انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Moderity کا مقدمہ)


آگے بڑھنے سے پہلے اس  کاوش   کے بنیادی اشکالیے  کو واضح کرنے کے لیے، میں  ان وسیع تر نظری اور سیاسی   اہداف  کو واضح کرنا چاہوں  جو اس  سے مقصود ہیں۔  آئندہ سطور میں، میری  خصوصی دلچسپی یہ واضح کرنے سے ہوگی کہ   مسلمانوں کے مابین  بریلوی دیوبندی جیسے اندرونی اختلافات  کو   کیسے  مذہب سے متعلق نئی عالمی سیاسی حکمت عملی  کا جزو بنایا جاتا اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اچھے مسلمانوں اور برے مسلمانوں کی تقسیم  کا تنقیدی جائزہ

عہد حاضر میں علمی اور غیر علمی دونوں حلقوں میں بریلوی دیوبندی اختلاف کو عموماً اسلام کی فقہی اور صوفی روایتوں یا فقہ اسلامی اور تصوف کے درمیان ایک دائمی کش مکش کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ علما جو عید میلاد النبی منانے کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں شریعت، اصلاح اور خالص اسلام کے علمبرداروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لگے بندھے مفروضے کی نسبت عموماً دیوبندیوں کی طرف کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو ان اعمال کا دفاع کرتے ہیں، انھیں تصوف، عوامی اسلام اور اسلام کے ایک نرم تصور کے حامیوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔

اس تقسیم میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بریلوی اور دیوبندی دونوں بیک وقت صوفی شیوخ اور فقہ کے نامور علما تھے۔ بریلوی مسلک کبھی بھی صرف اولیا کی پرستش تک محدود نہیں رہا۔ وہ ہمیشہ معاشرتی تشکیل کے ایک ایسے بیانیے کا نمائندہ رہا ہے جس کی بنیاد ایک اعلیٰ علمی اور تصنیفی روایت پر ہے۔ اسی طرح دیوبندی روایت صوفیانہ پہلوؤں سے تہی دامن نہیں۔

مزید برآں، بریلوی دیوبندی مشائخ نے اپنے پیش روؤں کی طرح اپنے آپ کو ان خانوں میں تقسیم نہیں کیا ، اور نہ ہی فقہی/صوفی جیسے سادہ موازنوں میں خود کو محدود کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صبح جاگتے ہوئے وہ صوفیانہ اعمال کے لیے کمر کس لیتے ہیں، اور شام ہوتے ہی فقہی روپ اختیار کر لیتے ہیں۔  مثلاً‌ جب معروف ومشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی (جن کے بارے میں ہم اس کتاب میں آگے مزید بہت کچھ پڑھیں گے) سے پوچھا گیا کہ فقہ اور تصوف کے درمیان کیا تعلق ہے، تو انھوں نے جواب دیا: "میں اخلاقی اعمال کے سلسلے میں فقہا کے فیصلوں پر زیادہ اعتماد کرتا ہوں، لیکن میرا یہ فیصلہ خالص عقل پر مبنی ہے، کیوں کہ طبعی طور پر مجھے صوفیہ کے طور طریقوں سے محبت ہے"1۔

اسی طرح، مقبول عام تصویر کے برعکس، بریلوی مکتب فکر کے بانی اور اس کتاب کے بنیادی کردار مولانا احمد رضا خان محض صوفی نہیں تھے۔ درحقیقت وہ فقہاے مجتہدین کی رائے کو صوفیائے کرام کی رائے کے مقابلے میں ثانوی یا کم اہم سمجھ کر رد کرنے کے رجحان کے شدید ناقد تھے۔ اپنی قابل ذکر کتاب "مقال العرفاء فی اعزاز الشرع والعلماء" میں انھوں نے ما قبل جدید دور کے صوفی بزرگوں کے کئی حوالے جمع کیے ہیں (جن میں زیادہ قابل ذکر مشہور صوفی شیخ عبد القادر جیلانی متوفی 1166ء ہیں)، جو اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ فقہی تعلیمات کی مضبوط اساس کے بغیر تصوف کی حقیقت تک رسائی ہو سکتی ہے2۔ اس لیے اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اعلیٰ حضرت اور مولانا تھانوی دونوں کے لیے فقہ اور تصوف ایک مشترک دینی سوچ کا حصہ ہیں، جنھیں ایک دوسرے کے مقابل خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔

اس کتاب میں فقہی/صوفی موازنے کے خلاف میرا یہ دعویٰ ہے کہ علمی اور تاریخی دونوں اعتبار سے یہ ناقص ہے۔ یہ مسلمانوں کے درمیان استدلال ومناقشے کی روایات اور اختلافات کی پیچیدگیوں کو  ایک آسان فہم لیکن مسخ شدہ بیانیے کے ذریعے مستور کر دیتا ہے۔ اگر چہ دیوبند کے پیش رو علما بھی اپنے ارد گرد رائج صوفیانہ اعمال کے متعدد مظاہر کے شدید ناقد ہو سکتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے درمیان بریلوی دیوبندی اختلاف وتنازع کو فقہی غُلو یا صوفیانہ تساہل کے درمیان نزاع تک محدود کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ فقہی/صوفی موازنے کااچھے/برے مسلمان کے نسبتاً ایک وسیع تر، زیادہ طاقت ور اور نتیجتاً زیادہ نقصان دہ بیانیے کے ساتھ گہرا تعلق ہے3، جس میں "اچھائی" کا پیمانہ اچھے مذہب کے سیکولر لبرل تصور سے ہم آہنگی ہے۔ اچھے مذہب کا یہ تصور بالعموم ایک مخصوص انداز میں امریکا کے سامراجی مفادات وخواہشات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔

اچھے/برے مسلمان کے موازنے کو، جیسا کہ الزبتھ ہرڈ (Elizabeth Hurd) کی حالیہ کاوش سے ظاہر ہوتا ہے، "عقیدے کے دو چہروں" کے ایک وسیع تر عالمی بیانیے میں سمویا گیا ہے، جو بین الاقوامی تعلقات اور پبلک پالیسی کے حلقوں میں جاری بیش تر گفتگو پر حاوی رہتا ہے۔ اس تقسیم میں اچھا مذہب وہی ہے جو آسانی سے قابو میں آئے اور جو امدادی سرگرمیوں اور انسانی حقوق کی مہمات جیسے نولبرل (neo-liberal) مفادات ومقاصد کے لیے کارگر ہو۔ اس کے برعکس برا مذہب وہ ہے جسے نگرانی اور تادیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جو آسانی سے تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے اسے مسلسل سدھائے رکھنا ضروری ہے۔ ہرڈ بتاتی ہیں کہ اچھے اور برے مذہب کے درمیان امتیاز قائم کرنے کی اس کوشش میں مصنوعی طور پر مذہب اور مذہبی پیروکار کے ایک نئے تصور کی تشکیل شامل ہے جو سیاست سے الگ ہو۔ پالیسیوں کی تنفیذ کی ضرورت کا یہ بیانیہ جو اچھے اور برداشت والے ایسے مذہب کو مضبوط بنائے جو تاریخی پیچیدگیوں، مقامی سیاقات، اندرونی اختلافات اور روزمرہ عملی زندگی کی حرکیات سے سروکار نہ رکھے۔ لیکن فکری اِفلاس کے باوجود -یا شاید اس کی وجہ سے- "مذہبی آزادی" کے لیے وسیلے کے طور پر اچھے مذہب کا تصور ایک انتہائی منافع بخش صنعت کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس نئے مذہب کے بزعم خویش ماہرین بشمول محققین، سرکاری ملازمین، صحافیوں اور سفارت کاروں پر دولت وطاقت کی بڑی نوازشات ہیں۔ ان لوگوں سے تھنک ٹینکس، ادارے، حکومتی محکمہ جات جیسے امریکی محکمۂ داخلہ کا دفتر  براے مذہب وعالمی معاملات (US State Department Office of Religion and Global Affairs)، جس کا آغاز 2013 میں ہوا، آباد ہیں4۔

جنوبی ایشیا میں اسلام کے قضیے کے حوالے سے "عقیدے کے دو رخ" والے بیانیے نے تصوف کی، جسے آخر کار بریلوی مسلک کے مساوی قرار دیا گیا ہے، پرزور حمایت کی شکل اختیار کر لی ہے، تاکہ شریعت پر مُصِر دیوبندی مسلک کے مزعومہ خطرے کو روکا اور کم کیا جا سکے۔ اس استدلال کی بطور خاص ایک مکروہ مثال واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) کی وہ رپورٹ ہے جو 2003 میں Civil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategies کے عنوان سے وسیع پیمانے پر شائع ہوئی۔ تین خود ساختہ "ماہرین اسلام" جن میں اس منصوبے کا نگران  ناول نگار چیرائل بينارڈ (Cheryl Benard) بھی شامل ہے، کے تصنیف کردہ 70 صفحات کے اس رسالے کا مطمح نظر یہ ہے کہ "اسلام کے ارتقائی عمل میں تعمیری معاونت فراہم کرکے" جمہوریت کو فروغ دیا جائے5۔ من جملہ دیگر امور کے، اس رپورٹ کا مطمح نظر یہ ہے کہ "اسلامی بنیاد پرستی" کے مسئلے سے "نبٹنے" اور "متمدن وجمہوری اسلام کے فروغ" کی خاطر "ممکنہ ہم خیالوں" کی حیثیت سے مختلف قسم کے مسلمانوں کی خوبیوں اور نقائص کی نشان دہی کرے6۔

یہ دستاویز مسلمانوں کی مختلف اقسام کی طرف سے، جنھیں سادگی سے "سیکولرز"، "بنیاد پرستوں"، "روایت پسندوں" اور "جدیدیت پسندوں" کے خانوں میں بانٹا گیا ہے، متوقع تعاون کا جائزہ لیتا ہے۔ جس طرح کسی میلہ مویشیاں میں جانوروں کی مردانگی کو جانچا جاتا ہے، اسی طرح اس کتابچے کے مصنفین جدیدیت پسندوں کو "جدید امریکی جمہوریت کی اقدار اور روح سے سب سے زیادہ ہم مزاج پاتے ہیں"7۔ سیکولر مسلمان بظاہر فطری اتحادی ہوتے، اگر وہ "بائیں بازو کے نظریات" اور "امریکا مخالف سوچ" کے حامل نہ ہوتے8۔ اس ملغوبے میں تصوف کو بالاتفاق کسی خانے میں نہیں بٹھایا جا سکتا تھا، اس لیے بینارڈ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں: "صوفی ان خانوں میں کسی بھی خانے میں ٹھیک طرح سے نہیں بیٹھتے، لیکن ہم انھیں جدیدیت پسندوں میں شامل کرتے ہیں"۔ اس موقف کے حق میں کوئی وضاحت دیے بغیر وہ صوفی ازم کو  کچھ یوں پیش کرتے ہیں: "اسلام کی ایک وسیع اور علمی تشریح۔۔۔ اپنی شاعری، موسیقی اور فلسفے کے ذریعے تصوف مذہبی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پل کا کردار ادا کرتا ہے"۔ من جملہ دیگر پالیسی سفارشات کے، یہ دستاویز کہتی ہے کہ: "ان ممالک میں جن میں صوفیانہ روایات موجود ہیں، سکول کے نصاب، اقدار اور ثقافتی زندگی میں صوفیانہ اثر ورسوخ کی پرزور حوصلہ افزائی کی جائے۔"9

اسی طرح کا ایک موقف واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورڈ (World Organization for Resource Development and Education - WORDE)  کی 2010 میں Traditional Muslim Networks: Pakistan’s Untapped Resource in the Fight Against Terrorism  کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے10۔ایک دل چسپ سادگی کے ساتھ یہ رپورٹ "بین الاقوامی امدادی برادری" سے مطالبہ کرتی ہے کہ "انتہا پسند نظریات کی حامل قیادت کے مقابلے میں معتدل مذہبی قائدین کی سرگرمیوں کے وسیع سلسلوں کو مالی معاونت فراہم کرکے ان کو تقویت فراہم کی جائے"11۔

رینڈ دستاویز کی طرح اس رپورٹ میں بھی معتدل اتحادی اور انتہا پسند دشمن واضح طور پر متعین اور جانے پہچانے ہیں۔ بریلوی مرکزی دھارے کے معتدل صوفی ہیں، جب کہ دیوبندی (جنھیں اس پوری رپورٹ میں دیوبندی وہابی12 نام سے پکارا گیا ہے) شریعت پرست انتہا پسند ہیں، جن کے تعلیمی ادارے "انتہا پسندی کے مراکز" ہیں13۔ رپورٹ کا اختتامی نتیجہ یہ ہے کہ بریلویوں سے تعلقات استوار کرنے اور ان کی (مالی یا دیگر طریقوں سے) معاونت کرنے سے دیوبندیوں کا خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک سفارش ایک اور با اثر تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن (Heritage Foundation) کی  رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے14۔ ان رپورٹوں کا نتیجہ اس اندرونی دباؤ میں اضافہ ہے کہ پاکستان میں بریلوی اداروں کو تائید وتقویت پہنچائی جائے، جب کہ ملک کے مختلف حصوں میں نئی "صوفی یونیورسٹیاں" بنائی جائیں۔

نہ صرف مغربی ریاستی اور غیر ریاستی طاقتیں صوفی ازم کو اسلام کے ایک معتدل، غیر سیاسی اور نرم رخ کی حیثیت سے فروغ دے رہے ہیں بلکہ، جیسا کہ فیٹ میوڈینی (Fait Muedini) نے واضح کیا ہے، بہت سے مسلم اکثریتی ممالک (جیسے الجیریا، مراکش اور پاکستان) کی حکومتیں بھی اس دوڑ میں پیش پیش ہیں15۔ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں صوفی ازم سیاسی لحاظ سے بے ضرر ہے، اور اس لیے ریاست کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ مزید برآں، کسی صوفی سلسلے کی تائید ایک سیاسی لیڈر کو "مذہبی استناد" دلا سکتی ہے۔ اثر رسوخ میں فرق کے باوجود، یہ ایک یک طرفہ عمل نہیں، کیوں کہ صوفی گروہ بھی وسائل تک نسبتاً زیادہ رسائی رکھتے اور حلقۂ ارادت میں توسیع کے ذریعے ریاستی سرپرستی سے فائدہ اٹھاتے ہیں16۔ صوفیوں اور سیاسی اشرافیہ کے درمیان تعاون کی یہ روایت کوئی نئی ایجاد نہیں۔

قرونِ وُسطیٰ اور عہدِ جدید کے اوائل میں مسلم ممالک کے بادشاہوں میں یہ دستور بالکل عام تھا کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار کو تقویت پہنچانے کی خاطر صوفی شیوخ کے اثر ورسوخ سے استفادہ کرتے تھے، اور اس کے بدلے میں صوفیا بھی سرکاری سرپرستی کے فوائد وثمرات سمیٹتے17۔ در حقیقت یہ دو طرفہ مفید بند وبست تصوف کے بنیادی مخمصوں میں سے ہے: ایک طرف دنیوی آسائشوں کو ترک کرنے پر زور دینا، جب کہ دوسری طرف دنیوی حلقۂ ارادت اور سرپرستی کے اداروں پر انحصار کرنا18۔ لیکن ماقبل جدید سیاقات سے تمام تر مشابہتوں کے باوجود جدید دور میں صوفی ازم کا ریاستی فروغ یک سر مختلف اور غیر متوقع ہے۔ آج صوفی ازم کی تمام تر تعظیم کا بنیادی مقصد اسے "خالص شرعی اسلام" کے مقابلے میں حریف کے طور پر فروغ دینا ہے۔ صوفی ازم کو اس بنیاد پر معتدل یا اچھے اسلام کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اصلاً اس شریعت یا برے اسلام کا حریف ہے جو ہمیشہ سے انتہا پسندی کے خطرے کا حامل رہا ہے۔

صوفی ازم کو اسلام کے ایسے پر امن تصور کی حیثیت سے پیش کرنا جو اسلام کی قانونی روایت کا مد مقابل ہو، اسلامی شریعت اور تصوف دونوں کا ایک بے سر وپا تصور ہے۔ یہ لگا بندھا مفروضہ اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ راہ سلوک پر چلنے کے لیے شرعی احکام پر عمل درآمد ایک بنیادی تقاضا ہے۔ صوفیا شریعت کو مسترد نہیں کرتے۔ اس کے بجاے وہ اسے بلند تر روحانی تزکیے کی پہلی سیڑھی سمجھتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں صوفی فکر میں شریعت و تصوف کے  درمیان تعلق کو متحارب سلسلوں کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس کے برعکس خدائی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ پہلی سیڑھی کا درجہ رکھتا ہے۔ درجہ بندی کے اس نظام کی بہتر وضاحت ان تین ہم قافیہ الفاظ سے ہوتی ہے: شریعت (الٰہی قانون)، طریقت (راہ سلوک)، حقیقت (اللہ تعالیٰ تک رسائی)19۔ درجہ بندی اور تقابل ایک چیز نہیں۔

تصوف کو امن اور "اچھے مسلمانوں" کے ہم معنی اور اسلامی شریعت کو تشدد کے خطرے اور "برے مسلمانوں" کے برابر قرار دینا مغربی مستشرقین کی ذہنی اختراع ہے جو تا حال یورپی وامریکی اور بہت سے غیر مغربی (بشمول مسلم اکثریتی) حلقوں میں راسخ ہے۔ جیسا کہ ماہر بشریات کیتھرائن ایونگ (Katherine Ewing) نے اسے اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے: "تصوف اور اسلام یا تصوف اور عوامی رسموں کے درمیان اختلافات کو انیسویں صدی کے متعدد محققین نے اس انداز میں  نمایاں کیا ہے   جس میں تصوف اپنی نفیس باطنی واردات کی وجہ سے 'اچھا' ہے، یا اس کے برعکس جہاں تصوف توہم پرستانہ رسومات کی وجہ سے 'برا' ہے، وہاں اسلام اپنی عقلیت پسندی اور خالص توحید کی وجہ سے 'اچھا' ہے۔  تاہم اس الٹ پھیر سے قطع نظر، جسے انیسویں صدی کے متعدد لکھاریوں نے پیش کیا ہے، نو آبادیاتی ماحول میں یہی اختلاف بذاتِ خود اور  اس کی سیاسی اور مؤثر طاقت تصوف کے مابعد ارتقا کے لیے فیصلہ کن اہمیت کی حامل رہی"20۔

شرعی بمقابلہ صوفی کا بھدا اور شرانگیز مفروضہ جہاں نو سامراجی امریکی تھنک ٹینکس کی پالیسی دستاویزات میں پایا جاتا ہے، وہیں اس طرح کے کئی دیگر سطحی موازنوں کی مثالیں جنوبی ایشیائی اسلام سے متعلق سنجیدہ تحقیقی کاوشوں میں بھی ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر پنینا وربر (Pnina Werber) کا مضمون The Making of Muslim Dissent: Hybridized Discourses, Lay Preachers, and Radical Rhetoric Among British Pakistanis لیجیے21۔ اس مضمون میں، جس کا بنیادی موضوع برطانیہ میں مقیم جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی مسلکی شناخت کا تصور ہے، وربنر دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان موازنہ کچھ اس طرح کرتا ہے:

"دیوبندیوں کے ہاں انفرادی تربیت کی حیثیت سے انفرادی عقلیت پر زور کے ساتھ شرعی استدلال (صوفیوں کے صوفیانہ علم کے بالمقابل) کو بھی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اولیا کے مزارات کے احاطے میں جاری رسم ورواج کے دفاع میں ]دیوبند کی[ اصلاحی تحریک کی بھرپور اور منظم مخالفت کی گئی۔ یہ اصلاح مخالف تحریک بریلویت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں "فاضل علما" کے دو طبقے ابھر کر سامنے آئے۔ مصلح فقہا اور صوفی فقہا، جو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف مذہبی کش مکش میں برسرِ پیکار ہیں"22۔

ان بیانات کے بارے میں کم از کم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ محلِّ نظر ہیں۔ وربنر الفاظ کے نوآبادیاتی ورثے کو مثلاً‌ "اولیاء کے احاطے میں جاری رسم ورواج"، جسے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے استعمال کرتا ہے، نظر انداز کرتا ہے۔ حقائق کے لحاظ سے اس کا تجزیہ بھی درست نہیں، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی علما دونوں نامور فقہا اور صوفیا تھے۔ لیکن یہاں پر سب سے زیادہ قابل توجہ امر وہ انداز ہے جس میں بریلوی دیوبندی کش مکش کو اس مفروضے پر مبنی قرار دیا گیا ہے کہ شریعت وطریقت پہلے سے جانے پہچانے اور الگ تھلگ استدلالی دائرے ہیں "جو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف مذہبی کش مکش میں برسرِ پیکار ہیں"۔ یوں اصلاح کی پھبتی اور اس کے نتیجے میں "مصلح" کا لیبل ان علما پر چسپاں کیا گیا ہے جو "تصوف کے مقابلے میں شرعی استدلال کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں"، جبکہ ان کے مخالفین کو آرام سے "صوفی فقہا" کے خانے میں محصور کیا گیا ہے۔ صوفی فقہا اور مصلح فقہا کی تقسیم سے اس طرف اشارہ ہے کہ جو فقہا تصوف کو کم توجہ دیتے ہیں، وہ زیادہ اصلاح پسند ہوتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ بے سر وپا مفروضہ ہے کہ جو شریعت کو جتنا زیادہ سنجیدہ لے گا، اس کے مذہبی رویے اور عمل میں شدت کا رجحان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ زیادہ وسیع تناظر میں ایسی تقسیم حریف مذہبی روایات کو اصلاحی/صوفی اور شرعی/صوفی  جیسے بنے بنائے موازنوں میں محصور  کر دیتی ہے، جبکہ ان حالات وواقعات کو ملحوظ نہیں رکھتی جن میں یہ روایات دعوائے استناد کے ساتھ  ان دائروں کے حدود   طے کرنے کے لیے باہم برسرپیکار ہوتی ہیں۔

اس رجحان کی ایک دوسری مثال جنوبی ایشیائی اسلام کے نامور فرانسیسی مؤرخ مارک گیبوریو (Marc Gaborieau) کے کام میں پائی جاتی ہے۔ اپنی کتاب Un autre Islam: Inde, Pakistan, Bangladesh میں گیبوریو استدلال کرتے ہیں کہ جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کی فکری تشکیل علما کے دو الگ اور متوازی گروہوں نے کی ہے۔ ان کی راے میں ایک طرف "مُصلحین" ہیں۔ گیبوریو کی راے میں اصلاح پسند لہر کا آغاز 1740 میں اٹھارویں صدی کے مشہور عالم شاہ ولی اللہ (م 1762ء) سے ہوتا ہے، جو انیسویں صدی کے اواخر تک اور اس کے بعد بھی جدیدیت پسند مصلحین مثلاً‌ چراغ علی (م 1895)، دیوبند کے پیش روؤں اور اہل حدیث علما کی صورت میں جاری ہے۔ جب کہ اس سلسلے کی دوسری طرف ایک علمی روایت ہے جس کو ان علما نے تشکیل دیا ہے جنھیں گیبوریو غیر اصلاحی یا غیر اصلاح شدہ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس غیر اصلاحی تحریک کا آغاز شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبد العزیز  (م 1823)  سے شروع ہوتا ہے، اور انیسویں صدی میں بریلوی مکتب فکر سے وابستہ علما نے اسے آگے بڑھایا ہے۔23

دو صدیوں میں پھیلے متعدد کرداروں اور روایات کو  ایسے عمومی خانوں میں تقسیم کرنے کے  اس  تاریخی انداز نظر کی بے اعتدالی ایک طرف، یہ موقف انتہائی بے باکی سے جنوبی ایشیائی اسلام کی متناقض تصویر کشی کے ذریعے سے مقامی مذہبی روایات پر اصلاح کی ایک خود ساختہ تعریف بھی مسلط کرتے ہیں۔ گیبوریو کی تصویر کشی کے برعکس، جیسا کہ میں باب نہم میں بتاؤں گا، بریلوی علما نے بھی اپنے کردار کو مصلحین کے روپ میں دیکھا جن کو طویل عرصے سے رائج رسوم واعمال کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ دیوبند کے پیش روؤں کے ساتھ ان کے شدید اختلاف کی بنیاد کم یا زیادہ اصلاح نہیں، بلکہ اصلاح کے تقاضوں اور ضروریات کے مختلف اور متوازی  تصورات تھے۔

جنوبی ایشیائی اسلام کی ایسی متضاد تصویر ذرا نسبتاً واضح انداز میں پاکستان میں مذہب اور عوامی ثقافت پر ڈیوڈ پینالٹ (David Pinault) کی کتاب Notes from a Fortune-Telling Parrot: Islam and the Struggle for Religious Pluralism in Pakistan میں ملتی ہے24۔ جس انداز میں وہ بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان تقابل کرتا ہے، وہ کافی اچھے طریقے سے بریلوی دیوبندی کش مکش کے بارے میں عوام اور اہل علم کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ پینالٹ دیوبندیوں کی تعریف "خالص اسلام کے پیروکار جس سے طالبان نے جنم لیا" سے کرتے ہیں25۔ آگے چل کر وہ ہمیں بتاتے ہیں: "بریلوی کی اصطلاح ان سنیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو قدیم صوفیانہ اعمال پر عمل پیرا ہیں"26۔ پینالٹ کی مختصر لیکن معنی خیز تعریفات کے مطابق بریلوی دیوبندی اختلاف تصوف کے غالی مخالفین، "جن کی کوکھ سے بالآخر طالبان نے جنم لیا"، اور "قدیم صوفیانہ اعمال" کا دفاع کرنے والوں کے درمیان ایک کش مکش سے عبارت ہے۔

اس بیانیے میں کار فرما مفروضہ تصور یہ ہے کہ اسلام  مختلف نظریات کا ایک منظرنامہ ہے جس میں     سخت گیر مذہبیت اور تصوف جیسے متوازی اور الگ الگ دھارے پائے جاتے ہیں۔ اس منطق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عوام اور علما دونوں کو ان متضاد اور حریف تصورات سے انتساب کی بنیاد پر پہلے سے بنے بنائے خانوں میں بانٹا  جا سکتا ہے۔ یہاں پر یہ اضافہ ضروری ہے کہ اسلام کی ایسی بکھری تفہیم کا مُحرک وہ نو استعماری (neo-colonial) کاوشیں ہیں، جو تصوف کو اسلام کے ایک ایسے "پرامن/غیر سیاسی" تصور کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہیں، جو مذہب کی زیادہ "متشدد/سیاسی" تشریحات کا حریف ہے27۔

شریعت/طریقت والے موازنے کی نسبتاً کم اشتعال انگیز مگر محلِّ نظر ایک آخری مثال عامر مفتی کی پیچیدہ کتاب Enlightenment in the Colony ہے۔ بیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان دانشور اور اردو کے ادبی نقاد محمد حسن عسکری (جو مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید بھی رہے) کی فکر اور کاوش پر بحث کرتے ہوئے عامر مفتی لکھتے ہیں:

"اس مقام پر عسکری کا وسیع تر پروجیکٹ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ جدید عوامی دائرے کو روایتی مناظرہ بازی کے دائرے میں مکمل طور پر بدل دے۔ تاہم ہمیں اسے اسلامی بنیاد پرستی کے منصوبے کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ ان کے کم محتاط ناقدین حسب معمول کرتے آئے ہیں؛ کیوں کہ ان کی منتشر کاوشیں اپنی کلیت میں فی نفسہ شرعی یا فقہی کے بجاے قرونِ وسطیٰ کے اس صوفی نقطۂ نظر کی تشکیل نو کرتی ہیں، جس کی تعبیر وتشریح بیسویں صدی کے مفسر مولانا اشرف علی تھانوی نے کی، اور جو اپنی اصل میں اس شدید عقلیت پسند اور شدید حرفیت پسند عملی اسلام پسندی سے بالکل ایک الگ تصور ہے جو  اب پوری دنیا کی خبروں کی شہ سرخیوں کی زینت بن رہی ہے"28۔

اگر چہ عامر مفتی کی حسن عسکری کو بنیاد پرستی کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش ایک لحاظ سے قابل تعریف ہے (باوجودیکہ وہ بنیاد پرستی کو بالکل عمومی معنی میں لے رہے ہیں)، لیکن انھوں نے 'شریعت یا اسلامی قانون' اور 'قرون وسطیٰ کے صوفی نقطۂ نظر' کے درمیان جو تقابل قائم کیا ہے، میں اس کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اس موقف میں دو بنیادی مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ فقہ و تصوف کے درمیان بذات خود یہ موازنہ ہے۔ یہ مفروضہ کہ تصوف، چاہے قرونِ وسطیٰ کا ہو یا عہد جدید کا، شریعت یا اسلامی قانون کو نکال باہر کرکے چل سکتا ہے، مولانا تھانوی جیسے عالم کی نظر میں بالکل بے معنی ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات مفتی کی اس کوشش پر دھیان  دینا ہے کہ انھوں نے حسن عسکری کو 'شدید عقلیت پسند اور شدید حرفیت پسند عملی اسلام ازم' کے گناہ سے پاک ثابت کرنے کے لیے یہ وضاحت کی کہ ان کی بنیاد 'قرونِ وسطی کے تصوف' میں تھی29۔ اس سکیم کے مطابق قرونِ وسطیٰ کا تصوف جدید بنیاد پرستی سے جنم لینے والے تشدد کے لیے ایک اعتدالی قوت کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ 'شریعت یا اسلامی قانون نہیں بلکہ صوفی نقطۂ نظر' کے جملے سے پتا چلتا ہے کہ بنیاد پرستی کے تریاق کی حیثیت سے تصوف کی طرف رجوع اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ایک شخص جتنا زیادہ شریعت پر کاربند رہتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ بنیاد پرستی کا شکار بنتا ہے۔ یہ بعینہ وہی مفروضہ ہے جو معاصر نولبرل کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ صوفی ازم کو 'اچھے اسلام' کی حیثیت سے بیچا جائے، جو 'برے' بنیاد پرست اسلام کے خوف سے چھٹکارا دلانے کا ضامن ہے۔ عامر مفتی کا تصوف کو شریعت اور بنیاد پرستی سے 'الگ' بتانا ناقابل دفاع اور کئی مسائل سے بھرپور چیستاں ہے۔

یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تنقید سے میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں ان دانشوروں کی کاوشوں کو سامراج کے نو لبرل گماشتوں سے جڑی مذموم سیاسیات کی طرح قرار دے رہا ہوں۔ اس کے بجاے، جیسا کہ صبا محمود نے ایک الگ تناظر میں استدلال کیا ہے، انداز نظر کی یہ غیر متوقع یکسانی دراصل اچھے مذہب کے ایک سیکولر تصور سے باضابطہ وابستگی کی دل کشی اور پھیلاو کو ظاہر کرتی ہے30۔

میرا نقطۂ نظر یہ ہے: جنوبی ایشیائی اسلام (یا کسی بھی استدلالی روایت) کے اختلافی ماحول کی توضیح مصلح/غیر مصلح، احیا پسند/روایت پسند، تصوف مخالف/صوفیانہ اور آزاد خیال/قدامت پسند جیسے موازنوں سے کرنا ان اعتقادی آرا کو واضح کرنے کے بجاے دھندلا دیتا ہے جو اس روایت کی تعمیر کرتی ہیں۔ یہ کتاب ایسے تشریحی موازنوں کی افادیت کو مسترد کرتی ہے۔

اچھے مسلمان/برے مسلمان کے بیانیے سے آگے جانے کے لیے راہ عمل کے طور پر یہ کتاب کسی روایت کے ان داخلی استدلالات اور حکمت ہاے عملی کی تفصیلی جانچ کی کوشش کرتی ہے، جن کے ذریعے اس کی حدود پر بحث ومناقشہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کا اساسی مفروضہ یہ ہے کہ سطحی تعمیمات اور تقابلی تشریحات کو از کار رفتہ ثابت کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ان لوگوں کی آواز سامنے لائی جائے جن کے متعلق یہ تعمیمات کی جا رہی ہیں۔ ان متون، سیاقات اور مسلکی دل چسپیوں کے گہرے مطالعے کے ذریعے، جنھوں نے دیوبندی بریلوی اختلاف کی تشکیل کی، میں یہ بتاؤں گا کہ اس مناقشے کو شرعی مصلحین اور مدہوش متصوفین کے درمیان تنازع تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔  اسلام، مذہب اور جنوبی ایشیا کے مطالعے میں اس کتاب کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے میں اس استدلال کے مختلف حصوں کی مزید توضیح کرنا چاہتا ہوں۔

کتاب کا مرکزی نکتہ

نو آبادیاتی ہندوستان کی مسلم اصلاحی تحریکوں پر متعدد عمدہ تحقیقات سامنے آنے کے باوجود، نامور مسلمان علما کی دینی فکر مزید تفصیلی اور گہری تحقیق کا بهرپور تقاضا کرتی ہے31۔ موجودہ تحقیقات میں جنوبی ایشیائی اسلام کی فکری/تصنیفی روایات کے بجاے سماجی، ادارتی اور سیاسی تاریخ پر نسبتاً کافی زیادہ توجہ دی جاتی ہے32۔ چند استثناآت کو چھوڑ کر، جنوبی ایشیائی اسلام کے بہت سے مؤرخین بظاہر ان تشریحی استدلالات اور واقعات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے جن سے جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کی فکری تشکیل ہوئی ہے۔ یہ ایک قابل افسوس فروگزاشت ہے، کیوں کہ ان اکابر علما کے مذہبی مباحثے اور  مناقشے، جنھوں نے جنوبی ایشیا کی استدلالی روایت کی تشکیل کی ہے، ان کی حیات وکردار کے مرکزی اجزاء ہیں۔ یہ صرف اشاعت کا مسئلہ نہیں، نہ ہی ایک تاریخی خلا کو پُر کیے بغیر چھوڑ دینا ہے۔ مذہبی متون کی تفصیلات اور تہہ در تہہ نزاکتوں کی طرف عدم توجہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی احیائی فکر کے متعلق مفروضاتی یا دقیانوسی تاثرات کو جنم دیتی  ہے۔ اصلاح کی حدود اور معانی کا واضح بیان – بیانیے اور داخلی اختلافات – کے بارے میں ہماری تفہیم ناقص اور غیر مفید تعمیمات سے ماخوذ ہوتی ہے۔

عام طور پر مشہور ہے کہ علماے دیوبند نے عید میلاد النبی جیسی رسومات پر تنقید کی، جب کہ بریلویوں نے ایسے اعمال کا دفاع کیا۔ لیکن ان کے استدلالات کے انداز کے سوال نے ابھی تک قابل ذکر توجہ نہیں حاصل کی ۔ میلاد نبوی منانے یا نہ منانے میں ان باہم مخالف علما کے لیے کون سا امر زیرِ غور تھا؟ کن استدلالی طریقوں سے انھوں نے اپنے اعتقادی مسلک کو استناد بہم پہنچایا اور اپنی روایت کے مد مقابل بیانیوں کو کیسے غیر مستند ٹھہرایا؟ ان کے سماجی اور مذہبی تصورات کی تشکیل میں قانون، تاریخ اور زمان کے کن تصورات نے اپنا کردار ادا کیا؟ ان کے افکار میں کہاں پر ابہام اور عدم استحکام پایا جاتا ہے؟

ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں کی اصلاحی تحریکات کا مفید بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اس طرح کے سوالات انتہائی اہم ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ علما کے درمیان عقائد، شریعت اور رسومات کے غیر اہم مسائل پر بظاہر پراسرار اور معمولی تکرار درحقیقت حاکمیت اعلیٰ، سیاسیات اور سماجی نظم کے گہرے سوالات کا تشکیل کنندہ اور ان سے مربوط ہے۔ ان بنیادی کرداروں نے، جن کی فکر کو اس کتاب کے صفحات میں زیرِ بحث لایا گیا ہے، انتخابی سیاست اور جمہوری اداروں یا نظاموں میں بالکل شمولیت اختیار نہیں کی۔ تاہم جیسا کہ صبا محمود نے نہایت عمدگی سے استدلال کیا ہے، ان اصلاحی تحریکوں کی جو باقاعدگی سے روحانی تزکیے اور نجات کے معاملات میں لگی ہوتی ہیں، سیاسی طاقت انفرادی اور سماجی تبدیلی کے لیے ان کی صلاحیت میں پوشیدہ ہوتی ہے33۔ صبا  محمود کے اشارے سے رہ نمائی لیتے ہوئے یہ کتاب کچھ تفصیل کے ساتھ ان استدلالات، مباحثات اور تنازعات کو قلم بند کرتی ہے جس نے دین دار افراد اور عوام کے بارے میں علما کے مابین متقابل تصورات کی تشکیل کی۔ روایت و اصلاح کی حریف عقلیات جنھوں نے ان کے سیاسی کردار اور امکانات کی تشکیل کی، ان کا ایک دقیق جائزہ دیوبند جیسے اصلاحی منصوبے کو 'غیر سیاسی' قرار دینے کو ناقص ثابت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں اپنے مقام پر بتاؤں گا کہ یہ موقف سیاست کے ایک نمایاں طور پر محدود اور لبرل تصور پر مبنی اور اسے بڑھاوا دینے کے لیے ہے۔

ایک بار پھر کہتا ہوں کہ بڑے پیمانے پر ایسی فکری لغزشیں ہندوستان کے نمایاں جدید مسلم مصلحین کے افکار وآرا پر ناکافی توجہ سے جنم لیتی ہیں۔ انیسویں صدی کے علما جیسے شاہ محمد اسماعیل شہید اور علامہ فضل حق خیر آبادی، جن کا تعارف اوپر ہوا، مناسب توضیحی مثالیں ہیں۔ جیسا کہ میں اس کتاب کے پہلے حصے میں بتاؤں گا، شفاعت نبوی کے حدود پر شاہ اسماعیل شہید اور علامہ خیر آبادی کے درمیان ایک گرما گرم مباحثہ نوآبادیاتی ہندوستان میں بین المسالک اختلافات کی کہانی میں ایک بنیادی صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔

شاہ اسماعیل آج تک ایک انتہائی متنازعہ شخصیت  اور بے شمار تنقیدوں اور جوابی تنقیدوں کا موضوع رہے ہیں۔ تاہم ہندوستان مسلمانوں کی احیائی روایت میں اس اہمیت کے باوجود، ان کی مذہبی اور سیاسی فکر پر بنیادی مغربی ماخذ سابق مؤرخ ہارلن پیئرسن (Harlan Pearson) کا مقالہ: Islamic Reform and Revival in Nineteenth-Century India: The Tariqah-i-Muhammadiyah ہے34۔ باوجود ایک متاثر کن کاوش ہونے کے، پارسن کا تجزیہ بڑی حد تک برطانیہ کی  سرکاری دستاویزات پر مبنی ہے، جبکہ مقامی زبانوں کے مصادر کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس لیے گاہ بگاہ اندرونی مذہبی مباحثوں کے متعلق چند مباحث کے باوجود وہ ان کے اندرونی استدلالات، توقعات اور ابہامات کی ایک تفصیلی اور دقیق تصویر کھینچنے میں ناکام رہے ہیں۔

زیادہ عموم کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیائی مطالعات کے میدان میں مسلمانوں کی علمی روایات کی تحقیق نسبتاً‌ ایک نوزائیدہ مرحلے میں ہے۔ ابراہیم موسیٰ نے اس صورت حال کی تلخیص مناسب انداز میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

نوآبادیاتی ہندوستان میں اسلام کے مؤرخین کو پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ خطے میں 'علما' کی روایت کا گہرا علم رکھنے کا دعوی کریں گے تو یہ دعویٰ حقیقت کا عکاس نہیں ہوگا۔ مؤرخین تا حال تقریباً مستقل طور پر نوآبادیاتی یا قومی سیاسیات سے جڑی بین الاقوامی شخصیات جیسے علی گڑھ کے بانی سرسید احمد خان، لاہور میں مدفون فلسفی شاعر علامہ اقبال، انڈین نیشنل کانگریس کی نامور شخصیت مولانا ابو الکلام آزاد یا پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کوئی  پانچ دہائیاں قبل جنوبی ایشیا میں دینی فکر کے فروغ میں روایتی علماے دین کے کردار پر کسی قابل ذکر تحقیق کی تلاش بے سود تھی۔ اگر چہ کچھ علما 1857 کے ہنگامے میں ملوث تھے، اوران میں علامہ فضل حق خیر آبادی کا نام نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے، پھر بھی ان کے حالات زندگی، علمی کاوشوں اور جس طرح سے انھوں نے بیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں کلامی پیش رفت کو متاثر کیا، اس کے بارے میں بہت کم کچھ کہا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا میں استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی ایک جامع تصویر سامنے لانے کے لیے روایتی علما کی کاوشیں تلاش وتحقیق کی مستحق ہیں35۔

اگر چہ ڈاکٹر موسی کی بات ایک دہائی سے زیادہ پرانی ہے، لیکن یہ اب بھی کافی حد تک درست ہے۔ میری یہ کتاب نوآبادیاتی جنوبی ایشیا میں اہم ترین علمی شخصیات کے مذہبی خیالات کو توجہ کا مرکز بنا کر مسلمانوں کی علمی روایات کی ایک باریک بین تصویر پیش کرتے ہوئے ان خلاؤں کو پر کرتی ہے۔ میں اپنے قارئین کو جنوبی ایشیا کی جدید مسلم علمی روایات کے استدلالات، تنازعات اور تفسیری مناہج کی ایک تفصیلی اور کثیر الجہت سیر کراؤں گا۔ نوآبادیاتی جنوبی ایشیا میں بین المسالک مناقشوں کا جائزہ لیتے ہوئے میں کئی مواقع پر  ما قبل جدید اسلامی مصادر پر بھی ڈیرے ڈالوں گا، تاکہ جنوبی ایشیا سے آگے ان مناقشوں کے فکری شجروں کو نمایاں کر سکوں۔ اس حوالے سے بھی یہ کتاب جنوبی ایشیا کی مسلم احیائی فکر پر موجودہ اکثر کاوشوں سے مختلف ہے جن میں بیک وقت عربی، فارسی اور اردو کے مصادر سے اعتنا کرنے کا اہتمام شاذ ونادر  ہی  کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے یہ کتاب جنوبی ایشیائی مطالعات، علوم اسلامیہ اور زیادہ وسیع انداز میں مطالعۂ مذہب جیسے مضامین کو یکجا کرتے  ہوئے ان کے اندر نتائج تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علما کی علمی روایت کے استدلالی تناظر سے جنم لینے والے عربی، فارسی اور اردو مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ عموماً‌ حاشیے میں دھکیلے گئے جنوبی ایشیا کے اہم ترين علمی  ذخیرے کی بازیافت کرکے اسے سامنے لاؤں۔

 ابواب کی ترتیب (The Arc of the Book)

اس کتاب کے ابواب کی ترتیب تاریخی کے بجاے موضوعی ہے، اگر چہ ایک طرح سے وہ تاریخی ترتیب کے مطابق ہیں، کیوں کہ وہ انیسویں صدی کے آگے پیچھے ترتیب دیے گئے ہیں۔ تاہم یہ کتاب تاریخی ترتیب پر علمی تاریخ نہیں ہے۔ اس کے بجاے یہ ان اسنادی اور بہت سے مواقع پر مخالف بیانیوں کے ان مخصوص حالات کا جائزہ لیتی ہے، جن کا مقصد اسلام کے حدود کی تعیین  تھی۔

حصۂ اول ودوم کا آغاز واختتام مختصر تعارفی ابواب کے ساتھ کیا گیا ہے، جو آنے والے ابواب میں شامل سیاسی تناظر اور فکری ماحول کو زیر بحث لاتے ہیں۔ حصۂ اول: 'معاشرتی تشکیل کے حریف بیانیے' کا موضوعِ بحث انیسویں صدی کے اوائل ہیں، جس میں گاہے گاہے اٹھارھویں صدی کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ ان مناظرانہ مباحث پر مشتمل ہے جو شاہ اسماعیل شہید اور ان کے  ناقدی کے درمیان، جن میں فضل حق خیر آبادی سرِ فہرست ہیں، اہم ترین دینی مسائل جیسے اسلام میں شفاعتِ نبوی کے حدود پر سامنے آئے۔ ان دو (بشمول کچھ دیگر) علما کے، معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں پر توجہ دیتے ہوئے میں نے جنوبی ایشیا کی مسلم احیائی فکر کے ان دو حریف دھاروں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے  جنھوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں مضبوط مسلکی شناخت کی حیثیت اختیار کر لی۔ معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں کا تصور ان متوازی مناہج کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت سے برطانوی نوآبادیات کی طرف انتقال کے عبوری دور  میں، جو سیاسی بے یقینی کے حالات سے عبارت تھا، خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور نبوی دائرۂ اختیار کے درمیان تعلق کو سمجھا گیا۔ سیاسیات کی کون سی اصطلاحات اور تصورات خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر دینی مناقشوں کی بنیاد بنے؟ کس طرح سیاسیات اور کلامیات  بغل گیر ہو کر ایک دوسرے کو بارآور بناتے ہیں؟ روایت کی وہ کون سی حریف عقلیات ہیں  جو معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں کی وجہ سے ابھر کر سامنے آئیں؟ یہ وہ اساسی فکری سوالات ہیں جو اس کتاب کے حصۂ اول کے پانچ ابواب کی تشکیل کرتے ہیں۔

باب اول: " ہندوستان کے نوآبادیاتی عہد کی ابتدا میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر غور وفکر" اس تاریخی اور اعتقادی ماحول کا پس منظر پیش کرتا ہے، جس پر آنے والے ابواب میں بحث کی گئی ہے۔ معاشرتی تشکیل کے مذہبی بیانیوں (Political Theology) کی اصطلاح کو جس طرح اس کتاب میں برتا گیا ہے، اسی کے تناظر میں مغل حکمرانوں سے برطانیہ کی طرف حاکمیتِ اعلیٰ کے انتقال کے عبوری دور میں فکری اور سماجیاتی ماحول میں جنم لینے والے چند کلیدی تغیرات اور تسلسلات پر بحث کی گئی ہے۔ آئندہ  دو ابواب: "اخلاقی اصلاح کی  توقعات اور خدشات" اور "حاکمیتِ اعلیٰ کی از سرنو تقویت" (Re-energizing Sovereignty) شاه اسماعیل شہید کی اصلاحی فکر اور کاوشوں سے بحث کرتے ہیں، جس میں خدائی حاکمیت کی بحالی، یعنی شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں رائج رسم رواج کے منفی اثرات سے خدائی حاکمیت کے عقیدے کو بچانے کے لیے ان کی کاوشوں سے خصوصی اعتنا کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ابواب ان کی مشہور اور متنازع فیہ اردو کتاب "تقویۃ الایمان" اور ان کے نسبتاً کم معروف لیکن تقویۃ الایمان ہی  کی طرح متنازع فیہ فارسی رسالہ "یک روزہ" کا عمیق مطالعہ ہے۔ اس کے ساتھ ان ابواب میں ان کی عوامی اصلاح کی کوششوں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ چوتھا باب: "دینی سیاسیات" ان کی  اہم لیکن نسبتًا کم معروف فارسی کتاب "منصبِ اِمامت" پر تفصیلی بحث کے ساتھ سیاسیات اور سیاسی قائدین کی مثالی صورتوں سے متعلق ان کے تصور اور نظریے کو کچھ تفصیل کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔ پانچواں باب: "نظریۂ شفاعت" میں شفاعتِ نبوی کے سوال اور علامہ فضل حق خیر آبادی کی طرف سے شاہ اسماعیل شہید کی تردید پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ باب قارئین کو ایک صاحبِ علم کی حیثیت سے علامہ خیر آبادی اور خیر آبادی مکتبِ فکر کا تعارف بھی کراتا ہے۔

اور آخر میں کتاب کے اس حصے کے ایک مختصر نتیجۂ بحث میں، میں نے استعماری حکومت اور سابقہ ابواب میں مذکور مقامی اصلاحی فکر کے درمیان تعامل کے نظریے کا تجزیہ کرنے  کی کوشش کی ہے۔ میں نے  خاص طور پر اس سوال پر غور وفکر کیا ہے کہ کیا شاہ اسماعیل جیسے مصلح، مفکر اور کارکن کی فکر وکاوش کو جنوبی ایشیا میں ابھرنے والے ایک اسلامی اصلاحی رجحان (protestant sensibility) کی ایک مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اس امکان کے چند پہلوؤں سے اتفاق کے باوجود میں نے ایسی  کسی نظریہ سازی میں پائے جانے والے اہم مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ میری راے یہ بھی ہے کہ استعماری طاقت اور مقامی فکر کے درمیان تعامل کی نوعیت کے حوالے سے  (ماضی کے) تسلسل یا انقطاع کی بحث کا   پورا ڈھانچہ  (problem space)، جو جنوبی ایشیا اور جنوبی ایشیائی مذاہب سے متعلق تحقیقات میں غالب رہتا ہے، اب شاید اس افادیت کا حامل نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا، اور اس تناظر میں، میں " معاشرتی تشکیل کے متوازی مذہبی بیانیوں " جیسے نئے نظری سانچوں کی ضرورت واضح کرنا چاہتا ہوں۔

دوسرا حصہ: "حریف مسالک" انیسویں صدی کے اواخر میں بریلوی دیوبندی تنازع کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔ ایک تعارفی باب (چھٹا باب) بعنوان: "نوآبادیاتی حکومت کے سایے میں اصلاحِ مذہب" ایک بار پھر اگلے تجزیے کے لیے میدان ہموار کرتا ہے۔ یہ قانون، مذہب اور سیاسیات کے حوالے سے نوآبادیاتی تشکیلِ نو کے بنیادی خد وخال بیان کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے سنی علمامیں ابھرنے والے مسالک کو زیرِ غور لاتا ہے۔ اگلے چند ابواب دیوبندی اور بریلوی مسلک کے پیش روؤں کے ان مباحثوں کا جائزہ لیتے ہیں  جو فقہ وشریعت کے کانٹے دار مسائل پر ان کے اختلاف کا سبب بنے: اسلام میں بدعت کی تعریف وحدود۔ بدعت سے مراد وہ اعمال اور طرز حیات ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کی مخالف ہو۔ لیکن وہ کون سے اعمال ہیں اور ان کی تعیین کیسے ہو، ایسے سوالات ہیں جو ہمیشہ شدید تنازع اور اختلاف کو ہوا دیتے ہیں، جیسا کہ انیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں ہوا۔ ساتواں باب: "قانون، حاکمیت اور شرعی عمل کے حدود" ان استدلالات کو سامنے لانے کے ساتھ جن کے ذریعے دیوبند کے پیش روؤں نے بدعت کی حدود کا تصور واضح کیا اور اس پر بحث ومناقشہ کیا، دیوبند کے اصلاحی پروگرام کے بنیادی عناصر کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

فکری طور پر میں خدائی حاکمیت کی برتری کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل مذہبی بیانیے اور روزمرہ زندگی میں شرعی اعمال کے حدود کی تحدید کے لیے فکرمند شرعی تصور کے درمیان ممکنہ روابط کی تفتیش بھی کر رہا ہوں۔ میں بتاؤں گا کہ دیوبندی فکر کے مطابق فقہ وکلام کا مرکزی سوال یہ ہے کہ ایک نیا عمل بدعت کی حدود میں کب داخل ہوتا ہے۔ اپنے پیش رو شاہ اسماعیل شہید کی طرح (جن کی انھوں نے بھرپور تائید کی) اُن کے اصلاحی منصوبے کا مرکزی نکتہ روزمرہ زندگی کو اس طرز پر از سرِ نو مرتب کرنا ہے جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی یکتائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے۔ اگر کوئی مُستحب رسم ورواج جیسے میلاد منانے سے خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو خطرہ لاحق ہو، یا وہ اسے کم زور کرے تو وہ بدعت کے زمرے میں آئیں گے اور اس وجہ سے انھیں چھوڑنا ہوگا۔ شاہ اسماعیل اور دیوبند کے پیش روؤں کے لیے اصلاحی عمل رائج عادات، رسوم ورواجات اور سماجی تقریبات میں مکمل انقلاب برپا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے کردار کو ان مداخلت کاروں کی حیثیت سے تصور کیا جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے اصلاح کے لیے تجدید کے اس ماڈل کو زمان اور تاریخ کی ایک ایسی تصور سازی کے ذریعے استناد بہم پہنچایا جس کا محوری نکتہ  یہ ہے کہ مسلمان ایک معیاری  عہد (یعنی دور رسالت وصحابہ) سے مسلسل دوری اور انقطاع  کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ آٹھواں باب: "حاکمیت کی بحالی کے لیے نیک کاموں کا سد باب: میلاد اور اس کے اضطرابات" (Forbidding Piety to Restore Sovereignty: Mawlid and its Discontents) میلاد النبی ﷺ منانے پر معروف دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے استدلالات کو سامنے رکھ کر بدعت کے متعلق دیوبندی نظریات کی تطبیق کی ایک مخصوص مثال پیش کرتا ہے جو جنوبی ایشیا میں ابھی تک سب سے زیادہ متنازع رسم ہے۔

نواں باب: "حصولِ خیر: اصل مفاہیم کی بحالی کی حیثیت سے اصلاح" اسلام میں بدعت وروایت کی حدود کا ایک حریف بیانیہ سامنے لاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح بریلوی مسلک کے بانی اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان نے بدعت کے موضوع پر دیوبندی نظریات کی تردید کی۔ خان صاحب نے اپنے دیوبندی حریفوں کی سخت سرزنش کی کہ ان کی نظر میں انھوں نے بدعات کی مخالفت کی آڑ میں طویل المیعاد رسوم وعبادات کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا۔ خان صاحب کے نزدیک اصلاح ایسے شرعی خیر کے حصول سے عبارت ہے جو ہر آنے والے والے لمحے میں پہلے سے رائج اعمال کی شکل میں نمایاں ہے، نہ کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے تحفظ کی خاطر احتیاطی بنیادوں پر ایسے اعمال کو نکال باہر کرنا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی یاد اور احترام میں منائے جانے والے رسومات کو ناجائز قرار دینے کی کسی بھی کوشش کی تردید میں خاص طور پر متشدد واقع ہوئے تھے۔ خان صاحب اور ان کے بریلوی پیروکاروں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی کائناتی مرکزیت پر سوال اٹھانا اور ان کے روحانی رتبے کی استثنائی حیثیت کی تحقیر کرنا دین کی پوری عمارت کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ دیوبند کے پیش رو خدائی حاکمیت کی بحالی کے لیے اپنے گمراہ کن اور جاہلانہ جوش وجذبے میں اس قسم کی استدلالی بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

یہ باب اس استدلال کے بنیادی خد وخال کو واضح کرتا ہے۔ لیکن ان تمام تر تلخ اختلافات اور تنازعات کے باوجود خان صاحب اور ان کے دیوبندی حریفوں کے اصلاحی ایجنڈوں کے درمیان چند واضح مقامات پر مماثلت اور یکسانیت بھی ہے۔ اگلا باب (دسواں): "مماثلتیں" روزمرہ کی دینی زندگی کی تنقید واصلاح کے متعلق بریلوی سوچ اور فکر کو نمایاں کرنے کے برتر مقصد کے لیے اِن اتفاقی نکات کا جائزہ لیتا ہے، تاکہ اس مشہور غلط فہمی کا ازالہ کیا جا سکے کہ دیوبندی مکتب فکر رسوم ورواجات کے بارے میں عوامی چال چلن کے ناقد جب کہ بریلوی اس کے حامی ہیں۔ جیسا کہ میں اس باب میں بتاؤں گا، احمد رضا خان عوام کے عادات واعمال، بالخصوص عورتوں کی عادات ورواجات کی تنقید میں اپنے دیوبندی حریفوں سے اگر آگے نہیں، تو ان سے پیچھے بھی نہیں ہیں۔

گیارھواں باب: "علم غیب: علم عطائی پر بحث ومناقشہ" رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے سوال پر مرکوز ہے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود، صرف اسی مخصوص سوال کے تناظر میں مولانا احمد رضا خان نے دیوبند کے پیش روؤں کی تکفیر کی (انھیں دائرہ اسلام سے خارج کافر قرار دے دیا)۔ یہ باب علم، حاکمیت اور نبوی معجزے کے درمیان تعلق کے ان متقابل تصورات کا تجزیہ کرتا ہے جو خان صاحب کے اس عجیب وغریب فتوے کا سبب بنے۔ میری راے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علم کی حیثیت ووسعت کے متعلق اس مناقشے میں اصلاً زیر بحث علم اور مذہب کی تعریف ہے۔

اس کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ ایک ہی باب "داخلی اختلافات" (بارھواں باب) پر مشتمل ہے۔ یہ متنازع مذہبی سوالات پر دیوبندیوں کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو زیر بحث لاتا ہے۔ بطورِ خاص یہ دیوبند کے پیش روؤں اور ان کے صوفی شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (م 1899) کے درمیان اختلافات پر بحث کرتا ہے۔ حاجی امداد اللہ ایک ممتاز صوفی شیخ تھے جو ہندوستان اور دیگر مقامات میں اپنے دیوبندی مریدوں، دیگر بہت سے علما اور عوام کی نظر میں محترم تھے۔ وہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان سے مکہ ہجرت کر گئے، جب انگریزوں نے انھیں اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے پر گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ وہ 1899 میں اپنی وفات تک مکہ میں رہے۔ اپنے دیوبندی مریدوں کی انتہائی عزت کرنے کے باوجود انھوں نے ذرا دھیمے لیکن قابل توجہ انداز میں متنازع دینی سوالات پر ان سے اختلاف کیا۔ یہ باب ان کے درمیان سمجھوتے اور ان باریک اختلافات کی تحقیق کے لیے وقف ہے۔ ایک نامور صوفی شیخ اور ان کے مریدوں کے درمیان اختلاف کی اس مثال سے میں ثابت کروں گا کہ  وہ اختلافات کے جن داخلی استدلالات کو سامنے لائے ہیں، انھیں شرعی/صوفی تقابل کے خانوں میں کیوں نہیں بانٹا جا سکتا۔ میں اس یادگار بیانیے کو بھی نمایاں کروں گا کہ کس طرح دیوبند کے پیش روؤں نے محبت، عقیدت اور اختلاف کے درمیان تطبیق پیدا کی۔

تتمہ میں میں علومِ دینیہ اور جنوبی ایشیائی مطالعات میں اس کتاب کے اہم فکری مضمرات اور کردار پر بحث کروں گا۔ میں خاص طور پر ان مناہج پر غور کروں گا جن سے ایک دینی روایت کے اخلاقی استدلالات کا ایک محتاط جائزہ، جیسا کہ اس کتاب میں برتا گیا ہے، مذہب کی ان حالیہ تحقیقات میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے، اور اس کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے، جنھوں نے مذہبی/سیکولر تقابل پر سوال اٹھایا ہے۔ میری راے ہے کہ زندگی سے متعلق متبادل افکار سے پردہ اٹھانا، جیسا کہ کسی روایت کی داخلی کاوشوں میں دکھایا جاتا ہے، لبرل سیکولرزم کی آفاقیت کے عمومی مفروضے پر سوال اٹھانے کے پروجیکٹ کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آخر میں ایک مختصر پس نوشت بعنوان: "داخلی 'غیر' کو توجہ سے سننا" میں، میں معاصر جنوبی ایشیا میں اپنے اس کام کی سیاسی مداخلت (یعنی ممکنہ یا متوقع فکری اثرات) پر سوچ بچار کروں گا، اور ساتھ اپنے ذاتی موقف کے حوالے سے چند افکار پیش کروں گا۔

لیکن پہلے چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ چونکہ اس کتاب کا تعلق ایک ایسی رواں بحث سے ہے،جو ہمیشہ تنازعات کا سبب بنتی اورغیر معمولی توجہ حاصل کرتی ہے، اس لیے مناسب ہے کہ میں اس حوالے سے اپنا موقف واضح کروں۔ میں نے یہ تحقیق مذہب کے علمی مطالعے کی روایت میں سر انجام دی ہے۔ اگر چہ میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق جنوبی ایشیا (پاکستان) سے ہے، لیکن میں اس مناقشے کا نہ تو شراکت دار ہوں اور نہ ہی اس کے شراکت دار افراد اور جماعتوں سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اس تحقیق کا مقصد یہ نہیں کہ کسی موقف یا مسلک کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلہ کیا جائے نہ ہی یہ اس اختلاف کا کوئی حل ہے۔ اس کے بجاے میں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس کے استدلالات، شراکت داری اور ابہامات کا بیان اور تحقیق اس انداز سے کروں کہ جنوبی ایشیا کے تناظر میں مسلم علمی روایات کی تفہیم کی گہرائی اور نزاکتوں میں اضافہ کر سکوں۔

تاہم مجھے "غیر جانب دار"، "جذبات سے عاری" محقق کے طور پر نہ دیکھا جائے جو اُن شخصیات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا جن پر وہ تحقیق کرتا ہے۔ ان کے مسلکی مواقف کے متعلق غیر جانب دار ہونے کے باوجود میں نے ان کی فکر کی تفہیم وترسیل کی بھرپور کوشش میں گزشتہ کئی سال صرف کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ اس کتاب میں پیش کیے جانے والے علما اور ان کی کتابوں سے میں نے ایک قریبی رشتہ استوار کیا ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، اور میں علمی حوالے سے ان کا مرہونِ منت ہوں۔ آنے والے صفحات میں سوانحی تذکروں سے نہیں، بلکہ مذہب کے علمی مطالعے کے طریق ہاے کار اور اصولوں کی روشنی میں، میں ان کی تذکرہ کروں گا ۔ اس منہج میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ روایت کی تہہ در تہہ باریکیوں اور تنازعات سے پردہ اٹھایا جائے، جب کہ لبرل سیکولر فکریت کے اعتدالی دعووں اور مفروضوں کا بھی قلع قمع کیا جائے۔ یہ دہری توقع اس کتاب کا مغز ہے۔ میں تتمّے میں اس مسئلے پر مزید بات کروں گا۔

ایک دوسری وضاحت بھی ضروری ہے۔ اس کتاب میں بہت سے مقامات پر میں نے حکایات اور حکایات کے زیر اثر تاریخوں اور سوانحی تذکروں کے مقامی ذخیروں سے حوالے دیے ہیں۔ یہ توضیحی اور تجزیاتی سے لے کر وقائع نگاری اور عقیدت پر مبنی مصادر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ میری طرف سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں ان مصادر سے استفادہ صرف ان کی ظاہری حیثیت کی بنیاد پر نہیں کرتا، نہ ہی میں انھیں تجربی حقائق کے ذخائر کے طور پر لیتا ہوں جو پیش آنے والے واقعات کے متعلق سوالات کا یقینی جواب فراہم کرتے ہیں۔ مجھے بہ نسبت اس سوال کے ان سیاسی اور مسلکی کاوشوں میں زیادہ دل چسپی ہے جو یہ حکایات کسی استدلالی روایت کی اخلاقی تشکیل اور تزویراتی عمل کے لیے سرانجام دیتی ہیں۔ مزید برآں انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مسلم احیائی ورثے میں حکایات ایک بنیادی و مؤثر آلے اور طرز استدلال کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس روایت کی خصوصیت ہی حکایات پر مبنی تحریری سرمایے کی فراوانی ہے۔ اس لیے ان حکایات سے استفادے سے میرا مقصد یہی ہے کہ اس پورے ذخیرے  کی بنت میں جو  استدلالی تصورات  کارفرما ہیں،  ان کو سمجھا اور علمی گفتگو کا حصہ بنایا جائے۔

میں نے، جہاں کہیں ممکن تھا اور جہاں پر معلومات دست یاب تھیں، کسی تحریر کی تصنیف کے متعلق موجود سلسلۂ سند/تحریری ثبوت یا مناقشوں پر بھی مختصر نوٹس کا اضافہ کیا ہے، اگر چہ اس پوری کتاب میں میری توجہ تحریری سرمایے کی مادی تاریخ کے بجاے استدلالی مواد پر مرکوز ہے۔ ان اکثر کتابوں کے اصل قلمی نسخے دستیاب نہیں جن کا تجزیہ اس کتاب میں کیا گیا ہے، اور متعدد سوانحی، بالخصوص بیسویں صدی کے اواخر کی حکایات کا دار ومدار زبانی روایت پر ہے، یا وہ عقیدت پر مبنی تاریخ کے انداز میں سامنے آئے ہیں۔ اس لیے اس بات پر زور دینا مفید ہے کہ اس کتاب میں جن مرکزی شخصیات کی زندگیوں اور افکار سے بحث کی گئی ہے، ان کے بارے میں ہم تک معلومات مختلف شارحین کے دستاویزات کے توسط سے پہنچی ہیں، اور ان کی مسلکی وابستگیوں اور افکار کی خصوصیات سے متاثر ہیں۔ مزید برآں جن متون کے ذریعے ہم ان شخصیات سے متعارف ہوتے ہیں، بالخصوص وہ جو بعد میں عربی سے فارسی اور اردو میں یا فارسی سے اردو میں ترجمہ ہوئے، عام طور پر ایسی کئی شخصیات کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہوتے ہیں جن کا تعلق  ایک مخصوص زمانی عرصے سے ہوتا ہے۔36 ایسے متون کے معاملے میں جہاں کہیں ممکن ہوا، میں نے اپنے تجزیے کی بنیاد اصل زبان پر رکھی ہے، جب کہ اس کے ترجمے کو بھی بعد میں کسی مخصوص اعتقادی نقطۂ نظر کے لیے حک واضافے کی تحقیق کے خاطر غور وفکر کا موضوع بنایا ہے۔

ان تنقیحات اور ضروری وضاحتوں کے ساتھ میں یہ عرض داشت بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کسی کو یہ زحمت بھی کرنی چاہیے کہ وہ اس ترتیب کو توڑے جس میں ان یورپی وامریکی ثانوی مصادر کے مقابلے میں ہمیشہ مشکوک ٹھہرنے والے مقامی مصادر کی تحقیر کی جاتی ہے، جن کو یہ اختیار سونپا گیا ہے کہ وہ ان کی تاریخی ثقاہت کی تحقیق، تجزیہ اور تعیین کریں۔ میں ایسی سرپرستی کو نخوت زدگی سمجھتا ہوں۔ تمام تحریریں (بشمول زیر نظر تحریر کے) ذاتی آرا اور حساسیتوں پر اگر مبنی نہیں تو متاثر ضرور ہوتی ہیں، اور ان میں مختلف قسم کے فوائد اور گہرائیاں یا نقائص اور خطرات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام تر تعصبات اور صریح جانبدارانہ مواقف کے باوجود جنوبی ایشیائی اسلام سے متعلق یہاں کی مقامی مسلم وقائع نگاری اپنی تفصیلات، گہرائی اور جزئیات تک میں بہت سے مواقع پر یورپی اور امریکی دانش سے کافی بلند ہے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے میں نے تشکیک اور تسلیم کے علمی مناہج کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس توازن کو ملحوظ رکھنے کی  کوشش سے،  امید ہے کہ ان تہہ بر تہہ  استدلالات اور مقاصد  کے ساتھ  جو کسی استدلالی روایت کی تشکیل کرنے والوں کے پیش نظر ہوتے ہیں،  ایک زیادہ گہرا اور زیادہ ہمدردانہ تعامل کیا جا سکتا ہے۔


حواشی

  1. اشرف علی تھانوی، ملفوظاتِ اشرفیہ (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1981)، 132۔
  2. احمد رضا خان، مقال عرفاء فی اعزاز شرع و علماے شریعت و طریقت (کراچی: ادارۂ تصنیفاتِ امام احمد رضا خان، تاریخ اشاعت ندارد)۔
  3. محمود ممدانی، Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War , and the Roots of Terror (نیو یارک: پینگوئن رینڈم ہاؤس، 2005)۔
  4. الزبتھ ہرڈ، Beyond Religious Freedom: The New Global Politics of Religion (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2015)۔
  5. چیرائل بینارڈ، اینڈریو رِڈِل اور پیٹر ولسن، Civil Democratic Islam: Partners, Resources, and Strategies (سانٹا مانیکا، سی اے: رینڈ، 2003)، 25۔
  6. ایضاً، 47۔
  7. ایضاً، 37۔
  8. ایضاً، 25۔
  9. ایضاً، 29۔
  10. ہدیہ میراحمدی، مہرین فاروق اور ولید زیاد، Traditional Muslim Networks: Pakistan’s Untapped Resource in the Fight Against Terrorism (واشنگٹن، ڈی سی: WORDE، 2010)۔
  11. ایضاً، 2۔
  12. وہابی کی اصطلاح عالمِ عرب کی اٹھارھویں صدی کی مسلم اصلاحی تحریک، جس کی بنیاد شیخ محمد بن عبد الوہاب (م 1798) نے رکھی، کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ باوجود اعتقادی مماثلتوں کے، معمولی ثبوت کی بنیاد پر دیوبندیوں کو وہابیوں کی طرح قرار دینا نوآبادیاتی دور کا الزام ہے۔ حقیقت میں اصلاح کے یہ دو دھارے اساسی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وہابی چاروں سنی مسالک کی تقلید کو اگر مسترد نہیں کرتے تو اسے قرار واقعی اہمیت بھی نہیں دیتے، جب کہ دیوبندیوں کے نزدیک فقہی مسلک سے وابستگی بنیادی قدر ہے۔ برطانوی مستشرق ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر (م 1900) نے ہندوستانی وہابی کی اصطلاح کو مقبولِ عام بنایا۔ مسلکِ دیوبند کے مخالفین مثلاً‌ بریلوی، دیوبندیوں کو مسلسل اس مقصد سے وہابی کہتے آئے ہیں کہ ان کی استنادی حیثیت کو کم زور کریں، اور انھیں انتہا پسند بنیاد پرستوں کی حیثیت سے پیش کریں۔ دیوبندی وہابی اصطلاح کو بغیر کسی جھجھک یا غور وفکر کے اختیار کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ WORDE کے مصنفین کو نوآبادیاتی دور کی ان مناظرانہ باقیات کا علم نہیں۔
  13. میراحمدی، فاروق اور زیاد، Traditional Muslim Network، 13۔
  14. دیکھیے: لیزا کرٹس اور حیدر ملک، Reviving Pakistan’s Pluralist Traditions to Fight Extremism (واشنگٹن، ڈی سی: ہیریٹیج فاؤنڈیشن، 2009)۔
  15. فیٹ میوڈینی، Sponsoring Sufism: How Governments Promote “Mystical Islam” in Their Domestic and Foreign Policies (نیو یارک: پالگریو میکملن، 2015)، 2۔
  16. ایضاً
  17. دیکھیے: اظفر معین، The Millennial Sovereign: Sacred Kingship and Sainthood in Islam (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2010)۔
  18. دیکھیے: نائل گرین، Sufism: A Global History (چیچِسٹر: وِلی بلیک وِل، 2012)۔
  19. کارل ارنسٹ، The Shambala Guide to Sufism (بوسٹن: شمبالا پبلیکیشنز، 1997)، 18-32۔
  20. مدونین: کیتھرین ایونگ اور روزمیری Introduction to Sufi Politics: Rethinking Islam, Scholarship, and the State in South Asia and Beyond کے لیے کیتھرین ایونگ کا لکھا گیا تعارف (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، زیرِ طباعت)۔ اس استدلال کی مکمل توضیح اور پاکستان میں صوفی ازم کے لیے اس کے مضمرات پر ایونگ کا کچھ عرصہ پہلے لکھا گیا مقالہ: Arguing Sainthood: Modernity, Psychoanalysis, and Islam (ڈرہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 1997) ملاحظہ کریں۔
  21. پنینا وربنر، The Making of Muslim Dissent: Hybridized Discourses, Lay Preachers, and Radical Rhetoric among British Pakistanis، امیریکن ایتھنالوجسٹ 23، شمارہ 1 (فروری 1996): 102-129۔
  22. ایضاً، 106-111۔
  23. مارک گیبوریو، Un autre Islam: Inde, Pakistan, Bangladesh (پریس، البن میشل، 2007)، 142۔
  24. ڈیوڈ پینالٹ، Notes from the Fortune-Telling Parrot: Islam and the Struggle for Religious Pluralism in Pakistan، (لندن: ایکوینوکس، 2008)۔
  25. ایضاً، 9۔
  26. ایضاً، 42۔
  27. اس استدلال سے جڑے مزید فکری مسائل اور جن مہلک سیاسی ایجنڈوں کو یہ بڑھاوا دیتا ہے، ان کی تفہیم کے لیے دیکھیے: گریگری اے لپٹن، Secular Sufis: Neoliberalism, Ethnoracism, and the Reformation of the Muslim Other، مسلم ورلڈ 101، شماره 3 (2011): 427-440 اور Frequencies: A Genealogy of Spiritualityمیں شیر علی ترین کا مضمون: Park 51۔ یہ ایک آن لائن پروجیکٹ ہے، جسے جان ماڈرن اور کیتھرائن لوفٹن نے شروع کیا ہے، سوشل سائنس ریسرچ کونسل، دسمبر 2011،   http://frequencies.ssrc.org/2011/12/13/park-51
  28. عامر مفتی، Enlightenment in the Colony: The Jewish Question and the Crisis of Postcolonial Culture (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2007)، 19۔
  29. "انتہائی عقلیت پسند اور انتہائی حرفیت پسند عملی اسلام ازم" بھی سرسری نظر میں بیک وقت بے تکی اور مبہم ہے۔ اسلام ازم کی تحقیق میں اس طرح کے انتہائی سیکولرسٹ مناہج کے مطالعے کے لیے عرفان احمد کی عمدہ تحقیق ملاحظہ کریں: Religion as Critique: Islamic Critical Thinking from Mecca to Marketplace (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2017)۔
  30. صبا محمود، Secularism, Hermeneutics, Empire: The Politics of Islamic Reformation، پبلک کلچر 19، شمارہ 2 (2006): 323-347۔
  31. ہندوستان کی اصلاحی تحریکوں پر ہونے والی چند تحقیقات میں شامل ہے: باربرا مٹکاف، Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1982)؛ فرانسس روبنسن، The Ulama of Farangi Mahall and Islamic Culture in South Asia (نیو دلی: اورینٹ لانگ مین، 2001)؛ محمد قاسم زمان، Custodians of Change: The Ulama in Contemporary Islam (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2006)؛ ڈیٹرک ریٹز،Islam in the Public Sphere: Religious Groups in India, 1900-1947 (نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2006)؛ اوشا سانیال، Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Raza Khan Barelwi and His Movement, 1870-1920 (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1996)؛ اور ہارلن اوٹو پیئرسن، Islamic Reform and Revival in Nineteenth-Century India: The Tariqah-Muhammadiya، (دلی، یودا پریس، 2008)۔
  32. اسد زمان کی عمدہ کاوش Custodians of Change اس عمومی چلن سے ایک اہم استثنا ہے۔ اردو اور عربی دونوں طرح کے مصادر کا احاطہ کرتے ہوئے یہ کتاب جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی علمی روایت کی پیچیدگیوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ تاہم اس کی زیادہ تر توجہ پاکستان میں روایتی علما کے مابعد نوآبادیاتی تناظر پر ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے دیوبندی مفکر مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں زمان کی نسبتاً حالیہ تحقیق: Asharf Ali Thanawi: Islam in Modern South Asia (آکسفرڈ: ون ورلڈ پبلیکیشنز، 2008) اسلام اور نوآبادیاتی ہندوستان کو زیادہ براہ راست موضوع بحث بناتی ہے۔ تھانوی کی فکر کے ان گوشوں کو مزید کچھ گہرائی کے ساتھ جن کو ابھی تک موضوع بحث نہیں بنایا گیا، جائزہ لینے کے لیے میں نے اس کتاب پر انحصار کیا ہے۔ (دیکھیے: ساتواں اور آٹھواں باب)۔
  33. صبا محمود، Politics of Piety: The Islamic Revival in and the Feminist Subject (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2005)، 35۔
  34. ڈیوک یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ سے اپنی پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد پیئرسن علمی دنیا کو خیرباد کہہ کر نجی شعبے میں کام کرنے چلے گئے۔
  35. ابراہیم موسیٰ، The Deoband Madrasa، تدوین: ابراہیم موسیٰ، خصوصی اشاعت، مسلم ورلڈ 99، شمارہ 3 (جولائی 2009): 427۔
  36. میں اس نکتے کی وضاحت میں مارگرٹ پرناو کی ترغیب کے لیے شکر گزار ہوں۔

(جاری)

آراء و افکار

(فروری ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter