پچھلے چند دنوں سے آپ سوشل میڈیا پہ دیکھ رہے ہوں گے کہ پاکستانی علماء کرام بہت بڑی تعداد کے اندر بنگلہ دیش جا رہے ہیں، بڑی بڑی کانفرنسیں ہو رہی ہیں، بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں، اور مختلف مدرسوں کے اندر بخاری شریف کے دروس دیے جا رہے ہیں پاکستانی علماء کی جانب سے، اور لاکھوں کی تعداد کے اندر عوام نکل رہی ہے۔ ابھی جو فدائے ملت کانفرنس ہو یا ختمِ نبوت کانفرنس ہو، اس کے اندر آپ دیکھ لیں، اتنا مجمع پاکستان میں آج تک کسی جلسے میں دیکھنے کو نہیں ملا جو وہاں پہ آ رہا ہے۔ اور لوگوں کی جو محبت ہے پاکستانی علماء سے، جو اظہار ہے والہانہ، عجیب طرح کا ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ جیسے 1971ء سے پہلے کا زمانہ آگیا ہو کہ جس طرح تقسیم سے پہلے وہاں کے علماء اِدھر آ رہے ہیں اِدھر کے علماء اُدھر جا رہے ہیں، جلسے جلوس، یہ ساری چیزیں چل رہی ہیں۔
اور ابھی جو پرسوں ختم نبوت کانفرنس ہوئی ہے ڈھاکہ کے سہروردی گراؤنڈ میں، بہت بڑا اجتماع تھا، اور پاکستان سے تقریباً میرا خیال ہے کوئی 15 سے اوپر علماء تھے جنہوں نے اس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ اور یہ 1971ء کے بعد شاید اپنی نوعیت کا پہلا اجتماع تھا جس میں بڑی تعداد پاکستان کے علماء کی نہ صرف شریک ہوئی ہے بلکہ ہندوستان کے بھی جو چوٹی کے علماء ہیں وہ بھی اس کے اندر شریک ہوئے۔ لیکن ان سب ہیوی ویٹ علماء کی موجودگی میں جو کلیدی خطاب تھا، جو بنیادی تقریر تھی، جو سب سے اہم سمجھی جا رہی تھی، وہ مولانا فضل الرحمٰن کی تھی۔ اور تقریر کا جو متن تھا، جو انہوں نے وہاں بات کی، اگرچہ بہت مختصر سی بات کی ہے، علماء اتنے زیادہ تھے کہ سب نے دو دو تین تین چار چار منٹ بات کی میکسیمم۔ میں معاویہ اعظم صاحب کی رات تقریر سن رہا تھا، میرا خیال ہے ڈیڑھ منٹ کے اندر انہوں نے تقریر ختم کر دی اور بڑی نپی تلی بات کی۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جو کلیدی خطاب تھا وہ بھی تقریباً چھ سے سات منٹ کا تھا، لیکن اس کا ایک ایک لفظ جو تھا نا، وہ بڑا دلچسپ تھا۔ میں ایک پیرا آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس میں مولانا نے فرمایا کہ
’’جائیداد کی تقسیم سے بھائیوں کے بھائی چارے پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان ایک قوت اور ایک جماعت ہیں۔ ہم پاکستان سے خیر سگالی کا پیغام لے کے آئے ہیں۔ آپ ہماری جانب اگر چل کے آئیں گے تو ہم آپ کی طرف دوڑ کے آئیں گے۔‘‘
اور نواز کمال صاحب نے اس پہ بڑی دلچسپ بات لکھی ہے کہ علماء کا اتنی بڑی تعداد کے اندر وہاں جانا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ پیچھے چلے جائیں، جو حسینہ واجد ہو یا اس سے پہلے کی حکومت ہو، وہ انڈین جو حکومت ہے اُس کے قریب سمجھی جاتی تھی اور ان کے آپس میں تعلقات بہتر تھے۔ لیکن ابھی جو رجیم چینج ہوئی ہے وہاں پہ اور ایک پرو اسلامک حکومت آئی ہے۔ جس میں جماعت اسلامی کو آپ دیکھ لیں کس طرح دیوار سے لگایا گیا تھا پچھلی حکومتوں نے، پھانسیاں دی گئیں ان کے بڑے بڑے علماء کو، بزرگوں کو، امراء کو۔ لیکن اب ایک اچھے دن آ رہے ہیں علماء کے، دینی لوگوں کے۔ تو دونوں طرف کے جو لوگ ہیں وہ ان دیواروں کو توڑنا چاہتے ہیں، گرانا چاہتے ہیں، اور جو طویل زمانہ تھا جدائی کا، اور اس زمانۂ جدائی نے جو چہروں پہ اجنبیت کے رنگ بکھیرے تھے اور دلوں کے اندر جو فاصلے پیدا کیے تھے، تو اس ساری صورتحال میں جو یہ قربتوں کی بادِ صبا چل رہی ہے، اور یہ جو دوبارہ سے ایک طرح دونوں بھائی آپس میں جڑ رہے ہیں، تو یہ ایک بہت بہت زبردست ایک نیک شگون ہے، مسلمانوں کے لیے بھی، پاکستانیوں کے لیے بھی، بنگلہ دیشیوں کے لیے بھی۔
تو جس طرح ہم تقسیمِ (ہند) کے وقت اسلام اور مسلمان کے نام پر، ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر ایک ہوئے تھے، لیکن بدقسمتی سے پھر ہمارے درمیان قومیت آ گئی، لسانیت آ گئی، اور اس طرح کے دیگر بدبودار عنوانات اور نعرے آئے، اور پھر اس کی بنیاد پہ ہم دور ہوئے ایک دوسرے سے، تقسیم ہوئے۔ لیکن الحمد للہ آج اتنے سالوں بعد دوبارہ سے ہم ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پہ اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اور دو دلوں کو جوڑنے کا باعث جو چیز بن رہی ہے، وہ مسلمانوں کا آپس کا رشتہ ہے۔
اور اگر دیکھا جائے تو نواز کمال صاحب نے بڑی زبردست بات لکھی ہے کہ افغانستان سے بہتر تعلقات کا زمانہ ہو، یا پھر بنگلہ دیش کے ساتھ ابھی پاکستان کے جو تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، ان ساری چیزوں کو دیکھا جائے تو مکتبِ دیوبند اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور سفارت کارانہ صلاحیتوں کے ساتھ دونوں جگہ پہ نمایاں ہے۔
اور آپ کو پتہ ہے کہ میں کبھی بھی مسلکی تخصیص اور ان چیزوں کی بات نہیں کرتا، لیکن جو اِس مکتب کی، اسکول آف تھاٹ کی ایک یونیکنس ہے، وہ بتانا ضروری ہے کہ ابھی انڈیا کے ساتھ آپ دیکھ لیں، ابھی انڈیا نے اگر افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے تھے، اپنے تعلقات بہتر کرنے تھے، تو اگر اسے کوئی مضبوط کڑی دکھائی دی ہے اس ساری صورتحال میں تو وہ دارالعلوم دیوبند تھا۔ انہوں نے ان کے وزیر خارجہ متقی صاحب کو دارالعلوم دیوبند کے بہانے وہاں بلایا، دیوبند کا وزٹ بھی ہوا، پھر دیگر معاملات بھی ہوئے، تو جو کڑی تھی درمیان میں وہ دیوبند تھا۔
اور ابھی بنگلہ دیش کے اندر بھی آپ دیکھ لیں تو پاکستان کی تمام تر جو دیوبند کی جماعتیں ہیں، ان کے نمائندے وہاں پہ موجود تھے، اور انڈیا کے اندر سے بھی دارالعلوم کے مہتمم اور جمعیت علماء کے نمائندے وہاں پہ موجود تھے۔ تو نواز کمال صاحب کہتے ہیں کہ یہ جو مکتب ہے یہ اپنی تخلیق میں، خمیر میں، اور اصل میں قائدانہ صلاحیتوں کا حامل مکتب ہے۔ اور یہ برصغیر کی واحد قوت ہے جو بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان، افغانستان کے درمیان اگر کوئی رابطہ قائم ہو سکتا ہے، اگر لوگوں کو آپس میں جوڑا جا سکتا ہے، اگر نفرتوں کی دیوار گرانی ضروری ہے، تو پھر یہ لوگ ہی کام کر سکتے ہیں، اور یہی ایک پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
گو کہ اس کے علاوہ بھی، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب کی میں نے تصویریں دیکھیں، ایئرپورٹ پہ ان کی ملاقات ہوئی فاروقی صاحب سے اور معاویہ اعظم صاحب سے۔ اس کے علاوہ کے پی سے پیر صابر شاہ صاحب بھی گئے ہوئے تھے، وہاں بھی بہت بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ان کی موجودگی میں۔
تو بہرحال جو لسانیت، قومیت اور دیگر بدبودار نعروں کے ذریعے ہمارے درمیان تقسیم آئی تھی، نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوئی تھیں، تعصبات قائم ہوئے تھے، اب وہ ختم ہوتے ہوئے، ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پہ محبتیں قائم ہو رہی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے، امید کی ایک کرن ہے میں سمجھتا ہوں۔ اور اللہ کرے کہ یہ جو رابطہ ہے، یہ جو تعلق ہے، جو ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کا رشتہ ہے، یہ پاکستان بنگلہ دیش تک محدود نہ رہے بلکہ یہ ان شاء اللہ پہلے سے بہتر انداز میں افغانستان کے ساتھ بھی جڑے۔ اور دنیا بھر کے جتنے مسلمان ممالک ہیں ستاون اٹھاون، ان سب کے درمیان یہ مشترکہ کڑی، سب اس کو پکڑیں اور اس کے ساتھ جڑ کے دنیا کے اندر اپنا نام اور مقام پیدا کرنے کی کوشش کریں، جزاکم اللہ خیرا۔
