(شیخ الہندؒ اکادمی واہ کینٹ کے زیر اہتمام دو نشستوں کی گفتگو کا خلاصہ)
تحریکِ خلافت، تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان، اِن تینوں بڑی تحریکوں میں قدیم تعلیم اور جدید تعلیم کی قیادت مشترک تھی۔ میں تاریخ کا ایک سوال ذکر کروں گا کہ ان کو اکٹھا کس نے کیا تھا؟ تحریکِ خلافت میں آپ کو مولانا محمد علی جوہر بھی نظر آئیں گے اور مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی بھی۔ تحریکِ آزادی میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی بھی نظر آئیں گے اور دیگر بھی، حتیٰ کہ گاندھی بھی۔ اور تحریکِ پاکستان میں آپ کو قائد اعظم محمد علی جناح بھی نظر آئیں گے اور علامہ شبیر احمد عثمانی بھی۔ تو یہ جو مولوی اور مسٹر کا کردار تھا اس کے پیچھے سوچ حضرت شیخ الہند کی تھی جنہوں نے دونوں کو اکٹھا کیا، اور پھر جس تحریک میں دونوں اکٹھے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔ آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ہمیشہ رہے گی کہ دونوں طبقے اکٹھے ہو کر ملک و قوم اور دین کی خدمت کریں۔
ہمارے بزرگوں نے اس خطے کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ برصغیر کے ہر علاقے میں ایسے مفکرین اور مجاہدین گزرے ہیں جنہوں نے آزادی کی جنگ میں لوگوں کو نظریہ دیا اور قربانیاں دیں۔ ان میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز ایک بہت بڑی شخصیت ہیں۔ اور ہمارا یہ نیا دور جس میں ہم مسلح جنگ سے سیاسی جدوجہد کی طرف آئے، اس کا آغاز تو حضرت شیخ الہند سے ہی ہوتا ہے، جو ان دونوں ادوار کے درمیان سنگم ہیں۔ انہوں نے ہمیں عدمِ تشدد کی بنیاد پر جدوجہد کا یہ رخ دیا تھا اور آج کی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے، الحمد للہ ہم اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ فکری تحریکات چند سالوں کی نہیں ہوتیں، ان میں اتار چڑھاؤ چلتا رہتا ہے، اور اس میں قوم کا ذہن بدلنا اور اسے اپنے رخ پہ لانا بنیادی ہدف ہوتا ہے۔
اس وقت ہماری تین بڑی قومی و ملّی ضرورتیں ہیں:
- پہلی ضرورت آزادی کی ہے کہ ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے ہیں، اور آزادی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ امتِ مسلمہ کی اپنی بنیاد ہے، قرآن کریم ہے، سنتِ رسول ہے، تعاملِ امت ہے، جبکہ ہماری قومی و ملی خود مختاری کو باقاعدہ ہدف بنایا جا رہا ہے اور اس کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت قومی سطح پر بھی اور عالمِ اسلام کی سطح پر بھی ہم بہت سے شعبوں میں جکڑبندی کا شکار ہیں، معیشت کے میدان میں بھی، سیاست کے میدان میں بھی، تہذیب و ثقافت کے میدان میں بھی، اور عسکری میدان میں بھی۔ ہم اپنے سیاسی فیصلے کرنے میں تو خودمختار نہیں ہیں، لیکن الحمد للہ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ فکری جنگ میں ہم مقابلہ کر رہے ہیں، استعمار جس شکل میں بھی آیا ہے، ہمیں ہمارے عقیدے اور بنیاد سے نہیں ہٹا سکا۔ اس کشمکش میں مسلم حکمران جو چاہے کرتے رہیں لیکن امتِ مسلمہ جکارتہ سے مراکش تک قرآن کریم، سنتِ رسولؐ، اور اپنے ماضی کے ساتھ کمٹمنٹ پہ قائم ہے، اور یہی استعمار کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ چنانچہ ہماری پہلی ضرورت آزادی کی اِس فکر کو نئی نسل تک منتقل کرنا ہے۔ ہمیں اپنے ماضی، اپنی بنیادوں اور کمٹمنٹ پہ قائم رہنا ہے اور نئی نسل کو اس پہ قائم رکھنا ہے۔
- ہماری دوسری ضرورت تعلیم اور معلومات کے حوالے سے ہے۔ آج ہم نئی نسل کو گمراہ کہہ کر ایک طرح سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں، میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس میں قصور کس کا ہے؟ میں ایک خالی برتن چوک میں رکھ دوں گا تو جس کا جو جی چاہے گا ڈالے گا۔ ایک طرف اپنی نئی نسل کے دل اور دماغ ہم نے خالی رہنے دیے ہیں، ان کے پاس اپنے دین اور ماضی کی بنیادی معلومات بھی نہیں ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر کی معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ موبائل کی صورت میں ان کی جیب میں ہے، جبکہ صحیح معلومات کے حصول کے لیے ایسے ذرائع انہیں میسر نہیں ہیں۔ ہماری دوسری بڑی ضرورت اس خلا کو پُر کرنا ہے کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ فہم اور معلومات کا تعلق بھی نئی نسل کا قائم ہو جائے تو اس حوالے سے ہم اپنا بنیادی مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔
- اِس زمانے میں ملک و قوم اور دین کی خدمت کا جذبہ اور سوچ بہت بڑی نعمت ہے۔ اِس ماحول میں جبکہ ہماری عمومی صورتحال افراتفری اور نفسانفسی کی ہے، اپنے علاوہ کسی اور کی فکر کرنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس سوچ کو غنیمت جاننا چاہیے اور مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک مسئلہ ہمیں یہ درپیش ہے کہ ایک طرف ہمارے دینی طبقہ کے ذہن میں عصری تعلیم کے حاملین کے بارے میں عمومی تاثر گمراہی کا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عصری تعلیم والوں کا دینی طبقات کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ ان کی معلومات سطحی ہوتی ہیں۔ حالانکہ نہ عصری تعلیم والے گمراہ ہیں اور نہ دینی طبقات لاعلم ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں اکٹھے بیٹھیں اور ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کریں، اس سے صورتحال بھی واضح ہو گی اور باہمی تعاون کی راہیں بھی ہموار ہوں گی۔
ہمارے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی قدس اللہ سرہ العزیز میری سرگرمیاں دیکھتے رہتے تھے تو ایک دن فرمانے لگے، زاہد! کبھی یہ سمجھ کر کام نہ کرنا کہ یہ کام میں کر رہا ہوں، بلکہ یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کام لے رہے ہیں، کام اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ہوتے ہیں، اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے اور چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں اور مذکورہ مقاصد کے لیے ہم جتنی زیادہ محنت کر سکیں اس کو غنیمت سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں، آمین یا رب العالمین۔
