علامہ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ (م 1252ھ/1836ء) نے اس موضوع پر کا مختصر رسالہ "العلم الظاھر فی نفع النسب الطاھر" کے عنوان سے لکھا ہے، جو ان کے مجموعۂ رسائل کی پہلی جلد کا پہلا رسالہ ہے اور صرف 7 صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس میں انھوں نے اس کے ہر پہلو پر بات کی ہے۔ یہاں اس رسالے کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔
جن نصوص سے اس فائدے کی نفی کی جاتی ہے
ان نصوص میں ایک یہ آیت ہے:
فَإِذَا نُفِخَ فِي ٱلصُّورِ فَلَآ أَنسَابَ بَينَهُم يَومَئِذ وَلَا يَتَسَآءَلُونَ (المؤمنون، 101)
(پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ ان کے درمیان رشتے ناتے باقی رہیں گے، اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔)
اس آیت کی تفسیر میں قاضی بیضاوی نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن کسی کو اس کا نسب کچھ فائدہ نہیں دے سکے گا کیونکہ اس دن آدمی اپنے بھائی سے، والدین سے، بیوی بچوں سے دور بھاگے گا اور ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی؛ نہ ہی نسب پر کوئی فخر کرے گا کیونکہ آخرت میں نسب کا کسی کو کچھ فائدہ ہی نہیں ہوگا۔
دوسری آیت جس سے استدلال کیا جاتا ہے، درج ذیل ہے:
إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ ٱللَّهِ أَتقَىٰكُم (الحجرات، 13)
(درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔)
اسی طرح بعض احادیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔
مثلاً مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کے موقع پر خطبے میں فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے، مگر تقوی کی بنا پر۔
اسی طرح صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: وَأَنذِر عَشِيرَتَكَ ٱلأَقرَبِينَ (اور تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبردار کرو)، (الشعرآء، 214) تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کی سب شاخوں کو اکٹھا کرکے سب کو خبردار کیا کہ وہ خود کو آگ سے بچائیں اور انھیں کہا کہ میں اللہ کے سامنے تمھارے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا لیکن تم سے جو میرا رشتہ ہے اسے میں نبھاؤں گا (سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا)۔ (صحیح بخاری کی روایت میں اس استثنا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا کا ذکر نہیں ہے۔)
اس نوعیت کی بعض دیگر روایات بھی ہیں۔ مثلاً الادب المفرد میں امام بخاری نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن متقی لوگ ہی میرے دوست ہوں گے؛ اور ایسا نہ ہو کہ لوگ نیک اعمال ساتھ لے آئیں اور تم گردنوں پر دنیا کا بوجھ لادے ہوئے آؤ اور مجھے پکارو، تو میں تمھیں کہوں کہ یوں اور یوں۔ صحیحین میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فلاں خاندان والے میرے دوست نہیں ہیں، بلکہ اللہ اور نیک مومن میرے دوست ہیں۔
اسی طرح صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جسے اس کے عمل نے پیچھے کردیا، اسے اس کا نسب آگے نہیں کرسکے گا۔
نسبی تعلق کے اثبات کے لیے نصوص
تاہم دوسری جانب کئی نصوص ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبی تعلق کا فائدہ ان کے رشتہ داروں میں ایمان والوں کو ہوگا۔
مثلاً سنن ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اگر تم ان سے چمٹے رہو تو تم راستے سے نہیں ہٹوگے، ان میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے: اللہ کی کتاب جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی رسی ہے اور میرا خاندان، میرے گھر والے؛ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر پہنچیں؛ پس تم دیکھو کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟
ایسی کئی روایتیں مختلف الفاظ میں دیگر کتب میں بھی روایت ہوئی ہیں۔ مثلاً سنن دیلمی میں عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں اپنے خاندان کے بارے میں حسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں اور ان کے ساتھ ملنے کی جگہ حوض ہے۔
اسی طرح طبرانی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حوض پر پہلے پہنچنے والے میرے اہلِ خاندان ہوں گے اور وہ ایمان والے جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں۔
کئی اور اسالیب میں اپنے اہلِ خاندان کےلیے خصوصی دعاؤں کا ذکر بھی طبرانی اور دیگر کتب میں آیا ہے۔ اسی طرح صحیح سند سے مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے رب نے میرے خاندان والوں کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ ان میں جو ایمان لایا تو وہ اسے عذاب نہیں دے گا۔ خصوصاً سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد کےلیے عذاب سے نجات کا ذکر بھی طبرانی کی روایت میں ہے جس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
فائدے کی نفی کرنے والی نصوص کا درست مفہوم
جہاں تک المؤمنون کی آیت 101 کا تعلق ہے جس سے اس فائدے کی نفی کےلیے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے، تو ایک تو اس کا سیاق و سباق اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت کافروں کے بارے میں ہے۔ پھر اگر یہ کافروں اور مسلمانوں سب کے بارے میں ہو، تب بھی اس کی تخصیص دیگر نصوص نے کی ہے۔
پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے آپ کے اہلِ خاندان کےلیے بعض خصوصی احکام تو دنیا میں بھی ہیں۔ مثلاً زکاۃ ان کو نہیں دی جاسکتی، اور اس حکم میں گنہگار اور نیکو کار کی تقسیم نہیں ہے۔
نیز رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے اہلِ کبائر کو فائدہ ہوگا (اور ہم سب آپ کی شفاعت کے امیدوار ہیں)، تو آپ اپنے خاندان میں ایمان لانے والوں کےلیے خصوصی شفاعت کیوں نہیں کریں گے اور ان کے حق میں آپ کی شفاعت کیوں قبول نہیں کی جائے گی؟
سورۃ الکہف میں جہاں ایک بستی والوں کا ذکر ہے جہاں سیدنا موسی علیہ السلام اور آپ کے ساتھی نے گرتی دیوار کی مرمت کرکے اسے بچالیا تھا، تو آپ کے ساتھی نے بتایا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کےلیے ان کے بزرگ نے خزانہ چھوڑا تھا اور وہ بزرگ نیکوکار تھے (وَكَانَ أَبُوهُمَا صَٰلِحا)۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ بچے ان بزرگ کی ساتویں پشت میں تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ کی اولاد ان سے کتنے ہی واسطوں بعد کی ہو، ان پر ان برکات کو کیوں مستبعد سمجھا جائے؟
جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اور فیصلہ صرف اللہ کا ہی ہوگا، تو یہ بات تو مسلّم ہے کہ کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، سواے اس کے جو اللہ نے اسے دیا ہے، اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت اور آپ کی نسبت سے ملنے والا فائدہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے فیصلے میں شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کرم نوازی اور رحمت کے آثار میں ہیں۔
البتہ جہاں عمل پر تاکید دینے کا موقع ہو، وہاں اس پہلو پر زور دینا ضروری ہوتا ہے کہ فیصلہ اللہ ہی کا ہے اور کوئی شخص اس فیصلے سے بے فکر ہو کر نہ بیٹھ جائے، لیکن ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ کی شفاعت اور آپ کے ساتھ تعلق کی نسبت کا پہلو بھی بتا دیا (سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا) تاکہ پوری بات واضح ہو اور یہ نبوی بلاغت اور حکمت کا شاندار نمونہ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ آپ اپنے اہلِ خاندان اور رشتہ داروں کے متعلق یہ شدید خواہش رکھتے تھے کہ وہ عمل اور تقوی کے معاملے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
اس زاویے سے دیکھا جائے، تو ان تمام نصوص کی آپس میں تطبیق واضح ہوجاتی ہے اور کسی نص کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ سب کا درست فہم میسر ہوجاتا ہے۔
اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے
یہ بات بہرحال واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حرام کی گئی چیزوں کے متعلق سب سے زیادہ غیرت رکھنے والا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس وہی اختیار ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے، اور آپ نے جن چیزوں کی تمنا کی ان میں وہی آپ کو ملیں گی جو اللہ کی مشیئت ہو۔ چنانچہ آپ کی شدید خواہش کے باوجود آپ اپنے چچا ابو طالب کو ایمان لانے پر آمادہ نہیں کرسکے، حالانکہ انھوں نے آپ کی نصرت کی اور انھیں آپ کے والد کا مقام حاصل تھا۔
إِنَّكَ لَا تَهدِي مَن أَحبَبتَ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهدِي مَن يَشَآءُ وَهُوَ أَعلَمُ بِالمُهتَدِينَ۔
(حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے، اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔)
لَيسَ لَكَ مِنَ ٱلأَمرِ شَيءٌ أَو يَتُوبَ عَلَيهِم أَو يُعَذِّبَهُم فَإِنَّهُم ظَٰلِمُونَ
(تمہیں اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں۔)
اسی طرح نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو نفع نہیں پہنچا سکے کیونکہ وہ ایمان نہیں لایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں نوح علیہ السلام کو فرمایا:
إِنَّهُۥ لَيسَ مِن أَهلِكَ إِنَّهُۥ عَمَلٌ غَيرُ صَٰلِح (ہود، آیت 46)
(یقین جانو وہ تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ناپاک عمل کا پلندہ ہے۔)
پس سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے مطابق ہوگا ۔
فَلَا يَأمَنُ مَكرَ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلقَومُ ٱلخَٰسِرُونَ (اعراف، آیت 99)
(پس اللہ کی دی ہوئی ڈھیل سے وہی لوگ بےفکر ہو بیٹھتے ہیں جو آخر کار نقصان اٹھانے والے ہوتے ہیں۔)
رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اسوہ
پس رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے اور اس کی عظمت اور بڑائی بیان کرنے والے تھے۔ یہی حالت صحابۂ کرام اور اہل بیت اور ان کے متبعین کی تھی۔
چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے لشکر تیار کیے، توحید کے علم برداروں کونصرت فراہم کی، بہت سارے ممالک فتح کیے، مسلمانوں کے ساتھ عناد رکھنے والوں کو مغلوب کیا، رسول اللہ ﷺ نے انھیں جنت کی بشارت دی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ تمنا کرتے کہ کاش عمر کی ماں نے عمر کو نہ جنا ہوتا! اور فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ڈھیل سے بے فکر نہیں ہوسکتا اور اس سب کچھ کے باوجود وہ بے پروا ہو کر نہیں بیٹھے۔ پس کوئی نسب والا اپنے نسب کی وجہ سے دھوکے میں نہ پڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ نےاگر ہمارے ساتھ عدل پر فیصلہ کیا، تو ہم میں بچنے والے تھوڑے ہی ہوں گے۔
یہ بھی جان لینا چاہیے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے جگر کا ٹکڑا تھیں لیکن ان کی کوئی نسبت رسول اللہ ﷺ کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت سے نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی چاہت ہی آپ کی چاہت تھی اور اللہ تعالیٰ جس سے ناراض ہو، تو آپ بھی اس سے ناراض ہوتے خواہ وہ آپ کو سب لوگوں میں محبوب ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اس شخص سے آپ کی محبت کے خاتمے کا سبب بن جاتی۔ پس رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سب سے زیادہ شان والی اور سب سے زیادہ محبوب تھی۔
صحیح سمجھ رکھنے والے کےلیے یہ بات واضح ہے اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین پر عمل پیرا نہ ہوتا، اس سے آپ کا دور ہوجانا، خواہ وہ آپ کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار ہو، اس بات کی دلیل ہے۔ تو جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبی تعلق کا دعوی کرتا ہے اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام کو پامال کرتا ہے، وہ کیسے یہ گمان کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اس کی کچھ حیثیت ہوگی؟ کیا یہ کند ذہن شخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی حرمتوں سے بڑھ کر ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ جو شخص ایسا اعتقاد رکھتا ہے، اس کے برے خاتمے کا اندیشہ ہے۔
پس اس شخص کو اہل بیت اطہار کے بزرگوں کا کردار دیکھنا چاہیے کہ ان کا بھروسہ کس چیز پر تھا، ان کے اخلاق کیسے تھے اور ان کے اعمال کیسے تھے؟پس اگر یہ شخص اس پر غور کرے گا اور نیک نیتی سے اس پر عمل کرنا چاہے گا، تو اس کےلیے اللہ کی توفیق سے اس راستے پر چلنا آسان ہوگا۔
علامہ شامی کے رسالے کا خلاصہ ختم ہوا۔ آگے میں چند نکات مولانا اصلاحی کی تفسیر سے پیش کروں گا کیونکہ اس موضوع پر موجودہ بحث ان لوگوں نے شروع کی ہے جو اپنی نسبت مولانا اصلاحی کے مکتبِ فکر کی طرف کرتے ہیں۔
یہ بھی نوٹ کیجیے کہ علامہ شامی خود حسینی سادات میں سے تھے۔
قرآن کریم کے تین مقامات: مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر کی روشنی میں
اس بحث میں قرآن کریم میں 3 مقامات خصوصاً قابلِ غور ہیں۔ ان تینوں مقامات پر ترجمہ مولانا اصلاحی کا پیش کیا جارہا ہے۔ (اس سے قبل اس مضمون میں آیات کا ترجمہ مفتی محمد تقی عثمانی کا تھا۔)
پہلا مقام سورۃ المؤمن کی آیت 8 ہے جہاں مومنوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کے مقرّب فرشتوں کی دعا کا ذکر ہے اور اس میں یہ بات بھی آئی ہے:
رَبَّنَا وَأَدخِلهُم جَنَّٰتِ عَدنٍ ٱلَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِن ءَابَآئِهِم وَأَزوَٰجِهِم وَذُرِّيَّٰتِهِم إِنَّكَ أَنتَ ٱلعَزِيزُ ٱلحَكِيمُ
(اے ہمارے رب! ان کو ہمیشگی کے ان باغوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ اور ان کو بھی جو ان کے آباء اور ازواج و دّرّیات میں سے جنت کے لائق ٹھہریں۔ بے شک عزیز و حکیم تو ہی ہے۔)
دوسرا مقام سورۃ الرعد کی آیت 23 ہے جہاں اس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے:
جَنَّٰتُ عَدن يَدخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِن ءَابَآئِهِم وَأَزوَٰجِهِم وَذُرِّيَّٰتِهِم وَٱلمَلَٰٓئِكَةُ يَدخُلُونَ عَلَيهِم مِّن كُلِّ بَاب
(ابد کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو اس کے اہل بنیں گے ان کے آبا و اجداد، ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے۔)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا اصلاحی فرماتے ہیں:
"فرمایا کہ ان کے لیے ابد کے باغ ہوں گے جن میں وہ اتریں گے اور ان کی مسرت کی تکمیل کے لیے ان کے ساتھ ان کے باپ دادوں اور ان کی ازواج و اولاد میں سے ان لوگوں کو بھی جمع کر دیا جائے گا جو اپنے اعمال کی بدولت اس کے اہل قرار پائیں گے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی نعمت سے بہرہ مند ہوتا ہے تو اس کی یہ دلی آرزو ہوتی ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شریک ہوں جو اپنے عزیز رہے ہیں یا جنھوں نے اس کو عزیز رکھا ہے۔ اس کی اس فطرت کے تقاضے کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ اس کے عزیزوں اور قریبوں کو بھی اس کے ساتھ جمع کر دے گا بایں شرط کہ وہ جنت میں جانے کے اہل ہوں۔ یہ شرط ایک بنیادی شرط ہے جو ملحوظ نہ رہے تو وہ نظام حق ہی متزلزل ہو جائے جو ان آیات میں زیربحث ہے لیکن اس شرط سے اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی نفی نہیں ہوتی کہ وہ ان صالحین و ابرار کی مسرت کی تکمیل کے لیے ان کے ان اعزا و اقربا کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دے جو اگرچہ باعتبار درجہ و مرتبہ ان سے فروتر ہوں لیکن ہوں وہ جنت کے حق داروں میں سے۔"
یہ تقریباً وہی بات ہے جو علامہ شامی کے رسالے کی تلخیص میں ذکر کی گئی، لیکن اتمامِ حجت کےلیے تیسرا مقام بھی دیکھ لیجیے جو سورۃ الطور کی آیت 21 ہے:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱتَّبَعَتهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلحَقنَا بِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَمَآ أَلَتنَٰهُم مِّن عَمَلِهِم مِّن شَيء كُلُّ ٱمرِيِٕ بِمَا كَسَبَ رَهِين
(اور جو لوگ ایمان لائے، اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی جمع کر دیں گے اور ان کے عمل میں سے ذرا بھی کمی نہیں کریں گے۔ ہر ایک اس کمائی کے بدلے میں گرو ہو گا جو اس نے کی ہو گی۔)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا اصلاحی کہتے ہیں:
"اہل ایمان کی مسرت کی تکمیل کے لیے ایک بشارت: جنت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مسرت کی تکمیل کے لیے جو اہتمام فرمائے گا اسی سلسلہ میں یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ ان کی اولاد میں سے جس نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہو گی اللہ تعالیٰ ان کو بھی ان کے ساتھ ملا دے گا اگرچہ وہ ایمان و عمل کے اعتبار سے ان کے درجے کے مستحق نہ ہوں۔ اس یکجائی کے لیے ضابطہ یہ بیان فرمایا کہ وَمَآ أَلَتنَٰهُم مِّن عَمَلِهِم مِّن شَيء اولاد کے ایمان کے کسر کا جبر ان کے والدین کے عمل میں کمی کر کے نہیں کیا جائے گا۔ وہ اپنے اسی مرتبہ پر سرفراز رہیں گے جس کے وہ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے مستحق قرار پائے ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے ان کی اولاد کے درجے کو اونچا کر دے گا۔ وَٱتَّبَعَتهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ میں لفظ ایمان کی قید سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ رعایت صرف اسی اولاد کے لیے خاص ہے جس نے ایمان کے ساتھ اپنے بزرگ کی اتباع کی ہو، اگر وہ ایمان سے محروم ہو تو اس رعایت کی مستحق نہیں ہو گی اگرچہ وہ ان کے اتباع کی کتنی ہی بلند آہنگی کے ساتھ مدعی ہو۔ لفظ ’ایمان‘ کی تنکیر سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس کے مدارج ہیں۔ اگر اولاد کو ایمان کا وہ ادنیٰ درجہ بھی حاصل ہوا جو اس کو جنت کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا بھی مستحق ٹھہراتا ہے تو وہ اس رعایت کی مستحق قرار پائے گی۔"
آگے فرماتے ہیں:
" نجات سے متعلق اصل ضابطہ كُلُّ ٱمرِيِٕ بِمَا كَسَبَ رَهِين۔ نجات سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اصل ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کے عوض گرو ہے۔ عمل ہی چھڑائے گا، عمل ہی ہلاک کرے گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ ایمان و عمل کے بغیر محض نیکوں سے ظاہری نسبت رکھنے کے سبب سے کوئی جنت میں ان کے پاس پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل انہی پر فرمائے گا جو اپنے ایمان و عمل سے اس کا استحقاق پیدا کریں گے۔"
پھر اس مقام پر مولانا اصلاحی نے اپنے تئیں ایک شبہے کے ازالے کی بھی کوشش کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
"ایک شبہ کا ازالہ: یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ جب نجات کے باب میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کے عوض میں گرو ہے تو اولاد کا اپنے سے برتر درجے کے بزرگوں کی صف میں جا پہنچنا کس بنیاد پر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلق رکھنے والا ہے جو اس نے اپنے باایمان بندوں کے لیے خاص رکھا ہے۔ اس سے اس ضابطہ کی نفی نہیں ہوتی جو كُلُّ ٱمرِيِٕ بِمَا كَسَبَ رَهِين کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ نجات تو بے شک کسی کو ایمان و عمل کے بغیر حاصل ہونے والی نہیں ہے لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں کے مراتب و مدارج میں اپنے فضل سے اضافہ بھی نہیں فرمائے گا۔ ان دونوں چیزوں کے دائرے الگ الگ ہیں۔ ان میں باہمدگر کوئی تناقض نہیں ہے۔ "
میرا خیال ہے کہ ان اقتباسات سے بات ان لوگوں کےلیے بھی واضح ہوگئی ہوگی جو اپنی نسبت مولانا اصلاحی کے مکتبِ فکر سے کرتے ہیں۔بس وہ صرف اس سوال پر غور کریں کہ ان تین مقامات پر جو بات کہی گئی ہے کہ اسے کسی شخص کی ساری صلبی اولاد کے بجاے صرف پہلی یا دوسری نسل (بیٹوں، بیٹیوں اور پوتوں پوتیوں، نواسوں، نواسیوں) تک محدود کرنے کی کیا دلیل ہے؟ پھر اگر یہ بشارت ہم میں سے ہر مومن کےلیے ہے، تو رسول اللہ ﷺ کی اولاد کےلیے یہ کتنی خوش بختی کا مقام ہے؟
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ!