کاروباری دنیا میں قبضہ کی شرعی حقیقت اور جدید شکلیں

عصر حاضر میں تجارت نے جو انقلابی صورت اختیار کی ہے اور جس وسیع پیمانے پر فروغ حاصل کر لیا ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کاروبار کے ہر شعبہ میں نت نئی صورتیں اور نئے نئے مسائل سامنے آرہے ہیں، جن کے جوابات بسا اوقات قدیم فقہی ذخیرے میں صراحت سے نہیں ملتے۔ الحمد للہ! علمائے کرام قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ان نئے مسائل کے سلسلے میں امت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں قبضہ کی شرعی حقیقت اور اس کی بعض اہم جدید صورتوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ قبضہ سے متعلق جدید اور اہم مسائل کو سمجھنے میں یہ مضمون مفید و معاون ثابت ہو گا۔

قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی روایات

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ان روایات پر ایک نظر ڈال لی جائے جو قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی ممانعت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ فقہائے کرامؒ کی آراء ذکر کرنے سے پہلے وہ احادیث طیبہ بیان کی جا رہی ہیں جن میں مختلف الفاظ و تعبیر کے ساتھ قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔

  1. حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ: ”ان رسول اللہ نہی ان یبیع الرجل طعاما حتی یستوفیہ۔“ (بخاری: البیوع، باب: ما یذکر فی بیع الطعام، ج:2، ص:750، ط:دارالیمامۃ، 1441، طبعۃ خامسۃ) جناب نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی کھانے کی چیز قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کر دے۔
  2. حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”من اشتری طعاما بکیل او وزن فلایبعہ حتی یقبضہ۔“ (مسند احمد :مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ج:5، ص:296، ط:دارالحدیث، 1416ھ، طبعۃ اولی) جو شخص کیل یا وزن کے اعتبار سے کھانا خریدے تو قبضہ کرنے سے پہلے اس کو فروخت نہ کرے۔
  3. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”من اشتری طعاما فلایبعہ حتی یکتالہ۔“ ( مسلم: البیوع، ‌‌باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:5،ص:8، ط: دارالطباعۃ العامرۃ ترکیا، 1334ھ) جو شخص کھانے کی کوئی چیز خریدے وہ کیل کرنے (یعنی پیمانہ کے ذریعے ناپنے) سے پہلے فروخت نہ کرے۔
  4. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں نقل کیا ہے ”کان رسول اللہ یقول: اذا ابتعت طعاما فلاتبعہ حتی یستوفیہ۔“ (مسلم: البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:5، ص:9، ط: دارالطباعۃ العامرۃ ترکیا، 1334ھ) 
  5. رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے جب کھانے کی چیز خریدو تو وصول کرنے سے پہلے فروخت نہ کرو۔
  6. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ”قلت یارسول اللہ انی اشتریت بیوعا فمایحل لی منہا و مایحرم علی؟ قال: فاذا اشتریت فلاتبعہ حتی تقبضہ۔“ (کنز العمال: البیوع، ‌‌محظوراتہ بیع ما لم یقبض، ج:4، ص:157، ط:مؤسسۃ الرسالۃ، 1405ھ، الطبعۃ الخامسۃ) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں خرید و فروخت کے معاملات کرتا رہتا ہوں، اس سلسلے میں میرے لیے کیا حلال ہے؟ اور کیا حرام ہے؟ فرمایا :"جب کوئی چیز خرید لو تو قبضہ سے پہلے اس کو فروخت نہ کرو"۔

فقہائے کرامؒ کی آراء

ان احادیثِ طیبہ کی روشنی میں فی الجملہ کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو فروخت کرنے کے ناجائز ہونے پر تقریباً‌ تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ تفصیلات میں اختلاف سے قطع نظر یہ ایک اجماعی مسئلہ ہے یعنی فقہائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ قبضہ سے پہلے کسی چیز کو بیچنا ناجائز ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں زیادہ سے زیادہ نفع کی طلب مقصود ہوتی ہے۔ کاروباری معاملات میں جائز و ناجائز، صفائی و ستھرائی اور متعلقہ دیگر احکام پر عمل کرنے میں کافی غفلت اور سستی برتی جاتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات تجارتی لین دین میں شرعی احکام کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ دھوکہ دہی، جھوٹ، فراڈ عام ہے۔ نہ ذہنوں میں خدا کا تصور ہے، نہ آخرت کی جواب دہی کی فکر۔ اس لیے تجارت کے رائج طریقوں میں صرف مادی اور نقد نفع مطلوب ہو کر رہ گیا ہے۔

یاد رکھیے! شریعت کے بتائے ہوئے طریقے سے صرف آخرت کی کامیابی متعلق نہیں بلکہ سچ اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کامیابی و سرفرازی بھی اس پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ بہرحال دور حاضر کے تجارتی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا خریدی ہوئی چیز کو قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس کے منافع کا کیا حکم ہے؟ مختلف اشیاء میں قبضہ کی صورت کیا ہو گی؟ قبضہ کا شرعی مفہوم کیا ہے؟ معاملات کے اندر قبضہ درست ہونے کے لیے کیا عرف اور معاشرے کے رواج کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ آج قبضہ کے عنوان سے بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اس لیے اس سلسلے میں سب سے پہلے قبضہ کی لغوی، اصطلاحی اور شرعی حقیقت کی وضاحت کی جاتی ہے۔

قبضہ کی لغوی تعریف

قبضہ عربی زبان کا لفظ ہے جو ”قبض“ سے ماخوذ ہے۔ قبض کا معنی ہے ہتھیلی کے ساتھ کسی چیز کو پکڑنا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے: ”قبض المال ای اخذہ بیدہ“ یعنی مال پر ہاتھ کے ذریعے قبضہ کرنا۔ اسی طرح ”قبض الید علی الشیء“ کا معنی ہے، ہاتھ سے کسی چیز کو پکڑنا۔ بعض اوقات موت کو بھی قبض سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ موت کی وجہ سے انسان مقبوض ہو جاتا ہے۔

قبضہ کی اصطلاحی تعریف

فقہائے کرامؒ نے قبضہ کی وضاحت یوں بیان فرمائی ہے۔ ”معنی القبض ہو التمکین و التخلی و ارتفاع الموانع عرفا و عادۃ حقیقۃ“ (بدائع الصنائع: البیوع، فصل فی الشرط الذی یرجع الی المعقود علیہ، ج:5، ص:138، ط: دارالکتب العلمیۃ، 1328ھ، طبعہ اولی) یعنی قبضہ کا مطلب ہے کہ تصرف و قدرت دینا اور تمام معروف رکاوٹوں کو حقیقی طور پر دور کرنا۔

قبضہ کی شرعی حقیقت

واضح رہے کہ قرآن و سنت میں قبضہ کا کوئی متعین و محدود مصداق بیان نہیں کیا گیا ہے، نہ ہی اس کی ماہیت اور خاص حقیقت بیان کی گئی ہے، بلکہ اس کی تعیین کو عرف و عادت پر چھوڑ دیا ہے، کہ عرف و عادت سے اس کی حقیقت متعین ہوگی۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک اصولی بات لکھی ہے:

”کل ماورد بہ الشرع مطلقا و لاضابط لہ فیہ و لا فی اللغۃ یرجع فیہ الی العرف، و مثلوہ بالحرز فی السرقۃ والتفرق فی البیع والقبض“۔ (الاشباہ والنظائر للسیوطی: الکتاب الاول، القاعدۃ السادسۃ، المبحث الخامس، ص:98، ط:دارالکتب العلمیۃ، 1403، طبعۃ اولی)
شریعت میں جو لفظ مطلق وارد ہوا ہو اور اس کے متعلق شریعت اور لغت میں کوئی ضابطہ مقرر نہ ہو، تو اس میں عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ علماء نے اس کی مثال دی ہے چوری کے مسئلہ میں حرز کی اور بیع میں تفرق اور قبضہ کی۔

حاصل یہ ہے کہ قبضہ پایا جانے کے لیے قرآن و سنت میں کوئی لگی بندی صورت متعین نہیں کی ہے، بلکہ اسے لوگوں کے عرف و عادت پر چھوڑ دیا ہے کہ جس چیز کے بارے میں جس درجہ کے استیلاء اور عمل دخل کو لوگوں کے عُرف میں قبضہ تصور کیا جائے وہی اس کے حق میں بھی شرعاً‌ قبضہ مانا جائے گا۔ قرآن و سنت میں اگرچہ قبضہ کی حقیقت اور اس کی کوئی خاص صورت مقرر نہیں کی گئی ہے، مگر احادیثِ طیبہ میں قبضہ کی مختلف کیفیات کی طرف اشارہ موجود ہے، مثلاً‌ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ مقامِ خریداری سے منتقل کیے بغیر دوبارہ اس کو فروخت نہ کریں۔ ”یامرنا بانتقالہ من المکان الذی ابتعناہ فیہ الی مکان سواہ قبل ان نبیعہ“۔ (مؤطا امام مالک: البیوع، باب العینۃ وما اشبہہا، ج:2، ص:343، ط:مؤسسۃ الرسالۃ، 1412ھ، طبعۃ اولی)۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب تک خرید کردہ مال کو اپنے کجاوے میں منتقل نہ کر لیں اس وقت تک فروخت نہ کریں، ”حتی یحوزہا التجار الی رحالہم“ (سنن ابی داؤد: البیوع، ‌‌باب فی بیع الطعام قبل ان یستوفی، ج:5، ص:358، ط: دارالرسالۃ العالمیۃ، 1430ھ، طبعہ اولی)۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ناپ تول قبضہ قرار دیا گیا ہے۔ ”فلایبعہ حتی یکتالہ“۔ (مسلم: البیوع، ‌‌باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:5، ص:8، ط:دارالطباعۃ العامرۃ ترکیا، 1334ھ) ظاہر ہے کہ ناپ تول سامان کو اس کی جگہ سے ہٹانا اور سامان کو اپنی دکان یہ سواری میں منتقل کرنے کے مفہوم و مصداق میں خاصا فرق ہے۔ اور جیسا کہ ماقبل میں گزر چکا کہ جن الفاظ کی شریعت نے تحدید و تعیین نہ کی ہو اس کے متعلق اصول یہ ہے کہ عُرف ہی سے اس کی مراد متعین ہو گی۔

قبضہ کے اقسام

فقہائے کرام رحمہم اللہ نے قبضہ کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے: (۱) قبضہ حقیقی (۲) قبضہ حکمی۔

قبضہ حقیقی اس قبضہ کو کہتے ہیں کہ جس میں چیز انسان کے واقعی تصرف میں آ جائے، مثلاً‌ کتاب خریدی تو اپنے ہاتھ میں لے لے، موٹر خریدی تو اس پر سوار ہو جائے۔

قبضہ حکمی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے خرید کردہ سامان اس پوزیشن میں ہو جائے کہ وہ چاہے تو اسے بآسانی اپنے تصرف میں لا سکتا ہو اور استعمال کر سکتا ہو۔ یعنی بائع مبیع کو خریدار کے لیے اس طرح پیش کر دے کہ درمیان سے رکاوٹ اس طرح دور ہو جائے کہ مشتری کو اس میں تصرف کرنے میں پوری طرح قدرت حاصل ہو جائے۔ تو کہا جائے گا کہ بائع نے مبیع حوالہ کر دیا اور مشتری نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کو فقہاء کرامؒ تخلیہ بھی کہتے ہیں، اور یہ ہر دور کے عرف اور عہد کے رواج اور طور و طریق ہی سے متعین ہو سکتا ہے۔

قبضہ میں سامان کی نوعیت کا اعتبار

جیسے قبضہ میں ہر زمانے کا عرف کا اعتبار ہے اسی طرح ہر چیز کا قبضہ اسی کے لحاظ سے ہو گا۔ اس سلسلے میں فقہائے کرام نے یہ ضابطہ لکھا ہے: ”لکن ذلک یختلف بحسب حال المبیع“۔ (رد المحتار: البیوع، مطلب فیما یکون قبضا للمبیع، ج:4، ص:561، ط: دارالفکر) یعنی قبضہ کی کوئی ایک صورت و نوعیت متعین نہیں ہے، بلکہ وہ مبیع کی حالت و کیفیت کے لحاظ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

اسی لیے فقہائے کرام نے مختلف صورتوں میں الگ الگ کیفیات کو قبضہ قرار دیا ہے اور اس کو مثالوں سے واضح کیا ہے، چنانچہ چند صورتیں ملاحظہ ہوں:

  1. کمرے میں اناج رکھا ہوا ہو تو اس پر قبضہ اس وقت مانا جائے گا جب اس کمرے کی چابی مشتری کو مل جائے اور وہ اسے بے تکلف کھول سکے۔
  2. کبھی خریدار کے تھیلے میں اس کی اجازت سے فروخت کردہ چیز کا رکھ دینا قبضہ کے حکم میں ہے، چاہے ایسا کرتے وقت خریدار خود موجود نہ ہو۔ ”لو اشتری مکیلا معینا و دفع المشتری الی البائع ظرفا و امرہ ان یکیلہ فی ظرف ففعل البائع و المشتری غائب صح“۔ (البحر الرائق: البیوع، باب السلم، ج:6، ص:182، ط: دارالکتاب الاسلامی، طبعہ ثانیہ)
  3. چراگاہ کے جانور پر قبضہ اس وقت سمجھا جائے گا جب وہ نگاہ کے سامنے ہو اور اس کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔
  4. کسی مکان میں بند جانور اور پرندے پر قبضہ اس وقت متصور ہو گا جبکہ مشتری بغیر کسی کی مدد کے ان کو پکڑ سکے۔
  5. کبھی قبضہ کا اطلاق کسی شے اور اس کے خریدار کے درمیان موانع تصرف کے ختم کر دینے سے تسلیم کیا جاتا ہے، مثلاً‌ کسی کے پاس بطور امانت یا عاریت سامان موجود تھا، صاحبِ امانت اور صاحبِ عاریت نے اسی شخص کو وہ چیز فروخت کر دی، تو جب بھی یہ اس سامان کے پاس آجائیں، قبضہ کی تکمیل ہو جائے گی۔ اب اگر اس کے بعد وہ سامان ضائع ہو جائے تو خریدار کی ملکیت سے ضائع ہو گا۔ ”یصیر المشتری قابضا بالتخلیۃ، فاذا ہلک بعد ذلک یہلک من مال المشتری“۔ (البحر الرائق:البیوع، باب البیع الفاسد، ج:6، ص:87، ط: دارالکتاب الاسلامی، طبعہ ثانیہ)
  6. فقہائے کرام نے مکان کی کنجی حوالہ کر دینے کو قبضہ کے لیے کافی تصور کیا ہے، اگرچہ خریدار خود اس مکان تک نہ گیا ہو۔ ”و لو باع الدار و سلم المفتاح فقبض المفتاح و لم یذہب الی الدار یکون قابضا“۔ (فتاوی ہندیہ: البیوع، الباب الرابع، الفصل الثانی، ج:3، ص:16، ط: دارالفکر بیروت)
  7. کبھی سامان میں خریدار کا تصرف قبضہ کے حکم میں ہوتا ہے، مثلاً‌ خریدار کے حکم سے فروخت کنندہ نے فروخت کی ہوئی گندم کو پیس دیا تو گندم پر قبضہ ہو گیا۔ ”و اذا امر المشتری للبائع بطحن الحنطۃ فطحن صار قابضا“۔ (فتاویٰ ہندیہ: البیوع، الباب الرابع، الفصل الثانی، ج:3، ص:20، ط: دارالفکر بیروت)
  8. بعض صورتوں میں ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دینے پر قبضہ کا اطلاق ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ تصرف پر قدرت، تخلیہ یعنی حکمی قبضہ ہر ماحول ہر زمانے کے لحاظ سے بدل سکتا ہے، اس لیے اس کی کوئی حد قطعی مقرر نہیں کی جا سکتی۔

حضرت امام فخر الدین قاضی خان رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں رقمطراز ہیں:

قبضہ حکمی یعنی تخلیہ کے تحقق کے لیے تین باتوں کا پایا جانا ضروری ہے:

  1. پہلی بات یہ ہے کہ بائع کہہ دے کہ یہ سامان میں نے تمہارے لیے چھوڑ دیا اور مشتری کہے میں نے قبضہ کر لیا۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ مبیع مشتری کے سامنے موجود ہو، بایں طور کہ مشتری مبیع کو لینا چاہے تو بلا کسی مانع (رکاوٹ) کے لے سکتا ہو۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ مبیع حق غیر کے ساتھ مشغول نہ ہو۔

قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی ممانعت سے متعلق احادیث معلول بالعلۃ ہیں

قبضہ سے پہلے فروخت کی نہی سے متعلق احادیث جمہور فقہائے کرام کے نزدیک معلول بالعلۃ ہیں اور حنفیہ کے نزدیک بنیادی طور پر اس کی علت ”اندیشۂ غرر“ ہے۔ یعنی جب تک مبیع پر قبضہ نہ ہو جائے اس بات کا اندیشہ ہے کہ شاید اس پر قبضہ حاصل ہو ہی نہ پائے اور یوں مبیع خریدار کو حوالہ نہ کی جا سکے، نیز مبیع میں کمی بیشی ہو جانے کا بھی خطرہ ہے، اس لیے شریعت نے مالکانہ قبضہ اور اپنے اختیار و ضمان میں آنے سے پہلے تصرف سے منع کیا ہے۔ 

چنانچہ مشہور حنفی محقق شیخ الاسلام برہان الدین المرغینانی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”ہدایہ“ میں قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی احادیث کو معلول بالعلۃ قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”و الحدیث معلول بہ عملا بدلائل الجواز“۔ (ہدایۃ: البیوع، ‌‌باب المرابحۃ والتولیۃ، ج:3، ص:59، ط: داراحیاء التراث العربی، 1425ھ، طبعہ اولی) یعنی قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی حدیث معلول بالعلۃ ہے اور علت اندیشۂ غرر ہے، جواز کے دلائل پر عمل کرتے ہوئے۔

علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے ”معلول بہ“ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ”و الحدیث الذی استدل (معلول بہ) ای بغرر الانفساخ“۔ (فتح القدیر: البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، ج:6، ص:514، ط: دارالفکر بیروت) جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ معلول ہے اور علت عقد کے فسخ ہونے کا دھوکہ ہے۔

علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ نے قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی حدیث کو معلول بالعلۃ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: ”و الغرر المنہی غرر انفساخ العقد و الحدیث معلول بہ عملا بدلائل الجواز“ (البحر الرائق:البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، ج:6، ص:126، ط: دارالکتاب الاسلامی، طبعہ ثانیہ) اور دھوکہ جو کہ ممنوع ہے وہ ہے جس میں عقد فسخ ہونے کا اندیشہ ہو اور حدیث مذکور معلول ہے اور علت اندیشۂ غرر ہے دلائل جواز پر عمل کرتے ہوئے۔

علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے قبضہ سے پہلے خرید و فروخت کی نہی سے متعلق احادیث کو معلول قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے علت کی بنا پر نصوص کو منقول کے ساتھ خاص کیا ہے اور نہی کی علت عقد کے فسخ ہونے کا دھوکہ ہے۔ (اعلاء السنن: ۱۴، ۲۲۴)

مذکورہ بالا اقوال و عبارات کا حاصل یہ ہے کہ قبضہ سے پہلے بیع کی ممانعت سے متعلق احادیث معلول بالعلۃ ہیں اور علت نہی غرر کا اندیشہ ہے۔

منقولی اور غیر منقولی اشیاء میں فرق

قبضہ سے پہلے علی الاطلاق کسی بھی چیز کی بیع درست نہیں، خواہ مبیع منقول ہو یا غیر منقول، طعام ہو یا غیر طعام، یہ رائے امام شافعی، امام محمد بن حسن شیبانی اور امام زفر رحمہم اللہ کی ہے۔ اشیاء منقولہ کی قبضہ سے پہلے خرید و فروخت علی الاطلاق درست نہیں اور اشیاء غیر منقولہ کی بیع قبضہ سے پہلے اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ ان کے ہلاک یا ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ مثلاً‌ زمین، جائیداد، مکان وغیرہ، لہٰذا اگر زمین وغیرہ ایسی جگہ میں ہو جہاں پر ضائع اور برباد ہونے کا اندیشہ غالب ہو۔ مثلاً‌ دریا اور سمندر کا کنارہ ہو، پانی یا ریت کے غالب آجانے کی وجہ سے زمین کے برباد ہونے کا اندیشہ غالب ہو، یا زمین و مکان ایسی پوزیشن میں ہو کہ اس کے گرنے کا اندیشہ ہو، ایسی شکلوں میں بغیر قبضہ کے خرید و فروخت کرنا شرعاً‌ درست نہیں۔ یہ رائے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی ہے اور احناف کے نزدیک یہی راجح ہے۔ (فتح القدیر: البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، ج:6، ص:514، ط: دارالفکر بیروت)

مالی معاملات میں قبضہ کی جدید اور اہم صورتوں کا بیان

بین الاقوامی تجارت میں (شِپِنگ) جہاز سے مال اترنے سے پہلے دوسرے کو فروخت کرنا

بین الاقوامی تجارت میں شیپنگ (جہاز پر مال چڑھانے) کے بعد اصل بائع کا ذمہ فارغ ہو جاتا ہے، اور اگر مشتری تک مال پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جائے تو اس کا وہ ضامن نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ مشتری مال کی وصولی سے پہلے، جبکہ مال سمندر میں ہے، تیسرے شخص (پارٹی) کے ہاتھ مال فروخت کر دیتا ہے اور مال ضائع ہونے کی صورت میں اس کا ضامن نہیں ہوتا بلکہ تیسرا خریدار ضامن ہوتا ہے، کیا یہ صورت شرعا جائز ہو گی؟

اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اس صورت میں مشتری اول نے مال کی خریداری کے بعد بائع اول سے کہا کہ میرا فلاں مال فلاں جہاز پر لاد دیا جائے، اور بائع نے اس کے حکم کے مطابق مال جہاز پر لدوا دیا، تو اب وہ مال بائع کے قبضہ و ضمان سے نکل کر مشتری اول کے قبضہ و ضمان میں آگیا۔ جہاز کے عملہ کا قبضہ جن کی حیثیت مشتری کے اجیر کی ہے، مشتری کا قبضہ قرار پائے گا۔ اور جب سامان اس کے قبضہ و ضمان میں آگیا تو اس کے لیے اس میں ہر طرح کا تصرف کرنا بھی جائز قرار پائے گا۔ اور جب اس نے جہاز پر لدے ہوئے مال کو مقبوض و مملوک ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا تو یہ بیع قبل القبض نہیں ہوگی، بلکہ بیع مقبوض و مملوک ہونے کی وجہ سے جائز و درست قرار پائے گی۔ اور جس طرح جہاز کے عملہ کا قبضہ مشتری اول کا قبضہ مانا جائے گا اسی طرح جہاز کے عملے کا قبضہ مشتری ثانی کا قبضہ بھی قرار پائے گا۔ فتاویٰ ہندیہ میں اجیر کے قبضہ کو مستاجر کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے: ”الا ان یقول استاجر علی من یحملہ، فقبض الاجیر یکون فبض المشتری“۔ (فتاویٰ ہندیہ: البیوع، الباب الرابع، الفصل الثانی، ج: 3، ص:19، ط:دارالفکر بیروت)

زمین، جائیداد اور مکان کی محض رجسٹری کرانے سے ملکیت اور قبضہ کے ثبوت کا حکم

ماضی قریب کے بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ موجودہ دور میں جن ممالک کے اندر رجسٹری کا نظام موجود ہے اور وہاں زمین کے حقوق و انتقال میں رجسٹری کا اعتبار کیا جاتا ہے، تو اگر وہاں محض کسی کے نام کوئی زمین وغیرہ رجسٹر کر دی جائے تو اس سے ملکیت اور قبضہ ثابت ہو جائے گا اور زمین کا ضمان، حقوق اور ملکیت بائع سے مشتری کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ رجسٹری کے بعد زمین سے بائع کا تعلق ختم ہو جاتا ہے اور اس کی حیثیت اجنبی کی بن جاتی ہے، اور اگر رجسٹری کے بعد بھی بائع اس کو خالی کرنے اور حوالہ کرنے سے انکار کر دے تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اس سے زمین لی جائے گی۔

لہٰذا غیر منقولی اشیاء زمین وغیرہ میں یہ فقہی حکم ”کہ جب تک گھر بائع کے سامان کے ساتھ مشغول ہو قبضہ معتبر نہیں ہو گا“ یہ ان مقامات اور جگہوں کے ساتھ خاص ہو گا جہاں رجسٹری کا نظام موجود نہ ہو۔ یہ نقطۂ نظر درست معلوم نہیں ہوتا اور اس میں خاص کر دو باتیں قابل غور ہیں:

  • ایک بات یہ ہے کہ اگر بالفرض کوئی عمارت، مکان وغیرہ مشتری کے نام رجسٹر ہو، لیکن بائع عملی طور پر حوالہ نہ کرے اور مکان بائع کے قبضہ میں ہی رہے اور فارغ کر کے حوالہ کرنے سے قبل ہی عمارت ہلاک ہو جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ مشتری کے مال سے ہلاک ہو گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں، بلکہ فقہائے کرام کی رائے کے مطابق یہ بائع کے مال سے ہلاک شمار ہو گا، نقصان بائع کا شمار ہو گا نہ کہ مشتری کا۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ بعض مرتبہ رجسٹری مختلف مصالح کے پیش نظر کی جاتی ہے، مثلاً‌ بہت سے ملکوں میں ٹیکس وغیرہ سے بچنے کے لیے مالک کے علاوہ کسی دوسرے نام زمین رجسٹر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس صورت میں محض رجسٹری ملکیت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہاں بالاتفاق ملکیت اصل مالک کی قرار دی جاتی ہے۔ (فقہ البیوع: المبحث الثالث، ھل التسجیل فی النظام العقاری یعتبر قبضا، ۱، ۴۰۲، ط: معارف القرآن کراتشی)

لہٰذا درست نقطۂ نظر یہ ہے کہ رجسٹری کے ساتھ ساتھ مکان وغیرہ فارغ کر کے حوالہ کرنا ضروری ہے۔ یعنی رجسٹری کے ساتھ تخلیہ کا ہونا ضروری ہے۔ (المدخل الفقہی العام: ۲، ۷۰۶، ط: دارالقلم، 1433ھ، طبعۃ ثالثہ)

فیکٹری اور کمپنی سے خریدا ہوا مال قبضہ سے پہلے دوسرے کو فروخت کرنا

اگر ایک شخص کسی فیکٹری اور کمپنی وغیرہ سے مال خرید کر کسی دوسرے آدمی کے ہاتھ فروخت کر دے، اور ابھی خریدا ہوا مال فیکٹری وغیرہ سے روانہ بھی نہ کیا ہو تو یہ صورت ”بیع قبل القبض“ میں داخل اور جائز نہیں ہے۔

  • البتہ جواز کی ایک شکل یہ ہے کہ دوسرا خریدار کمپنی یا فیکٹری کو یا خریدار اول کو اپنا وکیل بنا دے قبضہ کرنے کے لیے، مثلاً‌ یہ کہہ دے کہ اس مال کو میری طرف سے وکیل بن کر قبضہ کر لینا۔
  • جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ ابھی بیع کا معاملہ نہ کرے، بلکہ وعدۂ بیع کرے، جب مال مشتری ثانی یعنی دوسرے خریدار کے پاس پہنچ جائے تب بیع کا معاملہ کرے۔ اور اگر پہلے کر بھی چکا ہے تو مال پہنچنے کے بعد پھر سے بیع کرے تاکہ یہ معاملہ درست ہو جائے۔ نیز اس صورت میں کسی مستند دارالافتاء سے باقاعدہ فتویٰ لینے کے بعد مالکیہ و حنابلہ کے مذہب میں جو وسعت ہے اس سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کیونکہ ان حضرات کے نزدیک صرف طعام یعنی کھانے پینے کی چیزیں، جو کیل یا وزن سے فروخت کی جائیں، ان کی بیع تو قبل القبض ناجائز ہے، اس کے علاوہ جملہ اشیاء کی بیع قبل القبض بھی جائز ہے کیونکہ نفس عقد ہی سے مبیع مشتری کے ضمان میں داخل ہو جاتی ہے، اس لیے موجودہ حالات میں ابتلاء عام کے پیش نظر مالکیہ و حنابلہ کے مذہب پر غور کیا جا سکتا ہے۔ (فقہ البیوع:۱، ۳۹۳، الشرط السابع ان یکون مقبوضا للبائع، ط: معارف القرآن کراتشی)


فقہ / اصول فقہ

(الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۲

آزادی و آگاہی اور یکجہتی کے ہمارے قومی و ملّی تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماڈرنائزیشن کی آڑ میں ویسٹرنائزیشن
مفتی سید عدنان کاکاخیل

تیسری صدی ہجری میں علمِ حدیث
ڈاکٹر فضل الرحمٰن محمود

علم الکلام میں امام ابن تیمیہ کا مکتبِ فکر
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

بچوں کی نفسیات
علامہ حکیم عبد الصمد صارم الازہریؒ

نظم: اسلام کا سائنسی عہدِ زریں
محمود الحسن عالمیؔ

قائد اعظم کا تصورِ مُملکتِ پاکستان
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

کاروباری دنیا میں قبضہ کی شرعی حقیقت اور جدید شکلیں
مفتی سید انور شاہ

خزانۂ الٰہی کی کنجی دُعا اور اس کے دندانے لقمۂ حلال
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان میں اسلامائزیشن،    توہینِ رسالت کا مسئلہ،    قائدِ اعظم کا تصورِپاکستان
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
مولانا عبد الودود

پاک بنگلہ تعلقات     —     علماء کی سفارت کاری
عمار خان یاسر

غزہ میں جنگ بندی: کیا وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کچھ مفید ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

لورین بوتھ — برطانوی خاتون صحافی جنہیں فلسطین نے مسلمان کیا
ٹووَرڈز ایٹرنیٹی

ملی مجلس شرعی کا اجلاس
ڈاکٹر محمد امین

When Hazrat Abdullah ibn Umar Defended Hazrat Usman ibn Affan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۶)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

سپریم کورٹ کا تجربہ، تعلیمی و علمی سفر، آئینی و قانونی مباحث (۱)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
رفیق اعظم بادشاہ

کیا قدیم علمِ کلام دورِ حاضر میں ایک  غیر متعلق روایت بن چکا ہے؟ (۱)
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۱۰)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter