غزہ کی موجودہ صورتِ حال عالمی سیاست کا سب سے زیادہ ہاٹ ٹاپک ہے۔ جنگ بندی کی باتیں ہر فورم پر چل رہی ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا جنگ بندی واقعی فلسطینی ریاست کے قیام میں کوئی حقیقی رول ادا کر سکتی ہے؟ یا یہ صرف ایک عارضی وقفہ ہے، جو میدان میں بنیادی کچھ بھی نہیں بدلتا؟ یہ تجزیہ اسی سوال کے متعلق ہے۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ جنگ بندی سے غزہ کے معصوم اور نہتے لوگوں کا قتل عام کسی طرح رکا ہے۔ مگر اسرائیل اب بھی ان پر ذرا ذرا سے بہانے سے بمباری کر دیتا ہے اور ایک ہی حملہ میں سو سو سے زیادہ لوگوں کو مار دیتا ہے، وہ برابر اور اعلانیہ حماس کی قیادت کو نشانہ بنا رہا ہے۔ نہ امریکہ کچھ کہتا ہے اور نہ وہ ممالک جنہوں نے گارنٹی اور ضمانت لی تھی مثلاً ترکی، قطر اور مصر۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ جنگ بندی معاہدہ کس قدر نازک اور ناپائدار ہے۔
جنگ بندی کا اصل فائدہ تب ہوگا جب یہ سیاسی ڈھانچے کو بدلنے کا آغاز بنے یعنی جنگ بندی اُس وقت مفید ہوگی جب وہ صرف ''خاموشی'' نہ ہو بلکہ ایک سیاسی ٹرننگ پوائنٹ بنے۔ اگر جنگ بندی کے ساتھ:
- ریاستِ فلسطین کے باضابطہ قیام کے وعدے ہوتے،
- اسرائیل کے ظالمانہ قبضے و تسلط کے خاتمے کا روڈ میپ ہوتا،
- عالمی برادری کی گارنٹی موجود ہوتی اور فلسطینی قیادت متحد ہوتی،
تو پھر اس جنگ بندی کو صاف ایک مثبت اقدام مانا جا سکتا تھا۔ افسوس کہ ان میں سے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ معاہدہ میں ریاست فلسطین کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا ہے۔ بس خود اختیاری کے لیے Palestinian's aspirations کی بات کہی گئی ہے۔
اسی طرح ٹرمپ کا جو بیس نکاتی پروگرام اقوام متحدہ نے امریکہ کی ایماء پر منظور کیا ہے وہ بھی غزہ کے اوپر بدنام زمانہ ٹونی بلیئر کی سربراہی میں ایک عالمی باڈی کو مسلط کرتا ہے جس میں فلسطینی مقتدرہ کا بھی کوئی رول نہیں رکھا گیا ہے۔ کیا یہ سامراجی منصوبہ بندی کی نئی شکل نہیں؟ حماس نے اس پر اپنی ناراضگی جتائی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام عرب اور مسلم ممالک اس پر دل و جان سے رضامند ہوگئے ہیں۔ کیوں ہو گئے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہو رہا ہے۔ روس اور چین نے اس پر اعتراضات کیے ہیں مگر جب خود مسلمان ہی اس کو تسلیم کر لے رہے ہیں تو ان کا اختلاف ’’مدعی سست گواہ چست‘‘ کا مترادف ہو کر رہ جاتا ہے۔
لیکن کیا زمینی حقیقتیں فلسطینی ریاست کی اجازت دیتی ہیں؟
سچی بات یہی ہے کہ زمینی حقیقتیں اتنی سیدھی نہیں۔ زمینی حقیقتیں کافی بدل گئی ہیں اور روز بروز بدلتی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی سیٹلمنٹس بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ان پر دنیا میں شور بھی خوب مچتا ہے، بیان بازیاں ہوتی ہیں، اقوام متحدہ میں قراردادیں پاس ہوتی ہیں، مگر گراؤنڈ پر کچھ بھی نہیں بدلتا۔ اسرائیل اِس کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے اور موجودہ شاطر امریکی حکومت بھی بالآخر عربوں اور فلسطینیوں کے آگے یہی حتمی پلان رکھے گی کہ
- اب غزہ، مغربی کنارے اور فلسطین میں زمینی حقیقتیں بدل چکی ہیں جن کو مان لینے کے سِوا اور کوئی چارہ نہیں۔
- اسرائیلی سیٹلرز، جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں، کو نکالا نہیں جا سکتا۔
- اسرائیل کو کسی چیز پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کو قائل کرکے فلسطینیوں کے لیے کچھ رعایتیں لی جا سکتی ہیں اور وہ ایک فلسطینی میونسپل کارپوریشن سے عبارت ہوں گی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
- لہذا ان کو کسی آزاد ریاست کے قیام کی ضد چھوڑ دینی چاہییے۔
اسرائیل کا بیانیہ اور امریکہ کا عملی کردار
اسرائیل چاہتا تھا کہ جنگ بندی ہو تو صرف اس لیے کہ اسے عسکری و سیاسی فائدہ ملے ۔ نہ اس لیے کہ فلسطینی ریاست کے لیے کوئی کھڑکی کھلے۔ اب تک کے حالات یہی بتاتے ہیں کہ امریکہ کا رول محض اسرائیل کے بیانیہ کو آگے بڑھانے کا رہا ہے۔ امریکہ اب ''دو ریاستی حل'' کو گول مول لفظوں میں سپورٹ کرتا ہے، شاید اپنے عرب پارٹنرز کو دکھانے کے لیے۔ وہ اس کی صراحت نہیں کرتا۔ چنانچہ اس کے دور یاستی حل کے لیے پریکٹیکل اقدامات انتہائی محدود ہیں۔ اس کا فوکس زیادہ تر ''ریجنل اسٹیبلٹی'' پر ہے، فلسطینی ریاست کے قیام پر نہیں۔ گرچہ دکھانے کے لیے اس لفظ کو غزہ کا نظم و انصرام سنبھالنے والی عالمی باڈی کے ڈرافٹ رزولیوشن میں شامل کر لیا گیا ہے، جس کی طرف دو سالوں میں بتدریج بڑھا جائے گا۔
عرب دنیا کی پوزیشن
بڑے اور با رسوخ عرب ممالک اس وقت اپنے معاشی ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ وہ فلسطینی ریاست کے مسئلے کو زبانی اور بیان بازی کی حد تک تو سپورٹ کرتے ہیں، مگر اس کے لیے بڑے اسٹریٹیجک اور سیاسی رسک لینے کے موڈ میں نہیں۔ حال ہی میں سعودی حکمراں (ولی عہد) محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس کی وزٹ پر گئے جس کے نتائج سے بھی اِسی عندیہ کو تقویت ملتی ہے۔
لہٰذا اگر جنگ بندی صرف جنگ روکنے کا نام ہو، تو اس کا فائدہ زیرو ہے۔ یہ سب سے اہم نقطہ ہے کہ اگر جنگ بندی بغیر سیاسی روڈ میپ، بغیر بین الاقوامی دباؤ، اور بغیر فلسطینی داخلی استحکام کے ہے، جیسا کہ وہ اب نظر آ رہی ہے، تو وہ فلسطینی ریاست کے مسئلے کو آگے نہیں لے کر جاتی۔ اس سے صرف field کا temperature کم ہوتا ہے، عارضی مدت کے لیے فلسطینیوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ ایسی فائر بندی نہ قوم کو طاقت دیتی ہے، نہ ان کی سفارتی پوزیشن کو۔
البتہ ایک تیسرا امکان بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر عالمی سطح پر سوشل پریشر، میڈیا رپورٹنگ، پالیسی تھنک ٹینکس، نوجوانوں کی آن لائن activism ایک بڑی ''wave'' بنا دیں، تو یہ جنگ بندی ریاستِ فلسطین کے لیے ایک اسٹریٹجک لانچ پیڈ بن سکتی ہے۔ نئی نسل (Gen Z) کی ڈیجیٹل طاقت آج کسی بھی پالیسی سازی میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ اگر اس طاقت کو فلسطینی کاز کی طرف سمارٹ طریقے سے موڑا جائے تو عالمی رائے سازی اس کے لیے ہموار اور فعال ہو سکتی ہے۔ یہ چیز کسی قدر عالمی منظرنامے میں موجود بھی ہے کہ ایک عوامی مہم بھی فلسطین کے لیے مغرب میں چل رہی ہے۔ اور بہت ساری کلیدی یوروپی ریاستوں نے فلسطین کو مستقل ریاست کا درجہ بھی دے دیا ہے۔ جس کا پریشر اسرائیل پر خاصا پڑا ہے۔ وہ تو امریکہ بہادر کا آشیرواد اس کو حاصل ہے جو وہ یوروپی پریشر کو آسانی سے نظر انداز کر رہا ہے۔ ورنہ امریکی پالیسی میں اسرائیل کے تئیں تھوڑی تبدیلی آجائے (جس کا فوری طور پر تو کوئی امکان نہیں لیکن مستقبل میں ایسا ہونے کی توقع خاصی ہے) تو اسرائیل کو یقیناً اپنے رویوں پر نظرثانی کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔
مستقبل کا منظرنامہ
فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اصل فیصلہ کن عوامل تین ہیں:
۱۔ فلسطینی سیاسی اتحاد: یعنی غزہ، مغربی کنارہ اور فلسطینی ڈائسپورا کا ایک متحد سیاسی بیانیہ سامنے آئے۔ ایک ڈھیلے ڈھالے اور منتشر انداز میں یہ بیانیہ کسی حد تک موجود ہے۔
۲۔ فلسطین کے لیے بین الاقوامی legitimation جو اس وقت بہت سارے بڑے ممالک کے فلسطین کو تسلیم کر لینے کے نتیجہ میں عملاً موجود ہے۔ کہ دنیا فلسطین کو صرف مظلوم کے طور پر نہیں، ریاست کے امیدوار کے طور پر دیکھے۔ اور فی الوقت امریکہ کو چھوڑ کر دنیا اُسے اس پوزیشن میں دیکھ رہی ہے۔
۳۔ اسرائیل پر عملی دباؤ: ایسا سفارتی و اقتصادی پریشر جس کے بوجھ کو اسرائیل ignore نہ کر سکے۔ یہ اقتصادی و سفارتی پریشر عرب دنیا کی طرف سے آ سکتا ہے، ترکی کی طرف سے آ سکتا ہے، اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی جانب سے پڑ سکتا ہے۔ افسوس کہ اسرائیل پر یہ پریشر کسی بھی صورت میں کسی بھی طرف سے نہیں پڑ رہا ہے۔ اگر جنگ بندی ان تینوں عوامل کو اور مضبوط کرے تو یہ فائدہ مند ہے۔ اگر نہیں، تو یہ بس ایک پاز بٹن ہے پلے بٹن نہیں۔ جنگ بندی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مفید تب ہوگی جب یہ سیاسی تبدیلی کے دروازے کھولے۔ اگر یہ صرف اسرائیلی بمباری روکنے تک محدود ہو تو اس کا فائدہ انتہائی محدود ہوگا۔ فارن پالیسی کی دنیا میں جنگ کا ہر وقفہ بے معنی ہوتا ہے جب تک وہ کسی بڑے strategic shift کی طرف نہ لے جائے۔ اب معاملہ صرف جنگ بندی کا نہیں، اس بات کا ہے کہ اس جنگ بندی کو فلسطینی ریاست کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ آئیے کہ دیکھیں کہ مسلم دنیا اور عرب قیادت اور فلسطینی کیا کر رہے ہیں اور کیا ان کی کارکردگی سے کوئی مثبت امید کی جا سکتی ہے۔ نیز امریکہ غزہ میں کیا کر رہا ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے اور کیا اس سے کسی خیر کی توقع ہے؟
غزہ میں جنگ بندی کے بعد عرب، ترک اور مسلم قیادتوں کی صورتحال
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مسلم دنیا کی قیادتوں سے عملی اقدامات کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن موجودہ منظرنامہ ان کی محدود سرگرمیوں اور کمزور حکمتِ عملی کا عکاس ہے۔
۱۔ عرب قیادت: عرب ممالک زیادہ تر سفارتی بیانات، اجلاسوں اور تشہیری سرگرمیوں تک محدود ہیں۔ عملی اقدامات کی کمی واضح ہے۔ توجہ زیادہ تر غزہ کی تعمیر نو کے معاملہ میں بین الاقوامی مقبولیت حاصل کرنے پر ہے، نہ کہ مسئلہ کے مستقل حل پر۔ کیونکہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات عرب فیصلوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں اور واشنگٹن ظاہر طور پر تل ابیب کی طرف واضح جھکاؤ رکھتا ہے۔
۲۔ ترکی: ترکی غزہ کے بعد کے مرحلے میں اپنا علاقائی کردار بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل کے خلاف وہ برابر سخت بیانات دے رہا ہے۔ اس نے اسرائیل کے دہشت گرد وزیراعظم نتن یاہو اور اس کے وزیر جنگ و دوسرے حکام کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے جو علامتی ہیں اور کوئی توقع نہیں کہ ان پر کبھی عمل ہوگا۔ کیونکہ اس کی تجارت بڑی حد تک ابھی بھی اسرائیل سے جاری ہے ۔ اسرائیل کو آذربائیجان سے گیس کی سپلائی ترکی کے راستے سے ہی ہوتی ہے ۔ سخت بیانیے کے باوجود عملی میدان میں اس کی گنجائش محدود ہے۔ آذربائجان سے اسرائیل کی طرح ترکی کے بھی نہایت گہرے تعلقات ہیں۔ ترکی خطہ میں مستقبل کی سیاسی و معاشی تشکیل میں مؤثر مقام چاہتا ہے، لیکن امریکا اور بعض عرب حکومتیں اس کے اثر کو محدود رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ امریکہ ماہرِ معیشت جان مرشے مائر کے نزدیک ترکی اپنے اہداف تیزی سے حاصل کرنے کی طرف گامزن ہے۔
۳۔ ایران: اور اس کا علاقائی محور ایران جنگ بندی کے بعد خود کو ‘‘کامیاب سفارتی کھلاڑی’’ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عملی طور پر اس کی توجہ نیوکلیئر مذاکرات اور معاشی دباؤ میں کمی پر ہے۔ اس کے علاقائی پراکسی گروہ نسبتاً خاموش ہیں تاکہ کسی بڑے تصادم سے بچا جا سکے۔ کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ وہ ہر وقت امریکہ اور اسرائیل کے نشانہ پر ہے اور اگر اس پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ پہلے کی طرح ہی دنیا میں بے یار و مددگار ہوگا۔
۴۔ فلسطینی قیادت: فلسطینی صفوں میں عدم اتحاد جوں کا توں برقرار ہے۔ محمود عباس کی الفتح اور فلسطینی مقتدرہ ویسی کی ویسی ہی ہے، کرپٹ، غیر متحرک اور غیر فعال۔ اسرائیل کا دعوا ہے کہ حماس جنگ کے بعد خود کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن کیسے؟ یہ نہ سمجھ میں آرہا ہے اور نہ اس کے ٹھوس شواہد ہیں۔ جبکہ فلسطینی اتھارٹی عالمی حمایت کے ذریعے غزہ میں واپسی چاہتی ہے۔ دونوں فریقوں کے اختلافات کسی جامع فلسطینی لائحہ عمل کو روک رہے ہیں۔ جنگ بندی معاہدے کے مطابق حماس نے اسرائیل کے تقریباً تمام زندہ و مردہ یرغمالی واپس کر دیے ہیں۔ دو تین مردہ باقی ہیں تو غزہ کے ملبوں اور کھنڈرات میں ان کی تلاش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے تباہ حال لوگوں کو شدت سے اس بات کا انتظار ہے کہ اب اسرائیل معاہدے کے دوسرے مرحلہ یعنی تعمیرِ نو کی طرف جائے۔ لیکن نتن یاہو مختلف حیلوں بہانوں سے ابھی تک اس سے گریز کر رہا ہے، وہ اور اس کے شدت پسند وزیر کسی بھی طرح جنگ کی طرف لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ حماس اپنے ہتھیار ڈالے تبھی بات آگے بڑھ سکتی ہے اور نتن یاہو اس بات کو بار بار دہراتا ہے کہ حماس کو بین الاقوامی باڈی غیر مسلح کرے ورنہ ہم خود کریں گے ۔ جبکہ حماس کا موقف ہے کہ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ فلسطینیوں کا قومی فیصلہ ہونا چاہیے، البتہ وہ اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔
۵۔ عالمی مسلم ادارے: او آئی سی اور دیگر مسلم اداروں کی سرگرمیاں زیادہ تر بیانات اور اجلاسوں تک محدود ہیں۔ ان کی طرف سے کوئی مؤثر عملی منصوبہ یا طویل المدت حکمتِ عملی سامنے نہیں آ سکی۔ نتیجہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد مسلم قیادتوں کا مجموعی کردار سست، غیر مؤثر اور بیان بازی پر مبنی ہے۔ اور ان کی جانب سے غزہ کے مستقبل، سیاسی حل، یا اگلی ممکنہ جارحیت سے بچاؤ کے لیے کوئی مشترکہ، مضبوط اور طویل المدت منصوبہ اب تک سامنے نہیں آیا۔
محمد بن سلمان کے دورۂ امریکہ پر بھی ایک نظر ڈال لیں
تجزیاتی نقطہ نظر سے محمد بن سلمان اور ٹرمپ کی ملاقات میں سب سے مرکزی موضوعات میں عسکری تعاون، توانائی اور ٹیکنالوجی اور سعودی سرمایہ کاری شامل تھے۔ خاص طور پر سعودی عرب مستقبل میں جوہری توانائی اور AI میں امریکہ کا تعاون چاہتا تھا۔ یہ ملاقات ان سرمایہ کاری کے وعدوں کے تسلسل کی علامت تھی جو پہلے ہی کر لیے گئے تھے۔ امریکی حکومت نے اس موقع پر سعودی عرب کو ایف 35 جنگی طیارے بیچنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اور سعودی عرب کو سب سے بڑا غیر ناٹو اتحادی تسلیم کیا ہے ۔ جس سے خطہ میں سعودی عرب کی دفاعی قوت میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔
سعودی عرب اپنی سلامتی کو مضبوط کرنے کے لیے امریکہ سے دفاعی ضمانتیں چاہتا ہے، خاص طور پر ایران اور خلیجی خطے کی جیو پولیٹیکل کشیدگی کے پیشِ نظر۔ حالانکہ انہیں ضمانتوں کے لیے تو اُس نے پہلے ہی سے پاکستان سے دفاعی معاہدہ کیا ہے جو خود ایک نیوکلیئر قوت ہے۔ مزید برآں ٹرمپ اور محمد بن سلمان کے تعلقات خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو دوبارہ مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ ملاقات دونوں کے لیے خطے کی نئی جہتوں کو تشکیل دینے کا موقع تھی۔ امریکی سعودی تعلقات سعودیہ کو ایک زیادہ فعال اور مضبوط علاقائی کردار ادا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں خاص طور پر ایران کے خلاف اور دیگر علاقائی مد مقابلوں یعنی متحدہ عرب امارات کے مقابلہ میں۔
انسانی حقوق کے حوالہ سے
سعودی ولی عہد کی شہرت انسانی حقوق کے لحاظ سے پیچیدہ ہے، خاص طور پر سعودی نژاد اور امریکی شہریت کے حامل صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے کی وجہ سے۔ جن کو کئی سال پہلے ترکی دارالحکومت کے اندر اپنے سفارت خانہ میں ولی عہد نے براہ راست حکم دے کر بے رحمی سے اور بہیمانہ انداز میں قتل کرا دیا تھا۔ ٹرمپ نے اس واقعے پر میڈیا کے سامنے ردعمل دیتے ہوئے خاشقجی کے قتل کی شدت کو یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ‘‘بہت لوگ خاشقجی سے نا خوش تھے‘‘۔ اور اسی پریس کانفرنس میں ولی عہد نے دہشت گردی کے حوالہ سے اپنے امریکہ کے ساتھ تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے جمال خاشقجی کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہونے دیں گے ۔ دی واشنگٹن پوسٹ کا خیال ہے کہ یہ ملاقات انسانی حقوق کی سنگینی کو پسِ پردہ ڈال کر صرف ا سٹریٹیجک اور اقتصادی مفادات کو اولیت دینے کی مثال ہے۔
فلسطینی مسئلے پر اثرات
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی-سعودی قریبی تعلق فلسطینی ریاست کے قیام کی بات چیت کو پسِ منظر میں ڈال سکتا ہے، کیونکہ اس میں صرف دو طرفہ اقتصادی اور سیکیورٹی مفادات کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ لیکن بظاہر محمد بن سلمان نے ٹرمپ سے اپنی ملاقات میں اس بات کا اظہار صاف صاف کیا کہ وہ ابراہیمی معاہدات کا حصہ تو بننا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دو ریاستی حل کا کوئی روڈ میپ پہلے بن جائے ۔ اگر سعودی پرنس امریکی پریشر میں آکر ٹرمپ کی بات مان جاتے اور اسرائیل سے باضابطہ سفارتی تعلقات کے لیے اپنے فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبہ سے دستبردار ہو جاتے تو پھر پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور دوسرے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے لائن لگا لیتے۔ اب اگر وہ امریکی پریشر میں نہیں آئے اور اپنے مطالبہ پر جمے رہے تو یہ فلسطینیوں کے لیے یہ ایک امید بھری خبر ہے۔
امریکی سیاسی فائدے خاص طور پر ٹرمپ کے نقطہ نظر سے
امریکی اندرونی سیاست میں، یہ ملاقات ٹرمپ کی وہ حکمت عملی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد تیل اور سلامتی کو لے کر دیرپا شراکت ہے، اور وہ سعودی سرمایہ کاری کو ایک اہم اثاثہ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ اس وقت امریکہ میں تعلیم، تحقیق، اے آئی اور آئی ٹی انڈسٹری سمیت مختلف اہم میدانوں میں سعودی عرب بہت بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کو 6 کھرب ڈالر سے بڑھا کر محمد بن سلمان نے 10 کھرب ڈالر کر دیا ہے۔ جس سے اس کا اقتصادی اثر و رسوخ بہت بڑھ سکتا ہے۔ اور اگر وہ سرمایہ کاری کے کارڈ کو اسمارٹ انداز میں کھیل سکے تو امریکہ میں اس کا سیاسی رسوخ بھی بڑھ سکتا ہے۔ مگر سعودی عرب یا دوسرے عرب ممالک کی امریکہ میں کوئی ایسی لابنگ نہیں ہے جیسی ایپیک (AIPAC) یعنی (American Israel Public Affairs Committee) کے ذریعہ اسرائیل کی لابی ہے۔ ویسے نئے امریکی سعودی تعلقات دو طرفہ فائدوں کے مد نظر قائم ہو رہے ہیں۔ جن سے سعودی ولی عہد کو وہ سفارتی چہرہ مل سکتا ہے جو ان کے بعض ماضی کے اقدامات سے متاثر ہو چکا ہے۔ اور امریکہ کو زبردست معاشی فائدے ہوں گے۔
کیا سعودی-امریکی اتحاد فلسطینی مفادات کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، یا کسی نئے امن ڈھانچے کی بنیاد رکھے گا؟ جو رپورٹیں اس دورہ کی ملیں ان سے مجموعی طور پر اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ فلسطین کے مسئلہ پر ولی عہد کے اِس دورہ کے کوئی مثبت اثرات پڑیں گے۔
امریکہ غزہ سیز فائر کے بعد کیا کر رہا ہے؟
امریکی اعلان کے مطابق جنگ بندی کے بعد ’’نیا مستقبل‘‘ بنانے کا خیال اس کی تعمیر نو کا ایک مرکزی جزو ہے۔ العربیہ کے اردو سیکشن میں شایع ایک رپورٹ کہتی ہے کہ اس پر اختلاف ہو رہا ہے کہ امریکہ غزہ میں خود اپنا براہ راست کنٹرول قائم کرے گا یا نہیں۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک تجویز کے مطابق، جنگ کے بعد غزہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کا منصوبہ ہے، یعنی امریکا غزہ میں ایک قسم کا انتظامی کنٹرول نافذ کرے۔ اسی رپورٹ میں یہ دعوا بھی کیا گیا ہے کہ امریکہ خود حماس سے براہ راست مذاکرات کر رہا ہے ۔ العربیہ کے مطابق امریکہ کے خاص ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز پر حماس غور کر رہی ہے، اور اندازہ ہے کہ مذاکرات میں ترمیمات کی گئی شکل حماس کو موصول ہوئی ہے۔ رپورٹوں میں یہ بھی آ رہا ہے کہ امریکہ غزہ میں ڈرونز استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے (یا عملاً کر رہا ہے) تاکہ جنگ بندی کی نگرانی کی جا سکے اور ممکنہ خلاف ورزیوں پر نظر رکھی جائے۔ تاہم اب تک کی تاریخ یہ رہی ہے کہ امریکہ اسرائیل کی ساری خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرکے ان کو بھی حماس کے سر ہی منڈھتا رہا ہے اس لیے اس کی یہ تجویز بھی بہت پریشان کن ہے۔
بین الاقوامی امن فورس کی تجویز
امریکہ نے یو این سیکیورٹی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی اور منظور کرا لی ہے جس میں غزہ کے لیے دو سال کے لیے امن فورس کی تجویز ہے۔ اس امن فورس میں آذربائجان، ترکی، پاکستان، قطر، مصر اور انڈونیشیا وغیرہ کے فوجی دستے ہوں گے۔ لیکن ترکی دستوں کو شامل کرنے پر اسرائیل نے سخت اعتراضات کیے ہیں اور غالباً ان کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ وہ امن فورس ہتھیاروں کی غیر فعالیت، سیکیورٹی اور امداد کے انتظامات میں مدد دے گی۔ یعنی بالواسطہ یہ اسرائیل کا ہی کام کرے گی اور فلسطین میں کسی بھی طرح کی مسلح مزاحمت پنپنے کے امکان کو کچلنے کی کوشش کرے گی۔
نگرانی اور امداد کے لیے امریکی اہلکار
تقریباً 200 امریکی فوجی اہلکار اسرائیل بھیجے گئے ہیں تاکہ وہ ایک civil-military coordination center قائم کریں جو غزہ کی جنگ بندی کا نفاذ، امدادی لاجسٹکس اور سیکیورٹی کا انتظام کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو امن فورس مختلف عرب اور مسلم ملکوں سے جائے گی وہ اسی کمانڈ سینٹر کے تحت کام کرے گی۔
غزہ کی تقسیم کا منصوبہ
گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی منصوبہ بندی یہ ہے کہ غزہ کو دو زونوں میں تقسیم کیا جائے:
- گرین زون: بین الاقوامی اور اسرائیلی فورسز کی نگرانی میں ہو گا جہاں تعمیر نو ہو گی۔ یہاں اسرائیل نے پیلے رنگ کی عارضی علامات لگا دی ہیں اور اس خطہ میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہیں آ جا سکے گا۔
- گرے زون: وہ علاقے جہاں فوری بحالی ممکن نہ ہو گی، اور جہاں مستقبل میں زیادہ محدود وسائل ہوں گے۔ الجزیرہ کے مطابق یہ وہ علاقہ ہے جہاں حماس کا کنٹرول کسی نہ کسی صورت میں ہے ۔ اس علاقہ کو ناقابلِ رہائش بنا دیا گیا ہے اور مزید بنایا جائے گا تاکہ فلسطینی لوگ مجبوری اور لاچاری میں تنگ آ کر دوسرے ممالک جانے کے آپشن پر غور کریں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل عراق اور افغانستان میں سابق امریکی حکمتِ عملی کی یاد دلاتا ہے، اور اسے امریکی قبضے کی صورت سمجھا جا رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کا منصوبہ ویسا نہیں ہوگا جیسا کہ عرب لوگوں اور مسلمانوں کے درمیان پھیلایا گیا ہے بلکہ اس کو بھی خطہ میں وسیع تر امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے گا، بھلے ہی اس کے لیے بھاری رقومات ثروت مند عرب ملکوں سے وصولی جائیں۔
امریکی فوجی امداد اسرائیل کو
جنگ کے دوران اور بعد میں امریکہ نے اسرائیل کو بھاری فوجی امداد فراہم کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 21.7 ارب ڈالر امریکی فوجی امداد اسرائیل کو دی گئی ہے جو اب بھی جاری ہے۔ اور اس کی وجہ سے امریکی ثالثی مشکوک ہو جاتی ہے۔
اسرائیلی معاشرے کی فلسطینیوں کے بارے میں رائے
امن اور بقائے باہم (coexistence) کے بارے میں شکوک و شبہات
Pew Research Center کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، صرف تقریباً 26 فیصد اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست اور اسرائیل پُر امن طور پر ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی سماج کی بہت بڑی اکثریت فلسطینی ریاست کے خیال کو مسترد کرتی ہے۔ یہ سروے یہ بھی کہتا ہے کہ وہ لوگ جو اسرائیلی-عرب تنازع کو ‘‘بہت بڑا’’ تنازع سمجھتے ہیں، وہ امن کے امکانات کے بارے میں نسبتاً کم امید رکھتے ہیں۔ اسی سینٹر کا ایک سروے بتاتا ہے کہ اسرائیلی عوام میں پائیدار امن کے امکانات پر شک بڑھ رہا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ جو لوگ امن میں دیکھتے ہیں وہ اعتماد کی کمی ہے، یعنی فلسطینی اور اسرائیلی عوام کے درمیان اعتماد بہت کم ہے۔ اور یروشلم (Jerusalem) کا مستقبل بھی پائدار امن کے لیے ایک بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔
آئیڈیولوجی کا فرق
نظریاتی لحاظ سے جو لوگ اسرائیل میں بائیں بازو (لیفٹ) کے نظریہ کے ہیں، ان میں امن اور فلسطینی اتھارٹی پر بھروسہ کرنے کا رجحان زیادہ ہے، جبکہ دائیں بازو والے لوگ نسبتاً زیادہ شکوک رکھتے ہیں۔ لیکن لیفٹ کے لوگ بہت کم بچے ہیں۔ اب تو سارا اسرائیلی معاشرہ متشدد بن چکا اور جنونی حاخاماؤں کے زیر اثر ہے۔
مذہبی حیثیت کا فرق
سیکولر یا روایتی (traditional) یہودیوں میں زیادہ لوگ سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں میں امن کی خواہش ہے۔ جبکہ انتہائی مذہبی گروپ جن کی اکثریت ہے اور جن کے بغیر کوئی حکومت اب نہیں بن سکتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی امن سے رہنا ہی نہیں چاہتے ۔ ایک انسٹیٹیوٹ (INSS) کی فوکس گروپ اسٹڈی بتاتی ہے کہ کچھ اسرائیلی یہ سوچتے ہیں کہ غزہ پر کنٹرول بین الاقوامی یا عرب فورس کو دے دینا چاہیے تاکہ غزہ کو ٹھیک کیا جائے۔ سروے یہ بھی بتاتے ہیں کہ عام یہودی اور اسرائیلی خود اپنی سیاسی قیادت سے بھی غیر مطمئن ہیں۔ چنانچہ اسی سروے میں عام رائے یہ نکل کر آئی کہ سیاسی لیڈرشپ (اسرائیلی حکومت) حالات کو صحیح طریقے سے نہیں دیکھتی بلکہ وہ حقیقت سے کٹ گئی ہے اور ذاتی مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔
جودیائی یا انتہا پسند بیانیہ
اس بیانیہ کی اسیر فی الحال اسرائیلی عوام کی اکثریت ہو چکی ہے۔ یہ خیال عام کیا جا چکا ہے کہ تاریخی طور پر فلسطین نام کی کوئی چیز کبھی نہیں پائی گئی۔ اور یہ پورا خطہ القدس، غزہ اور مغربی کنارہ سب مقدس و موعود ارضِ اسرائیل کا حصہ ہے۔ اسی لیے اسرائیلی میڈیا میں غزہ اور مغربی کنارہ کو جوڈیا سمیرا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ساتھ ہی فلسطینی لوگوں بلکہ تمام عربوں کو جنگلی وحشی اور غیر مہذب (Gentile) قرار دینے کا رجحان غالب ہے۔
اسی طرح اسرائیلی سماج غزہ میں اپنی فوج کے ذریعہ ہوئے قتل عام کو سپورٹ کرتا ہے اور اس کو اس ذرا بھی پشیمانی یا پچھتاوا نہیں ہے۔ فرانسیسی جریدہ Le Monde میں شایع شدہ بعض رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اسرائیلی میڈیا اور سیاست کے بڑے حلقوں میں فلسطینیوں کو غیر انسانی انداز میں پیش کرنے کا رجحان ہے۔ یہی جریدہ بتاتا ہے کہ بعض اعلیٰ سطحی سیاستدانوں کے بیانات میں غزہ کے حوالے سے سخت زبان استعمال کی جاتی اور ان کو خطہ سے نکال دینے کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ جو معاشرے کے انتہا پسند حصے کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید یہ کہ اسرائیلی مستقبل کے خوف میں مبتلا ہیں۔ اسرائیلی عوام میں جنگ کے بعد کی تشویش کافی عام ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنگ ختم ہوتی ہے تو معاشرے کے اندر تقسیم اور عدم استحکام بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہری سطح پر بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل صرف بیرونی خطرات نہیں ہیں بلکہ اندرونی تناؤ (سماجی سیاسی اختلافات) بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ زیادہ تر اسرائیلی فلسطینی ریاست کے قیام اور امن میں پُر امید نہیں ہیں۔ لیکن ایک چھوٹا یا درمیانہ حصہ ہے جو امن اور بقائے باہم پر یقین کرتا ہے، خاص طور پر بائیں بازو اور سیکولر طبقوں میں۔ اسرائیلی سماج میں بعض انتہاء پسندانہ بیانیے (دہشت گردی کا خاتمہ، یا غزہ کی مکمل صفائی) بھی طاقت پکڑ رہے ہیں۔
خلاصہ
غزہ میں موجودہ سیزفائر مکمل امن نہیں بلکہ ایک عارضی وقفہ ہے۔ اسرائیل کی بے رحمانہ فوجی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں کہ اس کی شرطیں پوری نہیں ہوئیں۔ جبکہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے مطابق کھیل کھیل رہی ہیں۔ جنگ بندی کا ایک دور پورا ہو گیا ہے، اب دوسرا مرحلہ شروع ہونا چاہیے مگر اسرائیل لیت و لعل سے کام لے رہا ہے ۔ اب اس کا بڑا بہانہ حماس کو غیر مسلح کرنا ہے۔ غزہ کے لوگ اب بھی بے گھر ہیں، انفراسٹرکچر تباہ ہے، اور روزمرہ زندگی نارمل نہیں ہو پائی۔ اصل امن تب ہی ملے گا جب اسرائیل کا مکمل انخلا اور ناکہ بندی کا خاتمہ، تعمیرِ نو شروع ہوجائے اور مستقل سیاسی حل سامنے آئے۔ یہ سیز فائر ایک طاقتور فریق اور ایک کمزور فریق کے درمیان ہوا تھا جس میں بالکل شروع ہی سے پورا اَپرہینڈ اسرائیل کو ملا ہوا ہے۔ اس میں مسلم ممالک اور عرب دنیا کا کوئی بہت اچھا اور متحرک رول سامنے نہیں آیا، جس سے فلسطینی کاز کو تقویت ملتی ہو، الٹا وہ سب امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے جیسے لیٹ گئے ہوں۔ فی الحال سیزفائر صرف ایک Fragile Pause ہے، بس فلسطینیوں کی جانیں بچ گئی ہیں، کچھ انسانی امداد ان کو مل رہی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دور یاستی حل کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی ہے۔
