تیسری صدی ہجری کا عہد علمِ حدیث کے عروج و کمال کا دور تھا۔ اس میں صحابہ و تابعین کی رکھی ہوئی بنیادوں پر علومِ روایت و درایت کی عمارت اوج ِثُریا کو چھونے لگی، حفاظتِ سنت میں مزید جدت لائی گئی، تدوین، تالیف و نقدِ حدیث کے علوم تکمیلی مراحل طے کر کے اپنی پختہ شکل میں ظاہر ہوئے، ائمہ حدیث اور ان کی سدا بہار تالیفات کی بدولت تشنگانِ علم کی بصیرت روشن اور دل معرفت سے لبریز ہونے لگے، اصطلاحاتِ حدیث متعین کی گئیں، کذب و تدلیس کو چھانٹا گیا اور احادیث کی ابواب بندی کی گئی۔ یہی وہ دور تھا جس میں صحاح ستہ کے مولفین نے بیش قیمت علمی جواہر پارے سپردِ قلم کر کے امت کے سامنے پیش کیے۔ انھوں نے اپنے پیش رو علما و محدثین کی علمی و عملی خوبیوں کو اپنی تالیفات میں خوش اسلوبی سے سمو دیا؛ یہاں تک کہ ان کی کتابیں آئندہ نسلوں کے لیے خاموش استاد بن گئیں۔ آنے والی سطور میں اس دور کے علمی طور و انداز کی مختصر تصویر پیش کی جاتی ہے۔
اسالیبِ تدوین
اس دور کے طریقہ و اسلوبِ تدوین میں چھ خصوصیات نظر آتی ہیں، جن سے بعد والوں نے سیکھا اور استفادہ کیا:
- احادیث سے فقہی احکام و قواعد کا استنباط کیا گیا، جیسا کہ ہمیں امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴۔۲۵۶ھ/۸۱۰۔۸۷۰ء) کی ’’صحیح‘‘ میں نظر آتا ہے۔ اس سے قبل امام مالک بن انس (۹۳۔۱۷۹ھ/۷۱۱۔۷۹۵ء) کی ’’مؤطا‘‘ میں بھی یہی انداز موجود ہے؛ لیکن اس میں مسائل کا استنباط نسبتاً کم ہے، جب کہ امام بخاری نے اس حوالے سے بہت زیادہ توسع سے کام لیا ہے۔ آپ نے ہر باب اور موضوع پر تبصرہ کیا ہے اور استنباطِ احکام میں تنوع و تفنن کی راہ اختیار کی ہے۔ اسی لیے یہ کتاب بعد والوں کے لیے اسوۂ حسنہ اور اصل بن گئی۔
- فنِ اسناد، اسانیدِ حدیث کے طریقۂ بیان اور فوائدِ حدیث پر توجہ دی گئی۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا اپنی ’’صحیح‘‘ میں یہی انداز ہے1۔
- محدثین اور متونِ حدیث پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیا گیا۔ مثال کے طور پر ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ (۲۱۳۔۲۷۶ھ/۸۲۸۔۸۸۹ء) نے اپنی کتاب ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ میں حدیث و محدثین پر معتزلہ کے کیے گئے اعتراضات کا جواب دیا اور ظاہری طور پر نظر آنے والی متعارض روایات میں ہم آہنگی پیدا کر کے دکھائی اور کلامِ رسول ﷺ کو صاف رنگ میں پیش کیا۔ امام علی بن مدینی (۱۶۱۔۲۳۴ھ/۷۷۸۔۸۴۸ء) نے بھی اس موضوع پر ’’اختلاف الحدیث‘‘ پانچ اجزا میں لکھی۔
- مسانیدِ صحابہ کے طرز پر احادیث کے مجموعے مرتب کیے گئے۔ ان مسانید میں ایک صحابی کی صحیح و ضعیف احادیث ایک ہی جگہ اکٹھی کی جاتی ہیں، جیسا کہ: مسند عبید اللہ بن موسیٰ (۱۲۰۔۲۱۳ھ/۷۳۸۔۸۲۸ء)، مسند مسدد بن مسرہد (۱۵۰۔۲۲۸ھ/۷۶۸۔۸۴۳ء) اور مسند اسحاق بن راہویہ2۔
- احادیثِ رسول ﷺ کو صحابہ کے اقوال اور تابعین کے فتاویٰ سے الگ کیا گیا، جب کہ دوسری صدی ہجری میں یہ اقوال و فتاویٰ متونِ احادیث کے ساتھ ملا کر لکھے جاتے تھے۔
- صحت و ضعف کے لحاظ سے احادیث کا درجہ بیان کرنے کی طرف توجہ کی گئی3۔
علمی ذخیرہ
حدیث و علومِ حدیث کی جن شاخوں میں محدثین و ائمۂ نقد نے اس صدی میں گراں قدر ورثہ پیش کیا، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- متنِ حدیث کی تدوین
- درایتِ حدیث
1- متنِ حدیث کی تدوین
متنِ حدیث کی تدوین میں اصولِ ستہ اور مسند احمد جیسی عظیم کتابیں منظر عام پر آئیں، جنھیں اس دور میں لکھی گئی کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اصولِ ستہ میں درج ذیل چھ کتابیں شامل ہیں:
صحیح بخاری
اس کتاب کے مولف امام بخاری ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب میں ان روات کی احادیث ذکر کی ہیں، جن کی ثقاہت پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔ آغازِ سند سے لے کر صحابی تک تمام روات عادل ہوں، سند میں انقطاع نہ ہو، راوی کی شیخ سے ملاقات ثابت ہو، حدیث علت و شذوذ سے خالی ہو اور راوی نے اپنے شیخ کے ساتھ طویل زمانہ گزارا ہو4۔
صحیح مسلم
یہ امام مسلم بن حجاج کی کتاب ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں کتاب کا نام نہیں لکھا۔ متقدمین کی تالیفات میں اس کتاب کے ہمیں تین نام ملتے ہیں:
- المسند اور المسند الصحیح۔
- المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ ﷺ5۔
- المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ ﷺ6۔
لیکن راجح پہلا قول ہے، یعنی اس کتاب کا نام ’’المسند الصحیح ‘‘ ہے؛ کیوں کہ بعض کتابوں میں امام مسلم کی اپنی ایسی عبارتیں اور نصوص ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے اس کتاب کا نام ’’المسند ‘‘ اور ’’المسند الصحیح‘‘ رکھا ہے۔ ان میں سے چند عبارتوں کو یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں: ’’میں نے اس مسند میں ہر بات دلیل سے لکھی ہے‘‘7۔
ایک اور جگہ فر ماتےہیں: ’’میں نے یہ مسند امام ابوزرعہ کے سامنے رکھی‘‘8۔
تیسری جگہ لکھتے ہیں: ’’اگر محدثین اگلے دو سو سال بھی حدیث لکھتے رہے تو یہ مسند ان کا محور رہے گی‘‘9۔
مزید فرماتے ہیں: ’’میں نے (المسند الصحیح) لکھی‘‘10۔
ان تمام نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلم نے اس کتاب کو ’’المسند ‘‘ اور ’’المسند الصحیح‘‘ کا نام دیا ہے۔
سنن ابی داؤد
اس کتاب کے مصنف امام سلیمان بن اشعث سجستانی (۲۰۲۔ ۲۷۵ھ/۸۱۷۔۸۸۸ء) ہیں۔ امام ابوداؤد نے اس کا نام ’’السنن‘‘ رکھا11۔ اس کتاب میں موجود احادیث کی تین قسمیں ہیں:
ایسی احادیث، جنھیں شیخین (بخاری و مسلم) نے اپنی صحیحین میں روایت کیا ہے۔
وہ احادیث جن کی سند متصل ہے، ان میں کوئی انقطاع نہیں ہے، ہر راوی نے اپنے شیخ سے سن کر حدیث حاصل کی ہے اور وہ صحیحین کی شرائط پر پورا اترتی ہیں۔ اگر کسی حدیث کے ترک پر محدثین کا اتفاق ہے تو اسے شاملِ کتاب نہیں کیا گیا۔
بعض احادیث ایسی بھی ہیں، جو گذشتہ باب میں ذکر کی گئی احادیث کے خلاف ہیں، مصنف کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہیں؛ لیکن انھیں اس وجہ سے ذکر کیا ہے تاکہ دیگر فقہا کے مستدلات بھی سامنے آجائیں12۔
سنن ترمذی
یہ امام محمد بن عیسیٰ بن سورۃ ترمذی (۲۰۹۔۲۷۹ھ/۸۲۴۔۸۹۲ء) کی کتاب ہے۔ آپ نے اس کتاب کو فقہی ابواب پر تقسیم کیا ہے؛ ہر باب پر حدیث کی مناسبت سے عنوان قائم کیا ہے؛ حدیث ذکر کرنے کے بعد اس مسئلے کے بارے میں فقہا کے اقوال نقل کرتے ہیں؛ اسانید، روات و علل پر گفتگو کرتے ہیں؛ تصحیح، تحسین یا تضعیف کر کے احادیث کی درجہ بندی کرتے ہیں؛ اور حدیثِ باب کے علاوہ اس موضوع پر اگر دوسری احادیث موجود ہیں تو ان کی بھی طرف اشارہ کرتے ہیں13۔
سنن نسائی
یہ کتاب ابو عبد الرحمان احمد بن شعیب نسائی (۲۱۵۔۳۰۳ھ/۸۲۹۔۹۱۵ء) کی تصنیف ہے۔ اس کا اصل نام ’’المجتبیٰ‘‘ ہے14۔ اس کتاب میں امام بخاری و مسلم کے طریقۂ تصنیف کو جمع کیا گیا ہے۔ احادیث میں موجود علل کی طرف کثرت سے نشان دہی کی ہے۔ صحیحین کے بعد سب سے کم ضعیف احادیث اسی کتاب میں ہیں۔ امام ابوداؤد و ترمذی کی سنن اس کے قریب قریب ہیں15۔ امام نسائی نے بھی اپنی کتاب میں احادیث کو امام ابوداؤد کی طرح تین حصوں میں تقسیم کیا ہے16۔
سنن ابن ماجہ
یہ ابو عبد اللہ محمد بن یزید بن ماجہ (۲۰۹۔۲۷۳ھ/۸۲۴۔۸۸۶ء) کی تصنیف ہے۔ فقہی ابواب پر مشتمل اس کتاب میں صحیح، حسن، ضعیف، ہر طرح کی احادیث موجود ہیں۔ اس میں مناکیر و موضوع احادیث بھی آگئی ہیں17؛ لیکن وہ تعداد میں کم ہیں۔ اس کی (۴۳۴۱) احادیث میں سے (۹۹) احادیث منکر، واہی یا موضوع ہیں18۔ اس لیے یہ کتاب ’’کتبِ ستہ‘‘ کی فہرست میں آخری درجے میں آتی ہے۔
اس صدی میں لکھی جانے والی ہر کتاب کی اپنی خصوصیت ہے۔ تمام مولفین نے بقدرِ امکان کوشش کی ہے کہ ضعیف احادیث کم سے کم ہوں۔ اگر کوئی کم زور حدیث درج کرنی پڑے تو اس کا درجہ بھی بیان کیا جاے۔ یہ اس دور کے روشن ضمیر محدثین کی بیش قیمت خصوصیت ہے۔ کتبِ ستہ کے علاوہ اس صدی میں حدیث کی عظیم کتاب مسند احمد بھی لکھی گئی19۔
مسند احمد
یہ امام ابوعبد اللہ احمد بن حنبل (۱۶۱۔۲۴۱ھ/۷۸۰۔۸۵۵ء) کی مبارک تصنیف ہے۔ احادیث ذکر کرنے کے لیے امام احمد کی وہی شرائط ہیں جو امام ابوداؤد کی ہیں۔ مسند احمد میں ایسی احادیث موجود نہیں، جن کے راوی دروغ گوئی میں معروف ہیں؛ البتہ ضعیف احادیث موجود ہیں20۔ تاکہ انھیں دوسری احادیث کی تائید و تقویت (متابعات) کے لیے استعمال کیا جا سکے21۔
2- درایتِ حدیث
حدیث پرکھنے اور اس کی جانچ پڑتال کے اصولوں کو درایتِ حدیث کہا جاتا ہے۔ قدیم ائمہ سے استفادہ کرتے ہوئے، تیسری صدی ہجری میں اس میدان میں بھی کتابوں کا بکثرت اضافہ ہوا۔ چناں چہ:
معرفتِ صحابہ کے موضوع پر امام عبد اللہ بن محمد بن عیسیٰ مروزی (۲۲۰۔۲۹۳ھ/۸۳۴۔۸۹۵ء) نے کتاب المعرفۃ نامی کتاب لکھی22۔
علمِ رجال میں امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘، ’’التاریخ الاوسط‘‘ اور ’’التاریخ الصغیر‘‘ لکھی23۔ تاریخ کبیر میں انھوں صحابہ کرام سے لے کر اپنے شیوخ کے زمانے تک تمام روات کے حالات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں مرد و عورت، ثقہ و ضعیف سب شامل ہیں۔
روات کی کنیتوں (الکنیٰ) کے باب میں امام بخاری24، نسائی25 اور ترمذی26 نے طبع آزمائی فرمائی۔
جرح و تعدیل
جرح راوی کے عیوب بیان کرنے کو کہتے ہیں اور تعدیل راوی میں موجود خوبیوں کا تذکرہ کرنے کو کہتے ہیں۔ اس دلچسپ موضوع پر امام ابراہیم بن یعقوب ابو اسحاق جوزجانی (۱۸۰۔۲۵۹ھ/۷۹۶۔۸۷۳ء) نے ’’الجرح والتعدیل‘‘27 اور ’’الضعفاء‘‘28 لکھیں۔ اسی طرح امام بخاری نے ’’کتاب الضعفاء الصغیر‘‘29، ابوبکر احمد بن ابی خیثمہ (۲۷۹ھ/۸۹۳ء) نے ’’تاریخ الثقات والضعفاء‘‘30، امام ترمذی31 اور ابن ماجہ32 نے ’’کتاب التاریخ‘‘، امام عبد الرحمان بن ابی حاتم (۲۴۰۔۳۲۷ھ/۸۵۴۔۹۳۸ء) نے ’’الجرح والتعدیل‘‘33، اور امام نسائی نے کتاب ’’الضعفاء والمتروکین‘‘34 لکھی۔
علل الحدیث کے پیچیدہ موضوع پر محمد بن عبد اللہ بن عمار ابوجعفر موصلی35 (۱۶۲۔۲۴۲ھ/۷۷۹۔۸۵۷ء)، عمرو بن علی فلاس36(۲۴۹ھ/۸۶۴ء) اور امام بخاری37 نے تالیفی کام کیا۔ امام محمد بن یحییٰ ذہلی نے ’’علل حدیث الزہری‘‘38 اور امام نسائی نے ’’مسند حدیث الزہری بعللہ‘‘39 کے نام سے کتابیں لکھیں۔ ان کے علاوہ عبید اللہ بن عبدالکریم ابوزرعہ رازی40(۲۰۷۔۲۶۴ھ/ ۸۱۶۔۸۷۸ء)، عبد الرحمٰن بن عمرو، ابوزرعہ دمشقی41(۲۸۱ھ/۸۹۵ء)، ترمذی42، اور یعقوب بن شیبہ (۱۸۲۔۲۶۲/۷۹۸۔۸۷۵ء) نے ’’المسند المعلل‘‘ کے عنوان سے، یا اس موضوع پر کتابیں تصنیف کیں۔ یعقوب بن شیبہ کی کتاب اگرچہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکی؛ لیکن علل کی عمدہ کتابوں میں اس کا شمار ہوتا ہے43۔ حافظ ابو جعفر بن جریر طبری (۲۲۴۔ ۳۱۰ھ/۸۳۹۔۹۲۳ء) نے ’’تہذیب الآثار‘‘ کے نام سے کتاب لکھی44۔ اس میں مسانید کے انداز میں احادیث جمع کیں اور علتوں کی نشان دہی کی۔ تیسری صدی میں لکھی جانی والی عمدہ تصنیفات میں ابن ابی حاتم کی ’’علل الحدیث‘‘ بھی گراں قدر اضافہ ہے45۔
مراسیل کے موضوع پر امام ابوداؤد نے ’’المراسیل‘‘ فقہی ابواب کی ترتیب سے لکھی46۔ اسی طرح ابن ابی حاتم رازی نے بھی ’’المراسیل‘‘ تصنیف فرمائی47۔ آپ نے اس میں الف بائی ترتیب پر بیشتر روات کی ایسی روایات ذکر کی ہیں جن کی سند میں انقطاع (کوئی راوی حذف) ہے۔
ان میں سے اکثر کتابیں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔
واللہ الموفق والمعین۔
حوالہ جات
- عتر، نور الدین، الامام الترمذی والموازنۃ بین جامعہ وبین الصحیحین، ن: مطبعۃ لجنۃ التالیف والترجمہ والنشر، اشاعت: اشاعت اول: ۱۳۹۰ھ: ۱۹۷۰ء (ص: ۲۶)
- علی عبد الباسط مزید، منہاج المحدثین فی القرن الاول الہجری وحتی عصرنا الحاضر، (ص: ۲۵۷۔ ۲۵۸)
- زہرانی، محمد بن مطر، تدوین السنۃ النبویۃ، نشاتہ وتطورہ، ن: مکتبۃ دار المنہاج، ریاض، اشاعت اول: ۱۴۲۶ھ (ص: ۸۹)
- دیکھیے: عسقلانی: ابن حجر ، احمد بن علی بن حجر، ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ت: محب الدین الخطیب، ن: المکتبۃ السلفیۃ، مصر، اشاعت اول: ۱۳۸۰ھ (ص: ۹۔۱۱)
- عیاض القاضی، ابو الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض، مشارق الانوار، ن: المطبعۃ المولویۃ، فاس، سن اشاعت: ۱۳۲۸ھ۔ ۱۳۳۲ھ (۱/۱۰)
- ابن خیر الاشبیلی: فہرسۃ ابن خیر الاشبیلی (ص: ۱۳۵)، عبد الفتاح ابو غدہ: تحقیق اسمی الصحیحین وجامع الترمذی، ن: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، (ص: ۳۸)
- ابن صلاح: صیانۃ صحیح مسلم (ص: ۶۸)
- ابن صلاح: صیانۃ صحیح مسلم (ص: ۶۷)
- ذہبی: تاریخ الاسلام، (۲۰/۱۸۶)، ابن صلاح: صیانۃ صحیح مسلم (ص: ۶۷)
- الخطیب البغدادی: تاریخ بغداد (۱۵/۱۲۲)
- دیکھیے: ابوداؤد، سلیمان بن اشعث بن اسحاق ازدی، رسالۃ ابی داود الی اہل مکۃ وغیرہم فی وصف سننہ، ت: محمد الصباغ، ن: دار العربیۃ۔ بیروت (ص: ۲۲)
- المقدسی: ابو الفضل محمد بن طاہر، شروط الائمۃ الستۃ، ن: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، اشاعت اول: ۱۴۰۵ھ : ۱۹۸۴ء (ص: ۱۹۔۲۰)
- عتر ، نور الدین، الامام الترمذی (ص: ۴۵۔۴۷)
- ابن خیر الاشبیلی: فہرسۃ ابن خیر الاشبیلی، ت: بشار عواد معروف۔ محمود بشار عواد، ن: دارالغرب الاسلامی، تیونس، اشاعت اول: ۲۰۰۹ء (ص: ۱۵۵)
- سیوطی: جلال الدین، مقدمۃ شرحہ علی سنن النسائی، ن: دار المعرفۃ بیروت، (ص: ۶)
- دیکھیے: المقدسی: ابن طاہر، شروط الائمۃ الستۃ، (ص۱۹)
- سیوطی: مقدمۃ شرحہ علی سنن النسائی (ص: ۶)
- ابن ماجہ، ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی، سنن ابن ماجہ، ت: محمد فؤاد عبد الباقی، ن: دار احیاء الکتب العربیۃ (۲/۱۵۱۹۔۱۵۲۰)یہ فؤاد عبد الباقی کی ترقیم کے مطابق احادیث کی تعداد بیان کی گئی ہے۔
- اس کے علاوہ تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی اہم مسانید کے نام یہ ہیں: مسند ابی داؤد طیالسی، مسند ابی بکر بن ابی شیبہ، مسند اسحاق بن راہویہ، مسند احمد بن ابراہیم دورقی، مسند عبد بن حمید کشی، مسند یعقوب بن شیبہ سدوسی، مسند احمد بن ابراہیم طرسوسی، مسند ابن ابی غرزہ احمد بن حازم غفاری، مسند الحارث بن محمد، مسند احمد بن عمرو البزار، مسند مسدد بن مسرہد، مسند محمد بن یحییٰ بن ابی عمرو عدنی، مسند احمد بن منیع اور مسند بقی بن مخلد وغیرہ۔ (دیکھیے تفصیل: البلوشی: عبد الغفورعبد الحق حسین، الامام اسحاق بن راہویہ وکتابہ المسند، ن: مکتبۃ الایمان (ص: ۲۲۷ ومابعد)
- ابن تیمیہ: احمد بن عبد الحلیم الحرانی، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، ت: محمد رشاد سالم، ن: جامعہ امام محمد بن سعود ، اشاعت اول: ۱۴۰۶۔۱۹۸۶ھ (۷/۹۷)
- ابن تیمیہ : احمد بن عبد الحلیم الحرانی، مجموع الفتاویٰ، زیر نگرانی: عبد الرحمان بن محمد بن قاسم، ن: مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف، مدینہ منورہ، سن اشاعت: ۱۴۲۵ھ ۔ ۲۰۰۴ء(۱۸/۲۶)
- کتانی: ابو عبد اللہ محمد بن ابی الفیض جعفر بن ادریس حسنی، الرسالۃ المستطرفۃ لبیان مشہور کتب السنۃ المشرفۃ، ت: محمد منتصر بن محمد زمزمی، ن: دار البشائر الاسلامیہ، اشاعت سوم: ۱۴۲۱ھ۔ ۲۰۰۰ء (ص: ۱۲۶)
- ابن حجر عسقلانی: ہدی الساری (ص: ۴۸۳)، ابن ندیم: الفہرست، (۲/۱۰۴)
- ابن ندیم: الفہرست (۲/۱۰۴)
- سخاوی: شمس الدین محمد بن عبد الرحمٰن، فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث للعراقی، ت: علی حسین علی، ن: مکتبۃ السنۃ، مصر، اشاعت اول: ۱۴۲۴ھ ۔ ۲۰۰۳ء (۴/۲۱۳)
- عسقلانی: ابن حجر، احمد بن علی بن حجر، تہذیب التہذیب، ت: ابراہیم الزیبق۔ عادل مرشد، ن: مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، اشاعت اول: ۱۴۳۵ھ ۲۰۱۴ ء (۳/۶۶۹)
- صفدی: الوافی بالوفیات، (۶/۱۰۹) مبارک پوری: محمد عبد الرحمٰن بن عبد الرحیم، تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی، ن: دارالکتب العلمیۃ، بیروت (۱/۳۵۰)
- مغلطائی: علاء الدین بن قلیج بن عبد اللہ، اکمال تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، ت: ابو عبد الرحمٰن عادل بن محمد۔ ابو محمد اسامۃ بن ابراہیم، ن: الفاروق الحدیثۃ للطباعۃ والنشر، اشاعت اول: ۱۴۲۲ھ۔ ۲۰۰۱ء (۷/۱۰۷)
- ابن ندیم: الفہرست (۲/۱۰۴)
- ابن ندیم: الفہرست (۲/۱۰۳)
- ابن ندیم: الفہرست (۲/۱۱۵)
- ذہبی: سیر اعلام النبلاء (۱۰/۳۷۴)
- سمعانی: الانساب (۴/۱۲۷)
- ذہبی: سیر اعلام النبلاء (۱۱/۸۳)
- الخطیب البغدادی: تاریخ بغداد (۳/۴۱۹)
- ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب (۳/۲۹۳)
- ابن حجر عسقلانی: ہدی الساری (ص: ۴۹۲)
- ذہبی: سیر اعلام النبلاء (۱۰/۱۵)
- ابن خیر الاشبیلی: فہرسۃ ابن خیر الاشبیلی (۱۸۶)
- ابن رجب: زین الدین عبد الرحمٰن بن احمد الحنبلی، شرح علل الترمذی، ت: ہمام عبد الرحیم سعید، ن: مکتبۃ المنار، اردن، اشاعت اول: ۱۴۰۷ھ ۔ ۱۹۸۷ء(۱/۳۳۸)
- ابن ابی یعلی: محمد ابوالحسین، طبقات الحنابلۃ، ت: محمد حامد الفقی، ن: مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ۔ قاہرۃ، سن اشاعت: ۱۳۷۱ھ ۔۱۹۵۲ء (۱/۲۰۵)
- ابن ندیم: الفہرست (۲/۱۱۵)
- ذہبی: سیر اعلام النبلاء (۱۰/۱۲۴)
- ابن ندیم: الفہرست، (۲/۱۲۰)
- ذہبی: سیر اعلام النبلاء (۱۰/۳۶۷)
- سزگین، فؤاد: تاریخ التراث العربی (۱/۲۹۶)
- سزگین، فؤاد: تاریخ التراث العربی (۱/۳۵۴)
