امور کے حوالے سے بیان کیا تھا۔ اس لیے اپنی تقریر میں انہوں یہ توضیحی اضافہ کر دیا۔

دستورِ پاکستان بنانے کے لیے جب دستور ساز اسمبلی کام کر رہی تھی تو قائد اعظم نے اپنے جمہوری مزاج کے عین مطابق ایک تقریر میں اپنی اس معذوری کا اظہار کیا کہ وہ نہیں جانتے کہ اس دستور کی حتمی شکل کیسی ہو گی۔ لیکن اس تقریر میں انہوں نے واضح کر دیا کہ 

انہیں یقین ہے کہ یہ دستور اس طرح جمہوری اسلوب پر ہو گا کہ اس میں اسلام کے بنیادی اصول موجود ہوں گے کیونکہ عہدِ حاضر میں یہ اصول اسی طرح قابلِ نفاذ ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے۔ اسلام اور اس کے تصورات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ ہم انہی تابناک روایات کے امین ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے دستور ساز کی حیثیت سے ہمارے اندر اس کے لیے ضروری احساسِ ذمہ داری موجود ہے۔21

قائد اعظم کی تقریروں سے یہ وہ چند اقتباسات ہیں جن کا تعلق کسی حد تک ان کے ذاتی میلانات سے یقیناً ہے، لیکن بڑی حد تک یہ تمام حوالے ان کے تصورِ پاکستان کے بارے میں ہیں کہ وہ پاکستان کو کس شکل کی ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے لیے کیا دستوری نقشہ ان کے ذہن میں تھا۔ اسلام کے بارے میں کیا ان کے تصورات اسے محض مذہب سمجھنے کی حد تک تھے، جیسے کئی لوگوں کے ہیں، یا وہ علامہ اقبال کے تصورِ اسلام کے حامل تھے۔ قائد اعظم کی تقریروں سے دیئے جانے والے یہ تمام حوالے واضح کرتے ہیں کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ جہاں تک دیگر امور کا تعلق ہے تو قائد اعظم کی زندگی میں ایسے درجنوں مواقع آئے جن میں انہوں نے اسلام، اسلامی تعلیمات، قرآن، مسلمانوں کے تابناک ماضی اور تاریخِ اسلام کے بارے میں نہایت عمدہ خیالات کا اظہار کیا۔ لیکن زیر بحث موضوع ان کا تصورِ پاکستان بطور اسلامی ریاست ہے، اس لیے ان کے اس تصور ہی کے متعلق گفتگو کافی سمجھی جاتی ہے۔

قائد اعظم کا تصورِ معاشیاتِ اسلام

قائد اعظم بنیادی طور پر تو قانون دان اور قانون ساز تھے لیکن اسلام کی معاشی تعلیمات پر بھی وہ گہری نظر رکھتے تھے اور وہ اسلام کے معاشی نظام کو مملکتِ پاکستان میں کُلی اعتبار سے نافذ دیکھنا چاہتے تھے۔ اجمالاً اس کا اظہار انہوں نے اپنی کئی تقریروں میں کیا لیکن اپنی سرکاری حیثیت میں پہلی مرتبہ انہوں نے یہ بات ۱۹۴۸ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کہی۔ پروفیسر شریف المجاہد کے الفاظ میں ’’اسلامی معیشت کے حق میں یہ سب سے پہلی آواز تھی‘‘ 22

یہ وہ موقع تھا کہ جب قائد اعظم سیاسی انداز کی تقریر بھی کر سکتے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی نازک موقع تھا۔ اس وقت تمام ریاستی مشنری مہاجرین کی آباد کاری میں لگی ہوئی تھی۔ تقسیمِ ہند سے ملنے والے مشترک مالی اثاثے ہندوستان نے روک لیے تھے، خزانے میں اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ روز مرہ ریاستی امور چلائے جائیں۔ کشمیر کے محاذ پر دونوں ملکوں کی فوجیں پوری تیاری کے ساتھ جنگ پر آمادہ تھیں لیکن پاکستان کی یہ حالت تھی کہ لڑنے کے لیے گولہ بارود نہیں تھا۔ مملکت سے لوگوں کی بے پناہ توقعات قائم ہو چکی تھیں۔ ہنر مند کارکن اور سرمایہ کار ملک چھوڑ کر ہندوستان جا چکے تھے۔ نئے آنے والے ہنر مندوں کی آباد کاری وہ گنجلگ مسئلہ تھا جس کے حل کے لیے طویل وقت درکار تھا۔ 

ایسے عالم میں روایتی سیاست دان روایتی انداز کی تقریر کرتے ہیں جس میں عوام کی توجہ مسائل سے ہٹا کر نعروں کی طرف مبذول کرا دی جاتی ہے۔ قائد اعظم یہ کام کر سکتے تھے۔ وہ اس موقع پر لگے بندھے انداز میں غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسیاں تیار کرنے پر زور دے سکتے تھے۔ وہ ملک سے غربت کے خاتمے میں مدد دینے والی پالیسیاں تیار کرنے کو بھی کہہ سکتے تھے۔ ریاست کی معاشی و اقتصادی حالت درست کرنے کے یہی وہ ابتدائی ایام ہوتے ہیں جب قبلہ متعین کیا جاتا ہے، یا لوگوں کی توجہ مسائل سے ہٹائی جاتی ہے۔ 

اس موقع پر قائد اعظم نے جو تقریر کی اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ وہ مسائل سے واقف نہیں ہیں، یا ان سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس کی بجائے انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ اسٹیٹ بینک کے تحقیق کے کام پر گہری دلچسپی کے ساتھ نظر رکھیں گے کہ بینک اپنی کاروباری سرگرمیوں میں اسلامی تصورات اور اس کے سماجی اور اقتصادی طرز عمل کا کس قدر خیال رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے مسائل پیدا کر دیئے ہیں جو نا قابلِ حل ہیں۔ دنیا جس تباہی کا سامنا کر رہی ہے، اس سے کوئی معجزہ ہی اب اسے بچا سکتا ہے۔ انسان کا انسان کے لیے عدل ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تکنیکی اور صنعتی کارکردگی کے باوجود دنیا اس انتہاء پر جا کر الجھ چکی ہے، تاریخ میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لیے ہمیں اپنی راہِ عمل لازماً خود متعین کرنا چاہیے۔ اور برابری کے عالم گیر اسلامی تصور اور سماجی عدل کے صحیح اسلامی تصور پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ اس طرح ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔ اور دنیا کو امن کا ایسا پیغام دیں گے کہ صرف اسی سے بنی نوع انسان کی فلاح، مسرت، خوشحالی اور امن کا تحفظ ہو سکتا ہے۔23

قائد اعظم کے اس بیان کو عہدِ حاضر کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعد سیاسی قیادت کو نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا اور نہ ان کے سامنے کوئی مقصدِ حیات (Habitual vision) تھا۔ اور اس سیاسی قیادت کی عدمِ توجہی ہی کے باعث دنیا کی یہ عظیم سلطنت اپنے مقصد سے ہٹتے ہٹتے داخلی محاذوں پر الجھ گئی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم کو اللہ کچھ عرصہ اور زندگی دیتے تو اس مملکت کا دستور اور اقتصادی نقشہ کن خطوط پر ہوتا۔ آج دنیا عالم گیریت کے جس شیطانی جال میں پھڑپھڑا رہی ہے، یقیناً قائد اعظم نے اس صورت حال کی منظر کشی نصف صدی قبل کر دی تھی۔ یہ مملکت اس خلا کو پُر کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی جس کا سامنا سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بعد دنیا کرنے والی ہے۔24 

فکرِ قائد کی ایک جہت

پاکستان کے بعض اہلِ علم و فکر کا خیال ہے کہ قائد اعظم جس ریاست کی تعمیر و تشکیل چاہتے تھے وہ ایک جدید قومی، جمہوری اور سیکولر ریاست تھی نہ کہ دینِ اسلام پر قائم ہونے والی ریاست۔ اس سلسلے میں وہ قائد اعظم کی اس مشہور تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جو دستور ساز اسمبلی میں ان کی پہلی تقریر تھی۔ یہ تقریر دستور سازی کے ضمن یوں تو ایک عام سی تقریر ہے لیکن وہ لوگ جو پاکستان کو اسلامی ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے، ان کے خیال میں یہ تقریر اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں پاکستان کی دستوری بنیادوں کا سراغ ملتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تقریر کا تفصیلی انداز میں جائزہ لیا جائے۔ قائد اعظم کی اس تقریر کے ایک طویل اقتباس کا ترجمہ ان الفاظ میں ہے: 

اگر تم باہم تعاون سے کام کرو گے، ماضی کو بھول جاؤ گے اور مخالفتوں کو ترک کر دو گے تو تم لازماً‌ کامیاب ہو جاؤ گے۔ اگر تم اپنے ماضی کو بدل دو گے اور اس اسپرٹ میں متحد ہو کر کام کرو گے کہ تم میں سے ہر ایک خواہ وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، خواہ ماضی میں اس کے تعلقات تمہارے ساتھ کیسے ہی رہے ہوں، خواہ اس کا رنگ، اس کی ذات اور اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو، اول، دوم اور آخر اس مملکت کا شہری ہے، جس کے حقوق و فرائض بالکل مساوی ہیں، تو تمہارے عروج و ترقی کی کوئی انتہاء نہ ہوگی۔  میں اس معاملے پر انتہائی زور دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں اس اسپرٹ میں کام شروع کر دینا چاہیے۔ کچھ مدت میں اکثریت اور اقلیت اور ہندو قوم اور مسلم قوم کی یہ تمام بدنمائیاں غائب ہو جائیں گی۔ کیوں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں بھی تمہارے ہاں پٹھان، پنجابی، شیعہ، سنی وغیرہ موجود ہیں اور ہندوؤں میں بھی برہمن، ویشنو، کھتری، اور پھر بنگالی، مدراسی وغیرہ ہیں۔ اگر مجھ سے پوچھو تو میں یہ کہوں گا کہ یہ چیز ہندوستان کی آزادی و خود مختاری کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اگر ایسے نہ ہوتا تو ہم مدتوں پہلے آزاد ہو چکے ہوتے۔ دنیا کی کوئی طاقت کسی قوم کو خصوصاً‌ چالیس کروڑ نفوس کی قوم کو اپنا محکوم نہیں رکھ سکتی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو کوئی تم کو مفتوح نہ کر سکتا، اور اگر کر بھی لیتا تو زیادہ مدت تک تم پر اپنا تسلط قائم نہ رکھ سکتا، لہٰذا اس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔ تم آزاد ہو۔ اس مملکتِ پاکستان میں تم اپنے مندروں میں آزادانہ جا سکتے ہو اور مساجد اور دوسری عبادت گاہوں میں بھی جانے میں آزاد ہو۔ تمہارا مذہب، تمہاری ذات، تمہارا عقیدہ کچھ بھی ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ تم جانتے ہو، تاریخ شاہد ہے کہ کچھ مدت پیشتر انگلستان کے حالات آج کل کے ہندوستان کے حالات سے بدتر تھے۔ رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ ایک دوسرے کو آزار پہنچانے میں مصروف تھے۔ آج بھی بعض ایسی مملکتیں موجود ہیں جن میں ایک خاص طبقے کے خلاف امتیازات اور قیود عائد کی جارہی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ایسے ایام میں اپنی مملکت کا آغاز نہیں کر رہے ہیں۔ ہمارا آغاز ایسے ایام میں ہو رہا ہے جب ایک قوم اور دوسری قوم، ایک ذات اور مسلک اور دوسری ذات اور مسلک کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں رہا۔ ہم اس بنیادی اصول کی بنا پر آغازِ کار کر رہے ہیں کہ ہم تمام شہری ہیں اور ایک مملکت کے مساوی شہری ہیں …… میرے نزدیک اب ہمیں اسی نصب العین کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پھر تم دیکھو گے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد نہ ہندو، ہندو ر ہیں گے، نہ مسلمان، مسلمان رہیں گے۔ مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ وہ تو ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں سب ایک مملکت کے شہری ہوں گے۔25

تنقید و تبصرے کے لیے تقریر کے اس حصے ہی کو بالعموم لے لیا جاتا ہے اور اس کے سیاق سباق کو نظر انداز کر دیا جانا اب ایک عام روایت بن گئی ہے۔ تقریر کے اس حصے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس حصے کو اسلامی ریاست کے حق میں استعمال کرنے والے اور اس کے برعکس نقطہ نظر رکھنے والے — موافق اور مخالف — دونوں کی تحریروں میں ایک قدر نمایاں طور پر مشترک ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والے بھی اس کے متنی تجزیے کا سہارا لیتے ہیں اور اس کی حمایت میں لکھنے والے بھی متن ہی کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں۔ دونوں نقطہ ہائے نظر بالعموم طلاقتِ لسانی اور اور استدلال کا سہارا لیتے ہیں۔ 

جو لوگ ملک کو مذہب یا اسلام کے اصولوں پر قائم ریاست دیکھنا پسند نہیں کرتے، وہ تقریر کے اس حصے کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ علمی سطح پر ایسے افراد کئی ہیں لیکن بخوفِ طوالت اس نقطہ نظر کی ایک نمائندہ تحریر ملاحظہ ہو۔ یہ تحریر فساداتِ پنجاب کے نتیجے میں جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی عدالت کی پیش کردہ رپورٹ سے لی گئی۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت کے ریاستی ملازمین (Servants of the State) کی یہ ایک نمائندہ تحریر ہے۔ یہ تحریر، تحریر میں جھلکنے والا تصور رکھنے والے بہت سے دیگر اصحابِ فکر کی نمائندگی کرتی ہے:

قائد اعظم پاکستان کے بانی تھے اور جس موقع پر انہوں نے یہ تقریر کی، وہ تاریخِ پاکستان کا پہلا سنگِ میل تھا۔ اس تقریر کے مخاطب اپنی مملکت کے مسلم و غیر مسلم باشندے بھی تھے اور اہلِ عالَم بھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جس نصب العین کے حصول کی خاطر نئی مملکت اپنی تمام طاقتوں کو وقف کرنے والی تھی، اس کو نہایت واضح طور پر معین کر دیا جائے۔ اس تقریر میں بار بار ماضی کی تلخیوں کا ذکر کر کے یہ اپیل کی گئی کہ ماضی کو بدل دو اور جنگ و پیکار کو دفن کر دو۔ قائد اعظم کے نزدیک اس مملکت کے آئندہ شہری کو بلا امتیاز رنگ و نسل اور بلالحاظ مذہب و ملت برابر کے حقوق اور رعایات حاصل ہوں گے اور اس پر برابر کے فرائض عائد ہوں گے۔ اس تقریر میں لفظ ’’قوم‘‘ کو بار بار دہرایا گیا اور بیان کیا گیا کہ مذہب [قائد اعظم کی تقریر میں لفظ Creed استعمال کیا گیا تھا جو اعتقاد یا داخلی ایمان و ایقان کا ہم معنی ہے نہ کہ مذہب Religion کا] کو کاروبارِ مملکت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ صرف فرد کے ذاتی ایقان و ایمان کا معاملہ ہے۔26 

قائد اعظم کی اس تقریر پر تفصیلی گفتگو تو آئندہ سطور میں کی جائے گی لیکن فاضل عدالت کا یہ کہنا کہ ’’جس موقع پر انہوں [قائد اعظم] نے یہ تقریر کی وہ تاریخِ پاکستان کا سنگِ میل تھا‘‘ اور یہ کہ ’’جس نصب العین کی حصول کی خاطر نئی مملکت اپنی تمام طاقتوں کو وقف کرنے والی تھی، اس کو نہایت واضح طور پر معین کر دیا جائے‘‘ صحیح نہیں ہے۔ تقریر کے بالکل آغاز ہی میں اس سوچ کی نفی ہوتی ہے۔ قائد اعظم نے تقریر کی ابتداء ہی میں دستور ساز اسمبلی کے وظائف (Functions) واضح کیے جو دو تھے — دستور سازی اور آئندہ کے لیے قانون سازی — پہلے کام کے بارے میں قائد اعظم نے ابتداء ہی میں واضح کر دیا کہ اس بارے میں، میں اس موقع پر کوئی سوچی سمجھی رائے نہیں دے سکتا۔ قائد اعظم کے اصل الفاظ یوں تھے:

Dealing with our first function [دستور سازی] in this Assembly, I cannot make any well considered pronouncement at this moment … 27

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تقریر کا متذکرہ بالا حصہ کوئی سوچی سمجھی اور لکھی ہوئی تقریر نہیں تھی بلکہ اس کی حیثیت رسمی کلمات سے زیادہ نہیں تھی۔ فاضل عدالت اسی رپورٹ کے صفحہ 214 پر یوں رقم طراز ہے: 

ہمارے سامنے یہ بار بار کہا گیا کہ پاکستان کے مطالبے میں ’’مملکتِ اسلامی‘‘ کا مطالبہ قطعاً شامل تھا۔ پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے اہم لیڈروں کی بعض تقریروں سے بلاشبہ یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے۔ یہ لیڈر جب مملکتِ اسلامی کا یا کسی ایسی مملکت کا نام لیتے تھے جس پر قوانینِ اسلامی کی حکومت ہوگی تو شاید ان کے ذہن میں کسی ایسے قانونی نظام کا تصور ہو گا جو اسلامی عقائد، اسلامی قانونِ شخصی، اسلامی اخلاقیات اور اسلامی ادارت پر مبنی ہو، یا اس سے مخلوط ہو۔ جس شخص نے بھی پاکستان میں ایک مذہبی مملکت کے قیام پر سنجیدگی سے غور کیا ہے، اسے ان عظیم مشکلات کا ضرور احساس ہوا ہے جو کسی ایسی اسکیم میں لازماً‌ پیش آئیں گی۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی، جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک متحدہ مملکت کا تصور قائم کرنے والے اولین مفکر سمجھے جاتے ہیں، اپنے خطبہ صدارت (مسلم لیگ ۱۹۳۰ء) میں فرمایا: ’’ہندوؤں کو کسی قسم کا اندیشہ نہ ہونا چاہیے کہ خود اختیار مسلم مملکتوں کی تخلیق کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسی مملکتوں میں کوئی مذہبی قسم کی حکومت قائم ہوگی۔ یہ اصول کہ ہر گروہ کو اپنے خطوط پر آزادانہ ترقی کا حق ہونا چاہیے، ہرگز کسی تنگ نظر فرقہ پرستی کی پیداوار نہیں ہو سکتا‘‘۔

یہ دونوں اقتباس اس سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں جو پاکستان کو ایک لادین ریاست دیکھنے کی خواہشمند ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کو ایک جدید جمہوری فلاحی مملکت دیکھنے کے خواہشمند اصحابِ فکر کی بڑی تعداد اس تقریر کی تشریح اپنے انداز میں کرتی ہے۔ بدقسمتی سے دونوں طرح کے اصحابِ فکر قائد اعظم کی اس تقریر کے اس متذکرہ بالا ٹکڑے ہی کے متنی تجزیے پر اپنا زورِ بیان صَرف کرتے ہیں، اور جس سیاق اور پس منظر میں یہ تقریر کی گئی ہے اسے یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ 

امرِ واقع یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ تقریر دستور ساز اسمبلی کے اقلیتی ارکان کے ان خدشات کے جواب میں تھی کہ نئی ریاست میں مذہب کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیتوں سے امتیاز برتا جائے گا۔ اس کے ذریعے قائد اعظم نے اقلیتوں کو مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔ اس لیے اس تقریر کو کسی بھی طور پر ایک پالیسی تقریر کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ اصولِ تفسیر یا اصولِ تاریخ کے آئینے میں اس کا جائزہ لینے پر ایک جدا تصور کی منظر کشی ہوتی ہے۔ یہ دونوں مکاتبِ فکر جس چیز کو محور بناتے ہیں وہ بڑی حد تک اخباری علم کے ایک حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اصولِ تفسیر کی اصطلاح میں اس تقریر کے پس منظر ہی پر غور کرنے سے صورت حال مکمل طور پر واضح ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ان ابتدائی دو ایام کی کارروائی کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیا جائے، جس سے اس تصور کی نفی ہوتی ہے، کہ یہ دستوری کارروائی کے لیے مخصوص ایام تھے اور یہ کہ یہی پاکستان کی دستور سازی کی بنیاد ہیں۔

(دساتیرِ پاکستان کی اسلامی دفعات – ایک تجزیاتی مطالعہ۔ ص ۲۲ تا ۳۲۔ سن اشاعت: ۲۰۱۱ء۔ ناشر: شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۲

آزادی و آگاہی اور یکجہتی کے ہمارے قومی و ملّی تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماڈرنائزیشن کی آڑ میں ویسٹرنائزیشن
مفتی سید عدنان کاکاخیل

تیسری صدی ہجری میں علمِ حدیث
ڈاکٹر فضل الرحمٰن محمود

علم الکلام میں امام ابن تیمیہ کا مکتبِ فکر
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

بچوں کی نفسیات
علامہ حکیم عبد الصمد صارم الازہریؒ

نظم: اسلام کا سائنسی عہدِ زریں
محمود الحسن عالمیؔ

قائد اعظم کا تصورِ مُملکتِ پاکستان
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

کاروباری دنیا میں قبضہ کی شرعی حقیقت اور جدید شکلیں
مفتی سید انور شاہ

خزانۂ الٰہی کی کنجی دُعا اور اس کے دندانے لقمۂ حلال
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان میں اسلامائزیشن،    توہینِ رسالت کا مسئلہ،    قائدِ اعظم کا تصورِپاکستان
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
مولانا عبد الودود

پاک بنگلہ تعلقات     —     علماء کی سفارت کاری
عمار خان یاسر

غزہ میں جنگ بندی: کیا وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کچھ مفید ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

لورین بوتھ — برطانوی خاتون صحافی جنہیں فلسطین نے مسلمان کیا
ٹووَرڈز ایٹرنیٹی

ملی مجلس شرعی کا اجلاس
ڈاکٹر محمد امین

When Hazrat Abdullah ibn Umar Defended Hazrat Usman ibn Affan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۶)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

سپریم کورٹ کا تجربہ، تعلیمی و علمی سفر، آئینی و قانونی مباحث (۱)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
رفیق اعظم بادشاہ

کیا قدیم علمِ کلام دورِ حاضر میں ایک  غیر متعلق روایت بن چکا ہے؟ (۱)
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۱۰)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter