لورین بوتھ کون ہیں؟
میزبان: السلام علیکم سسٹر لورین، ہماری دعوت قبول کرنے کا شکریہ۔ ہمیں آپ کو اپنے ساتھ پا کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ میں آغاز اس سوال سے کرنا چاہوں گا کہ لورین بوتھ کون ہیں؟ کیا آپ اپنا مختصر تعارف کرا سکتی ہیں؟
لورین: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ میرا نام لورین بوتھ ہے، میں ایک صحافی، مصنفہ اور اداکارہ ہوں۔ میں 1967ء میں ہیمپسٹڈ، نارتھ لندن میں پیدا ہوئی تھی۔ میری والدہ ماڈل اور والد اداکار تھے، اور میں 20 سال کی عمر تک لندن میں ہی رہی۔ میں اداکاری کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، اور یہ میرا سب سے بڑا خواب تھا، میں ہالی ووڈ جانا چاہتی تھی۔ البتہ سات سال اداکاری کے بعد میں نے 1997ء میں صحافت کی تربیت حاصل کی۔ پھر میں ٹی وی کا بھی کافی کام کرتی تھی، میں نے سکائی نیوز پر بھی کام کیا۔ میں مرکزی دھارے کی صحافت سے وابستہ تھی، میں نے ڈیلی میل جیسے لوگوں کے لیے کام کیا، کوئی غلط تاثر مت لیجیے گا، میل آن سنڈے کے لیے۔ میں نے بی بی سی اور چینل فائیو کے لیے بھی کام کیا، بہت سارے ٹی وی شوز اور ریڈیو شوز کی میزبانی بھی کی۔ پھر میں نے 2010ء میں اسلام قبول کر لیا، جو کہ فلسطین کے کئی سفروں کے بعد ہوا، جب میں نے وہاں کے لوگوں سے ملاقات کی۔ پہلے ایک صحافی کی حیثیت سے گئی اور پھر ایک کارکن (ایکٹِوسٹ) کی حیثیت سے۔
اسلام سے تعارف
میزبان: آپ نے پہلی بار اسلام کے بارے میں کیسے سنا؟
لورین: میرے خیال میں اسلام کی طرف میری سب سے پہلی توجہ 2001ء میں 9/11 کے بعد ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں وہ مناظر دیکھ رہی تھی جس میں طیارے ان دونوں عمارتوں سے ٹکراتے ہوئے دکھائے جا رہے تھے، تو میں ایک چھوٹے بچے کے ساتھ بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کون سے غریب ملک کو اس کی قیمت چکانے پر مجبور کیا جائے گا؟ میں ایک سوشلسٹ اور بائیں بازو کی حامی تھی اور میں سمجھتی تھی کہ طاقت کی کشمکش کے حوالے سے مغرب کی کچھ لوگوں کے ساتھ جنگ ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ کسی غریب ملک کو، جس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس کی قیمت چکانے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ امریکہ اپنے آپ کو مطمئن کر سکے۔ چنانچہ یہ افغانستان تھا۔ اگر اسلام مغرب کے لیے خطرہ ہوتا تو وہ 1400 سال سے موجود ہے اور اربوں لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ بس مغرب پر قبضہ کر سکتے تھے یا کوئی خوفناک کام کر سکتے تھے۔ تو کسی ایک عمل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پوری مسلم دنیا چند لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے اس ایک عمل کی ذمہ دار ہے۔ تو یہ دراصل کیا ہے؟ یہ مسلمانوں پر اثرانداز ہونے اور انہیں تکلیف پہنچانے کا ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ تو میں اپنے دل سے اس کی حمایت نہیں کر سکی۔
فلسطین کا تجربہ
میزبان: ہم جانتے ہیں کہ ایک صحافی کی حیثیت سے آپ کئی بار فلسطین گئی ہیں۔ آپ نے پہلی بار وہاں جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
لورین: مجھے اپنی پشت پر ایک غیر مرئی ہاتھ محسوس ہوا جو مجھے فلسطین کی طرف دھکیل رہا تھا۔ میرے پاس اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ میں عربی نہیں بولتی تھی، میں کسی فلسطینی کو نہیں جانتی تھی، لیکن میں نے واقعی اپنی پشت پر ایک ہاتھ محسوس کیا جو کہہ رہا تھا: ’’فلسطین جاؤ، فلسطین جاؤ، فلسطین جاؤ،‘‘ تو میں ایسے ہی بغیر کسی تربیت کے مغربی کنارہ جا پہنچی۔
میزبان: کیا آپ ہمیں فلسطین میں اپنے تجربے کے بارے میں بتا سکتی ہیں؟
لورین: میرے خیال میں یہ جاننا اہم ہو گا کہ میں ایک عیسائی کی حیثیت سے ارضِ مقدس گئی تھی اور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سرزمین پر چلتے ہوئے بہت پرجوش تھی۔ میرے لیے یہ ایک زیارت کی طرح تھا۔ ہر جگہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہو سکتا ہے عیسیٰ علیہ السلام یہاں رہے ہوں۔ یہ بہت حیرت انگیز تھا۔ میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ یروشلم جاؤں گی، جہاں انہیں مقبرہ کی طرف لے جایا گیا تھا۔ یہ مسحور کُن تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام یہاں موجود تھے اور ایسا واقعی ہوا تھا۔ لیکن میں مشرقِ وسطیٰ میں جہاں بھی جاتی تو دیکھتی کہ یہ دراصل مسلمان ہیں جو عیسائی مقامات کی دیکھ بھال کر رہے تھے، تو اس نے مجھے کافی الجھن میں ڈال دیا۔ مثال کے طور پر وہ جگہ جہاں عیسیٰ علیہ السلام نے کوڑھیوں کو شفا دی تھی، وہ لبنان میں ایک غار ہے، اور اس غار کے ساتھ ایک چرچ ہے، اور جو شخص اسے کھولتا ہے وہ ایک مسلمان ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کی چابیاں آپ کے پاس کیوں ہیں؟ اس نے کہا، یہ نسل در نسل میرے خاندان میں رہی ہیں۔ میں نے کہا، کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں؟ اس نے کہا، جی ہاں۔ میں نے پوچھا، کیا آپ کے خاندان نے انہیں عیسائیوں سے چوری کیا تھا؟ شاید انہوں نے عیسائیوں کو مار کر انہیں حاصل کیا ہو؟ وہ کہنے لگا، آپ واقعی اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتیں؟ (میں نے کہا) نہیں۔ (اس نے کہا) عیسائی اس کے لیے ہم پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ ہم بھی عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں۔ میں حیران ہوئی کیونکہ میں نے ایسا پہلی بار سنا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے نبی ہیں اور مسلمانوں کے پاس ان کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں۔ یہ میرا دو ہفتوں کا ایک ناقابلِ یقین سفر تھا، اور مجھے حیرت ہوئی کہ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں کہ جو کچھ میں نے اس سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں سوچا تھا وہ سب جھوٹ تھا۔
اسلام کے خلاف تعصب اور تبدیلی
میزبان: کیا آپ کو اسلام کے خلاف کوئی تعصب تھا؟ اور اگر تھا، تو وہ کیسے دور ہوا؟
لورین: جب میں محمود عباس سے ملنے جا رہی تھی، ایک مغربی صحافی کے طور پر میں مختلف جماعتوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتی تھی، میں نے دو بندوق بردار بڑی جسامت کے عربی بندے دیکھے، میں ایک لفٹ کے اندر تھی، وہ ایک دوسرے سے عربی میں جو بھی بات کر رہے تھے، لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہم سفید فام عورت کو بعد میں مار ڈالیں گے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ میرے اندر کا تعصب ہے، میں یہاں آنے کے لیے موزوں شخص نہیں ہوں، مجھے ایک اسرائیلی بندوق والے سے زیادہ فلسطینی بندوق والے سے ڈر لگتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ حالانکہ میں ان دونوں میں سے کسی کو نہیں جانتی۔ تو مجھے اپنے تعصب کو تسلیم کرنا پڑا۔ لیکن یہاں ایسا معجزہ ہوا کہ مغربی کنارے میں 72 گھنٹے اکیلے رہنے کے بعد، میں کسی بھی عورت یا بچے یا مرد کی خاطر اپنی جان دینے کے لیے تیار ہو گئی، کیونکہ انہوں نے جو محبت اور مہربانی دکھائی اور جو سارا ماحول تھا، مجھے احساس ہوا کہ یہ ان کا مذہب تھا۔
ناقابلِ فراموش یاد اور حیران کُن واقعہ
میزبان: کیا آپ کی کوئی ایسی یاد ہے جسے آپ بھول نہیں سکتی ہیں؟
لورین: 2005ء کے سفر کے اختتام پر میرے پاس تحائف سے بھرے تھیلے تھے۔ میں نے اُس نوجوان سے پوچھا جو میرے ساتھ خریداری کر رہا تھا کہ کیا آپ مجھے انگریزی میں قرآن ڈھونڈ کر دے سکتے ہیں؟ اس نے حیرت سے دیکھا اور کہا، ہاں۔ میرا خیال تھا کہ قرآن کا ترجمہ نہیں ہوا ہو گا، یعنی کوئی مشرقِ وسطیٰ کے ایک چھوٹے سے مذہب کا ترجمہ انگریزی میں کیوں کرے گا، ایسی زحمت کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ ڈھونڈ پائے گا۔ لیکن وہ ’’قرآن انگریزی، قرآن انگریزی‘‘ کہتا ہوا گیا اور واپس آیا تو اس کے پاس انگریزی قرآن تھا۔ میں نے کہا، بہت اچھا۔ اور پھر میں نے اسے دیکھا تو یہ تقریباً 600 صفحات کا تھا۔ میں نے سوچا، میں اسے کبھی نہیں پڑھ پاؤں گی۔ اور پھر مجھے یاد ہے کہ میں نے یروشلم کے اس نوجوان سے پوچھا، مجھے آپ کو اتنی ادائیگی کرنی ہے؟ کیونکہ وہ میرے ساتھ خریداری کر رہا تھا۔ تو اس نے کچھ رقمیں گننا شروع کیں، مجھے ایسا لگا جیسے میں لُٹنے والی ہوں، مجھے ٹھگا جانے لگا ہے۔ پھر وہ کہنے لگا، ’’رہنے دیں، آپ نے مجھے کچھ نہیں دینا، صرف ایک بات میں آپ سے کہنا چاہوں گا کہ فلسطین کو مت بھولنا، ہمیں مت بھولنا‘‘۔ سبحان اللہ۔
میزبان: یہ واقعی متاثر کن ہے۔ اور فلسطین میں سب سے حیران کن واقعہ کیا تھا؟
لورین: جنوری کا مہینہ تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کیسی سردی ہوتی ہے، اس لیے میرے پاس کوٹ نہیں تھا۔ میں رملہ کی سڑک پر چل رہی تھی تو حجاب میں ملبوس ایک بوڑھی خاتون نے میری طرف دیکھا، اس نے عربی میں کچھ کہا اور پھر آ کر مجھے بازو سے پکڑ لیا۔ میں نے سوچا، کہیں یہ بڑی بی مجھے اغوا تو نہیں کرنے والی! کیا یہاں ایسے ہوتا ہے؟ اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر وہ مجھے اندر اپنے کمرے میں لے گئی، الماری کھولی اور ایک بڑا اوورکوٹ نکال کر مجھے پہنا دیا اور کہا، یَلَّا۔ میں حیران رہ گئی! اس نے اپنا نمبر لکھا اور کہا، یہ لو۔ میں نے سوچا، یہ کیا، میں کوٹ لے کر فرار بھی ہو سکتی ہوں۔ لیکن وہ بوڑھی خاتون یہ برداشت نہیں کر سکی کہ ایک اجنبی اس کے شہر میں ہو اور سردی محسوس کر رہا ہو جبکہ اس کی الماری میں ایک کوٹ پڑا ہو۔ کیا آپ سمجھ رہے ہیں جو بات میں کہنا چاہ رہی ہوں! اللہ اکبر۔
میں جہاں بھی گئی، وہاں ایک ایسی نرم دلی تھی، چیزوں کو بہترین بنانے کی ایسی صلاحیت تھی۔ جس چیز نے مجھے واقعی متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اس وقت میرا ایک فارم ہاؤس تھا، ایک ویئرہاؤس بن رہا تھا، میرے پاس ایک سوئمنگ پول تھا، ایک ایکڑ کا باغ تھا، میرے خوبصورت بچے اور ایک اچھا شوہر تھا، اور سب کچھ تھا۔ لیکن اگر کوئی ایک چیز بھی غلط ہو جاتی تو میں اندر سے پریشان ہو جاتی۔ جیسے، اگر ایڈیٹر میرے کسی کام سے خوش نہیں ہوتا تو پورے گھر میں بے سکونی ہوگی۔ اوہ میرے خدا، میں دباؤ میں ہوں، میں دباؤ میں ہوں، میں دباؤ میں ہوں۔ ایک چھوٹی سی چیز۔ ہر چیز کا بہترین ہونا ضروری تھا، ورنہ میں سکون میں نہیں ہوتی تھی۔
اور یہ لوگ، فوج کے ہاتھوں بچے مارے گئے، قابضین نے گھر چھین لیے، ان کے علاقوں کی روزانہ کی محرومی اور ظلم و ستم۔ جبکہ وہ ملنے پر کہتے: سلام، امن، آپ کیسی ہیں؟ ہمارا کچھ کھانا کھا لیں۔ ان میں یہ سکون تھا۔ اور میں نے ان سے پوچھا، آپ اتنے سخی کیوں ہیں؟ آپ اس صورتحال میں مطمئن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ کتاب ہے، یہ قرآن ہے، اللہ چیزوں کو ٹھیک کر دے گا۔
اسلام کی طرف کشش اور قبولیت
میزبان: آپ کو اسلام کی طرف کشش کب محسوس ہوئی؟
لورین: 2008ء میں ایک غیر مسلم کی حیثیت سے میں غزہ میں محصور تھی، ان لوگوں کے ساتھ جو آج تک محاصرے میں ہیں۔ اعوذ باللہ۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ غریب ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے لیے اچھے کام کر رہے تھے۔ تو ایک دن میں نے سوچا کہ میں بھی کوئی اچھا کام کروں اور رفح کے مہاجر کیمپ میں کسی خاندان کے لیے کچھ گوشت لے جاؤں۔ چنانچہ میں یہ کھانا ایک مسلم خاندان کے پاس مہاجر کیمپ میں لے گئی۔ والدہ نے دروازہ کھولا، تفضّل، سلام علیکم، وہ بہت پُرنور تھیں۔ وہ لوگ ایک کمرے میں رہ رہے تھے، کھانے کو کچھ نہیں، پینے کو کچھ نہیں۔
میں نے ان سے کہا: آپ روزہ کیوں رکھ رہی ہیں؟ مجھے نہیں لگتا کہ آپ کا خدا آپ سے محبت کرتا ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ محبت کرتا ہے۔ وہ آپ غزہ والوں کو تیس دن تک بھوکا پیاسا کیوں رکھتا ہے؟ کیا آپ کے پاس پانی ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگیں، نہیں، ہمارے پاس پانی نہیں ہوتا۔ میں نے کہا، اچھا تو پھر کیوں تیس دن آپ غزہ میں کھانے کے بغیر گزار رہی ہیں؟ کیا اکتیسویں دن آپ کا فریج بھر جائے گا؟" انہوں نے کہا، نہیں، یہ نہیں بھرے گا۔ میں نے کہا، اچھا تو پھر آپ کا خدا آپ سے محبت نہیں کرتا۔ میں نے کہا، مجھے کوئی ایک معقول وجہ بتائیں کہ آپ روزہ کیوں رکھتی ہیں؟ انہوں نے، ایک بے سروسامان کمرے میں، کہا کہ ہم رمضان میں روزے رکھتے ہیں تاکہ غریبوں کو یاد کر سکیں۔
میں نے اس لمحے سوچا، اگر یہ اسلام ہے تو مجھے مسلمان بننا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ایسا مذہب ہے جس میں آپ خدا پر یقین رکھتے ہوں اور اُس دن شکر گزار ہوتے ہوں جب اس نے آپ کو کچھ نہ دیا ہو۔ اگر کوئی ایسا مذہب ہے کہ آپ کے پاس ایک پیالہ کھانا ہو اور آپ اسے ایک اجنبی کو دے دیں۔ اوہ میرے خدا، واہ۔
میزبان: تو ضرور یہی وہ لمحہ ہو گا؟
لورین: یہی وہ لمحہ تھا۔
میزبان: آپ نے بتایا کہ انہوں نے آپ کو قرآن دیا، تو پھر کیا ہوا، کیا آپ نے اسے پڑھا؟
لورین: تو مجھے یہ قرآن مجید ایک تحفے کے طور پر ملا، اور میں نے ایک دن اسے کھولا جب میرے بچے موجود نہیں تھے۔ میں نے سوچا، اچھا تو میں اپنے ہاتھ دھو لوں، میں جانتی ہوں کہ وہ لوگ اپنے ہاتھ دھوتے ہیں کہ یہ ایک بہت خاص کتاب ہے۔ میں اس بارے میں بہت سنجیدہ تھی۔ یہ میرا صحیفہ نہیں تھا لیکن یہ ایک صحیفہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک حقیقی صحیفہ ہو، لہٰذا مجھے اسے احترام کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔
جب میں نے الفاتحہ پڑھی تو سوچا کہ یہ تو لارڈز کی طرف دعا کی طرح ہی ہے۔ وہی چیز ہے کہ صرف خدا کی عبادت کرو، صرف اسی سے مانگو، صرف اسی کا شکریہ ادا کرو، برا کام نہ کرو، اچھا کام کرو۔ میں اس بارے میں مطمئن ہوئی کہ الفاتحہ ٹھیک ہے اور میرے عیسائی عقیدے کے مطابق ہے۔ لیکن پھر سورۃ البقرہ آئی جس میں آپ اُس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں کہا گیا ہے کہ: وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وہ مومن ہیں لیکن ان کے دل میں نفاق ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہ سچ نہیں بتا رہے ہیں، اور اللہ جھوٹوں سے نفرت کرتا ہے۔ یعنی بنیادی طور پر یہ مجھے میرے نفاق پر ٹوک رہا تھا اور مجھے بتا رہا تھا کہ میں جہنم میں جاؤں گی کیونکہ میں خدا پر یقین رکھتی تھی لیکن میں اس حوالے سے کچھ نہیں کر رہی تھی، میں برے فیصلے کر رہی تھی، میں ایک اچھی انسان نہیں بن رہی تھی، نہ ہی عبادت کر رہی تھی اور نہ ہی اس کی پرواہ کر رہی تھی، اور میں جھوٹ بول رہی تھی۔ میں نے قرآن بند کر دیا اور سوچا، اوہ میرے خدا۔ مجھے ایک سرد احساس ہوا۔ ایک گرم دن تھا لیکن پوری طرح دہشت میں آ گئی اور مجھے قرآن سے خوف آیا۔ تو میں نے اسے ایک اونچی شیلف پر رکھ دیا اور سوچا کہ یہ لوگ تو اچھے ہیں لیکن ان کی کتاب سخت ہے۔ کیونکہ میں نے خدا کو اس سے پہلے کبھی اتنا غصے میں نہیں دیکھا تھا، اور اس کا غصہ مجھ پر تھا۔
میزبان: کیا آپ کو مسلمانوں کی طرف سے دعوتِ اسلام ملی؟
لورین: جی، مجھے اپنے سفر کے دوران ایک جگہ سے دعوت ملی تھی۔ لوگوں کا ایک گروپ تھا جو میرے لیے بہت خاص تھا، کیا آپ جانتے ہیں وہ کون تھے؟ وہ صومالی ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ وہ مجھے دعوت دیا کرتے تھے۔ تو میں (پہنچنے پر) ’’السلام علیکم‘‘ کہتی تھی کیونکہ میں فلسطین گئی تھی اور میرا خیال تھا کہ اس کا مطلب ’’ہیلو‘‘ ہے۔ وہ کہتے، وعلیکم السلام، کیا آپ مسلمان ہیں؟ میں کہتی، نہیں، لیکن مجھے دلچسپی ہے۔ وہ مجھے متنبہ کرتے کہ محتاط رہنا کیونکہ تمہیں درس ملنے والا ہے، تمہیں اپنے ڈرائیور سے تقریر سننے کو ملے گی۔ لیکن میں نے واقعی اس کا لطف اٹھایا۔ وہ اس طرح بتاتے تھے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ ؓ سے یوں کہا‘‘۔ اور میں اُس حیرت انگیز اور شاندار آدمی کے بارے میں سیکھتی تھی جو 1400 سال پہلے عرب صحرا میں رہتا تھا اور پڑھ لکھ نہیں سکتا تھا لیکن اس نے لوگوں اور دنیا کو اپنا آپ بدلنا سکھایا۔ اس طرح مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو گئی۔
میزبان: اسلام قبول کرنے کی طرف آپ کا آخری قدم کیا تھا؟
لورین: مجھے 2007ء کے آس پاس اسلام چینل پر نوکری کی پیشکش ہوئی کیونکہ میں فلسطین اور عراق کے لوگوں کے حق میں انصاف کے لیے آواز اٹھا رہی تھی۔ اسلام چینل کے محمد علی نے مجھے نوکری کی پیشکش کی تو میں نے کہا کہ میری دو شرائط ہیں: نمبر ایک: مجھ سے اسلام کے بارے میں بات مت کرنا کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت اچھا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آپ لوگ بہت اچھے ہیں، لیکن یہ میرے لیے نہیں ہے۔ اور نمبر دو: میں آپ کے ٹی وی اسٹیشن پر حجاب نہیں پہنوں گی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ عورتوں کے لیے نامناسب ہے اور انہیں کنٹرول کرتا ہے، اور میں منافق نہیں بننا چاہتی۔ انہوں نے کہا، اللہ فیصلہ کرے گا کہ آیا آپ مسلمان بنیں گی یا نہیں، یہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ میں نے کہا، نہیں، میرے مسلمان بننے کا کوئی راستہ نہیں ہے، میں نہیں بن سکتی۔ محمد علی نے کہا، آپ مسلمان بن سکتی ہیں۔ میں نے کہا، میں نہیں بنوں گی۔ انہوں نے کہا، اچھا، اللہ بہتر جانتے ہیں۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ پھر میں نے کہا، حجاب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا، ٹھیک ہے، حجاب مت پہنیں لیکن براہ کرم جتنا زیادہ ہو سکے باحیا لباس پہنیں تو ہم اسے قبول کریں گے۔
چنانچہ اس طرح میں نے دنیا کا سفر کرنا شروع کر دیا، مقررین و شیوخ کے انٹرویو کیے، زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک رسائی حاصل کی، اس دوران بہت سے لوگ اسلام کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ پھر میں 2010ء میں ایران گئی کہ مجھے ایک صحافی اور نامہ نگار کی حیثیت سے القدس ریلی کی رپورٹنگ کرنا تھی۔ مجھے ہمیشہ فلسطین کے بارے میں ہی کام کرنا ہوتا تھا۔ تو میں ایران میں تھی، ہم سفر کے دوران قم شہر پہنچے۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں ایک مسجد میں گئی تو مجھے خیال آیا کہ میں نے وضو کیا ہوا ہے، اپنی دوست کی طرح جس کے ساتھ میں سفر کر رہی تھی۔ اور جب میں اندر داخل ہوئی تو میں نے ایک دعا کی اور کہا، اے اللہ، ہر اس چیز کے لیے آپ کا شکریہ جو آپ نے مجھے دی ہے اور میں آپ سے مزید کچھ نہیں مانگوں گی کیونکہ آپ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے، لیکن براہ کرم فلسطین پر رحم فرما۔
پھر میں چاروں طرف دیکھنے لگی، میں اپنے طور پر رپورٹنگ کرنے گئی تھی۔ میرے پاس ایک آئی فون تھا، میں نے سوچا، واہ! یہ ایک خاص رپورٹ ہو گی کہ میں رمضان میں ایک ایرانی درگاہ پر ہوں، میرے پاس ایک زبردست کہانی ہے، میں اسے دنیا بھر میں پھیلا سکتی ہوں۔ اگرچہ میں مذہبی کیفیت میں نہیں تھی لیکن یہ احساس ہوا کہ میں مسلمان بننا چاہتی ہوں، حالانکہ میں تجسس کی وجہ سے اور شاید کچھ خفیہ تصاویر لینے کے لیے اندر گئی تھی۔ لیکن جب ہم مرکزی جگہ پر پہنچے تو میں بیٹھ گئی اور ایسا لگا جیسے میں امن کے ایک آبشار کے نیچے بیٹھی ہوں۔ ایسا لگا جیسے میری ہر پریشانی مجھے چھوڑ گئی ہے، میرا دل مکمل طور پر سکون میں تھا۔ مجھے اپنا نام تک یاد نہیں تھا۔ میں لورین بوتھ بالکل بھی نہیں تھی۔ خود سازی اور خود اعتمادی کا وہ سب گھمنڈ، جو کچھ بھی تھا، وہ چلا گیا تھا۔ یہ سب سے بہترین احساس تھا اور میں ہلنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
میں اس کیفیت میں رات کو مسجد میں سوئی۔ صبح ہوئی، میں نے وضو کیا اور میں نے فجر کی نماز ادا کی۔ اس وقت اپنے دل کی یہ بات میں جانتی تھی کہ میں مسلمان تھی۔ اس وقت میں جانتی تھی کہ خدا ایک ہے اور حضرت محمد ﷺ سو فیصد سو فیصد سچے ہیں۔
اسلام قبول کرنے پر ردعمل اور بعد کی زندگی
میزبان: اور پھر کیا ہوا؟ آپ کے آس پاس کے لوگوں کا کیا ردعمل تھا؟
لورین: میں لندن واپس جانے والی پرواز پر اپنی شہادت پڑھے بغیر نہیں جانا چاہتی تھی لیکن مجھے کوئی مل نہ سکا کیونکہ میری پرواز صبح 6 بجے کی تھی۔ تو میں لندن کی ایک مسجد میں گئی۔ سبحان اللہ۔ جب میں نے شہادت پڑھی تو ایسا لگا جیسے میرے منہ سے سونے کی ڈلیاں نکل رہی ہوں۔ ’’اشھد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ ایسا لگا جیسے زلزلہ آیا ہو۔ ’’اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ‘‘ اور وہ زمین پر چھا گیا ہو۔ واہ، یہ یادگار لمحہ تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں اچانک ایک بڑے روئی کے گولے میں آگئی ہوں۔ یہ روئی میں لپٹنے جیسا احساس تھا، بہت نرم۔ اور باقی سب کچھ جیسے دور ہو گیا ہو۔
اگلے دن جب میں اپنے بچوں کو سکول لے جا رہی تھی، وہ مجھ سے آگے بھاگ رہے تھے، میں گھر سے باہر نکلی تو سوچا، تم نے اپنا حجاب نہیں پہنا ہے۔ پھر سوچا، کوئی بات نہیں، میں اب ایران میں تو نہیں ہوں۔ لیکن یہ خیال آتا رہا، تم نے اپنا حجاب نہیں پہنا ہے! تم بے لباس ہو۔ چنانچہ میں گھر کے سامنے کے دروازے سے باہر نہ جا سکی۔ مجھے وہ واحد سکارف ڈھونڈنا پڑا جو کسی نے مجھے دیا تھا، اور پھر اسے ایک عجیب طریقے سے کھینچ کر پہنا۔ پھر میں بچیوں کو سکارف میں سکول لے کر گئی۔ انہوں نے پوچھا، امی! آپ نے حجاب کیوں پہنا ہے؟ میں نے کہا، سردی ہے۔ انہوں نے کہا، گرمی ہے۔ میں نے کہا، جو بھی ہے بس چلو اور اپنے راستے پر جاؤ۔
جب میں سکول پہنچی تو ایک صاحب جو جیوش کرانیکل (یہودی اخبار) کے لیے کام کرتے تھے، وہ میری طرف ایسے دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں ’’اوہ، یہ تو ایک بڑی خبر ہے‘‘۔ میں نے سوچا، اوہ، اب تو میں بہت مشکل میں آ گئی ہوں۔ وہ صاحب ایسے تھے جیسے ان کی ساری کرسمسیں اکٹھی آ گئی ہوں، لیکن میں نے پرواہ نہیں کی اور گھر چلی گئی۔ پھر اگلے سات دن تک سب کچھ بدل گیا۔ میں نماز پڑھنا چاہتی تھی، میں اللہ سے رو کر دعا کرنا چاہتی تھی۔ میں نے اپنا سر زمین پر رکھا جیسا کہ میں نے مسلمانوں کو کرتے دیکھا تھا اور میں نے دو باتیں بار بار کہیں: میں نے کہا: شکر ہے۔ میں نے کہا: معاف کر دیجیے۔ اس زندگی کے لیے آپ کا شکریہ، اس تمام محبت کے لیے جو آپ نے مجھے دی ہے، ہر وہ چیز جو میں نے نہیں پہچانی، خوبصورت بیٹیاں، مجھے محبت ملی ہے، مجھے موقع ملا ہے، میرا ایک اچھا خاندان رہا ہے، اور میں آپ کو پہچانتی ہوں۔ شکریہ۔ اور پھر میں نے کہا، معاف کیجیے، بہت زیادہ معافی، اور میں تقریباً ایک ہفتے تک روتی رہی۔
تب مجھے قرآن کو دوبارہ اٹھانا پڑا اور یہ خوفناک لمحہ تھا۔ میں نے جمعہ کو شہادت پڑھی تھی جب میرے بچے اپنے والد کے ساتھ تھے، کیونکہ ہمارے درمیان علیحدگی ہو چکی تھی۔ اس جمعہ کی رات میں نے سوچا کہ یہ موقع ہے جب بچے موجود نہیں ہیں۔ میں نے شہادت پڑھی۔ اس کے بعد میں گھر جاتی ہوں اور وہاں بیٹھتی یہ سوچتی ہوں کہ چلو کسی مرد دوست کو فون کروں۔ خیال آیا، تم ایسا نہیں کر سکتیں۔ اچھا، چلو ایک سگریٹ پی لیتی ہوں۔ خیال آیا، مجھے سگریٹ نہیں پینا چاہیے کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں نماز پڑھوں گی اور اللہ کا نام لوں گی۔ پھر میں نے اپنی فریج کھولی تو وہاں شراب کی ایک بوتل تھی۔
مجھے ایسا لگا کہ اب تو زندگی بہت بور ہونے والی ہے، یعنی کرنے کے لیے بالکل کچھ نہیں ہے۔ تو میں نے دوبارہ قرآن اٹھایا۔ میں نے کہا: یااللہ، براہ کرم ہمیں ایک اچھا انجام عطا فرما، ایسا نہ ہو کہ میں جہنم جانے والی بن جاؤں۔ مجھے اپنے فیصلے پر پچھتانے نہ دینا۔ میں آپ پر بھروسہ کرتی ہوں۔ تو قرآن نے بس یہ کہا: خوش آمدید، آپ کہاں تھیں؟ خدا آپ سے محبت کرتا ہے، آپ نے صحیح انتخاب کیا ہے، اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
میزبان: واقعی حیرت انگیز ہے۔ اور آپ کے خاندان کا ردعمل کیسا تھا؟
لورین: تو میں نے سوچا کہ جب میرے خاندان کو پتہ چلے گا کہ میں مسلمان ہوں تو یہ ایک بڑی بات ہو گی۔ میری والدہ کا رویہ بہت طنزیہ تھا، انہوں نے کہا، تم پاگلوں کے ساتھ مل گئی ہو۔ کیا تم دہشت گرد بننے جا رہی ہو؟ انہیں بہت خوف تھا۔ لیکن میں ایک اچھی بیٹی کے طور پر پیش آئی۔ میں نے ان کی زندگی کے آخری سالوں میں ان سے محبت کرنے اور چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے بہت محنت کی۔
میرے والد فکرمند تھے کہ ایک آزاد عورت ہونے کے ناطے تم نے ایسا لباس کیوں پہنا ہے؟ تم کسی مرد کو اپنے ساتھ ایسا کیوں کرنے دے رہی ہو، کیونکہ خدا تو نہیں چاہتا کہ تم اسے پہنو، یہ تو مردوں نے تمہیں اسے پہننے کو کہا ہے۔ میں نے کہا، میں یہ خدا کے لیے پہن رہی ہوں۔ وہ کہتے، لیکن تم ویسے بھی خدا کے پاس جا سکتی ہو، تمہیں اس طرح جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور وہ میری ممکنہ شادی کے بارے میں پریشان ہوتے تھے کہ کیا تم غلامی میں چلی جاؤ گی؟ کیا تم ایک نوکرانی بن جاؤ گی؟ وہ کہتے، میری بیٹی تو ایک مضبوط عورت ہے۔ میرا ردعمل ہوتا، آپ یہ سب نہیں سمجھتے۔
لیکن سبحان اللہ، مجھے اپنے والد کے بستر مرگ پر ان سے بات کرنے کا موقع ملا، سبحان اللہ۔ اور مجھے انہیں الفاتحہ پڑھ کر سنانے کا موقع ملا، اور مجھے ان کا ہاتھ تھامنے اور ان کی آنکھوں میں گہرائی سے دیکھنے اور ان کے ساتھ روحانیت اور خدا کی محبت کے حوالے سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اور بالآخر انہوں نے کہا کہ خدا ایک ہے اور حضرت محمد آخری نبی ہیں اور حضرت عیسیٰ ایک نبی ہیں۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔ انہوں نے عربی میں تو نہیں کہا اور میں نے زور بھی نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک خدا ہے، عیسیٰ ایک نبی ہیں۔ اور میں نے جب کہا کہ حضرت محمد ایک عظیم انسان تھے جو ایک نبی تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں مانتا ہوں کہ وہ ایک نبی تھے۔ میرے والد کے انتقال کے بعد مجھے ان کے بارے میں ایک خوبصورت خواب آیا کہ تین امام انہیں غسل دے رہے تھے اور وہ پُر نور تھے، اس لیے ان شاء اللہ۔
میزبان: اُس وقت آپ ایک انگریزی نیوز چینل میں کام کر رہی تھیں، وہاں کیا ہوا؟
لورین: تو پہلی صبح جب میں حجاب پہن کر سکائی نیوز گئی تو بہت مضحکہ خیز صورتحال بنی۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ان کی تربیت ایسے ہوتی ہے کہ سٹوڈیو میں کوئی بھی آجائے تو وہ بہت خوش اسلوبی سے اس کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اُس دن کچھ ایسا نظر آیا کہ جیسے ہر کوئی یہ سرگوشی کر رہا ہو: ’’اوہ میرے خدا، کیا تم نے دیکھا؟‘‘ جونہی میں کسی کے پاس سے گزرتی تو وہ کہتا: ’’ہائے لورین‘‘ (پھر دوسروں کے ساتھ سرگوشیاں شروع ہو جاتیں)۰ میں دیکھ سکتی تھی کہ میرے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ دو دن بعد مجھے کال آئی کہ لورین! ہم کچھ تبدیلیاں کر رہے ہیں تو اب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ بس ختم، انہوں نے دوبارہ کبھی میری خدمات حاصل نہیں کیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اِس وقت سکائی نیوز پر حجاب والی خواتین ہیں؟ ہاں، ماشاء اللہ۔ کیا اخباری دنیا میں حجاب والی خواتین ہیں؟ ہاں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی کسی نومسلم حجاب والی خاتون کو نیوز میں دیکھا ہے؟ کوئی نام بتائیں۔ اب یہ ایک جدوجہد ہے جس کا مرکزی دھارے کی دنیا کو سامنا ہے۔ کیونکہ اگر آپ یہ قبول کرتی ہیں کہ اسلام آپ کا ایمان ہے، اللہ آپ کا رب ہے، تو میڈیا کے معیار کے مطابق، یا تو آپ کو اعصابی بریک ڈاؤن ہوا ہے، بلکہ اعصابی بریک ڈاؤن ہی ہوا ہے، کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کوئی دوسرا آپشن بھی ہے۔ وہ آپ کو سوچ سمجھ رکھنے والے، ذہین اور قابلِ اعتبار شخص کے طور پر کیسے پیش کر سکتے ہیں، جو اپنی عمر کے اس مرحلے میں آ کر (اچانک) یوں کہے: ’’صبح بخیر! میرا نام لورین بوتھ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اللہ ہمارا خدا ہے اور حضرت محمد آخری نبی تھے۔ اب آئیے موسم کی طرف‘‘۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ حجاب والی گہری رنگت کی خواتین کو رکھ سکتے ہیں کیونکہ پھر وہ بس یہ سوچتے ہیں کہ اس نے چھوٹی سی کوئی عجیب چیز پہنی ہوئی ہے۔ لیکن اگر آپ مرکزی دھارے سے ہیں تو ایسی گفتگو کے بغیر معاملہ کیسے چل سکتا ہے کہ جس میں خدا اور اسلام کے بارے میں بات ہو، اور یہ کہ ہم مسلمانوں اور مسلم دنیا کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ الحمد للہ، اب میں ایسی گفتگو کا سامنا کرتی ہوں اور اسے گلے لگاتی ہوں۔
میزبان: کیا کوئی ایسا شخص تھا جسے اسلام کے بارے میں معلوم ہوا اور اس کی زندگی بدل گئی؟
لورین: میں کچھ سال پہلے قطر سے واپس آ رہی تھی، میرے سامنے والا آدمی ایک برطانوی آدمی تھا جس نے بنیان پہنی ہوئی تھی اور اس سے شراب کی بو آ رہی تھی۔ میں نے سوچا، خدایا، میں چار گھنٹے تک اس کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتی۔ ہم ساتھ بیٹھ گئے لیکن مجھے اس سے فاصلہ رکھنا پڑ رہا تھا۔ وہ میری طرف ایسے دیکھتا جیسے میں کوئی گندی چیز ہوں۔ جب کھانا شروع ہوا تو اس نے شراب وغیرہ کی فرمائش کی۔ جبکہ میں پانی پی رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ خدایا مجھے معاف کر دے، یہ اب تک کی سب سے بری پرواز ہے۔ پھر اس نے کچھ اس انداز سے پوچھا، آپ کو پانی چاہیے؟ جیسے میں انگریزی نہیں جانتی۔ میں نے کہا، آپ کا بہت شکریہ۔ میں نے سوچا، مجھے بھی کچھ اچھا جواب دینا چاہیے۔ میں نے پوچھا، کیا آپ میری پنیر لینا پسند کریں گے؟ اس نے کہا، آپ کا بہت شکریہ۔ اس نے پوچھا، آپ کہاں سے ہیں؟ میں نے کہا، میں لندن سے ہوں۔ وہ حیران ہو گیا اور کہا، آپ لندن سے ہیں اور ایسا لباس پہنا ہوا ہے؟ اس نے رخ پھیر لیا اور کچھ دیر بعد کہنا شروع ہو گیا، مجھے افسوس ہے، مجھے افسوس ہے، مجھے افسوس ہے۔ میں نے اسے دیکھا اور پوچھا، خیریت ہے؟ اس نے کہا، ہاں، لیکن میں آپ کے بارے میں خوفناک باتیں سوچ رہا تھا، مجھے افسوس ہے۔ میں نے کہا، آپ نے وہ باتیں مجھ سے کہیں تو نہیں، اس لیے کوئی بات نہیں، فکر نہ کریں۔
مختصر یہ کہ چار گھنٹے کے دوران ہم نے بات چیت کی۔ معلوم ہوا کہ وہ افسردہ ہے اور جینا نہیں چاہتا، وہ ایک برا آدمی ہے۔ میں نے اس سے کہا، ایسے لمحات کسی پر بھی آجاتے ہیں، تب ہم خدا سے دعا کرتے ہیں، تو آپ کس سے دعا کرتے ہیں، کس کو پکارتے ہیں؟ اس نے کہا، میں ایسی کسی چیز پر یقین نہیں رکھتا۔ میں نے کہا، کوئی تو ہو گا جس کے پاس آپ اس حالت میں جاتے ہوں۔ اس نے کہا، اچھا، میرے پاس اپنی ماں کی ایک تصویر ہے، کبھی کبھی میں اس کے سامنے روتا ہوں اور کہتا ہوں، امی، میری مدد کریں۔
یہ درد میں مبتلا ایک چالیس سالہ آدمی ہے۔ میں نے اس سے کہا، اچھا، کیا آپ کی والدہ مذہبی تھیں؟ اس نے کہا، ہاں، وہ بہت دعا کیا کرتی تھیں۔ میں نے کہا، آپ کی والدہ کس سے دعا کرتی تھیں؟ اس نے کہا، خدا سے۔ میں نے کہا، اگلی بار جب آپ ایسا محسوس کریں تو اس سے دعا کریں جس سے آپ کی والدہ دعا کرتی تھیں؟ تو ایسا لگا جیسے ایک بلب روشن ہو گیا ہو۔ اس نے کہا، ہاں، آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، بالکل۔ میرے بیگ میں اللہ کے فضل سے انگریزی میں ایک قرآن تھا، میں نے اسے دے دیا۔ تو یہ برطانوی آدمی جب جہاز سے اتر رہا تھا تو شکریہ ادا کر رہا تھا۔
تو سبحان اللہ، لوگوں کو ضرورت ہے، لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان شاء اللہ ان تک رسائی کے ذرائع تلاش کرنے ہیں۔ میں نے تو اپنے آپ کو یہ سلسلہ قائم کے لیے وقف کر لیا ہے۔ ایسا سلسلہ جو ہمارے نوجوان مسلمانوں کی دیکھ بھال کرے، ہمیں اپنے ورثے پر فخر محسوس کرنے کے قابل بنائے، اور یہ سکھائے کہ ہم اس حوالے سے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ نیز غیر مسلموں اور شبہات رکھنے والے لوگوں کے لیے بھی کہ وہ اپنے سوالات پوچھ سکیں، ان شاء اللہ، اور یہ ایک اچھا مقصد ہے۔
منصوبے اور آخری پیغام
میزبان: کیا آپ ہمیں اپنے اب تک کے اور آئندہ منصوبوں کے بارے میں بتا سکتی ہیں؟
لورین: میرا بنیادی منصوبہ تو دنیا کو ’’اسلامی رویہ‘‘ سے متعارف کرانا ہے کہ طیب کیا ہے اور بھلائی کیا ہے، ہم اس کا احیا کیسے کر سکتے ہیں اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق کیسے گزار سکتے ہیں، الحمد للہ۔ میرے خیال میں ان بڑے منصوبوں میں سے ایک، جو مجھے واقعی متحرک کرتا ہے، وہ مسلمانوں سے اس بارے میں بات کرنا ہے کہ ہمارا ورثہ کتنا عظیم ہے اور ہم اس پر غور و فکر کر کے دوبارہ عظیم کیسے بن سکتے ہیں، الحمد للہ۔
میں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام "In Search of a Holy Land" ہے۔ اللہ کے فضل سے اس کتاب کی ایک آڈیو بُک بھی بنائی ہے تاکہ لوگ اسے سُن سکیں، جو آن لائن ہے۔ اور میں نے ایک پروڈیوسر کے ساتھ مل کر اپنی کتاب کو ایک ڈرامے کی شکل دی، جس کا نام ہم نے "Accidentally Muslim" رکھا۔ ہم نے ایڈنبرا فرینج فیسٹیول میں تقریباً 900 افراد کے سامنے اسے پیش کیا جن میں زیادہ تر غیر مسلم تھے۔ مجھے اسلام کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنا اچھا لگتا ہے، جیسا کہ وہ حقیقت میں ہے، دل پر اثر کرنے والا اور معاشرے پر مثبت طور پر اثرانداز ہونے والا۔
میزبان: اگر آپ کو دنیا کے تمام غیر مسلموں سے بات کرنے کا موقع ملے تو آپ ایک منٹ میں کیا کہنا چاہیں گی؟
لورین: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ آپ لوگ جو اِس وقت گھر بیٹھے ہیں، آپ پر ایسے لمحات آتے ہیں جب آپ نہیں جانتے کہ آپ زندہ کیوں ہیں۔ آپ پر اداسی، نقصان اور غم کے لمحات آتے ہیں۔ جب تفریح اُس طرح آپ کے کام نہیں آتی جیسے عام حالات میں آتی ہے۔ آپ تکلیف میں ہیں۔ آپ کسی سے مدد مانگنا چاہتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ کیسے پوچھیں۔ سب کچھ عجیب اور غیر حقیقی محسوس ہوتا ہے۔ جب آپ ایسا محسوس کریں تو باغ میں ایک گلاب کو دیکھیں اور سوچیں کہ یہ ہمارے لیے خوشبو کیوں بناتا ہے۔ جب آپ ایسا محسوس کریں تو شہد کی مکھیوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ وہ شہد حیرت انگیز طور پر کتنا مزیدار ہے، اس میں شفا ہے اور ہم اسے گلے کی خراش کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ سوچیں کہ فطرت ہماری خاطر کیسے موجود ہے۔ یہ کتنا خوبصورت ہے کہ بارش زمین میں، درختوں کی جڑوں میں جاتی ہے، اور پھر درخت ایک پتی یا پھول اُگاتے ہیں، وہ پھول پھر پھل بن جاتا ہے جسے ہم کھا سکتے ہیں اور اس میں ہمارے لیے بھلائی ہے۔ اور اپنے رب کی محبت اور سخاوت بھری موجودگی کو محسوس کریں۔
میزبان: سسٹر لورین، ہمیں وقت دینے کے لیے آپ کا شکریہ، ہم کسی اور پروگرام میں بھی آپ سے ملیں گے۔
لورین: ان شاء اللہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میزبان: وعلیکم السلام۔
