اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)
ساتواں باب: قانون، حاکمیت اور شرعی عمل کی حدود
حد اور تجاوز کا باہم دگر انحصار: بدعت کی پہچان کے اصول
مسلم فکر میں بدعت (جس کا لفظی معنی نئی چیز ہے) بیک وقت شدید متنازع، مبہم اور لچک دار اصطلاحات میں سے ہے۔ بدعت بیک وقت دین/روایت کی حدود اور ہمیشہ ان حدود سے تجاوز کے منڈلاتے خطرے اور امکان کا اظہار ہے۔ حدود اور تجاوز، جیسا کہ مشل فوکو نے تاکید کی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے اور ایک دوسرے کے لیے تشکیلی عناصر ہیں؛ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے امکان، اور بقولِ کَسے، اِستحالہ (impossibility) کے لیے شرط ہے۔ اس نے اسے عمدگی سے یوں بیان کیا ہے: "حد اور تجاوز ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں، چاہے ان کی کمیت جو بھی ہو، کہ کوئی حد موجود ہو نہیں سکتی اگر وہ ناقابل تجاوز ہو، اور تجاوز بے معنی ہوگا اگر یہ ایک ایسی حد کو پار کرے جو اوہام اور سایوں سے مرکب ہو۔ لیکن کیا اس عمل سے باہر حد کی اپنی ایک زندگی ہو سکتی ہے، جو پُروقار طریقے سے اس کے اندر سے گزرتا ہے، اور اس کی نفی کرتا ہے؟1
یہاں فوکو کے الفاظ ان فکری مضمرات کا احاطہ کرتے ہیں جو اسلام میں تجاوز کی علامت کی حیثیت سے بدعت کے تصور پر سایہ فگن ہیں۔ بدعت کے ارتکاب کا معنی سنتِ نبوی کی حدود سے تجاوز ہے، لیکن خطرے یا تجاوز کا وقوع ہی ان حدود کی تشکیل کرتا ہے۔ سنت وبدعت، دین کی حدود اور ان حدود سے تجاوز، بہت گہرائی میں باہم دگر مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔میری ڈگلس (Mary Douglas) کی کلاسیکی تصنیف Purity and Danger میں ایک اہم استدلال سے مدد لیتے ہوئے کہ ناپاک اور پاک باہم دگر مربوط ہیں، کہا جا سکتا ہے کہ سنت وبدعت لازم وملزوم ہیں۔
ڈگلس نے پوری فصاحت سے اسے ایسے الفاظ میں بیان کیا ہے جو نمایاں انداز میں اس فکری منہج کے مشابہ ہیں جو سنت وبدعت کے درمیان تعلق کو بنیاد فراہم کرتا ہے: "اگر ناپاک ہونا کوئی نامناسب چیز ہے، تو ہمیں سلیقے سے اس کے قریب جانا چاہیے۔ ناپاکی یا گندگی وہ ہے جسے کسی نمونے میں اس لیے شامل نہیں کیا جا سکتا تاکہ (اس کی پاکی) اپنی جگہ برقرار رہے"2۔
بدعت کا تصور اصلاً دو مشہور احادیث سے ماخوذ ہے: "ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے"، اور "جو کوئی ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرے، جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے"3۔ تاہم بدعت کے مفہوم میں جو تجاوز ہے، اسے معاصر ایجابی قانون (positive law) میں خلاف ورزی (violation) کے معنی کے ساتھ بمشکل ہی جوڑا جا سکتا ہے۔ کسی پر بدعت کے ارتکاب کا حکم لگانا اس پر یہ الزام لگانا ہے کہ اس نے سنتِ نبوی کی تخفیف کی، سلف صالحین کے راستے کی خلاف ورزی کی، اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ اس نے آقا اور غلام کے درمیان موجود اس بنیادی عہد کو توڑ دیا، جو ایک بندے کو خدا سے جوڑتا ہے۔
بدعت بڑے پیمانے پر بین المسالک تضلیل کے لیے ایک اہم اصطلاح ہے، کیوں کہ اس میں وسعت ہونے کے ساتھ ساتھ لچک بھی ہے؛ اس کا اطلاق عبادات، عقائد اور روزمرہ کی عادات واطوار میں مزعومہ تجاوزات پر ہوتا ہے۔
ماریبل فائرو (Maribel Fierro) بدعت پر ماقبل جدید اسلامی دور کی متعدد علمی کتابوں کی ایک موسوعی تحقیق میں یہ بتاتی ہے کہ جن چیزوں پر بدعت کا اطلاق کیا جاتا ہے، ان کا سلسلہ قرآن کی تلاوت کے قابلِ اعتراض طریقوں سے لے کر مسجد کے جائے دخول میں پنکھوں کی تنصیب تک دراز ہے!4 وہ عقائد، اعمال اور اطوار جن پر بدعت کی اصطلاح کا اطلاق ہو سکتا ہے، بہت زیادہ ہیں اور وہ مختلف اصلاحی تحریکوں اور مزاجوں کو محیط ہیں۔ برصغیر کے وہ علما، جن کی بدعت سے متعلق فکر کو زیادہ تر اس حصے میں زیر بحث لایا گیا ہے، وہ ایک طویل المدت علمی روایت کے جانشین تھے، اور اس معمور تصور کی مجموعی علمی اور سماجی تاریخ میں وہ اپنا انفرادی حصہ ڈال رہے تھے۔
بدعت کی اصطلاح سے متعلق ناخوش گوار رمزیت (symbolism) آج بھی قائم ودائم ہے۔ مثلاً اسلام میں بدعت کے اطلاق پر اپنے ایک مضمون میں معاصر مسلمان امریکی دانشور عمر فاروق عبد اللہ لکھتے ہیں: "کسی چیز پر بدعت کے اطلاق میں عموماً سرعت سے کام لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نئے خیالات کو دبایا جاتا اور تخلیقی سوچ کو مشکل بنایا جاتا ہے۔ بعض مسلمانوں کے لیے یہ اصطلاح ایک زور آور ہتھوڑا بن گیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے خیالات کو منواتے اور دوسروں کے خیالات کو مکمل طور پر دباتے ہیں"5۔ جیسا کہ عبد اللہ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے، اسلام میں تخلیق اور ایجاد اور رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے مثالی طرز عمل کو برقرار رکھنے کے حکم پر عمل کرنے کے درمیان ایک مخمصہ موجود رہا ہے جو آج بھی اتنا ہی پریشان کن ہے جتنا یہ صدیوں پہلے تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی کے تصور میں بدعت کی حدود متعین کرنے کے لیے معیارات کیا ہیں، اور اسی بات کو ذرا وسعت دے کر یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی حدود کی معیارات کیا ہیں؟ دراصل یہ سوال کہ کوئی نئی چیز کب بدعت بنتی ہے، اس سوال کے مانند ہے کہ اسلام اور اس کی حدود کی تعیین کس چیز سے ہوتی ہے6۔
اس باب میں، میں ان مناہج کا جائزہ لوں ہوگا جن کی روشنی میں دیوبندی مکتبِ فکر اور ان سے پہلے شاہ محمد اسماعیل نے اس بنیادی سوال کو موضوع بحث بنایا۔ چونکہ اس مسئلے پر ان علما کے خیالات میں واضح یکسانیت ہے، اس لیے وضاحت کی غرض سے اس باب کا بیشتر حصہ، نہ کہ سارا باب، دیوبند کے ابتدائی دور کے سب سے زیادہ کثیر التصانیف مفکر مولانا اشرف علی تھانوی کے افکار سے بحث کرے گا۔
اپنے پیروکاروں میں حکیم الامت کے لقب سے معروف مولانا اشرف علی تھانوی جدید برصغیر کے مسلمان علما میں سب سے زیادہ بااثر اور وسیع پیمانے پر پڑھے جانے والے عالم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے۔ انھوں نے تفسیرِ قرآن، علوم حدیث، فقہ واصول فقہ، تصوف اور فلسفے سمیت علوم اسلامیہ کے تقریبا تمام پہلوؤں پر تفصیل سے لکھا۔ مولانا تھانوی بیک وقت ایک کامل فقیہ اور چشتی سلسلے کے ایک نامور صوفی تھے۔ وہ اترپردیش کے قصبے تھانہ بھون میں پیدا ہوئے، اور بیس سال کی عمر میں 1883 میں دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے7۔ ان کی علمی زندگی نہ صرف بانئ دیوبند رشید احمد گنگوہی سے، بلکہ انیسویں صدی کے سلسلۂ چشتیہ کے ممتاز ہندوستانی صوفی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بھی متاثر تھی۔
حاجی صاحب رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی اور اشرف علی تھانوی سمیت دیوبند کے تمام پیش روؤں کے صوفی شیخ رہے۔ اگر چہ وہ باضابطہ عالم نہیں تھے، لیکن بلا شبہ وہ نوآبادیاتی ہندوستان کے سب سے کرشماتی اور وسیع پیمانے پر مانے جانے صوفی شیخ تھے۔ مولانا تھانوی کی طرح حاجی امداد اللہ کی جنم بھومی بھی تھانہ بھون تھی۔ انھیں مہاجر مکّی کا لقب اس لیے ملا کہ جنگ آزادی 1857 کے بعد ان پر برطانیہ کی طرف سے جنگ میں شرکت کا الزام لگا، جس کی وجہ سے انھوں نے مکہ مکرمہ ہجرت کی۔ حاجی صاحب نے اپنی بقیہ ساری زندگی مکہ مکرمہ میں جلاوطنی کی حالت میں گزاری، جہاں پر مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی اور غیر ہندوستانی مریدین ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوتے رہے۔ مولانا تھانوی 1884 میں حاجی صاحب سے بیعت ہوئے، جب وہ اپنے پہلے حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے۔ حاجی صاحب نے ایک صوفی شیخ کی حیثیت سے مولانا تھانوی کی شخصیت میں تشکیلی کردار ادا کیا۔ نتیجتاً تھانوی نے حاجی صاحب کے سلسلے کو تسلسل اور ترقی دینے میں بنیادی کردار ادا کیا، جیسا کہ ہم اسے آخری باب میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دیکھیں گے۔
1883 میں دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا تھانوی نے اترپردیش کے شہر کانپور کے ایک مدرسے جامع العلوم میں 14 سال تک تدریس کی۔ 1897 میں وہ اپنے آبائی قصبے تھانہ بھون واپس لوٹ آئے اور اس خانقاہ کی قیادت سنبھال لی، جو ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ان کے شیخ امداد اللہ چلاتے تھے۔ تھانہ بھون میں قیام کے دوران مولانا تھانوی نے بڑی تعداد میں مریدوں کی روحانی تربیت کی، اور ایک کثیر التصانیف اور مقبولِ عام مصنف کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ انھوں نے دیوبندی مسلک سے قریبی تعلق استوار رکھا، اور کئی سالوں تک اس کے سرست کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ مولانا تھانوی کا حلقۂ ارادت پورے ہندوستان میں تھا۔ ان میں سب سے ممتاز ان کے بھتیجے مولانا ظفر احمد عثمانی (م 1974) اور مفتی محمد شفیع (م 1976) تھے، جو 1947 میں تقسیم کے بعد پاکستان کی نمایاں مذہبی شخصیات ابھر کر سامنے آئیں8۔
مولانا تھانوی کے علمی ورثے کا ایک بڑا حصہ بدعت کے موضوع سے خاص ہے9۔ اس تصور سے متعلق ان کی گفتگو متنوع قسم کی تحریری اصناف میں پائی جاتی ہیں، جن میں مقبول اصلاحی تصانیف، فتاوی جات اور وہ ملفوظات شامل ہیں، جو بڑی باریک بینی سے ان کے مریدوں نے مرتب کی ہیں۔ یہ استدلالی ذخائر ایک مذہبی مصلح کی حیثیت سے تھانوی کے سماجی تصورات اور زیادہ عموم کے ساتھ دیوبندی مسلک کے بارے میں بصیرت افروز نکات فراہم کرتے ہیں۔
آئندہ گفتگو میں، میں ان کی فکر کے چند اہم گوشوں کا تجزیہ اس امید سے کرتا ہوں کہ ان مناہج کو قلم بند اور نمایاں کروں جن کے ذریعے علماے دیوبند نے اعتقادات اور احکامِ دینیہ میں بدعت کی حدود کو متصور کیا۔ اگر چہ یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ علماے دیوبند نے متعدد مقبول عام رسموں اور اطوار کی مخالفت کی، لیکن انھوں نے یہ کام کیسے کیا ، یہ سوال مغرب کی علمی حلقوں میں معتد بہ توجہ حاصل نہ کر سکا۔ انھوں نے تعبیر وتشریح کے کن اصولوں کو بروے کار لا کر سنت وبدعت کی حدود کاتعین کیا؟ ان کی نظر میں بدعت کا بنیادی تصور کیا تھا؟ ان کے اخلاقی اصلاح کے تصور میں پائے جانے والے ابہامات کون سے تھے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جنھیں میں اس باب میں زیر بحث لاؤں گا۔ تاہم ابتداء میں میں چاہتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس طریق کار کی وضاحت کروں گا جس کی روشنی میں میں سنت وبدعت کو دیکھتا ہوں، تاکہ اسلام میں بدعت کے تصور سے متعلق میرے نظریے کا خلاصہ سامنے آجائے۔
اسلام میں سنت وبدعت کی تصور سازی (Theorization)
سنت (normativity) کی اصطلاح سے میری مراد وہ اعتقادی وابستگیاں اور عملی احکام کے نمونے ہیں، جن کا مطالبہ کسی سماج سے اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی مدد سے اخلاقی پاکیزگی اور فضائل کا حصول کریں۔ فلسفی کرسٹین کورسگارڈ نے اپنی کتاب Sources of Normativity میں اس تصور کو کچھ یوں بیان کرتی ہیں: "اخلاقی معیارات (ہمیشہ) پابندی کا مطالبہ رکھنے والے (normative) ہوتے ہیں۔ وہ محض وہ رستہ نہیں بتاتے جس کے مطابق ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ بلکہ وہ ہم پر حق جتاتے ہیں؛ ہمیں حکم کرتے ہیں، پابند بناتے ہیں، تجویز کرتے ہیں، یا ہدایت کرتے ہیں"۔ اسی طرح وہ بتاتی ہیں کہ "علم، حسن اور معنی جیسے تصورات فضیلت اور انصاف کی طرح سب کے سب ایک مستقل پہلو لیے ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا سوچنا، کیا پسند کرنا، کیا کرنا اور کیا ہونا چاہیے"10۔ اسلام جیسی دینی روایت میں مستند طریقے (normativity) کے مصادر ہمیشہ متنوع، متعدد اور باہم مربوط ہوتے ہیں، جو ماہر علما کے علمی استناد سے لے کر متوارث اجتماعی عمل کی مجموعی وزن تک پھیلے ہوتے ہیں۔ میں سنت (normativity) کی اصطلاح کو راسخ العقیدگی (orthodoxy) کی اصطلاح پر فوقیت دیتا ہوں کیوں کہ مذہبی استناد کے موضوع پر سرگرم عمل مختلف حریف مدعیوں کو زیادہ حد تک ابہام اور لچک فراہم کرتا ہے11۔ راسخ العقیدگی کی اصطلاح، اگر چہ یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ وہ مستقل اختلاف کا موضوع ہے، یہ غلط تاثر پیدا کرتی ہے کہ حقیقت میں نام اور پتوں کی ایک ایسی فہرست بنانا ممکن ہے، جس میں راسخ العقیدگی کے محافظین کی شناخت اور نام زدگی ممکن ہو۔ اسلام میں ایک مقتدر کلیسائی ادارے کی عدم موجودگی میں راسخ العقیدگی کی اصطلاح کی تحقیقی قدر وقیمت محل نظر دکھائی دیتی ہے۔ مزید برآں، اور زیادہ دو ٹوک انداز میں، 'مسلک' (sect) کی طرح 'راسخ العقیدگی' بھی ان اصطلاحات میں سے ہے جنھیں جوں ہی استعمال کیا جائے، "]مسیحی[ سیاسی کلامیات کی مشین" ان کو جکڑ لیتی ہے12۔
Two: The Machine of Political Theology and the Place of Thought کے عنوان سے اپنی عمدہ تحقیق میں فلسفی رابرتو اِسپَزِیتو (Roberto Esposito) ثابت کرتے ہیں کہ مسیحی سیاسی کلامیات اور جدید سیکولر ازم میں فکری یکجائی ہے13۔ علاوہ ازیں وہ اس مشین جیسے عمل کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے ذریعے سیکولر سیاسی کلامیات خود کو ان اصطلاحات میں زبردستی گھساتی ہیں، جو غیر مغربی روایتوں اور ثقافتوں کی تحقیق کے دوران استعمال ہوتی ہیں14۔ جیسا کہ اسپزیتو نے واضح کیا ہے: "لسانیات کا پورا تانا بانا، جو ہمارے فکری مقولات (categories) کو کمزور کرتا ہے، سیاسی کلامیات کی اصطلاحات سے متاثر ہے"۔ اِسپزیتو کی فکر سے شہہ پاتے ہوئے اور اس کی شرح کرتے ہوئے اروند منڈیر زیر بحث مسئلے کو کچھ یوں سمیٹتے ہیں: "(خاص طور پر جدید) مغربی زبان وفکر کی کارروائیوں میں ایسے مابعد الطبیعاتی آلات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، جن کا بنیادی فریضہ اختلاف کو شناخت کے ڈھانچوں (مثلاً تناقض سے پاک اتحاد، تمثیل، انفرادیت، شخصیت) تک محدود کرکے (شخصیات، ثقافتوں، تصورات کے درمیان) اختلاف کو وجود میں لانا ہے15۔
منڈیر کے ذکر کردہ شناخت کے ان ڈھانچوں کی فہرست میں "راسخ العقیدگی" کو شامل کرنا مفید ہوگا، جنھیں سیکولر مسیحی سیاسی کلامیات کی مشین ترتیب دے کر "عمومی انطباق (translation)" کے ایک عمل کے ذریعے دوسرے سیاقات کو برآمد کرتے ہیں16۔ انطباق کی یہی پرفریب لیکن طاقتور کلامیات ہی ہیں جنھیں علوم اسلامیہ میں راسخ العقیدگی کی اصطلاح کے دفاع یا احیا کے لیے کی جانے والی متعدد کوششیں زیر غور لانے میں ناکام ہو چکی ہیں17۔ گِل اَنیجر (Gil Anidjar) سے استفادہ کرتے ہوئے عرض ہے کہ یہ اصطلاح ان مسیحی سیاسی کلامیات کے "خون" میں تر ہے جو سیکولر تصوریت کی بنیاد ہے، اور اس بنا پر اسلام اور دیگر جنوبی ایشیائی مذاہب کی تحقیق میں اس قدر آزادی اور خوشی سے اسے رائج ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے18۔ یہ اصطلاح جدید برصغیر کے علما کے مباحثوں اور مناقشوں کی تحقیق کے مخصوص سیاق کے حوالے سے بھی کار آمد نہیں۔
برطانوی ہندوستان میں بڑے مسلم اصلاحی مکاتب فکر، جیسے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث سب کے سب پڑھے لکھے مذہبی اشرافیہ کی اسی نام نہاد راسخ العقیدگی کا حصہ تھے؛ ان کے درمیان اختلاف سنت کی تشریح میں تھا، اورنتیجتاً ان شرعی توقعات میں تھا، جو وہ اپنے عوام کے لیے رکھتے تھے۔ راسخ العقیدگی بمقابلہ آزاد خیالی (heterodoxy) کا یہ دوگانہ تصور سنت کو بدعت سے جدا کرنے والی حدود کے متعلق متعدد اختلافی آرا کی تصویر سامنے لانے میں بھی بالکل کار آمد نہیں ہے۔
اسلام میں شرعی احکام کی حدود پر علمی مناقشوں کے تجزیے کے لیے سنت (normativity) کی اصطلاح زیادہ لچک اور فکری گنجائش فراہم کرتی ہے۔
سنت (normativity) کی اصطلاح کو اختیار کرنے کے لیے مجھے بطور خاص ماہر بشریات /سماجیات پائرے بوردیو (Pierre Bourdieu) کا تصورِ 'عادت' (habitus) بڑا دل چسپ معلوم ہوا۔ یہ تصور اس کی دو کتابوں The Logic of Practice اور An Outline of a Theory of Practice میں پیش کیا گیا ہے۔ بوردیو 'عادت' کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے: "تاریخ کی ایسی پیداوار جو تاریخ کے پیدا کردہ حالات سے ہم آہنگ انفرادی اور اجتماعی اعمال کو جنم دیتا ہے۔ 'عادت' ماضی کے ایسے تجربات کی براہ راست موجودگی کو یقینی بناتا ہے، جو ہر جاندار میں ادراک اور فکر وعمل کے نظاموں کی شکل میں ودیعت کیے گئے ہوتے ہیں، اور جو تمام رسمی قواعد اور مفصَّل اَحکام سے زیادہ بااعتماد طریقے سے بدلتے زمانے کے ساتھ اعمال کی 'درستگی' (واوین کا اضافہ میری طرف سے ہے) اور ان کی اصل شکل کو برقرار رکھنے کی ضمانت فراہم کرتے ہیں"19۔ بوردیو کے نزدیک 'عادت' متشکل تاریخ کی ایک شکل ہے، جو ایسے نئے تجربات کی تشکیل کرتی ہے، جو ماضی کے تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ساختوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔'عادت' اور سنت کے درمیان تعلق کی بہتر تصویر اس وقت سامنے آتی ہے جب بوردیو لکھتا ہے: "'عادت' ان تمام 'معقول' اور 'عقل سلیم پر مبنی' رویوں کو پیدا کرنے کا کام کرتی ہے جو ان ضابطہ بندیوں کی حدود میں ممکن ہو، اور جس کی 'ایجابی منظوری' (واوین کا اضافہ میں نے براے تاکید کیا ہے) دی جا سکتی ہے، کیونکہ وہ ایک مخصوص میدان کی عقلی خصوصیت کے ساتھ معروضی انداز میں ہم آہنگ ہوتے ہیں، جس کے معروضی مستقبل کی وہ پیش بینی کرتے ہیں"20۔
بوردیو کی 'عادت' کی اصطلاح سے زیادہ قریب اس کے 'اجماع' (doxa) کا تصور ہے جس کا مطلب ہے: جسمانی آہنگوں اور مظاہر کا ایسا مجموعہ جسے سماج کے افراد ایک ثابت کونیاتی نظم کی حیثیت سے حق سمجھتے ہیں، اور جسے آزادانہ (یعنی دوسروں کے درمیان کوئی ایک) نہیں، بلکہ ایک بدیہی فطری نظم کے طور پر سمجھا جاتا ہو، جو بغیر کسی سوال یا نکتہ چینی کے بار بار وقوع پذیر ہوتا رہتا ہو"21۔ اسلام میں سنت کی اصطلاح کی نظریہ سازی میں ایک مرکزی سوال یہ ہے کہ استنادی مذہبی مباحث کا ایک مجموعہ کسی سماج کے روزمرہ اعمال میں کس طرح متشکل ہوتا ہے؟ اس سیاق میں بوردیو کا یہ نکتہ بطور خاص قابل غور ہے کہ "جس قدر معروضی نظام پائیدار ہوں گے، اور زیادہ بھرپور انداز میں پیروکاروں کے اعمال میں خود کو وقوع پذیر کریں گے، اسی قدر 'اجماع' (doxa)، جسے حق مانا گیا ہے، کے میدان کی حدود وسیع ہوں گی"22۔
اسلام میں مسلمانوں کے درمیان بدعت کی حدود پر اختلافات میں کار فرما اقداری توقعات اور تنازعات پر بحث کو گہرائی میں لے جانے کے لیے مجھے بوردیو کے 'عادت' اور 'اجماع' کے جڑواں تصورات مفید معلوم ہوتے ہیں۔ ایک مخصوص معنی میں مسلم فکر میں بدعت کے مباحث مثالی 'اسلامی عادات' کے متوازی تصورات پر مبنی ہیں، یا زیادہ واضح انداز میں ایک ایسی 'عادت' پر، جس کی تجسیم اور تشکیل سنت کے ذریعے ہوئی ہو۔ یہاں جس بات پر زور دینا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سنت محض فقہی احکام کے استنباط کے لیے ایک قانونی مصدر کی اصطلاح نہیں۔ اس کے بجاے اس کا اطلاق زندگی کے تمام ان اعمال واطوار پر ہوتا ہے، جو فطری اور طبعی 'عادات' کی شکل اختیار کر لیتے ہیں – ایک کامل نمونہ، جس کے پیچھے متشکل تاریخ کھڑی ہو۔ جیسا کہ بوردیو نے ہمیں تنبیہ کی ہے: "عادت ایسے حقائق کو مسترد کرنے سے، جو اس کے ساتھ جڑے سابقہ مجموعی حقائق پر سوال اٹھاتے ہوں، اگر ان کا ایک دوسرے سے سامنا حادثاتی طور پر یا جبرًا ہو جائے، بالخصوص ایسے حقائق کا سامنا نہ کرنے سے اور ان نئے حقائق کے اندر انتخاب کے ذریعے سے، اپنی ثبات اور 'تبدیلی' کے خلاف اپنے دفاع کو یقینی بناتی ہے۔23
یہ نکتہ کہ 'عادت' تبدیلی کے مقابلے میں اپنا دفاع کرتی ہے، بطور خاص ثبات وتغیر کے اس باہمی تعامل سے متعلق ہے جو اسلام میں سنت وبدعت کے مناقشے میں کار فرما رہتا ہے۔ سنت ایک مُصدَّقہ معیاری 'عادت' پر دلالت کرتی ہے جو ایک مشترک تاریخ اور روایت رکھنے والے سماج کی تشکیل کرتی ہے۔اس لیے سماج اور اس کی تاریخ اور روایت سب کو ایسے نئی معلومات اور بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرنا چاہیے، جو اس کی پاکیزگی کو متاثر کرتے، اس کے ثبات کو کمزور کرتے، اور نتیجتاً مباحث کے ایک ایسے مجموعے کی حیثیت سے جو اپنے پیروکاروں سے مجسم تصدیق کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف بدعت، جو سنت کے برعکس ہے، منظم سرگرمی کی ان غیر مصدًقہ عادات واطوار پر دلالت کرتی ہے جو سنت کی پہلے سے چلے آنے والی متفقہ ساخت کی مخالفت میں متعارف کیے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں بدعت کے تعبیری پہلوؤں میں گہرائی سے غوطہ زن ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اس کے بیانیاتی (narratological) پہلو پر مختصر غور وفکر کروں، تاکہ اس کے علمی اور شرعی پہلو مزید واضح ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے میں قرون وسطی اور جدید اسلام کے ابتدائی عہد کے سب سے باوقار عالم کی فکر کی طرف رجوع کرتا ہے، جنھوں نے بدعت کے موضوع پر لکھا ہے۔ میری مراد چودھویں صدی عیسوی کے معروف اندلسی/غرناطی مالکی فقیہ امام ابواسحاق ابراہیم الشاطبی ہیں۔
بدعت بیانیے کی روپ میں: سنت، بدعت اور اجنبیت
بدعت جس قدر ایک اعتقادی، فقہی اور کلامی اصطلاح ہے، اسی قدر یہ ایک بیانیے کے روپ میں بھی ہے۔ دراصل اس کے بیانیے والے انداز پر غور وفکر اس اصطلاح سے متعلق تجزیاتی نقطۂ نظر اور منہاج کو وسعت اور گہرائی دینے کے امکانات رکھتا ہے۔ زیادہ تخصیص کے ساتھ عرض ہے کہ بدعت کے موضوع پر مسلمانوں کے علمی مناقشے ایک ایسے بیانیے میں ملفوف ہوتے ہیں جنھیں 'اجنبیت کا بیانیہ' کہا جا سکتا ہے، جس میں ابتداے اسلام میں کفار کے ہاتھوں نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی اجنبیت اور جلاوطنی کے ایک مثالی بیانیے کو بعد میں آنے والے تعصب و عناد کے ہر ایک ایسے واقعے کے لیے بنیادی خاکے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو سنت کے مشعل برداروں کو بدعت کے علم برداروں کے مقابلے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ راہ سنت پر کار بند ہونا اجنبیت کو مستلزم ہے، لیکن یہ اجنبیت ایک فرد اور سماج کی قرآن، سنت اور سلفِ صالحین کی تعلیمات سے غیر مشروط وابستگی کی دلیل بھی ہے۔ ذیل میں میں ان اخلاقی دعووں اور خواہشات کی تفصیل سے وضاحت کروں گا جو بدعت پر مسلمانوں کے علمی اور اصلاحی مباحث میں اجنبیت کے ایک ایسے بیانیے میں کار فرما ہیں۔ جیسا کہ ادبی مفکر ہیدَن وائٹ (Hayden White) نے عمدگی سے بتایا ہے: "چونکہ سچائی کی ہر ایک سرگزشت میں بیانیت موجود ہوتی ہے، اس لیے ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اخلاقیات یا اخلاقی قوتِ مُحَرِّکہ بھی موجود ہوتی ہے۔۔۔۔ کیا ہم اخلاقی شکل دیے بغیر (سچائی کو) بیانیے کا روپ دے سکتے ہیں؟24"
ایسے بیانیے کی تشکیل کی ایک مؤثر اور رہ نما توضیح کے لیے میں بدعت کے تصور اور اطلاق پر سب سے زیادہ اصولی اور سب سے زیادہ تفصیلی ماقبل جدید کاوش الاعتصام پر بالاختصار بحث کروں گا۔ اس کتاب کو چودھویں صدی کے مالکی فقیہ ابراہیم الشاطبی نے تصنیف کیا ہے۔ الشاطبی سقوطِ غرناطہ سے مکمل سو سال پہلے وفات پا گئے۔ فقہ اور اصول فقہ پر ان کی کاوشیں (جیسے ان کی دوسری شان دار کتاب الموافقات) جدید مسلم فکر کے اوائل میں عمدہ ترین اور مؤثر ترین تصور کی جاتی ہیں25۔ اگر چہ تھوڑی دیر میں میں بدعت کے تعبیری پہلوؤں پر اس کی بحث کے منتخب پہلوؤں پر کلام کروں گا، تاہم یہاں پر میں الاعتصام میں اس کے شان دار تعارفی باب پر اپنی توجہ مرتکز رکھتا ہوں۔
اس تعارف میں الشاطبی نے بدعت پر اپنی کتاب کو حضور ﷺ کی اس مؤثر حدیث پر مسلسل غور وفکر کا نتیجہ قرار دیا ہے: "اسلام کی ابتدا اجنبیت میں ہوئی، اور یہ پھر اجنبی بن جائے گا، تو اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے" (بدأَ الإسلامُ غريباّ وسيعود بدأ غريباًو فطوبىٰ للغُرَباء)۔ پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی تشریح سے اس حدیث نبوی کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "یہاں پر کسی کے اجنبی یا نووارد ہونے کو کئی حوالوں سے مثالی بتایا گیا ہے۔ یہ زمان ومکان کے ایک مخصوص جبر کو فرض کرتا ہے۔ ایسے سخت حالات میں سچائی کے متلاشی اکثریت کے ظلم وجبر سے دربدر اور حاشیے میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ حاشیے میں دھکیلے گئے اپنی تکالیف میں در بدر پھرتے ہیں اور ایک دوسرے سے اظہار یک جہتی کرتے ہیں۔ اس در بدری کی جسمانی اور روحانی ظلم وجبر سے لے کر سیاسی اور کئی ممکنہ دیگر صورتیں ہیں"26۔ اجنبیت، جو کہ عموماً ایک خوف ناک صورت حال تصور کی جاتی ہے، در اصل الٰہی اور نبوی رحمتوں کی اس خوب صورتی سے بندھا ہوتا ہے، جو یہ حدیث بتاتی ہے۔ مزید برآں یہ ارشادِ نبوی اجنبی اوائل کے بیانیے کو ایک ایسے غائی فلسفے (teleology) سے جوڑتا ہے جو انھی اوائل کی طرف لوٹتا ہے۔ جس انداز میں یہ حدیث بیانیت اور زمنیت کو یک جا کرتا ہے، اس میں تکرار کی صفت بہت اہم ہے۔ پال ریکوئر (Paul Recoeur) نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے: "بیانی تکرار ابتدا کو خاتمہ اور خاتمے کو ابتدا سمجھنا ممکن بناتا ہے تاکہ زمان کو، کسی طرز عمل کے ابتدائی حالات کی تکرار کے طور پر اس کے آخری نتائج میں، پیچھے جا کر سمجھنا سیکھا جا سکے۔ اس طرح سے پلاٹ انسانی عمل کو نہ صرف یہ کہ زمان 'میں' راسخ کرتا ہے، بلکہ یہ اسے حافظے میں بھی قائم رکھتا ہے"27۔
الشاطبی کی نظر میں حضور ﷺ کی یہ حدیث ایک مسلسل اور بار بار وقوع پذیر ہونے والی جنگ کو بیان کرتی ہے: خدائی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اپنے آبا واجداد کی رسم روایات کی پیروی کے درمیان جنگ۔
اسی جنگ نے حضور ﷺ کو اپنے ہی سماج میں اجنبی بنا دیا، اور وہی لوگ ان پر طنز واستہزا کے تیر برسانے لگے، جو اس سے پہلے ان کے عزیز ترین دوست اور اقارب تھے۔ اس انداز میں الشاطبی نے حضور ﷺ کو دیے جانے والے مصائب میں پنہاں ذہنی اذیت کی بپتا سنائی۔ "تمام اصحاب امن نے ان کے خلاف اعلان جنگ کیا، ان کا عزیز ترین دوست بھی ان کے لیے درد ناک عذاب کی حیثیت اختیار کر گیا۔ ان کے قریب ترین رشتہ ان کی دوستی سے سب سے زیادہ دور بھاگنے لگے۔ اور جو لوگ ان پر سب سے زیادہ مہربان تھے، وہی ان کے خلاف حد درجہ سنگ دل ہو گئے۔ تو کون سی اجنبیت اس اجنبیت کے برابر ہو سکتی ہے" (وصارَ أهلُ السِلْمِ كلُّهم حرْباً عليه، عادَ الوليُّ الـحَمِيم كالعَذاب الأَليم، فأقرَبـُهم إليه نسباً كان أبعدَ الناسِ عن مُوالاتِه، وأَلصقُهم به رحِماً كانوا أقسى قلوباً عليه، فأي غُرْبةٍ تُوازي هذه الغربة)28۔ حضور ﷺ کو اپنے مشن میں اس قسم کی مزاحمت کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ اس لیے کہ انھوں اس چیز کو چیلنج کیا "جس کے لوگ عادی بن گئے تھے" (خرج عن معتادهم) (13)۔ سنت اور بدعت کے بیانی پلاٹ میں ایک اور اساسی چیز ان راسخ عادات کی طاقت اور ترغیب ہے، جو احکام الہی کی مخالفت میں ہوتے ہیں۔
حضور ﷺ جزیرۃ العرب میں مشرکین اور دیگر غیر مسلموں کے درمیان طویل عرصے سے رائج عادات کے تسلسل میں مداخلت کی، اور اسی وجہ سے ان کے اصحاب کی مختصر جماعت سے لوگوں نے کنارہ کشی کی۔
لیکن اس ناگزیر دشمنی کے باوجود انھوں نے خدا کی اس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا، جس نے ان میں شدید مصائب میں بھی ہمت پیدا کی، اور انھیں متحد رکھا۔ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کا یہی وہ تصور ہے جو الشاطبی کی کتاب الاعتصام (مضبوطی سے پکڑنا) کی وجہ تسمیہ بنا۔ یہ قرآن کی ایک مشہور آیت سے ماخوذ ہے: "اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقے میں مت پڑو"29۔ اس قرآنی آیت سے اپنی کتاب کا عنوان اخذ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ الشاطبی کی نظر میں سنت نبوی سے انحراف اور بدعات کا ارتکاب کسی اعتقادی یا اخروی خلاف ورزی سے بڑھ کر ہے۔ بدعت سماج کے سیاسی نظم، اتحاد اور طاقت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ الشاطبی کی نظر میں یہ انفرادی نجات اور سماجی استحکام اور ہم آہنگی کے لیے ایک دوہرا خطرہ تھا۔
بدعت کے تباہ کن اثرات پر الشاطبی کا استدلال ایک منفرد بیانیے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ انھوں نے حضور ﷺ کی وفات کے بعد والی صدیوں میں اسلام کے ظہور کی کہانی اور اس کہانی میں اپنے مقام کو اجنبیت اور در بدری کے جذباتی تاثرات میں بیان کیا ہے۔ جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا، رسول اللہ ﷺ کی اس پیشن گوئی کے مطابق کہ: "میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی"، اس میں بدعات کا اضافہ ہونے لگا، بعینہ جس طرح اس سے پہلے یہودیت ومسیحیت کے ساتھ ہوا۔ رفتہ رفتہ لیکن حتمی طور پر اسلام کے اثرات اور وحدت متاثر ہونے لگی، کیونکہ عوام اہل سنت پر بدعات وخرافات غالب آ گئیں" (فتكالبت على سواد أهل السنة البدعة والأهواء) (15)۔
سادہ لیکن مؤثر ترغیبی الفاظ میں الشاطبی نے اتباع سنت اور اجنبیت کے درمیان ایک گہرا تعلق قائم کیا۔ "اہل حق اہل باطل کے مقابلے میں ہمیشہ کم رہے ہیں" (إن أهل الحق في جنب أهل الباطل قليل) (15)۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: "کوئی طبقہ اجنبی اس وقت بنتا ہے، جب وہ اپنے اہل وعیال کو کھو دیتا ہے، یا ان کی تعداد کم ہو جاتی ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب نیکی برائی میں اور برائی نیکی میں بدل جائے، سنت بدعت کی اور بدعت سنت کی صورت اختیار کر لے30" (الغربة لا تكون إلا مع فقد الأهل أو قلتهم، وذلك حين يصير المعروف منكرًا والمنكرُ معروفًا، وتصير السنة بدعةً والبدعةُ سنةً) (15)۔
الشاطبی کی نظر میں سنت اور بدعت کے درمیان ایک معکوس تعلق ہے۔ جب بھی کوئی بدعت جنم لیتی ہے، اس کے مقابلے میں ایک سنت مر جاتی ہے" (ما من بدعة تحدُثُ إلَّا ويـَموتُ من السُنَنِ ما هو في مُقَابَلَتِها) (19)۔ انھوں نے ایک ریاضی دان کی طرح دو جمع دو چار کے انداز میں لکھا، اور اپنے نکتۂ نظر کے اثبات میں نبی اکرم ﷺ کے مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 687) کی روایت پیش کی ہے: "لوگوں پر ابھی ایک سال بھی نہیں گزرتا، لیکن وہ اس میں کوئی بدعت ایجاد کر لیتے ہیں، اور کسی سنت کو مار دیتے ہیں" (ما يأتي على الناس من عام إلا أحدثوا فيه بدعةً أو أماتوا فيه سنة) (19)۔ اس لیے الشاطبی کے نزدیک سنت کے علم برداروں کی اجنبیت پہلے سے معلوم ایک رجعت پسندانہ زمنی نمونے کی اتباع ہے۔ علما کی ہر آنے والی نسل اپنے سے پہلی نسل کے مقابلے میں اپنے اردگرد کی دنیا میں سنت نبوی کے معدودے چند آثار دیکھتی ہے۔ اس نکتے پر زور دینے کے لیے الشاطبی نبی اکرم ﷺ کے ایک قریبی صحابی حضرت ابو الدرداء (م 652) (جو اموی عہد کے دمشق کے ایک نامور عالم اور فقیہ تھے) اور ان کی بیوی ام الدرداء کا واقعہ سناتے ہیں۔ باوجود یکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کو ابھی چند دہائیاں گزری تھیں، وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ایک دن ابوالدرداء اپنے گھر میں غصے سے داخل ہوئے۔ "آپ کیوں غصے میں ہیں؟" ان کی بیوی نے پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا: "خدا کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے امر (چھوڑی ہوئی سنتوں) میں کسی چیز کو (باقی) نہیں دیکھ رہا، سواے اس کے وہ باجماعت نماز پڑھتے ہیں" (والله ما أعرف شيئًا من أمر محمد إلا أنهم يُصلُّون جميعًا) (16)۔
الشاطبی اپنے آپ پر اس واقعے کی بعینہ تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب میں نے اپنا علمی سفر شروع کیا، اور عوام کو مخاطب کرنا شروع کیا، تو میں نے دیکھا کہ میں ہر طرف سے طرح طرح کی بدعات میں گھرا ہوا ہوں۔ جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں: "میں نے خود کو اپنے زمانے کے اکثر لوگوں میں اجنبی محسوس کیا" (وَجَدْتُ نفسي غريبًا في جمهور أهل الوقت) (16)۔ الشاطبی کی اجنبیت کی عجیب وغریب کہانی اس لائق ہے کہ اسے ان کے اپنے الفاظ میں بیان کیا جائے، کیونکہ وہ ایک بڑی حد تک بیانیت، سنت اور اجنبیت کے درمیان اس تعامل کی تصویر کشی کرتے ہیں، جس کا نقشہ میں نے ان آخری چند صفحات میں کھینچنے کی کوشش کی ہے:
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے اس پر غور کیا کہ لوگ جن چیزوں کے عادی بن گئے ہیں، میں ان کی مخالفت کی شرط پر سنت کی اتباع کروں۔ اس صورت میں یہ ناگزیر ہے کہ میرے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آئے جو رسوم کی مخالفت کرنے دیگر لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے، بالخصوص اس صورت میں جب ان اعمال کے مرتکبین اپنے ہی عمل کو سنت نہ کہ کوئی اور چیز سمجھتے ہوں۔ تاہم اس صورت میں مجھے ایک بھاری بھر کم بوجھ اٹھانا پڑتا، لیکن اس کے ساتھ اس کا اجر وثواب بھی بڑا تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ میں سنت اور سلف صالحین کی مخالفت کی شرط پر لوگوں کی اتباع کروں، جس سے میں گمراہی کے سایے تلے آ جاؤں، میں اللہ سے اس صورت کی پناہ چاہتا ہوں۔ تاہم اس صورت میں میں بدعت کی موافقت کرتا، اور مخالفین کے بجاے موافقین میں شمار ہوتا۔ (17)
آگے الشاطبی زیادہ پرزور انداز میں لکھتے ہیں: "لیکن میں نے دیکھا کہ اتباع سنت میں ہلاکت میں ہی نجات ہے" (رأيت أن الهلاك في اتباع السنة هو النجاة)۔ اور یہ کہ لوگ مجھے اللہ کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اس لیے میں نے بعض مسائل میں تدریج سے کام لینا شروع کیا تو میرے خلاف قیامت کھڑی کی گئی، اور مجھ پر مسلسل لعنت ملامت ہونے لگی۔ عتاب اپنے تیر میری طرف پھینکنے لگا، اور میری طرف بدعت وضلالت کی نسبت ہونے لگی، اور مجھے جاہلوں اور کند ذہنوں کا مرتبہ دیا گیا (فقامت على القيامة، وتواترت على الملامة، وفوّق إليّ العتاب سهامه، ونسبت إلى البدعة والضلالة، وأنزلت منزلة أهل الجهل والغباوة) (17)۔
الشاطبی نے ایک لے میں اپنی بلند ہمتی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دعوی کیا: "میں مسلسل ان بدعات کے پیچھے لگا رہا جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ کی، اور ان سے ڈرایا ہے۔۔۔۔۔ اور میں ان سنتوں کی تلاش کرتا رہا، جس کی روشنی ان بدعات کی وجہ سے بجھنے کے قریب تھی، تاکہ میں اپنے عمل سے ان کی چمک بحال کروں، اور قیامت کے دن ان کو زندہ کرنے والوں میں شمار ہو جاؤں" (أبحث عن السنن التي كادت تطفئ نورها تلك المحدثات، لعلي أجلو بالعمل سناها) (19)۔
دیکھیے الشاطبی نے کس طرح اپنے علمی کاوشوں کا بیانیہ ترتیب دیا، گویا کہ سیرتِ نبوی بیان کر رہے ہیں۔ بدعت کو بیانیے کے روپ میں بیان کرنا رسول اللہ ﷺ کے ایک وارث اور نبوی اختیار کی حیثیت سے اس کے اپنے مذہبی استناد کی تشکیل کے ساتھ گہرے طور پر مربوط تھا۔ کارِ نبوت کے ابتدائی دور میں رسول اللہ ﷺ کی طبعی، جذباتی اور نفسیاتی اجنبیت کی مثال راہ سنت میں کسی شخص کے مقام کو متعین کرتی ہے۔ بالفاظِ دیگر اجنبیت کا استعارہ زمانی دائرے میں تاریخ کے درست سمت میں کھڑے ہونے اور اخروی دائرے میں نجات پانے پر دلالت کرتی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ہر عہد میں وارثینِ نبوت کو اسی طرح کی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حضور ﷺ کے صحابی حضرت اویس قرنی (م 657) نے، جن کی طرف شیخ کی طبعی موجودگی کے بغیر اس کے ساتھ روحانی تعلق یا ارادت قائم کیے جانے کے معروف صوفی عمل (طریقۂ اویسیہ) کی نسبت کی جاتی ہے، اس تصور کا خلاصہ بہترین انداز میں بیان کیا ہے: "نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے سے کوئی شخص مومن کا دوست نہیں رہتا" (إن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لم يَدَعْ للمؤمنِ صديقًا) (19)۔
حواشی
- مدون: جیرِمی کیرٹ، Religion and Culture میں شامل مشل فوکو، A Preface to Transgression (نیو یارک: روٹلج، 1999)، 60۔
- میری ڈوگلس، Purity and Danger (لندن: روٹلج، 2002)، 50۔
- محی الدین النووی، الاربعین (قاہرہ: مکتبۃ الخانجی، 2005)، 5-7۔
- ماریبل فائرو، The Treatises against Innovations (kutub al-bida’)، Der Islam 68، شمارہ نمبر 1 (1992): 204 – 46۔ یہ مثالیں صفحہ 211 – 16 اور 220 پر موجود ہیں۔
- Voices of Islam، جلد 5، مدون: امید صافی (ویسٹ پوسٹ، سی ٹی: پریجر، 2007) میں عمر فاروق عبد اللہ کا مقالہ بعنوان: Creativity, Innovation and Heresy in Islam، ص 15۔
- یہاں پر میں اسلام میں بدعت سے متعلق مہران کامراوا کے نقطۂ نظر سے شدید اختلاف رکھتا ہوں۔ اس نے اپنی مرتب کردہ کتاب Innoavation in Islam میں بدعت کو اصلاح کی متقاضی "غالب قدامت پسندانہ بے مقصدیت" کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ "تخلیق وایجاد کی راہ میں رکاوٹوں" کی نشان دہی کے بجائے، جس کا مقصد ان پر قابو پانا ہو، تجزیاتی اعتبار سے کہیں زیادہ یہ کاوش مفید ہے کہ سنت وبدعت اور کفر وضلالت کے ان حریف تصورات کی تحقیق کی جائے جو استنادی مباحثوں اور مناقشوں کی مخصوص صورتوں میں بدعت کی اصطلاح پر مرتکز ہیں، یا اس اصطلاح سے پھوٹتے ہیں۔ ایسا طرز فکر ممکن ہے کہ اس طرح کے غلط سوالات کی تشکیل کو روکے کہ "مغرب کیوں کر ترقی یافتہ اور جدید بنا، جب کہ مسلم دنیا پیچھے رہ گئی؟" یا ایسے فضول عمومی تہذیبی دعووں کی بیخ کنی کرے کہ: "وہ دن گئے جب ریاضی، فلکیات، توپ سازی، صنعت، دواسازی، فلسفہ اور طبیعیات میں مسلمانوں کے کارنامے یورپ کے سائنسی انقلاب کے لیے راہ ہموار کرتے اور اس کی بنیاد کا کام کرتے۔ اسلام کا اپنا داخلی سائنسی انقلاب ختم ہو گیا، اس میں دریافت کی روح پژمردہ ہو گئی، اور عالمی تہذیب میں اس کا کردار اب یورپ سے بہت کم تر ہو گیا ہے"۔ ایسی باتیں سراسر مضحکہ خیز ہیں۔ مہران کامراوا، مدوِّن، Innovation in Islam: Traditions and Contributions (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2011)، صفحہ نمبر 1 اور 3۔
- محمد قاسم زمان، Islam in Modern South Asia (آکسفرڈ: ون ورلڈ پبلیکیشنز، 2008)، 17۔
- ایضاً، 30۔
- تھانوی کے علمی تراث کو تاریخی ترتیب کے ساتھ تین مقالوں میں عمدگی کے ساتھ زیر بحث لایا ہے: درخشان خان، Fashioning the Pious Self: Middle Class Religiosity in Colonial India (پی ایچ ڈی مقالہ، یونیورسٹی آف پینسلوینیا، 2016)؛ علی میاں، Surviving Modernity: Ashraf Ali Thanvi and the Making of Muslim Orthodoxy in Colonial India (پی ایچ ڈی مقالہ، ڈیوک یونیورسٹی، 2015)؛ فریحہ خان، Traditionalist Approaches to Shari’ah Reform: Molana Asharaf Ali Thanwi’s Fatwa on Women’s Right to Divorce (پی ایچ ڈی مقالہ، یونیورسٹی آف مشیگن – این آربر، 2008)۔
- کرسٹین کورسگارڈ، The Sources of Normativity (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1996) 8، 9۔
- دیکھیے بریٹ ولسن، Failure of Nomenclature: The Concept of Orthodoxy in the Study of Islam، کمپیریٹو اسلامک سٹڈیز 3، نمبر 2 (2007): 169 – 94۔
- رابرتو ایسپزیتو، Two: The Machine of Political Theology and the Place of Thought (نیو یارک: فوردھام یونیورسٹی پریس، 2016)۔
- میں اروند منڈیر کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے اسپزیتو کی کتاب کی طرف مجھے توجہ دلائی۔
- اسپزیتو، Two، 23۔
- اروند منڈیر، Decolonizing Secularism’s ‘Conceptual Matrix’، کمپیریٹو سٹڈیز آف ساؤتھ ایشیا، افریقا اور دی مڈل ایسٹ 38، نمبر 2 (2018): 443 – 51۔
- دیکھیے اروند منڈیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)۔
- مثلا دیکھیے: رابرٹ لینگر اور اوڈو سائمن، The Dynamics of Orthodoxy and Heterodoxy: Dealing with Divergence in Muslim Discourses and Islamic Studies، ڈائی ویلٹ ڈیس اسلامز: انٹرنیشنل جرنل فار دا سٹڈی آف ماڈرن اسلام 48، اشاعت ¾ (2008): 273 – 88۔
- گل انیدجر، Blood: A Critique of Christianity (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2016)۔ اپنی شاہ کار کتاب What is Islam? The Importance of Being Islamic میں شہاب احمد نے شریعت کے بارے میں میرے ایک سابقہ نظریے پر -میری نظر میں صحیح۔ توضیح کی ہے کہ مسلم فکر اور تاریخ میں شریعت کی تنفیذ صرف اور صرف علما کا دائرہ نہیں (اگر چہ وہ اس معاملے میں کسی حد تک علما کے کردار کی اہمیت کو گھٹاتے ہیں)۔ اس توضیح نے میری تعبیر کی ترتیبِ نو کو بہتر بنانے میں مجھے فائدہ دیا۔ تاہم میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راسخ العقیدگی پر میری تنقید میں شریعت کا مصدر (اختصاصی علم/ اقتدار وغیرہ) میرا مرکزی نکتہ نہیں تھا۔ اس سے کہیں زیادہ میرے استدلال کا بنیادی مقصد یہ کوشش تھا کہ بین المسالک اختلافات کو ان فکری سانچوں کے خوف ناک حصار سے آزاد کراؤں، جو سیکولر سیاسی الہیات کی حرکیات کو قائم رکھتے اور آگے بڑھاتے ہیں، جیسا کہ میں نے اوپر واضح کیا۔ تاہم جاتے جاتے میں یہ واضح کردوں کہ راسخ العقیدگی کی اصطلاح سے شہاب احمد کی وابستگی بادی النظر میں ایک حد تک حیران کن اور پہیلی جیسا معلوم ہوتا ہے۔ کیا اس کی کتاب کا مرکزی نکتہ اسلام میں راسخ العقیدگی کی غالب اور فقہی تناظر کی تفہیمات کو تہہ وبالا کرنے کا قابل قدر پروجیکٹ نہیں؟ لیکن زیادہ گہرے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ راسخ العقیدگی کی اصطلاح اور اس سے توقع کو ترک کرنے میں اس کی ہچکچاہٹ حقیقت میں اس قدر حیرت انگیز نہیں۔ کیوں کہ اس کی کتاب کا ایک اور بنیادی خیال راسخ العقیدگی کے ایک تصور (جو فقہی تناظر پر مبنی ہے) کو ایک دوسرے تصور (جس کی بنیاد محبت، فلسفے، شاعری وغیرہ ہے) سے بدلنا ہے۔ حریف راسخ العقیدگی کا یہ تصور خاص طور پر اس کے کھلے عام لفظوں میں تاریخیت اور تجربیت پر مبنی متعدد دعووں میں سامنے آیا ہے، جس کی رو سے مسلمانوں کے لیے مخصوص کتابوں اور مصنفین کی "مرکزیت" اور "اثرات" کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کتنی بار اس کتاب کا حوالہ دیا گیا، یا اس کے قارئین کتنی تعداد میں تھے (احمد، What is Islam، 7 – 106)۔ راسخ العقیدگی کی غالب تفہیمات کو ختم کرنے جب کہ اس کے پے بہ پے راسخ العقیدگی کی نئی عمارتیں تعمیر کرنے کی متناقض خواہش وہ بنیادی فکری تضاد ہے، جو اس کی پوری کتاب میں نمایاں ہے۔
- پائرے بوردیو، The Logic of Practice (Stanford, CA: Stanford University Press, 1990)، 54۔ جان لیجیے کہ اجماع (doxa) اور راسخ العقیدگی (orthodoxy) کسی طرح بھی ایک نہیں۔
- ایضاً، 55۔
- ایضاً۔
- پائرے بوردیو، Outline of a Theory of Practice (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 1990)، 166۔
- بوردیو، Logic of Practice، 60 – 61۔
- مدون: ڈبلیو جے ٹی مچل، On Narrative (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 1980) میں ہیدن وائٹ کا آرٹیکل، The Value of Narrativity، 22 – 23۔
- الشاطبی اور ان کی قانونی فکر کے لیے مزید ملاحظہ کیجیے: خالد مسعود، Shatibi’s Philosophy of Islamic Law (کوالالمپور: اسلامک بک ٹرسٹ، 2002)۔
- ابراہیم موسی، Ghazali and the Poetics of Imagination (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2005) 43۔
- پال ریکوئر، Narrative Time، مچل کے On Narrative میں، 179۔
- ابراہیم الشاطبی، الاعتصام (بیروت: دار الکتاب العربی، 2005)، 13۔ اس کتاب کے دیگر حوالے بھی اسی اشاعت سے ہیں، اور متن کے اندر بین القوسین درج کیے گئے ہیں۔
- القرآن 3 : 103۔
- یہاں پر میں نے منکر کے معروف تراجم جیسے 'برائی'، 'غلط' اور 'مردود' نے نہیں کیا۔ اس کے بجاے میں نے اسی معنی میں بامحاورہ ترجمہ کیا ہے، جو الشاطبی کا مقصود ہے، یعنی "خلافِ سنت اور عوام میں رائج اور مقبول"31۔ دیکھیے: اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ اشرفیہ، 1958) اور شاہ محمد اسماعیل، ایضاح الحق (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1976)۔
(جاری)