جس پیٹ میں حلال مال جائے وہ پیٹ مبارک ہے۔ حلال اور حرام میں تمیز اسلامی اصولوں کے مطابق کرنی چاہیے۔ اسلام حلال مال کھانے کا درس دیتا ہے اور حرام سے روکتا ہے۔ حلال مال کی طلب تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جس نے چالیس دن ایسی حلال روزی کھائی جس میں کچھ نہ حرام ملا ہو حق تعالیٰ اس کے دل کو نور سے بھر دے گا اور حکمت کے چشمے اس کے دل سے جاری کر دے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے نکال دیتا ہے اور حلال روزی کھانے والے کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جو حرام سے کھاتا ہے اس کی نہ فرض نماز قبول ہوتی ہے نہ سنت۔ ایک اور ارشاد ہے کہ جس نے ایک کپڑا دس درہم دے کر لیا جس میں ایک درہم حرام ہے تو جب تک وہ کپڑا بدن پر رہے گا اس کی نماز قبول نہ ہو گی، اور جو گوشت بدن پر حرام روزی سے پیدا ہوا دوزخ کی آگ میں جلے گا۔ جس نے پرواہ نہ کی اس بات کی کہ مال کہاں سے پیدا کیا ہے اللہ پاک اس بات کی پرواہ نہ کرے گا کہ اس کو کہاں سے دوزخ میں ڈالے۔
ارشاد مصطفیﷺ ہے، جو طلبِ حلال میں تھک کر گھر جاتا ہے اور سو جاتا ہے اس کے سب گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور صبح کو جب وہ سو کر اٹھتا ہے اللہ پاک اس سے خوش ہوتے ہیں۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جو حرام سے پرہیز کرتا ہے مجھے شرم آتی ہے کہ اس سے حساب لوں۔ فرمان رسول ﷺ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ کھانا کپڑا ان کا حرام ہے پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں، ایسی دعا کب قبول ہو گی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رزق حرام کھا کر عبادت کرنا ایسا ہے جیسے ریت یا پانی پر گھر بنایا جائے، حرام کھانے والے کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
حضرت علی المرتضٰیؓ فرماتے ہیں کہ حلال کمائی کی لذت اس شخص کو محسوس ہوتی ہے جو حرام کمائی چھوڑنے کی مکمل کوشش کرتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے غلام کے ہاتھ سے تھوڑا سا دودھ پی لیا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی وجہ سے حلال نہیں ہے فوراً اپنی انگلی حلق میں ڈال کر قے کی اور اللہ پاک سے التجا کی کہ یااللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس مقدار سے جو میری رگوں میں رہ گیا ہے اور باہر نہیں نکلا۔ جو حلال روزی کھائے گا اس کے اعضاء اطاعت میں رہیں گے اور ہمیشہ توفیق خدا اس کے ساتھ رہے گی۔
ادب سے دیکھنا لوگو یہ میرا رزق حلال
کہ کم لگے بھی تو تاثیر میں زیادہ ہے
قرآن و سنت میں کثرتِ رزق کے اسباب بیان فرمائے گئے ہیں جن میں سے دس مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ استغفار کرنا (سورۃ نوح)
2۔ تقویٰ اختیار کرنا (سورۃ طلاق)
3۔ اللہ کی ذات پر توکل کرنا (مسند امام احمد بن حنبل)
4۔ حسبِ حیثیت صدقہ خیرات کرنا (سورۃ سبا)
5۔ شکر کرنا (سورۃ ابراہیم)
6۔ صلہ رحمی کرنا (صحیح بخاری شریف)
7۔ پاکدامنی کے لیے شادی کرنا (سنن النسائی)
8۔ لگاتار حج و عمرہ کرنا (سنن الترمذی)
9۔ گناہوں کو چھوڑ دینا (سنن ابن ماجہ )
10۔ صبح سویرے رزق کی تلاش میں نکلنا (سنن ابی داود)
آج معاشرے میں حلال حرام کی تمیز نہیں رہی اسی وجہ سے ہر دوسرا آدمی پریشان دکھائی دیتا ہے۔ حلال میں اللہ پاک نے مٹھاس اور سکون رکھا ہے، حرام مال میں سے راحت اٹھا دی گئی ہے، جو لوگ معاملات کو درست رکھتے ہیں وہ ہمیشہ سرشار رہتے ہیں اور جن کے معاملات اچھے نہیں وہ پریشانیوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے اسلاف اس بات کا بہت خیال رکھا کرتے تھے کہ کہیں کسی کا حق نہ مارا جائے۔ ایک اللہ والے کسی بیمار کے سرہانے بیٹھتے تھے اور اس کی بیمار پرسی کیا کرتے تھے، جب وہ بیمار مر گیا تو فوراً اس کے کمرے میں لگے ہوئے چراغ کو بجھا دیا کہ اب اس کا تیل ورثاء کا حق ہے (سبحان اللہ)۔ ایسے ہی لوگوں کی دعائیں پھر عرش والا رد نہیں کرتا، ان کے چلنے پھرنے کو بھی عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے۔
یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے غنیمت کا مُشک گھر میں اپنی اہلیہ کو دیا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے حصے کرو! آپؓ کی اہلیہ نے اس کے چھوٹے چھوٹے حصے کر دیے۔ ہاتھ سے دوپٹہ کو چھوا تو اس دوپٹہ سے خوشبو آنے لگی۔ آپؓ نے فرمایا کہ تمہارا مقنع خوشبو کیوں دیتا ہے؟ یہ تو تمام مسلمانوں کا حق ہے۔ اللہ اکبر یہ حضرت عمرؓ کی شانِ فاروقی تھی کہ مسلمانوں کی جان و مال کا کتنا خیال رکھا کرتے تھے، تبھی تو زمین ان کے پاؤں کی ٹھوکر سے فوراً سکوت اختیار کر لیتی تھی۔ جس زمین پر عدل و انصاف ہوتا ہے، دوسروں کے مال کی نگہبانی ہوتی ہے، اس زمین کو بھی قرار ملتا ہے۔ جہاں غیروں کے مال کو اپنا سمجھا جائے اور عوام الناس کے مال کو بے دریغ استعمال کیا جائے تو زمین ہی کیا زمین میں رہنے والی مخلوقات بھی ایسے لوگوں کے لیے بد دعائیں کرتی ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے سامنے مُشک لائی گئی تو آپ نے فوراً اپنی ناک پکڑ لی کہ اس کی خوشبو کہیں میری ناک میں نہ چلی جائے کیونکہ اس پہ تمام مسلمانوں کا حق ہے۔ حضرت امام حسنؓ نے صدقہ کے مال میں سے ایک خرمالے کو منہ میں رکھ لیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کخ کخ القھا‘‘ یعنی اس کو پھینک دے۔ جب تربیت ایسی ہو گی تو اولاد بھی اپنے آباؤاجداد کے اقوال و افعال کو اپناتے ہوئے ان کی طریقوں پہ اپنی جان کو قربان کیا کرتی ہے۔
نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ جو چالیس دن شبہ کا مال کھائے گا اس کا دل سیاہ ہو جائے گا۔ غور کریں یہاں پہ تو جان بوجھ کر مال کو غصب کیا جاتا ہے۔ ڈاکہ زنی، رشوت خوری کا بازار گرم ہے، دل سیاہ سے بھی سیاہ تر ہو چکے ہیں۔ نصیحت بے فائدہ جاتی ہے۔ عملِ نیک سے انسان دور اور عملِ بد پہ انسان خوش دکھائی دیتا ہے۔ اصل وجہ پیٹ کو لقمہ حلال میسر نہ ہونا ہے۔
حضرت یحیٰی بن معاذؒ فرماتے ہیں کہ طاعت خزانہ الٰہی ہے اور اس کی کنجی دعا ہے اور اس کے دندانے لقمہ حلال ہیں۔ اب آپ اندازہ لگائیں خزانہ الٰہی کو حاصل کرنے کے لیے دعا کی کنجی کی ضرورت ہے اور جس کنجی کے دندانے نہ ہوں تو تالا نہیں کھلتا ہے۔ لقمہ حلال دعا کی کنجی کے دندانے ہیں۔ اب دندانوں کو بھی سلامت رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ دعا کی کنجی سے خزانہ الٰہی حاصل ہو سکے۔ اللہ پاک ہمیں حلال کی وافر روزی عطا فرمائے اور حرام کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین۔
