سپریم کورٹ کا تجربہ
رفیق اعظم بادشاہ:
السلام علیکم، میں ہوں رفیق اعظم بادشاہ۔ آج بنوریہ میڈیا کے پوڈ کاسٹ میں ہمارے مہمان ہیں ہمارے ہر دل عزیز استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب۔ ڈاکٹر صاحب نے حال ہی میں بطور سیکرٹری چیف جسٹس آف پاکستان خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس سے قبل پروفیسر صاحب شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل اور شعبۂ شریعہ و قانون کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے درجنوں مقالات بین الاقوامی جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی میں بطور سربراہ، شعبۂ شریعہ قانون، فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ استاد محترم کا پس منظر بین الاقوامی آئینی اور انسانی حقوق کے قوانین میں مہارت پر مبنی ہے۔ آج کے پوڈ کاسٹ کے تین حصے ہوں گے:
- پہلا حصہ حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کا سپریم کورٹ میں گزرے وقت اور تجربے کے حوالے سے ہوگا،
- دوسرا حصہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی اور ان کا علمی سفر،
- اور تیسرا حصہ آئینی اور قانونی مباحث پر مبنی ہوگا۔
بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب، آپ نے اپنے قیمتی وقت سے ہمیں وقت دیا۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
جی شکریہ تو مجھے آپ کا ادا کرنا چاہیے۔
رفیق اعظم بادشاہ:
ڈاکٹر صاحب! گزشتہ ڈیڑھ دو سال آپ سپریم کورٹ میں رہے، جہاں آپ نے عدلیہ اور انصاف کے نظام کو قریب سے دیکھا، اس دوران آپ کا کیا تجربہ رہا؟ اس عرصے نے آپ کے عدلیہ کے بارے میں خیالات پر کیا اثر ڈالا؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اور بنوریہ کا خصوصاً (جزاک اللہ۔ رفیق) اس جامعہ کے ساتھ تو میرا ایک قسم کا قلبی تعلق ہے اور جب آپ نے مجھے ان کا پیغام پہنچایا، نعمان نعیم صاحب کا اور فرحان نعیم صاحب کا، تو ظاہر ہے میرے لیے نہ کی گنجائش نہیں تھی (بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ رفیق) تو باقی رہا یہ سوال کہ سپریم کورٹ میں جو میں نے ایک سال سے کچھ اوپر عرصہ گزارا ہے، کل 405 دن، تو یہ ایک بہت ہی دلچسپ تجربہ تھا اور اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ تھا۔
ویسے تو ظاہر ہے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے میرا اس شعبے کے ساتھ تعلق، یوں کہیں کہ کوئی 30 سال پر مبنی ہے۔ 1994ء میں میں نے اسلامی یونیورسٹی میں ایل ایل بی شریعہ اینڈ لا میں داخلہ لیا تھا، پانچ سال کا وہ ایل ایل بی کا کورس رہا، اس کے بعد ایل ایل ایم۔ پھر بعد میں پی ایچ ڈی بھی، پھر پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ۔ بیچ میں دیگر مواقع بھی اللہ نے فراہم کیے۔ اسی طرح عدلیہ کے ساتھ بھی کسی نہ کسی طرح میرا تعلق رہا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ بھی، مختلف مقدمات میں وفاقی شرعی عدالت کی معاونت بھی کرتا رہا ہوں، سپریم کورٹ کی بھی۔ باقاعدہ بھی عدالت نے کئی بار مجھے مختلف مقدمات میں معاونت کے لیے ذمہ داری دی، لیکن غیر رسمی طور پر بھی بعض معزز صاحبان کے ساتھ مختلف پہلوؤں سے میں معاونت کرتا رہا۔
تاہم باقاعدہ اس نظام کا حصہ بن کر اور پھر اس پوزیشن میں کہ جب آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس شجرے کے اوپر سے بیٹھ کر نظام کو دیکھتے ہیں، تو میرے مشاہدے میں بہت کچھ آیا ہے۔ نظام کیسے کام کرتا ہے؟ اندرونی طور پر کیا کچھ ہوتا ہے؟ پردے کے پیچھے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ عدالت کیسے کام کرتی ہے؟ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے کیا کچھ ہوتا ہے؟ پھر مقدمات کے دوران میں بھی مجھے ایسے مواقع میسر تھے کہ میں عدالت میں بیٹھ کر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو معاونت فراہم کرتا تھا، جہاں کہیں میری ضرورت ہوتی تھی۔ بعض اوقات میں عدالت میں نہیں ہوتا تھا لیکن پس منظر میں انتظامی معاملات میں بھی بہت سی مجھے ذمہ داریاں دی گئی تھیں جو میں نے نبھانی تھیں۔
پہلے عدالت کے ساتھ تعلق کچھ اور نوعیت کا تھا۔ یعنی یا تو آپ عدالت میں بطورِ درخواست گزار یا بطورِ سائل کسی مقدمے کے فریق کی حیثیت سے آتے ہیں ، یا وکیل کی حیثیت سے دلائل دیتے ہیں، یا بعض اوقات عدالت کے معاون کی حیثیت سے بات کرتے ہیں۔ یہ چیزوں کو دیکھنے کا ایک زاویہ ہوتا ہے۔ اب جہاں میں بیٹھا کرتا تھا، مثال کے طور پر کورٹ روم نمبر ایک میں، جہاں بڑے اہم مقدمات چلتے تھے، تو ایک طرف جج بیٹھے ہوتے تھے جن کی سربراہی چیف جسٹس کرتے تھے، دوسری طرف وکلاء اپنے دلائل دیتے تھے، ان کے پیچھے درخواست گزار بھی ہوتے تھے، مقدمے کے فریق بھی ہوتے تھے، صحافی بھی ہوتے تھے، اور عام لوگ بھی ہوتے تھے۔ یہاں سے میں اِدھر بھی دیکھتا تھا، اُدھر بھی دیکھتا تھا، اور سامنے لیپ ٹاپ کی سکرین بھی ہوتی تھی۔ تو بیک وقت بہت سارا کام ہوتا تھا۔ اس لیے اگر میں یہ کہوں کہ جو 405 دنوں کا تجربہ تھا یہ بہت ہی ثمر بار تجربہ تھا اور اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ تھا، تو غلط نہیں ہوگا۔
کام کا بوجھ بھی یقیناً بہت زیادہ تھا اور پھر بالخصوص قاضی صاحب کے ساتھ کام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وہ جس رفتار سے کام کرتے تھے اور جس طرح وہ اپنی پوری توانائی صَرف کرتے تھے، ایک ایک مقدمے کی جزئیات میں جا کر۔ تو اپنی ٹیم سے بھی وہ یہی توقع رکھتے تھے۔ مجھے بھی انھوں نے جب یہ ذمہ داری دینے کا ارادہ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ یہ جو 405 دن آپ کے ہوں گے تو اس میں گھر، خاندان، دوست، اور اپنی سوشل لائف کو آپ نے قربان کرنا ہوگا۔ بلکہ انھوں نے میرے والد مرحوم سے بھی اور میری فیملی سے بھی باقاعدہ یوں کہیں کہ اجازت لی تھی کہ آپ نے ان 405 دنوں میں ان کے متعلق پوچھنا نہیں ہے کہ یہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ یہ 405 دن آپ نے سپریم کورٹ کو دینے ہیں۔ تو اس لحاظ سے میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو، الحمد للہ، اللہ کا کرم ہوا۔ ایک بھاری ذمہ داری تھی لیکن اسے نبھانے کی توفیق ہوئی۔ اپنے کام سے تو میں کبھی مطمئن نہیں ہوتا لیکن بہرحال میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ بڑی حد تک، جو ذمہ داری میں نے اٹھائی تھی، تو میں نے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
رفیق اعظم بادشاہ:
بہت شکریہ سر۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ نہ تو پہلے کوئی سیکرٹری چیف جسٹس آف پاکستان کو جانتا تھا، نہ اب کوئی جانتا ہے کہ کون ہے۔ اس عہدے کی اہمیت تو تھی لیکن کوئی جانتا نہیں تھا۔ آپ کے آنے سے شاید اس کی اہمیت اور اس کی شہرت اور اس کے حوالے سے بہت زیادہ لوگوں کو پتہ چلا کہ اس عہدے کی کتنی اہمیت ہے۔ بہت ممکن ہے کہ شاید اس سے قبل اس طرح کے فرائض بھی سرانجام نہ دیے گئے ہوں جتنا آپ لوگوں نے کیا۔ تو کیا آپ کے خیال میں جب آپ نے بطور سیکرٹری کام کیا تو جو زیرِ التوا مقدمات تھے اور قاضی صاحب آئے، تو اس پر کوئی فرق پڑا؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
یہ اہم سوال ہے جو آپ نے آخر میں کیا ہے، میں اس کی طرف آتا ہوں، لیکن آپ نے بات جہاں سے شروع کی وہ بھی میرے نزدیک بہت اہم بات ہے کہ پاکستان میں عام طور پر جب ہم ججوں کو بھی سنتے ہیں اور وکلاء کو بھی، اور قانون کے شعبے کی طرف جس طرح لوگوں کا رجحان ہے اور جو زاویہ نظر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اس طرح دیکھا جاتا ہے جیسے یہ بار اور بینچ، یعنی جج اور وکیل، یہی اس شعبے کے دو عناصر ہیں۔ ان کو ایک گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے۔ تیسرا پہیہ لوگ بھول گئے ہیں۔ میں برس ہا برس سے یہ کہتا آ رہا ہوں کہ قانون کا یہ شعبہ دو عناصر پہ مشتمل نہیں ہے، آپ کو ”دو جہتی زاویۂ نظر“ چھوڑ کر ”سہ جہتی زاویۂ نظر“ اپنانا ہوگا، اگر آپ قانون کے شعبے میں واقعی کچھ اصلاحات چاہتے ہیں۔
تیسرا شعبہ قانون کے اساتذہ کا ہے۔ دنیا بھر میں قانون کے اساتذہ کی، قانون پڑھانے والوں کی بڑی اہمیت ہے، نہ صرف پڑھنے پڑھانے میں بلکہ عملی طور پر بھی کئی پہلوؤں سے ان کا کام بہت اہم ہوتا ہے۔ ایک تو ظاہر ہے پڑھنا پڑھانا بذاتِ خود ایک بہت اہمیت کا کام ہے۔ قانون کا معیار اگر آپ بہتر بنانا چاہتے ہیں، وکلاء کا معیار بہتر بنانا چاہتے ہیں، ججوں کا معیار بہتر بننا چاہتے ہیں، تو ظاہر ہے آپ کو تدریس پر توجہ کرنی ہوگی، اور خرچہ کرنا ہوگا جامعات میں اور قانون کے شعبوں میں۔ یہ تو اس کا ایک پہلو ہے، لیکن جو بڑا کام ہوتا ہے قانون کے اساتذہ کا اور قانون کے طلبہ کا، وہ عدالتی نظائر پر، عدالتی فیصلوں پر نظر رکھنا ہے اور ان کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔
میں اپنے اساتذہ کی پیروی میں برس ہا برس سے یہ کام کرتا آ رہا تھا کہ جب بھی کوئی اہم مقدمہ ہو، کوئی اہم فیصلہ آئے، تو اس پر نظر رکھی جائے، اس کا جائزہ لیا جائے، اس کا تجزیہ کیا جائے، پھر اسے عام لوگوں تک بھی پہنچایا جائے۔ اس تنقید سے بعض جج فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اور جنھوں نے ایسی تنقیدوں سے، جو فیصلوں پر قانون کے ماہرین، قانون کے اساتذہ کی جانب سے جو تنقیدیں آتی ہیں، جو جج ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے فیصلوں کا معیار بھی ظاہر ہے بہتر ہوتا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ قانون کے شعبوں کا، جامعات میں سب سے اہم کام یہ ”لا ریویو“ کا ہوتا ہے۔
کئی ممالک ایسے ہیں جہاں قانون کے اساتذہ کو اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی حیثیت سے بھی تعینات کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب تک اس شعبے پر یوں کہیں کہ ججوں اور وکلاء نے ایسی روک لگائی ہوئی ہے کہ اس میں قانون کے اساتذہ کے لیے ہائی کورٹ میں یا سپریم کورٹ میں تعیناتی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ نظری طور پر یہ امکان تو ہے کہ سپریم کورٹ میں کسی وکیل کو براہ راست تعینات کیا جائے، اگرچہ عملاً ابھی تک ایسا کیا نہیں گیا، لیکن قانون کے اساتذہ کے لیے ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایک گنجائش کسی حد تک آپ کہہ سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ شریعت ایپلیٹ بینچ میں قانون یا اسلامی قانون کے ماہرین کو بطور رکن، ان کو جج نہیں کہا جاتا، بطور ”ایڈہاک ممبر“، یعنی عارضی رکن، تعینات کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا دائرہ بہت محدود ہے، اور اس کو ہمارے نظام میں اس طرح کی اہمیت بھی نہیں دی گئی جو اس کا حق ہے۔
بہرحال میں یہ کہہ رہا تھا کہ قانون کے شعبے کے لیے سہ جہتی زاویۂ نظر ہونا چاہیے۔ بلکہ میں تو قانون کی تعلیم کے حوالے سے بھی یہ کہتا آ رہا ہوں کہ وہ جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ قانون کی تدریس کا معیار خراب ہے، اور بار کونسل نے یہ یہ تجاویز دی ہیں، اور اب اس کو اس طرح ٹھیک کیا جائے۔ میں نے ایک سابق چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں یہ عرض کیا تھا کہ آپ نے تو ہمیں سنے بغیر ہمارے خلاف فیصلہ دیا ہے، آپ نے تو ہمیں پوچھا ہی نہیں کہ جو قانون کے اساتذہ ہیں، جو قانون پڑھاتے ہیں، ان کا موقف کیا ہے؟ یہ تو ایسا ہوا، بار کونسل نے آپ کے سامنے شکایت رکھی، آپ نے فیصلہ سنا دیا کہ جا کر اساتذہ سے کہیں کہ یہ یہ کام کریں۔ اساتذہ کو تو سننا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے ایچ ای سی کو سنا تھا۔ میں نے کہا کہ ایچ ای سی ہماری نمائندگی نہیں کرتی۔ ایچ ای سی کا ایک اپنا الگ مقام ہے اور جامعات خود مختار ادارے ہیں ہیں اور مختلف قوانین کے تحت وجود میں آئی ہیں، ان کا اپنا الگ مقام ہے۔
تو اساتذہ کی آواز سننی چاہیے۔ بلکہ لیگل پریکٹیشنرز ایکٹ میں قانون کی تعلیم کے حوالے سے جو بار کونسل کا اختیار ذکر کیا گیا ہے، اس میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ قانون کی تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لیے جامعات کی مشاورت سے معیارات بنائیں گے۔ مشاورت کا مطلب بامعنی مشاورت ہے، محض خانہ پری نہیں۔ تو اصل کام تو اساتذہ کا ہے۔ تو آپ کی بات درست ہے کہ اساتذہ کو، قانون کے اساتذہ کو اس مقام پر نہیں فائز کیا گیا تھا، اور اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو دی کہ انھوں نے انھوں نے یہ تجربہ کیا کیونکہ وہ ایک طرح سے آؤٹ آف دی باکس سوچنے کے عادی تھے۔
سیکرٹری آف چیف جسٹس کی پوزیشن کے متعلق بھی میں بتاؤں کہ سپریم کورٹ کے رولز کے تحت چیف جسٹس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سیکرٹری اپنی مرضی کا تعینات کر سکتا ہے، براہ راست بھی مقرر کر سکتا ہے، اور جو موجود ملازمین ہیں سپریم کورٹ کے، ان میں سے بھی لے سکتا ہے، ڈیپوٹیشن پہ بھی لا سکتا ہے۔ اور سیکرٹری ایسا بندہ ہوتا ہے جس پر آپ کو اعتماد ہو۔ ایک تو اس کام کے لیے جو صلاحیت ہوتی ہے، جو آپ کو درکار صلاحیت ہے، آپ اس کو دیکھتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ وہ آپ کے اعتماد کا آدمی ہو۔ تو ظاہر ہے یہ چیف جسٹس نے خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ تو میں اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا تو یقیناً شکرگزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس کا اہل سمجھا اور مجھ پر اعتماد کیا، اور میں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس اعتماد کو میں نے ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اور جو مجھ سے ان کی توقعات تھیں کہ اس کام میں میں ان کا ہاتھ بٹاؤں گا تو آخری دن جاتے ہوئے انھوں نے اس کا خصوصاً اظہار بھی کیا اور اقرار بھی کیا۔
رفیق اعظم بادشاہ:
بہت شکریہ۔ اچھا، اس میں ایک سوال آخری تھا اور وہ یہ تھا کہ کیا آپ کے اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے ہونے سے جو زیرِ التوا مقدمات تھے اور یا سپریم کورٹ میں جو پہلے سے ایک طریقہ کار تھا اس میں کوئی تبدیلی آئی؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے اور اس میں بہت سارے عوامل ہیں۔ میرا بطورِ سیکرٹری آف چیف جسٹس آف پاکستان جو کام تھا تو وہ تو چیف جسٹس کو معاونت فراہم کرنا تھا۔ چیف جسٹس کی معاونت کے لیے جو باقاعدہ عملہ ہوتا ہے وہ پہلے سے موجود تھا، یعنی ان کے دفتر کا کام اور روزانہ کی ڈاک اور بہت ساری چیزیں۔ لیکن پھر میرے آنے کے بعد بہت سارا کام میری طرف منتقل ہوا، بالخصوص وہ کام جس میں یوں کہیں تھوڑا دماغ صَرف کرنے کی ضرورت تھی۔ موٹی موٹی فائلیں تھیں ان کو پڑھ کر اس کا خلاصہ نکالنا تھا اور جو قانونی نکات تھے وہ الگ سے لکھ کر چیف جسٹس کو بریف کرنا تھا۔ پھر جو مجھے مناسب لگتا تو میں ان کو اپنی جانب سے تجویز بھی لکھ لیتا۔ اس کے علاوہ وہ میرے ساتھ مختلف امور پر بحث بھی کرتے تھے۔
میرا اور ان کا تعلق تو اس سے پہلے کا تھا۔ ہماری آپس میں فریکونسی زبردست تھی۔ بحث میں بعض اوقات بہت سخت قسم کے دلائل کا تبادلہ بھی ہوتا، اور میں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ جس بات پر میں مطمئن نہ ہوں تو میں اس کی تائید نہ کروں۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ میری بات سن کر انھوں نے اس وقت یا بعد میں اس کو قبول بھی کر لیا۔ بہت ساری باتیں ایسی تھیں جن میں میں ان کو قائل نہیں کر سکا، لیکن ہماری آپس میں گفتگو اس طرح چلتی رہتی تھی ۔
ان میں زیرِ التوا مقدمات کا مسئلہ بھی تھا۔ جب ہم نے یہ کام شروع کیا تو اس وقت سپریم کورٹ میں تقریبا 56 ہزار مقدمات زیرِ التوا تھے، جو سالہا سال سے معلق تھے۔ سپریم کورٹ میں بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا جو بالکل پہلا دن تھا، تو انھوں نے یعنی تمام ججوں کا اجلاس بلایا۔ یہ ”فل کورٹ میٹنگ“ اس سے پہلے 2019ء میں ہوئی تھی، یعنی چار سال تک فل کوٹ میٹنگ نہیں ہوئی تھی۔ فل کورٹ میٹنگ بہت اہم اس لیے ہوتی ہے کہ بہت سارے کام ایسے ہیں جو چیف جسٹس تنہا نہیں کر سکتا۔ ایک تو بطور انسان بہرحال حدود ہوتی ہیں، اور پھر قانونی طور پر بھی کئی امور ایسے ہیں جن میں چیف جسٹس یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتا، اس کے لیے رولز کے تحت فل کورٹ کی منظوری ضروری ہوتی ہے، لیکن چار سال سے فل کورٹ کی میٹنگ ہوئی نہیں تھی۔ تو بہرحال انھوں نے پہلے دن ہی فل کورٹ کی میٹنگ کی اور تمام جج صاحبان کے ساتھ مشاورت کی۔ جو پہلا مسئلہ انھوں نے پیش کیا، بالکل پہلا مسئلہ، وہ زیرِ التوا مقدمات کا تھا کہ یہ جو سال ہا سال سے ہزار ہا مقدمات جمع ہو چکے ہیں ان کو کیسے نمٹائیں؟
معلوم یہ ہوا کہ اس سے پہلے دو جج صاحبان پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی اور ان کو یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ التوا ختم کرنے کے لیے کچھ لائحۂ عمل تیار کر لیں اور مقدمات کو مختلف انواع میں تقسیم کریں۔ بہت سارے مقدمات ہیں جو شاید اب غیر متعلق ہو چکے ہیں، ان کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے، مثلاً جس قانون کو چیلنج کیا گیا تھا وہ قانون ہی اب باقی نہیں رہا ہے، یا فریقین نے آپس میں کچھ طے کر لیا ہے، اور بھی اس نوعیت کی چیزیں ہیں۔ تو ایسے مردہ مقدمات، ڈیڈ کیسز، کے ساتھ کیا کیا جائے؟ پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی قانونی سوال ہے لیکن اس پر کئی سارے مقدمات کا انحصار ہے؛ بَنچ آف کیسز ہیں، تو ان کا تعین کیسے کیا جائے اور کیسے ان کو اکٹھے نمٹایا جائے کہ اگر آپ یہ ایک قانونی سوال طے کر لیں تو آپ نے گویا سو مقدمات نکال لیے، ڈیڑھ سو مقدمات نکال لیے۔
دو ججوں پر مشتمل اس کمیٹی کو دوبارہ یہ کہا گیا کہ آپ اپنی رپورٹ پیش کریں۔ کچھ عرصے بعد کمیٹی کے ایک جج صاحب نے اپنی رپورٹ دے دی۔ دوسرے جج صاحب نے نہیں دی، ان کو اپنے ساتھی جج کے ساتھ بعض امور پر اتفاق بھی نہیں تھا، تو بطور کمیٹی رپورٹ نہیں، لیکن ایک جج صاحب کی رپورٹ کے طور پر وہ پھر بعد میں پیش کی گئی۔ اس پر کچھ اقدامات اٹھائے بھی گئے، پہلے تین مہینوں میں، یعنی ستمبر سے دسمبر تک۔
اس دوران میں، پرانے مقدمات نکالنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہے روزانہ نئے مقدمات بھی دائر ہوتے رہے۔ تو ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے کہ ہر ہفتے کے اختتام پر ہم باقاعدہ فہرست جاری کرتے تھے کہ کن ججوں کے کس بینچ نے اس ہفتے میں کتنے مقدمات سنے، کتنے نمٹائے، کتنوں میں اگلی تاریخ دی گئی اور اب ہفتے کے اختتام پر کل مقدمات کتنے باقی ہیں، نئے مقدمات کتنے آئے اور پرانوں میں سے کتنے نکالے گئے؟ اس کے علاوہ ہم نے سہ ماہی رپورٹیں بھی دینی شروع کیں۔ جو پہلی سہ ماہی رپورٹ ہے، وہ آپ دیکھیں تو اس میں نئے مقدمات دائر ہونے کے باوجود التوا میں کمی آئی، یعنی زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 55 ہزار تک آگئی۔ ایسا شاید دو سال بعد ہوا تھا کہ تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی۔
اس کے بعد 15 دن سردیوں کی چھٹیاں ہوئیں اور جنوری میں جب عدالت نے دوبارہ مقدمات سننے شروع کیے تو اس وقت سیاسی مقدمات کا یوں کہیں ایک ریلا آگیا۔ آگے انتخابات ہونے تھے اور بہت سارے مسائل اور کھینچا تانی کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ تو کچھ اس کی وجہ سے اور کچھ دیگر عوامل بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے آگے زیرِ التوا مقدمات کا معاملہ بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتا گیا۔
اس میں وکلاء کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے، جو فریقِ مقدمہ ہوتے ہیں ان کا بھی کردار ہوتا ہے، عملے کا بھی کردار ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کس مقدمے کو کتنا وقت دیتے ہیں؟ مثال کے طور پر 26ویں ترمیم سے پہلے میں سن رہا تھا کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ چند سو مقدمات ہیں تو ان کے لیے خصوصی عدالت یا خصوصی بینچ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آئینی بینچ یا آئینی عدالت، اس پر تو تفصیلی بحث کی جا سکتی ہے، لیکن یہ جو دلیل تھی کہ چند سو مقدمات ہیں، ہم نے اس پر تھوڑا کام کیا تھا اور ہمیں یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ جو چند سو مقدمات ہیں ان پر سپریم کورٹ کا 80 فیصد وقت لگتا ہے، ججوں کا بھی، عملے کا بھی، اور جو ہزار ہا مقدمات ہیں تو ان کے لیے بمشکل بیس فیصد وقت بچتا ہے۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قوم کو بھی چونکہ سیاست کی لت لگ چکی ہے تو ان کی دلچسپی بھی اپنے دیگر قانونی مسائل اور الجھنیں حل کرنے کے بجائے سیاسی نوعیت کے مقدمات میں زیادہ ہوتی ہے۔
پھر جو بڑے بڑے نامی گرامی وکلاء ہوتے ہیں وہ بھی ان بڑے مقدمات میں آتے ہیں۔ ہر وکیل کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو دو دو تین تین گھنٹے تک لگاتار سنا جائے۔ ایک ایک منٹ پر قوم کا پیسہ خرچ ہوتا ہے تو کیسے ان کو اتنا زیادہ بولنے دیا جائے۔ لیکن نہ بولنے دیں تو پھر اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تو اس طرح ایک آسان سا مقدمہ جس میں کوئی اتنی زیادہ پیچیدگی بھی نہیں ہوتی وہ کئی دنوں پر محیط ہو جاتا ہے اور اس میں صبح سے شام تک کا وقت لگتا ہے۔ قاضی صاحب نے تو یہ کیا کہ، آپ نے دیکھا ہوگا کیونکہ بہت سارے کو براہِ راست نشر بھی کیا گیا، تو وہ تو صبح سے شام تک مقدمات سنتے تھے تاکہ کسی طرح اس سے جان چھڑائیں، لیکن وہ مقدمہ پھر بھی اگلے دن پر چلا جاتا۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر جج اپنی جگہ مستقل اور آزاد حیثیت رکھتا ہے۔ وہ چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس کے ساتھ بینچ میں بھی جو دو جج ہوتے ہیں، یا کبھی ایک جج ہوتا ہے، وہ اس سے کتنا ہی جونیئر ہو، لیکن وہ مستقل آزاد حیثیت رکھتا ہے۔ تو آپ جج صاحبان کو درخواست کر سکتے ہیں، مہذب انداز میں ان کو بتا سکتے ہیں، بعض اوقات کسی اور سے بات کرتے ہوئے ان کو سنا سکتے ہیں، اس طرح کے گر استعمال کر سکتے ہیں، لیکن آپ ان کو مجبور نہیں کر سکتے، وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ تو جب فل کورٹ بینچ کسی مقدمے کی سماعت کرے تو اس میں اگر 15 جج بیٹھے ہیں، تو یوں کہیں کہ 15 عدالتیں بیٹھی ہوئی ہیں، اور ہر عدالت اپنی مرضی سے چلتی ہے۔
چنانچہ آپ نے دیکھا کہ جنوری (2024ء) کے بعد پھر زیرِ التوا مقدمات کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا گیا، ورنہ اس سے پہلے یہ کم تھا۔ اس کو روکنے کے لیے یا اس کو بند باندھنے کے لیے ہم نے مختلف طریقے اختیار کیے۔ مثال کے طور پر ایک طریقہ میں بتا دیتا ہوں۔ سپریم کورٹ میں تین مہینوں کے لیے گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں ۔ تین مہینے کی چھٹیوں میں ظاہر ہے کہ مقدمات کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ چھٹیوں میں چند ایک بینچ تو ہوتے ہی ہیں، ایک آدھ اسلام آباد میں، ایک آدھ کسی اور رجسٹری میں، کوئٹہ یا کراچی یا لاہور میں یا کبھی پشاور میں، لیکن ظاہر ہے زیادہ تر مقدمات نہیں سنے جاتے۔ تو ہم نے اس کا ایک حل تو یہ نکالا کہ چاروں صوبوں میں جو سپریم کورٹ کی مقامی رجسٹریاں، ہیں ان میں چھٹیوں میں کم از کم ایک بینچ تو ضرور ہو ۔ یعنی مثال کے طور پہ کراچی کے جج ہیں جو گرمیوں کی چھٹیوں میں کراچی گئے ہوئے ہیں، تو ان کے لیے وہاں مقدمات کی سماعت نسبتاً آسان ہے۔ میں چھٹی کا مخالف نہیں ہوں۔ جو لوگ بھی مسلسل کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں، اور جج کا کام تو بہت ہی زیادہ ذہنی مشقت کا ہوتا ہے، تو چھٹی تو یقیناً ہونی چاہیے، لیکن یہ کہ کتنی ہونی چاہیے؟ اور مسائل کے انبار کو دیکھتے ہوئے اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ تو اگر آپ کراچی میں ہیں تو یہ دو ہفتے آپ مقدمات سن لیں، پھر آپ چھٹی کریں۔ اگلے دو ہفتے وہ سن لیں گے اور پھر وہ چھٹی کر لیں گے۔ اس طرح روٹیشن پر سب مقدمات بھی سن لیں گے اور چھٹیاں بھی کر لیں گے۔ ایک تو ہم نے یہ کیا۔ اسی طرح اسلام آباد میں ہم نے یقینی بنانے کی کوشش کی کہ ہر دن کم از کم دو بینچ تو ادھر ضرور ہوں۔
رفیق اعظم بادشاہ:
چھٹیوں میں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد:
جی ہاں، چھٹیوں میں۔ مزید ہم نے یہ کیا کہ قاضی صاحب نے رولز دیکھ کر کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز کو تو چیف جسٹس تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس کا اختیار تو جیسے میں نے کچھ دیر پہلے کہا کہ فل کورٹ کے پاس ہے۔ تو فل کورٹ کے بغیر تو اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی تھی۔ تو گرمیوں کی چھٹیاں شروع کب ہوں گی، رولز کے تحت اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار تو چیف جسٹس کے پاس تھا، لیکن ختم کب ہوں گی، تو رولز میں لکھا ہوا تھا ستمبر میں جو دوسرا سوموار آتا ہے تو اس سے نیا عدالتی سال شروع ہوگا اور گرمیوں کی چھٹیاں وہاں ختم ہوں گی۔ گویا چھٹیاں ختم کرنے میں تو چیف جسٹس کا کوئی اختیار نہیں تھا لیکن چھٹیاں شروع کرنے میں وہ روک لگا سکتے تھے۔ تو 15 جون کے بجائے انھوں نے چھٹیاں 15 جولائی سے شروع کیں۔ ایک مہینہ بڑھا دیا کام کا، اور چھٹیوں کا ایک مہینہ کم کر دیا۔ اس کے نتیجے میں بھی کچھ فائدہ ہوا۔ مسائل اور بھی ہیں لیکن ہم نے اپنی سی کوشش کی، کس حد تک کامیاب رہے، یہ آپ لوگ ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
(جاری)
