ماڈرنائزیشن کی آڑ میں ویسٹرنائزیشن

(مفتی صاحب کا ایک خطاب ذیلی عنوانات کے اضافے کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)

تہذیبوں کی کشمکش اور انبیاء کرام کی تعلیمات

لوگ زندگی کیسے گزاریں؟ دنیا میں جس کو جس اعتبار کا بھی غلبہ ملتا ہے، ہمیشہ سے یہ انسانوں کی ترتیب رہی ہے، جس اعتبار سے بھی وہ غالب آتا ہے، اس کی بات چلتی ہے، اس کا زور اور اس کی قوت چلتی ہے، تو انسان کی زندگی صرف اپنے معاملات کو سنوارنے کی حد تک محدود نہیں رہتی۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ انسانی نفسیات میں نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ ہمارے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں، ہماری مشکلات ختم ہو گئی ہیں، اور ہم ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں دنیاوی اعتبار سے، تو وہ اس پر اکتفا کر لے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ انسان دوسروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ قومیں قوموں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں، ملک ملکوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تہذیبیں تہذیبوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں، کلچر کلچر کو ڈومینیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انسانیت کی تاریخ جب سے شروع ہوئی ہے تو اس میں یہ چیز نظر آتی ہے۔

انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام بھی جو تعلیمات لے کر آتے تھے، وہ افراد کی انفرادی اور نجی زندگیوں تک محدود نہیں ہوا کرتی تھی۔ کسی بھی نبی کی تعلیم یہ نہیں تھی، کسی بھی نبی کی، کہ ہمارا مخاطب ایک فرد اور اس کی پرائیویٹ اور نجی زندگی ہے، اس کو اپنے کام ٹھیک کر لینے چاہئیں، اس کو اللہ کے ساتھ اپنا معاملہ درست کر لینا چاہیے، اور پھر باقی دنیا سے اس کو بے غم ہو جانا چاہیے، یہ اس کا کام نہیں ہے، یہ اس کا ڈومین نہیں ہے، یہ اس کی کوئی فکر کی چیز نہیں ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات میں بھی اجتماعیت ہوا کرتی تھی۔ وہ جہاں انسانوں سے خطاب کرتے تھے ان کی ذاتی حیثیت کے اندر، وہاں وہ معاشروں سے بھی خطاب کیا کرتے تھے، وہاں وہ اجتماعی نظم سے بھی خطاب کرتے تھے، وہ اجتماعی نظم کے احکامات بھی دیا کرتے تھے۔ وہ انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن کے اعتبار سے رویے بھی سکھاتے تھے، اخلاق بھی سکھاتے تھے، عادات بھی سکھاتے تھے۔ اور الہٰی قوانین بھی لایا کرتے تھے کہ جب تم لوگ فیصلے کرو گے تو کیسے کرو گے؟ تمہارا نظمِ عدل کیسا ہو گا؟ تمہارا نظمِ اجتماعی کیسا ہو گا؟ تم تعلیم کیسی دو گے؟ تم اخلاق کیسے دو گے؟ یہ بھی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ایک طریقہ تھا۔

دنیا صدیوں سے اس کشمکش کو ملاحظہ کر رہی ہے۔ یہ کشمکش مذاہب کے درمیان بھی رہی ہے اور ہے، اور یہ کشمکش تہذیبوں کے درمیان بھی رہی ہے اور آئندہ بھی چلے گی۔ عیسائیت اور اسلام کے درمیان مذہب کے نام پر جنگیں بھی ہوئی ہیں، اور عیسائیت اور یہودیت کے درمیان جنگیں بھی ہوئی ہیں، دیگر مذاہب کے درمیان بھی ہوتی رہی ہیں وقتاً فوقتاً۔

جدید مغربی تہذیب کا آغاز اور ہیئت

گزشتہ دو سو سال میں شاید، یا ڈیڑھ سو سال میں شاید، دنیا کو ایک ایسی عالمگیر، پوری دنیا پر چھائی ہوئی تہذیب کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے مذہب کا لبادہ بظاہر اتار دیا ہے۔ آج کی عالمی تہذیب ببانگِ دہل یہ نہیں کہتی کہ ہمارا مذہب عیسائیت ہے، نہ وہ یہ کہتی ہے کہ ہمارا مذہب یہودیت ہے۔ اس نے اپنے مذہب کے کچھ اور خدوخال بنائے ہیں اور ان کے الفاظ بہت خوشنما ہیں۔ مثلاً: انسانی حقوق، عورتوں کی اِمپاورمنٹ، جمہوریت، آزادئ اظہار، انسانوں کی مساوات۔ ان عنوانات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کون کہے گا کہ نہیں عورتوں کو اِمپاور نہیں کرنا چاہیے، عورتوں پر ظلم کرنے چاہئیں؟ لیکن اِمپاورمنٹ کے پیچھے جو پورا ایک فیمینزم کا فلسفہ ہے، اس کی تفصیلات اس طریقے سے سامنے نہیں رکھی جاتیں، اس کے نتائج آپ کو معاشرے کے اندر نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ اور وہ چیزیں اُن کی روایات سے بالکل خالی بھی نہیں ہیں، آج بھی وہ دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ یہ چیزیں آپ لیں لیکن ہماری روایت کے تحت لیں۔

اپنی روایات کی پاسداری، دوسروں کی روایات کی پامالی

یہ لفظِ پارلیمنٹ جو ہے، کتنا ہم نے اس کو تقدس عطا کیا ہے۔ یعنی ہم اپنے مذہبی سیاست دانوں کی بھی اور دوسروں کی تقریریں سنتے ہیں تو ہمیں ایسے لگتا ہے کہ اس پارلیمنٹ کا تقدس شاید قرآن و سنت کے اندر العیاذ باللہ کہیں آیا ہو گا، جبھی اس کا اتنا ذکر اہتمام کے ساتھ ہوتا ہے کہ بالکل لگتا ہے کہ وضو کر کے یہ نام لینا چاہیے، اس کے بغیر تو گستاخی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ برطانیہ کے بادشاہ کے پاس جب وفود آیا کرتے تھے تو وفد کی شکل میں علاقے کے جو زمیندار ہوتے تھے، اس زمانے کے اندر جو لارڈز ہوتے تھے، یہ ہاؤس آف لارڈز کا تصور بھی تو وہیں سے نکلا ہے۔ ان کے آپ کو پتہ ہے پارلیمنٹ کے دو ایوان ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو الیکٹ ہو کر آتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں نیشنل اسمبلی ہے۔ اور ایک ہمارے ہاں سینٹ ہے جو الیکٹ نہیں ہوتی۔ تو وہاں پر بھی ایک ہاؤس آف لارڈز ہے۔ ایک کو ہاؤس آف کامن کہتے ہیں۔ تو یہ جو ہاؤس آف لارڈز ہے یا اس کا جو تصور پہلے تھا، لوگ آتے تھے ان کے پاس اور بادشاہ کو اپنے مسائل پیش کرتے تھے، اپنے علاقے کے۔ ٹیکسیشن کے ایشوز ہوتے تھے کہ ٹیکسز کم کیے جائیں، قیمتوں کے، امن و امان کے۔ اُس جگہ کو، اُس وفد کو پارلے کہتے تھے، اُدھر سے تصور نکلا ہے۔ اور آپ آج بھی اگر اس کی اصطلاحات اور اس کی روایات کو دیکھیں تو پوری اس کی پیروی ہے:

  • آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کے سپیکر کو سپیکر کیوں کہتے ہیں؟ حالانکہ وہ تو خاموش رہتا ہے۔ سپیکر تو، بولنے والے تو دوسرے لوگ ہوتے ہیں جو ایوان کے لوگ بول رہے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر بادشاہ کے سامنے بات پیش کرنے کے لیے کوئی بندہ تیار نہیں ہو رہا تھا، کون جا کے بات کرے گا؟ تو کسی ایک کا انتخاب کر لیا باقی لوگوں نے، جو آئے ہوئے تھے بات کرنے کے لیے۔ جو میں نے پارلیمنٹ کے ابتدائی تصور بتایا۔ تو وہ جا نہیں رہا تھا، اس کو ہمت نہیں ہو رہی تھی، تو کچھ لوگ اکٹھے ہو کر، پانچ چھ لوگ گئے اور زبردستی اس کو اپنی سیٹ سے کھڑا کیا اور اس کو ہاتھ سے پکڑ کر آگے لے گئے کہ جاؤ تم بادشاہ کے سامنے بات کرو گے۔ اس کو سپیکر کہا کہ یہ بات کرے گا۔ اس وقت سے ایوان کے اندر ایک آدمی کو سپیکر کہا جانے لگا۔ اور چونکہ اس کو اٹھا کر لے کر گئے تھے زبردستی، آج بھی جب سپیکر کا انتخاب ہوتا ہے، سپیکر خود اٹھ کر اپنی سیٹ پر نہیں بیٹھتا، اس کو چار پانچ ممبرانِ پارلیمنٹ اٹھا کر، آپ نے دیکھا ہو گا یہ منظر، اس کو لے کر جاتے ہیں۔ یہ اُس روایت کی پاسداری کی جاتی ہے کہ پہلی دفعہ چونکہ پانچ چھ بندے لے کر گئے تھے، اب بھی؛ اتنی روایت پرست قوم ہے برطانوی۔ اور ہم سے مطالبہ ہے اپنی روایات چھوڑ دو۔ اور ہم بڑے فخر سے چھوڑتے ہیں۔ روایت شِکن بندے کو بہت بڑی توپ چیز سمجھتے ہیں۔
  • اور آپ نے کبھی دیکھا ہو گا، سپیکر کے پاس ایک چھوٹا سا ہتھوڑا ہوتا ہے۔ جب سپیکر اسمبلی توڑتا ہے تو وہ ہتھوڑا مارتا ہے اپنی میز کے اوپر۔ وہ ہتھوڑے کا کیا تصور ہے؟ یہ بھی ایک دفعہ ایک بادشاہ کو پارلیمنٹ میں غصہ آیا اور وہ گیا اور اس نے جا کر پارلیمنٹ کے دروازے کو ہتھوڑے سے، اس کا تالا، یا اُدھر لوگ بیٹھے تھے، تو وہاں اس دروازے کو ہتھوڑے سے توڑا۔ اس وقت سے اس ہتھوڑے کو بھی پارلیمنٹ کا حصہ بنایا گیا کہ جب پارلیمنٹ توڑی جائے گی تو ہتھوڑے کے ذریعے سے، چاہے بے شک وہ شیشے کی میز کے اوپر مارنے کے لیے ایک چھوٹا سا لکڑی کا ہو گا، لیکن علامت کو زندہ رکھا جائے گا، روایت کو زندہ رکھا جائے گا۔ 
  • آج بھی جب برطانوی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہوتا ہے، آپ کبھی اس کی تفصیلات دیکھیں، تو ٹارچوں کے ساتھ کچھ لوگ، یعنی جو محافظین ہوتے ہیں، وہ اندر جاتے ہیں اور وہ جا کے پارلیمنٹ کے پورے ہال کی تلاشی لیتے ہیں ٹارچوں کے ساتھ۔ حالانکہ روشنیوں کا زمانہ، کیمروں کا زمانہ آ گیا ہے، لیکن وہ کہتے ہیں چونکہ پہلی پارلیمنٹ کے اندر ٹارچ کے ساتھ، اس زمانے کی جو مشعلیں تھیں، ان مشعلوں کے ساتھ تلاشی لی گئی تھی تو اس روایت کو قائم رکھا جائے گا، اب بھی مشعلوں کے ساتھ جایا جائے گا۔

تو عرض میں یہ کر رہا تھا کہ ٹھیک ہے ان چیزوں کا مذہب کے ساتھ ایک تعلق نہیں ہے، لیکن مذہب سے بالکل آزاد بھی نہیں ہے۔ اس کو ظاہراً ایسے رکھا گیا ہے کہ دنیا کے کسی مذہب کو بھی اس کو قبول کرنے میں تامل نہ ہو۔ پھر ادارے بنائے گئے ہیں، جو ادارے اس کو چلاتے ہیں، جو اس کا ذہن بناتے ہیں:

  • اس میں تعلیمی ادارے ہیں، نظام دیا جاتا ہے، سکولوں کے نصاب تیار کیے جاتے ہیں، ٹیچرز کو ٹریننگ دی جاتی ہے، خیالات و افکار کیسے منتقل کیے جائیں گے؟ 
  • اس کے لیے میڈیا کا ادارہ ہے جس کو بڑے بھرپور طریقے کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ذہن سازی کے لیے۔ 
  • اس کے لیے مختلف علوم کے اندر اس کو سمویا جاتا ہے، اس پیغام کو سمویا جاتا ہے کہ یہ پیغام لوگوں کے ذہن کے اندر، قلب و جگر کے اندر اترے۔ 

مغربی فلسفہ، علامہ محمد اقبال کی نظر میں

اس لیے علامہ اقبال اس فلسفے کو قلب و نظر کا فساد کہا کرتے تھے کہ یہ قلب و نظر کا فساد ہے۔ کیا مطلب؟ قلب کے ذریعے سے آپ کی عادات کے اوپر، آپ کے اخلاق کے اوپر، آپ کی روح کے اوپر، کچھ چیزیں اثر انداز ہوں گی۔ اور نظر کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دلیل متاثر ہو گی، دلیل کے اعتبار سے آپ پر اثر پڑ جائے گا، آپ کو وہ دلیل زیادہ قابلِ قبول لگے گی۔ جس طرح آج کل ہم دیکھتے ہیں اپنے معاشرے کو اور آپ لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ کون سی بات مدلل لگتی ہے، کس بات کو لوگ دلیل کہتے ہیں؟ وہ دلیل آپ کے ذہنی سانچے سے نکل کر آتی ہے، جس چیز سے آپ کا ذہنی سانچہ تیار کیا گیا ہے، آپ کو وہی چیز مدلل لگے گی، وہ آپ کو دلیل لگے گی، ہاں یہ دلیل بڑی مضبوط ہے، یہ تو بڑی خاص قسم کی بات کی گئی ہے۔

برطانوی غلبہ کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا تعلیمی نظام

مسلمانوں سے غلطی سب سے بڑی یہ ہوئی، اپنے برصغیر کے تناظر کے اندر بھی اگر آپ دیکھ لیں، ڈیڑھ دو سو سالوں کے اندر، کہ غلامی کے نتائج تو ہوتے ہیں۔ غلامی آئی تھی، اسباب اور وسائل ہاتھوں سے نکل گئے تھے۔ تو جب اسباب اور وسائل ہاتھوں سے نکلے تو برصغیر کے اندر مسلمان اپنا کوئی جامع مانع قسم کا تعلیمی نظام نہیں بنا سکے۔ reactionary نظام ہم نے بنائے، ہمیں فوری طور پر اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں ہندوستان سپین نہ بن جائے، اور مسلمان قرآن و سنت سے ناواقف نہ رہ جائیں، اللہ تعالیٰ اجنبی نہ ہو جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہ چھوٹ جائے، تو مذہبی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اور مذہبی تعلیمی ادارے اس لیے قائم کیے تھے کہ دین کا علم زندہ رہے، قرآن زندہ رہے، حدیث زندہ رہے۔ لیکن ظاہری بات ہے کہ وہ تعلیمی ادارے مسلمانوں کی ساری ملّی، قومی اور اجتماعی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں تھے۔ مسلمانوں کو ہر قسم کے لوگ چاہئیں تھے۔ ان کو سائنسدان بھی چاہئیں تھے، ان کو ڈاکٹر بھی چاہئیں تھے، ان کو انجینئر بھی چاہئیں تھے، ان کو ہر شعبۂ زندگی کے افراد چاہئیں تھے۔ ان افراد کی تیاری سرکاری وسائل کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی، یا بہت بڑی رقومات کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔ 

پاکستان میں تعلیمی نظام کی نجکاری

پاکستان کے اندر بھی آپ دیکھیں کہ یہ تعلیم پرائیویٹائز کب ہوئی ہے؟ ابھی آپ میں سے جتنے لوگ بڑی عمروں کے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ میں سے کسی کے زمانے کے اندر پرائیویٹ میڈیکل کالج نہیں تھا، پرائیویٹ انجینئرنگ کالج نہیں تھے۔ یہ تو ابھی دو دہائیوں کا قصہ ہو گا زیادہ سے زیادہ، کہ جب تعلیم کے اوپر بڑی انویسٹمنٹس شروع ہوئیں، بڑے بڑے کاروباری لوگوں نے یہ طے کیا کہ تعلیم پر انویسٹمنٹ ہو سکتی ہے، تعلیم بھی ایک ایسی چیز ہے جس سے پیسہ کمایا جاسکتا ہے، تب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نظام وجود کے اندر آسکتا ہے۔کیونکہ ظاہر بات ہے اس میں بہت بڑی انویسٹمنٹ بھی ہے اور بہت بڑا ریٹرن بھی ہے۔ آج کل سپریم کورٹ سن رہی ہے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی فیسوں کے کیس۔ لوگ گئے ہیں ان کے پاس، کہ اتنی بڑی بڑی رقومات وصول کی جارہی ہیں۔ 

برطانوی دور میں تعلیمی نظام کی تقسیم

تو نظامِ تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا اور split ہوا، دو حصوں میں ہوا، کہ مسلمانوں نے کہا کہ ہماری جو مذہبی تعلیم ہے اس کو ہم privately sponsor کر سکتے ہیں۔ عام مسلمانوں نے سوچا، آپ کے جیسے مسلمانوں نے۔ ہم دس دس روپے اکٹھے کریں گے، ہم بیس بیس روپے اکٹھے کریں گے اور ہم مسجدیں بنائیں گے۔ مسجدوں کے اندر ہم مکتب بنائیں گے۔ مکتبوں میں ہم مدرسے بنائیں گے۔ وہاں پر ہم قرآن یاد کروائیں گے، وہاں پر ہم حدیث اور تفسیر کے اساتذہ کو رکھیں گے۔ ان اساتذہ کو اتنی ہی تنخواہیں دیں گے جتنی دے سکتے ہیں۔ ان طلباء کو وہی سٹینڈرڈ دیا جا سکے گا جس میں وہ رہ سکتے ہیں۔ تو پرائیویٹلی مسلمانوں نے اپنے طور پر، حکومتوں سے بے نیاز ہو کر، اپنی دینی تعلیم کو سنبھالنے کے لیے، اس کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے، اپنا ایک نظام قائم کیا۔ اور وہ نظام ظاہر بات ہے جیسے اس کے لیے ایک انفرادی کوشش ہوتی ہے تو وہ ویسا ہی نظام قائم ہوا، دیکھنے کے اعتبار سے۔ اثرات اس کے بہت بڑے نکلے مسلمان معاشرے کے اندر۔ لیکن وہ تھی مسلمانوں کی نجی کوشش، اپنے طور پر تھی، محلے کی سطح کے اوپر تھی، شہروں کی سطح پر تھی۔ دس پندرہ بیس لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے کہ ہم لوگ کیسے اس کے اوپر کیا سوچیں اور کیا نظام اس کا بنائیں۔

برصغیر کے وسائل کا برطانوی استحصال

باقی جو تعلیم تھی، وہ ریاست کے ہاتھ میں تھی۔ اور ریاست انگریزوں کی تھی۔ اور ان کو یہ بہت اچھے طریقے کے ساتھ پتہ تھا کہ ہم نے اِن کو کیا پڑھانا ہے؟ ہمیں اِن کو پڑھائی کے ساتھ کیا دینا ہے؟ ہمیں اس سے کیا نتیجہ درکار ہے؟ حالانکہ وہ کوئی ہم پر اپنے وسائل خرچ نہیں کر رہے تھے کہ برطانیہ سے پیسے لا کے ہم پہ خرچ کر رہے ہوں۔ ہمارے وسائل تھے، ہمارے وسائل میں سے ایک روپیہ لوٹ کر اس کے دو پیسے ہم پر خرچ کرتے تھے۔ اس کا تناسب کبھی آپ نکالیں۔ لوگ بڑے ممنون ہوتے ہیں، انگریزوں نے یہاں بڑا کام کیا ہے۔ انتہائی عجیب بات ہے یہ۔ انگریزوں نے یہاں سے جو دولت لوٹی ہے، کبھی اس کا حساب کوئی کر کے بتائے۔ یہاں سے جو کچھ گیا ہے۔ آج بھی ملکہ کے تاج کے اندر ہمارا کوہِ نور ہیرا لگا ہوا ہے یا نہیں لگا ہوا؟ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی ہیرا۔ تو وہ تو یہاں سے چیزیں گئی تھیں۔ کوئی تسلسل، ہماری بندرگاہوں سے کوئی وقت ایسا نہیں گزرا کہ وہاں ان کے بحری جہاز ہمارے خام مال سے اور ہماری چیزوں سے لدے ہوئے روانہ نہ ہو رہے ہوں۔ جو ان کی انڈسٹریز کا ایندھن ہمارے ہاں سے جاتا تھا، یہاں سے چیزیں جاتی تھیں، تو وہاں انڈسٹریل ریولوشن آیا اور وہاں سے چیزیں بن کر نکلنا شروع ہوئیں۔ خام مال ہمارا تھا، عقل اور ہنر اور ٹیکنالوجی ان کی تھی۔

  • اس کا نتیجہ جہاں اس طرف سے ایک غربت کی شکل کے اندر نکلا، مفلوک الحالی کی شکل میں نکلا۔ وہ ہندوستان، متحدہ جب تک تھا، جس کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، ایک بدحالی اور افلاس کی تصویر بن کر رہ گیا۔ 
  • دوسری طرف سے ایک علمی افلاس پیدا ہوا۔ اور علمی افلاس یہ کہ ہمارے بارے میں یہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچا گیا کہ یہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر دنیا کی امامت اور قیادت کریں، ہمیں اس نیت سے تو تعلیم نہیں دی گئی تھی کہ دنیا کے قائدین یہاں سے پیدا ہوں۔ wisdom of east دنیا کے اندر مشہور تھا، لوگ جب کوئی سمجھداری کی بات سننا چاہتے تھے تو سمجھتے تھے وہ مشرق سے اٹھے گی اور مشرقی لوگ اس پر بات کریں گے۔ وہ وِزڈم کہاں گیا اور وہ علم کہاں گیا اور وہ ہنر کہاں گئے؟ آج دیکھیں کیا اس کی شکل سامنے ہے۔

برطانوی غلبہ سے پہلے برصغیر کا تعلیمی نظام

ہاں، انگریزوں کی آمد سے پہلے جو برصغیر تھا۔ مغل حکمرانوں کی کمزوریاں اپنی جگہ کے اوپر۔ اور آخری زمانے کے اندر اس نے اپنا استحقاق کھو دیا تھا جس کی وجہ سے؛ حکومت ایسے نہیں جاتی کسی کی، جب حکومتیں یا معاشرے اپنا استحقاق کھو دیتے ہیں تب حکومتیں جاتی ہیں۔ لیکن اُس گئے گزرے ہندوستان سے، جو بالکل بہادر شاہ ظفر سے پہلے کا دور ہے؛ 

تین نمایاں شخصیات، ڈاکٹر محمود احمد غازی کی نظر میں

ہمارے ایک بڑے ہی محترم دوست تھے، آپ لوگوں نے شاید ان کا نام سنا ہو، ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب مرحوم، اسلامی یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ بھی رہے اور کچھ عرصے کے لیے فیڈرل منسٹر بھی رہے، بڑے فاضل آدمی تھے۔ وہ ہمیشہ یہ بات کہا کرتے تھے کہ تین افراد، ہندوستان کی تین نمایاں شخصیات، مثلاً:

  1. آپ نے نام سنا ہو گا، مجدد الف ثانی۔ مجدد الف ثانی کا جو اقبال تعارف کراتے ہیں نا، انگریزوں کو جو اقبال نے تعارف کرایا تو ان الفاظ کے ساتھ کرایا The greatest religious genius of Muslim India اسلامی ہندوستان کے اندر مجدد سے بڑا جینئس کہتے ہیں کوئی نہیں پیدا ہوا، مجدد الف ثانی۔ علامہ اقبال کے الفاظ ہیں ’’دی گریٹسٹ ریلیجئس جینئس آف مسلم انڈیا‘‘۔ 
  2. یہ مجدد الف ثانی اور ان کے زمانے کے مغل بادشاہ کا سب سے بڑا وزیر نواب سعد اللہ خان۔ آپ کو پتہ ہے حکومتیں تو وزیر کرتے ہیں، جس کو آج کل بیوروکریسی کہتے ہیں۔ اُس زمانے میں وزیر ہوتے تھے، سارا نظام ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اُس زمانے کے ہندوستان میں آج کا انڈیا، آج کا پاکستان، افغانستان، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، تقریباً‌ تقریباً‌ ان ملکوں کے بیشتر، بنگلہ دیش پورا، یہ سارا اُس زمانے کی مغل سلطنت، ان ملکوں کا بیشتر حصہ اس کے اندر شامل تھا۔ اس پورے عظیم الشان سلطنت کا انتظام و انصرام کرنے والا نواب سعد اللہ خان۔ 
  3. اور دنیا کا عجوبہ کہلاتا ہے تاج محل۔ آپ کو پتہ ہے دنیا میں سات عجائب ہیں۔ عجائب و غرائب جن کو دنیا کے اندر کہا جاتا ہے کہ ایسی چیزیں اور نہیں بنیں۔ سب سے پہلے نام اس میں اہرامِ مصر کا لیا جاتا ہے۔ تو جب دنیا میں کوئی چیز بہت عجیب ہو، یہ تو آپ نے محاورہ بھی اردو میں سنا ہو گا کہ فلاناں آٹھواں عجوبہ ہے۔ مطلب یہ کہ سات تو declared ہیں، یہ اگر آٹھواں کوئی چیز لیا جائے تو وہ یہ ہو گا۔ تو یہ تاج محل جس آرکیٹیکٹ نے بنایا ہے، احمد معمار، آپ سوچیں، اس زمانے کی اس کی عقل کو دیکھیں اور اس کی مہارت کو دیکھیں اور اس کے فن کو دیکھیں۔ آج یہ پوری دنیا کی most vizited places کے اندر سے ہے، پوری دنیا سے سیاح کھنچ کھنچ کر آگرہ جاتے ہیں تاج محل کو دیکھنے کے لیے۔ 

اس کا جو آرکیٹیکٹ ہے احمد خان، اور یہ جو سب سے بڑا وزیر تھا نواب سعد اللہ خان، اور دی گریٹسٹ ریلیجئس جینئس جو تھا ہندوستان کا، مجدد الف ثانی، یہ تینوں ایک ہی نظامِ تعلیم کی پیداوار تھے۔ وہ کتنا جامع تعلیمی نظام ہو گا، جو اگر علماء دے رہا ہے تو مجدد الف ثانی جیسے دے رہا ہے، جو اگر آرکیٹیکٹ دے رہا ہے تو تاج محل کے بانی جیسے دے رہا ہے، اور اگر وہ کوئی بہترین قسم کا statesman دے رہا ہے، کوئی بہترین قسم کا ایک مدبر منتظم دے رہا ہے تو نواب سعد اللہ خان جیسا دے رہا ہے۔ مسلمان اتنے بے مایہ نہیں تھے انگریزوں کے آنے سے پہلے۔ یہ جس احساس کمتری کے اندر ہم آج مبتلا ہیں، یہ انگریز ہمیں دے کر گئے ہیں۔ اپنی تاریخ پر بھی شرمسار، اپنے ماضی سے ناواقف۔ اور اپنے بارے میں؛ ایک عجیب قسم کا احساس ہمارے بارے میں کہ شاید پتہ نہیں ہم پیدا کیوں ہو گئے دنیا کے اندر۔ یہ چیزیں اس کی سوغات ہیں جو وہ چھوڑ کر گیا ہے ہمارے اندر۔اور آج بھی ہماری طرف یہ چیزیں متوجہ ہیں۔ 

مغربی تہذیب اور ’’خذ ما صفا و دع ما کدر‘‘ کا اسلامی اصول

مجھے ڈاکٹر صاحب کی ایک بات یاد آتی ہے۔ 93ء/94ء کی انہوں نے بات کی۔ میں اس پر بات کر رہا تھا کہ دنیا اس کا ہمیشہ مشاہدہ کرتی ہے کہ دنیا میں چلن کس کا چل رہا ہے؟ کس کی بات چل رہی ہے؟ آپ نے نکسن کی مشہور کتاب Seize the Moment اگر دیکھی ہو تو اس نے بھی اس پر کہ ہمارا کیا اثر مشرقی اقوام پر پڑ رہا ہے؟ ہم مشرقی اقوام پر کس حد تک مؤثر ہو رہے ہیں؟ ان کے دل و دماغ پر ہمارے قابو پانے کی نوعیت کیا ہو چکی ہے؟ تو ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے، ہم سنتے تھے ان سے قصہ بار بار۔ کہتے ہیں کہ ایک اجلاس تھا جرمنی کے اندر، اور اس کا عنوان بڑا دلچسپ تھا، اور اس کے اوپر پوری دنیا سے چنیدہ چودہ پندرہ سولہ لوگ بلائے گئے تھے۔ کچھ مغربی دنیا سے بلائے گئے تھے اور کچھ ایک دو تین لوگ اسلامی دنیا سے بلائے گئے تھے۔ اور اس کا عنوان تھا کہ

Is Islam a Threat to Western Europe?    

’’کیا اِسلام ویسٹرن یورپ کے لیے ایک خطرہ ہے؟‘‘  

مغرب کی تہذیبی یلغار کی مزاحمت میں مُسلم رویّے

تو کہتے ہیں اس کے اندر انہوں نے مجھ سے یہ پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ جو مغربی تمدن ہے، جو مغربی سولائزیشن اور کلچر ہے، مسلمانوں کے اس کے بارے میں جذبات کیا ہیں؟ عام Muslim masses جو ہیں، مسلم پبلک جو ہے، وہ کیا سوچتی ہے جب ان کے سامنے ویسٹرن کلچر کی چیزیں آتی ہیں تو اس کے بارے میں ان کے رویے کیا ہیں؟ تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں، میں نے کہا جی تین رویے ہیں:

  1. ایک وہ رویہ ہے، ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی رہا ہے جس نے مکمل رد کر دیا تھا، حتیٰ کہ وہ مغرب سے آئی ہوئی کسی ٹھیک چیز کا استعمال بھی درست نہیں سمجھتے تھے۔ اور ایسے واقعات؛ اپنے خاندان کے ایک بزرگ کا نام لیا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ جو ٹماٹر ہے یہ بھی مغرب کی ایجاد ہے، یہ ایسی کچھ چیزوں کا مکسچر سا ہے، اور کہا کرتے تھے کہ اس کو ٹماٹر نہیں کہنا چاہیے، اس کو لال بینگن کہنا چاہیے، اس لیے کہ ٹماٹر کا لفظ وہاں سے آیا ہے۔ ایک صاحب کے بارے میں کسی نے بتایا کہ اگر بسکٹ کے اوپر انگریزی میں نام لکھا ہوتا تھا تو وہ بسکٹ نہیں کھاتے تھے۔ کہتے، اس پہ نام لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، ایک یہ رویہ تھا۔ یہ بڑے محدود پیمانے پر تھا اور وقت کے ساتھ ختم ہو گیا، چل نہیں سکتا تھا ظاہر بات ہے۔
  2. ایک وہ رویہ تھا، ہمارے ہاں اُٹھا، جس میں ہمیں یہ دعوت دی گئی بڑی زور و شور کے ساتھ کہ ہمیں مغربی رنگ میں رنگ جانا چاہیے۔ اب یہ غالب قوم ہے دنیا کی، ہمیں سیدھا سیدھا اقتدا کرنی چاہیے، پیروی کرنی چاہیے، ان کے لباس، ان کے طور طریقے، نارمز، ویلیوز، ہر چیز مان لینی چاہیے۔جس طرح وہ ایک انتہا تھی، یہ دوسری انتہا تھی۔ سر سید احمد خان کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جن کی یہ دعوت تھی۔
  3. انہوں نے کہا درمیان میں ایک رویہ مسلمانوں میں ہے جو سب سے زیادہ ہے اور اکثریت مسلمانوں کی اس کے اوپر ہے۔ اور وہ ہے، عربی کے اندر اس کے لیے ہے کہ ’’خذ ما صفا و دع ما کدر‘‘ کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ہم مغرب سے چیزیں لیں گے اپنی شرائط کے اوپر اور اپنے طریقے کے اوپر۔ جن چیزوں کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہم لیں گے، اور اگر اس میں کوئی ردوبدل کرنا ہوا تو وہ بھی کریں گے۔ سائنس کے اندر، ٹیکنالوجی کے اندر، علوم کے اندر، ترقی کے اندر ہم مغرب سے پورا پورا استفادہ کریں گے، لیکن اپنی شرائط کے اوپر کریں گے۔ اپنے مذہب کو، اپنی ملت کو، اپنی تہذیب کو، اپنے کلچر کو، اپنی حد تک بچاتے ہوئے اپنے اعتقادات کو، اس کے بعد ہم استفادہ کریں گے۔

تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں، میں بڑا حیران ہوا کہ وہ جو پڑھے لکھے ترین لوگوں کی مجلس تھی، جو دنیا کے چوٹی کے نامور پروفیسرز پوری دنیا سے تیرہ چودہ اکٹھے کیے گئے تھے، انہوں نے مجھے واضح طور پر کہا کہ نہیں، اس پر تو مغرب آمادہ نہیں ہے۔ pick & choose تو نہیں ہو گا۔ یہ تھوڑی ہو گا آپ اپنی مرضی کی چیز اس میں سے اٹھا لیں؟ یہ تو پورا پیکج ہے جو آپ کو وصول کرنا پڑے گا۔ اس میں اس کے ساتھ سب چیزیں آئیں گی۔ 

مسلم معاشروں میں مغربی تہذیب کی روایات

اور آ رہی ہیں یا نہیں آ رہی ہیں؟ یہ چودہ فروری کو آپ لوگوں نے ویلنٹائن ڈے منایا، یہ کس کھاتے کے اندر ہمارے معاشرے کے اندر آیا؟ کس ضرورت کے تحت آیا؟ اس کے ساتھ ہماری تعمیر و ترقی کی کون سی چیز وابستہ تھی کہ جو ہماری ضرورت ہوتی؟ لیکن جس طرح انہوں نے کہا تھا، ان کا یہ پورا پیکج ہے۔ یہ نہیں ہو گا کہ آپ ہم سے تعلیم لیں، آپ ہم سے ٹیکنالوجی سیکھیں، آپ ہماری اچھی چیزوں سے استفادہ کریں، اور ہماری باقی چیزوں کو آپ کہیں گے کہ یہ ہمیں نہیں چاہئیں۔ یہ ہمارے مذہب سے ٹکراتی ہے، یہ ہمارے اعتقادات سے ٹکراتی ہے، یہ ہماری اخلاقیات سے ٹکراتی ہے۔ انہوں نے کہا، ایسا نہیں ہو گا۔ اتنے سادے گویا کہ ہم بھی نہیں ہیں کہ ہم آپ کو صرف اچھی اچھی چیزیں چننے دیں اور بری چیزوں کے بارے میں آپ کو اختیار دیں کہ آپ اس کو ایک سائیڈ کے اوپر ڈال دیں۔

دنیا پر مغربی تہذیب کے منفی اثرات، علامہ محمد اقبال کی نظر میں

اس پر مجھے کبھی خیال آتا ہے؛ اب تو ہماری نئی نسلوں کو بہت ناواقفیت ہو گئی۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں، خاص طور پر اپنی فارسی شاعری کے اندر، کبھی آپ اس کو پڑھیں اگر، اس کا مزہ تو فارسی پڑھنے کے اندر ہی آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے واقعی کسی آدمی پر الہام ہوتا ہو جیسے۔ ایسے خیالات، ایسا خلاصہ انہوں نے بیان کیا چیزوں کا۔ چار بڑی شکایات اقبال نے مغرب سے کی ہیں کہ آپ سے دنیا کو فائدہ بھی ہوا، افادیت ایک طرف ہے، ہمیں پتہ ہے کہ کن چیزوں کا فائدہ ہوا۔ پھر دنیا کو آپ نے چار بڑے ایسے تصورات دیے جس سے دنیا کا نقصان ہوا۔ اور بدقسمتی سے ہم لوگوں نے، جو ان چاروں چیزوں کے اندر ایک بڑا rich tradition رکھتے تھے، ہم نے بھی اس کو کچا کچا، جیسا کیسا آیا تھا، قبول کیا۔

تصورِ خدا سے ناشناس کر دیا

پہلی چیز، جس کو اقبال نے کہا کہ آپ نے دنیا کو تصورِ خدا سے ناشناس کر دیا۔ خدا کا جو ایک کردار تھا معاشرے کے اندر، اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو معاشرے کا ایک تعلق تھا، اس کی بجائے آپ نے، خدا معاشرے سے لے کر اس کو مادیت پرستی دی ہے۔ لوگوں کو ذہن یہ دیا ہے کہ ہر چیز مادے سے ہوتی ہے۔ مادیت پرستی کا ذہن پورے معاشرے کو۔ یعنی دو بڑے کہ (۱) لیا کیا؟  تو کہتے ہیں تصورِ خدا لیا۔ (۲) اور دیا کیا؟ تو مادیت دی دنیا کو۔ ہر بندے کے ذہن کے اندر آج ایک مکمل، چاہے مذہبی معاشرے بھی ہیں، تو مادیت کے اندر گھرے ہوئے ہیں مکمل طور پر۔ انسانوں نے خیر و شر کا پیمانہ اس کو بنا لیا ہے۔ پیسے کو، پیسے سے آنے والی چیزوں کو، لائف سٹائل کو، سٹینڈرڈ کو، اور ایک نمود و نمائش کو۔ آج مسلمانوں کے وسائل بھی، مسلمانوں کی صلاحیتیں بھی، باقی ہیں تو اُس کے اندر بھی۔

اخلاقی بحرانی میں مبتلا کر دیا

دوسرا، وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک اخلاقی بحران میں دنیا کو مبتلا کیا ہے۔ ہم تو اخلاق کہتے ہیں نا مسکرانے کو، کہ فلاں مسکرا کر ملا، خوش اخلاق ہے۔ یہ نہیں۔ اخلاقیات پر دنیا ایک جگہ کھڑی ہوئی تھی۔ اخلاق پر ایک بات یاد آئی۔ ہمارے ایک بہت اچھے دوست ہیں اور بڑے فاضل عالم ہیں۔ اِس سے آپ کو اخلاق سمجھ میں آئے گا، کس کو کہتے ہیں۔ وقت ختم ہو گیا، میں کچھ آج اس پہ بات یہ رکھنا چاہ رہا تھا تفصیل سے، لیکن اس میں وقت نہیں ہوتا ہمارے پاس۔ بڑے فاضل آدمی ہیں، بڑا عرصہ امامت کی امریکہ کے اندر، اور عربی، انگریزی، اردو، ساری زبانوں پر بڑی مہارت ہے، لکھتے بھی بہت اچھا ہیں … تو اپنے ایک مصری دوست کا بتا رہے تھے کہ مصری دوست بھی ایک اچھے عالم تھے وہاں پر، اور وہ ایک مسجد میں امامت کرتے تھے، تو ان کے پاس ایک خاندان آیا اور اس نے کہا کہ ہمارا بیٹا ہے، لڑکا ہے، teen ager ہے، اور چونکہ ہم لوگ مصر سے آئے ہیں تو یہاں آ کر مغربی چکا چوند اس نے دیکھی ہے تو بہت زیادہ خراب ہو گیا ہے لڑکا۔ تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ امام ہیں، بڑا اچھا خطبہ دیتے ہیں، بڑی اچھی بات کرتے ہیں، تو آپ اس بچے کو سمجھائیں۔ اور وہ بڑی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو گیا ہے۔

تو وہ مصری امام کہتے ہیں کہ میں نے بچے کو بلوایا ایک دن، میں نے کہا آ جائے میرے پاس۔ تو جب وہ آیا تو میرے ذہن میں تھا کہ میں اس کو کیسے کہوں اس بات کا؟ تو کہتے ہیں میرے دل میں حدیث شریف آئی کہ بالکل یہ کیس تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آیا تھا کہ ایک صاحب تھے اور انہوں نے زنا کی خواہش کا اظہار کیا تو لوگ ان سے ناراض ہونے لگے کہ تم نے کیسی بری بات کی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بڑے طریقے سے سمجھایا۔ اور کیسے سمجھایا؟ اس کو پاس بلا کر اسے کہا کہ اے فلاں، کیا تم پسند کرو گے کوئی تمہاری ماں کے ساتھ ایسا کرے؟ وہ کہتا ہے، یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر فدا، میں نہیں چاہتا ایسا۔ تو انہوں نے کہا کہ لوگ بھی ایسا نہیں چاہتے کہ ان کی ماؤں کے ساتھ ایسا ہو۔ تو کہا، کیا تم پسند کرو گے کوئی تمہاری بیٹی کے ساتھ ایسا کرے؟ اس نے کہا، یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پہ فدا، میں کبھی نہیں چاہوں گا ایسا۔ تو حضورؐ نے فرمایا کہ لوگ بھی نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہو۔ کیا تم چاہو گے کہ تمہاری بہن کے ساتھ کوئی ایسا کرے؟ پھر کہا، کیا تم چاہو گے کہ تمہاری خالہ کے ساتھ کوئی ایسا کرے؟ اس نے کہا، نہیں۔ کہا، تو لوگ بھی نہیں چاہتے کہ ان کی خالاؤں کے ساتھ کوئی کرے۔ پھر کہا کہ، تو کیا تم چاہو گے تمہاری پھوپھی کے ساتھ کوئی ایسا کرے؟ یہ پوری حدیث شریف ہے، بڑی طویل حدیث ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے گئے۔ اور وہ کہتے کہ یا رسول اللہ میں نہیں چاہتا ایسا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کے اندر سے بالکل وہ بات نکال دی۔ 

تو کہنے لگے، میں نے سوچا کہ میں یہی حربہ اس بچے پر بھی آزماؤں۔ تو میں نے اس بچے سے کہا، دیکھو بیٹا! کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری بہن کے ساتھ ایسا کوئی کرے؟ تو کہتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ

.I don't mind if she is ok with that   

کہتے ہیں، میں ہکا بکا رہ گیا، اپنی جگہ پہ کھڑا ہو گیا بالکل ہی کہ اب آگے تو بات ہی نہیں چل سکتی۔ کہتا ہے، آئی ڈونٹ مائنڈ اِف شی اِز اوکے وِد دیٹ۔ یہ تہذیب ہے یا نہیں ہے؟ یہ تہذیب کے اثرات ہیں یا نہیں ہیں؟ یہ وہ اخلاقی بحران ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مغرب نے پوری دنیا کو دیا ہے۔ تو مصری عالم کہنے لگے کہ ہمارے مصر کے اندر ہزاروں برائیاں ہیں، ہم ان سے انکار نہیں کر سکتے، لیکن ابھی تک یہ کیس ہمارے سامنے نہیں آیا کہ کسی انسان کو اپنی بہن اور بیوی اور بیٹی کے [معاملے کے] اوپر اس کو غصہ آنا ختم ہو گیا ہو۔ یہ جملہ بھی آپ کسی سے کہیں تو وہ آگ بگولا ہو جائے گا۔ پوچھ بھی نہیں سکتے آپ کسی سے اِس کے اوپر۔ کہتے ہیں یہ واقعات ہم نے کم سے کم اپنے ہاں نہیں دیکھے۔ یہ مغربی سوغات ہے۔

جدیدیت اور رِفاہ کی آڑ میں مغربیت اور عیسائیت

دیکھیں، ایک ماڈرنائزیشن ہے اور ایک ویسٹرنائزیشن ہے۔ اس کا ہمیشہ فرق کرنا۔ لوگ اس کو خلط کرتے ہیں۔ ہم جب یہ بات کرتے ہیں، ہمیں مغرب کے فضائل سنانا شروع کر دیتے۔ ہم نے کبھی ماڈرنائزیشن کی مخالفت نہیں کی کہ چیزوں کے جدید ترین کمالات پیدا کیے جائیں، تعلیمات پیدا کی جائیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اندر مہارت حاصل کی جائے۔ ہم تو ویسٹرنائزیشن کی بات کرتے ہیں۔ بلکہ ویسٹرنائزیشن سے آگے ایک مرحلہ کرسچنائزیشن کا ہے، جس کا ہمیں خوف ہے کہ اِس تہذیب کی پشت پر اگرچہ بظاہر علامت کرسچیئنٹی کی نہیں ہے، اس نئے مذہب کے منہ پر وہ ٹیگ نہیں لگا ہوا، وہ لبادہ نہیں اوڑھا ہوا، لیکن اس بات کا پورا پورا خدشہ اور اس بات کا پورا پورا احساس موجود ہے کہ یہ آ سکتا ہے۔

ابھی ہمارے ایک دوست ملتان، وہاڑی کے اندر، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہم کچھ جھگیوں کے اندر گئے تو وہاں لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ہم عیسائی ہیں۔ ہم حیران ہوئے کہ عیسائی کیسے ہو گئے؟ ابھی ایک مہینے پہلے کی بات بھی نہیں ہو گی۔ تو کہنے لگے کہ یہاں وہ این جی اوز آتی ہیں اور میوزیکل نائٹس ہوتی ہیں ان جھگیوں والوں کے لیے۔ جھگیوں والوں سے کہتے ہیں کہ آپ لوگ چونکہ بہت بور لائف گزارتے ہیں تو آپ کے لیے میوزک لے کر آئے ہیں، آپ کے لیے ہم ناچ گانا لے کر آئے ہیں تاکہ آپ کی زندگی کے اندر بھی کچھ رنگ رنگینی ہو۔ اور پھر اس کے اندر ان کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں دیتے ہیں، پہننے اوڑھنے کی چیزیں دیتے ہیں، خیمے دیتے ہیں۔ تو کہا کہ ہمارے سامنے پاکستان کے اندر اِن پچھلے دس پندرہ مہینوں میں ڈھائی سو لوگ کہتے ہیں عیسائی ہو گئے۔ یہ لوگ پھر وہاں گئے، انہوں نے وہاں جا کے بڑی محنت کی اور دوبارہ ان کو مسلمان کیا از سر ِنو۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ سمجھنا کہ اس کی پشت پر مذہب نہیں ہوتا، اور مذہب نہیں تبدیل ہوتا لوگوں کا، تو ہماری سادہ لوحی ہے۔

اس پہ اسلام سے وابستہ لوگوں کو کیا کرنا چاہیے اور ان کے سامنے لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اپنی آنے والی نسلوں کو اگر ہم مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ دیکھنا چاہتے ہیں، اس پر ہمارا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ اس پہ ان شاء اللہ آئندہ کبھی بات ہو گی۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

https://youtu.be/R2I7_7tPT24

عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۲

آزادی و آگاہی اور یکجہتی کے ہمارے قومی و ملّی تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماڈرنائزیشن کی آڑ میں ویسٹرنائزیشن
مفتی سید عدنان کاکاخیل

تیسری صدی ہجری میں علمِ حدیث
ڈاکٹر فضل الرحمٰن محمود

علم الکلام میں امام ابن تیمیہ کا مکتبِ فکر
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

بچوں کی نفسیات
علامہ حکیم عبد الصمد صارم الازہریؒ

نظم: اسلام کا سائنسی عہدِ زریں
محمود الحسن عالمیؔ

قائد اعظم کا تصورِ مُملکتِ پاکستان
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

کاروباری دنیا میں قبضہ کی شرعی حقیقت اور جدید شکلیں
مفتی سید انور شاہ

خزانۂ الٰہی کی کنجی دُعا اور اس کے دندانے لقمۂ حلال
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان میں اسلامائزیشن،    توہینِ رسالت کا مسئلہ،    قائدِ اعظم کا تصورِپاکستان
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
مولانا عبد الودود

پاک بنگلہ تعلقات     —     علماء کی سفارت کاری
عمار خان یاسر

غزہ میں جنگ بندی: کیا وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کچھ مفید ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

لورین بوتھ — برطانوی خاتون صحافی جنہیں فلسطین نے مسلمان کیا
ٹووَرڈز ایٹرنیٹی

ملی مجلس شرعی کا اجلاس
ڈاکٹر محمد امین

When Hazrat Abdullah ibn Umar Defended Hazrat Usman ibn Affan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۶)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

سپریم کورٹ کا تجربہ، تعلیمی و علمی سفر، آئینی و قانونی مباحث (۱)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
رفیق اعظم بادشاہ

کیا قدیم علمِ کلام دورِ حاضر میں ایک  غیر متعلق روایت بن چکا ہے؟ (۱)
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۱۰)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter