اے جوانِ مسلم! ترک کر احساس کمتری کو
کہ یاد کر اپنے اسلاف کی سائنسی برتری کو
ہے اسلام نے لہرایا پرچم سائنسی حکمت کا
بتاؤں تجھے گر تو منتظر ہے اپنی عظمت کا
تو فرزندِ عہدِ قرونِ وسطیٰ ہے
تو آئینۂ علم و حکمتِ عظمیٰ ہے
تو عباس ابن فرناس کی پرواز ہے
تو لہراتے جہازوں کا پہلا راز ہے
تو ابن الہیثم کی نفیس چشم بینی ہے
تو کیمرے میں قید تخیل کی رنگینی ہے
تو بابائے کیمیاء جابر بن حیان ہے
تو علم کیمیاء کی جدت کی شان ہے
تو ابن سینا بابائے طبیات ہے
تو فلکیات کی روشن آیات ہے
تو الکندی وسعتِ علم کا جامع پیام ہے
تو فلسفہ و سائنس کا مشترکہ کلام ہے
تو رازی کی عقلیت کا تابندہ راز ہے
تو طب و کیمیاء کی زندہ آواز ہے
تو بیرونی دانائے زمین و آسماں ہے
تو جامع العلوم، سائنس داں ہے
تو عثمان جاحظ کی حیاتیاتی تفسیر ہے
تو نظریہ ارتقاء کی حقیقی تصویر ہے
تو الصوفی کا تراشا ہوا جہان ہے
تو مفکر اعظم، فلکیات دان ہے
تو موسیٰ خوارزمی کی معرفتِ عظیم ہے
تو الجبر و خوارزمیہ کی ایجادِ قدیم ہے
تو فزاری زیج ہند کا پہلا ترجمان ہے
تو حسابِ فلکی کی پہلی منظم زبان ہے
تو نصیر طوسی کا فلکی حساب ہے
تو رصدگاہ مراغہ کی مستند کتاب ہے
تو ابن زُہر کی طب کا امین ہے
تو فنِ جراحت کی زرخیز زمین ہے
تو الفرغانی کے نجوم کا جہاں ہے
تو فلکِ خدا کی وسعت کی زباں ہے
تو عمر خیام کی جلالی تقویم ہے
تو علمِ ریاضی کا ماہر حکیم ہے
تو ابن باجہ پیغامبر حرکیات ہے
تو فلسفیِ خلوت، ماہر طبیعیات ہے
تو ابنِ طفیل فلک پیما نکتہ شناس ہے
تو حکمتِ طب کی روشن اساس ہے
تو ابن بیطار، نباتات داں ہے
تو سبزہ شفاء کا طبی بیاں ہے
تو المسعودی حیوانات کا ماہر حکیم ہے
تو جانوروں کا رفیق، صاحب حلیم ہے
تو قروینی ارضیات کا مستند عالم ہے
تو مشاہداتِ ارضی کا بیان سالم ہے
تو فاطمہ الفہری کی علم پروری ہے
تو جامعات کی پہلی پیش قدمی ہے
تو مریم اسطرلابی، ذہانت کا کمال ہے
تو فلکیات میں نسوانی اوج جمال ہے
تو ادرِیسی کا ہنرِ نقشہ نگاری ہے
تو جغرافیہ کا معتبر کھلاڑی ہے
تو حجاج بن مطر کی فنِ ترجمہ نگاری ہے
تو یونانی سائنس کی علمی آب یاری ہے
تو ابن بطوطہ کی وسعتِ دید ہے
تو جغرافیہ کی اِک زندہ تمہید ہے
تو ابن رشد کی فلسفیانہ عظمت ہے
تو رموز مادی کی گہری حکمت ہے
تو ابن خلدون بابائے سماجیات ہے
تو امام المورخین اور کثیر الجہات ہے
تو فارابی کی موسیقی* میں روانی ہے
تو دنیائے فلسفے کا معلم ثانی ہے
تو مسکویہ اخلاقیات کا عالم افروز ہے
تو نفسیات کا معلّم، سبق آموز ہے
تو ابنِ حزم نفسیات کا رازداں ہے
تو لسانیات میں معنی کا نشاں ہے
تو الماوردی کا علمِ سیاسیات ہے
تو نظمِ حکومت کی عالی صفات ہے
تو صدیوں کی تھکن کا سکون ہے
تو تہذیبِ اسلام کا زندہ فنون ہے
تو اندلس کے کتب خانوں کی پکار ہے
تو بے نظیر کتابوں کا لا زوال انبار ہے
تو قرطبہ و قاہرہ کا روشن چراغ ہے
تو وجودِ سائنس کا عالی دماغ ہے
جامع العلوم، ہمہ جہت، تیرے اسلاف تھے
فن کے امام، قبلۂ علم کے محو طواف تھے
پس بیدار ہو اب غفلت کی تن آسانی سے
بدل دے تو اپنا زوال، مسلم نشاۃِ ثانی سے
بجے پھر تیرے نقارے سارے زماں میں
ہو پھر تیرا ہی شہرہ ہر زمین و آسماں میں
پھر جگمگائے چراغِ علم و عمل کا
کہ ہو آغازِ نو اک مسلم دورِ اکمل کا
———————
* اس شعر میں فنِ موسیقی کے حوالے سے ابو نصر محمد الفارابی (۸۷۰ء - ۹۵۰ء) کے کمال کا ذکر ہے، تاہم یہ امر پیش نظر رہے کہ اسلام میں صرف ایسی موسیقی محدود آلات کے حوالے سے جائز ہے جو کسی فحش یا شرعی طور پر ممنوع عنصر سے پاک ہو۔ (ادارہ)
