بچوں کی نفسیات

اگر ہم بچوں کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھ لیں تو ان کی صحیح طور پر پرورش کر سکتے ہیں، ان کی جسمانی اور دماغی طاقتوں کو بڑھا سکتے ہیں، ان کی مشکلات کو کم کر سکتے ہیں، اور ایک اچھی نسل پیدا کر سکتے ہیں جو ملک و قوم اور خاندان کے لیے باعثِ فخر ہو۔ ہر بچہ خواہ وہ کیسا ہی سیدھا سادا بے وقوف ہو، صحیح تربیت سے ایک بڑا آدمی بن سکتا ہے  کیونکہ ہر بچے میں پیدائشی طور پر پوری صلاحیت ہوتی ہے، مگر بعض بچے ان سے کام نہیں لے سکتے لہٰذا ان پر زنگ چڑھ جاتا ہے، اگر صحیح تربیت کی جائے تو اس کے چھپے ہوئے جواہر چمکنے لگتے ہیں۔ بچے پر ماحول کا بڑا اثر پڑتا ہے، وہ جو کچھ اپنے ماحول میں دیکھتا ہے اس کی نقل کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ نقل ہی کر سکتا ہے۔ جن بچوں کو اچھا ماحول میسر آجاتا ہے وہ ہونہار بن کر اٹھتے ہیں اور جنہیں اچھا ماحول نہیں ملتا وہ خراب ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ بعض خراب بچے اچھا ماحول ملنے سے بڑے ہونہار بن کر اٹھتے ہیں۔

مارنا برا ہے

اگر ہم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں تو معمولی ذہن کے بچے بھی بڑے ہو کر ملک و قوم کے اچھے خادم بن سکتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم بچوں کی صحیح تربیت کرنا نہیں جانتے۔ اب بزرگوں کا وہ قول بالکل غلط ثابت ہو چکا ہے کہ اچھی تربیت کے لیے بچوں کو مارنا بہت ضروری ہے۔ مارنے سے بچے کبھی درست نہیں ہوتے، ضدی بن جاتے ہیں اور صرف ڈر اور خوف کے وقت تو مجبوراً‌ اچھے کام کرتے ہیں مگر جب کسی کا ڈر نہیں ہوتا تو ہمیشہ برے کاموں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

نرمی

بچوں کی تربیت نرمی سے کرنی چاہیے۔ ہر وقت کی روک ٹوک سے بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور انہیں اچھے ماحول سے نفرت ہو جاتی ہے۔ بچوں کو نیکی کی طرف اس طرح مائل کرنا چاہیے کہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ پھر اگر وہ کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو اس کی تعریف کرنی چاہیے، اس طرح وہ اچھائی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی برا کام کرتے دیکھو تو مارو نہیں، سختی نہ کرو، پیار و محبت سے سمجھا دو۔ ورنہ وہ تم سے چھپ کر ضرور اسی طرح کرے گا اور اس طرح اس کا دل بدی کی طرف مائل ہو جائے گا۔ بچہ اگر چھپ کر کوئی غلط کام کر رہا ہو تو تھوڑی چشم پوشی بھی کرنی ضروری ہوتی ہے۔

صحیح تربیت

یورپ کے مختلف ماہرینِ تعلیم و نفسیات نے اس مقولے کو بالکل غلط ثابت کر دیا ہے کہ بچے کے لیے قمچی اٹھانا ضروری ہے۔ ہمارا عمل ہمیشہ سے اس مقولے کے مطابق رہا ہے اور برسوں کی عادت نے ہماری طبیعت میں اس اصول کو راسخ کر دیا ہے۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ بچہ فطرتاً‌ معصوم ہوتا ہے اور اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہے۔ جب تک بچے کے نفسیات اور جسمانی بناوٹ پر غور کر کے اس کی تربیت نہیں کی جائے گی قوم و نسل کی بہبود کی توقع فضول ہے۔ اگر ہم اصول کی پابندی کریں تو ہماری آنے والی نسل پچھلی نسل سے بہتر ہو گی اور تیسری نسل یقیناً‌ تمام خوبیوں سے آراستہ ہو گی۔ ہر دماغ کے اندر سوئی ہوئی ذہانت موجود ہوتی ہے۔ ہر بچہ ایک قوت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اگر اسے ترقی دی جائے تو وہ غیر معمولی ذہانت والا بن سکتا ہے۔ یہ خیال کرنا کہ بچے کی تربیت کا بیڑا چھ یا آٹھ سال کی عمر کے بعد اٹھانا چاہیے۔

دلچسپی

دماغ پر بار اس وقت پڑتا ہے جب غیر دلچسپ چیزیں زبردستی دماغ میں بھر دی جاتی ہیں۔ انسانی دماغ دلچسپ چیزوں کے قبول کرنے، قائم رکھنے، اور انہیں اور زیادہ دلچسپ چیزوں میں تبدیل کرنے کی غیر معمولی قابلیت رکھتا ہے۔ اس لیے مسلسل اور مستقل دلچسپی پیدا کر کے دماغ کو بہت وسیع کیا جا سکتا ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانے پر اس کی تربیت کی جا سکتی ہے، اور اس پر مطلق بار پڑنے یا اکتا جانے کا اندیشہ نہیں ہو گا۔

طریقۂ گفتگو

بچوں سے گفتگو کے دوران میں صرف ان باتوں پر زور دینا چاہیے جن کی فضیلت مسلّم ہو۔ جہاں تک ہو سکے کمزور پہلو کو اڑا دینا چاہیے، اگر ممکن نہ ہو تو یہ ضرور کہہ دیا جائے کہ یہ اہم نہیں ہے۔

بد اثرات

بچے کا احساس ہر ایسے اثر کے لیے بہت حساس ہوتا ہے جو اس کے شعور پر اثر کرتا ہے۔ اور جو بھی اثر اس کے دماغ پر پڑ جاتا ہے ساری عمر قائم رہتا ہے اور بغیر خاص کوشش کے دور نہیں ہوتا۔ ہر اثر ایک میلان پیدا کرتا ہے اور ہر میلان بچپن میں راسخ ہو جاتا ہے اور دماغ پر برسوں یا عمر بھر اثر انداز رہتا ہے۔ اگر یہ میلان برا ہوتا ہے تو بچے کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور اس کے ہر کام میں خلل ڈالتا ہے۔ گو بڑے ہو کر بعض بچے اس پر قابو پا لیتے ہیں پھر بھی انہیں بڑی دشواری ہوتی ہے، اس لیے ایسے میلان کو شروع ہی میں روک دینا چاہیے۔ ابتدا میں ایسے اثر کا دور کرنا آسان ہوتا ہے، بعد میں بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

بچوں کو برا نہ کہو

گھر والے اکثر بچوں سے کہا کرتے ہیں، تم شریر ہو، تم برے آدمی ہو۔ ایسا ہرگز کبھی بھولے سے بھی نہیں کہنا چاہیے۔ اکثر ماں باپ اپنے آوارہ بچوں کے ہاتھوں صرف اس لیے پریشان ہیں کہ انہوں نے بار بار اور زور کے ساتھ برائی کا خیال ان کے ذہن نشین کیا تھا۔ ہنسی ہنسی میں بھی اگر بچے سے بار بار کہا جائے کہ تم شریر ہو، تم برے آدمی ہو، تو وہ اس کا یقین کر لے گا۔ جب کسی کو یقین آجائے کہ وہ برا آدمی ہے تو برائی کا خیال ہر وقت اس کے دل میں رہتا ہے اور اس کے اندر برے خیالات اور بری خواہشات پیدا ہو جاتی ہیں، جن کا نتیجہ برے اعمال و افعال ہوتے ہیں، ہمیشہ انسان کے دل میں برے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور پھر برے اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ برے خیالات اسی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں جسے برا ہونے کا یقین دلایا گیا ہو۔

سیرت کی تعمیر

بچے کی سیرت کی درستی کے لیے اس کے دماغ کو ہمیشہ نیک کاموں، خوش خلقی، سچائی، خوبصورتی، اور بلند خیالات سے معمور رکھنا چاہیے اور ہمیشہ مخالف اثرات سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ بچے کو اس برائی کا یقین دلانا اس کے دماغ میں زہریلا بیج بونا ہے۔ دنیا میں بچہ فطرتاً‌ نیک پیدا گیا ہے۔ وہ باوجود بری تربیت کے بدی سے زیادہ نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بچہ برا نہیں ہوتا۔ اگر اس کے افعال برے نہیں ہوتے تو اس کا سبب عموماً‌ خراب تربیت ہوتا ہے، جسمانی قوت کو بے جا صَرف کرنا ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بعض بچے پیدائشی طور پر برے رجحانات رکھتے ہوں مگر انہیں غلط تربیت سے قوی ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ ایسے بچوں کو شریر یا برا کہنا گویا جلتی پر تیل ڈالنا ہے۔ اگر تم بچے کو اس بات کا یقین دلاؤ گے کہ عمدہ اخلاق کا اس کے اندر وجود ہے اور وہ اچھا انسان بننے کی قوت رکھتا ہے، بلکہ وہ حقیقت میں اچھا ہے، تو چند سال کے عرصہ میں اپنی اصلاح کر لے گا۔

بچے کو کوئی کام بتاؤ تو پہلے اسے اس کے فائدے بتا دو اور زبردستی نہ کرو۔ بچے کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کی دماغی قوتیں بھی بڑھتی رہتی ہیں۔ اگر ان طاقتوں کی تربیت کی طرف توجہ (نہ) کی جائے تو مردہ ہونے لگتی ہیں۔ جو بچہ ادنیٰ معیار پر رہ جاتا ہے، صرف اس وجہ سے رہ جاتا ہے کہ اس کی طرف سے غفلت برتی گئی، ورنہ وہ بھی بڑا آدمی بن سکتا تھا۔ 

بچے کی بہترین فطری قوتوں کو ترقی دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دیکھیں کہ اس کی طبیعت کن باتوں کی طرف مائل ہے، انہی چیزوں کی ترقی کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ماں باپ ایسا نہیں کرتے تو انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے ساتھ سختی برتیں، یا اسے اس طرح کے کاموں پر سزا دیں۔ سزا بدی کو دبا سکتی ہے، نیکی کی طرف مائل نہیں کر سکتی۔ نیکی تو بچے کو صحیح راستے پر ڈالنے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر بچے کے طبعی رجحان کو دیکھ کر اس کے رجحان کے مطابق اسے اسی قسم کے کھیلوں اور کاموں میں لگایا جائے تو اس کے چھپے ہوئے جوہر نکھرتے ہیں اور وہ شرارت سے باز رہتا ہے۔ بچے شرارت اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں ان کی طبیعت کے مطابق چیزیں نہیں ملتیں۔

کام لینا

یہ خیال کہ بچے سے کوئی کام نہ لیا جائے بس کھیلنے ہی دیا جائے، بالکل غلط ہے۔ بچوں سے ان کی ذہنیت کے مطابق کام لینا چاہیے۔ اگر وہ اچھائی سے اسے انجام دیتے ہیں تو ان کی تعریف کرنی چاہیے۔ اور اگر خراب کرتے ہیں تو نرمی سے بتانا چاہیے اور حوصلہ بڑھانا چاہیے۔ ایسا کام جو بچے کی طبیعت کے مطابق نہ ہو، زیادہ نہیں لینا چاہیے، اس لیے کہ وہ اکتا جائے گا۔ کام کا انتخاب اور وقت کا تعین بچے کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ امید رکھنی چاہیے کہ بچہ آپ کی ہدایت کے مطابق کام کرے گا۔ اگر ایسا نہیں کرتا تو اس سے بدظن نہ ہونا چاہیے کیونکہ ہر بچہ بڑوں کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی کبھی غلطی بھی کر جاتا ہے۔

قوتِ خیال کی تربیت

ہماری دماغی قوتوں میں سب سے اہم قوتِ خیال ہے اور ہر بچہ عظیم قوتِ خیال کا مالک ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی قوتِ خیال کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ آگے چل کر ایک بڑا آدمی بن سکے۔ کسی بھی قوت کو غیر صحیح مقصد کے لیے استعمال کرنا اس قوت کو کمزور کر دیتا ہے۔ جن بچوں کو خوفناک چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے ان کی یہ قوت کمزور پڑ جاتی ہے۔ بچوں کی قوتِ خیال کو تربیت دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انہیں نیک، اچھے اور بڑے لوگوں کے قصے سنائے جائیں، اس طرح بچے کی قوتِ خیال صحیح طور پر پرورش پاتی ہے۔

بچے کے احساسات

ہر بچہ ایسے احساسات رکھتا ہے جو معمولی ذہانت سے بلند ہوتے ہیں۔ مگر ہم لوگ احساس نہیں کرتے اور ان کی قوتِ احساس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اکثر (بچوں) میں یہ احساسات ترقی کے محتاج ہوتے ہیں، تربیت نہیں کی جاتی تو ضائع ہو جاتے ہیں۔

بچے نقال ہوتے ہیں

بچہ فطرتاً‌ نقال واقع ہوا ہے۔ اس کے اندر دوسروں کے کہنے پر عمل کرنے سے زیادہ دوسروں کو کرتا دیکھ کر خود بھی ویسا ہی کرنے کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ بچوں کے ساتھ اکثر رہتے ہوں انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے اخلاق و عادات، اپنا مزاج اور اپنے اشغال ویسے ہی بنائیں جیسے بچے کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو بچے کے پیش نظر رہے، اعلیٰ قسم کی ہونی چاہیے۔ دیکھو، جو چیز ہر وقت ہمارے سامنے رہتی ہے اس کا ایک خاص اثر ہمارے اوپر ہوتا ہے، لہٰذا بہترین ماحول پیدا کرنا عین مصلحت ہے۔

ماحول کا اثر

ماحول کی ہر شکل و صورت ہمارے دماغ پر اثر کرتی ہے اور ہر اثر جو بچے کے دماغ پر ہوتا ہے ایک اہمیت رکھتا ہے، اگر فوراً‌ اثر نہیں ہو گا تو انجام کار ہو کر رہے گا۔

(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور ۔ ۸ اکتوبر ۱۹۸۸ء)


دین و حکمت

(الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۲

آزادی و آگاہی اور یکجہتی کے ہمارے قومی و ملّی تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماڈرنائزیشن کی آڑ میں ویسٹرنائزیشن
مفتی سید عدنان کاکاخیل

تیسری صدی ہجری میں علمِ حدیث
ڈاکٹر فضل الرحمٰن محمود

علم الکلام میں امام ابن تیمیہ کا مکتبِ فکر
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

بچوں کی نفسیات
علامہ حکیم عبد الصمد صارم الازہریؒ

نظم: اسلام کا سائنسی عہدِ زریں
محمود الحسن عالمیؔ

قائد اعظم کا تصورِ مُملکتِ پاکستان
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

کاروباری دنیا میں قبضہ کی شرعی حقیقت اور جدید شکلیں
مفتی سید انور شاہ

خزانۂ الٰہی کی کنجی دُعا اور اس کے دندانے لقمۂ حلال
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان میں اسلامائزیشن،    توہینِ رسالت کا مسئلہ،    قائدِ اعظم کا تصورِپاکستان
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
مولانا عبد الودود

پاک بنگلہ تعلقات     —     علماء کی سفارت کاری
عمار خان یاسر

غزہ میں جنگ بندی: کیا وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کچھ مفید ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

لورین بوتھ — برطانوی خاتون صحافی جنہیں فلسطین نے مسلمان کیا
ٹووَرڈز ایٹرنیٹی

ملی مجلس شرعی کا اجلاس
ڈاکٹر محمد امین

When Hazrat Abdullah ibn Umar Defended Hazrat Usman ibn Affan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۶)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

سپریم کورٹ کا تجربہ، تعلیمی و علمی سفر، آئینی و قانونی مباحث (۱)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
رفیق اعظم بادشاہ

کیا قدیم علمِ کلام دورِ حاضر میں ایک  غیر متعلق روایت بن چکا ہے؟ (۱)
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۱۰)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter