انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۳)

ڈاکٹر شیر علی ترین

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Moderity کا پہلا باب)


پہلا باب: نوآبادیاتی ہندوستان کے ابتدائی عہد میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر غور وفکر

انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ایک موقع پر  شمالی ہندوستان کے نامور مسلمان مُصلح شاہ محمد اسماعیل دہلی کی مشہور جامع مسجد کے صحن میں بیٹھے درسِ حدیث دے رہے تھے۔ لوگوں کا ایک مجمع تبرکاتِ نبوی کو اٹھائے مسجد میں داخل ہوا اور مسجد کھچا کھچ بھر گئی۔ یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کی شان میں بآوازِ بلند درود وسلام پڑھ رہے تھے۔ شاہ اسماعیل اس منظر سے بالکل متاثر نہ ہوئے اور انھوں نے اپنا درس جاری رکھا۔ ان کی طرف سے کسی قسم کا رد عمل نہ پا کر جلوس میں شریک لوگوں کو بڑی ناگواری ہوئی۔ "مولانا! یہ کس طرح کا رویہ ہے؟" ان میں سے ایک نے اسماعیل کو طنزیہ انداز میں کہا۔ "از راہِ کرم کھڑے ہو جائیے اور تبرکاتِ نبوی کے سامنے تعظیم بجا لائیے"1۔

تاہم شاہ اسماعیل پھر بھی  بے توجہی  کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ان کی مسلسل بے توجہی  نے جلوس کو مزید برافروختہ کیا۔ اب انھوں نے ذرا سخت لہجے میں اپنا مطالبہ دہرایا۔ آخر کار شاہ اسماعیل نے جواب دیتے ہوئے کہا: "پہلی بات یہ ہے کہ یہ تبرکات مصنوعی ہیں، حقیقی نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ اس لمحے میں رسول اللہ ﷺ کے نائب کی حیثیت سے ان کے پیغام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوں، اس لیے میں کھڑا نہیں ہو سکتا"۔ اس تلخ جواب نے پہلے سے مشتعل مجمع کو مزید بھڑکایا۔ نوبت   شدید  جھگڑے تک  نہ پہنچنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ مسجد میں شاہ اسماعیل کے پیروکاروں کی تعداد بھی اتنی ہی تھی جتنی کہ ان کے مخالفین کی۔ اس لیے یہ لڑائی صرف زبانی تلخ کلامی اور تو تو میں میں تک محدود رہی2۔

شاہ اسماعیل کے رویے پر شدید برہم ہو کر جلوس نے ان کے خلاف اس وقت دہلی میں مسند نشیں مغل بادشاہ اکبر شاہ (م 1837) کے پاس باضابطہ مقدمہ دائر کیا۔ انھوں نے شاہ اسماعیل پر گستاخئ رسول کا الزام لگایا اور اکبر شاہ سے مطالبہ کیا کہ انھیں اس گستاخانہ رویے کی سزا دے۔ بادشاہ نے اسماعیل کو دربار میں طلب کیا اور اس واقعے کے دن ان  کی طرف سے جامع مسجد میں اختیار کیے کیے گئے طرز عمل کی وضاحت مانگی3۔ دربار میں شاہ اسماعیل نے تسلیم کیا کہ انھوں  نے تبرکات کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ مصنوعی ہیں اور یہ کہ انھیں ان کی تعظیم بجا لانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اکبر شاہ نے انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا: "یہ کس قدر نامناسب ہے کہ آپ ان تبرکات کو مصنوعی کہہ رہے ہیں"۔ اسماعیل مسکرائے اور نرمی سے جواب دیا: "جناب، میں نے تو انھیں صرف  زبان سے  مصنوعی کہا ہے، لیکن آپ تو حقیقت میں انھیں مصنوعی  سمجھتے ہیں"۔ اکبر شاہ نے حیرت کے عالم میں پوچھا: "وہ کیسے؟" اسماعیل نے واضح انداز میں کہا: "جناب، سال بھر میں یہ تبرکات دو دفعہ آپ کو  زیارت کروانے کے لیے آپ کے پاس دربار میں لائے جاتے ہیں، لیکن آپ خود کبھی ان تبرکات کی زیارت کے لیے دربار چھوڑ کر نہیں جاتے"۔ یہ سن کر بادشاہ لاجواب ہو گیا۔

شاہ اسماعیل نے دربار میں ایک وزیر سے مطالبہ کیا کہ وہ قرآنِ کریم اور بخاری شریف لے کر آئے۔ جب یہ دو کتابیں ان کے پاس لائی گئیں تو انھوں نے انھیں کچھ وقت کے لیے ہاتھوں میں لیا اور پھر انھیں واپس کر دیا۔ پھر وہ دربار میں جمع لوگوں کے سامنے تقریر کے لیے آگے بڑھے۔ اس تقریر میں شاہ اسماعیل نے اس بات کا پرزور اعادہ کیا کہ تبرکات کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ حقیقی ہیں یا مصنوعی۔ "لیکن اگر ہم ان کے مستند ہونے کو تسلیم کر لیں، تب بھی جو تقدس رسول اللہ ﷺ کے پہنے ہوئے جوتے یا لباس کے ایک ٹکڑے کے ساتھ  وابستہ کیا جاتا ہے، وہ کسی ذاتی شرف کا حامل  نہیں۔ اس کے برعکس قرآن کے کلامِ الہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اسی طرح بخاری شریف یقینی طور پر رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں، اور دین میں قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا اور رسول ﷺ کا کلام رسول اللہ ﷺ کے پہنے ہوئے لباس سے زیادہ مقدس ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود جب قرآن اور صحیح بخاری کا نسخہ آپ کے سامنے لایا جاتا ہے تو کوئی تعظیم کے لیے کھڑا نہیں ہوتا۔  اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ لوگ تبرکاتِ نبوی کی تعظیم ان کے تقدس کی وجہ سے نہیں بلکہ رسم پرستی کی بنیاد پر کرتے ہیں"4۔

جیسا کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے، انیسویں صدی کے اوائل میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی روشنی میں رسم ورواج کی شرعی حیثیت نے شمالی ہندوستان کے عوامی حلقوں میں بین المسالک اختلافات میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ شاہ اسماعیل، جو اس کہانی کے اصل کردار ہیں، ایک نئی ابھرنے والی اصلاحی تحریک کی شکل میں سامنے آئے جس نے عرصہ دراز سے چلے آنے والے رسم رواج کو اگر مذہب کے لیے مکمل طور پر نقصان دہ قرار نہیں دیا تو بھی انھیں غیر ضروری کہہ کر شد ومد سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر ان کے نزدیک تبرکاتِ نبوی کی تعظیم ایک غیر ضروری انحراف ہے جس نے دین کی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ مادی تبرکات کا نبی کی ذات سے کوئی خاص تعلق نہیں؛ وہ صرف اشیا ہیں جو کسی بھی قسم کے پیغمبرانہ  تقدس سے خالی ہیں۔ ان میں وہ چیز نہیں پائی جاتی  جو مذہبی دانشور رابرٹ اورسی (Robert Orsi) کے الفاظ میں، پیغمبر کی "حقیقی موجودگی" میں ہوتی ہے5۔ پُرجوش انداز میں حقیقی اور مادی اشیاء کے درمیان فرق کرنے کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل جیسے مصلحین نے شاہانہ طرزِ زندگی اور سیاست کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کیا جو ان کی نظر میں دینی اعتبار سے کمزور لوگوں کی افزائش کا سبب تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اشرافیہ کی طرزِ سیاست نے ایسے مذہبی رویے کو پروان چڑھایا ہے جس نے عام لوگوں میں توہم پرستی کو پختہ اور خدائی حاکمیتِ اَعلیٰ کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ اشرافیہ مخالف سوچ مذکورہ بالا واقعے سے واضح ہے جس سے عوام کے لگی  بندھی  رسموں کے "نشے" میں مبتلا ہونے اور اس وقت کے مغل بادشاہ کی دینی کمزوری کے درمیان ایک ربط نمایاں ہوتا ہے۔

تاہم تبرکاتِ نبوی کے احترام سے شاہ اسماعیل کے انکار پر جلوس کی مخالفت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصلاحی تحریک کے علم برداروں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حریف علما کے ایک گروہ نے پوری قوت سے ان کے استناد کو للکارا اور ان روایات کا دفاع کیا جنھیں شاہ اسماعیل تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس مخالف گروہ کے لیے تبرکاتِ نبوی کا احترام نبی کی عزت وتعظیم کا ایک مثالی راستہ تھا۔ اس لیے جو بھی ان رسموں کی شرعی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے،  وہ رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت اور خصوصی مقام  کی تحقیر کا مجرم ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں روایت اور نبوی دائرۂ اختیار کے حدود پر یہ مناقشے ایک ایسی صورتِ حال سے ابھرے جس کی خاصیت حاکمیتِ اعلیٰ کا بحران ہے۔ 1707ء میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد آنے والی دہائیوں میں مسلمانوں کی سیاسی تقدیر تیزی سے انحطاط پذیر تھی۔مغلیہ سلطنت کے دو سو سال سے زائد  عرصہ حکومت کے بعد  1757 میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں ایک نئی سامراجی طاقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھا رہی تھی۔ درج بالا قصے میں مذکور اکبر شاہ صرف براے نام بادشاہ تھا جس کی مؤثر عمل داری محض دہلی کے دارالخلافہ  تک محدود تھی۔ وہ اورنگزیب کے جانشینوں کے اس سلسلے سے تعلق رکھتا تھا جو ایک ایسے ہندوستان پر  حکمران تھے  جس میں حاکمیتِ اعلیٰ بتدریج لیکن فیصلہ کن انداز میں برطانیہ کو منتقل ہو رہی تھی6۔

سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ میں اس تبدیلی نے اعتقادی دائرے میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر گرما گرم مباحث کے لیے ماحول کو ساز گار بنا دیا۔ ان اختلافات کے پیچھے یہ سوال کار فرما تھا کہ: خدا، پیغمبر اور عام مسلمانوں کے درمیان تعلق کو ایک  نظریے کی شکل دینے کے لیے کس سیاسی تصور کو بنیاد بنایا جائے؟ کیا یہ سہ گانہ تعلق نظام مراتب کی صورت میں ترتیب دیا جائے  جس میں حاکمِ اعلیٰ یعنی خدا تک رسائی صرف پیغمبر ﷺ کے وسیلے سے ممکن ہے؟ یا خدا اور بندے کے درمیان تعلق ایک یکسر مختلف جمہوریت پر مبنی ہے جو نظام مراتب کے کسی بھی تصور کو مسترد کرتی ہے؟ مذہبی معاشرت کی تشکیل کے یہ متوازی تصورات روزمرہ زندگی اور اعمال کے کون سے تصورات کا تقاضا کرتے ہیں؟

سیاسی تبدیلی کے اس دور میں انھی سوالات نے ہندوستان کے مسلمان اہل علم کے درمیان کئی مناظروں اور مباحثوں کو جنم دیا۔ زیرنظر کتاب کا یہ حصہ انیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں ہونے والی انھی مناظرانہ سرگرمیوں کا تجزیہ کرتا ہے جن کی وجہ سے اسلام میں خدائی حاکمیت اور نبوی تقدس کے درمیان تعلق کی متوازی تفہیمات سامنے آئیں۔ جن کرداروں نے ان مناظروں میں شرکت کی، وہ دہلی کے دو نامور مسلمان سنی علماء: شاہ محمد اسماعیل (جن کا ذکر درج بالا قصے میں ہوا) اور فضل حق خیر آبادی تھے۔

ان کے مناظروں کا مرکزی نکتہ اسلام میں شفاعتِ نبوی کے شرعی حدود اور امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان) اور امکان نظیر (خدا کی حضرت محمد ﷺ کی طرح کا ایک اور نبی پیدا کرنے پر قدرت) کے بیک وقت جنم لینے والے دو اعتقادی مسائل تھے۔ شفاعت نبوی سے مراد قیامت کے دن خدا اور اس کے گناہ گار بندوں کے درمیان سفارشی کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کا کردار ہے جس کی رو سے  حضور ﷺ گناہ گاروں کی طرف سے خدا کے دربار میں پیش ہو کر ان کے گناہ بخشوائیں گے اور انھیں جنت میں جگہ دلوائیں گے۔ نبی اکرم ﷺ کے منصب شفاعت کے متعلق اسلامی شریعت کے مصادر یعنی  قرآن وسنت میں تفصیلی بحث موجود ہے۔ تاہم اس سفارش کا دائرہ اور خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے حوالے سے اس کے مضمرات شدید بحث ومباحثے کا موضوع رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ماقبل جدید اسلامی روایت میں معتزلہ کے کلامی مکتب سے وابستہ علماء نے شفاعت کے عقیدے کو رد کیا۔ معتزلہ نے عقیدۂ شفاعت کو خدائی حاکمیت کے لیے براہ راست  خطرہ قرار دے دیا7۔ جیسا کہ شون مارمن (Shaun Mormon) نے بتایا ہے، قرون وسطیٰ میں، مثلا ً‌ مملوکوں کے زیر حکومت مصر میں بالکل اسی طرح اس سوال پر دقیق بحث ومباحثہ ہوا تھا کہ دنیوی یا شاہی  سفارش میں اور اخروی شفاعت کے درمیان خطِ امتیاز کیا کھینچا جائے8۔

نسبتاً‌ قریبی زمانے  میں عالم عرب میں وہابی مکتب فکر کے حامیوں نے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ شفاعتِ نبوی کے عقیدے کی تردید ہے۔ اس کی سب سے حیران کن مثال 1925 میں اس وقت سامنے آئی جب سعودی اداروں نے رسول اللہ ﷺ، ان کے خاندان اور ان کے قریب ترین صحابہ کرام کی قبروں کو اس بنیاد پر مسمار کیا کہ وہ پوجا پاٹ کے مراکز بن گئے ہیں اور اس طرح خدائی حاکمیت اعلیٰ (توحید) کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس باب میں شاہ اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی کے درمیان جس سوال پر نزاع اور بحث رہی، وہ سعودی حکومت کے آنحضرت ﷺ کے خاندان کی قبروں کو مسمار کرنے سے ایک صدی پہلے پیش آیا۔ اس لیے بہت سے حوالوں سے ان کا مناظرہ اس اعتقادی کشمکش کی نمائندگی کرتا ہے جو آنے والی دہائیوں میں مباحثوں اور مناظروں کے ایک زبردست طوفان میں بدلنے والی تھی ، اور جس کے نتائج بڑے واضح انداز میں مزارات اور قبروں کی مسماری جیسے واقعات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اگر چہ شاہ اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی کی وجہ سے کوئی اینٹ نہیں گری، لیکن اس تنازع کے نتائج  اتنے ہی حیران کن ہیں۔

فضل حق خیرآبادی نے توہینِ رسالت کے الزام کی بنیاد پر شاہ اسماعیل پر کفر اور واجب القتل ہونے کا فتوی لگایا۔ اس کے جواب میں شاہ اسماعیل نے خیر آبادی پر ایک ایسی  دینی فکر کو پروان چڑھانے کا الزام لگایا جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کی خصوصی  حیثیت کو کمزور کرتا اور عوام میں بدعات وخرافات کے ارتکاب کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جیسا کہ اس کتاب کے آئندہ  حصوں میں بتایا جائے گا، ان کے درمیان اس اختلاف نے انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں شمالی ہندوستان کے حریف علما کے درمیان ایک خوف ناک اعتقادی معرکہ آرائی کی صورت اختیار کر لی۔ پہلے حصے کے اس تعارف میں ان شخصیات کے علمی کردار، ان کے مناقشے کی بُنت اور ان کے اختلاف کی اہمیت پر مزید بحث کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اس سیاسی اور فکری ماحول کے نمایاں خد وخال کو واضح کروں جس میں شاہ اسماعیل اور مولانا خیرآبادی کے درمیان بحث ومباحثہ کا ظہور ہوا۔ اس مقصد کے لیے میں وہ مختلف طریقے دریافت کرنے کی کوشش کروں گا  جن سے سیاسی کلامیات کا تصور   فریقین کے موقف اور کشمکش کے سیاق سباق پر روشنی ڈالنے میں ممکنہ طور پر ممد ومعاون ہو ۔ اس کے بعد میں حاکمیت اعلی ٰ کے تصور میں ان بنیادی تبدیلیوں کا ایک مختصر شجرہ   پیش کروں گا جو مغل  اقتدار  سے برطانوی اقتدار کی طرف انتقال کے دوران میں رونما ہوئیں اور یہ بحث آئندہ ابواب کے لیے ایک پس منظر فراہم  کرے گی۔

سیاسی  قالب  میں مذہبی تصورات: عالمی شمال اور جنوبی ایشیا

حال ہی میں سیاسی قالب میں مذہبی تصورات کی  بحث نے یورپ اور امریکا کے علمی حلقوں میں کافی ہلچل  مچائی ہے۔ اس تصور میں زیادہ تر موضوع بحث جدید سیکولر سیاسیات بالخصوص جدید قومی ریاست کی  مذہبی بنیادوں کی نشاندہی ہے۔ اس تصور کو عموماً‌ جرمن مفکر کارل شمٹ (Carl Schmitt) کی 1922 میں چھپنے والی مؤثر کتاب "سیاسی قالب میں مذہبی تصورات" (Political Theology) سے جوڑا جاتا ہے۔

اس کاوش میں شمٹ نے نہایت عمدگی سے یہ استدلال کیا ہے کہ: "ریاست کے جدید نظریے سے متعلق تمام نمایاں تصورات سیکولر ازم کے قالب میں ڈھالے گئے مذہبی تصورات ہیں"9۔ جدید ریاست مذہب پر قابو پانے اور اس کی جگہ لینے کے باوجود اپنی حاکمیت کی تشکیل میں گہرے طور پر مذہبی ہے۔ شمٹ کی فکر کے ایک تحقیقی مطالعے میں پال کاہن (Paul Kahn) شمٹ کے استدلال کا خلاصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں: "ریاست ایک سیکولر تنظیم نہیں، جیسا کہ یہ دعوی کرتی ہے"10۔ اس کے بجاے مفروضہ سیکولر ریاست کی حاکمیتِ اعلیٰ قادر مطلق خدا کی طرح ہے جس کا دار ومدار عمومی قاعدے کے برخلاف استثنائی قانون کی  تنفیذ کی صلاحیت پر ہے۔ اس رائے نے ایسے کئی اہل علم کی توجہ حاصل کی ہے جنھوں نے مختلف انداز میں شمٹ کے نظریے کو توسیع دی ہے، اس پر نظرثانی کی ہے اور اسے نقد ونظر کا موضوع بنایا ہے، تاکہ جدید سیکولر سیاسیات کے مذہب پر مبنی سیاسی نظاموں سے کلی انقطاع کے پُرفریب دعوے پر سوال اٹھا سکیں۔ تحقیق کا یہ انداز، جس کا مقصد لبرل سیکولر سیاسیات کی مفروضہ  خصوصی اور استثنائی حیثیت   کا ابطال ہے، علم اور انسانی زندگی کے متعدد شعبہ جات میں سرانجام دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہامل گراہم (Graham Hammil) اور جولیا لَپٹن (Julia Lupton) جس انداز میں سیاسی کلامیات کے تصور کو زیرِ غور لاتے ہیں، اس کی وسعت کو دیکھیں: "وہ   باہمی معاملات، معاہدے اور مقابلے جو سیاسی اور مذہبی زندگی کے درمیان وقوع پذیر ہوتے ہیں، بالخصوص مقدس حکایات، بنیادی نظریات اور  رسومیاتی اشکال  کا اس مقصد کے لیے استعمال کرنا کہ  بادشاہوں، کارپوریشنز اور پارلیمانوں کی حاکمیت قائم ہو، اسے جواز فراہم ہو، اور اس پر غور وفکر کیا جائے"11۔

اس اعتبار سے ایک نظریے کی حیثیت سے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  کا تعلق صرف مذہب تک محدود نہیں۔  ہامل اور لپٹن اپنی کتاب کے آغاز میں پرزور انداز میں بتاتے ہیں: "مذہب اور سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  ایک چیز نہیں"12۔ اس کے بجاے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  ایک اہم فکری کلید فراہم کرتا ہے جس سے سیکولر طاقت کے اندازِ کار کو مذہب، قانون، ادب، سیاسیات، سائنس اور اقتصادیات جیسے متنوع لیکن باہم دگر جڑے ہوئے میدانوں میں کھولا جا سکتا ہے۔ میں ان علمی کاوشوں کے زیرِ بار ہوں جنھوں نے سیکولر حکومت کے اختلافات، تناقضات اور کلامیات کو نمایاں کرنے کے لیے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  کی فکر سے کام لیا ہے، اگرچہ میں اس کاوش میں  ذرا الگ انداز سے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  سے تعرض کروں گا۔

مجھے سیاست کی اعتقادی بنیادوں کے بجاے ان سیاسی تصوّرات، مفروضات اور توقعات میں زیادہ دلچسپی ہے جن کی جھلک بظاہر اعتقادی مباحثوں اور مناقشوں میں نظر آتی ہے۔ میری توجہ کا مرکز مذہبی تصورات  اور سیاسیات کا  سنگم ہے، جیسا کہ  وه خدائی حاکمیتِ اعلیٰ پر مباحثوں اور مناقشوں میں ظاہر ہوئے۔ وہ کون سے مناہج ہیں جن میں خدا اور انسانوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مناقشات اور استدلالات سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کی  بدلتی  تفہیمات اور مظاہر کے عکاس اور ان پر مبنی ہیں؟13 مختصر یہ کہ آنے والے ابواب میں میں اسی سوال کو پیش نظر رکھ کر بات کروں گا۔

اس سوال نے جس حل طلب مسئلے (problem space) کا کئی پہلؤوں سے احاطہ کیا ہے، وہ کارل شمٹ کی کتاب Political Theology میں موجود ایک اور اہم رائے سے ماخوذ ہے جس کی رو سے "وہ مابعد الطبیعی تصویر جو ایک مخصوص عہد دنیا کے متعلق  بناتا ہے، اس کی ساخت بعینہ وہی ہوتی ہے جسے وہ عہد فوری طور پر اپنے سیاسی نظم کی ہیئت کے لیے بھی مناسب سمجھتا ہے"14۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ ماورائیت سے  انسانی خود انحصاری تک کا سفر عہدِ جدید کی ابتدا سے یورپ کے سیاسی کلامیات میں بنیادی پیش رفت کی نمائندگی کرتی ہے۔  ]حکومت کے[ جواز (legitimacy) کے جمہوری تصور نے  اپنی حکمرانی کے لیے ایک واحد شارع کی حیثیت سے حاکمِ اعلیٰ کو انتہا پسندانہ انداز میں "نکال باہر کرکے" سابقہ شاہی تصور کی جگہ لے لی۔ مسلمانوں کی بادشاہت کا عہد آخر کار اختتام پذیر ہوا، اس لیے کہ روایتی معنوں میں جواز (legitimacy) کا وجود باقی نہ رہا۔ شمٹ نے اپنے استدلال میں بتایا کہ سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں کلامیات اور سیاسیات دونوں شعبوں میں مطلق العنان حاکمِ اعلیٰ کا تصور رائج تھا۔ نتیجتاً شمٹ نے دعویٰ کیا کہ کسی خاص عہد میں ترتیب دی گئی دنیا کی فکری تصویر کا خاکہ  بعینہ اس دور میں رائج سیاسی نظم کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے انیسویں صدی میں جیسے جیسے سیاسی تصورات اور ریاست سے متعلقہ نظریات روز افزوں انسانی خود انحصاری  (immanence) کے زیر اثر آتے رہے، وہ شاہی طاقت کو کمزور کرتے گئے جس کی جگہ آخر کار ایک یکسر مختلف جمہوریت نے لے لی15۔

جمہوریت کے اس نئے شعور کی وہ فیصلہ کن خاصیت جو اسے اس کے شاہی مد مقابل سے ممتاز کرتی ہے، حالت استثنا کا مکمل استرداد ہے۔ حالت استثنا کلامی معنوں میں ان کرامات وعقائد کی نمائندگی کرتی ہے جو انسانی سمجھ اور تنقیدی شک سے بالا ہوتے ہیں۔ شمٹ نے اسے یوں بیان کیا ہے: "جمہوریت  سیاسی اضافیت کی ایک ایسی تعبیر ہے جو معجزات اور تحکمانہ عقائد سے آزاد ہے"16۔

جیسا کہ مؤرِّخ ڈیوڈ گلمارٹن (David Gilmartin) نے بہت عمدہ انداز میں واضح کیا ہے، حاکمیتِ اعلیٰ کا کوئی تصور، چاہے وہ خدائی ہو یا ریاستی، طاقت کی ایک ایسی صورت کی نمائندگی کرنے کی اَن بوجھی پہیلی سے نہیں بچ سکتا، جو سیاسیات اور روزمرہ زندگی کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے  بھی اس کے ساتھ الجھا ہوتا ہے۔ حاکمِ اعلیٰ کی طاقت بیک وقت اپنے دائرۂ عمل کے اندر اور  باہر موجود ہوتی ہے۔ گلمارٹن اس پہیلی کو بوجھنے کے لیے "]حکومت کے[ جواز" (legitimation)، "طاقت (authority) کا ایسا دعوی جو معمول سے ماورا ہو" اور "حکومت (governance): فی الواقع سماج میں نظم کو بروے کار لانے اور برقرار رکھنے کی خاطر معمول کی کارروائیوں" کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے17۔ موضوع بحث سے قدرے باہر نکلنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہاں پر حاکمِ اعلیٰ کی طاقت سے متعلق گلمارٹن کے تجزیے کو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے تحفظ کے لیے مذہبی اصلاح کے تصور میں کار فرما داخلی کشاکش پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو روزمرہ رسم ورواج کے بگاڑ سے تحفظ فراہم کرنے کا معنی خیز اشارہ اس بنیادی تضاد میں مقید رہتا ہے جسے گلمارٹن نے زیرِ غور لایا ہے کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ معمول کی زندگی سے باہر رہتی ہے، لیکن اس کے الٹ پھیر سے اسے خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے؛ وہ فانی وجود سے ماورا ہوتی ہے، تاہم وہ اس کا سب سے زیادہ قریبی معمار بھی ہے۔

یہ نکتہ کہ حاکمیتِ اعلیٰ کی یہ کشمکش کوئی مجرّد نظریاتی اور سادہ معاملہ نہیں، اس کی بہت  مفید  وضاحت ہندوستان میں برطانوی استعمار کی حکومت کے بارے میں دو متنازع لیکن باہم معاون ڈسکورسز: "استعمار(Colonialism)" اور "سامراجیت (Imperialism)" سے متعلق متھی مکھرجی (Mithi Mukherjee) کے تجزیے میں کی گئی ہے۔  مکھر جی نے استعمار  کے لفظ کو جس طرح استعمال کیا ہے، اس سے مراد حکمرانی کے وہ معاملات ہیں جو "زمینی فتوحات، طاقت، تشدد، غلبہ اور مفتوح اقوام کو مطیع بنانے سے عبارت ہیں"18۔ اس کے برعکس "سامراجیت نیچرل لا (Natural Law) کے تحت انصاف کے ایک ماورائے قومیت اور بالائے جغرافیہ تصور پر مبنی ہے"، جو استعماری طاقت و حکومت کی ناانصافیوں کو لگام دینے اور ان پر نکتہ چینی کی کوشش کرتی ہے19۔ استعماری طاقت اور سامراجی انصاف کے یہ متوازی ڈسکورسز باہم مل کر کام کرتے تھے، جن میں اول الذکر سماج میں جارحانہ انداز میں سرگرم عمل رہتا ، جب کہ مؤخر الذکر بالکل الگ تھلگ رہ کر باہر سے  اول الذکر کی نگرانی کرتا تھا۔ اس کا مجموعی اثر یہ تھا کہ استعماری ریاست اور مقامی سماج کے درمیان سپریم کورٹ کے ادارے اور وکیل کی شخصیت کو سب سے طاقتور ثالث کے مقام پر فائز کیا گیا۔  استعماری حاکمیت کی ترقی اور استحکام کا حصول  ان دو عوامل  کے باہمی تناو اور  کشمکش کے ذریعے سے کیا جاتاتھا، یعنی ایک طرف طاقت کے بل بوتے پر حکومت اور دخل اندازی اور دوسری طرف نیچرل لا کی  ماورائےجغرافیہ چھتری کے نیچے انصاف کی فراہمی۔

میں چاہتا ہوں کہ ذیل میں حاکمیتِ اعلی سے متعلق ان تاریخی افکار کی روشنی میں اس سوال کا جواب دوں کہ: سیاسی نظریات اور افکار کے بدلتے تصورات کس طرح ان مناہج کی تشکیل کرتے ہیں  جن میں بظاہر خدائی حاکمیت اور خدا و انسان کے درمیان تعلق جیسے کلامی تصورات کو مخصوص سیاسی تناظرات میں غور وفکر کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ میری توجہ کا محور ریاست، سیاست اور حکمرانی سے متعلق  مسلمانوں کے علمی افکار کا مطالعہ نہیں  جو روایتی طور پر سیاسیات سے وابستہ ہیں، (اگر چہ میں گاہے گاہے اس موضوع پر بھی کچھ عرض کروں گا)۔ اس کے بجاے میں چاہتا ہوں کہ سیاسیات اور مثالی حکومت کے ان تصورات پر غور کروں جو بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور سماج کی روزمرہ زندگی کے بارے میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے کردار کے تعلق سے بین المسالک مناقشوں میں نمایاں ہیں۔خدائی حاکمیت اور نبوی اقتدار کے حریف تصورات کس طرح ایک مثالی ریاست کے متوازی رجحانات میں ایک دوسرے سے محو گفتگو ہیں، یہ سوال اس حصے میں کلامیات اور سیاسیات کے باہمی الجھاو اور اس کتاب کے وسیع تر تناظر کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سیاسی اور کلامی مسائل کے آمیزے کی تحقیق اُس تاریخی تناظر میں خاص طور پر ثمر آور ہو سکتی ہے جسے عبوری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جب ایک طویل المیعاد سیاسی نظم نابود ہونے کے قریب ہو، اور اس کی جگہ ایک اور نظام لے رہا ہو، مثلاً شاہی نظام سے استعماری نظام میں داخل ہونے کا دور۔ اس قسم کے اشکالیے (problem space) کا خاص طور پر جنوبی ایشیائی اسلام اور مغلیہ سلطنت سے برطانوی نوآبادیاتی نظام کی طرف منتقلی سے بڑا خاص تعلق ہے۔  یہ  طاقت کی بدلتی حرکیات کا ایک تدریجی  عمل تھا جو سترھویں اور اٹھارویں صدی کے درمیان وقوع پذیر ہوا اور یہ  قریب قریب وہی زمانہ جو شمٹ کی تحقیق کا موضوع ہے۔

حاکمیت اعلیٰ سے متعلق بدلتے ہوئے سماجی  نظریات

جیسا کہ مؤرخ کرسٹوفر بیلی (Christopher Baly) نے استدلال کیا ہے، ہندوستان کے ابلاغی اور سیاسی نیٹ ورکس میں وسیع تر تبدیلیاں اور انقلابات، جنھوں نے بالآخر برطانوی راج کو ممکن بنایا، اٹھارویں صدی کے آغاز سے ہی رونما ہو رہے تھے۔ بیلے کے مطابق اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان کے مغلیہ سلطنت سے برطانوی راج میں بدلنے کے وقت تین بنیادی سیاسی اور معاشی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں: (1) مرکزی حکومت کا بکھر کر چھوٹی اور منتشر ریاستوں میں تبدیل ہو جانا، (2) دہقان طبقے کی یک جائی اور اس کے نتیجے میں اقتصادیات کے زرعی شعبے میں نمو وترقی، اور (3) متعدد استعماری اور مقامی ایجنٹوں کے درمیان ابلاغ اور جاسوسی کے رسمی وغیر رسمی ہر دو  دائروں میں غیر معمولی ترقی اور تحرک۔  اس آخری رجحان نے قدیم شاہی طبقے اور امرا واشرافیہ کی سیاسی طاقت اور ثقافتی اثاثے کو فیصلہ کن طور پر گھٹا دیا20۔

استعماری راج کی طرف انتقال کے حاکمیتِ اعلیٰ سے تعلق کی نظریاتی اہمیت کا ادراک سیاسی نظریہ ساز سودپتا کاویراج (Sudipta Kaviraj)نے اس طرح سے کیا ہے کہ انھوں نے اس کی زمرہ بندی ماتحتیت سے حاکمیتِ اعلیٰ کی طرف تبدیلی کی حیثیت سے کی ہے۔  کاویراج کا دعوی ہے کہ "استعماری جدیدیت کی آمد سے قبل ہندوستان کی تمام ریاستیں شمولیت/ماتحتیت کے تصور پر پوراا ترتی ہیں: وہ سماج پر حکمرانوں کے ایک گروہ کی حیثیت سے حکومت کرتی تھیں، جو اپنے ماتحت سماج سے الگ تھلگ رہتے، اور اپنی رعیت کے ساتھ جدید قوم پرستی کی طرح کسی مضبوط جذباتی یا ادارہ جاتی بندھن میں بندھے ہوئے نہیں تھے۔ اس طرح سے ان کی، اپنے سماج کی روزمرہ زندگی کی بنیادی ساخت کو متاثر کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود تھی21۔ کاویراج کے مطابق رفتہ رفتہ اور بالخصوص 1857 کی بغاوت کے نتیجے میں ماتحتیت کے اس سیاسی نظام کا تختہ بااختیار استعماری ریاست نے الٹ دیا۔ استعماری ریاست نظریاتی اعتبار سے اپنے پیش روؤں سے نہ صرف اس اعتبار سے ممتاز تھی کہ  وہ اُن سے زیادہ طاقت ور تھی، بلکہ زیادہ اہم اس کا وہ ارادی اور براہ راست انداز تھا جس میں وہ رعایا کو اپنی حاکمیتِ اعلیٰ کے تابع بناتا تھا۔  کاویراج کے نزدیک ماقبل استعماری دور سے استعماری دور میں داخل ہونے سے متعلق گفتگو اس بے جا مفروضے پر مشتمل ہوتی ہے کہ ہم تاریخی طور پر ایک ہی شے کے دو مختلف رخوں کے متعلق بات کر رہے ہیں۔  جب وہ اپنی گفتگو میں ریاستی طاقت کے جدید استعماری اور قدیم اسلامی و ہندوانہ تصورات کا تقابل کرتے ہیں تو آدمی اساسی طور پر "سیاسی طاقت کے دو مختلف اداروں کا سامنا کرتا ہے"22۔ ایک بااختیار ریاست کا تصور جس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنے رعایا کو براہ راست اپنے احکام کا پابند بنائے اور ان پر اپنا حق جتائے، مکمل طور پر جدید ہے۔ کاویراج آگے جاکر زیادہ فکر انگیز طریقے سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہندوستانی تناظر میں ریاست کا تصور ہی "جدیدیت کا بنیادی ماخذ ہے"23۔

حاکمیتِ اعلیٰ کے حوالے سے مؤرخ اور ماہر بشریات برنارڈ کوہن (Bernard Cohn) کی کلیدی کاوش کاویراج کے استدلال کو مزید واضح کرتی ہے، جب کہ اسے اس کتاب میں ہمارے موضوع سے زیادہ براہ راست جوڑتی بھی ہے۔ ان کی کاوش مغلیہ سلطنت سے برطانوی راج میں منتقلی کے عبوری دور کے ثقافتی اثرات کے حوالے سے دلچسپ نکات فراہم کرتی ہے۔ کوہن کے مطابق انیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ نے ہندوستانی سماج میں اپنی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کے قیام کے لیے اپنے مغل پیش روؤں کی  رسمی اصطلاحات کو باقی رکھا، تاہم انھوں نے ان اصطلاحات کو ایسے معنی پہنائے جو سابقہ معانی سے یکسر مختلف تھے۔ برطانوی راج کا مغلوں کی اصطلاحات کا استعمال ایک طرح سے سامراجی حاکمیتِ اعلیٰ کے دو مختلف نظاموں کے درمیان ترجمے کا عمل تھا۔ سب سے نمایاں مقام جہاں پر ترجمے کا یہ عمل وقوع پذیر ہوا، شاہی دربار تھا۔

پوری مغلیہ تاریخ میں شاہی دربار نے مغل حکمرانوں اور ان کی رعایا کے درمیان تعلق وتبادلے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ خاص طور پر مغل دربار میں ادا کی جانے والی تقریباتی رسموں نے مقامی رعایا کو وسیع تر سلطنت کے دائرے میں شامل کرنے کا کردار نبھایا۔ مثلاً ایک رسم جو دربار میں ادا کی جاتی تھی، مقامی اشرافیہ  کی طرف سے مغل بادشاہ کو تحفے تحائف اور سونے کے سکوں، ہاتھیوں، گھوڑوں اور زیورات کی شکل میں قیمتی اشیاء کا نذرانہ پیش کرنا تھی۔ یہ نذرانہ یا پیش کش سلطنت سے وفاداری کی ایک علامتی شکل تھی۔ ایسی کسی پیش کش کی قدر وقیمت کا تعین اس شخص کے مقام اور مرتبے کے مطابق پوری باریک بینی سے کیا جاتا تھا جو اسے پیش کرتا۔  بدلے میں مغل بادشاہ اس شخص کو خلعت پیش کرتا، جو یا تو کپڑے کی بنی کوئی چیز یا کئی کپڑے ہوتے تھے، جو عام طور پر چوغے، پگڑی اور شال پر مشتمل ہوتے تھے۔ باہمی تبادلے کا یہ عمل علامتی اہمیت کا حامل تھا: خلعت تسلسل یا وراثت کی علامت تھی، اور اس تسلسل کا انحصار طبعی بنیاد پر تھا  جس میں خلعت کو وصول کرنے والے اور عطیہ کرنے والے، دونوں کے جسم کپڑوں کے واسطے سے ایک دوسرے سے تعلق قائم کر لیتے تھے24۔

بالفاظِ دیگر اشیا کے سیدھے سادے تبادلے کے بجاے نذرانہ پیش کرنا اور خلعت وصول کرنا "اطاعت، بیعت اور خلعت عطا کرنے والوں کی برتری کے اقرار کے اعمال تھے"۔ مزید برآں حاکمیتِ اعلیٰ اور شاہی نظام کے اس رسمی اظہار نے مقامی سماج کے مخصوص طبقات کو شاہی حکومت کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کرنے کا کردار ادا کیا۔ جیسا کہ کوہن نے واضح کیا ہے: "ہندوستان میں حکمرانی کا مقامی نظریہ انضمام کے تصورات اور 'نظام مراتب کے نظریے' پر  مبنی تھا، جس میں نہ صرف ہر کسی کو دوسرے سے الگ رتبہ دیا جاتا، بلکہ جن پر حکومت کی جا رہی تھی، ان کا انضمام بھی کیا جاتا تھا"25۔

تاہم اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں اگر چہ برطانویوں نے نئے ہندوستانی حکمرانوں کی حیثیت سے نذرانوں اور پیش کشوں کی رسم کو برقرار رکھا، لیکن انھوں نے تبادلے کے اس عمل کو جو معنی دیا، وہ قطعی مختلف تھا۔ مغلوں کے برعکس برطانویوں نے ان رسموں کو مادی معنوں میں لیا۔ نذرانوں اور پیش کشوں کو سفارش کی حیثیت سے دیکھا گیا، جسے برطانیہ نے اپنی تجارتی سرگرمیوں سے متعلقہ حقوق کی حیثیت سے پیش کیا۔ انھوں نے "اپنے ثقافتی طور طریقوں کی اتباع میں نذرانوں کو رشوت سے اور پیش کشوں کو خراج سے تعبیر کیا، اور اسے ادلے بدلے کا لین دین تصور کیا "26۔

درباری رسموں کے برطانوی وارثوں نے ایک محتاط انداز میں تشکیل دی گئی شاہی حاکمیتِ اعلیٰ کی صورت گری کو لین دین کی ایک مادی صورت کا معنی دیا۔ جیسا کہ کوہن نے وضاحت کی ہے: "بظاہر مغلیہ رسم ورواج کو برقرار رکھا گیا، لیکن ان کے معانی بدل گئے تھے۔ ہندوستانی حکمرانوں کے سایے میں جو چیز (مقامی آبادی کی سلطنت میں) شمولیت تھی، اب وہ رسم ماتحتیت کی علامت بن گئی، جس میں شاہی شخصیت اور اس کے منتخب کردہ دوست اور خادم کے درمیان، جو حکمرانی کا حصہ بننے والا تھا، کوئی روحانی تعلق باقی نہ رہا27۔

برطانیہ کے استعماری نظام میں 1857 کی بغاوت تک یہ عقدہ لاینحل رہا، جس میں بغاوت کو وحشیانہ طریقے سے کچلا گیا، اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر پر آخر کار مقدمہ چلا کر انھیں جلا وطن کیا گیا۔ اس اہم معرکے کو سر کرنے کے بعد برطانیہ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 کے ذریعے ہندوستان کی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کو اپنی بادشاہت میں ضم کر دیا۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ علامتی ورثہ جو مغل بادشاہ کی شخصیت سے متعلق تھا، اس کے تقدس کا خاتمہ کیا گیا۔ اپنی  رعایا پر حاکمیت کو جواز بخشنے کے لیے رائج سابقہ پیچیدہ مقامی طریقوں کی جگہ استعماری طاقت کے وحشیانہ اظہار نے لے لی۔ جیسا کہ کوہن نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے: "بادشاہ پر مقدمے کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 سے ملا کر دیکھنا چاہیے۔ مغل بادشاہ پر مقدمہ، ان کی جلاوطنی اور مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ایک ایسے انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا جس نے مکمل طور پر سماج کے سابقہ سیاسی نظم کے تَقدُّس کا خاتمہ کر دیا"28۔

کاویراج کے استدلال سے بہت مماثل کوہن کا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان میں استعمار کی آمد سے حاکمیتِ اعلیٰ کا فکری سرمایہ بھی خاطر خواہ تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ حاکمیتِ اعلیٰ کے سابقہ تصور کی جگہ، جو مراعات، نظامِ مراتب اور مقامی سماج کے ساتھ جسمانی علائق میں بندھا ہوا تھا، واضح طور پر قوتِ مقتدرہ کی ایک مادی تفہیم نے لے لی۔ کوہن کا تجزیہ خاص طور پر جس چیز کو نمایاں کرتا ہے، وہ  ان دو مثالی تصورات کے درمیان کش مکش ہے  کہ قوتِ مقتدرہ کو کیسے کام کرنا چاہیے، اور فی الواقع یہ کس طرح کام کرتی ہے ۔ کیوں کہ زیادہ سنجیدہ پہلوؤں کو دیکھا جائے تو برطانوی راج کا سیاسی ڈھانچا کسی حوالے سے بھی مغلیہ سلطنت کے اس پہلے ڈھانچے کو اکھاڑ نہیں پھینکتا، جو حسب ونسب اور وساطت وشفاعت سے عبارت تھی۔ حتّیٰ کہ برطانوی راج کے زیرِ سایہ وساطت کا عمل اس بات کی تشکیل میں انتہائی اہم رہا کہ سیاسی اقتدار تک رسائی حقیقت میں کیسے ہوتی ہے،اور سماج کی تشکیل کس طرح سے کی گئی۔ تاہم اس ساختیاتی تسلسل کے باوجود وہ مآخذ، تصورات اور مفاہیم جس نے قوتِ مقتدرہ کی تنظیم کی، مستقل طور پر بدل گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغلیہ سلطنت میں حاکمیتِ اعلیٰ پر بحث ومناقشہ نہیں ہوا، بلکہ مقصود ایک نظام سے دوسرے نظام کی طرف، جو شاہی حکومت سے بہت الگ ہے، انتقال کے عبوری دور میں حاکمیتِ اعلیٰ کی سماجیات میں برپا ہونے والی فکری اور سیاسی تبدیلیوں کو واضح کرنا ہے29۔

حاکمیتِ اعلیٰ کی فکری فضا اور سیاسی صورت گری میں برپا ہونے والی یہ بنیادی تبدیلیاں سماجی نظم اور نظام مراتب کے لیے گہرے مضمرات کی حامل ہیں۔ اپنی تحقیقی کتاب Ashraf into Middle Classes میں مؤرخ مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) نے بتایا ہے کہ انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں برطانوی راج کے استحکام نے شمالی ہندوستان میں سماجی شرف وعزت کے حوالے سے مسلمانوں کے تصورات پر گہرے اثرات مرتب کیے30۔ 1830 کی دہائیوں کے بعد جوں ہی برطانیہ نے زیادہ فیصلہ کن انداز میں سیاسی اقتدار حاصل کیا، اور جوں ہی نوآبادکاروں اور ان کے ماتحت لوگوں کے درمیان سیاسی، ثقافتی، سماجی اور نسلی فاصلے واضح ہونے لگے، سماجی عزت وشرف کے مفاہیم اور عناصر بھی بدلنے لگے31۔ اس وقت تک شرف وعزت کا دائرہ صرف جاگیرداروں اور علما تک محدود تھا، جب کہ سوداگر، تاجر اور دست کار بالکل عام لوگ سمجھے جاتے تھے۔ مزید برآں اسلام کے مرکزی مقامات سے نام ونسب کا تعلق ہونا شرف وعزت کی امتیازی علامت تھی، جو اشراف کو مقامی نومسلموں (اجلاف) سے الگ کرتی تھی، اگر چہ شرافتِ نسب کا دعویٰ سماجی شناخت کے حصول کی ایک تدبیر تھی۔

لیکن  1857 کے نتیجے میں انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمانوں کی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کی بحالی کے امکان کے خاتمے، ایک ایسے عوامی دائرے کے ظہور جو نوآبادیاتی تعلیمی اداروں سے معمور تھا، اور علمِ دین سے صرف اور صرف علماے کرام کی روز افزوں وابستگی جیسی پیش رفتوں نے شرف وعزت کے ان تصورات کو یکسر بدل دیا۔ خاندان کی اہمیت برقرار رہی، لیکن شرف وعزت بتدریج انفرادی پاک بازی سے جُڑ گئی۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جسے پرناو نے "موروثی اقدار سے زندہ اقدار میں تبدیلی" سے تعبیر کیا ہے32۔ یہ تبدیلی ایک دوسری تبدیلی کے پہلو بہ پہلو پیش آئی اور اسے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک ایسے متوسط طبقے کے ظہور نے سہولت بہم پہنچائی جو خود کو سماج کے بالائی اور نچلے طبقے سے ممتاز تصور کرتا تھا۔ اگر چہ اس میں بھی کسی طرح سے یکسانی نہیں تھی، تاہم اس متوسط طبقے، جس نے شرف وعزت کی چادر اوڑھ لی تھی، کی نمایاں خصوصیت شاہانہ طرزِ زندگی اور فضول خرچی کی شدید مخالفت اور دینی اصلاح کی تحریک سے اس کی قربت ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں تقویٰ اور سماجی عزوشرف کے ملاپ نے اہلِ علم اشرافیہ یعنی علماء اور سوداگروں، تاجروں اور دیگر پیشہ ور گروہوں (یعنی متوسط طبقے) کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ سماجی نظم میں یہ اساسی تبدیلی اس بین المسالک مناقشے کے لیے ایک اہم پس منظر مہیا کرتی ہے جس سے اس کتاب میں بحث کی گئی ہے، اور جس کا موضوع پرناو کے پروجیکٹ کے بالکل متوازی ہے۔

اور آخر میں ابتدائی جدید اور جدید جنوبی ایشیا میں حاکمیتِ اعلیٰ کے اشکالیے کی توضیح کے لیے اَظفَر مُعین (Azfar Moin) کی کتاب The Millenial Sovereign ناگزیر طور پر متعلق ہے۔ اس کاوش میں معین نے استدلال کیا ہے کہ سیاسی حاکمیت کی مغلیہ تفہیمات کا دار ومدار بادشاہت وولایت کے باہمی ربط پر تھا۔ بادشاہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو صوفی ولی کی کرامت کے اصول اور انداز پر منظم کیا جاتا اور سرانجام دیا جاتا تھا جومذہبی اقتدار اور توقعات سے بھرپور ہوتا تھا۔ بادشاہت و ولایت ایک دوسرے کے ساتھ "بغل گیر ہو کر"  مربوط تھے33۔ مُعین کے مطابق حاکمیتِ اعلیٰ کے ایسے مقدس تصور کی اٹھان اور اساس ولی کی کرامت پر تھی، اور یہ تصور عہد جدید سے قبل مسلم سلطنتوں بشمول ہندوستان کی مغلیہ اور ایران کی صفوی سلطنت میں غالب رہا، تاآنکہ استعماری جدیدیت کی تاخت نے اس کو اکھاڑ پھینکا34۔ اس کتاب کا کام وہیں شروع ہوتا ہے جہاں معین نے اپنا کام ختم کیا ہے۔ مجھے اس سوال میں دلچسپی ہے کہ جب اس عہد کے  تقریباً‌ اختتامی دور میں جس کا مطالعہ اظفر معین نے کیا ہے، ایک تصور کی حیثیت سے حاکمیتِ اعلیٰ کے مسئلے کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا۔

میں بطورِ خاص اس سوال کو زیرِ غور لاؤں گا کہ ہندوستان میں مغل بادشاہت سے برطانوی استعمار کی طرف انتقال کا یہ عبوری دور کس طرح ان مباحثوں اور مناقشوں کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے جو علما کے مابین اور ان کے ہم عصر معاشروں میں  حاکمیتِ اعلی کے تصور پر وقوع پذیر ہوئے؟ میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور انسانی شخصیت کے درمیان اس شرعی رشتے کے متعلق سوالات پر توجہ دوں گا جو انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان اہل علم کے درمیان شدید علمی ہیجان اور کشمکش کے مظاہر کے طور پر سامنے آئے۔

مثلاً ایک ایسے دور میں جب سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ روز افزوں انحطاط پذیر تھی، خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے بارے میں کس طرح کے تصورات پیش کیے گئے؟ مسلمان کس طرح اپنی روزمرہ زندگی اس نہج پر گزاریں جس میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی مکمل خصوصی اور امتیازی حیثیت  کا اقرار ہو؟ حاکمیتِ اعلیٰ کا انحصار کس بات پر ہے؟ کیا خدائی حاکمیتِ اَعلیٰ کا دار ومدار مُعجِزات جیسے استثنائی قانون کی تنفیذ پر ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی شفاعت والے کردار کو کیسے سمجھا جائے، جب ان کی برکت ورحمت سے گناہ گاروں کو بخشش کی استثنا دی جائے گی؟ استثنا دینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ کیا استثنائیت کے خدائی یا پیغمبری  دعووں میں کوئی تضاد ہے؟ جیسا کہ میں بتانے کی کوشش کروں گا، یہ بظاہر کلامی سوالات اس بات سے انتہائی گہرا تعلق رکھتے تھے کہ کس طرح سیاست کے شرعی حدود کے بارے میں تصورات قائم کیے گئے۔ آنے والے صفحات میں، میں شاہ محمد اسماعیل اور علامہ فضل حق خیر آبادی کے درمیان شفاعتِ نبوی کے حدود پر برپا ہونے والے پرجوش مناظروں کے گہرے مطالعے سے کلامی اور سیاسی تصورات کے باہمی تعامل کی تحقیق کروں گا35۔ میں امکانِ کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان) اور امکانِ نظیر (یعنی اللہ تعالی کا حضرت محمد ﷺ کی طرح کی  ایک اور شخصیت کو پیدا کرنے کا امکان) کے متنازع مسائل میں ان کے حریف مواقف کا تفصیلی تجزیہ بھی پیش کروں گا۔

میں اپنے استدلال میں بتاؤں گا کہ شاہ اسماعیل اور علامہ خیر آبادی کے متقابل کلامی افکار کی اساس سیاسی عوامل کے وہ حریف بیانیے تھے، جس نے انسانی فرد اور خدائی حاکمیتِ اعلی کے درمیان شرعی تعلق کو استوار کیا۔ میں بتاؤں گا کہ بظاہر ان کلامی مناقشوں کے پیچھے یہ بڑا سیاسی سوال کار فرما تھا کہ سیاسی تغیّر وتبدیلی کے حالات میں حاکمیتِ اعلیٰ کو کس طرح سمجھنا چاہیے۔ اس لیے میرا تجزیہ الہیاتی اور سیاسی تصورات کے باہمی تعامل اور یک جائی سے متعلق ہے۔ میری تحقیق کا مرکزی موضوع وہ مناہج ہیں جن کے ذریعے مسلمانوں کے کلامی مباحث تشکیل دیے گئے اور جن کی بنیاد سیاسی تصورات کی متوازی تفہیمات تھیں۔

اس بحث کی تمہید کے طور پر، میں اس کتاب کے پہلے حصے میں انیسویں صدی کے اوئل کی ایک سنسنی خیز شخصیت شاہ محمد اسماعیل کی حیات اور علمی خدمات کو غور وفکر کا موضوع بناؤں گا  جن کی تحریروں اور سرگرمیوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طوفان بپا کر دیا۔ جنوبی ایشیائی اسلام کی علمی اور سماجی تاریخ پر شاہ اسماعیل نے انمٹ نقوش ثبت کیے، اگر چہ ان کی مذہبی فکر کی پرتیں اور تضادات بہت کم زیر بحث لائے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے صفحات میں اس خلا کو پر کرنے کے لیے کچھ پیش رفت ہوگی۔ لیکن شاہ اسماعیل کون تھے، اور وہ اس قدر متنازع کیوں ہیں؟ میں اس سوال کے جواب سے ابتدا کرتا ہوں۔


حواشی

  1.  اشرف علی تھانوی، ارواحِ ثلاثہ (کراچی: دار الاشاعت، 2001)، 49۔
  2.  ایضا، 49-50۔
  3.  مرینالانی راجاگوپالن (Mrinalani Rajagopalan) نے اپنی معلوماتی تحقیق Building Histories: The Archival and Affective Lives of Five Monuments in Modern Delhi  (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2016) میں بتایا ہے کہ جامع مسجد، جو دلی کی سب سے بڑی مسجد ہے، جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے سترھویں صدی میں تعمیر کیا، بیسویں صدی میں استعمار مخالف اور سیکولر قوم پرست تحریک کا زبردست مرکز رہی، جو استعماری طاقت کے حدود اور خالص مذہبی مقام کی حیثیت سے مسجد کی روایتی تعریف کا پول کھولتی ہے۔ راج گوپالن کے تجزیے میں اس نکتے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک صدی قبل بھی، جیسا کہ درج بالا واقعے میں بتایا گیا، جامع مسجد وہ مقام تھا، جہاں پر استعماری راج میں انتقال کے عبوری دور میں سماج کی شرعی زندگی کے متعلق سنسنی خیز بین المسالک اختلافات اور حریف تصورات زیادہ واضح طور پر سامنے آئے۔ بین المسالک مناقشے کے لیے ظاہری مقام وعلامت اور استعماری حکومت کے رینگتے ساے کی ایک واضح نشانی کی حیثیت سے جامع مسجد کی نمایاں اہمیت کا سب سے حیران کن مظاہرہ شاہ اسماعیل کی خطیبانہ اور تدریسی سرگرمیوں پر برطانوی ریزیڈنٹ افسر کی طرف سے پابندی ہے، جسے میں اس حصے میں بعد میں بیان کروں گا۔
  4.  اشرف تھانوی، ارواحِ ثلاثہ، 49-50۔
  5.  رابرٹ اورسی، History and Presence (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 10۔
  6.  کرسٹوفر بیلی، Indian Society and the Making of the British Empire (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1988)۔
  7.   Cambridge Companion to Classical Islamic Theology، تدوین: ٹِم وِنٹر (کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2010) میں مارسیا ہرمینسن کا مضمون، Eschatology، 308- 324۔
  8.  سٹڈیا اسلامیکا 87 (1998): 125- 139میں شون مارمن کا مضمون: The Quality of Mercy: Intercession in Mamluk Society۔
  9.  کارل سیاسی کلامیات کے بڑے نظریہ سازوں میں سے تھے، جو 1888 سے لے کر 1985 تک حیات رہے۔ وہ اپنے اس نظریے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہیں کہ حاکمیتِ اعلیٰ کا حامل وہ ہے، جو استثنا لاگو کر سکتا ہو۔ کارل شمٹ، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty  (کیمبرج، ایم اے: ایم آئی ٹی پریس، 1986)، 36۔
  10.  پال کاہن، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty (نیو یارک: کولمبیا پریس، 2012)، 18۔
  11.  گراہم ہامل اور جولیا لپٹن،Political Theology and Early Modernityکا تعارف، تدوین: گراہم ہامل اور جولیا لپٹن (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2012)، 1۔
  12.  ایضا۔
  13.  کلامی مباحثوں اور مناقشوں کی اساس  اور ان میں کار فرما مباحثوں و مناقشوں کی تحقیق میں میں خود کو عُوَیمر انجُم کے اس فکر انگیز نکتے سے شدید متفق پاتا ہوں کہ: "کسی بھی فکری دنیا میں فکر ونظر کے سیاسی دائرے کی بنیاد اساسی عقائد اور عموماً‌ ساکت اور پیشگی مفروضے ہوتے ہیں۔ جدید اہل علم نے اسلام کی سیاسی فکر کو عموماً خلافت پر روایتی مصادر سے سمجھا ہے، لیکن انھوں نے بڑی حد تک علمیات، کلامیات اور قانونی نظریے کو نظر انداز کیا ہے"۔عُویمِر انجم، Politics, Law, and Community in Islamic Thought: The Tamiyyan Moment (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)، 9۔
  14.  شمٹ، Political Theology ، 46۔
  15.  ایضا، 1-55۔
  16.  ایضا، 43۔
  17.  ڈیوڈ گلمارٹن، Rethinking the Public through the Lens of Sovereignty، جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈیز 38، نمبر 3 (ستمبر 2015): 371- 386۔
  18.  میتھی مکھرجی،India in the Shadows of Empire: A Legal and Political History, 1774-1950 (نیو دلی، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2010)، xv ۔
  19.  ایضا، xvi۔
  20.  کرسٹوفر بیلی، Empire and Information: Intelligence Gathering and Social Communication in India, 1780-1870، (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1999) اور Indian Society (؟)۔
  21.  سودِپتا کاویراج، The Trajectories of the Indian State (رانیکھٹ: پرمننٹ بلیک، 2010)، 51۔
  22.  ایضا۔
  23.  ایضا، 40۔
  24.  The Prevention of Tradition، تدوین: ایرک ہوبزباون اور ٹیرنس رینجر (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1992)، 73،میں برنارڈ کوہن کا مضمون، Representing Authority in Victorian India۔
  25.  ایضا۔
  26.  ایضا، 169 – 170۔
  27.  ایضا، 172۔
  28.  ایضا، 178۔
  29.  اس مسئلے میں میری سوچ ڈیوڈ گلمارٹن کے ساتھ کی جانے والی گفتگو سے متاثر ہے۔
  30.  مارگریٹ پرناو، Ashraf into Middle Classes: Muslims in Nineteenth-Century Delhi(نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2013)۔
  31.  ایضا، 1- 157 اور 179 – 297۔
  32.  ایضاً، 423۔
  33.  اَظفَر مُعین، The Millennial Sovereign: Sacred Kingship and Sainthood in Islam (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2010)، 5۔
  34.  ایضا، 2 – 22۔
  35.  میں یہ بات ایک بار پھر کہتا ہوں کہ جس مناظرانہ کش مکش کو یہاں زیر بحث لایا گیا ہے، وہ کہیں 1826 میں وقوع پذیر ہوئی ہے، ہندوستانی تاریخ کاا یک ایسا دور جب برطانوی استعمارپہلے سے قابض ہو گیا تھا، لیکن اس نے مکمل طور پر مغلیہ سلطنت کو برطرف نہیں کیا تھا، وہی پیش رفت جو بعد میں 1857 میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے کئی حوالوں سے اس تاریخی دور کو مغلیہ سلطنت سے برطانوی استعماری راج میں تبدیلی کے آہستہ لیکن حتمی عبوری دور کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔


آراء و افکار

(مارچ ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter