پاکستان میں اسلامائزیشن
مولانا عبد الودود:
اس وقت ہم یہاں موجود ہیں، ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب، شعبہ قانون کے چیئرمین ہیں بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے، اور ان سے ہم مختصراً کچھ قانون کے متعلق جاننا چاہیں گے۔ سب سے پہلے تو ہم پاکستان کی اسلامائزیشن کے متعلق ان سے سوال کریں گے کہ جو پاکستان کا آئین ہے اس کے اندر اسلامی جو دفعات ہیں ان کے حوالے سے آل اوور جو ہماری قوم ہے، اس کو کیا امیدیں ہیں؟ اور کتنا اس کے اندر ہمارے لیے آگے بہتری کا امکان موجود ہے؟ میں ان کی خدمت میں پہلا سوال یہ رکھوں گا کہ پاکستان کے آئین کے حوالے سے تھوڑا سا ہمیں، اسلامی دفعات جو اس میں ہیں، ان کے حوالے سے ہمیں بریف کریں۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ بہت بہت شکریہ۔ اور یہاں جامعۃ الرشید میں آ کر جو ہمیں موقع دیا گیا ہے، میں تو اسے اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتا ہوں۔ یہ جو آپ کا سوال ہے پاکستانی قانون اور دستور کے بارے میں کہ اس میں اسلامائزیشن کے حوالے سے کیا کام ہوا ہے اور ہمیں مزید کتنی اس سے امید رکھنی چاہیے۔ میرے خیال میں تو پاکستان میں اسلامائزیشن آف لاز کے حوالے سے جتنا کام ہوا ہے، اتنا کسی اور مسلم ریاست میں نہیں ہوا ہے۔ اور اس وجہ سے یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ یہاں اتنا اعلیٰ درجے کا بھی کام ہوا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ دستور کے اندر بھی بہت ساری چیزیں ایسی شامل ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے دستور کا جو اسلامی تشخص ہے وہ قائم ہے۔ اور قوانین میں بھی بہت سارے قوانین جو غیر شرعی تھے، یا شریعت سے متصادم شقیں اس میں موجود تھیں، تو ان کو دور کیا گیا ہے۔ اور چند مسائل اب بھی رہتے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ دستور میں ان چیزوں کے لیے ایک پورا میکنزم دیا گیا ہے۔
ایک جانب ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کی تشکیل کی گئی ہے جو قانون سازی میں پارلیمان کی مدد کرتی ہے، سفارشات اپنی دیتی ہے کہ ان قوانین سے یہ یہ امور ہٹائے جائیں تو یہ شریعت سے ہم آہنگ ہو جائیں گے، یا آئندہ کے لیے قانون سازی اس طریقوں سے کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمان ان سفارشات کو زیر بحث لائے۔ ان میں سے پھر ظاہر ہے، اگر پارلیمان ان میں تبدیلی کرنا چاہے، ترمیم کرنا چاہے، تو قانون سازی کا حق تو پارلیمان ہی کا ہے۔ لیکن کم از کم ان سفارشات کو بحث میں لایا جائے۔
پھر اس کے بعد جب قانون ایک دفعہ بن جائے اور اس کے باوجود کسی شہری کو یہ خیال ہو کہ اس میں کچھ باتیں شریعت سے متصادم ہیں، تو دستور نے اس کے لیے ایک باقاعدہ ادارہ تشکیل دیا ہے ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ کا کہ آپ وہاں جا کر ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ شق شریعت سے متصادم ہے تو اس کو ختم کیا جائے۔ وہاں عدالت آپ کی بات بھی سنتی ہے، حکومت کی بات بھی سنتی ہے، پھر اپنا فیصلہ سناتی ہے۔ پھر اس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں جاتی ہے جہاں اس کے لیے خصوصی بینچ ہے، شریعت ایپلیٹ بینچ، تو اس کا فیصلہ پھر حتمی ہوتا ہے۔
اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے 80ء اور 90ء کی دہائی میں پاکستان میں بہت سارے قوانین سے غیر شرعی جو دفعات تھیں وہ ختم کی گئی ہیں۔ اسلامی قوانین یہاں اس کے ذریعے آگئے ہیں۔ جیسے حقِ شفعہ کے متعلق قانون تھا یا قصاص و دیت کا قانون ہے۔ تو اس طرح کی بہت ساری چیزیں آگئی ہیں۔ اب مسئلہ صرف اتنا ہے کہ یہ جو وفاقی شرعی عدالت ہے، یا شریعت ایپلیٹ بینچ ہے سپریم کورٹ کی، تو پچھلے کچھ عرصے سے وہ اتنی فعال نہیں رہی ہیں، تو ان کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور بنیادی ذمہ داری دینی طبقے پہ ہے کہ وہ ان فورمز کو یوز کرے استعمال کرے۔ اور یہ وہ طریقے ہیں جن میں ہم قانون اور دستور کی حدود کے اندر رہتے ہوئے شریعت کی بالادستی یقینی بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔
توہینِ رسالت کا قانون
مولانا عبد الودود:
بہت شکریہ جی۔ اور ڈاکٹر صاحب، ایک سوال اور اس حوالے سے کہ اسلامی دفعات یقیناً ہیں، اس میں پھر سب سے ایک جو اِس وقت ایشو ہے، کرنٹلی بالکل، اور اس پہ پہلے بھی، کچھ عرصہ پہلے کافی ساری چیزیں اس پہ ہوئیں بھی۔ توہینِ رسالت کا ایک قانون ہے ہمارے آئین کے اندر، ظاہر ہے وہ موجود ہے اور اس کو کوئی چھیڑ چھاڑ بھی اس کے لیے ہمارے لیے ممکن نہیں ہے، ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، ظاہر ہے ہم کر بھی نہیں سکتے، لیکن اس کے متعلق جو ہے آج کل اتنی بد احتیاطی ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ اٹھتا ہے کسی پر بھی گستاخِ رسول کا فتویٰ لگا دیتا ہے، یا اس کے خلاف گستاخِ رسول کی درخواست دائر کر کے پرچے دلوا دیتے ہیں۔ پھر لوگ بھگتتے رہتے ہیں ان کو۔ اس کے لیے کیا آگے لائحہ عمل ہونا چاہیے پاکستان کے اداروں کا، ان کو کیا اس کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، کیا سمجھتے ہیں آپ؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
دیکھیں دو باتیں ہیں۔ ایک جانب تو یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ توہینِ رسالت کا جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کے بارے میں کوئی بھی مسلمان ظاہر ہے اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ اور اس جرم پر سخت ترین سزا، جو سزائے موت کی ہے، اگر وہ پاکستان کے قانون میں چونکہ ہے، تو اس میں تبدیلی نہیں ہونی چاہیے اور اس قانون میں اسے رہنا چاہیے، کیونکہ اگر وہ نہیں ہوگا تو اس سے بہت زیادہ مسائل ہوں گے۔ توہینِ رسالت کی سزا اس قانون میں ہے وہ رہنی چاہیے۔
دوسری جانب جو آپ نے بات ذکر کی وہ اپنی جگہ ہمیں دکھائی دیتی ہے کہ بہت زیادہ مقدمات ہمیں ایسے نظر آتے ہیں جن میں بظاہر بدنیتی کا شبہ بھی آ جاتا ہے، اور کچھ اور بھی اسباب ہوتے ہیں، جن میں لوگوں کو پھر فریم کیا جاتا ہے توہینِ رسالت کے مقدمات میں۔ تو اب ان کی روک تھام کیسے کی جائے؟
ایک طریقہ وہ ہے جو حکومت نے کیا ہے کہ ضابطۂ فوجداری میں ترمیم کر کے توہینِ رسالت کے مقدمے کے اندراج کا طریقہ کافی مشکل بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر آپ اس کو اور زیادہ مشکل بناتے ہیں تو پھر جو حقیقی واقعات ہوتے ہیں، توہینِ رسالت یا گستاخی کی اگر کوئی بات ہوئی ہے، تو اس میں اگر ایف آئی آر درج کروانے کا طریقہ اتنا مشکل ہے، تو مسائل ظاہر ہے اس سے پیدا ہوتے ہیں۔
یہ جو مسئلہ ہے کہ لوگوں کو غلط طریقے سے اس میں فریم کیا جاتا ہے، تو ایک تو قانون میں باقاعدہ اس کے لیے طریقہ کار موجود ہے کہ اگر جھوٹا مقدمہ ہو تو پھر جھوٹا مقدمہ درج کرانے والے کے لیے کیا سزا ہے؟ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 194 میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی نے دوسرے شخص پر ایسا الزام رکھا جس میں سزائے موت ہو سکتی ہے، اور وہ بعد میں ثابت ہوا کہ جھوٹا مقدمہ تھا، تو اس جھوٹا مقدمہ دائر کرنے والے کو عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ تو اگر اسے عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے، میرے خیال سے یہ کافی سزا ہے اس معاملے میں، لیکن اگر جھوٹا مقدمہ دائر کرتے وقت اس بندے نے جھوٹی شہادتیں بھی گھڑی ہیں اور اس کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کی ہے، تو یہ تو خود توہین کا مرتکب اس صورت میں ہو جاتا ہے، تو پھر اس پر الگ سے توہینِ رسالت کا مقدمہ بن سکتا ہے۔
لیکن یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ جو بھی شخص توہینِ رسالت کا مقدمہ درج کرے اور پھر وہ ثابت نہ کر پائے تو پھر اس پر توہین کا مقدمہ چلایا جائے، اطلاق کے ساتھ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بالخصوص، آخری بات اس میں میں عرض کروں گا کہ پاکستان میں جرم ثابت کرنا، وہ آپ کے ریاستی اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ آپ نے صحیح الزام لگایا ہوتا ہے، بندے نے واقعی کوئی ایسی حرکت کی ہوتی ہے، لیکن آپ کے ادارے اس کے خلاف شواہد اور ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو اس کا ملبہ پھر اس بندے پر کیوں ڈالا جائے جس نے وہ شکایت درج کی ہے؟ تو دونوں چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا۔
قائد اعظم کا تصورِ پاکستان
مولانا عبد الودود:
جی ڈاکٹر صاحب، ایک سوال یہ ہے کہ 25 دسمبر قائد اعظم ڈے ہے اور اس حوالے سے ہم آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک اسلامی ریاست چاہتے تھے؟ اور ظاہر ہے اس میں کوئی شک نہیں، جو ہم نے سنا ہے کہ وہ ایک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست چاہتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں ان کا نیریٹو سیکولر تھا، کوئی کہتا ہے لبرل تھا۔ آپ کی قانون پہ ایک گہری نظر ہے، اُس پورے ماحول کو، اُس انوائرمنٹ کو، جو اس وقت کریئٹ تھا، کریئٹ کیا گیا تھا اِس مملکت کے لیے، کیا سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم کیسا ملک چاہتے تھے، کیسا خطہ چاہتے تھے؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
قائد اعظم رحمہ اللہ کا تو اصل میں جو کیریئر ہے، اگر آپ اس کو دیکھیں تو اس میں، ان کی فکر میں بھی، ان کی سوچ میں بھی، ایک ارتقا کا عُنصر تو نظر آتا ہے کہ شروع میں وہ کیا تھے پھر آخر میں کہاں تک پہنچے۔ تو جو ان کا آخری دور ہے بالخصوص، جب انہوں نے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کا کام کیا 1937ء کے بعد سے، اور پھر 1940ء کے بعد سے تحریکِ پاکستان شروع کی اور پاکستان کا ہدف اپنے لیے مقرر کیا، تو اس دور میں تو وہ بالکل آپ یوں کہیں کہ اس معاملے میں مطمئن تھے کہ ہم اسلامی ریاست چاہتے ہیں اور یہاں شریعت کی بالادستی ہونی چاہیے، مسلمان یہاں شریعت کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔
اگر آپ اس سلسلے میں اور کچھ نہیں تو علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کی جو خط و کتابت ہے دیگر علماء کرام کے ساتھ، وہ ملاحظہ کریں۔ کیونکہ وہ اس ساری تحریک میں اس کے روحِ رواں تھے، اور اس وقت جو اعتراضات ہو رہے تھے وہ براہ راست ان کا جواب دے رہے تھے۔ وہ دیکھیں کہ وہ قائد اعظم کے کردار کے بارے میں، ان کی دیانت کے بارے میں کس طرح کا موقف رکھتے ہیں؟ اور وہ کیوں یہ یقین رکھتے تھے کہ قائد اعظم کی لیڈرشپ میں ہمیں جانا چاہیے اور پاکستان بنانا چاہیے، اور یہاں اسلامی شریعت کے لیے ہم کس طرح کام کر سکیں گے۔
قائد اعظم کے بارے میں ان کے بدترین دشمن بھی یہ بات مانتے ہیں کہ وہ honest تھے اور ان کی integrity ہر شک و شبہے سے بالاتر تھی۔ یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ بظاہر کچھ ہوں اور اندر کچھ اور چاہتے ہوں۔ اس وجہ سے جو لوگ ان کی باتوں میں سے ایک آدھ بات بیچ میں سے اٹھا کے، سیاق و سباق سے بھی ہٹا کے لے آتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو سیکولر نظام چاہتے تھے۔ تو بھئی اس سے پہلے بھی انہوں نے کچھ کہا ہے، اس کے بعد بھی کچھ کہا ہے، تو اس کی روشنی میں اگر ایک آدھ بات آپ کو نظر بھی آتی ہے تو اس کا مفہوم متعین کرنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے تھے؟
بالکل آخری دور میں، جولائی 1948ء میں انہوں نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کیا اور اس افتتاح کے موقع پہ جو انہوں نے تقریر کی ہے وہ آفیشل ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں سٹیٹ بینک کو کہ دنیا نے مغربی نظام کا تجربہ کر کے، معیشت کا تجربہ کر کے دیکھ لیا، اور اس کا فساد بھی سامنے آگیا ہے۔ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اسلامی اصولوں کی روشنی میں معاشی نظام قائم کریں، اور میں اس سلسلے میں، آپ جو کام کریں گے، میں اس پر نظر رکھوں گا کہ آپ اس سلسلے میں کیا کرتے ہیں، کہ استحصال کا خاتمہ کیسے ہو، اسلام اس معاملے میں کیا چاہتا ہے۔
میرے دادا مرحوم علامہ مفتی مدرار اللہ مدرار نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ، وہ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں تھے، ان کے ساتھ ان کی خط و کتابت بھی تھی۔ اور میں نے ان سے پوچھا بھی تھا، اور قائد اعظم کے خطوط جو ان کے نام ہیں، ان میں بھی واضح طور پہ یہ تصریح ملتی ہے کہ ہم نے پاکستان کس مقصد کے لیے حاصل کرنا ہے۔ اس لیے مجھے تو اس بارے میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ قائد اعظم اسلامی فلاحی ریاست ہی چاہتے تھے۔
جامعۃ الرشید کا تربیتی کورس
مولانا عبد الودود:
بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب، آخری سوال یہ ہے کہ دو روزہ تربیتی کورس برائے مفتیان کرام، جامعۃ الرشید میں آپ نے دو روز گزارے ہیں اور مفتیان کرام کے ساتھ آپ کے سیشنز ہوئے ہیں، دونوں روز لیکچرز ہوئے ہیں، سوال و جواب کے سیشنز ہوئے ہیں، کیسے فیل کر رہے ہیں آپ اس پورے ماحول میں آ کر؟ مدرسے کے ظاہر ہے ماحول میں آپ آئے ہیں، پورے دو دن آپ نے گزارے ہیں، کیا فیلنگز ہیں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے، بہت آپ یوں کہیں کہ سعادت محسوس ہو رہی ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کے بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی نہیں مل رہے ہیں۔ بہت بڑی بات یہ ہے کہ یہاں بہت ہی وسعتِ قلبی کے ساتھ ہماری مہمان نوازی بھی کی گئی، ہمیں سنا بھی گیا، ہمیں بولنے کا موقع بھی دیا گیا، جہاں ہم نے اختلاف بھی رکھا وہ اختلافی بات بھی سنی گئی۔ اور بہت ہی مناسب انداز میں یہ سارا مکالمہ ہوا، مباحثہ ہوا۔ اور اس میں ہمیں، خود ذاتی طور پہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور بعض امور میں تو مجھے اپنی تصحیح کا بھی الحمد للہ موقع ملا ہے۔ تو مجھے تو یہاں آ کے بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے، بہت اعلیٰ پیمانے پر یہاں اسلامی شریعت کے لیے، اسلامی علوم کے لیے کام ہو رہا ہے۔ اور جدید دور کے جتنے بھی مسائل ہیں اور چیلنجز ہیں، مجھے پکا یقین ہے کہ یہ ادارہ ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور ہم ان شاء اللہ اپنی جانب سے جو تعاون کر سکتے ہیں وہ جاری رکھیں گے اور یہاں سے ان شاء اللہ آئندہ بھی استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے، اور بہت زیادہ، یعنی یہاں سے ہم کچھ سیکھ کر جا رہے ہیں واپس۔
