کیا قدیم علمِ کلام دورِ حاضر کے فکری اور الحادی چیلنجز کا مؤثر جواب فراہم کر سکتا ہے، یا محض ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ گیا ہے؟یہ سوال ایسے وقت میں اَور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے، جب قدیم کلامی اور فلسفیانہ مباحث کا جدید سائنسی اُصولوں اور نظریات کے آئینے میں از سرِ نو جائزہ لیا جاتا ہے۔
کسی ایک محیر العقول سائنسی دریافت کا سہارا لیتے ہوئے مسلمان اہلِ علم کی معروف کلامی روایت کی اہمیت و افادیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں؛ مثلاً پوری قطعیت سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ "بگ بینگ تھیوری" نے اُن کلامی مباحث کو غیر ضروری بنا دیا ہے، جو یونانی فلسفے میں کائنات کے ازلی ہونے کی تردید میں ایک مربوط و منظَّم علم کے طور پر تدوین کیا گیا تھا۔ اب چونکہ سائنس نے خود یہ ثابت کر دیا ہے کہ کائنات کا ایک آغاز (Start) اور ایک انجام (End) ہے، بلکہ جدید تحقیق کائنات کے آغاز کی مدت کا تعین بھی کر چکی ہے اور کہتی ہے کہ ساڑھے تیرہ یا چودہ ارب سال پہلے کائنات کا آغاز ہوا۔[1]
ہم اپنی بحث کو محض اس قسم کے دعووں کی تردید یا تصدیق کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہتے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک وسیع تر فکری اور علمی پس منظر میں اس کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ایک قدیم فکری روایت دورِ حاضر کے نئے فکری چیلنجز کے سامنے مکمل طور پر بے معنی ہوکر رہ گئی ہے، یا اب بھی وہی پرانا کلام؛ جدید الحاد و فلسفہ کی بنیادی خامیوں کو پکڑ سکتا ہے؟
نیز، اس بحث میں یہ گتھی بھی سلجھائی گئی ہے کہ آیا مسلم ماہرینِ کلام نے یونانی حکمت و فلسفہ میں زیادہ اُلجھاؤ (خوض) کی وجہ سے قرآن کے استدلال کے فطری منہج کو ترک کر دیا ہے یا نہیں۔ ان دو مختلف بیانیوں کا مختصر جائزہ بھی بحث میں شامل ہے کہ کیا قرآن کا یہ فطری منہج علم کلام سے یکسر مختلف ہے؛ یا یہ درست ہے کہ کلامی منہج قرآنی منہج کے اتباع میں وضع کیا گیا ہے؛ یا حقیقت بین بین ہے؟
۱۔ قدیم علمِ کلام کی پوزیشن اور معاصر ذمہ داریاں
بحث کے آخر میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جدید الحاد کسی ایسی فکری بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا، جس کو صدیوں قبل متکلمین نے مضبوط دلائل سے مسمار نہ کر دیا ہو۔ یوں علم کلام عقائدِ اسلامیہ کی ایک ایسی محفوظ پناہ گاہ ہے، جس نے نہ صرف قدیم یونانی فلسفے کی یلغارکی مدافعت و مقاومت کی ہے، بلکہ جدید الحاد سے نبرد آزما ہونے کے بھی قابل ہے۔
تاہم، یہ حقیقت مسلَّم ہے کہ یہ ذمہ داری دورِ حاضر کے مسلمان ماہرینِ کلام کی ہے کہ وہ قدیم کلامی مباحث کی اصطلاحات، زبان و بیان اور اُسلوب کو مروَّج میڈیم میں (تصویغ و تثویبِ جدید کرکے) ڈھال دیں تاکہ وہ جدید ذہن کو متاثر (اپیل) کریں اور جدید سائنس و فلسفہ کے مباحث کو پُر اثر طریقے سے جواب دیں۔
آج جب پوری دنیا الحاد کی زد میں ہے، سوشل سائنسز، کوانٹم فزکس، تھیوریٹیکل فزکس، نیچرل سائنسز اور لٹریچر کے نام پر یونیورسٹیوں میں الحاد کا زہر امت مسلمہ کے تعلیم یافتہ طبقے کو پلایا جا رہا ہے۔ آوارہ ابلاغیات اور بے لگام خواہشات نے اس صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ تو کیا اب بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی کہ قدیم کلامی اصولوں کی جدید تطبیق کے ذریعے دورِ حاضر کی فکری کج روی سُدھار دی جائے؟ الحادی ذہن، دلائل، نفسیات اور زاویہ نظر کا از سرِ نو گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔
اگر کچھ اور نہ ہو سکے، تو کم از کم ایک نرم اخلاقی رویہ اختیار کیا جانا چاہیے، جب ایسی پیچیدہ نفسیاتی کشمکش سے دوچار ہونے والوں سے سابقہ پڑے، یا وہ مستفتی بن کر کسی امام مسجد، عالم یا مفتی سے رجوع کریں ،تو ایک شفیق اور متحمل روحانی معالج جیسا برتاؤ اُن سےکیا جائے۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے الحاد سے متاثر ہونے ولے علی گڑھ کے طلباء کو بے پایاں شفقت و ہنرمندی سے عقلی أصول و دلائل کی مدد سے مطمئن فرمایا۔ حضرت کے دلائل کو بعد میں ایک کتابچہ میں یک جا کرکے الانتِباھاتُ المفیدَہ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس کتابچہ میں اُصولِ موضوعَہ لکھنے کے بعد حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھایا جائے۔ حضرت کی یہ خواہش پوری ہونے میں یقیناً بہت حد تک غفلت ہوئی ہے۔
۲۔ کانٹ کا "کوپرنیکسی انقلاب" اور علم الکلام
قدیم علم کلام جدید الحاد کے سامنے کونسا مضبوط پوزیشن لئے کھڑا ہے، اس پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے۔ سرِدست آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ جدید فلسفی، خاص طور پر کانٹ (Immanuel Kant) نے فلسفہ و کلام کی دنیا میں کیسا طوفان برپا کیا تھا؟ اس کا کچھ اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد اقبال جیسے مفکر نے بھی کانٹ کے اس نظریے کو نہ صرف ایک سنگین چیلنج سمجھا، بلکہ (بقول ان کے) دینی افکار و بنیادوں کو جواب دینے سے عاجز سمجھ کر مایوس ہوئے۔
فلسفہ کی تاریخ میں امانوئل کانٹ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے علم الکلام کے روایتی ڈھانچے کو شدید چیلنج کیا۔ کانٹ نے اپنی مشہور تصنیف "تنقیدِ عقلِ محض" (Critique of Pure Reason) میں انسانی عقل کی حدود کو بیان کرتے ہوئے کئی ایسے مسائل اٹھائے جن کا براہ راست تعلق علم الکلام سے تھا۔
کانٹ نے ایک انقلابی قدم اٹھایا جسے وہ خود "کاپرنیکسی انقلاب" کہتے تھے۔ جس طرح کوپرنیکس نے کائنات کا مرکز زمین سے ہٹا کر سورج کو بنایا، اسی طرح کانٹ نے علم کا مرکز بیرونی دنیا سے ہٹا کر انسان کے اپنے ذہن کو قرار دیا۔
کانٹ کے فلسفے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم دنیا کو براہ راست نہیں جانتے، بلکہ صرف اس کی ظاہری شکلیں (Appearances or Phenomena) دیکھتے ہیں۔ وہ چیزیں "جیسا کہ وہ ہیں" (Things-in-themselves or Noumena)، ہماری عقل کی پہنچ سے باہر ہیں۔
کانٹ کے نزدیک زمان اور مکان (Space and Time) کوئی خارجی حقیقت نہیں، بلکہ ہمارے ذہن کے بنیادی سانچے (Forms of Intuition) ہیں۔ ہم تمام تجربات کو ان ہی سانچوں میں ترتیب دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمارے ذہن میں 12 بنیادی مقولات (Categories) بھی ہیں، جیسے علیت (Causality)، اتحاد (Unity) اور وجود (Existence)۔
لہٰذا، جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں، تو ہمارا ذہن اسے ان سانچوں اور مقولات کے ذریعے فلٹر کرتا، اور ہمیں جو علم حاصل ہوتا ہے وہ بیرونی حقیقت کی محض ایک نمائندگی (Representation) ہوتا ہے۔ ہمارا علم معروضی نہیں بلکہ ہمارے ذہن کی ساخت کے مطابق ہوتا ہے۔[2]
متکلمین نے اپنے کلام کا آغاز ہی سوفسطائیہ کی بیخ کنی سے کیا ہے۔ کانٹ کا علمی اَپروچ ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کیونکہ سوفسطائیہ بھی واقعی، معروضی یا نفس الامری علم کے منکر تھے۔ ایک طبقہ عِنْدِیَّہ تھا جو کانٹ کی طرح ذہنی ڈبوں کو بنیاد سمجھتا تھا۔
کانٹ اور ان کے پیروکاروں کے مطابق، حقیقت صرف محسوسات (Sensory Experiences) تک محدود ہے۔ ماورائے الطبیعات (Metaphysical) چیزیں، جیسے خدا، جنت، جہنم، فرشتے، یا جنات، کے وجود کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں؛ نہ انہیں 'موجود' کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی 'معدوم'۔ اس کیفیت کو متکلمین نے سوفسطائیہ کا ایک دوسرا طبقہ یعنی لاادریت (Agnosticism) مانا ہے۔
۳۔ کانٹ کے چیلنجز اور علم الکلام کا دفاع
کانٹ کے فلسفے نے اسلامی علم کلام پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس کے کچھ اہم نتائج اور متکلمین کے جوابات درج ذیل ہیں:
الف۔ علت ومعلول کا اصول (Principle of Cause and Effect)
کانٹ کا چیلنج:
علیت (Causality) کا اصول صرف ہمارے ذہن میں موجود ہے اور اسے مادی دنیا سے باہر یعنی خدا یا ماورائی حقائق پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
متکلمین کا جواب:
قیاس الغائب علی الشاہد ایک بنیادی عقلی اصول ہے۔ اگر ہر تجرباتی چیز کی کوئی علت ہوتی ہے، تو کائنات کی بھی ایک علت ہوگی۔ یہ علت خود سے موجود ہوگی تاکہ لامتناہی سلسلے (Infinite Regress) سے بچا جا سکے گا۔ اس طرح، کائنات کے حادث ہونے کا استدلال خود بخود اس کی ایک غیر حادث علت (یعنی اللہ) کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اشاعرہ کا مکتبِ فکر اس دلیل کو مزید مضبوط کرتا ہے کہ علیت ایک فطری قانون نہیں، بلکہ عادتِ اِلٰہی ہے، یوں کانٹ کی تنقید براہِ راست اس پر لاگو نہیں ہوتی۔
ب۔ واجب الوجود اور غیبی حقائق کا تصور
کانٹ کا چیلنج:
واجب الوجود اور ممکن الوجود کے تصورات ہمارے ذہن کی پیداوار ہیں، اس لیے ان کی بنیاد پر زمان و مکان سے ماورا کسی ہستی کو ثابت کرنا ناممکن ہے۔ ماورائی حقائق کو انسانی عقل نہ تو ثابت کر سکتی ہے اور نہ ہی رد کر سکتی ہے۔
متکلمین کا جواب:
واجب الوجود کا تصور زمان و مکان کے تابع نہیں ہے۔ یہ ایک خالص عقلی اور منطقی استدلال ہے کہ کوئی بھی چیز جو حادث ہے، وہ اپنے وجود کے لیے کسی ایسی ہستی کی محتاج ہوتی ہے جو خود ازلی ہو۔ کائنات میں موجود نظم و ضبط اور ڈیزائن کا استدلال ایک شہودی اور کائناتی حقیقت ہے جو ایک مدبر (Designer) خدا کے وجود کی ایک مضبوط دلیل ہے۔
ج۔ اخلاقیات اور خدا کا ربط
کانٹ کا چیلنج:
اخلاقیات ہمارے اخلاقی شعور اور عقل کا ایک فطری تقاضا ہے جسے وہ "فطری قانون" (Categorical Imperative) کہتا ہے۔ اخلاقیات کو خدا کے وجود سے الگ کر دیا گیا۔
متکلمین کا جواب:
اخلاقیات کو خدا سے الگ کرنے سے اخلاقی نسبتیت (Moral Relativism) کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ اخلاقیات کی حتمی اور غیر متغیر بنیاد صرف خدا کی ذات ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ، اخلاقیات کی منطقی تکمیل کے لیے ایک نظامِ جزا و سزا کا ہونا ضروری ہے، جو صرف خدا ہی قائم کر سکتا ہے۔
د۔ کانٹ کا وجود پر نظریہ (Ontological Argument)
کانٹ کا چیلنج:
"وجود" (Existence) کسی چیز کی کوئی صفت (Predicate) نہیں ہے، اور کسی بھی چیز کا وجود صرف اور صرف تجربے سے ثابت ہوتا ہے۔
متکلمین کا جواب:
وجود کی دو نوعیتیں ہوتی ہیں: ممکن الوجود (Contingent Being) اور واجب الوجود (Necessary Being)۔ کانٹ کی دلیل ممکن الوجود اشیاء پر تو لاگو ہوتی ہے، لیکن واجب الوجود پر نہیں، کیونکہ واجب الوجود کے تصور میں ہی اس کا وجود شامل ہوتا ہے۔
۴۔ ملّا صدرا، اصالۃ الوجود، اور وجدانی علم
ملّا صدرا (صدر الدین محمد شیرازی) کے فلسفے کا ایک مرکزی ستون "أَصَــالَةُ الْوُجُــود" (Primacy of Existence) کا نظریہ ہے، جو کانٹ کے خیالات کے بالکل برعکس ہے۔[3]
ملّا صدرا کے مطابق، وجود کوئی محض تصور یا صفت نہیں بلکہ ایک ٹھوس اور واحد حقیقت ہے۔ ملّا صدرا کے اصالۃ الوجود کے نظریے نے کانٹ کے موقف کو مزید کمزور کر دیا۔ ان کے نزدیک وجود ایک حقیقتِ مطلقہ ہے جو تمام کائنات میں جلوہ گر ہے۔ سب سے اعلیٰ درجہ اللہ کا وجود ہے، جو تمام وجود کا سرچشمہ ہے۔
مسلمان اہلِ علم نے یہ موقف اختیار کیا کہ خدا کے وجود کے لیے عقلی دلائل اب بھی درست ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کانٹ کے نظرئیے کی یہ توجیہ کی کہ انہوں نے صرف تجرباتی علم (Empirical Knowledge) کی حدود بیان کی ہیں، لیکن عقل کا دائرہ اس سے وسیع ہے۔
علم کلام کے مطابق، عقل اور وحی (Divine Revelation) ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ جب عقل اپنی حدود پر پہنچ جاتی ہے، تو وحی رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے۔ روحانیات و وجدانیات کی دلیل بھی کانٹ کی رسائی سے ماورا ہے۔ خدا کا علم صرف عقل سے نہیں، بلکہ باطنی تجربے (Intuition)، وجدانی علم (Intuitive Knowledge) اور دل کے نور سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
علامہ اقبال نے بھی اسی طرف اشارہ کیا کہ فلسفہ تو عقل کی حدود بتا سکتا ہے، لیکن شاعرانہ وجدان اور روحانی تجربہ ہمیں ماورائی حقائق کا ادراک کروا سکتا ہے۔
خِرد کی گتھیاں سُلجھا چکا میں
خدایا مجھے صاحبِ جنوں کر
حواشی
[1] بگ بینگ (Big Bang) کے سائنسی نظریے کے مطابق، کائنات کی عمر تقریباً 13.8 ارب سال ہے۔ یہ عمر فلکیاتی مشاہدات اور کاسمولوجیکل ماڈلز کی بنیاد پر مقرر کی گئی ہے، جو کہ کہکشاؤں کی رفتار اور کائنات کی مسلسل پھیلتی ہوئی حالت سے حاصل ہونے والے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ ماہرینِ فلکیات نے کائنات کی عمر کا تخمینہ لگانے کے لیے کئی طریقوں کا استعمال کیا ہے، جن میں سے ایک اہم طریقہ ہبل کا قانون (Hubble's Law) ہے، جو یہ بیان کرتا ہے کہ کہکشائیں ہم سے کتنی تیزی سے دور ہو رہی ہیں۔
[2] کانٹ کا نظریہ یونانی فلاسفہ کے اس نظریہ سے ایک طرح کا میل کھاتا ہے کہ ہم اشیاء کا تصور بِاَشْبَاحِھَا کرتے ہیں، یعنی ان کی نمائندگی یا مظاہر کی بنیاد پر، ورنہ آگ کے تصور سے حرق اور دریا کے تصور سے غرق لازم آتا۔ وہ فلسفی جو یہ مانتے ہیں کہ ہم اشیاء بِنَفْسِھَا کو جانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہماری عقل براہ راست حقیقت کا ادراک کر سکتی ہے اور کسی بھی قسم کے ذہنی فلٹر کے بغیر اشیاء کی حقیقی ماہیت تک پہنچ سکتی ہے۔ کانٹ نے اس دعوے کو رد کر دیا۔
[3] ملّا صدرا (صدر الدین محمد شیرازی) کی زندگی کا دور تقریباً 1571ء سے 1640ء تک ہے۔ وہ صفوی ایران کے ایک عظیم فلسفی اور صوفی تھے جنہوں نے حکمتِ متعالیة (Transcendent Theosophy) کی بنیاد رکھی۔ اس کے برعکس، امان وئل کانٹ 1724ء میں پیدا ہوئے اور 1804ء میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ جرمن فلسفے میں ایک انقلاب لانے والے سمجھے جاتے ہیں۔ چونکہ ملّا صدرا کانٹ سے تقریباً ایک صدی پہلے گزر چکے تھے، اس لیے یہ بات تاریخی طور پر بالکل ناممکن ہے کہ صدرا نے کانٹ کو پڑھا ہو یا ان کے نظریات پر تبصرہ کیا ہو۔
(جاری)
