انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۹)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا گیارہواں باب)



گیارہواں باب :علم غیب


نبی اکرم ﷺ  کے علمِ غیب پر بحث میں مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین اس بات پر متفق تھے کہ علم اور نبوت باہم لازم وملزوم ہیں۔ وہ اس بنیادی عقیدے پر بھی متفق تھے کہ خدا کی تمام مخلوقات میں نبی اکرم ﷺ ہی سب سے بڑے عالم، واجب الاتباع اور خدا کی محبوب ہستی ہیں۔ تاہم علم کی تعریف اور علم ونبوت کے درمیان تعلق کے سوالات پر ان کے درمیان شدید اختلاف واقع ہوا۔

ان بنیادی سوالات نے ایک ایسی کش مکش کو جنم دیا،جس کے نتیجے میں آخر کار مولانا احمد رضا خان نے دیوبندی اکابر (مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا اشرف علی تھانوی) پر کفر کا فتویٰ صادر کیا1۔ اس تکفیر میں بنیادی کردار نبی اکرم ﷺ کے علم غیب کے بارے میں مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کی دو عبارات تھیں۔ جب سے یہ عبارات منظر عام پر آئی ہیں، ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، لیکن یہ مسلسل تنقید وتجزیے کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ خان صاحب نے علماے دیوبند کی تکفیر ان عبارات کی وجہ سے کی، کیوں کہ ان کی نظر میں یہ ضروریاتِ دین کے خلاف تھیں۔

اس باب میں میں ان عبارات کے سیاق وسباق، ان پر خان صاحب کی تنقید اور آخر میں بیسویں صدی کے ہندوستان کے دیوبندی عالم مولانا منظور احمد نعمانی (م 1997) کی جانب سے خان صاحب کو دیے گئے جوابات کا جائزہ لوں گا۔ اس مناظرانہ بحث کا ایک دقیق جائزہ لینے کے ساتھ میں ان متحارب مناہج کو نمایاں کروں گا، جن کے ذریعے خان صاحب اور ان کے دیوبندی مخالفین نے علم، حاکمیت اور نبوت کے باہمی تعلق کو سمجھا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بریلوی اور دیوبندی مسالک کے اختلاف میں ایک بارودی سرنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

میں دکھاؤں گا کہ  بظاہر علم نبوی کی حدود پر مرتکز اس مباحثے میں اصلاً جو موضوع زیر بحث تھا، وہ جدیدیت میں مذہب کی تعریف تھی۔ یہ سوال کہ کیا نبی اکرم ﷺ کے پاس علم غیب ہے یا نہیں، اس امر پر منحصر ہے کہ بذاتِ خود علم کی تعریف کیا ہے۔ اور علم کی حدود کی تعیین منحصر ہے علم کی ان تمام اقسام کی تعریف پر جو مذہبی سمجھی جاتی ہیں۔ نتیجتاً مذہبی علم کی تعریف کو مذہب کی تعریف سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ اس لیے یہ مناظرہ جس قدر زندگی کے ایک زمرے کی حیثیت سے مذہب کی حدود سے متعلق تھا، اسی قدر یہ علم اور نبوت کی متحارب تفہیمات سے بھی تعلق رکھتا تھا۔

آغاز

اس مباحثے کا آغاز اصلاً اس مسئلے سے ہوا کہ عید میلاد النبی میں شرکاے میلاد کو برکتوں سے نوازنے کے لیے رسول اللہ ﷺ محفلِ میلاد میں تشریف لاتے ہیں۔ علماے دیوبند بشمول مولانا گنگوہی، مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی نے اس امکان کو رد کیا۔ انھوں نے بتایا کہ بیک وقت متعدد مقامات میں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کے عقیدے سے عوام یہ سمجھنے لگیں گے کہ رسول اللہ ﷺ حاضر وناظر ہیں۔ اس لیے وہ ان خدائی صفات سے نبی اکرم ﷺ کو متصف کرنے لگ جائیں گے2۔ شمالی ہندوستان کے معروف عالم مولانا عبد السمیع نے دیوبندی فکر کی کاٹ دار تنقید میں 'انوار ساطعہ' کے نام سے جو کتاب لکھی (جس کا تعارف پچھلے ابواب میں ہو چکا ہے)، اس میں انھوں نے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش کی۔

انوارِ ساطعہ میں مولوی عبد السمیع نے علماے دیوبند کو ان کے اس موقف پر کھری کھری سنائیں کہ متعدد مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کا عقیدہ شرک ہے۔ انھوں نے اس کے جواب میں بتایا کہ یہ عقیدۂ توحید کے بالکل منافی نہیں، جیسا کہ دیوبندی کہتے ہیں3۔ مولوی عبد السمیع نے واضح کیا کہ شرک کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور ہستی کو ایسے علم سے متصف کیا جائے جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہے۔ تاہم انھوں نے تاکیداً کہا کہ محفل میلاد کے انعقاد کے تمام مقامات کے علم کو خدا کے علم کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

خدا تمام کائنات کے ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے، اور ہر جگہ حاضر وناظر ہے۔ اس لامحدود علم کے مقابلے میں صرف ان مقامات کا علم جہاں محفل میلاد منعقد ہوتی ہے، ایک ذرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔اس لیے اس عقیدے کا کہ نبی اکرم ﷺ بیک وقت کئی مقامات پر حاضر ہوتے ہیں، بالکل بھی یہ مطلب نہیں کہ خدا اور ان کے علم میں برابری ہے۔ نہ ہی اس سے یہ معنی برآمد کیا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ علمِ کلی کی خدائی صفت میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔ مولانا عبد السمیع نے باصرار بتایا کہ یہ تشریح صرف اس صورت میں درست ہوتی کہ اگر خدا کا حاضر وناظر ہونا بھی میلاد کی محفلوں تک محدود ہوتا۔ چوں کہ یہ درست نہیں، اس لیے محفل میلاد میں رسول اللہ ﷺ کی آمد کا عقیدہ بھی توحید کے مخالف یا منافی نہیں، نہ ہی اس میں شرک کا کوئی امکان ہے4۔

مولانا عبد السمیع نے واضح کیا کہ صفاتِ الہیہ وہ ہیں جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، اور ان کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتیں (يوجد فيه ولايوجد في غيره)۔ مولوی عبد السمیع نے دعوی کیا کہ ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی صفت ان صفات میں شامل نہیں ہے۔ یہ صفت خدا کے ساتھ خاص نہیں۔ مولانا عبد السمیع نے واضح کیا کہ مثلاً موت کے فرشتے (ملک الموت) کی یہ صفت مشہور ہے کہ وہ تمام کائنات میں بیک وقت موجود ہوتا ہے۔ وہ تمام انسانوں، جانوروں، کیڑوں مکوڑوں اور پرندوں تک رسائی رکھتا ہے۔ جہاں کہیں خدا کی کوئی مخلوق مرتی ہے، وہیں وہ موجود ہوتا ہے۔ عبد السمیع نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ شیطان بھی دن رات تمام انسانوں کے پیچھے لگا رہتا ہے (سواے ان لوگوں کے جنھیں خدا نے اپنے فضل سے محفوظ رکھا ہے)۔ خدا نے شیطان کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ہر زمان ومکان میں بیک وقت موجود ہو، جس طرح اس نے ملک الموت کو یہ صلاحیت عطا کی ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ سے اسی صفت کی نفی کر کے علماے دیوبند نے بھرپور طریقے سے  ان کا رتبہ شیطان اور ملک الموت سے بھی گھٹا دیا ہے5۔

مولانا عبد السمیع کی نظر میں رسول اکرم ﷺ کے علم کی جامعیت کا انکار کرکے رسول اکرم ﷺ دیوبندی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی عظمتِ شان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مولانا عبد السمیع نے وضاحت کی کہ ان کی بات کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ لازماً ہر محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں۔ بلکہ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس عقیدے کے حامل فرد کو مشرک نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے مقام ومرتبے میں کم تر مخلوقات جیسے شیطان اور ملک الموت کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ بیک وقت لاتعداد مقامات میں حاضر وموجود ہوں۔

اس لیے رسول اللہ ﷺ میں اس صفت کا نہ ہونا ناقابل فہم ہے۔ کوئی بھی ایسا شخص جو اشارتاً یہ کہہ دے کہ رسول اللہ ﷺ کا علم شیطان اور ملک الموت سے کم تر ہے، وہ حضور ﷺ کی توہین اور گستاخی کا مرتکب ہے6۔ مولوی عبد السمیع نے علم نبوی کے مسئلے پر دیوبندی مسلک کے خلاف جو الزام عائد کیا، یہ اس کا ایک مختصر خلاصہ ہے۔

مولانا سہارن پوری نے مولوی عبد السمیع کی کتاب انوار ساطعہ کے جواب میں اپنی کتاب براہین قاطعہ میں، جس کا ذکر میں پہلے بھی متعدد مقامات پر کر چکا ہوں، دیوبندی مسلک کا دفاع کرتے ہوئے اس الزام کا جواب دیا۔ اس کتاب کے جس حصے میں، میں غوطہ زن ہونے جا رہا ہوں، اس میں مولانا سہارن پوری نے یہ کوشش کی ہے کہ مولانا عبد السمیع کے اس دعوے کا ابطال کریں کہ علماے دیوبند شیطان کو نبی اکرم ﷺ سے زیادہ علم والا اور نتیجتاً ان سے برترحیثیت والا قرار دیتے ہیں۔ اس تنازع میں ان کا جواب بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے میں، میں اگلے صفحات میں تفصیل کے ساتھ اس کا تجزیہ کروں گا۔

علم اور مقام ومرتبہ میں تفریق: مولانا عبد السمیع کے جواب میں مولانا سہارن پوری کا موقف

اپنے دندان شکن جواب میں مولانا سہارن پوری نے مولانا عبد السمیع کی اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ دیوبندی، شیطان کو رسول اللہ ﷺ سے بلند رتبہ قرار دیتے ہیں۔ علم اور نبوت پر دیوبندی موقف کی توضیح کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ خدا نے اپنے بندوں میں سے ہر ایک کو خاص مقدار میں علم سے نوازا ہے۔ مزید یہ کہ خدا نے اپنی مخلوق میں جسے جتنا علم دیا ہے، اس سے زیادہ علم سے اس کو موصوف کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے7۔

مولانا سہارن پوری کے نزدیک خدا کی یہ صفت کہ وہ علم عطا کرتا ہے، اور ان کے علاوہ تمام مخلوقات کا علم محدود ہے،  بغیر کسی شک وشبہے کے قرآن کریم سے ثابت ہے: "اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں؛ صرف وہی اسے جانتا ہے"8۔ مولانا سہارن پوری نے واضح کیا کہ شرک کا مطلب صرف یہ نہیں کہ خدا اور رسول اللہ ﷺ کے علم کو مساوی قرار دیا جائے۔ خدا کی کسی بھی صفت کو جیسے اس کے علمِ کلی کا اثبات کسی اور کے لیے کرنا بھی شرک ہے۔

اس اصول کا اطلاق آنحضرت ﷺ سمیت تمام غیر اللہ پر ہوتا ہے9۔ اس کی تائید میں مولانا سہارن پوری حنفی مذہب (جیسا کہ البحر الرائق اور الدر المختار میں ہے) کا ایک حوالہ پیش کرتے ہیں، جس کے مطابق جو کوئی بھی نکاح کرتے وقت خدا اور حضور ﷺ کو گواہ بناتا ہے، وہ کافر بن جاتا ہے10۔

اس کی وجہ اس عمل کی تہہ میں موجود یہ اعتقاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ عالم الغیب ہیں۔ مولانا سہارن پوری نے تنبیہ کی کہ ایک اہم نکتہ جسے یاد رکھنا چاہیے، یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کی صریح نفی کی گئی ہے۔ یہاں پر ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی کہ یہ عقیدہ شرک تب ہوگا جب خدا اور نبی اکرم ﷺ کے علم کو بالکل برابر قرار دیا جائے۔

مولانا سہارن پوری اپنی بات جاری رکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر یہ ماننا پڑے گاکہ عہد نبوی کے مشرکین بھی حقیقت میں کافر نہیں تھے، کیوں کہ وہ تو کسی ایک معبود کے لیے بھی مکمل حاکمیت اور علمِ غیب کا اثبات نہیں کرتے تھے۔ وہ تو کئی جھوٹے خداؤں (معبودان باطلہ) کو مانتے تھے، جن میں سے ہر ایک کے پاس الگ الگ اختیارات تھے۔ مولانا سہارن پوری کے نزدیک اللہ نے اپنے سوا تمام مخلوقات بشمول انبیا، شیاطین اور ملک الموت کو علم کی ایک مخصوص مقدار عطا کی ہے، جس سے ان کا علم نہ بڑھ سکتا ہے نہ گھٹ سکتا ہے11۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ خدا نے اپنی مخلوقات کو جو علم عطا کیا ہے، اس کے اور روحانی رتبے کے درمیان تعلق نہیں ہے، بلکہ مولانا سہارنپوری کے استدلال کی پوری عمارت اس دعوے پر استوار ہے کہ رتبے کا انحصار خارجی دنیا کے علم پر نہیں۔ ایک فرد کم علم ہونے کے باوجود بلند مرتبے کا حامل ہو سکتا ہے۔ مثلاً‌ انھوں نے واضح کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قرآن میں مذکور حضرت خضر علیہ السلام سے مقام ومرتبے میں کئی گنا بلند وبرتر تھے، لیکن ان کا علمی مکاشفہ حضرت خضر علیہ السلام کے مقابلے میں کم تھا۔ ان دونوں شخصیات کا علم اس حد تک محدود تھا، جو خدا نے انھیں عطا کیا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کے مقام ومرتبے میں فرق تھا۔

مولانا سہارن پوری نے مولانا عبد السمیع کی اس بات سے اتفاق کیا کہ شیطان اور ملک الموت کو جو وسیع علم ملا ہے، وہ قطعی نصوص سے بلا شک وشبہ ثابت ہے۔ تاہم اس کی بنیاد پر کوئی شخص یہ قیاس نہیں کر سکتا کہ مثلاً رسول اللہ ﷺ جیسے بلند مقام ومرتبے والی شخصیت کا علم شیطان اور ملک الموت سے زیادہ نہ ہو تو کم از کم ان کے برابر تو ہونا چاہیے۔ مولانا سہارن پوری نے تجویز کیا کہ اس کے برعکس ایسی نصوصِ قاطعہ موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ علمِ غیب تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔ مثلاً  رسول اللہ خود فرماتے ہیں: "اور مجھے پتا نہیں کہ (قیامت کے دن) میرے یا تمھارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا (لا أدري ما يفعل بي ولا بكم)۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے آپ سے علمِ غیب کی نفی کی۔ مولانا سہارن پوری نے بتایا کہ مولانا سمیع کے طرز استدلال میں جو بنیادی خامی ہے، وہ رتبے اور علم کے درمیان فرق نہ کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا رتبہ شیطان سے اونچا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان سے زیادہ علم بھی رکھتے ہیں12۔ علم اور رتبہ متساوی نہیں ہوتے، جیسا کہ مولانا عبد السمیع نے غلط فہمی سے فرض کر لیا ہے۔

مولانا سہارن پوری نے مولانا سمیع پر اس حوالے سے بھی ملامت کی کہ وہ نصوصِ قطعیہ کے مقابلے میں قیاس پیش کرتے ہیں۔ مولانا سہارن پوری نے سختی سے تنبیہ کی کہ عقائد کے مسائل میں قیاس کا کوئی دخل نہیں۔ ان کے لیے نصوصِ قطعیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجی دنیا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے وسیع علم کے حوالے سے نصوصِ قطعیہ موجود نہیں، اور اس وجہ سے مولانا سمیع کا استدلال نادرست ہے۔

اس مقام پر مولانا سہارن پوری نے ایک ایسی بات کہی جو کئی دہائیوں تک ان کی علمی تراث سے متعلق مناظرانہ جنگوں کو بھڑکاتی رہی: "شیطان اور ملک الموت کا تمام دنیا کو محیط علم (علمِ محیطِ زمین) نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔ فخرِ موجودات ﷺ کے لیے فاسد قیاس سے ایسے علم کا اثبات اگر شرک نہیں تو اور کیا ہے؟ شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہے، فخرِ ِموجودات کے وسعتِ علم کے بارے میں کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے اس شرک کا اثبات کیا جا سکے؟"13

مولانا سہارن پوری کے نزدیک علم اللہ تعالی کی صفاتِ خاصہ میں سے ہے۔ ان کی نظر میں توحید کی  خاطر علم غیب کی خدائی صفت کا تحفظ ضروری ہے۔

مولانا سہارن پوری کی فکر میں خدا نے تمام مخلوقات کو علم کی ایک مخصوص مقدار عطا کی ہے۔ اللہ کے سوا تمام مخلوقات کا علم اس حد تک محدود ہوتا ہے، جو خدا نے اپنے نظامِ علم میں ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ توحید کا دار ومدار اسی نظام کے استحکام پر ہے۔ جو کوئی اس نظام میں خلل پیدا کرتا ہے، وہ اس نظام کے خالق یعنی اللہ کی حاکمیت (عقیدۂ توحید) کو نقصان پہنچاتا ہے۔   اس لیے یہ تجویز کرنا کہ نبی اکرم ﷺ محفل میلاد کے دوران بیک وقت متعدد مقامات پر حاضری دیتے ہیں، ان کی نظر میں فاسد ہے۔

سہارن پوری سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کو عطا کردہ علم سے ان کے بڑھ جانے کا تصور شرک ہے۔ ان کے عقیدے کی رو سے علم اللہ تعالی کی طرف سے مخلوق کے لیے ایک تحفہ ہے۔ جب علم کا یہ تحفہ دوسرے لوگوں کو ملا، تو اس سے ان پر خدا کی حاکمیت ثابت ہو گئی۔ اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے: دوسروں کو علم دینے سے خدا نے خود کو حاکمیت عطا کی۔ علم کے تحفے نے حاکمیت کے تحفے کو حاصل کیا۔ سب سے اہم یہ خدا کے علاوہ کوئی ہستی یہاں تک حضور ﷺ کو بھی یہ اجازت نہیں کہ خدا کے عطا کردہ اس تحفے کی حدود سے تجاوز کرے۔

لیکن مولانا سہارن پوری نے علم اور مقام ومرتبے کے درمیان علاحدگی کی جو کوشش کی، وہ ابہامات سے خالی نہیں تھی۔ علم اورمقام ومرتبے کے درمیان علاحدگی کی اس کوشش کا سب سے مشکوک پہلو وہ رتبہ ہے جو اس نے بذاتِ خود علم کو عطا کیا۔ ایک طرف مولانا سہارن پوری کا پورا استدلال اس دعوے پر مبنی تھا کہ علم اور رتبہ متساوی نہیں، یا ان کے درمیان سرے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس موقف کے ذریعے ان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ بیک وقت ایک مقدس ہستی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کا احترام بھی کریں، اور انھیں ایک ایسا انسان بھی مانیں جن کا علم شیطان یا ملک الموت سے کم تر ہے۔

توحیدِ باری تعالیٰ  کی مطلقیت کے حوالے سے ان کا استدلال علمِ باری تعالیٰ کی استثنائی حیثیت پر مبنی تھا۔ یہاں پر پیدا ہونے والا بنیادی سوال یہ ہے: اگر علم اور مقام ومرتبہ کے درمیان تساوی نہیں یا سرے سے کوئی نسبت نہیں تو پھر ایک قادر مطلق اور یکتا خدا علم غیب کلی سے کیسے متصف  ہو سکتا ہے؟ بالفاظ دیگراگر روحانی کمالات کے مدارج میں کسی ہستی کے مقام ومرتبے کا تعلق علم سے نہیں، تو پھر خدا کی حاکمیتِ مطلقہ اس علم پر کیوں کر منحصر ہو سکتی ہے؟   یہ وہ سوالات ہیں (جیسا کہ ہم اس باب میں تھوڑا آگے دیکھیں گے)، جو مولانا سہارن پوری کے متذکرہ بالا مواقف سے شدید اختلاف کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔ مزید برآں ان کے مخالفین کو ان بیانات کے ساتھ ساتھ اس انداز بیان سے بھی اتنا ہی مسئلہ تھا جس میں انھوں نے اپنا استدلال پیش کیا۔ مولانا سہارن پوری نے رسول اللہ ﷺ اور شیطان کے درمیان موازنے قائم کرنے کے لیے جو لسانی تعبیرات اختیار کیں، ان سے بطور خاص وہ اس الزام کی زد میں آئے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے متعلق احترام کے جذبات نہیں رکھتے۔ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب سے متعلق تعبیرات پر ایک اور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی کو بھی اسی طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔

کیا رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے؟ مولانا اشرف علی تھانوی کا موقف

قریب قریب اپنے بزرگ دوست مولانا سہارن پوری کی طرح مولانا تھانوی کو بھی خدشہ لاحق تھا کہ کہیں عوام خدا اور نبی اکرم ﷺ کے علم کوآپس میں گڈ مڈ نہ کر بیٹھیں۔ اپنے ایک نسبتاً مختصر واعظانہ مکتوب 'حفظ الایمان' میں مولانا تھانوی نے اس مسئلے کو موضوعِ بحث بنایا کہ کیا رسول اللہ ﷺکو عالم الغیب کہنا جائز ہے۔ یہ سوال مولانا تھانوی سے ان کے ایک مرید نے پوچھا تھا کہ کیا کوئی شخص جسے اللہ تعالیٰ علم غیب عطا کرے، اس لقب کا اہل ہے؟  سائل کچھ اس انداز میں پوچھتا ہے: "زید کہتا ہے کہ علم غیب کی دو قسمیں ہیں: بالذات اور بالواسطہ۔ وہ کہتا ہے کہ پہلی قسم خدا کے ساتھ خاص ہے، جب کہ دوسری قسم کا علم رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کو بھی عالم الغیب کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ موقف درست ہے؟"14

اپنے جواب میں مولانا تھانوی نے قطعیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب پکارنے کے جواز کو رد کیا۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ خدا ہی وہ واحد ذات ہے جو  علمِ غیب کلی کی حامل ہے، اس لیے خدا کے علاوہ اور کوئی مخلوق یہاں تک کہ پیغمبر بھی اس لقب کا مستحق نہیں15۔ خدا کی کسی مخلوق کی طرف اس صفت کی اضافت کرنا شرک کا دروازہ کھولنا ہے۔ انھوں نے واضح کیا: یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے نگہبان (راعنا)، میرے آقا (ربی) جیسی صفات سے متصف کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔ مولانا تھانوی نے مزید بتایا کہ نصوصِ قاطعہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ کو جزوی علمِ غیب حاصل تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات بھی اس پر شاہد ہیں۔ مثلاً نبی اکرم ﷺ خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے جاسوسوں اور مخبروں کو بھیجتے تھے۔ اسی طرح انھیں آخرت کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ وہ کب واقع ہوگی۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ  انھیں علمِ غیب کلی حاصل نہ تھا۔ اس وجہ سے عالم الغیب کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ پر نہیں ہوسکتا۔ اس نکتے پر مزید زور دینے کے لیے مولانا تھانوی نے ایک فرضی قیاس پیش کیا، جو آج تک شدید تنازعات کو ہوا دیتا ہے:

بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضور ﷺ کی ذات اقدس پر عالم الغیب کا اطلاق درست ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس غیب سے کون سا غیب مراد ہے: بعض غیب یا کل غیب؟ اگر مراد بعض علوم غیبیہ ہیں تو اس میں حضور ﷺ کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علم تو زید، عمرو بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ تمام جانوروں اور چوپاؤں کو بھی حاصل ہے، کیوں کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے، جو دوسرے شخص کو نہیں ہوتا۔ تو پھر تو چاہیے کہ سب کو عالم الغیب کہا جائے۔۔۔۔ اور اگر مراد تمام علومِ غیبیہ ہیں، تو اس کا بطلان دلیل عقلی ونقلی دونوں سے ثابت ہے16۔

اس اشتعال انگیز قیاس کے ذریعے مولانا تھانوی نے کوشش کی کہ خدا اور نبی اکرم ﷺ کی حیثیت میں فرق کو نمایاں کریں۔ مولانا تھانوی کے نزدیک صرف خدا ہی وہ ہستی ہے جو علم غیب کی خاص صفت سے متصف ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔ لیکن یہ نکتہ پیش کرتے ہوئے مولانا تھانوی نے مولانا سہارن پوری کی طرح ایک ایسا انداز بیان اختیار کیا جو کئی دہائیوں تک دیوبندی مسلک کی علمی تراث کے لیے مسئلہ بنا رہے گا۔ مولانا تھانوی نے علمِ نبوی کا موازنہ جانوروں، چوپایوں اور پاگلوں سے کرکے اپنے مخالفین کو وہ بارود فراہم کیا، جس سے وہ دیوبندیوں کے خلاف یہ استدلال کریں کہ وہ گستاخان رسول ہیں۔

بعینہ یہی وہ استدلال تھا، جو علمِ نبوی سے متعلق دیوبندی نظریات کی تردید کے لیے مولانا احمد رضا خان کی تردید کا سبب بنا، جس کی طرف میں اب متوجہ ہوتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا، مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کے مذکورہ بالا بیانات نے دیوبندیوں کے خلاف مولانا احمد رضا خان کے فتواے تکفیر کے لیے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ دیوبندیوں سے تمام تر اختلافات کے باوجود انھوں نے ان کی تکفیر صرف ان دو عبارات کی بنیاد پر کی، جو ان کی نظر میں ضروریات دین کے خلاف تھیں۔

شیطانی عقائد

حُسام الحرمین وہ فتویٰ تھا جو عرب حنفی علما کی تائید کے حصول کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔ اس  میں مولانا احمد رضا خان نے مولانا گنگوہی،مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کو شیطان وہابیوں (وہابیہ شیطانیہ) کا ایک گروہ قرار دیا17۔ انھوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی توہین اور شیطان کی تعظیم کرتے ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے مولانا سہارن پوری کو اپنا نشانہ بنایا۔ خان صاحب کے نزدیک یہ کہنا کہ اللہ کی محبوب ترین ہستی حضور ﷺ کا علم شیطان یا ملک الموت سے کم تر ہے، ناقابل برداشت ہے۔ خان صاحب کی نظر میں مولانا سہارن پوری کا بیان اور طرز بیان دونوں گستاخانہ تھے۔

ایسے گستاخانہ سوالات پوچھنا کہ: "رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے بارے میں کون سے قطعی نصوص موجود ہیں؟" رسول اللہ ﷺ کی توہین ہے۔ علاوہ ازیں نبی اکرم ﷺ اور شیطان کے علم کے درمیان موازنہ قائم کرنا ایک ایسی جسارت ہے جس سے رسالت مآب کا مقام ومرتبہ یقیناً مجروح ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے متعلق مولانا گنگوہی اور ان کے پیروکاروں کے رویے پر خان صاحب کی برہمی اور اشتعال کا اندازہ ان کے تیکھے لہجے سے لگائیے۔ وہ لکھتے ہیں:

ہم مسلمانوں سے فریاد کرتے ہیں، ہم سید المرسلین ﷺ پر ایمان لانے والوں سے فریاد کرتے ہیں! آپ غور کریں کہ یہ مولوی (مولانا رشید احمد گنگوہی) علم میں بڑے اونچے پاے کا دعویٰ کرتا ہے، ایمان اور معرفت میں یدِ طولیٰ کا مدعی ہے، اور اپنے حلقے میں غوث اور قطبِ زمانہ کہلاتا ہے، کس طرح منہ بھر کر گالی دے رہا ہے؟ اپنے پیر ابلیس کے علم کی وسعت پر تو ایمان رکھتا ہے،اور اسے نصِ قطعی تسلیم کرتا ہے، مگر جنھیں اللہ تعالی نے تمام علوم سے آگاہ فرمایا، سب علوم سکھا دیے، ان پر اللہ کا فضل کثیر تھا، جن کے سامنے ہر چیز روشن تھی، جنھوں نے ہر چیز کو پہچان لیا تھا، اور جن کے پاس آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے اس کا علم تھا، مشرق ومغرب میں جو کچھ ہے اس کا علم تھا، تمام اگلوں اور پچھلوں کا علم حاصل تھا، اور یہ بات قرآن پاک کی کئی آیات میں درخشاں نظر آتی ہے، بے شمار احادیث حضور ﷺ کے وسعتِ علمی کی گواہ ہیں، مگر یہ بدبخت ان کے لیے یوں لکھتا ہے کہ ان کے حق میں کون سی نص آئی ہے؟ کیا یہ نظریہ ابلیس پر ایمان لانے اور حضور ﷺ کے علم سے انکار اور کفر کرنے پر مبنی نہیں ہے؟18

خان صاحب نے مولانا سہارن پوری پر الزام لگایا کہ وہ شیطان کو رسول اللہ سے اعلم (زیادہ علم والا) سمجھتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے سوا کسی اور مخلوق سے کم تر علم والا قرار دینے اور انھیں گالی دینے میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے خان صاحب کی نظر میں مولانا سہارن پوری حضورﷺ کو گالی دینے کے مرتکب ہیں، اور اس وجہ سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں19۔ مزید یہ کہ خان صاحب کے نزدیک سہارن پوری شیطان کے علم کی وسعت کو جس جوش وجذبے سے ثابت کر رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ جارحانہ انداز میں وہ رسول اللہ ﷺ کے وسعتِ علم کی نفی کر رہے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کو شرک قرار دے رہے ہیں، لیکن شیطان کے لیے علم غیب ثابت کرنے سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اس لیے خان صاحب بتاتے ہیں کہ مولانا سہارن پوری ایک طرف تو رسول اللہ ﷺ کو صفاتِ الہیہ سے متصف کرنے پر بے چین ہیں، لیکن دوسری طرف طرف شیطان کو خدا کا شریک ٹھہرانے سے بالکل نہیں کتراتے۔

خان صاحب نوحہ کناں ہیں کہ اس بے ہودہ عقیدے کا اصل فائدہ صرف شیطان کو ہے۔ خان صاحب ایک خطیبانہ جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ مولانا سہارن پوری بیک وقت رسول اللہ ﷺ کی توہین اور شیطان کی تعظیم کرتے ہیں، کیوں کہ وہ مؤخر الذکر کو خدائی شان وشوکت کے زیادہ حامل قرار دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر مولانا سہارن پوری نے روایت کے مکمل تصور کو الٹ پلٹ کردیا ہے، کیوں کہ انھوں نے حضور ﷺ کا مقام شیطان کو دے دیا ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ ایسا شیطانی عقیدہ دین کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دے گا20۔

نبی اکرم ﷺ کی عزت و حرمت پر ڈاکہ

اس کے بعد خان مولانا اشرف علی تھانوی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عرب مخاطبین سے مولانا تھانوی کا تعارف کچھ یوں کرتے ہیں:

اس فرقہ وہابیہ کے بڑوں میں ایک اور شخص اسی گنگوہی کا دم چھلا ہے، جسے اشرف علی تھانوی کہتے ہیں۔ اس نے  چار اوراق کا ایک چھوٹا سا رسالہ تصنیف کیا ہے، جس میں اس نے تصریح کی ہے کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم رسول اللہ ﷺ کو ہے، ایسا تو ہر بچے، بلکہ ہر جانور اور چوپاے کو حاصل ہے۔ اس کی ملعون عبارت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: "آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر کسی کے نزدیک صحیح ہو، تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب؟ اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں، تو اس میں حضور ﷺ کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علم غیب تو ہر شخص کو بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ جمیع بہائم وحیوانات کے لیے بھی حاصل ہے۔ اور اگر تمام علومِ غیبیہ مراد ہیں، اس طرح کہ اس سے ایک فرد بھی خارج نہ رہے، تو اس کا بطلان دلیل عقلی ونقلی سے ثابت ہے21۔

خان صاحب نے مولانا تھانوی پر الزام لگایا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو جانوروں اور پاگلوں کے مساوی قرار دیا ہے۔ وہ اپنے عرب مخاطبین سے گویا تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ ان کے طیش اور غیض وغضب میں ان کا ساتھ دیں۔ خان صاحب گرج دار انداز میں لکھتے ہیں: "دیکھیے اس نے کیسے قرآن کو چھوڑا، اور ایمان کو خیر باد کہا، اور نبی اکرم ﷺ اور حیوان کے درمیان فرق کی کوشش کرنے لگ گیا (انظر كيف ترك القرآن، وودَّع الإيمان، وأخذ يسعى الفرق بين النبي والحيوان)22۔ خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی نے جس سادہ بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا، وہ یہ ہے کہ خدا کےعلاوہ تمام مخلوقات کو جو علم غیب حاصل ہے، وہ ظنی ہے۔ امور غیبیہ کے متعلق یقینی علم اصالتاً خاص انبیاے کرام علیہم السلام کو ملتا ہے۔ کسی اور کو ایسا یقینی علم نہیں ملتا۔ پھر جلیل القدر انبیا اس علم کو خدا کی دیگر مخلوقات کو منتقل کرتے ہیں23۔

مولانا تھانوی پر خان صاحب کا بنیادی کلامی اشکال یہ تھا کہ انھوں نے اس تصور کورد کیا ہے کہ علم فضیلت کی علامت نہیں۔ خان کی نظر میں علم اور فضیلت کا ایک دوسرے سے تعلق مراتبی (hierarchical) ہے، اور ان  میں سے ہر ایک دوسرے کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ خان صاحب بتاتے ہیں: لیکن مولانا تھانوی نے علم اور فضیلت کے درمیان اس نسبت کو مٹا دیا۔ اس کے بجاے مولانا تھانوی کی فکر میں عالم الغیب اللہ اور  غیراللہ کے درمیان ایک دو قطبی تقسیم پائی جاتی ہے، جو اپنے علم کی وسعت کے اعتبار سے خدا سے یکسر کم تر ہیں۔ خان اپنی بات جاری رکھتے ہیں کہ  یہاں مولانا تھانوی جس بات پر غور نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا دیگر مخلوقات کو حاصل علم ایک جیسا یا یکساں نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان علم کے مراتب ہیں، جو صراحتاً افضل مخلوقات جیسے انبیا واولیا کو دیگر کم فضیلت والی مخلوقات جیسے عام انسانوں اور جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ چوں کہ مولانا تھانوی ان فروق اور مراتب کو نظر انداز کرتے ہیں، اس لیے وہ حضور ﷺ کے علم کا بچوں، پاگلوں اور چوپایوں کے ساتھ موازنہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔

رسول اللہ ﷺ کے علم غیب پر مولانا احمدرضا خان کی سب سے زیادہ مفصل کتاب الدولة المکية ہے۔ یہ انھوں نے عربی میں اس وجہ سے لکھی ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے علما کو مخاطب بنائیں۔ اس کتاب میں وہ  مولانا تھانوی کو توجہ دلانے کے لیے اپنے قارئین  کو ایک دل چسپ تجربے کی تجویز دیتے ہیں:

"اگر آپ ان (مولانا تھانوی) کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو ان کے پاس جائیں، اور انھیں اس طرح سے سلام کریں: اے وہ شخص جو علم اور حیثیت میں کتے اور خنزیر کے برابر ہے"۔ خان صاحب نے پیش گوئی کی کہ یہ غیر متوقع سلام سن کر"وہ (مولانا تھانوی) غصے سے جل بھن کر کباب بن جائیں گے، اور ممکن ہے وہ ذلت سے مر جائیں"۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہیں: "پھر ان سے پوچھیں: کیا آپ کا علم خدا کے علم کی طرح ہر چیز کو محیط ہے؟" اگر وہ ہاں میں جواب دے، تو اس نے کفر کیا۔ اور اگر وہ نا میں جواب دے تو ان سے کہیے: "پھر آپ کے علم کی کیا خصوصیت ہے؟کیوں کہ کتوں اور خنزیروں کے پاس بھی بعض چیزوں کا علم ہوتا ہے۔ پھر آپ خود کو عالم کیوں کہتے ہیں، اور کتوں اور خنزیروں کو کیوں نہیں؟" (فإن شئت ترى حقيقة ذالك فأته وخاطبه بقولك: "يا من يساوي الكلب والخنزير في العلم والتوقير". ستراه يحترق غيظا ويكاد يموت غنزا. فسله: هل أحاط بكل شيء علمك كمثل الله سبحانه وتعالى؟ فإن قال نعم فقد كفر، وإن قال لا فقل له: أي خصوصية لك في العلم، فإن العلم ببعض حاصل لكل الكلب والخنزير. فما لك تسمى عالماً دون نظرائك الكلاب والخنازير؟) 24.

خان صاحب کے نزدیک مولانا تھانوی کے استدلال میں بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ علم کی مختلف اقسام میں فرق نہیں کرتا۔ خاص طور پر مولانا تھانوی نے مطلق علم اور علم مطلق ( علم غیب کلی) کے درمیان فرق کو سرے سے نظر انداز کیا ہے25۔ علمِ مطلق سے مراد کسی شے کو فی نفسہ جاننا ہے، بغیر اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی اضافی پہلو یا قید  ملحوظ ہو۔ ایسا علم خدا کے علاوہ دیگر مخلوقات بشمول نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ خدا نے اپنی مخلوقات میں مختلف ہستیوں کو ان کے روحانی مقام ومرتبے کے اعتبار سے علم دیا ہے۔دوسری طرف علم مطلق سے مراد غیر مشروط طور پر لامحدود علم ہے، جو مخلوق کی گرفت سے ماورا ہے۔ انسان اس علم کے مقدار اور محتویٰ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس علم کی کوئی حد وحساب نہیں۔ اس قسم کا علم صرف خدا کے پاس ہے26۔

خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی کے طرز فکر کی  رو سے کسی کو بلند مقام اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب اس کے پاس علمِ مطلق ہو، لیکن وہ فضیلت کے ان مراتب کا کوئی احترام نہیں کرتے، جو خدا کی مخلوق میں مطلقِ علم کے مختلف حاملین کو حاصل ہے۔ اس کے بجاے مولانا تھانوی مطلق علم کے سب حاملین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ مطلق علم کو اس طرح یکساں سمجھنے کی وجہ سے لیے ان کے لیے ناممکن ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے علم کو باقی دنیا کے علم سے ممتاز کر سکیں۔

خان صاحب کی نظر میں مطلق علم کے اس یک رخے تصور کی وجہ سے مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت کی نفی کی۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے بلند مقام سے محروم کر دیا۔ خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کا جو موازنہ پاگلوں، جانوروں اور چوپایوں سے کیا ہے، یہ اس گہری اصولی بیماری کا غماز ہے جو ان کی فکر پر مسلط ہے ۔ جیسا کہ وہ وضاحت کرتے ہیں:  "مولانا تھانوی مطلق علم کی مختلف اقسام میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتے؛ ایک دو حرف جاننے میں، اور بے شمار علموں میں جن کی کوئی حد وحساب نہیں ہے۔ وہ فضیلت کو صرف علمِ مطلق کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں مقام فضیلت صرف اسے حاصل ہے، جو کلی علمِ غیب رکھتا ہو۔ اس لیے رسولوں کو علم مطلق کے اعتبار سے جو فضیلت حاصل تھی، وہ انھوں نے ان سے چھین لی"27۔

جیسا کہ اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے، خان صاحب کی نظر میں مولانا تھانوی نے توحید اور نبی اکرم ﷺ کی حیثیت کے درمیان ایک حد سے زیادہ بے لچک تقابل قائم کرکے رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت پر ڈاکا ڈالا ہے۔ اپنے پیش رو علامہ فضل حق خیر آبادی کی طرح، خان صاحب کے اعتقادی تصور میں  بھی توحید اور مقامِ نبوت باہم مربوط ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ علمِ الٰہی اور علم نبوی اگر چہ اپنی کمیت اورکیفیت کے اعتبار سے الگ ہیں، تاہم وہ ایک جیسے استدلالی مقام کا حصہ ہیں۔ خان صاحب نے رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کی صفت کو خدا کی طرف سے ایک موعودہ تحفہ قرار دیا۔

شفاعت  کی طرح علم بھی خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام اور بے مثال روحانی عظمت کی علامت ہے۔ علم کا تحفہ ہی رسول اللہ ﷺ کو باقی مخلوق سے امتیاز بخشتا ہے۔اپنے محبوب ترین بندے کے لیے یہ خدا کی محبت کی ایک علامت ہے۔ اپنے دیوبندی حریفوں سے ایک بے لچک تقابل کے ساتھ خان صاحب کا موقف یہ تھا کہ حضور ﷺ کو محض خدائی علم حاصل نہیں، بلکہ وہ اس علم میں براہ راست شریک بھی ہیں۔ خان صاحب نے مزید کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے علم غیب کا تحفہ چھیننا خدا کے علم ہی کی تحقیر ہے۔

خان صاحب کی نظر میں جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی شان کو گھٹاتے ہیں، وہ خدا پر بھی افترا پردازی کرتے ہیں۔ توحید باری تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام ومرتبے میں کلی منافات نہیں، جیسا کہ دیوبندیوں نے غلط طور پر فرض کیا ہے۔ بلکہ وہ ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ خان صاحب نے لکھا: "تم کو کبھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو رسول اللہ ﷺ کی شان گھٹاتا ہے، اور وہ اپنے رب کی تعظیم بھی کرتا ہے۔ خدا کی قسم! جو کوئی ان کی شان گھٹائے گا، وہ ضرور بالضرور خدا کی شان بھی گھٹائے گا (لاترى أبدا من ينقص شان محمد وهو معظم لربه، والله إنما ينقصه من ينقص ربه)28۔

خان صاحب نے مولانا تھانوی کو ایک ایسے شخص کی روپ میں پیش کیا جو رسول اللہ ﷺ کی عظمتِ شان گھٹاتا ہے۔ خان صاحب کے نزدیک مولانا تھانوی کے فرضی قیاسات، جو رسول اللہ ﷺ کاپاگلوں، جانوروں اور چوپایوں سے موازنہ کرتے ہیں، نہ  صرف رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور مرتبے کی کھلم کھلا گستاخی ہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ایسے گستاخانہ موازنے اسلام کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ خان صاحب نے واضح کیا کہ اگر مولانا تھانوی کے استدلال کو مانا جائے، تو ایک کافر یا اسلام کا دشمن اسی استدلال کے ذریعے توحید باری تعالیٰ کے تصور پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی کے استدلال کو دیکھتے ہوئے کوئی کافر یہ کہہ سکتا ہے:

اگر مسلمان یہ دعوی کریں کہ خدا حاکمِ مطلق ہے، تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے: کیا خدا کی حکومت صرف تمام چیزوں پر ہے یا کچھ چیزوں پر؟ اگر یہ صرف کچھ چیزوں پر ہے، تو اس میں خدا کی کیا خاصیت ہے، کیوں کہ کئی دیگر مخلوقات جیسے انسان، جانور، پاگل، بچے اور چوپاے تک کچھ چیزوں پر حاکمیت کے حامل ہیں؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ خدا ہر چیز پر حاکم ہے، تو پھر اسے نقلی اور علقی دلائل دونوں دلائل سے رد کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ 'ہر چیز' کے مفہوم میں خدا بھی شامل ہے، تو پھر وہ اس کی حاکمیت خود اپنے آپ پر بھی ہے۔ اس صورت میں اس کی حاکمیت کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ نتیجتاً وہ خدا ہی نہیں رہے گا29۔   

خان صاحب کی نظر میں یہ وہ اعتقادی فساد ہے، جو مولانا تھانوی کی فکر نے برپا کیا ہے۔ خان صاحب کے لیے مولانا تھانوی کے انداز بیان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ انھوں نے تصور کو اپنی حدودسے متجاوز کر دیا ہے۔ کیوں کہ جب رسول اللہ ﷺ اور احمقوں اور چوپایوں کے درمیان موازنہ قابل تصور بن گیا، پھر تو اتنی سی کسر رہ گئی کہ اسلام کے بنیادی عقائد مثلاً‌ توحید کے متعلق بھی لوگ ایسے گستاخانہ موازنے کرنے لگ جائیں۔



حواشی

  1. خان صاحب نے دیگر بانیانِ دیوبند میں سے مولانا قاسم نانوتوی کی ختم نبوت سے انکار کے الزام میں تکفیر کی ہے۔ یہ الگ موضوع ہے، جس پر اس باب میں بحث نہیں ہے۔
  2. خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعۃ (کراچی: دارالاشاعت، 1987)، 50 – 55۔
  3. مولانا سہارن پوری کی البراہین القاطعۃ میں مولانا عبد السمیع کی انوار ساطعہ در بیانِ مولود وفاتحہ، 53۔
  4. ایضاً۔
  5. ایضاً، 54 – 57۔
  6. ایضاً۔
  7. سہارن پوری، البراہین القاطعۃ، 53۔
  8. القرآن 6 : 59۔
  9. سہارن پوری، البراہین القاطعہ، 55۔
  10. عبد اللہ بن احمد النسفی، البحر الرائق في شرح كنز الدقائق في فروع الحنفية (بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1997)؛ محمد بن علی الحصکفی، الدر المختار في شرح تنوير الأبصار، (کلکتہ، مطبع اشتیاق لیتھوگرافک کمپنی، 1827)۔
  11. سہارن پوری، البراہین القاطعۃ، 55۔
  12.  ایضاً، 53 – 56۔
  13. ایضاً، 53۔
  14. اشرف علی تھانوی، حفظ الایمان (دیوبند: دارالکتاب دیوبندی، تاریخ ندارد)، 2۔
  15. ایضاً۔
  16. ایضاً، 15۔ رسول اللہ ﷺ سے علم غیب کی نفی کے بارے میں مولانا تھانوی نے قرآنِ کریم کی یہ آیت پیش کی: "اگر میرے پاس علمِ غیب ہوتا، تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا" (قرآن 7 : 188)۔
  17. خان نے اس فہرست میں مولانا گنگوہی کو بھی شامل کیا، کیوں کہ انھوں البراہین القاطعہ مولانا گنگوہی کے اشارے پر لکھی تھی۔
  18. مولانا احمد رضا خان، حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین(لاہور: مکتبۂ نبویہ، 1975)، 24۔
  19. ایضاً۔
  20.  ایضاً، 23 – 28۔
  21. ایضاً، 27۔
  22. ایضاً، 29۔
  23. ایضاً۔
  24. مولانا احمد رضا خان، الدولة المكية بالمادة الغيبية(لاہور: نذیر سنز، 2000)، 272۔
  25. ا۔ خان، حسام الحرمین،29۔
  26. اس استدلال کو خان نے الدولة المكية کے کافی حصے میں دہرایا ہے۔
  27. ا۔ خان، حسام الحرمین،29۔
  28. ایضاً۔
  29. ایضاً، 32۔

(جاری)

آراء و افکار

(اگست ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter