باب اول — ارتقا کیا ہے اور کیا نہیں ہے
تعارف
ڈاکٹر تھیوڈوسیئس ڈوبژانسکی (Theodosius Dobzhansky) نے ایک مشہور جملہ کہا تھا: "حیاتیات میں کوئی بھی چیز اس وقت تک مکمل طور پر سمجھ نہیں آتی جب تک کہ اسے ارتقا کی روشنی میں نہ دیکھا جائے۔" اگرچہ کچھ افراد اور گروہ اس بیان سے اختلاف رکھتے ہیں، جیسا کہ ہم باب 2 اور 4 میں تفصیل سے دیکھیں گے، لیکن سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سائنسی تناظر میں "ارتقا" کا حقیقی مطلب کیا ہے۔ارتقاکو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے بنیادی اصولوں، ان شواہد، اور ان سائنسی طریقوں کو سمجھیں جنہوں نے اس نظریے کو تشکیل دیا۔ یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ارتقاء کے تصور کو اکثر غلط سمجھا گیا ہے اور کئی مواقع پر اسے شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ارتقا کی وضاحت کے بغیر، اس کی حقیقت اور حیاتیاتی دنیا میں اس کی اہمیت کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ ارتقا کا صحیح ادراک نہ صرف حیاتیاتی علوم کے لیے اہم ہے بلکہ یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہاں مصنف نے ایک ڈایا گرام پیش کیا ہے جو عالمی اور عوامی ثقافت میں عام ہو چکا ہے، اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ارتقا کی نمائندگی کے لیے ایک مرکزی علامت بن چکا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈایاگرام غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہ تصویر اس غلط تصور کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر چکی ہے کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں (Hatcher 2018, 91)۔
چونکہ ایسے تصورات ہماری معاشرتوں میں گہرائی تک سرایت کر چکے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ارتقا کے نظریے کو احتیاط سے کھولا جائے اور اس کے بنیادی اصولوں کو مرحلہ وار وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے۔ یہ باب ارتقا کے سائنسی پہلو کا تعارف فراہم کرتا ہے۔اگر قاری پہلے سے ارتقا کے سائنسی نظریے سے واقف ہے تو ممکن ہے کہ یہ باب ایک جائزہ یا غیر ضروری طور پر سبق دہرانے کے مترادف لگے۔ ایسی صورت میں، اگلے باب کی طرف بڑھنا بہتر ہو سکتا ہے، لیکن اختتامیہ کا مطالعہ کتاب کے باقی حصے کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ارتقا کے ناقدین یا شکوک رکھنے والے افراد کے لیے یہ باب شاید بنیادی نوعیت کا محسوس ہو، لیکن اسے ارتقاکے سائنسی پہلو کو آسان اور واضح زبان میں پیش کرنے کے لیے لکھا گیا ہے تاکہ آئندہ ابواب میں مذہبی اور الٰہیاتی مباحثے کی بنیاد رکھی جا سکے۔متجسس یا تنقیدی قارئین کے لیے، مرکزی متن اور حواشی میں متعدد حوالہ جات درج کیے گئے ہیں، جو اس باب کے ترجمہ کے اختتام پر حوالہ جات کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس باب میں چار حصے ہیں۔ پہلا اور دوسراحصہ ارتقاکے سائنسی اصولوں اور ارتقا کے شواہد پر مشتمل ہے۔یہاں ارتقا کی جو معیاری تصویر پیش کی جاتی ہے، یعنی نیو -ڈارونزم یا جدید ترکیب، اس پر بات کی جائے گی۔ جب ارتقا کے نظریے کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو یہ واضح کیا جائے گا کہ ڈارونزم اور نیو-ڈارونزم میں کیا فرق ہے، جو اس باب کا تیسرا حصہ ہوگا۔ ارتقا کی تاریخی تفصیل کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ چارلس ڈارون کے نظریے نے کس طرح ترقی کی اور دیگر حریف نظریات کوکیسے پیچھے چھوڑا۔ اس حصے میں ارتقائی حیاتیات دانوں کے درمیان موجود کچھ جدید مباحثوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی، جن میں سے بعض یہ تجویز کر رہے ہیں کہ نیو-ڈارونزم کو دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ آخری حصہ ارتقا کے مخالفین کی جانب سے پیش کی جانے والی اہم تنقیدوں کا جائزہ لے گا۔ (آج کی قسط میں پہلا اور دوسرا حصہ پیش کیا جارہا ہے )
ارتقا کے اصول
عام زبان میں "ارتقا" کے کئی معانی ہوتے ہیں، مگر عموماً اس سے دو مفہوم وابستہ ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے سے متناقض نہیں ہیں۔ پہلے کا مطلب ہے تبدیلی، یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونا۔ دوسرا مفہوم ارتقا کے حوالے سے مثبت نوعیت کی ترقی ہے، جسے "devolution" کے برعکس سمجھا جاتا ہے، جو منفی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عام تصورات سائنسی تعریف کے کچھ پہلوؤں سے ملتے جلتے ہیں لیکن کچھ لحاظ سے مختلف بھی ہیں۔ اس فرق کے پیش نظر، ہمیں سائنسی اصطلاح "ارتقاء" کو احتیاط سے سمجھنا ضروری ہے تاکہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی سے بچا جا سکے (Cambridge Dictionary 2020a; Oxford English Dictionary 2020a)۔
بنیادی خیال
ایک سادہ مثال کے طور پر، ہم سب مختلف انواع سے واقف ہیں۔ ہمارے پاس پالتو بلیاں اور کتے ہیں، چڑیا گھروں میں شیر دیکھتے ہیں، مکھیاں ہمیں روزانہ پریشان کرتی ہیں، باغات میں خوشبو دینے والے گلاب ہیں، درخت ہیں جو ہمیں دھوپ میں سایہ دیتے ہیں، اور ہم خود انسان، ہیں۔ یہ سب مختلف حیاتیات ہیں، لیکن ارتقا ہمیں بتاتا ہے کہ اگرچہ ہم سب مختلف ہیں، ہم سب کی ایک مشترک تاریخ اور نسلی تعلق ہے۔ ہم سب ارتقائی عمل کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے جیسے ایک بچہ اپنے والدین سے آتا ہے، جو خود اپنے والدین سے، اور وہ اپنے والدین سے آئے ہیں۔ ارتقا اسی خیال کو پورے حیاتیاتی نظام پر لاگو کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی ابتدا ایک ایسی نوع سے ہوئی تھی جو خودانسان نہیں تھی، اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ پچھلی انواع سے جڑتا ہے۔ اگر ہم وقت میں پیچھے جائیں، تو آخرکار ہم زندگی کے ابتدائی مراحل تک پہنچتے ہیں، جہاں سے ارتقا کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہاں مصنف نے اصل کتاب کے صفحہ 24 پر ایک شکل دکھائی ہے جو ارتقا کا ایک سادہ جائزہ پیش کرتی ہے (اس میں وقت کی مدت پر غور کرنے کی ضرورت ہے)۔ یہ ارتقا کی ایک ٹائم لائن ہے جو 3.5 ارب سال پہلے سے زندگی کی عمومی ترقی کو ظاہر کرتی ہے۔ 3.5 ارب سال سے 550 ملین سال پہلے تک ہم ابتدائی زندگی کی شکلیں جیسے بیکٹیریا دیکھتے ہیں۔ 550 ملین سال کے بعد، جسے کیمبرین دھماکہ(Cambrian explosion) کہا جاتا ہے، زندگی کی پیچیدگی میں عمومی اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں مچھلیاں، چھپکلیاں، ڈایناسارز، پرندے اور انسان شامل ہیں جو بہت حال ہی میں منظر پر آئے۔
جینیوٹائپ (Genotype) اور فینیوٹائپ (Phenotype)
ارتقا کو سمجھنے کے لیے ہمیں جینیوٹائپ اور فینیوٹائپ کے درمیان فرق کو واضح کرنا ہوگا۔ جب والدین بچے پیدا کرتے ہیں، تو بچے عام طور پر اپنے والدین سے مشابہت رکھتے ہیں، مگر ساتھ ہی ان میں کچھ فرق بھی پایاجاتا ہے۔ یہ فرق جینیاتی مواد یعنی جینیوٹائپ کی وجہ سے ہوتا ہے، جو ہمارے ڈی این اے میں موجود ہوتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ ہم کس طرح نظر آئیں گے (مثلاً بالوں کا رنگ)، ہماری عادات (جیسے کھانے کی عادات) اور صحت کی حالت۔ ڈی این اے بچوں میں کروموسومز کے طور پر منتقل ہوتا ہے، اور یہ والدین کا مرکب ہوتا ہے، یعنی آدھا حصہ والدہ سے اور آدھا والد سے آتا ہے(Urry et al. 2016, 254–268) ۔ جینیوٹائپ اور فینیوٹائپ میں یہ فرق ظاہر ہوتا ہے کہ جینیوٹائپ جینیاتی سطح پر ہوتا ہے جبکہ فینیوٹائپ وہ قابل مشاہدہ خصوصیات ہیں جو جینیوٹائپ کے اظہار سے ظاہر ہوتی ہیں۔ جب جینیوٹائپ فینیوٹائپ میں تبدیل ہوتا ہے تو اسے جین ایکسپریشن (gene expression)کہا جاتا ہے(Urry et al. 2016, 335) ۔ مثلاً اگر بچے کے جینیاتی کوڈ میں کالے بالوں کا جین ہو تو وہ کالے بال ظاہر کرے گا۔ یہاں مصنف نے ایک تصویر کے ذریعے ایک انسانی جسم کے حیاتیاتی پیمانے کی وضاحت کی ہے۔ ہم جسم سے دل تک زوم کرتے ہیں، پھر دل کو خلیات تک، اور مزید قریب جا کر ڈی این اے کو دیکھتے ہیں۔ ڈی این اے جینوٹائپ کہلاتا ہے، جو ایک بلیو پرنٹ کا کام کرتا ہے۔ جب یہ ڈی این اے ظاہر ہوتا ہے، تو انسانی خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے، جنہیں فینوٹائپ کہا جاتا ہے۔ ( اس تصویر کو اصل کتاب کے صفحہ 25 پر دیکھا جاسکتا ہے۔)
ارتقا کے عمل اور ارتقا کے نمونہ میں تفریق کرنا اس مرحلے پر مددگار ثابت ہوگا۔ ارتقا کا عمل (یہ کیسے ہوتا ہے) وہ طریقے ہیں جو حیاتیاتی تبدیلیوں کو پیدا کرتے ہیں، جیسے قدرتی انتخاب اور جینیاتی تغیر۔ اس کے مقابلے میں ارتقا کا نمونہ (کیا ہوتا ہے) اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ارتقا کے ذریعے کون سی خصوصیات یا انواع ظاہر ہوتی ہیں۔ ہم سب سے پہلے ارتقا کے عمل پر توجہ مرکوز کریں گے۔
ارتقا کا عمل
ارتقا کے عمل کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: مائیکرو ارتقا (microevolution)اور میکرو ارتقا (macroevolution)۔ مائیکرو ارتقا سے مراد ایک ہی نوع (specie) کے افراد کے درمیان تبدیلیاں ہیں، جیسے دو بلیوں کا مختلف رنگ ہونا۔ میکرو ارتقا سے مرادمختلف انواع (species) کے درمیان تبدیلی ہے، مثلاً مچھلیوں کا رینگنے والے جانوروں میں تبدیل ہونا (Urry et al. 2016, 484–550; Futuyma and Kirkpatrick 2017, 16)۔بنیادی طور پر، دونوں ایک جیسے وراثتی اور تغیّر کے عمل کے تحت چلتے ہیں۔یاد رہے کہ وراثت اور تغیّر ارتقا کے اہم اصول ہیں۔ وراثت کے ذریعے جینیاتی معلومات والدین سے ان کی اولاد میں منتقل ہوتی ہیں، جس سے بنیادی خصوصیات نسل در نسل برقرار رہتی ہیں۔ تغیّر کا مطلب ان خصوصیات میں فرق یا تبدیلی ہے، جو قدرتی عوامل، جینیاتی تغیّرات، یا ماحول کے اثرات کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ یہ تغیّر ہی ہے جو ایک نوع میں تنوع پیدا کرتا ہے اور ارتقا کے عمل کو آگے بڑھاتا ہے۔ ماں اور والد کے جینیاتی مواد کو بچوں میں کیسے یکجا کیا جاتا ہے یہ ایک اتفاقی عمل ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم بچے کے جینیاتی نمونہ کی بالکل درست ترتیب نہیں پیش کر سکتے (Urry et al. 2016, 273–291) ۔ مثال کے طور پر، تصور کریں کہ دو افراد کے پاس چھ رخا پاسے (dice) ہیں، ہم تمام ممکنہ نتائج کے امکانات کا حساب لگا سکتے ہیں، مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی مخصوص رول پر کون سی ترتیب آئے گی۔ نتیجہ مکمل طور پر اتفاق پر مبنی ہوتا ہے۔ تاہم، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ نتائج محدود ہیں اور جو کچھ پاسے میں ہے، وہی نتائج ممکن ہیں۔ اگر ہر پاسے میں نمبر ایک سے چھ تک ہوں، تو ایک اور سات کا مجموعہ ناممکن ہوگا کیونکہ پاسے میں سات کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسی طرح، والدین کے جینیاتی مواد سے بچوں کے جینیاتی نمونہ کا تعین بھی اتفاق پر مبنی ہوتا ہے لیکن یہ والدین کے جینیاتی مواد سے محدود ہوتا ہے۔ یہی اتفاقی نوعیت ہمیں بتاتی ہے کہ ایک ہی والدین کے مختلف بچے مختلف خصوصیات رکھتے ہیں، جیسے ایک کا بال کالا اور دوسرے کا سنہری ہو سکتا ہے۔ ارتقا کے عمل میں اگر یہ تبدیلیاں لاکھوں سالوں تک جاری رہیں، تو جینیاتی نمونوں میں یہ چھوٹے چھوٹے تغیرات جمع ہو کر بڑی تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں، جس سے نئی نسلوں میں مختلف خصوصیات پیدا ہونے لگتی ہیں۔
ہم نے اب تک وراثت اور جینیاتی تغیرات کو دیکھا ہے، لیکن اس کا مکمل منظر نامہ سامنے نہیں آیا کیونکہ ہم نے ماحولیاتی عوامل پر غور نہیں کیا۔ ارتقا کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ جس ماحول میں مخلوق رہتی ہے، وہ ماحول ارتقا کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ فرض کریں کہ دو قسم کے چوہے ہیں، سیاہ اور سفید، اور وہ دونوں سیاہ زمین پر رہتے ہیں۔ اگر عقاب ان کا شکار کرتے ہیں، تو سیاہ چوہے اس زمین کے رنگ سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے زیادہ محفوظ رہیں گے، جبکہ سفید چوہے عقابوں کے لیے آسان شکار بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں سفید چوہوں کی آبادی کم ہو جائے گی اور سیاہ چوہے بڑھیں گے، کیونکہ بالآخر سفید چوہوں کے سفید رنگ کے جینز مٹ جائیں گے، اور سیاہ چوہے غالب ہو جائیں گے۔ یہ مثال قدرتی انتخاب (natural selection)کے عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ سادہ الفاظ میں، یہ وہ تصور ہے کہ جو جاندار اپنے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو بہتر طور پر ڈھالنے میں کامیاب ہوتے ہیں، قدرتی طور پر وہی بچتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے، تصور کریں کہ ہمارے پاس بلند درخت اور جراف ہیں۔ جو جراف چھوٹی گردن والے ہیں، وہ زندہ نہیں رہ پائیں گے کیونکہ وہ اپنی خوراک کے حصول کے لیے بلند درختوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن طویل گردن والے جرافوں کے پاس ان درختوں تک پہنچنے کی صلاحیت ہے، اس لیے ان کے زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ قدرتی انتخاب ایک چھاننی کی طرح ہوتا ہے جو ان جانداروں کو منتخب کرتا ہے جو ماحول میں زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں "صرف طاقتور بچتے ہیں"(survival of the fittest) کا تصور آتا ہے۔ اب جب کہ ہمیں ارتقا کا بنیادی تصور سمجھ آچکا ہے،مگر یہاں چند باتوں کی تفصیل سے وضاحت ضروری ہے۔
- پہلا نقطہ یہ ہے کہ ارتقا ایک پیچیدہ اور کثیر الجہت عمل ہے جو صرف ایک عنصر یا جینیاتی تبدیلی تک محدود نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، چوہوں کی مثال میں صرف ایک شکاری کی موجودگی کو مدنظر رکھا گیا تھا، لیکن حقیقت میں ماحول میں مختلف قسم کے شکاری اور دیگر عوامل بھی ہوتے ہیں جو زندگی کے ارتقائی نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کسی خاص جین یا خصوصیت کا غالب آنا ہمیشہ یقینی ہوتا ہے، درست نہیں۔ ارتقا کے پراسیس کو صرف ایک سادہ عمل سمجھنا گمراہ کن ہو سکتا ہے۔
- "صرف طاقتور بچتے ہیں" کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ وہی جینز یا خصوصیت رکھنے والی مخلوق ہی زندہ رہے گی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ارتقا ہمیشہ امکانات کی بنیاد پر کام کرتا ہے (Urry et al. 2016, 291) ۔ اس لیے، جب سیاہ چوہے زندہ رہنے میں زیادہ کامیاب ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سفید چوہے کبھی زندہ نہیں رہیں گے۔ ایسا ممکن ہے مگر لازمی نہیں۔ ان مثالوں کو بہتر طریقے سے بیان کیا جانا چاہیے کہ سیاہ چوہے، چوہوں کی آبادی میں غالب آ رہے ہیں۔
- جب کوئی نوع اپنے ماحول میں بقا کے لیے ضروری خصوصیات اختیار کرتی ہے، تو اسے "موافقت" (adaptation) کہا جاتا ہے (Urry et al. 2016, 470) ۔ اس مثال میں، چوہوں کی آبادی میں ابتدا میں دونوں سیاہ اور سفید چوہے موجود ہیں، مگر شکاریوں کے دباؤ کی وجہ سے سفید چوہے ختم ہو جاتے ہیں اور سیاہ چوہے غالب آ جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاہ چوہے اپنے ماحول کے مطابق بہتر ڈھل چکے ہیں اور اس طرح بقا کے لیے اپنی جینیاتی خصوصیات کو بہتر بنایا ہے۔ اس کو ارتقا کے ایک مرحلے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جہاں نوع اپنے ماحول کے تقاضوں کے مطابق موافقت پیدا کرتی ہے۔
- جب بقا کی بات کی جاتی ہے تو یہ ایک نسبتی عمل ہوتا ہے، یعنی جو خصوصیت یا جینیاتی تبدیلی ایک مخصوص ماحول میں بقا کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے، وہ دوسری جگہ یا ماحول میں مؤثر نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر، سیاہ چوہے اگر برف سے ڈھکے علاقے میں منتقل ہوں تو ان کا سیاہ رنگ شکار کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا کیونکہ یہ انہیں دکھائی دے گا اور وہ شکار ہو جائیں گے۔ اس صورت میں، قدرتی طور پر چوہوں کا رنگ وقت کے ساتھ سفید ہو جائے گا تاکہ وہ برف میں چھپ کر بچ سکیں اور شکار سے بچاؤ کے لیے مؤثر بن سکیں۔ اس مثال کے ذریعے یہ بتایا جا رہا ہے کہ بقا کی حکمت عملی ماحول کی ضرورتوں اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔
- ارتقا کے عمل میں دو اہم پہلو شامل ہیں:
متعین پہلو: یہ وہ عمل ہے جس میں قدرتی انتخاب کا کردار ہوتا ہے، جہاں ماحول کی ضروریات کے مطابق وہ جاندار منتخب ہوتے ہیں جو بہترین طریقے سے زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو جاندار اپنے ماحول میں زیادہ کامیابی سے زندگی گزار سکتے ہیں، وہ بچ جاتے ہیں اور اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔
بے ترتیب پہلو: یہ میوٹیشنز (یعنی جینیاتی مواد میں ہونے والی تبدیلیاں) سے متعلق ہوتا ہے۔ میوٹیشنز قدرتی طور پر یا مختلف عوامل جیسے تابکاری، کیمیکلز، یا جینیاتی مواد کی نقل کے دوران غلطیوں کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ یہ میوٹیشنز فائدہ مند، نقصان دہ یا غیر جانبدار ہو سکتی ہیں، اور ان کی بدولت ارتقا کے مختلف راستے کھل سکتے ہیں، جیسے نئے خصائص یا جینیاتی تنوع کا پیدا ہونا۔ - جو میکانزم بیان کیا گیا ہے، اس کے مطابق ارتقا ایک طویل المدت عمل ہے جو زمین کی عمر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ماضی میں جب علم ارضیات (geology) کی ترقی نہیں ہوئی تھی، لوگ زمین کی عمر کو صرف 6,000 سال تک محدود سمجھتے تھے، جو کہ بائبل کے بیانیے پر مبنی تھا(Rogers 2011, 71)۔ تاہم، جدید جیالوجیکل تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ زمین کی عمر 4.6 ارب سال ہے اور زندگی کے آثار تقریباً 3.5 ارب سال پرانے ہیں۔ یہ طویل عرصہ "ڈیپ ٹائم(deep time)" کے طور پر جانا جاتا ہے، اور ارتقا کے عمل کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ طویل مدتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہیں۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے کی جا سکتی ہے: اگر زمین کی عمر 145.9 سال ہو، تو انسانوں کی موجودگی صرف آخری 2.3 دنوں میں آئی ہے، جو ارتقا کے تدریجی عمل کو واضح کرتی ہے۔
کائنات کی تاریخ کو سمجھنا ایک پیچیدہ عمل ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب ہم وقت کے پیمانوں کو دیکھیں۔ اگر پوری کائنات کی تاریخ کو ایک دن کے اندر سمو لیا جائے تو حضرت محمد ﷺ کا ظہور اس دن کے آخری چند منٹوں میں ہوا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور اس دن کے آخری گھنٹوں میں اور انسانوں کا ابتدائی ظہور تقریباً 2 دن پہلے ہوا۔ چمپنزی اور انسان کی مشترکہ نسل کا آغاز تقریباً 3 ماہ پہلے ہوا، جبکہ زمین کی تشکیل تقریباً 4.6 ارب سال پہلے ہوئی تھی۔ ان اہم تاریخی واقعات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 28 پر کائنات کی تاریخ کو مختلف اہم واقعات کے ساتھ بیان کیا ہے، جو ایک منطقی اور باآسانی سمجھنے والے انداز میں پیش کی گئی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ارتقا دو بنیادی عوامل کے باہمی تعامل کا نتیجہ ہے:
- بے ترتیب تبدیلیاں
- قدرتی انتخاب
جب یہ دونوں عوامل مل کر کام کرتے ہیں، تو ارتقا خاص طور پر نیو ڈارونین طریقے سے ہوتا ہے۔ ڈارون ازم اور نیو ڈارون ازم کے درمیان فرق کو آگے واضح کیا جائے گا۔
ارتقا کا نمونہ (Pattern of evolution)
ارتقا کے عمل کی وضاحت کے بعد، اب یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مختلف انواع کیسے وجود میں آتی ہیں۔ اس کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں ارتقا کے نمونہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، ہم "نوع" کو واضح کرتے ہیں۔ "نوع" سے مراد وہ جاندار ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ جفتی کر سکتے ہیں، جیسے مینڈک مینڈک سے جفتی کرتے ہیں، بلی بلی سے، اور انسان انسان سے۔ اگر دو جاندار آپس میں جفتی نہیں کر سکتے، تو انہیں مختلف نوع سمجھا جاتا ہے (Rogers 2011, 9) ۔
"نوعی تبدیلی" (speciation) اس عمل کو کہتے ہیں جس میں کسی والدین نوع کی آبادی اتنی تبدیلیوں سے گزرتی ہے کہ وہ نئی نوع میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اب وہ والدین نوع یا دوسری انواع کے ساتھ جفتی نہیں کر سکتی ((Urry et al. 2016, 521۔ فرض کریں کہ ایک زلزلے کے بعد ایک جگہ کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، اور ہر حصے کا ماحول الگ ہو جاتا ہے۔ اس نئے ماحول میں، دونوں حصے اپنے طور پر ارتقا کے عمل سے گزرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے جفتی نہیں کر پاتے، یعنی انہوں نے نوعی تبدیلی کا عمل مکمل کر لیا۔ یہ عمل "متنوع ارتقا" (divergent evolution) کہلاتا ہے، جس میں ایک ہی والدین نوع کی نسل وقت کے ساتھ دو یا زیادہ مختلف انواع میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب نوعی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیٹی نوع والدین نوع کو مکمل طور پر ختم کر دیتی ہے۔ والدین نوع اور بیٹی نوع دونوں ایک وقت میں موجود رہ سکتی ہیں (Urry et al. 2016, 564)۔
ارتقا کوئی سیدھا عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک متحرک اور ترقیاتی عمل ہے جو مختلف امکانات کے مطابق ہوتا ہے، اور اس میں چیزیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ ارتقا کے عمل کو عام طور پر "زندگی کے درخت" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ یہ درخت کی شاخوں کی طرح مختلف انواع میں بٹتا ہے، اور ان شاخوں کے درمیان تعلقات کا نیٹ ورک بناتا ہے۔ اس استعارے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ زندگی کی انواع وقت کے ساتھ مختلف طریقوں سے تقسیم ہوئی ہیں، جیسے درخت کی شاخیں جو ایک ہی تنا سے نکل کر مختلف سمتوں میں پھیلتی ہیں۔ لیکن اس استعارے میں کچھ مشکلات بھی ہیں۔ درخت کی شاخوں کا تاثر یہ دے سکتا ہے کہ ارتقا ایک سیدھی اور متعین سمت میں ہوتا ہے، جیسے کہ درخت کی ٹرنک سے شاخیں نکل رہی ہیں جو ہمیشہ ایک ہی سمت میں بڑھتی ہیں۔ تاہم، ارتقا ایک غیر خطی (non-linear) عمل ہے اور اس میں کئی مختلف راستے اور امکانات ہوتے ہیں۔ اس میں ضروری نہیں کہ ہر نئی نوع پچھلی نوع کی جگہ لے لے۔ حقیقت میں، ارتقا ایک مسلسل پھیلاؤ کی طرح ہوتا ہے، جہاں انواع مختلف سمتوں میں تقسیم ہو سکتی ہیں اور ہر شاخ اپنی جگہ ایک نئی نوع کی طرف بڑھتی ہے۔
اسی وجہ سے، "زندگی کے درخت" کی جگہ "زندگی کی جھاڑی" کا استعارہ زیادہ مناسب ہوگا۔ جھاڑی میں ایک ہی مرکز سے کئی مختلف شاخیں نکلتی ہیں اور یہ شاخیں ایک دوسرے سے الگ ہو سکتی ہیں، جیسے ارتقا میں نئی انواع کا وجود آتا ہے، لیکن اس میں کوئی واضح راستہ یا متعین سمت نہیں ہوتی۔ یہ جھاڑی ارتقا کے عمل کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھاتی ہے کیونکہ یہ ارتقا کی پیچیدگی، انحراف اور تنوع کو ظاہر کرتی ہے، جہاں ہر نوع کا وجود مختلف عوامل کے نتیجے میں ہوتا ہے، اور اس میں کسی مخصوص سمت میں جانا ضروری نہیں۔ اسے مزید سمجھنے کے لیے اصل کتاب کے صفحہ 31 پر موجود تصویر کو ملاحظہ کیا جائے جوایک جھاڑی کی طرح پھیلتی شاخوں کی صورت میں پیش کی گئی ہے، جس میں زندگی کے آغاز سے لے کر اب تک مختلف شاخوں کے وجود کے بعد، مختلف انواع کا ظہور دیکھنے کو ملتا ہے۔ انسان، بندر، اور لنگور کے درمیان کی شاخوں کو اس طرح سے زوم کیا گیا ہے کہ ان کے درمیان مختلف درمیانی انواع کو دکھایا جا سکے جو پچھلے 60 ملین سالوں میں ان کی موجودگی تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔
ارتقا کی وضاحت
ارتقا کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جانداروں میں وقت کے ساتھ ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جو نئی نسلوں کو اپنے آباؤ اجداد سے مختلف بناتی ہیں۔ چارلس ڈارون نے اسے "تغیر کے ساتھ وراثت" (descent with modification) کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ جاندار اپنی اولاد میں تبدیلیاں منتقل کرتے ہیں، اور یہ تبدیلیاں اتنی بڑھ سکتی ہیں کہ نئی انواع وجود میں آتی ہیں۔ یہی عمل زمین پر موجود حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کی بنیاد ہے (Urry et al. 2016, 471–472) ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جب جاندار اپنی نسل بڑھاتے ہیں تو ان میں تدریجی اور مجموعی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں اتنی جمع ہو جاتی ہیں کہ نئی انواع (species) تشکیل پاتی ہیں، اور یہی عمل حیوانات اور نباتات کی دنیا میں موجود حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کا سبب بنتا ہے۔ یہ تمام عمل تین بنیادی اصولوں پر مبنی ہے:
- وراثت (heredity)،
- تغیر (variation)، اور
- قدرتی انتخاب (natural selection)
ارتقائی عمل میں جینیاتی سطح پر تغیرات (mutations) رونما ہوتے ہیں، جو کسی جاندار کی ظاہری خصوصیات (phenotype) پر اثر ڈالتے ہیں۔ اب تک ارتقا کے بارے میں عام فہم تعریف، یعنی کسی چیز میں تبدیلی، سائنسی تعریف سے ملتی جلتی ہے۔ لیکن ارتقا کو مثبت پیشرفت کے طور پر دیکھنے کا دوسرا عام تصور سائنسی نقطہ نظر سے درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقا میں ہونے والے جینیاتی تغیرات مکمل طور پر بے ترتیب (random) ہوتے ہیں، اور ان میں کوئی مخصوص سمت یا مقصد نہیں ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں، ارتقا کا عمل کسی خاص "بہتری" یا "مثبت نتیجے" کی ضمانت نہیں دیتا بلکہ یہ ایک غیر یقینی (contingent) اور اتفاقی عمل ہے۔ اسی اتفاقی اور بے ترتیب طریقہ کار کی وجہ سے مشہور ارتقائی ماہر حیاتیات اسٹیفن جے گولڈ نے کہاتھا "اگر زندگی کی فلم کو ایک ملین بار دوبارہ چلایا جائے... تو مجھے شک ہے کہ انسان جیسی کوئی مخلوق دوبارہ وجود میں آئے گی۔ (Stephen Jay Gould, 1989, p. 289)"
یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ ارتقا کا عمل مکمل طور پر ماحول، اتفاق اور قدرتی حالات پر منحصر ہے، اور اس میں کسی بھی خاص نتیجے یا مخلوق کی دوبارہ تشکیل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
نیوڈارونین ارتقا کو تین بنیادی تصورات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (Fowler and Kuebler 2007, 28–29):
- گہرا وقت (Deep Time): زمین کی عمر کروڑوں اور اربوں سالوں پر محیط ہے، جسے ارضیاتی وقت (geological time) بھی کہا جاتا ہے۔
- مشترک نسب (Common Ancestry): تمام جاندار حیاتیاتی طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کی ایک تاریخی نسل ہے، یعنی موجودہ جاندار ماضی کے جانداروں کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔
- سبب کا میکانزم (Causal Mechanics): اتفاقی جینیاتی تغیرات (random mutations) اور قدرتی انتخاب (natural selection) ارتقا کے اس عمل کو آگے بڑھانے والے عوامل ہیں۔
ان نکات کے درمیان منطقی تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہم نکتے 1 سے 3 کی طرف بڑھیں، تو ارضیاتی وقت خودبخود مشترک نسب کی وضاحت نہیں کرتا، اور مشترک نسب بھی لازمی طور پر قدرتی انتخاب اور جینیاتی تغیرات کے ذریعے ارتقا کو ثابت نہیں کرتا۔ البتہ، اس کے برعکس سمت میں، یعنی نکتے 3 سے 1 تک، نیوڈارونین ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ قدرتی انتخاب اور جینیاتی تغیرات، مشترک نسب، اور ارضیاتی وقت سب موجود ہوں (van den Brink et al. 2017, 459) ۔
ارتقا کے لیے شواہد
ارتقا کے حق میں کئی قسم کے شواہد موجود ہیں جو مجموعی طور پر اس نظریے کی تائید کرتے ہیں۔ محدود جگہ کے باعث، ہم صرف تین اہم شواہد پر توجہ دیں گے: فاسل ریکارڈ یا ماقبل تاریخ (fossil record or paleontology)، ہم آہنگی یا ہم ساختیت (homology)، اور جینیات(genetics)۔
فوسل ریکارڈ
فوسل ریکارڈ سے مراد ماضی میں موجود جانداروں کی ہڈیاں ہیں جو دریافت ہوئی ہیں۔ زمین کی سطح مختلف تہوں میں بٹی ہوئی ہے، اور ہر تہہ ایک مخصوص دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ہم ان تہوں کی عمر کا پتہ جیولوجیکل اور کیمیائی تجزیوں سے لگا سکتے ہیں۔ جب کسی فوسل کو کسی خاص تہہ میں پایا جاتا ہے، تو ہم اس وقت کو اس جاندار کی موجودگی کے دور سے جوڑ دیتے ہیں (مخصوص پیمائش کے طریقوں کے مطابق)۔ فوسل ریکارڈ کے حوالے سے دو اصول بہت اہم ہیں: پہلا، پرانی تہیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، یعنی جتنا گہرا کھودیں گے، اتنا ماضی میں پہنچیں گے۔ دوسرا، جیسے جیسے ہم پرانی تہوں سے حالیہ تہوں تک جاتے ہیں، جانداروں کی پیچیدگی میں اضافہ نظر آتا ہے۔ ڈارون کے دور میں فوسل ریکارڈ بہت کمزور تھا، لیکن آج کے دور میں فوسل ریکارڈ میں کافی اضافہ ہو چکا ہے، جو جانداروں کے بتدریج ارتقا کو ثابت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر "پاکی سی ٹس(Pakicetus) "(جو پاکستان میں دریافت ہوا) سے لے کر "جدید وہیلز(modern whales)" تک کی ترقی کو دیکھا جا سکتا ہے (Rogers 2011, 18–21)۔ لاکھوں سالوں اور کئی چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے بعد، پاکی سی ٹس بتدریج ایسے جانور میں بدل گیا جو پیروں کی بجائے پنکھ کا حامل تھا۔ ارتقائی ماہرین نے بعض جانداروں کے بارے میں پیش گوئیاں کی ہیں کیونکہ ان کی باقیات نہیں مل پائی تھیں۔ ان میں سے ایک مشہور مثال "ٹک ٹالک" (Tiktaalik) کی ہے، جو اصل کتاب میں صفحہ 34 پر دکھائی گئی ہے۔
ارتقا کے عمومی اصولوں کے مطابق، زندگی کا آغاز سمندر میں ہوا تھا۔ کئی ملین سالوں کے دوران، مچھلیوں نے ارتقا کی بدولت خشکی پر آنے کی صلاحیت حاصل کی۔ ماہرین نے پیشگوئی کی کہ ایسی کوئی نوع ضرور موجود رہی ہوگی جس میں سمندری اور خشکی دونوں قسم کے جانوروں کی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ٹک ٹالک اس پیشگوئی کو درست ثابت کرتا ہے۔ اس میں مچھلیوں کی بنیادی خصوصیات اور خشکی کے جانوروں کی طرح ابتدائی پھیپھڑوں کا نظام بھی موجود تھا، جو ارتقا کی منتقلی کو ظاہر کرتا ہے (Rogers 2011, 22–23; Futuyma and Kirkpatrick 2017, 447–449)۔ یہ ایک مشہور مثال ہے جو بتاتی ہے کہ ارتقا کی تھیوری ان دریافتوں کے لیے سب سے مضبوط وضاحت فراہم کرتی ہے۔
ہم آہنگی یا ہم ساختیت کی وضاحت
ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ مختلف جاندار انواع میں کچھ خصوصیات مشترک ہوتی ہیں، جو ان کے مشترکہ آباواجداد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جب کسی نوع کی آبادی ارتقاسے گذرتی ہے، تو اس کی اولاد مختلف نوعیت کی مختلف قسموں میں تبدیل ہو سکتی ہے، اور ہر نئی نوع میں مختلف ماحولیاتی دباؤ کے تحت اس کے جسمانی اور ساختی خصائص میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ پھر بھی، یہ ممکن ہے کہ بعض بنیادی خصوصیات جو ابتدا میں مشترک تھیں، ارتقا کے دوران نئی انواع میں منتقل ہو کر مختلف صورتوں میں ظاہر ہوں۔ مثال کے طور پر، اصل کتاب کے صفحہ 36 پر دی گئی تصویر میں آپ مختلف جانداروں کی ہڈیوں کی ساخت کو دیکھ سکتے ہیں جیسے انسان، کتا، وہیل اورچمگادڑ کے ڈھانچے(Morvillo 2010, 192–194; Urry et al. 2016, 477–479) ۔ انسان کے ہاتھ، کتے کے پاؤں، وہیل کےپنکھ اورچمگادڑ کے پر مختلف افعال سرانجام دیتے ہیں، لیکن ان سب کی ہڈیوں کی ساخت میں ایک خاص مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ مشابہت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ سب انواع ایک مشترکہ خاندان سے آئی ہیں۔ چاہے ارتقائی عمل کے دوران ان کی ساخت میں بڑے فرق آ گئے ہوں، لیکن ان کی ہڈیوں کی بنیادی ساخت میں جو مشابہت نظر آتی ہے، وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ان سب کی ابتدا ایک ہی نوع سے ہوئی تھی۔ اس طرح ہم آہنگی یا ہم ساختیت ارتقائی سائنس دانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ مختلف جاندار انواع میں موجود کچھ ساختی مشابہتیں کیوں پائی جاتی ہیں، اور یہی مشابہتیں ارتقائی عمل کے دوران مختلف ماحول میں ان کی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہیں۔
جینیات
جینیات (Genetics) ارتقا کے حق میں سب سے مضبوط اور واضح ثبوتوں میں سے ایک ہے۔ جینیات کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مختلف انواع کے جینیاتی مواد میں جو مماثلت پائی جاتی ہے، وہ ان کے مشترکہ آبا واجداد کی موجودگی کو ثابت کرتی ہے۔ اس کا تصور سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال لیتے ہیں:
فرض کریں ایک استاد کے پاس ایک قلعہ ہے جو چھوٹے چھوٹے لیگو بلاکس (Lego Blocks) سے بنا ہے۔ یہ قلعہ ایک بڑے ڈھانچے کی نمائندگی کرتا ہے۔ استاد اپنے بیس طلبہ کو ہدایت دیتے ہیں کہ ہر طالب علم قلعے میں سے صرف ایک بلاک کو چن کر اس میں ایک تبدیلی کرے۔ وہ اس بلاک نکال سکتا ہے،وہاں ایک نیا بلاک شامل کرسکتا ہے، موجودہ بلاک میں کوئی تبدیلی کرسکتا ہے یا بلاک کو جیسا ہے ویسا ہی چھوڑا جا سکتا ہے۔ ہر طالب علم اپنی تبدیلی کے بعد استاد کو اجازت دیتا ہے کہ وہ قلعے کی ایک تصویر لے لیں۔ اس طرح جب تمام طلبہ اپنا کام مکمل کر لیتے ہیں، تو استاد کے پاس قلعے کی مختلف حالتوں کی تصاویر کا ایک مجموعہ محفوظ ہوجاتا ہے۔ یہ تصاویر اس بات کا ریکارڈ فراہم کرتی ہیں کہ وقت کے ساتھ قلعے میں کیا کیا تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ اب، اگر استاد یہ تصاویر کسی دوسری کلاس کو دکھائیں، جس نے پہلے کبھی یہ تجربہ نہیں کیا تھا، تو وہ کلاس ان تصاویر کا جائزہ لے کر یہ سمجھ سکتی ہے کہ قلعے میں تبدیلی کس ترتیب سے ہوئی۔ چونکہ ہر طالب علم نے صرف ایک تبدیلی کی تھی، اس لیے ان تبدیلیوں کی ترتیب کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
یہ مثال جینیات کے مطالعے کو سمجھانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ جیسے قلعے کی تصاویر کے ذریعے تبدیلیوں کا ریکارڈ تیار کیا گیا، ویسے ہی جینیات میں ہم مختلف جانداروں کے ڈی این اے اور کروموسومز کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس تجزیے کے ذریعے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جینیاتی سطح پر کون سی تبدیلیاں ہوئیں اور یہ تبدیلیاں کس ترتیب سے وقوع پذیر ہوئیں۔
مثال کے طور پراورانگوٹان(orangutan)، گوریلا (gorilla)اور چمپنزی (chimpanzee)کے کروموسومز کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم یہ تلاش کر سکتے ہیں کہ انسانوں تک پہنچنے میں جینیاتی تبدیلیاں کیسے اور کس ترتیب سے ہوئیں۔ جینیاتی تبدیلیوں کی یہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مختلف انواع میں جینیاتی ارتقا کا عمل کس طرح ہوا، بالکل ویسے جیسے لیگو بلاکس کے قلعے کی تاریخ تصویروں کے ذریعے معلوم کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ اورانگوٹان، گوریلا، اور چمپنزی میں 24 کروموسومز ہوتے ہیں، جنہیں جینیات کے ماہرین نے عددی طور پر لیبل کیا ہوتا ہے، جیسے 1، 2، 3 وغیرہ۔ تاہم، انسان اس حوالے سے ایک استثنا ہے کیونکہ ان کے پاس 23 کروموسومز ہیں، جو باقیوں سے ایک عدد کم ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چمپنزی اور انسانوں کے ایک قدیم آبا کے دو کروموسومز آپس میں ضم ہو گئے ہوں گے۔ اصل کتاب کے صفحہ 37 پر دی گئی تصویر اورانگوٹان، گوریلا، اور چمپنزی کے دو کروموسومز کو دکھاتی ہے۔ ہم ان جانداروں کے کروموسومز میں ہونے والی تاریخی تبدیلیوں کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ تاہم چمپنزی اور انسانی کروموسومز میں فرق یہ ہے کہ انسان کے کروموسومز میں دو کروموسومز ضم ہو کر ایک بن گئے ہیں (Alexander 2008, 211–212; Fairbanks 2010, 17–30)۔
اس دریافت کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اورانگوٹان، گوریلا، چمپنزی اور انسانوں کے کروموسومز میں جینیاتی مشابہتیں پائی جاتی ہیں، جو اس بات کا ایک اہم ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ ان سب کے آبا و اجداد مشترک تھے۔
مزید یہ کہ ایسے غیر فعال جینز بھی موجود ہیں جنہیں پسیوڈوجینز(Pseudogenes) کہا جاتا ہے، جو جینیاتی طور پر دوسرے فعال جینز کی طرح نظر آتے ہیں، لیکن ارتقائی عمل کے دوران کسی تبدیلی کی وجہ سے ان کی فعالیت ختم ہو جاتی ہےمگر یہ نسل در نسل اور مختلف انواع میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ جینز مختلف انواع کے درمیان جینیاتی رشتہ داری کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف جاندار حیاتیاتی نسب کے ذریعے کس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں (Finlay 2013, 132–193; Futuyma and Kirkpatrick 2017, 345–367)۔ انسانوں اور چمپنزیوں میں پسیوڈوجینز کی یہ مماثلت اس دعوے کی مزید تائید کرتے ہیں کہ انسان اور چمپنزی ایک مشترکہ جد امجد رکھتے ہیں (Zhang 2014)۔ یوں جینیات کی تحقیق ہمیں ارتقا کے عمل کے بارے میں واضح ثبوت فراہم کرتی ہے، اور یہ ثابت کرتی ہے کہ مختلف انواع میں جینیاتی مماثلتیں ان کے مشترکہ آباو اجداد کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہیں۔
مختصر یہ کہ ارتقا مضبوط بنیادوں پر قائم ایک نظریہ ہے جس کی حمایت مختلف سائنسی شواہد کرتے ہیں۔ ہر دلیل کا ایک مخصوص پہلو ہوسکتا ہے جسے عارضی طور پر تسلیم بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن جب مختلف سائنسی تحقیقات اور شواہد ایک ہی نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جنہیں consilience of induction کہا جاتا ہے، تو نتیجہ بہت زیادہ مستند ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال ارتقا کے نظریے کے ساتھ ہے (Ruse 2008, 25–51; Rieppel 2011, 127–133)۔
ہم نے یہاں ارتقا کی حمایت میں تین اہم شواہد پر گفتگو کی ہے، لیکن حقیقت میں ارتقا کے ثبوت بہت زیادہ ہیں جنہیں تفصیل سے جانچنا اس مقالے کی حد سے باہر ہے، لیکن جو لوگ اس موضوع پر مزید جاننے کے خواہش مند ہیں وہ اس باب کے اختتام پر دیے گئے حوالہ جات میں موجود کتب اور مقالات کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جہاں ارتقا کے بارے میں زیادہ گہرائی سے بات کی گئی ہے۔
یہاں تک باب اول کے پہلے دو حصے ختم ہو جاتے ہیں، اگلے دو حصے ارتقا کی تاریخ اور اس پر ہونے والی تنقید کی مباحث پر مشتمل ہیں، جن کے اختتام پر باب اول کے تمام حوالہ جات کو بھی پیش کیا جائے گا۔ (مترجم)