ہم بڑی مسرت کے ساتھ ڈاکٹر شعیب احمد ملک کی کتاب "اسلام اور ارتقاء: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات" کے تعارفی باب کا اردو ترجمہ قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں مؤلف نے اسلامی تعلیمات اور جدید سائنس کے مابین توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر الغزالی کے نقطہ نظر کے تناظر میں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ تعارفی باب قارئین کے لیے بصیرت اور علم کا ایک قیمتی ذریعہ ثابت ہوگا۔
اسلام اور سائنس کے میدان میں پچھلی چند دہائیوں میں مستقل ترقی ہو رہی ہے، اور اس کے مختلف پہلوؤں نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ ان میں خدائی تخلیق کے ممکنہ طریقوں، کوانٹم میکینکس، ارتقا، حیاتیاتی اخلاقیات، سائنس اور مقدس کتب جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ارتقا کا نظریہ یہ بیان کرتا ہے کہ ہر حیاتیاتی وجود، بشمول انسان، تاریخی طور پر آپس میں منسلک سلسلوں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق انسان ایک سابقہ نسل سے وجود میں آئے ہیں اور براہ راست پیدا نہیں کیے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم اور حوا کے بھی والدین ہونے چاہئیں ، جنہیں اسلام میں عمومی اور روایتی طور پر انسانیت کی پہلا جوڑا تصور کیا جاتا ہے جو ماں باپ کے بغیر وجود میں آیا ۔ یہاں پر تنازعہ جنم لیتا ہے، اور یہ اسلام اور ارتقا کے پورے مباحثے کا فکری نقطہ آغاز ہے۔
جیسا کہ ہم آگے پڑھیں گے، مسلم مفکرین نے ارتقا کے نظریے کے مختلف جوابات دیے ہیں۔ زیر نظر مطالعے کا مقصد ارتقا کی بحث کو ایک الٰہیاتی نقطہ نظر سے دیکھنا ہے، اور یہ مطالعہ قرون وسطیٰ کے مسلم ماہر الٰہیات ابو حامد الغزالی کے نظریات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ لیکن الٰہیات ہی کیوں؟ الغزالی کون ہیں؟ اور ارتقا کے موضوع میں ان کی اہمیت کیا ہے؟ یہ تعارفی باب ان سوالات کے جوابات دینے اور پوری کتاب کے لیے بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ تعارفی باب تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے میں اسلام اور ارتقا کے درمیان تعلق اور اس وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجز پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے بعد، اس مطالعے میں اپنائے جانے والے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی، الغزالی کا تعارف اور ان کے فکری فریم ورک کو اپنانے کی وجہ بتائی گئی ہے۔ تیسرے حصے میں کتاب کے دیگر ابواب کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔
مشکل منظرنامہ
تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس منظرنامے کے اردگرد مختلف رکاوٹیں موجود ہیں۔ جب اسلام اور ارتقا کی مطابقت (یا عدم مطابقت) کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو انسان کو گفتگو کے ساتھ وابستہ غیر ضروری اور الجھاؤ والے مواد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس نے اس مکالمے کو بدنام کر دیا ہے۔ مزید برآں، اس بحث کی فطری پیچیدگی اس میں مختلف النوع علوم کے شامل ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جو کچھ لوگوں کے لیے اس موضوع کی پیروی کرنا اور اس کے مختلف نقطہ ہائے نظر اور باریکیوں کے تجزیے کو مشکل بنا دیتی ہے جو اس گفتگو کا حصہ ہیں۔
اسلام اور سائنس کے درمیان راہ نکالنا
ایک طرف، ہمارے سامنے دوٹوک موقف رکھنے والے سائنسدان ہیں جو کہتے ہیں کہ ارتقا ہماری حیاتیاتی، تاریخی تنوع کے حوالے سے بہترین اور ٹھوس بنیادوں پر قائم سائنس ہے، اور انسان بھی اس عمل سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ دوسری طرف، ہم دیکھتے ہیں کہ آدم کی تخلیق کا بیانیہ اسلامی متون میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ آدم اور حوا معجزانہ طور پر بغیر والدین کے پیدا کیے گئے اور وہ انسانیت کے پہلے فرد تھے۔ یہ مسلمانوں کے درمیان ایک روایتی بیانیہ رہا ہے ۔ اسی لیے ہمیں خیالات کا ایک ابھرتا ہوا تضاد نظر آتا ہے، جس سے بہت سے مسلمان بظاہر دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: اسلام یا ارتقا1۔ اس کا نتیجہ بہت مختلف قسم کے بیانات اور نتائج کی شکل میں نکلتا ہے۔ کچھ لوگ سائنس کو رد کر دیتے یا مشکوک ٹھہراتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں دی گئی تخلیق کی داستان مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کے برعکس، کچھ مسلمان اپنی اسلامی وابستگیوں پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ سائنس زیادہ ٹھوس جوابات فراہم کرتی ہے۔ نتیجتاً ان میں سے بعض افراد اسلام کو مکمل طور پر ترک کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی مسلم شناخت برقرار رکھتے ہیں، لیکن اسلام اور ارتقا کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنے طریقے تلاش کرتے ہیں۔
درحقیقت، منظرنامہ متنوع ہے۔ اس کے ساتھ ہی اختیار کا سوال بھی موجود ہے ۔ سائنس انسانی علم کو بڑھانے میں بے حد کامیاب رہی ہے2۔ سطحی طور پر دیکھا جائے تو، اسلامی گفتگو اپنے آغاز سے اب تک جمود کا شکار نظر آتی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں نیچرل سائنسز ترقی پسند اور مسلسل متحرک ہیں۔ اس واضح تضاد کے پیش نظر، یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ سائنس کا اختیار اسلام (اور درحقیقت، علم کے دیگر شعبوں) کے اختیار پر غالب آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اختیار کا ایک تنازعہ پیدا کرتا ہے، جہاں الٰہیات دان کو سائنسدان کے مقابل کھڑا کر دیا جاتا ہے؛ جب بات کسی بیرونی مسلط کیے گئے نظریے یا اختیار کی ہو ،ہر ایک کے اپنے احساسات ہوتے ہیں۔ اسی طرح، یہ سمجھنا معقول ہے کہ ارتقا کی قبولیت مسلم مفکرین، خاص طور پر الٰہیات دانوں میں، انہیں اپنے متون پر دوبارہ غور کرنے کی طرف دھکیلتی ہے، اور اسے کسی حد تک 1,400 سالہ قدیم روایت پر ایک بیرونی مداخلت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
قدیم روایات، مذہبی و علمی اختیار ( قدیم یا جدید)، اور روایتی اسلامی بیانیے میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف عمومی شکوک و شبہات ایک مشکل ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، جب کچھ افراد ہم آہنگ نظریات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انہیں اوقات "ترقی پسند"، "تجدید پسند"، "موقع پرست"، اور "جدیدیت پسند" جیسے القابات منفی انداز میں دیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف، جب اہل مذہب سائنسدانوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ کچھ علمی دائرے سائنس کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، جیسے تخلیق آدم یا پیغمبرانہ معجزات تو اس سے بھی ایک تناؤ پیدا ہوتا ہے کیونکہ سائنسدانوں کے لیے ایسی باتوں کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ سائنس کو ایک طریقہ کار کے طور پر سائنس کے نظریے، یعنی سائنس ازم، سے کیسے الگ کیا جاتا ہے، اور اس کے مختلف رنگ اور اشکال کیاکیا ہیں۔ کیونکہ ایک رائے کا دائرہ کار تصادم سے لے کر ہم آہنگی تک ہو سکتا ہے3۔
یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ارتقا ایک جدید تصور ہے، اور اس لیے انیسویں صدی سے پہلے مسلم مفکرین کے لیے اس پر غور کرنا ممکن نہیں تھا۔ صرف پرانی مثالوں کو بنیاد بنا کر ارتقا کو مکمل طور پر رد کر دینا مناسب نہیں ہے، کیونکہ ماضی کے مسلم علماء کو اس طرح کے سوالات کا سامنا نہیں تھا۔ یہی معاملہ دیگر جدید مسائل جیسے کہ اعضا کی پیوندکاری (organ transplantation)، منجمد حیاتیات (cryogenics)، اور کوانٹم مکینکس (quantum mechanics) کے ساتھ بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو نظریات مستحکم ہو چکے ہیں انہیں معاصر افکارکی روشنی میں رد کر دیا جائے یا نظرانداز کر دیا جائے، بلکہ ایک کھلے ذہن کے ساتھ ان کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ نئے فکری تحدیات کے مقابلے میں یہ نظریات کتنے مضبوط ہیں۔ فطری طور پر، کچھ لوگوں کو یہ فکر لاحق ہو سکتی ہے کہ ایسے جدید افکار کو اپنانا مذہبی نظریات کو کمزور کرنے یا ان کے ساتھ اختلاط کا باعث بن سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مذہبی نظریات کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال ہونے والے، بے ربط اور غیر مستقل فریم ورک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اور شاید وہ پہچانے بھی نہ جا سکیں۔ یہ ایک قابل فہم تشویش ہے جو کسی بھی جدید تحقیق کو اپنے مذہبی روایات کی روشنی میں اپنانے سے پیدا ہوتی ہے۔
اس تشویش کے پیش نظر، اس کتاب میں اختیار کیا گیا طریقہ کار ایک مکالماتی طریقہ ہے۔ میں اسلام اور سائنس دونوں کے درمیان موجود مضبوط مگر لچک دار پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا، انہیں مکالمے کی صورت میں پیش کروں گا، اور وہ امکانات طے کرنے کی کوشش کروں گا جن تک پہنچا جا سکتا ہے، اور انہیں اپنانے کا اختیار اپنے قاری کو دوں گا۔ میرے اس مکالمے کا مقصد اسلام اور ارتقا کے درمیان ہونے والے مباحثے کے دوران پیدا ہونے والی مختلف حساسیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔
مختلف شعبوں کے ماہرین کے اپنے اپنے اصول و نظریات ہوتے ہیں، جن پر وہ سمجھوتا نہیں کر سکتے اور وہ توقع کرتے ہیں کہ دوسرے ان کے نقطہ نظر کو تسلیم کریں اور ان کی قدر کریں۔ سائنسدان بھی دوسروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس مکالمے میں شامل سائنسی بحثوں کی باریکیوں کو سمجھیں ، اور مسلم مفکرین بھی مابعد الطبیعات اور تعبیرات کی اسی طرح کی قدر کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ کشیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فریقین کو غیر اہم بنا دیا جائے اور پہلے سے طے شدہ نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم سب کو خوش کر سکتے ہیں، لیکن یہ بہت اہم ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہر شخص کا نقطہ نظر کیا ہے۔
غلط فہمیاں
یہ گفتگو اور بھی پیچیدہ ہو جاتی ہے جب ارتقا کے ساتھ مختلف "ازم" منسلک کیے جاتے ہیں۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ارتقا کو مختلف نظریات جیسے کہ الحاد (Atheism)، نظریہ فطرت (Naturalism)، مارکس ازم (Marxism)، کمیون ازم (Communism)، نیہلس ازم (Nihilism)، سرمایہ داری (Capitalism)، فاش زم (Fascism)، نو آبادیاتی نظام (Colonialism)، امپیریلزم (Imperialism)، سیکولرزم (Secularism) اور سائنٹسزم (Scientism) سے منسلک کیا جاتا ہے4۔ ارتقا کو مذکورہ نظریات سے جوڑے جانے کے باعث اس کے بارے میں خالصتاً ایک سائنسی نظریے کے طور پر بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ارتقا کیا ہے؟ اس سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ارتقا کیا نہیں ہے۔ اگر کوئی ارتقا کو ان منفی مفاہیم سے الگ کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو یہ اس مشکل کا آدھا حل ہے۔ غیر سائنسی پس منظر رکھنے والے افراد کو ارتقا کی سائنس سمجھانے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ارتقا کے بارے میں عوامی سطح پر بات چیت کرنا سائنسی برادری کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے5۔ یہ خیال کہ انسان بندروں سے ترقی پا گیا ہے، اب بھی عام ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرنا اور ان میں کنفیوژن پیدا کرنا کتنا آسان ہے۔ دوسری صورتوں میں، تعلیمی نظام میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ، کئی مطالعات موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مسلم تعلیمی ماحول میں ارتقا کو منفی، مشکوک یا دشمنی کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، جو مذہبی اور ثقافتی حساسیتوں کی وجہ سے ہے6۔ جبکہ کچھ خامیاں مسائل کے شکار تعلیمی نظام سے منسلک کی جا سکتی ہیں، ایک اور عنصر مشہور مسلم علماء اور مصلحین کے غلط بیانیوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر ذاکر نائیک، جو مسلم دنیا میں مقبول معذرت خواہ مبلغین میں سے ایک ہیں ، اب بھی ارتقا کو "صرف ایک نظریہ" کے طور پر بیان کرتے ہیں، جو کہ اس اصطلاح کے سائنسی مفہوم کے بالکل برعکس ہے۔ مزید برآں، مسلم دنیا میں سخت گیر تخلیق پسندوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ارتقا کو بے فائدہ اور اسے اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہارون یحییٰ، ایک نمایاں مسلم مبلغ ہیں جو تخلیق پسندانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں اور انہوں نے ارتقا کو ایک ناقص نظریہ کے طور پر ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ارتقا ایک بے بنیاد بیانیہ ہے جس کا مقصد مذہب کو تباہ کرنا ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے درجنوں کتابیں لکھی ہیں جو بعض اوقات امریکی اداروں کے تیار کردہ تخلیقیت پسند مواد کی عین نقل معلوم ہوتی ہیں۔ مجموعی طور پر، ارتقا کے بارے میں غلط مفاہیم اور غلط نمائندگی نے اس پورے مکالمے کو غیر ضروری طور پر مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔
مشکل تقسیمات
رچرڈ ڈوکنز (Richard Dawkins)، ڈینیل ڈینٹ (Daniel Dennett)، سیم ہیریس (Sam Harris) اور کرسٹوفر ہیچنز (Christopher Hitchens) ،جو نئی ملحدانہ تحریک کے "چارگھڑ سوار" کے طور پر جانا جاتے ہیں ، نے مذہبی اور سائنسی کمیونٹی کے درمیان ایک واضح خلیج پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے7۔ یہ لوگ بحث کو متنازع بیانیوں کے ساتھ تقسیم کر دیتے ہیں۔ ان کے پیغام کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ارتقا مذہبی عقائد، خاص طور پر خدا کی عدم موجودگی کا ایک مضبوط دعویٰ پیش کرتا ہے۔یہ وضاحت کرتے ہوئے مذہب کو ایک بے بنیاد نظریہ سمجھا جاتا ہے کہ کیسے ارتقا خدا پر لوگوں کے ایمان کو جینیات (Genes) اور میمز (Memes) کے ذریعے کمزور کرتا ہے ۔ اسی تناظر میں، ڈینٹ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو عالمی تیزاب "universal acid" کہتے ہیں، جبکہ ڈوکنز مذہبی خیالات (جیسے خدا پر ایمان) کو وائرس قرار دیتے ہیں۔ دراصل، وہ ایک متضاد انتخاب کو پیش کر رہے ہیں کہ ارتقا صحیح ہے یا مذہب (اس صورت میں اسلام)، لیکن دونوں ایک ہی وقت میں درست نہیں ہو سکتے8۔ وہ مسلمان جو نئے ملحدین کے کاموں سے شدید متاثر ہوتے ہیں، ممکنہ طور پر اس غلط تقسیم کے آگے نہیں دیکھ پاتے۔
اس نکتے سے متعلق کچھ مسلم علما کے فیصلے ہیں جو اسلام اور ارتقا کے درمیان فاصلے کو مزید بڑھاتے ہیں۔ نوح میم کیلر ایک معروف معاصر عالم دین ہیں، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانی ارتقا پر یقین رکھنا کفر کے مترادف ہے9۔ ان کے نزدیک اسلام اور انسانی ارتقا بنیادی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں، اور اسلام کے مقابل کسی نظریہ کو درست سمجھنا کفر ہے۔ وہ اپنے اس موقف کے لیے کئی وجوہات بیان کرتے ہیں، جن پر یہاں بحث ممکن نہیں۔ تفصیلات سے قطع نظر، دیگر مذہبی مفکرین نے نوٹ کیا ہے کہ یہ ایک غیر ضروری اور سخت اقدام معلوم ہوتا ہے۔ سلمان یونس ، ایک اور معاصر مسلم مفکر ہیں، جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ارتقا پر یقین رکھنے والے کسی ایسے دیانت دار مسلمان پر کیلر کا اس قدر سخت لیبل لگانا غلط ہے ۔ ان کے مطابق، قرآن کی ارتقائی تشریح زیادہ سے زیادہ ایک غلط تشریح ہو سکتی ہے، لیکن جب تک کوئی یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا نے آدم کو پیدا کیا، چاہے وہ ارتقائی بیان کے تحت ہو، اس پر کفر جیسا سخت الزام لگانے کی ضرورت نہیں ہے10۔
واضح رہے کہ اس اختلافِ رائے کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ خود علما کے درمیان بھی اسلام اور ارتقا کے مکالمے پر اختلافات پائے جاتے ہیں اور کفر جیسے فیصلے یا ارتقا کی یکسر تردید اس گفتگو کو غیر ضروری طور پر بڑھاوا دے سکتی ہے، جو جدید ملحدوں کے مفہوم کو مزید تقویت پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس گفتگو میں سخت روی "یا یہ/یا وہ" کی بجائے نرمی لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مکالمے کی شدت کو کم کیا جا سکے۔
جذبات
اسلام اور ارتقاء کی بحث میں عقلی پہلو کے علاوہ بہت سے اخلاقی اور جذباتی پہلو بھی شامل ہیں۔ انسان حیاتیاتی طور پر باقی حیاتیاتی دنیا سے جڑا ہوا ہے تو لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ کم از کم میرے تجربے میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ کوئی ناراضگی میں یہ کہے: "کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں بندر سے بنا ہوں؟" ارتقاء کو سمجھنے میں غلط فہمیوں کے علاوہ، یہ تصور کہ ہمارا جانوروں سے کوئی حیاتیاتی تعلق ہے، ایسا غیر معمولی اور ناقابل فہم خیال ہے کہ بعض اوقات اس نظریے کو محض جذباتی بنیادوں پر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مذہبی جڑیں بھی ہو سکتی ہیں، کیونکہ اسلامی متون میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت اور وقار کے ساتھ پیدا کیا ہے، لیکن اسے کسی کی ثقافت کے مطابق ایک توہین کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور واقعہ ہے جو اس موضوع کی حساسیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ ایک مسلم اکثریتی ملک کے ایک ادارے میں میری تقرری کے بعد مجھے دیگر نئے اساتذہ کے ساتھ ایک ہفتہ بطور انڈکشن ویک (Induction Week) گزارنا پڑا۔ آپ کو یہ پڑھتے ہوئے حیرانی ہوگی کہ ادارے کے رئیس الاساتذہ نے ہمیں واضح طور پر یہ بتایا کہ ارتقا کے موضوع کو طلبہ کے ساتھ انتہائی احتیاط سے پیش کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ہمیں ایک ایسے استاذ کے بارے میں بتایا جس نے کلاس روم میں اس بحث کو چھیڑا جو بعض طلبہ کو ناگوار گزری۔ تین دن کے اندر اندر اس استاذ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ اس واقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے ادارے کے رئیس الاساتذہ نے مزاحیہ انداز میں ہمیں کہا کہ حیاتیات (Biology) پڑھانے والے اساتذہ ارتقا کو "نظریہ تبدیلی" کے عنوان سے پڑھا سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں ارتقا جیسی اصطلاحات سے طلبہ ناراض ہوتے ہیں، کیونکہ یہ ایک حساس اور بھاری بھر کم اصطلاح ہے، اس لیے طلبہ کے سامنے اس کے استعمال سے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
بظاہر یہ واقعات معمولی لگتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سائنسی اور الٰہیاتی سچائیوں کا فیصلہ ہمیں جذباتی تعصبات سے بلند ہو کے کرنا چاہیے۔
کتاب کا تعارف
اس پیچیدہ منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسلام اور ارتقا کے درمیان مکالمے میں چلنا مشکل، گنجلک اور بعض اوقات مخالفانہ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم، میں یہ تجویز نہیں دینا چاہتا کہ یہ مکالمہ اتنا برا یا ساکت ہے۔ مسلم دنیا میں ارتقا کی پذیرائی بہت متنوع ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس وقت، کہاں، اور کس سے سوال کرتے ہیں۔ آپ کو اس کے مختلف جوابات ملیں گے۔ یہ بحث بلاشبہ ترقی کی جانب گامزن ہے اور ایک منظرنامہ بہت واضح طور پر ابھر رہا ہے۔ کچھ مسلمان ارتقا کو بہت آرام دہ انداز میں دیکھتے ہیں اور اسے اسلام کے ساتھ غیر مزاحم نہیں پاتے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو انہیں دو ناقابل مصالحت حقیقتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان بھی کچھ افراد ہیں جن کی آرا مختلف ہیں، جن کا اظہار مختلف شکلوں (مضامین، کتابیں، ویڈیوز، اور کانفرنسز وغیرہ) میں ہوتا رہتا ہے۔
اس کتاب میں موجود مواد اس بڑھتی ہوئی ادبیات میں اپنا حصہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ کوشش اس وسیع مفروضے کے ساتھ انجام دی گئی ہے کہ اسلامی روایت کے پاس اسلام اور سائنس جیسے عصری مسائل کے حل کے لیے کچھ نہ کچھ پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی چیز اس کتاب کو دیگر تحریروں سے منفرد کرتی ہے۔ میں یہاں "الہیات" سے مراد وہ بنیادی دینی اصول لے رہا ہوں جس میں دو اہم پہلو شامل ہیں: پہلا یہ کہ مابعد الطبیعیاتی اعتبار سے (کیا خدا کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ارتقا کے عمل کو تخلیق کرے؟) اور دوسرا تعبیری پہلو سے (کیا ارتقا کا تصور اسلامی صحیفوں سے متصادم ہے؟)۔ ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھ کر ایک مسلمان اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ آیا ارتقاء کا نظریہ اُس کے عقائد سے ٹکراتا ہے یا نہیں۔ یہ پہلی کوشش نہیں ہے جو اسلامی علم الکلام اور ارتقا کے درمیان ربط قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ایسی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ عبد المعبود کی "Theory of Evolution: Assessment from the Islamic Point of View" اور محمد شہاب الدین ندوی کی کتاب "تخیلق آدم اور نظریہ ارتقا" میں ارتقا کی سائنس اور اس کی تعبیرات کے مختلف پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلام اور نظریہ ارتقا کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہو سکتی۔ داؤد سلیمان جلاجل David Solomon Jalajel اپنی تحریروں میں مختلف سنی کلامی مکاتب فکر کی گفتگو پر توجہ دیتے ہیں اور ان کے نظریات کا استعمال کرتے ہوئے مابعد الطبیعیاتی (metaphysical) اور تعبیری (hermeneutic) مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ اسلام اور ارتقا کے درمیان کوئی بنیادی تضاد نہیں ہے۔ ان کے مطابق، آدم اور حوا (علیہما السلام) معجزاتی تخلیقات ہیں، مگر اسلامی متون میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے کہ ایسے انسان موجود ہو سکتے ہیں جو ارتقا کا نتیجہ ہوں، چاہے وہ ماضی میں ہوں یا موجودہ دور میں۔ اس لحاظ سے، آدم اور حوا کی نسل ان دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی انسانی نسل تشکیل دے سکتی ہے جس کی ارتقائی تاریخ ہو۔ اس طرح، مسلمان اپنے ایمان کو برقرار رکھتے ہوئے ارتقا کو قبول کر سکتے ہیں، بشرطیکہ آدم اور حوا کو اس عمل سے علیحدہ رکھا جائے۔
یاسر قاضی (ایک امریکی عالم دین) نے پچھلی ایک دہائی کے دوران اس موضوع پر اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ حال ہی میں، انہوں نے نذیر خان کے ساتھ اپنے خیالات کو تحریر کیا ہے۔ قاضی بنیادی طور پر اسلامی متون پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور آثاری نقطہ نظر (Atharī perspective) اپناتے ہیں۔ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور انسانوں کی تخلیق کی کہانی کو اسلامی متون میں بیان کردہ صورت میں لیتے ہیں، یعنی یہ مانتے ہیں کہ حضرت آدم کو معجزاتی طور پر تخلیق کیا گیا۔ تاہم، وہ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت آدم میں وہ تمام حیاتیاتی خصوصیات موجود تھیں جو ارتقا کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ اس طرح، اگر ہم سائنسی نقطہ نظر سے دیکھیں، جو معجزات کو نظرانداز کرتا ہے، تو ارتقا کے تقاضوں کے مطابق ایک بلا رکاوٹ تسلسل (continuity) پایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور ارتقا کے درمیان مفاہمت پوری طرح ممکن ہے۔ اس موضوع پر مزید بحث کتاب کے باب 4 میں کی جائے گی۔
میرے خیال میں اسلامی علم کلام اس بحث میں کچھ بہتر پیش کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں نے اس موضوع پر سنی نقطہ نظر اپنایا ہے۔ جلاجل کے برعکس، جو تمام سنی مکاتب فکر کا ایک وسیع جائزہ لیتے ہیں، اور یاسر قاضی اور نذیر خان کے برعکس، جو آثاری نقطہ نظر سے بحث کرتے ہیں، میں نے ایک مخصوص "اشعری نقطہ نظر" اختیار کیا ہے۔ یہ نقطہ نظر عموماً "حادثیت" (Occasionalism)، "ذرّیت" (Atomism)، اور "الٰہی احکامات کا نظریہ" (Divine command theory) پر مشتمل ہے۔ یہ نظریات تخلیق کی غیر یقینی نوعیت، خدا کی بے پناہ عظمت، اور اس کی مکمل قدرت پر زور دیتے ہیں11۔
اشعری ازم کو دیگر الٰہیاتی نظریات، جیسے کہ ماتریدی ازم یا دیگر سنی اور غیر سنی نقطہ نظر کی توہین کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ ان نظریات پر مزید تحقیق کی جا سکتی ہے، لیکن یہ دوسرے محققین کا کام ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ صرف اشعری نقطہ نظر ہی اسلامی نظریہ ہے یا یہی اپنایا جانا چاہیے۔ اشعری ازم میں بھی کچھ مسائل موجود ہیں، جن پر اس کتاب کے مختلف ابواب میں بات کی گئی ہے۔
میں صرف اشعری مکتب فکر کو ایک مخصوص نقطہ نظر کے طور پر لیتا ہوں اور ارتقا کے مابعد الطبیعیاتی (metaphysical) اور تعبیری (hermeneutic) پہلوؤں کا جائزہ لیتا ہوں۔ میں یہ سوال بھی اٹھاتا ہوں کہ اگر ارتقا درست ہے، تو اشعری اصولوں کے مطابق اس کا کتنا حصہ الٰہیاتی طور پر قبول کیا جا سکتا ہے؟
کلاسیکی الٰہیاتی نظریات کے تناظر میں ارتقا جیسے موضوع کی تحقیق کرنا ایک اہم کوشش ہے، کیونکہ یہ نظریات آج بھی مسلمانوں کی مذہبی وابستگی اور حقیقت کی تشریح میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یقیناً، ان نظریات کے کچھ پہلوؤں کو جدید دور کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے، لیکن یہ وہ مستند عقائد ہیں جو آج مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں اور دنیا کے بڑے تعلیمی اداروں، جیسے الأزہر (مصر)، زیتونہ کالج (امریکہ)، اور کیمبرج مسلم کالج (برطانیہ) میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس لیے ماضی کے نظریات کو اپنانا جو وسطی دور سے جڑے ہیں، آج کے مسلمانوں کے عقیدے کے مسائل کی تحقیق میں ان کی اہمیت کو کم نہیں کرتا۔ البتہ، کچھ محققین نے اس نقطہ نظر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ کتاب اسلامی ذہنی ورثے کو مکمل طور پر چھوڑنے یا اس کی قدر کو کم کرنے کے بجائے ایک صحت مند توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اور روایات کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید چیلنجز کا سامنا کیا جائے۔
الغزالی
اشعری مکتب فکر کے اصولوں اور نظریات کو ترقی دینے والے اہم شخصیات میں ابوحسن الاشعری (متوفی 936؛ جو اس مکتب فکر کے بانی ہیں)، ابوبکر الباقلانی (متوفی 1013)، ضیاء الدین الجوینی (متوفی 1085)، ابو حامد الغزالی (متوفی 1111)، فخر الدین الرازی (متوفی 1210)، سیف الدین الآمدی (متوفی 1233)، اور عضد الدین الایجی (متوفی 1355) شامل ہیں۔ تاہم، میں اس کتاب میں ارتقا کا جائزہ لیتے ہوئے بنیادی طور پر ابوحامد الغزالی کے کاموں سے حاصل کردہ خیالات کا استعمال کروں گا ۔ یہ نقطہ نظر اس کتاب کو اسلام اور ارتقا کے سابقہ مطالعوں سے خاص طور پر ممتاز کرتا ہے۔
ابو حامد الغزالی 1058 میں طوس، خراسان (جو آج کل ایران ہے) میں پیدا ہوئے۔ اپنے بچپن ہی سے انہوں نے اپنی شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور بعد میں اپنے وقت کے مشہور الٰہیاتی اور فقہی عالم ضیاء الدین الجوینی کے شاگرد بن گئے۔ الجوینی کی 1085 میں وفات کے بعد، الغزالی نے ان کی جگہ لے لی اور بغداد کے معروف مدرسہ نظامیہ کے استاد بن گئے۔ اس دوران، انہیں کئی روحانی بحرانوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
الغزالی نے اپنے دور کے مختلف نظریاتی علوم جیسے منطق، فلسفہ، فقہ، اور الٰہیات میں مہارت حاصل کی، لیکن پھر بھی انہیں ایک اندرونی کمی کا احساس رہا۔ 1095 میں، انہوں نے مدرسہ نظامیہ سے طویل وقفہ لیا اور روحانی خلوت کے مراحل میں داخل ہوئے، حالانکہ مکمل طور پر نہیں، کیونکہ ان کے پاس سماجی ، خاندانی، اور تدریسی ذمہ داریاں بھی تھیں۔ آخرکار، انہوں نے اپنی زندگی کو زہد کی طرف مائل کر لیا اور 1111 میں وفات پائی۔
وہ ایک ماہر مفکر تھے اور منطق، فقہ، کلامی الٰہیات، اور تصوف جیسے مختلف موضوعات پر کئی کتابیں لکھیں۔ چونکہ یہ کتاب ایک الٰہیاتی کوشش ہے، میں ان کے خیالات کو اپنی کتاب میں کلامی الٰہیات کے حوالے سے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ الغزالی کو اس کام کے لیے منتخب کرنے کی وجوہات کا ذکر میرے نزدیک یہاں ضروری ہے:
- الغزالی مسلم تاریخ کے معزز علماء میں سے ایک ہیں، جنہیں "حجۃ الاسلام" کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کے کام آج بھی مسلم مدارس اور علمی حلقوں میں انتہائی اہم ہیں۔ اگر ہم ثابت کر سکیں کہ ان کے نظریات کی روشنی میں ارتقا کو بغیر کسی الٰہیاتی عقیدے پر اثر ڈالے قبول کیا جا سکتا ہے (اگرچہ کچھ وضاحتوں کے ساتھ)، تو یہ اسلام اور ارتقا کے درمیان منفی تاثرات کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔
- الغزالی کا ایک واضح مابعد الطبیعیاتی نظام ہے جو ان کے تعبیری اصولوں سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے نظریات ایک مربوط اور مستقل ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں، خاص طور پر جب ہم ارتقا سے متعلق خدشات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
- الغزالی کی کئی اہم کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ان کے خیالات پر وسیع ثانوی ادب بھی موجود ہے۔ اس لیے نئے قارئین آسانی سے ان کے خیالات پر بحث کرنے والے مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
الغزالی کو اس منصوبے کے لیے منتخب کرنے کا مقصد دوسرے اشعری علما کی علمیت کو کم کرنا نہیں ہے۔ دیگر اشعری علما کی کتابیں بھی اس منصوبے میں شامل کی جا سکتی ہیں، لیکن میں نے الغزالی کا انتخاب ان کی بعض خصوصیات کی وجہ سے کیا ہے۔ میں الغزالی کے نظریات کو سختی سے اپنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ میں انہیں جدید ترقیات کے ساتھ ملانے کی کوشش کروں گا، حالانکہ انہوں نے شاید کبھی ان کا استعمال نہیں کیا۔ یہ کام الغزالی کے خیالات کی ایک جدید شکل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، اور میں اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اگر الغزالی آج زندہ ہوتے تو وہ ارتقا کے بارے میں کیا سوچتے، اور میں یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب ان کے اپنے علمی کام کا نتیجہ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ الغزالی کے مابعد الطبیعیاتی نظریات پر موجودہ مباحث کو سمجھا جائے۔ کچھ محققین کہتے ہیں کہ وہ اتنے اشعری نہیں تھے جتنا کہ انہیں سمجھا جاتا ہے، جبکہ دیگر ان کے مخصوص طریقوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ میں اس بحث کی پیچیدگیوں کو تسلیم کرتا ہوں اور محققین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اپنے دلائل پیش کریں۔ اس مطالعے میں، میں الغزالی کی کلاسیکی تشریح کو ایک اشعری مفکر کے طور پر فرض کر رہا ہوں، حالانکہ دیگر تشریحات بھی قابل قبول ہیں۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جن کاموں کا میں جائزہ لوں گا وہ ایک مخصوص علمی ماحول میں تحریر کیے گئے تھے۔ میں ان کا تاریخی تناظر میں جائزہ نہیں لوں گا، سوائے اس کے کہ چند مواقع پر وضاحت کے لیے ایسا ہوگا۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میں ان نظریات کی شناخت کروں جو انہوں نے پیش کیے ہیں، اور انہیں اسلام اور ارتقا پر ایک جدید بحث کے لیے استعمال کروں۔
کتاب کا خاکہ
یہ کتاب چار حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔
حصہ اول – سیاق و سباق کا تعین (دو ابواب)
باب اول میں ارتقاء پر سائنسی نقطہ نظر کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ارتقاء کے سائنسی اصولوں کا جائزہ، اس کی حمایت کرنے والے شواہد، اور ایک مختصر تاریخی جائزہ شامل ہیں۔ اس میں کچھ اعتراضات بھی شامل کیے گئے ہیں جو ارتقا کے خلاف عموماً اٹھائے جاتے ہیں، جن سے یہ بحث بلا ضرورت پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ باب دوم میں ارتقا کے بارے میں عیسائی جوابات پر توجہ دی گئی ہے۔ اس میں نوجوان زمین کی تخلیق (Young-Earth Creationism)، قدیم زمین کی تخلیق (Old-Earth Creationism)، ذہین ڈیزائن (Intelligent Design)، اور الہی ارتقا (Theistic Evolution) کے موقف کا احاطہ کیا گیا ہے*۔ یہ باب ان مختلف مقامات کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے؛ ان میں سے کچھ وجوہات اسلامی روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گی جبکہ کچھ میں کوئی مماثلت نہیں ہوگی۔ اسی پس منظر میں کتاب کے دوسرے حصہ میں ارتقا پر مسلم نقطہ نظر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
حصہ دوم – ارتقاء پر اسلامی نقطہ نظر (تین ابواب)
باب سوم میں انسانی پیدائش کی اسلامی کہانی سے متعلق تمام قرآنی آیات اور احادیث کا مطالعہ کیا گیا ہے، جس میں تبصرہ کم سے کم شامل کیا گیا ہے تاکہ بعد کے ابواب کے لیے ایک جائزہ فراہم کیا جا سکے۔ یہ باب چوتھے باب کے لیے متنی پس منظر اور اس کی تعبیری بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔
باب چہارم میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمان ارتقا کو کس طرح قبول کرتے ہیں، اسے مسترد کرتے ہیں، یا اپنے موقف میں لچکدار رہتے ہیں۔ یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایک ہی گروہ میں موجود مفکرین کیسے ملتے جلتے نتائج پر پہنچ سکتے ہیں، جبکہ ان کے موقف کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ ان کی مختلف حیثیتوں کو درج ذیل طریقوں سے مرتب کیا گیا ہے:
- تخلیق پرستی – سب کچھ فوری طور پر خدا کی طرف سے تخلیق کیا گیا ہے (ارتقا کی مکمل تردید)؛
- انسانی خصوصیت – سب کچھ ارتقا کے عمل کے ذریعے تخلیق کیا گیا سوائے انسانوں کے؛
- آدمی کی خصوصیت – سب کچھ ارتقا کے عمل کے ذریعے تخلیق کیا گیا سوائے آدم (اور حوا) کے؛
- کوئی استثنا نہیں – سب کچھ ارتقا کے عمل کے ذریعے تخلیق کیا گیا۔
باب پنجم مختلف معاصر مصنفین کا جائزہ پیش کرتا ہے جو ارتقا کو تاریخی متون پر پڑھتے ہیں، جنہیں قرون وسطی کے مسلم مفکرین نے لکھا تھا۔ یہ واضح کیا جائے گا کہ یہ پڑھائی غلط ہے، کیونکہ یہ مخصوص پیراگراف کو ان کے موضوعاتی اور تاریخی تناظر سے علیحدہ کر کے سمجھی گئی ہے۔ یہ بحث کی گئی ہے کہ ان کے کاموں کو وجود کی عظیم زنجیر کے تناظر سے ترتیب دیا گیا نہ کہ ارتقا کے۔
حصہ 3 – مابعد الطبیعیاتی غور و فکر (تین ابواب)
باب ششم میں اشعری نقطہ نظر کا مابعد الطبیعیاتی فریم ورک پیش کیا گیا ہے، جیسا کہ الغزالی نے بیان کیا ہے۔ اشعری فریم ورک کا موازنہ سائنس اور مذہب میں ایک حالیہ ترقی، جسے الہی عمل منصوبہ (DAP) کہا جاتا ہے، سے کیا گیا ہے۔ یہ اشعریت اور DAP کے فریم ورک کے مابین فرق کو اجاگر کرنے کے لیے ہے۔ اس کے بعد، طبیعیات، موقع، اور عدم کارکردگی (ضائع کرنے والے عمل) کے مسئلے پر نظر ڈالی گئی ہے جو ارتقا کے تناظر میں ہے۔ یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خیال اشعری نظریے کے دائرے میں مسائل پیدا نہیں کرتا۔ مزید برآں، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ الغزالی کا فریم ورک تخلیق پرستی، انسانی خصوصیت، آدمی کی خصوصیت، اور کوئی استثنا نہیں کے ساتھ مابعد الطبیعیاتی طور پر ہم آہنگ ہے۔ باب ہفتم میں ذہین ڈیزائن (ID) کے کیمپ میں پیش کیے جانے والے ڈیزائن کے دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے جو ارتقا کے حوالے سے ہیں۔ اشعری نقطہ نظر کے مابعد الطبیعیاتی فریم ورک کا استعمال کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ چاہے حیاتیاتی جاندار یا حقیقت میں پوری کائنات واضح ڈیزائن دکھائے، یہ ایک ثانوی بحث ہے۔ اشعری نظریے میں اہمیت ممکنہ طور پر ہے، جو کسی بھی قسم کے وجود کی حمایت کر سکتی ہے، چاہے وہ ڈیزائن کیا گیا ہو، پیچیدہ، سادہ، یا بلا ترتیب ہو۔ لہذا، ارتقا کے متبادل کے طور پر ID کے لیے خود کو وقف کرنا کیونکہ یہ زیادہ "خدا دوست" معلوم ہوتا ہے، اشعری نظریے میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ باب ہشتم ارتقا کے تناظر میں اخلاقیات کے سوال پر بات کرتا ہے۔ یہ باب دکھاتا ہے کہ الغزالی کے نزدیک اخلاقیات فطری نہیں ہیں، یعنی انسانوں کے کوئی مستقل اخلاقی کوڈ نہیں ہے، بلکہ یہ سماجی طور پر جذب شدہ عادات ہیں۔ مزید برآں، الغزالی الٰہی حکم کے نظریے کو اپناتے ہیں، جو اس خیال پر مبنی ہے کہ صرف خدا کا حکم ہی یہ طے کرتا ہے کہ کیا اخلاقی طور پر اچھا ہے اور کیا برا۔ ارتقا کے تناظر میں اخلاقیات سے متعلق مسائل کے پیش نظر، میں یہ ثابت کرتا ہوں کہ الغزالی کے خیالات اخلاقیات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
حصہ 4 – تعبیری غور و فکر (دو ابواب)
باب نو میں الغزالی کے تعبیری فریم ورک کا تعارف دیا گیا ہے۔ اس میں عقل اور وحی کے درمیان توازن، سائنس اور مقدس متون کے درمیان تعلق، حرفی اور مجازی تعبیر میں تفریق کرنے کا طریقہ، اور احادیث پر بحث شامل ہے۔ یہ واضح کیا گیا ہے کہ الغزالی کا تعبیری ڈھانچہ اس کے مابعد الطبیعیاتی ڈھانچے سے جڑا ہوا ہے، جس میں معجزات کا وقوع ممکن ہے۔ یہ باب چوتھے باب میں سامنے آنے والے مسلم نقطہ نظر کا جائزہ لینے کے لیے ایک بنیاد فراہم کرتی ہے۔ باب دس میں یہ جانچ پڑتال کی گئی ہے کہ الغزالی کے تعبیری فریم ورک کا استعمال کرتے ہوئے، ارتقا کے حق میں اور اس کے خلاف دلائل پیش کرنے کی کوششیں کس طرح کی گئی ہیں۔ نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ الغزالی کا تعبیری فریم ورک تخلیق پرستی، انسانی خصوصیت، اور آدم کی خصوصیت کے ساتھ ہم آہنگ ہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی استثنا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الغزالی کی تفہیم کے مطابق، آدم کی تخلیق کو معجزاتی طور پر دیکھنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن الغزالی اپنے مابعد الطبیعیاتی اور تعبیری نظریے کی بنا پر یہ قبول کرنے میں کوئی مشکل نہیں محسوس کریں گے کہ آدم کو معجزاتی طور پر تخلیق کیا گیا12۔
یہ کتاب ایک سفر کی عکاسی کرتی ہے جس کا مقصد اسلام اور ارتقا کے پیچیدہ اور حساس موضوعات کی کھوج کرنا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے، میں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ میں اس بحث کے کچھ پہلوؤں کے بارے میں ابتدائی طور پر کافی نا تجربہ کار تھا۔ اس سفر کے دوران میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مجھے مختلف تخصصات جیسے علم الکلام، فلسفہ، سائنس، اور دینی مدارس کے پس منظر رکھنے والے کئی اہل علم سے ملنے اور ان کے خیالات کا تبادلہ کرنے کا موقع ملا ہے، جنہوں نے اس اہم گفتگو کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں میری مدد کی ہے۔ میں نے مسلمانوں کے سوالات اور خدشات کو سننے کی کوشش کی ہے جو ارتقا کو سمجھنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں یا اسے اسلام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں سمجھتے۔
ابتدائی طور پر، میں "کوئی استثنا نہیں" کے نظریے کی حمایت کرتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ میری رائے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب مجھے یقین ہے کہ "آدمی کی خصوصیت" (Adamic exceptionalism) وہ بہترین نقطہ نظر ہے جسے سائنسی طریقہ کار اور الغزالی کے اشعری فریم ورک کی روشنی میں اپنایا جا سکتا ہے۔ یہ تبدیلی میری فکری ترقی کی عکاسی کرتی ہے، اور اسی طرح یہ کتاب بھی میرے خیالات کی ترقی کے ساتھ ساتھ آگے بڑھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے نظریات کو دوبارہ جانچا اور ان کے مطابق اپنے نقطہ نظر کو ترتیب دیا۔
حاشیہ
* نوجوان زمین کی تخلیق (Young-Earth Creationism): یہ نظریہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ زمین اور کائنات کی عمر تقریباً 6,000 سے 10,000 سال ہے، جیسا کہ بائبل کی تعلیمات میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نظریے کے پیروکار عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام زندگی خدا کی براہ راست تخلیق ہے، اور وہ ارتقا کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔ قدیم زمین کی تخلیق (Old-Earth Creationism): یہ نظریہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ زمین کی عمر لاکھوں یا اربوں سال ہے، جیسا کہ سائنسی شواہد میں دیکھا گیا ہے۔ تاہم، اس نظریے کے پیروکار بھی یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے زندگی کی تخلیق میں براہ راست مداخلت کی، اور وہ ارتقا کی کچھ شکلوں کو قبول کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ خدا کی تخلیق کی حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں۔ ذہین تخلیق (Intelligent Design): یہ نظریہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کچھ پہلوؤں میں زندگی کی پیچیدگی اتنی زیادہ ہے کہ یہ صرف قدرتی انتخاب کے ذریعے نہیں بن سکتی۔ اس میں یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ کسی ذہین تخلیق کار کی مداخلت موجود ہے، لیکن یہ نظریہ خدا کے وجود کا براہ راست ذکر نہیں کرتا۔ الٰہی ارتقا (Theistic Evolution): یہ نظریہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا نے کائنات اور زندگی کی تخلیق کے عمل کو ارتقائی طریقوں کے ذریعے انجام دیا۔ اس کے مطابق، ارتقا اور مذہبی عقائد آپس میں متصادم نہیں ہیں، اور خدا کی رہنمائی کے تحت زندگی کا ارتقاء ہوا۔
یہ نظریات مختلف طریقوں سے ارتقا کے بارے میں عیسائیوں کے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں اور ہر ایک کے پیچھے مخصوص دلائل اور عقائد موجود ہیں۔ مزید تفصیل متعلقہ ابواب میں دیکھیں یا اس کتاب کا مطالعہ کریں (مترجم):