انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۰)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا پانچواں باب)


توہین آمیز دعوے: ناممکن کو ناممکن رہنے دیں

خیر آبادی کی تنقید کا تجزیہ مکمل کرنے کے لیے میں امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) اور امکان نظیر (خدا کا حضرت محمد ﷺ کی نظیر پیدا کرنے کا امکان) سے متعلق شاہ اسماعیل کے خیالات کی تردید کے لیے ان کے استدلال کے کلیدی پہلوؤں کا نمایاں کرتا ہوں۔ یاد کریں کہ اس سیاق میں شاہ اسماعیل کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ایسے واقعات کبھی وقوع پذیر نہیں ہوں گے، اور اسی وجہ سے یہ بالواسطہ ناممکن (ممتنع بالغیر) ہیں، تاہم وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ناممکن (ممتنع بالذات) نہیں۔ خدا نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، نہ کبھی وہ ایک اور محمد کو پیدا کرے گا، لیکن اگر وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے؛ امکان کبھی وقوع کے اندر داخل نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس خیر آبادی کی نظر میں یہ موقف عقلی ونقلی دونوں اعتبار سے ناقابل دفاع ہے، اور اخلاقی طور پر بھی ناپسندیدہ اور متنازع ہے۔ ایک اور محمد کے امکان کا مطلب ایک اور نبی کا امکان ہے جو قرآن کریم کی نص قطعی کو غلط قرار دینے کا تقاضا کرتا ہے (152 – 153)۔ اس لیے کہ قرآن کی ایک مشہور آیت میں پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے: "محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں؛ (اس کے بجاے) وہ خدا کے رسول اور خاتم النبیین ہیں"1۔

خیر آبادی نے اپنے قارئین اور عوام سے تقاضا کیا کہ وہ شاہ اسماعیل کے دعووں کو ہلکا نہ لیں۔ وہ یہ دعوی نہیں کر رہا کہ کوئی اور ہستی محمد ﷺ کے ساتھ انسانیت میں شریک ہے؛ اس دعوے میں کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں اور یہ بمشکل ہی کسی اختلاف کا موضوع بن سکتا ہے۔ خیر آبادی نے شدید تنبیہ کی کہ شاہ  اسماعیل نے یہ نہیں کہا، بلکہ ایک ایسی ہستی کے امکان کا دعوی کیا ہے جو محمد ﷺ کے ساتھ ان کے اوصاف کاملہ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام کمالات میں سب سے اعلی کمال یعنی نبوت میں شریک ہو۔

خیر آبادی نے اپنے قارئین کو خبر دار کیا کہ وہ شاہ اسماعیل کی شعبدہ بازی سے ہوشیار رہیں کہ وہ محض دکھاوے کی خاطر ایک اور محمد کے وقوع کے بجاے صرف امکان کا اثبات کر رہے ہیں۔ شاہ اسماعیل کا اصل مقصد اور زور ایک دوسرے محمد کی پیدائش کے وقوع پر ہے، چاہے وہ اس کے برعکس جس چیز پر بھی اصرار کرے، اور یہ بات اس اسلوب سے واضح ہے جس میں انھوں نے یہ دعوے کیے ہیں۔ خیر آبادی نے بطور خاص اپنے قارئین کو توجہ دلائی کہ وہ اردو کی اس ترکیب "کر ڈالے" کا معنوی جائزہ لیں اور تجزیہ کریں، جو شاہ اسماعیل نے تقویۃ الایمان میں امکانِ نظیر کے لیے استدلال کرتے وقت استعمال کی ہے (اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکمِ کن سے چاہے تو کروڑوں نبی وولی وجن وفرشتے، جبرئیل اور محمد ﷺ کے برابر پیدا کر ڈالے)۔ یہ ایک دل چسپ استدلال تھا جس میں خیر آبادی نے، جو خود فارسی میں لکھ رہے تھے، اردو کے معنوی پہلوؤں پر تحقیق کی ہے۔ خیر آبادی نے واضح کیا کہ اگر شاہ اسماعیل  کا مقصد محمد کی امکانِ نظیر کا اثبات ہوتا تو وہ اس کے لیے "کر سکے" (یعنی خدا چاہے تو ایسا کر سکے) کی سیدھی اور سادہ تعبیر استعمال کر سکتے تھے (348)۔ "کر ڈالنے" اور "کر سکنے" کے درمیان فرق یہ ہے کہ مؤخر الذکر سے مراد کسی عمل کے شروع کرنے کا امکان ہے، جب کہ اول الذکر کسی عمل کے واقعی سرانجام دینے پر زور دیتا ہے۔

"کر ڈالنے کا مطلب فعل کا واقع کرنا اور وجود میں لانا ہے، نہ کہ اس فعل پر قادر ہونا اور کر سکنا" (معنی "کر ڈالنا" القاء فعل وبوجود آوردن است، نہ قدرت وتوان بر آں) (348)۔

خیر آبادی نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ اگر شاہ اسماعیل کا مقصد خدا کا لاکھوں محمد پیدا کرنے کی قدرت یا امکان کا اثبات ہوتا تو وہ "کر ڈالنا" کے بجاے "کر سکنا" کی تعبیر استعمال کرتے (ترجمۂ قدرت وتوان در زبانِ اردو 'کر سکنا' است نہ 'کر ڈالنا') (348)۔

لیکن خیر آبادی کی نظر میں معنوی مسائل شاہ اسماعیل کے سراسر گمراہ کن اور خطرناک آرا کا صرف ایک پہلو تھے۔ اس سے زیادہ خطرے کی بات یہ تھی کہ شاہ اسماعیل نے قرآنی آیات سے جس انداز میں خدا کی اس قدرت کا اثبات کیا کہ وہ جان دار اور بے جان ہستیوں کو صرف لفظ "ہوجا!" (القرآن 3 : 59؛ 36 : 81 – 82) سے پیدا کر سکتا ہے، وہ انتہائی ناقص تھا۔ اس تفسیری نکتے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اطلاق محمد ﷺ کی ذات پر نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں خیر آبادی نے اصرار کیا  کہ شاہ اسماعیل کا استدلال صرف اس صورت میں درست مانا جا سکتا ہے جب ان قرآنی آیات کو ان کے اپنے سیاق سے مکمل کاٹ کر مطالعہ کیا جائے۔ مثلاً‌ اس آیت کو لیجیے جسے شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں پیش کیا ہے: "بھلا جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا،  وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں! جب کہ وہ سب کچھ پیدا کرنے کی پوری مہارت رکھتا ہے۔ اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ: 'ہو جا' بس وہ ہو جاتی ہے"2۔

اس آیت کو اپنے لیے استدلال میں پیش کرتے وقت شاہ اسماعیل کی علمی ناکامی یہ ہے کہ ان کو یہ پتا نہیں چلا کہ اس کے مخاطبین کون ہیں۔ خیر آبادی نے شاہ اسماعیل کو سمجھایا کہ  اس آیت کے اصل مخاطبین وہ ضدی کافر ہیں جو آخرت کا انکار کرتے تھے، اور خدا کی اس قدرت کی تردید کرتے تھے کہ وہ روز قیامت کو انسانی جسم اور ہڈیوں کو دوبارہ جوڑ کر پیدا کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس سے چند آیات پہلے مذکور ہے، کفار مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے تھے: "کون ہڈیوں کو (از سرِ نو) زندہ کر سکتا ہے، جب وہ ریزہ ریزہ ہو چکی ہوں؟" (من يحي العظام وهي رميم)3۔ مذکورہ آیت اس اعتراض کا جواب تھا۔ اگر خدا زمین وآسمان جیسی بڑی اور طاقتور مخلوقات کو پیدا کر سکتا ہے تو وہ معمولی اور حقیر انسانی جسموں، ہڈیوں اور اعضا کو کیوں از سرِ نو پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھ سکتا؟ (پس مدلولِ آیت تصحیح قدرت بر اعادۂ ابدان ورفع استبعادِ منکران است") (364)۔ خیر آبادی نے زور دے کر بتایا کہ "ان کی طرح (مثلھم) کی تعبیر"سے انسانی جسم کی کمزوری اور حقارت کی طرف اشارہ ہے" (مراد از مثال در ایں جا مثال است در اجزاے بدنی۔۔ مثال در کوتاہی وحقارت است) (364)۔ اس لیے اس میں جامع الکمالات نبی اکرم ﷺ کی نظیر کی طرف ایک خفیف اشارہ بھی نہیں۔

"مثل سے مراد یہ نہیں کہ وہ تمام کمالات میں مماثل ہو، کیوں کہ حشر جسمانی اور اعادۂ ابدان سے، تمام کمالات میں مماثل ہونا کسی طرح تعلق اور مناسبت نہیں رکھتا" (ذکر مثال در جامعِ کمالات از بیانِ حشرِ جسمانی واعادۂ ابدان بوجہے تعلق ومناسب ندارد) (364 – 65)۔ ایسی قرآنی آیت پیش کرنا جو اول الذکر معنی میں ہو، اور اس سے مؤخر الذکر معنی کے لیے استدلال کرنا کسی بھی عالم فاضل کی شان سے بعید ہے۔ خیر آبادی نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا  کہ قرآنی آیت کی ایسی انوکھی تفسیر شاہ اسماعیل جیسے بیان ومعانی کے عالمِ یگانہ کی تفسیر دانی کی دلیل ہے!

خیر آبادی کے تجزیے کے مطابق علم تفسیر میں شاہ اسماعیل کی نارسائی کی ایک اور دلیل امکان نظیر کے لیے درج ذیل قرآنی آیت سے استدلال ہے: "اللہ کے ہاں اسماعیل کی مثال آدم علیہ السلام کی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے کہا 'ہو جا' سو وہ ہو گیا"4۔  خیر آبادی کی نظر میں، شاہ اسماعیل گذشتہ مثال کی طرح  یہاں بھی قیاس مع الفارق سے کام لے رہا تھے۔ بن باپ کے پیدا ہونے میں مسیح اور آدم علیہما السلام کے درمیان جو مماثلت ہے، اس کا انطباق نبی اکرم ﷺ کی دوبارہ تخلیق (امکانِ نظیر) پر نہیں ہو سکتا۔ خیر آبادی نے واضح کیا کہ شاہ اسماعیل کے استدلال میں بنیادی نقص یہ ہے کہ وہ اوصاف کی مختلف قسموں کو درخورِ اعتنا سمجھنے میں ناکام رہے۔

انھوں نے اپنے قارئین کو متوجہ کیا کہ اوصاف دو قسم کے ہیں: وہ جن کا دو چیزوں کے درمیان اشتراک ممکن (ممکن الاشتراک) ہو، اور وہ جو ممکن الاشتراک نہ ہوں (366)۔ حضرت آدم اور حضرت عیسی علیہما السلام دونوں کی باپ کے بغیر پیدائش پہلی قسم کے اوصاف میں سے ہے۔ بغیر باپ کے آدم علیہ السلام کی پیدائش عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس وصف میں شرکت سے مانع نہیں۔ تاہم اس کے برعکس حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت ایک ایسا وصف ہے جس سے متصف ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ کوئی دوسرا فرد اس صفت سے متصف نہ ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر شاہ اسماعیل کا قیاس اور نتیجتاً ان کا استدلال مکمل طور پر باطل ہو جاتا ہے۔

اس مقدمے کو قابل سماعت بنانے کے لیے، خیر آبادی نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ شاہ اسماعیل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ حضور ﷺ کے تمام اوصاف کو پہلی قسم سے ثابت کریں جن کا اشتراک ممکن ہو (در صورتِ قابلِ سماعت تواند بود کہ ایں قائل او باثبات رساند کہ جامعِ اوصاف کہ در ذاتِ ستودہ صفاتِ آں حضرت۔۔۔ موجود بودہ اند از قسم اول یعنی ممکن الاشتراک اند) (367)۔ اس سے ایک لاینحل تناقض جنم لیتا ہے۔ اگر محمد ﷺ کی صفتِ ختم نبوت میں ان کے ساتھ کوئی شریک ہو سکتا ہے تو پھر یہ ختم نبوت ہے ہی نہیں۔ اور اگر ختم نبوت اپنی اصل کے اعتبار سے صرف محمد ﷺ کے ساتھ خاص ہو تو پھر ایک دوسرے محمد کا امکان  موجود ہی نہیں۔ شاہ اسماعیل کا استدلال جس طرف  بھی آگے بڑھتا ہے، خم ٹھونک کر اس کا ناطقہ بند کیا جاتا ہے۔

نہیں، خدا جھوٹ نہیں بول سکتا!

خیر آبادی اپنا تجزیہ جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  بعینہ نظری اصطلاحات کے ذریعے سوچنا وہ بے احتیاطی  اور نالائقی ہے جس نے خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان (امکانِ کذب) کے حق میں شاہ اسماعیل کے استدلال کو دور از کار بنا دیا ہے۔ وہ شاہ اسماعیل کے اس استدلال پر بطورِ خاص غضب ناک ہیں کہ اگر خدا جھوٹ بولنے کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر انسانی قدرت اس کی قدرت سے بڑھ جائے گی۔ خیر آبادی نے شاہ اسماعیل پر ملامت کی  کہ اس گمراہ کن استدلال میں جس بات پر غور نہیں کیا گیا،  وہ یہ کہ قدرت کی دو قسمیں ہیں: قدرتِ کاملہ جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہے، اور قدرتِ ناقصہ جو خدا کی مخلوق کی صفت ہے۔ دوسری قسم جس میں نقص وعیب کے اعمال مثلاً‌ جھوٹ بولنا شامل ہیں، وہ پہلی قسم سے مرتبے میں انتہائی فروتر ہے (بمراتب غیر متناہیہ ناقص است) (354) قدرت کی ان دونوں قسموں میں زمین وآسمان کا فرق اور امتیاز ہے۔

اس لیے اگر انسان کسی نقص مثلاً‌ جھوٹ بولنے کی قدرت رکھتے ہیں اور خدا نہیں رکھتا، تو اس سے کسی بھی صورت میں خدا کی قدرتِ کاملہ کی نفی نہیں ہوتی۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں کی قدرت خدا کی قدرت سے بڑھ گئی۔ خیر آبادی نے ایک بار پھر شاہ اسماعیل کو سمجھایا کہ  اس کے اثبات کے لیے ضروری ہے کہ  پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ انسانی قدرتِ الٰہی قدرت پر مشتمل ہے۔ "شاید 'زیادہ' کے لفظ کا معنی ان کے خیال شریف میں نہیں آیا ہوگا" خیر آبادی نے طنز بھرے لہجے میں کہا (شاید معنی لفظ 'زیادت' بخیال شریف نگزاشت) (354)۔ خیر آبادی نے واضح کیا  کہ تعبیر وتشریح کی تمام جھنجھٹوں کو تو جانے دیں، صرف یہ سوال اٹھانا کہ خدا جھوٹ بولنے کا قبیح اور شرم ناک فعل سر انجام دے سکتا ہے،  شاہ اسماعیل کے دماغ میں موجود زہریلے خیالات پر دلالت کرتا ہے۔ "وہ (اسماعیل) تسلیم کرتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایک شرم ناک نقص ہے، پھر بھی اسے خدا کی طرف جھوٹ بولنے کے امکان کی نسبت کرنے میں کوئی باک نہیں۔ اس سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ وہ خدا کے ناقص اور عیب دار ہونے پر راضی ہے" (352)۔

خیر آبادی کی نظر میں شاہ اسماعیل کی طرف سے ارادی طور پر ایسے گستاخانہ استدلالات بغیر کسی شک وشبہہ کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ محمد ﷺ، دیگر انبیا، فرشتوں اور اولیا کے متعلق ان کے توہین آمیز بیانات ایک گرما گرم مباحثے میں کوئی جذباتی ردعمل نہیں۔  اس کے بجاے ان بیانات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصل عقیدہ کیا ہے۔ وہ شخص جس کے گستاخانہ بیانات کے ہتھوڑے سے خدا کی ذات تک محفوظ نہیں، اس سے کیا بعید ہے کہ وہ خدا کی مخلوق بشمول نبی ﷺ کی گستاخی کرے، خیر آبادی نے نتیجہ اخذ کیا۔

خبر لیجیے دہن بگڑا

خیر آبادی کو شاید شاہ اسماعیل کی بدنامِ زمانہ گستاخیوں سے کہیں زیادہ ان تعبیرات اور عوام پر ان کے ممکنہ اثرات سے مسئلہ تھا جن کے ذریعے شاہ اسماعیل نے اپنی ان آرا کے لیے استدلال کیا تھا۔ اس منہاج میں تعبیر کا سوال بھی کلیدی تھا جس نے خیر آبادی کی تنقید کو ان کے سیاسی الہیات سے جوڑا۔  تقویۃ الایمان میں حضور ﷺ سے متعلق شاہ اسماعیل کے مفروضہ دعووں کو حضور ﷺ کی شان میں گستاخی ثابت کرنے کے لیے خیر آبادی نے چند اثر انگیز نکات کا ایک مجموعہ پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس بات کا انحصار کہ کون سا کلام گستاخانہ یا توہین آمیز ہے، اس کلام کے سچ یا جھوٹ ہونے پر نہیں بلکہ اس کلام کے متکلم اور تناظر پر ہے۔

اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے خیر آبادی ایک بار پھر شاہی دربار کی منظر کشی کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک فرضی مثال پیش کی کہ سوچو، اگر ایک بادشاہ اپنی شان وشوکت کے اظہار کے لیے اپنے دربار کے انتہائی مقرب اور مکرم وزیر اعظم سے کہے: "اگر میں چاہوں تو تم سے وزارت چھین لوں، رعایا کے کسی معمولی آدمی کو تمھارے منصب پر فائز کردوں، اور تمھیں جیل بھیج دوں، یا تمھیں تختۂ دار پر لٹکا دوں"۔ باوجودیکہ یہ الفاظ کافی سخت ہیں، پھر بھی ایک طاقت ور بادشاہ کی زبان سے یہ کلام وزیر کی شان میں تخفیف نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی معمولی سپاہی یہ کہے کہ اگر بادشاہ چاہے تو وہ یہ سب کام سر انجام دے سکتا ہے تو یہ ایک معزز وزیر کی انتہائی تذلیل ہے (370)۔

اسی طرح الہیاتی دائرے میں وہ قرآنی آیات جن میں آپ ﷺ کی انسانی حیثیت کو اس طرح واضح کیا گیا ہے جیسے: "میں تمھاری طرح ایک انسان ہوں" (القرآن 18 : 110) حضور ﷺ کی عظمتِ شان کے منافی نہیں (371)۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ لیکن حضور ﷺ کی امت کے ایک معمولی فرد کو ان الفاظ کے کہنے کا حق حاصل نہیں؛ اور ایسا کرنا حضور ﷺ کی توہین کے مترادف ہوگا۔  ایک ممکنہ اعتراض کے اٹھنے سے پہلے اس کا جواب دیتے ہوئے خیر آبادی نے واضح کیا کہ قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کو گستاخی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہاں پر ان کا استدلال دل چسپ تھا۔  ایسا اس لیے ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے وقت ایک انسان صرف اللہ تعالیٰ کے کلام کو دہرا رہا ہوتا ہے؛ یہ الفاظ قاری کے اپنے نہیں ہوتے، اور اسی وجہ سے ان میں موجود معانی کے لیے وہ جواب دہ بھی نہیں ہوتا (372)۔ لیکن قصداً ایسے جملے کہنا کہ "خدا کئی لاکھ نئے محمد پیدا کر ڈالے" سراسر ان آداب کے خلاف ہے جنھیں حضور ﷺ سے متعلق کسی قسم کی گفتگو میں برتنا ضروری ہے۔

خیر آبادی نے بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ شاہ اسماعیل نے پوری ڈھٹائی سے حضور ﷺ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے ایسے مبہم اعتقادی چیستان جیسے "ممتنع بالذات" اور "ممتنع بالغیر" کے تصورات جنھیں صرف خواص اہل علم سمجھ سکتے ہیں، بنا کر عوام کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔ خیر آبادی کی نظر میں اگر شاہ اسماعیل کے دلائل مکمل طور پر مضبوط اور درست بھی ہوں، تب بھی انھیں خواص اہل علم کے بجاے عامۃ الناس کے سامنے پیش کرنا ان میں فکری انتشار اور الجھن کے بیج بوئے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خیر آبادی کو تقویۃ الایمان کی زبان، مثالوں اور عام فہم اردو سے سخت چڑ تھی۔ وہ حسرت آمیز انداز میں لکھتے ہیں: "اسماعیل کو کیا ضرورت تھی کہ اپنی کتاب عام فہم زبان میں لکھتے؟ اور توحید کے اثبات کے لیے کیا لاکھوں دوسرے محمد پیدا کرنے کے امکان کے علاوہ کوئی اور مثال نہیں تھی؟" (445)5۔

شاہ اسماعیل نے اس الزام کا جواب کس طرح دیا ہوگا کہ وہ ایک گستاخ ہیں  جو معصوم عوام کے عقیدے کو خراب کر رہے ہیں؟ جو اشارے انھوں نے چھوڑے ہیں، ان سے واضح ہے کہ انھوں نے اپنی اصلاحی فکر اور جد وجہد کی ایسی خطرناک تصویر کشی سے شدید اختلاف کیا۔ خیر آبادی کی نظر میں جو بات انتشار وافتراق کا سبب تھی، شاہ اسماعیل کے لیے وہ اخلاقی زوال اور شکست وریخت کے ایک تاریخی لمحے میں درکار واضح اور صحیح فکر کی نمائندگی تھی۔ ادب آداب اور مقام نبوت کے نام پر ان حساس اعتقادی مسائل کو عوام کی نظروں سے چھپانے کے بجاے زیادہ دانش مندانہ رویہ یہ ہے کہ ان کو طشت از بام کیا جائے، شاہ اسماعیل نے بتایا۔ بلکہ انھوں نے دعوی کیا کہ ایسا نہ کرنے کی وجہ سے عوام میں الجھن، اضطراب اور بے چینی روز افزوں ہے۔

اس الزم کے جواب میں کہ شاہ اسماعیل نے حضور ﷺ کی گستاخی کی ہے، انھوں نے یک روزہ میں لکھا: "خدا کے ہاں حضور ﷺ کی عبدیت کا اثبات کسی قسم کی بے ادبی یا عوام کو گمراہ کرنا نہیں، بلکہ حضور ﷺ کی عبدیت کا اظہار دین کے حتمی مقاصد میں سے ہے" (تنقیصِ آں جناب بہ نسبتِ حضرتِ حق  اصلاً اساءتِ ادب بآں جناب واضلال عوام نیست، بلکہ اظہارِ عبودیتِ آں جناب است کہ از اتم مقاصدِ دین است6۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کون سی چیز گستاخی ہے اور کون سی نہیں، اس سوال کے جواب میں شاہ اسماعیل اور خیر آبادی دونوں کی آرا خدائی حاکمیت، حضور ﷺ کی شخصیت اور رفعتِ شان اور عوام کے روز مرہ اعمال کے حریف تصورات پر مبنی تھیں۔ بالفاظ دیگر آداب کلام سے متعلق ان کا اختلاف ان کے دیگر عمومی اختلافات کی طرح ان کی، متوازی سیاسی الہیات سے متاثر تھا۔

متوازی سیاسی الہیات

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں خیر آبادی یا شاہ اسماعیل کے الہیاتی اور سیاسی تصورات کے درمیان سادہ عِلّیت (causality) کا فرق تجویز نہیں کرتا۔ اس کے برعکس میں دینیات اور سیاسیات کو ایسے دو الگ فکری دائروں کے طور پر دیکھنے میں تردد کرتا ہوں، جن میں ایک کو دوسرے کے لیے بآسانی علت قرار دیا جا سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے اس حصے میں، میں نے کوشش کی ہے کہ عمومی تصور کے برعکس، سیاست کے عام طور پر نظر انداز کیے گئے ان تصورات کی تحقیق کروں جو خدائی حاکمیت اور نبوی اختیار جیسے بظاہر اعتقادی تصورات پر مرکوز استدلالات کی بنیاد بنتے ہیں۔ میں نے دینیات اور سیاسیات کی علیت کے بجائے معاصرت (synchronicity) کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ اس حصے میں بیان کیا گیا مناظرانہ دور سیاسی الہیات کے دو یکسر حریف بیانیوں کو سامنے لاتا ہے۔

شاہ اسماعیل نے ایک ایسے وسیع تر سیاسی پروگرام کے حصے کے طور پر حضور ﷺ کی بشریت پر زور دیا، جو انفرادی آزادی کے امکان کو خدائی حاکمیت کی مطلق یکتائی (توحید) پر غیر مشروط ایمان سے جوڑتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی نظر میں استثنا کو قانونی شکل دینے کی قدرتِ الہیہ میں کسی قسم کا خلل پیدا کرنا ناگزیر طور پر اس کی حاکمیت کی یکتائی (توحید) کو کمزور کرتا ہے۔ اس کے برعکس خیر آبادی کے نزدیک ایک ایسے کائناتی درجات ومراتب کا تصور بھی کفر تھا جس کا مرکز حضور ﷺ کی ذات نہ ہو۔ مزید برآں، ان کی نظر میں (قانون سے) استثنا ایک ایسا تحفہ تھا جو بارگاہ الہی میں کسی ہستی کو دیے جانے والے اعزاز کا اعتراف تھا۔ شفاعت کے خدائی تحفے نے ایک معزز وبرتر ہستی کی حیثیت سے حضور ﷺ کے مقام ومرتبے کو محفوظ کیا۔ مزید برآں اسی تحفے نے آخرت میں حضور ﷺ کی رفعت شان کے تسلسل کو یقینی بنایا۔

اس لیے خیر آبادی کی نظر میں شفاعت کا تحفہ چھیننے کی کوئی بھی کوشش ایک ناقابل برداشت اعتقادی خرابی ہے، اور دین کی منطق ومعقولیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا ہےجو حضور ﷺ کی استثنائی حیثیت کی وجہ سے قائم تھی۔ یہی وہ بنیادی خطرہ تھا جس نے انھیں شاہ اسماعیل کی تکفیر پر مجبور کیا۔ شاہ اسماعیل اور خیر آبادی دونوں کی نظر میں سیاسی اور الہیاتی تصورات ناگزیر طور پر باہم گندھے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے سیاسی الہیات کے دھارے ایک دوسرے کے سراسر مخالف تھے۔

استعماری طاقت اور مقامی اصلاحی تحریکوں کے درمیان تعامل

شفاعتِ نبوی پر فضل حق خیر آبادی اور شاہ محمد اسماعیل کا اختلاف انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان میں حاکمیت اعلیٰ کی سماجیات کے بارے میں ایک اہم تصویر فراہم کرتا ہے۔ یہ تنازع برصغیر کی سیاسی تاریخ کے ایک مخصوص موڑ پر کھڑا ہوا جب برطانوی استعمار کو عروج اور مغلیہ سلطنت کو زوال ہو رہا تھا۔ جیسا کہ کارل شمٹ نے بتایا ہے، سیاسی اور الہیاتی تصورات ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ گندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ مغربی جدیدیت کے بیانیے کی خصوصیت ایک ایسی سیاسی الہیات کا ظہور ہے، جس میں حاکمیت کا مرکز جدید شہری کی ذات کو منتقل ہوا۔ علاوہ ازیں اس نئے سیاسی عقیدے میں ایک ایسا عقلی بیانیہ مستور تھا جس نے مذہب کی استثنائی حیثیت پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ استثنا کو قانونی شکل دینے کے اختیار پر جدید ریاست بتدریج اپنا حق جتا رہی تھی۔

لیکن اس باب میں بیان کردہ مناظرانہ دور کس طرح شمٹ کے سیاسی الہیات کے تصور کے حدود کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ ذرا زیادہ کھل کر بات کی جائے تو  کیا اس اختلاف کو ایک نئے ابھرنے والے جدید سیکولر شعور اور ایک روایتی سماجی تصور کے درمیان کش مکش کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا ہم شاہ اسماعیل کو ایک ایسے مقامی مصلح کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں جو اپنی سیاسی الٰہیات کے ذریعے ایک جدید عقلی تصور کو فروغ دے رہا تھا، جو توسّل، امتیازات اور مراعات کا ناقد تھا؟ بالفاظِ دیگر کیا خدائی حاکمیت کے لیے بظاہر خطرہ بننے والی رسومات کو ناجائز قرار دینے سے ان کا مقصد برصغیر میں ایک نئی ابھرنے والی، استعمار کی پروردہ پروٹسٹنٹ اسلامی جدیدیت کا اظہار تھا؟ چند وجوہات کی بنیاد پر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے، شاہ اسماعیل کا وجودی الہیاتی (ontotheological) فکری منہج ناگزیر طور پرہندوستانی مسلمانوں کی ایسی شناخت کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو عوامی دائرے میں خدائی حاکمیت کی تصدیق کرے۔ اس لیے ان کی ماورائی الہیات کا مرکزی موضوع جس قدر خدا ہے، اسی قدر ایک اصلاح شدہ ہندوستانی فرد کی تشکیل بھی ہے۔ شفاعت نبوی کے خلاف شاہ اسماعیل کا استدلال قوم پرستانہ معنی میں  عوامی حاکمیت کی آب یاری کی دعوت نہیں۔ تاہم ان کے سیاسی الہیات کا مرکزی نکتہ ایک ایسے فرد کی تشکیل ہے  جو خدائی حاکمیت کی یکسر یکتائی کی تصدیق سے خدا کی انتہائی قربت حاصل کرے۔ اس قسم کی وجودی الہیاتی (ontotheological) سیاسی الہیات، حاکمیت کے جدید تصور سے متعلق شمٹ کے بیان سے بالکل ہم آہنگ نظر آتی ہے جہاں: "لوگوں کا ارادہ خدا کے ارادے کے مماثل بن جاتا ہے؛ لوگوں کی آواز ہی میں خدا کی آواز سنائی دیتی ہے"7۔  اٹھارویں اور انیسویں صدی میں امریکا کی تبلیغی  وتبشیری (evangelical) روایت کے مؤرخین مثلاً جان ماڈرن (John Modern) اور مائیکل وارنر (Michael Warner) نے بتایا ہے کہ امریکی سیکولرازم اور اصلاح مذہب کی تاریخ ایک دوسرے سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں8۔

ان مصنفین نے بتایا ہے کہ مذہب کی قدیم صورت پر ایونجیلیکل فرقے کے لوگوں کی تنقید مذہب کی ایک ایسی اخلاقی تفہیم کے لیے شدید اہم تھی، جو داخلی تزکیے اور ماورا (transcendent) کی قربت پر زور دیتی ہو۔ نتیجتاً مذہب کے اس نئے تصور نے اخلاقی اور سیاسی پروجیکٹ کی حیثیت سے سیکولرزم کی سہولت کاری اور فروغ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سیکولر طاقت اور ایونجیلیکل اصلاح کے درمیان تعلق کے ماڈل کا شاہ اسماعیل کے پروجیکٹ پر بیک وقت انطباق ہو بھی سکتا ہے، اور نہیں بھی۔

ایک طرف شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کی اصلاحی تحریکیں انیسویں صدی کے ہندوستان میں برطانیہ کی متعارف کردہ ٹیکنالوجی اور ادارہ جاتی صورتِ حال کی مرہونِ منت ہیں۔ زبانوں کو عام فہم بنانا، جس کے نتیجے میں اردو ہندوستان کے اہل علم اشرافیہ کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر ابھری، نشر واشاعت میں توسیع، تجارت وابلاغ کے ذرائع کا پھلنا پھولنا، یہ  وہ تمام تغیرات ہیں جنھوں نے شاہ اسماعیل جیسے مسلم مصلحین کی اصلاحی تحریکوں کی نمو وافزائش میں اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً تقویۃ الایمان کی اشاعت وترسیل جس پیمانے پر ہوئی، برطانیہ کی متعارف کردہ ٹیکنالوجی سے پہلے اس کا تصور بھی ناممکن تھا9۔ لیکن ان سب کے باوجود مسلم اصلاحی تحریکوں کو استعماری جدیدیت کی پیداوار قرار دینے کی کچھ حدود ہیں جنھیں واضح کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔

خدائی حاکمیت کی بحالی کی خواہاں مسلم اصلاحی فکر اور مذہب کے جدید استعماری بیانیوں کے درمیان ایک واضح قربت کا ادراک کوئی مشکل بات نہیں۔یہ دونوں فکری دھارے اس کوشش میں تھے کہ فرد (یا مومن) کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ بغیر کسی توسّل کے براہ راست ایک ماورائی حقیقت (خدا یا اس کے برعکس) تک رسائی حاصل کر سکے۔ ان دونوں کا مقصد ماورا کی اولیت کا تحفظ تھا۔ تاہم اس واضح قربت کا یہ مطلب نہیں کہ ان دونوں دھاروں کے درمیان تعلق تنفیذ (imposition) یا رد عمل کا ہے۔

شاہ اسماعیل کے اصلاحی پروجیکٹ کا مخصوص دھارا اور تصور اگر چہ استعماری طاقت کی پیدا کردہ صورت حال کی مرہون منت ہے، تاہم وہ پروٹسٹنٹ اسلام کے منہاج میں پوری طرح سے ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ برصغیر کی دیگر اصلاحی تحریکوں سے، جو عام طور پر جدید استعماری علم کی پیداوار تصور کی جاتی ہیں، موازنہ کرکے اس نکتے کی تنقیح کی جا سکتی ہے۔

شاید اس نکتے کی سب سے عمدہ مثال استعماری ہندوستان میں سکھ اصلاحی فکر پر اروند منڈیر کی کاوش میں پائی جاتی ہے10۔ ذیل میں میرا مقصد منڈیر کے استدلال سے اختلاف نہیں، بلکہ اس کے برعکس مجھے اس کا تجزیہ انتہائی اطمینان بخش معلوم ہوتا ہے۔ سکھ اصلاحی فکر سے متعلق اس کے منہج پر بحث کرنے کے بجاے میں چاہتا ہوں کہ برصغیر میں استعماری طاقت کے ساتھ مذہبی اصلاح کے تعامل کی متنوع مثالوں کی بنت میں موجود باریک لیکن نمایاں اختلافات کی نشان دہی کروں۔

اس پیچیدہ تجزیے کو آسان الفاظ میں بیان کرنے کے لیے منڈیر رقم طراز ہے کہ سکھوں کی اصلاحی تحریکوں مثلاً سنگھ سبھا (جو 1873 میں قائم ہوئی) نے سکھ مذہب کو ایک عالمی توحیدی مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جس کے پاس واضح الہیات ہیں۔ انھوں نے ایسا استعمار کے علمی دھارے کی تقلید اور ردعمل میں کیا جو کسی دین میں قادر مطلق خدا کی عدم موجودگی کو عیب سمجھتا ہے ۔

عالمی مذاہب کی انجمن میں شمولیت کے لیے اس عیب کو دور کرنا ایک بنیادی شرط تھا۔ اس عیب کو دور کرنے کی جستجو میں سنگھ سبھا کے مصلحین نے "سِکھی" کی تبدیلی اور تشکیل نئی سکھ مت (neo-Sikhism) کے جدید مذہب سے کی، جس میں سارا زور قادر مطلق خدا کی ہستی (توحید) پر ہے۔ منڈیر نے اس عمل کے لیے "مذہب سازی" کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے انداز میں غالب اور پہلے سے موجود استعماری محاورے کو اپنی روایت کی تشکیلِ نو کے لیے تصرف کیا جائے جو غالب محاورے کے مذہبی تصور سے ہم آہنگی رکھتا ہو۔ تاہم عالمی مذاہب کی انجمن میں، جو مغربی اور مسیحی تصور کی پیداوار ہے، داخلے کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ "مذہب سازی" ان ابہامات اور امکانات کو بھی بے دخل کرتی ہے جو کسی روایت کے ماقبل استعماری ورثے میں موجود ہوتے ہیں11۔

یہاں پر میرے مقصد کے لیے منڈیر کی گفتگو کا سب سے نمایاں پہلو وہ انداز ہے جس میں وہ طاقت کے اس نظام مراتب کو پیش کرتا ہے، جس میں کوئی بھی فکر استعمار سے مستعمر تک آنے کا سفر طے کرتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ استعمار/مستعمر کے تعلق کو استعمار کے محاورے (یا 'پہلے محاورے') اور اس  محاورے کے درمیان جو استعمار سے تعامل کے ذریعے مستعمر تشکیل دیتا ہے، درجات کے فرق کی اصطلاح میں بیان کیا جائے۔ پہلا محاورہ برطانیہ نے فراہم کیا۔ اس میں استعمار کے ادارے، نظریات، زبان اور فکری ورثہ شامل ہے – ہندوستانیات، نسلیات (ethnography) اور مشنری لٹریچر کے ذریعے مقامی روایات پر ان کی تنقید کو فی الحال جانے دیں12۔

درجہ بندی کے اس نظام کے مطابق، یہ استعماری محاورے کے تسلط کا نتیجہ تھا کہ مقامی علمی اشرافیہ کے علمی افکار اور اصلاحی تحریکوں کا تصور وتشکیل ممکن ہوا۔

برصغیر میں انیسویں صدی کے اواخر میں دیگر اصلاحی تحریکوں کے افکار میں بھی مقامی مذہب کی استعماری عقلیت سے ہم آہنگی کی ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ پس منظر اور مقاصد کے اختلاف کے باوجود یہاں پر براہمو سماج، آریہ سماج، علی گڑھ سکول، اور سنہالی بدھ مصلحین، جن کے لیے گناناتھ اوبیسیکرے (Gananath Obeysekere) نے "پروٹسٹنٹ بدھ ازم" کی اصطلاح استعمال کی ہے، کا ذکر کیا جا سکتا ہے"13۔

باوجودیکہ ان سب تحریکوں میں واضح مشترکات ہیں، شاہ اسماعیل کا معاملہ ان اصلاحی دھاروں سے نسبتاً مختلف ہے۔ شاہ اسماعیل انیسویں صدی کے أواخر سے چند  دہائیاں قبل وفات پا چکے تھے جب یہ اصلاحی دھارے پھلے پھولے۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ ان کی بنیادی تربیت ان تحریکوں کے پیش روؤں کے برعکس، جو یا تو استعماری عہد میں سراپا ڈوب گئے تھے یا انگریزی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے، بالکل مختلف انداز میں ہوئی تھی۔ ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس سے یہ ثابت کیا جائے کہ شاہ اسماعیل مذہب کے بارے میں استعماری علوم سے واقف تھے، یا انھوں نے برطانوی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے خدائی حاکمیت کی بحالی کے لیے ان کی کوشش یا توسل پر ان کی تنقید کو جدید استعماری علم کی دین نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اس کے بجاے یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ شاہ اسماعیل کا اصلاحی پروگرام مذہب کی ایک جدید پروٹسٹنٹ تفہیم سے مشابہ ہے، لیکن اس کی پیداوار نہیں ہے۔ خدائی حاکمیت پر ان کی فکر مذہبی استناد کے استعماری بیانیوں سے مماثل ہو سکتی ہے، لیکن یہ استعماری فکر کا چربہ نہیں ہے۔ وہ فکری مفروضے اور استدلالات جو اس کے اصلاحی ایجنڈے میں کار فرما تھے، ان پر استعماری طاقت کی طرف سے نہیں تھوپے گئے تھے، اگر چہ اس طاقت نے وہ حالات پیدا کر دیے تھے جو اس ایجنڈے کی اشاعت میں معاون تھے۔

ایک ابھرنے والے استعماری نظام کے حالات نے، جس میں سیاسی اقتدار زوال پذیر تھا،یقیناً شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کی اصلاحی تحریکوں کو ممکن بنایا۔ علاوہ ازیں ایسا بھی نہیں کہ شاہ اسماعیل نے استعماری طاقت سے کوئی اختلاف یا سمجھوتا نہیں کیا۔ انھوں نے یقیناً کیا جس کی سب سے بہترین مثال دلی میں برطانوی ریزیڈنٹ کی جانب سے ان کے خطبات پر بابندی اور بعد ازاں بحالی ہے۔ اس واقعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں ایک نئی طاقت موجود تھی۔

تاہم استعمار اور مقامی اصلاحی فکر کے درمیان تعامل پر غور وفکر کے بارے میں مفید ہوگا کہ ایک طرف استعماری طاقت کی پیدا کردہ ٹیکنالوجیکل اور ادارتی صورتِ احوال اور دوسری طرف اس کے علمی کردار کے درمیان امتیاز قائم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کے درمیان تعلق ہے۔ لیکن یہ امتیاز قائم کرنا شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کی اصلاحی فکر کی ایک زیادہ گہری تفہیم کو ممکن بناتا ہے، جس کی اٹھان استعماری طاقت  کی غاصبانہ موجودگی کے باوجود اختلاف کے اس کے علمی غلبے سے متاثر نہ تھی۔

یہ واضح ہے کہ شاہ اسماعیل کے اشتعال انگیز بیانات اور خیر آبادی کی جانب سے ان کے جواب ایک ایسے عہد میں وقوع پذیر ہو رہے تھے جس میں استعماری ریاست بتدریج لیکن یقینی طور پر توسیع پذیر تھی۔ لیکن اخلاقی سوالات اور اضطرابات، جو ان کے استدلالات کی جان تھے، ایک طویل المدت اسلامی فکری روایت کا حصہ تھے، جنھیں مشکل سے ہی جدید پروٹسٹنٹ فکر کی پیداوار یا اس سے ماخوذ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے نئے سیاسی اور ادارتی حالات کو علمی اثرات اور تسلط کے بیانیے سے گڈ مڈ کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ توسل اور قادر مطلق خدا کی ہستی پر زور دینے میں مسلم اصلاحی اور جدید پروٹسٹنٹ تنقید کی ظاہری مشابہت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دونوں تنقیدات ایک جیسی ہیں۔

یہاں پر میں ایک متوقع غلط فہمی کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میرے نکتے کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں استعماری طاقت کی حدود اور مقامی لوگوں کے کردار کے درمیان کوئی حد فاصل قائم کرنے کی کوشش میں ہوں۔ اس طرز استدلال میں کئی بنیادی فکری پیچیدگیاں ہیں، جسے اروند منڈیر، ڈیوڈ سکاٹ اور اَناندا ابیسیکارا جیسے اہل علم نے اپنے اپنے انداز میں نمایاں کیا ہے14۔ مثلا مستعمَر کے کردار کو صرف استعماری حکومت کے مزاحمت کار یا اس کا تختہ الٹنے والے کی نظر سے دیکھنا طاقت کی ایک سادہ تفہیم پر مبنی ہے جس میں طاقت کو لازماً منفی حیثیت میں دیکھا جاتا ہے، اور اس کے تعمیری کردار سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ مقامیوں کے کردار کے پیچھے پڑنے کا نتیجہ یہ ہے کہ طاقت کے بارے میں میشل فوکو کی زیادہ تر تعلیمات ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہیں۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ، جیسا کہ ابیسیکارا نے بہت عمدگی سے واضح کیا ہے، استعماری طاقت کے حدود فرض کرنا اس خام مفروضے کو دوام بخشتا ہے کہ طاقت کی تجرباتی پیمائش ممکن ہے، اور اس لیے ہر کوئی استعمار سے اس پیمائش کے مطابق معاملات طے کر سکتا ہے15۔علاوہ ازیں مقامیوں کے کردار کو استعماری اثر سے الگ کرنے کی خواہش اس مغالطہ آمیز مفروضے پر منحصر ہے کہ " 'اثر' کوئی ایسی چیز ہے، جو کسی کے کردار سے باہر واقع ہوتا ہے، اور یہ کہ کردار 'اثر' پر مقدَّم ہے۔ یہ  ایک ایسا تصور ہے جو استعماریت اور لبرل ازم کے اندر ایک پیچیدہ اور نیا شجرہ رکھتا ہے"16۔ منڈیر نے استعماری طاقت اور مستعمر اشرافیہ کے درمیان تعامل کے مکالماتی یا تعاملاتی (interactionist) ماڈل کی پیچیدہ ساخت پر بھی روشنی ڈالی ہے جو مقامیوں کے کردار کو واضح کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ جیسا کہ اس نے عمدگی سے واضح کیا ہے، ایسا کوئی ماڈل "ابلاغ کے ایک خفیہ ماڈل پر منحصر ہے، جس میں فریقین کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے آزادانہ گفت وشنید کے قابل ہیں"17۔ دوسرے لفظوں میں مقامی کردار کی کھوج ان شرائط وماحول میں طاقت کی حرکیات کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتی ہے، جن میں مقامی مبینہ طور پر استعمار کے ساتھ مکالمے میں داخل ہوتا ہے۔

مجھے مقامی کردار کی بازیافت میں کوئی دل چسپی نہیں۔ یہاں میرا نکتہ کافی الگ ہے۔ میں نے اس حصے میں مذکورہ مناظرانہ دور کے چند مخصوص پہلوؤں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس دور کے مطالعے کے غلط رجحان کی ایک اور مثال کے خلاف متنبہ کروں جس میں مقامی مذہبی فکر اور استعماریت کا ملغوبہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں استعماری طاقت کا اثر ونفوذ ایک نئے دھارے میں ظاہر ہوتا ہے، جسے استعماری تسلط اور مقامی تسلیم ورضا کے مراتب میں نہیں سمویا جا سکتا۔

واضح بات دہرانے کا خطرہ مول لیتے ہوئے عرض ہے کہ مذہب اور استعماری فکر کے درمیان تعامل کے اعتبار سے برصغیر کی اصلاحی تحریکوں نے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔ ان اصلاحی تحریکوں کے درمیان اختلافات اور تغیرات کو نمایاں کرنا اس لیے مفید ہے کہ کوئی شخص مقامی مذہبی فکر کی علمی بنیادوں کو استعماری تشکیلِ نو کی ایک یکساں سکیم میں شامل نہ کرے۔ اسی وجہ سے مجھے ضروری معلوم ہوا کہ شاہ اسماعیل کے معاملے کی خاص نوعیت پر زور دوں۔ اگر چہ استعماری طاقت سے اس کا میل ملاپ تھا، لیکن میل ملاپ کا یہ انداز منفرد اور خاص تھا۔

ایک بار پھر عرض ہے کہ شاہ اسماعیل کی فکر کے استناد یا اصالت کے دعوے سے میرا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ اس کی فکر بالکل استعمار کے زیرِ اثر نہیں۔ میرا مدعا یہ نہیں کہ استعماری طاقت نے مقامی فکر کو متاثر نہیں کیا۔ اس کے بجاے شاہ اسماعیل کی مثال اصلاحی تحریکوں کو اس انداز سے دیکھنے کا امکان فراہم کرتی ہے جس میں نہ تو ان تحریکوں میں مقامی کردار کی باقیات کو تلاش کیا جاتا ہے، نہ ہی انھیں استعماری جدیدیت سے ٹھکرایا جاتا ہے۔ نتیجتاً مقامیوں کے کردار کے پیچھے پڑنا اور مقامی مذہبی فکر کو استعماری طاقت سے جوڑنا دونوں ایک غیر اطمینان بخش سرگرمیاں ہیں۔مقامیوں کے کردار کی تلاش یا مقامی مذہبی فکر کو استعمار سے جوڑنے میں کسی ایک پہلو کو لینے سے ان مناہج، استدلالات اور اختلافات کو زیادہ باریک نظر سے دیکھنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو کسی روایت کو تشکیل دینے والی زندگی اور فضیلت کی امتیازی صورتوں کی تشکیل اور ان پر بحث ومباحثے کی بنیاد بنتے ہیں۔ کسی فکری روایت کی شرائط ومقاصد کا ایک باریک جائزہ ہی اس کتاب کے آخری چند ابواب کا موضوع ہے۔

جاتے جاتے عرض ہے کہ شاید یہ وقت ہے کہ ہم تسلسل/انقطاع والے اشکالیے سے آگے نظر دوڑائیں، جو گزشتہ چند دہائیوں سے کافی حد تک برصغیری مطالعات، بالخصوص برصغیری مذاہب پر حاوی ہے ۔ یہاں میں ڈیوڈ اسکاٹ کے دانش مندانہ استفسار سے رہ نمائی لے رہا ہوں، جب وہ یہ سوال اٹھاتا ہے: "کیا کسی منہاج کو معمول پر لانے کا دور بعینہ وہ نہیں ہوتا جس میں انھی سوالات کے پس منظر کی از سر نو تشکیل وتحقیق ضروری ہوتی ہے جن سوالات کے ذریعے وہ پہلی بار وجود میں آیا تھا؟؛ تاکہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا وہ اب بھی معمول کے اشکالیے سے متعلق کچھ سنجیدہ جواب فراہم کر رہا ہے جو پہلی بار ابھرنے کے وقت کر رہا تھا"18۔ اسکاٹ کی بات پر غور کرنے سے یہ حیرت ہوتی ہے کہ تسلسل/انقطاع والے اشکالیے کا اب بھی کوئی خاص فائدہ ہے جو پہلے کبھی تھا؟

یہ سوال کہ "کیا استعماری دور ماقبل استعماری دور سے بالکل منقطع ہے یا یہ اس کا تسلسل ہے" ایک طرح سے فرسودہ ہو گیا ہے، اور اس سوال کے جس قسم کے جوابات دیے جاتے ہیں، وہ بھی کئی حوالوں سے طے شدہ ہیں۔ اس سوال کا سب سے واضح جواب تو یہ ہے کہ ہاں، یقیناً ان ادوار میں تسلسل وانقطاع دونوں ہیں۔ اس لیے تسلسل یا انقطاع کے عمومی بیانیے پیش کرنے کے بجاے ہمیں یہ زیادہ بامقصد معلوم ہوتا ہے کہ ایسے نئے اشکالیوں کی کھود کرید اور شناخت کریں جو مخصوص فکری ذخائر سے پیدا ہوئے ہوں۔

حریف سیاسی الہیات کا تصور، جس پر گزشتہ ابواب میں بحث ہو چکی ہے، ایک ایسے ہی نئے اشکالیے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ قوم پرستانہ سیاست کی راہ داریوں کے بجاے مسلمان کرداروں کے دینی خدشات، جذبات اور مذہبی فکر سے ماخوذ ہے۔ میں مقامی مذہبی فکر کی طرف واپسی کی وکالت نہیں کر رہا۔ میں بس یہی واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ ایک ایسے سوال وجواب کے اشکالیے پر کیوں اصرار کیا جا رہا ہے جس کی وہ سابقہ علمی اہمیت اور فائدہ باقی نہ رہا؟ یہ اصرار ایسے نئے سوالات اٹھانے کے رستے میں رکاوٹ بنتا ہے جو ایک فکری تراث کی بنیاد بننے والی خاص اخلاقی رخوں سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ میں برصغیری اسلام اور مذاہب کے مطالعے کے لیے ایسے نئے سوالات اور اشکالیوں کی تشکیل کی وکالت کر رہا ہوں جو اہم متون اور سیاقات کے دقیق اور بھرپور مطالعے کے نتیجے میں سامنے آئے ہوں۔ اس طریق کار سے ان تجزیاتی آفاق کی توسیع اور تدقیق توقع ہے جو برصغیری مطالعات کی جان ہیں، خاص طور پر برصغیر کی 'علما' روایت کے تعلق سے۔

بات سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ اس حصے میں، میں نے ان استدلالات اور عقلیات کی تحقیق کی ہے جن کے ذریعے ایک فکری روایت کی حدود پر ایک مخصوص مناقشے میں استنادی طریقے سے بحث کی گئی۔ میں نے انیسویں صدی کے اوائل کے مسلم ہندوستان کے ایک مخصوص مناظرانہ دور پر، جس میں مذہب اور اصلاح کی حدود پر شدید کش مکش جاری تھی، اپنی توجہ مرکوز کرکے اس اندازِ استدلال کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کے ساتھ میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس مناظرانہ دور میں واضح طور پر سامنے آنے والی روایت کے دو حریف تصورات کو روایتی/جدید، صوفی/فقہی، مذہبی/لامذہبی یا آزاد خیال/قدامت پسند جیسے تقابلی خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ یہ مناسب نہیں کہ شاہ اسماعیل اور خیر آبادی کے فکری مباحثوں میں زیر بحث علوم، استدلالات اور مقاصد کے بارے میں بنے بنائے مفروضوں سے لیس ہو کر داخل ہوا جائے۔ روایت اور اس کی حدود سے متعلق ان اہل علم کے تشکیل کردہ حریف بیانیے ان کے مناظرانہ تعامل کی عارضی صورت حال کے اندر قبول کیے گئے۔ ان کے مناقشے کی مخاصمانہ فضا نے انھیں مجبور کیا کہ ایک دوسرے کے استدلال کا سامنا کریں، اور اسے شرعی لحاظ سے کمزور ثابت کریں، جس نے انھیں یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ استنادی انداز میں بتائیں کہ کون سی چیز اسلام ہے اور کون سی نہیں۔ خیر آبادی کے استدلال کی انفرادیت اس امر پر منحصر تھی کہ وہ شاہ اسماعیل کو (مستند اسلامی عقائد) کا ’’مخالف” ثابت کریں، اور یہی حال شاہ اسماعیل کا بھی تھا۔  ان میں سے ہر ایک کی فکری بقا دوسرے کی راے کو غلط یا کم زور ثابت کرنے پر منحصر تھی۔

شاہ اسماعیل اور خیر آبادی کے درمیان شخصی معرکہ 1831 میں شاہ اسماعیل کی وفات پر ختم ہوا۔ تاہم نبوی اختیار پر جو اختلاف انھوں نے شروع کیا تھا، آنے والی دہائیوں میں، جیسے جیسے استعماری حکومت کے قدم مزید مضبوط ہونے لگے، جنگل کی آگ کی طرح پھیلنا شروع ہو گیا۔ اگلے چند ابواب میں، میں انیسویں صدی کے نصفِ آخر کے شمالی ہندوستان میں بین المسلمین اختلافات کے اس دوسرے تناظر پر اپنی توجہ مبذول کرنے جا رہا ہوں۔ موضوعی اعتبار سے اب میں اس باب میں مذکورہ حریف سیاسی الہیات کے تعلق سے روز مرہ کی زندگی میں فقہ اور شرعی عمل کی حریف تفہیمات پر غور کروں گا۔ یاد رکھیں کہ الہیات، قانون اور رسمی اعمال کا تعامل ہی وہ فکری تانا بانا ہے جس سے یہ کتاب بُنی گئی ہے۔

خدائی حاکمیت کی انفرادیت کو ثابت کرنے والے سیاسی الہیات کا اطلاق ایک ایسے فقہی تصور پر کیسے کیا گیا جو روز مرہ کے اعمال کو اس انداز میں منضبط کرتا ہے جس سے اسی حاکمیت کی تصدیق ہوتی ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو پہلے اور دوسرے حصے کے درمیان ربط کی وجہ ہے۔ میں اسلام میں ایک انتہائی اختلافی اصطلاح 'بدعت' پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر اس سوال کا جواب دوں گا ، جو بیک وقت فقہ، عقائد اور روزمرہ کے اعمال سے تعلق رکھتی ہے۔



حواشی

  1. القرآن 33 : 40۔ "ختم/خاتم" کی اصطلاح کی دل چسپ تشریحات اور تغیرات پر ایک عمدہ بحث کے لیے دیکھیے: فرائیڈ مین، Prophecy Continuos.
  2.  القرآن 36 : 81 – 82۔
  3.  القرآن 36 : 78۔
  4.  القرآن 3 : 59۔
  5.  اس جملے کے ساتھ اسماعیل نے تقویۃ الایمان پر اپنے ابتدائی اور مختصر جواب کو ختم کیا ہے۔ یہ متن تحقیق الفتوی کے مطبوعہ نسخے کے آخر میں ظاہر ہوتا ہے۔
  6.  شاہ محمد اسماعیل، یک روزہ (ملتان: فاروقی کتب خانہ، تاریخ اشاعت ندارد)، 25۔
  7.  کارل شمٹ، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty (کیمبرج، ایم اے: ایم آئی ٹی پریس، 1986)، 44۔
  8. دیکھیے: جان ماڈرن، Secularism in Antebellum America (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2011)، اور مائیکل وارنر، “The Evangelical Public Sphere,”، اے ایس ڈبلیو روزن باخ لیکچرز، یونیورسٹی آف پنسلوینیا، مارچ 2009، http://repository.upenn.edu/rosenbach/2/.
  9.  کتاب کی تاریخ اور خاص طور پر انیسویں صدی کے شمالی ہندوستان میں نشر واشاعت کو کاروبار بنانے سے مطالعے کے اطوار اور عوام پر جو اثرات مرتب ہوئے، اس کی ایک شان دار تحقیق، اگر چہ یہ تھوڑی بعد کے دور سے متعلق ہے، کے لیے ملاحظہ کیجیے: الرائک سٹارک، An Empire of Books: The Naval Kishore Press and the Diffusion of the Printed Word in Colonial India (نیو دلی: پرمننت بلیک، 2007)۔
  10.  منڈیر، Religion and the Specter، 175 – 239۔
  11.  ایضاً۔
  12.  ایضاً، 61۔
  13.  گناناتھ ابیسیکرے، “Religious Symbolism and Political Change in Celon”، ماڈرن سیلون سٹڈیز 1، نمبر 1 (1970): 43 – 63۔ اَنندا ابیسیکارا نے خوب صورت انداز میں واضح کیا ہے کہ ابیسیکرے کا مطلب یہ نہیں کہ پروٹسٹنٹ بدھ ازم اور پروٹسٹنٹ ازم دونوں ایک ہیں۔ اس کے بجاے پروٹسٹنٹ بدھ ازم ایک ایسی اصطلاح ہے جو انیسویں صدی کے سیلون میں ایک استدلالی روایت پر پرکشش استعماری طاقت کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پروٹسٹنٹ ازم تاریخ کے کسی بھی دور میں، بشمول جدید استعماری دور کے، کوئی ناقابل تبدیل یک رخا نظریہ یا منفرد شے نہیں ہے۔ جیسا کہ بارٹن سکاٹ نے برصغیر کے تناظر میں شان دار انداز میں بتایا ہے: "پروٹسٹنٹ لفظ کے بار بار استعمال کی قابلیت نے اس امر کو یقینی بنا دیا ہے کہ جب بھی اس کا حوالہ دیا جائے گا، وہ اپنے اصلی مفہوم سے منحرف ہوگا، اور اس وجہ سے اصلی مفہوم کی یکسانیت پر سوال کھڑا کرے گا"۔ جے بارٹن سکاٹ، Spiritual Despots: Modern Hinduism and the Genealogies of Self-Rule (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2015)، 132۔
  14.  ایضاً، 78 – 85؛ ڈیوڈ سکاٹ، Conscripts of Modernity: The Tragedy of Colonial Enlightenment، (درہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2004)، 98 – 132؛ انندا ابیسیکارا، “Religious Studies’ Mishandling of Origin and Change: Time, Tradition, and Form-of-Life in Buddhism,”، کلچرل کرٹیک 98 (ونٹر 2018): 8۔
  15.  ابیسیکارا، “Religious Studies’ Mishandling,”، 8 – 9۔
  16.  ابیسیکارا، “Protestant Buddhism”۔
  17.  منڈیر، Religion and the Specter، 78
  18.  ڈیوڈ سکاٹ، Refashioning Futures: Criticism after Postcoloniality (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1999)، 8 – 9۔


آراء و افکار

(اکتوبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter