انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۵)

ڈاکٹر شیر علی ترین

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Moderity کا دوسرا باب اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ)


شاہ اسماعیل کا علمی وفکری سرمایہ

اصلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل نے انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان کی انتہائی اہم کتابیں سپرد قلم کیں۔ انھوں نے فقہ، کلام، منطق، سیاسیات اور تصوف کے متعدد موضوعات اور علوم پر کتابیں لکھیں1۔ مزید برآں انھیں عوام کے لیے سہل ومقبول اور خواص اہل علم کے لیے مشکل اور دقیق کتابیں لکھنے میں غیرمعمولی مہارت حاصل تھی۔ اس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ شاہ اسماعیل کی کلامی، فقہی اور سیاسی فکر کو زیر بحث لاتے ہوئے ان کی تمام پیچیدگیاں قارئین کے سامنے رکھی جائیں۔ میں ان کی شدید متنازع کتاب "تقویۃ الایمان" کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ ساتھ سیاست شرعیہ سے متعلق ان کی نسبتاً کم مشہور کتاب "منصبِ امامت" اور سنت وبدعت سے متعلق ان کی کتاب "ایضاح الحق" پر بھی روشنی ڈالوں گا۔ ان کے فکری ورثے پر وسیع غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر چسپاں کیے گئے "سادہ فکر سلفی" کے لیبل کے برعکس وہ ایک باریک بیں اور نکتہ رس مفکر ہیں۔ شاہ اسماعیل کی فکر کو منفرد بنانے والے تضادات، تناقضات اور ابہامات کا نقشہ کھینچنا بھی اس کتاب کے مقاصد میں شامل ہے۔ ضخیم اور متنوع علمی کاوشوں کے باوجود عہد حاضر میں شاہ اسماعیل کے متعلق کوئی بحث ان مناظرانہ جھنجھٹوں سے جان نہیں چھڑا سکتی جو ان کی سوانح حیات کا جُزوِ لاینفک ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں بریلوی اور دیوبندی مسالک کے پیش روؤں کے درمیان کش مکش نے ان کی شخصیت کو مزید تقسیم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بہت سی مناظرانہ بحثوں کا مرکزی موضوع شاہ اسماعیل کے چند شدید متنازعہ بیانات ہیں۔

درحقیقت برصغیر (اور بسا اوقات برصغیر سے باہر بھی) کے سنی مسلمانوں کے درمیان چپقلشوں کے مناظرانہ پس منظر میں شاہ اسماعیل کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کے متعلق ان کے حامی اور مخالف دونوں اپنی آرا میں یکساں شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی میں اور بعد میں بھی شاہ اسماعیل کے حامیوں بالخصوص دیوبند کے پیش روؤں کے نزدیک وہ ایک عظیم مصلح تھے جنھوں نے مسلم ہندوستان میں ایک شدید دینی زوال کے وقت میں اصلاح کا علم بلند کیا2۔ ان کے نزدیک شاہ اسماعیل ایک ایسا نجات دہندہ تھے جنھوں نے بیک وقت عوام اور اہل علم دونوں کے دلوں میں خالص توحید کی دھاک بٹھا دی۔

اس کے برعکس ان کے مخالفین کے نزدیک وہ ایک قابل اعتراض فکر کے مالک تھے جنھوں نے نبی اکرم ﷺ اور دیگر اولیاے کرام کی اہانت کرکے ہندوستان میں پہلی بار سنیوں کے درمیان نفرت کا بیج بویا۔ عہد حاضر کے مشہور بریلوی عالم یاسین اختر مصباحی نے اسے یوں بیان کیا ہے: "اگر اسلام کو شاہ اسماعیل کے معیارات پر جانچا جائے تو ہندوستانی تاریخ کے گزشتہ پانچ سو سال کے مسلمانوں کی اکثریت کافر ٹھہرتی ہے۔ تقویۃ الایمان کی اشاعت سے پہلے ہندوستان میں  مسلمانوں کے دو گروہ تھے: شیعہ اور سنی۔ ان کے گمراہ کن ایجنڈے کے نتیجے میں سنی معاشرہ لاتعداد گروہوں اور دھڑوں میں تقسیم ہو گیا3"۔ شاہ اسماعیل کے مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے حضور اکرم ﷺ کی دینی حیثیت کو گھٹایا اور مقدس رسوم وروایات کے تقدس کو پامال کیا۔ نوآبادیاتی اور آج کے ہندوستان کے گہرے مناظرانہ ماحول میں شاہ اسماعیل پر ان کے مخالفین اولین "ہندوستانی وہابی" کا لیبل چسپاں کرتے ہیں4۔ مزید برآں ان کے مخالفین کی کوشش ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ کے سلسلے سے ان کا تعلق  کاٹ دیں۔ وہ انھیں طنزیہ انداز میں ولی اللہی خاندان کی کالی بھیڑ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جو اس لائق بھی نہیں کہ اسے عالم کہا جائے۔

مثال کے طور پر عہد حاضر کے ایک بریلوی مناظر سید محمد نعیم الدین نے جس تحقیر آمیز اور طنزیہ انداز میں شاہ اسماعیل کی نوجوانی کا رویہ بیان کیا ہے، اسے ایک بار ملاحظہ فرمائیں:

"شاہ اسماعیل اپنے اساتذہ کے لیے باعث عار تھا۔ وہ ہمیشہ گھر کے کام سے غافل رہتا، درس میں خلل ڈالتا اور اپنے نامعقول اور باغیانہ رویے کی وجہ سے دوسرے طلبہ کے لیے بھی انتشار کا سبب بنتا۔ اس کا بنیادی مشغلہ پتنگ بازی، جسمانی ورزش اور وقت کا ضیاع تھا۔ اپنے غرور وتکبر کی وجہ سے شاہ اسماعیل اپنے خاندان کے بڑوں بالخصوص اپنے ممتاز چچا شاہ عبد العزیز کے لیے ہمیشہ پریشانی کا سبب بنتا۔  یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ دیوبندی علما نے شاہ ولی اللہ کے خاندان میں سے ان کے سب سے نالائق بندے کو اپنا مذہبی رہ نما چُنا، جب کہ اس خاندان کے دیگر عالی مقام اصحابِ علم سے اغماض برتا"5۔

مذکورہ بالا بیان میں موجود مبالغے سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کی زندگی میں شاہ اسماعیل کی  اصلاحی سرگرمیوں نے ان کے خاندان کے معزز حنفی علما کے لیے اضطراب کا کافی سامان پیدا کیا تھا۔ مثال کے طور پر مسلم ہندوستان میں حنفی روایات کے برعکس شاہ اسماعیل نے نماز میں رفع یدین کے عمل کی تبلیغ وتائید کی۔ یہ عمل ہندوستان کے حنفی اور غیر مقلد اہل علم کے درمیان شدید متنازع تھا۔ جب اسماعیل کے چچا شاہ عبد العزیز کو خبر ملی کہ ان کا بھتیجا اس عمل کی تائید کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے تنازع جنم لے رہا ہے تو انھوں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں۔ وہ میری نہیں سنے گا"6۔ شاہ عبد العزیز نے اپنے چھوٹے بھائی شاہ عبد القادر سے کہا کہ اسماعیل کو سمجھائے کہ وہ غیرضروری مسائل کھڑے نہ کریں۔ شاہ عبد القادر نے جواب میں کہا: "جیسے آپ کا حکم! لیکن وہ میری بھی نہیں سنے گا، بلکہ وہ جواب میں حدیثیں پیش کرنے لگے گا"7۔ پھر شاہ عبد القادر نے یہ کام اپنے بیٹے اور اسماعیل کے چچا زاد شاہ محمد یعقوب دہلوی (جن کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے) کے ذمے لگایا۔

شاہ یعقوب نے شاہ اسماعیل سے بات کی اور انھیں رفع الیدین جیسے اشتعال انگیز مسائل کونہ چھیڑنے  کی نصیحت کی۔ جیسا کہ ان کے چھوٹے چچا نے پیش گوئی کی تھی، شاہ اسماعیل نے جواب میں حدیث کا حوالہ دیا۔ انھوں  نے شاہ یعقوب سے کہا: "اگر عوام کے فتنے کا خیال کیا جائے تو اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا کہ جو کوئی میری امت کے فساد کے وقت میری سنت پر عمل کرے تو اسے سو شہیدوں کے برابر اجر ملے گا8۔ کیونکہ جو کوئی سنت متروکہ اختیار کرے گا، عوام میں ضرور شورش ہوگی"۔ شاہ اسماعیل کا جواب سن کر شاہ عبد القادر نے آہ بھر کر کہا: "بابا ہم تو سمجھے تھے کہ اسماعیل عالم ہوگیا، مگر وہ تو ایک حدیث کا مطلب بھی نہیں سمجھا۔ یہ حکم تو اس وقت ہے جب کہ سنت کے مقابل خلافِ سنت ہو، جب کہ اس مسئلے میں سنت کا مقابل خلافِ سنت نہیں بلکہ ایک دوسری سنت ہے، کیونکہ جس طرح رفع الیدین سنت ہے، اسی طرح  ارسال بھی سنت ہے"9۔

ایک تخیلاتی حکومت کے قیام  کی جدوجہد

شاہ اسماعیل کی علمی وفکری زندگی کے علاوہ ان کی سعی وجہد  اور سوانح کا کافی حصہ خیبر پختون خوا (جسے پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا جاتا تھا) میں سکھوں کے خلاف 1826 سے لے کر 1831 تک شمالی ہندوستان کی تحریکِ مجاہدین سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ ایک مرکزی تھے۔ سید احمد کی دل آویز شخصیت کے زیرِ سایہ شاہ اسماعیل اور دیگر پانچ سو علما اور عوام نے سکھوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، تاکہ اس خطے کے پختون مسلمانوں کو سکھا شاہی ظلم وجبر سے نجات دلائیں۔ تحریکِ جہاد کے تصور نے اغوا کی ایک الم ناک داستان سے جنم لیا تھا۔ جب سید احمد 1819 میں رام پور میں تھے تو افغانستان سے کچھ پشتون لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے ایک دل خراش داستان سنائی جس نے سید احمد کا دل دہلا دینے  کے ساتھ انھیں برافروختہ بھی کر دیا۔ پنجاب میں سفر کرتے ہوئے یہ پشتون اپنی پیاس بجھانے کی خاطر ایک کنویں کے پاس رک گئے۔ انھوں نے کنویں پر چند سکھ خواتین کو کام کرتے دیکھا۔ ہندوستانی زبانوں سے ناواقفیت کی بنا پر انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے ان سے پانی مانگا۔ انھیں ابتدا میں حیرت اور بعد میں دہشت کا دھچکا لگا جب ان عورتوں نے ادھر ادھر دیکھ کر یہ اطمینان کر لیا کہ کوئی انھیں دیکھ نہیں رہا اور پھر پشتو میں گفتگو شروع کر دی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سکھ نہیں بلکہ مختلف قبائل اور علاقوں کی افغان خواتین ہیں جنھیں سکھ اغوا کرکے پنجاب میں لائے ہیں اور  یہاں وہ ان کی داشتاؤں کی حیثیت سے رہ رہی ہیں۔ "اے سید احمد! ان عورتوں کو کفر سے بچانے کے لیے کچھ کیجیے"، ان افغانوں نے التجا کی۔ "ان شاء اللہ میں جلد ہی سکھوں کے خلاف جہاد کا آغاز کروں گا"10، سید احمد نے بھرپور تیقن کے ساتھ جواب دیا۔

سید احمد سے متعلق سوانحی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساری زندگی بالخصوص ٹونک میں قیام کے دوران عسکری تربیت کے ذریعے جہاد کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ سکھ اور پشتون مسلمانوں پر ان کی مبینہ ظالمانہ حکومت نے انھیں ایک ٹھوس ہدف مہیا کیا کہ وہ اپنی زندگی بھر کی تربیت کو روبعمل لا سکیں۔ اس مقصد کے لیے سید احمد کے مرکزی معاونین اور منصوبہ ساز شاہ عبد العزیز کے دو رشتہ دار تھے: ان کے بھتیجے شاہ محمد اسماعیل اور ان کے داماد عبد الحی بڈھانوی۔ اسماعیل اگر ایک شعلہ بیان مقرر اور زبردست عسکری کمانڈر تھے تو اس کے برعکس عبد الحی زیادہ تر تنہائی پسند تھے  جن کی خاموش اور ساکن طبیعت کی وجہ سے وہ سید احمد کے بنیادی سیاسی مشیر اور منصوبہ ساز کی حیثیت سے بطور خاص مناسب ٹھہرے11۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، عبد الحی بھی ایک نمایاں حنفی عالم تھے اور  ان کی وجہ سے ایک ایسے مشن کے مسلکی تنوع میں اضافہ ہوا جس میں ایک اچھی خاصی تعداد غیر مقلدین (جو چاروں فقہی مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے) کی تھی۔

جو راستہ ان مجاہدین نے اختیار کیا، وہ جدید قومی ریاست کی سرحدات اور حدود کا پابند نہیں تھا۔ وہ شمالی ہندوستان میں واقع راے بریلی سے گوالیار، اجمیر اور راجستھان کے علاقے ٹونک سے ہوتے ہوئے سندھ میں حیدر آباد اور شکار پور تک اور بلوچستان میں درۂ بولان سے ہوتے ہوئے قندھار تک پہنچے، جہاں سے وہ کابل اور بالآخر درۂ خیبر کے رستے سے پشاور پہنچے۔

پشاور اور اس کے گرد ونواح (بالخصوص پنجتار) میں قیام کے دوران سید احمد نے نہ صرف دہلی اور شمالی ہندوستان کے علما اور عمائدین سے، جن کے ذریعے انھیں اس مہم کے لیے نقدی اور افرادی قوت کی رسد مل رہی تھی، بلکہ پورے افغانستان اور وسطی ایشیا کے سیاسی قائدین اور قبائلی زعما کے ساتھ بھی براہ راست رابطہ رکھا۔ ان کی اور ان کی بالائی قیادت کی اس مہم کے بارے میں کیا خیالات تھے؟ شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے کردار، مشن اور دائرۂ کار کو ان لوگوں کے سامنے کیسے پیش کر رہے تھے جن سے وہ اپنی تائید اور امداد کا مطالبہ کر رہے تھے؟

سید احمد نے ہرات کے سلطان شاہ محمد کو ایک خط لکھا تھا جس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک جہاد کے ابتدائی دور کا ہے، جس میں ان چند سوالات کے جوابات کی طرف رہ نما اشارے ہیں12۔ سید احمد نے تحریک جہاد کی غرض وغایت اور تناظر کو اس انداز میں واضح کیا ہے: "جہاد کرنا اور فتنہ وفساد کو فرو کرنا ہر زمان ومکان میں ایمان کے اہم ترین ارکان میں سے ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب اہل کفر کی شورش اور سرکشی اپنی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔ شعائر دین مسخ ہو گئے ہیں، اور سلاطین اسلام کی حکومتیں برباد ہو گئی ہیں۔ ہندوستان کے تمام علاقوں سمیت سندھ وخراسان میں ایک عظیم فتنہ برپا ہو چکا ہے۔ اس دوران سرکش کافروں کے استیصال میں غفلت برتنا اور فسادی باغیوں13 کے کچلنے میں سستی کرنا عظیم معصیت اور بدترین گناہ ہے"14۔

اس خط میں کئی چیزیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ، جیسا کہ میں باب نمبر ۴ میں شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر پر بحث کے دوران نسبتاً زیادہ تفصیل سے واضح کروں گا، سید احمد نے جہاد کو جواز دینے کے لیے جس تباہی کا حوالہ دیا ہے، اس میں بجاے مسلمانوں کے علاقے چھن جانے  کے شعائر دین کے پا مال ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ان کی نظر میں عوامی دائرے میں اسلام کا کردار اور مسلمانوں کی شناخت سیاسی اقتدار یا کسی علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے برابر یا اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ دوسری یہ کہ سید احمد کی جانب سے آزادی کا مطالبہ کرنے والے علاقوں میں سندھ اور خراسان کو، جسے وہ بار بار اپنے خطوط میں دہراتے ہیں، شامل کرنے کے دو مطلب ہیں۔ پہلا یہ کہ ان کے خیال میں تحریکِ جہاد ایک بین الاقوامی مہم تھی جو کسی مخصوص علاقے بالخصوص برطانوی ہندوستان تک محدود نہ تھی۔ اور دوسرا یہ حکمتِ عملی پر مبنی اقدام تھا جس کا مقصد ان علاقوں کے سیاسی اشرافیہ کو یہ یقین دلانا تھا کہ یہ تحریک مجاہدین سے کہیں زیادہ ان کے اپنے حق میں ہے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کی ہمدردی، توجہ اور تعاون حاصل کیا جائے۔

درحقیقت اپنے خطوط میں سید احمد نے بار بار بڑی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک طرف ایک مذہبی قائد (امام) کی حیثیت سے خود کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں  جو صرف ایک شرعی حکومت کا قیام چاہتا ہے، جب کہ دوسری طرف اپنے آپ کو ایک سیاسی حاکم (سلطان) کی حیثیت سے الگ رکھا ہے  جو موجودہ حکم رانوں اور ان کی حکومت کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اصل میں اس میں دور اندیشی سے زیادہ اپنے سیاسی مقاصد کے بارے میں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں گردش کرنے والی چہ میگوئیوں کو ٹالنے کا محرک  نمایاں تھا۔ مثال کے طور پر شاہ محمود کے نام اسی خط کے آخر میں، اور دیگر افغان وپختون سرداروں کے نام خطوط میں انھوں نے اپنے دائرۂ کار کی وضاحت کچھ یوں کی ہے: "چوں کہ اہل کفر وفساد کے خلاف جہاد نصبِ امام کے بغیر ناممکن ہے، اس لیے نامور (مقامی) علماے دین نے میرے ہاتھ پر بیعت کی، اور مجھے اپنا امام بنا لیا، خطباتِ جمعہ بھی میرے نام سے پڑھے جاتے ہیں"۔ یہ تمہید باندھنے کے بعد وہ اصل بات پر آتے ہیں: "دینی امامت اور دنیوی سلطنت کے مناصب کے درمیان بہت بڑا فرق ہے"15۔

اپنے مخاطب کو مزید یقین دہانی کی خاطر لکھتے ہیں: "ایک مذہبی قائد (امام) کی تعیناتی کا مقصد صرف جہاد کرنا اور بغاوت وفساد کو دبانا ہے، نہ کہ ملکوں وشہروں کو نوآباد کرنا اور ضلعوں وعلاقوں پر قبضہ جمانا"۔ سید احمد نے اپنی بات ایک دل چسپ بیان پر ختم کی: "امام اور اس کے متبعین بذات خود مقصود نہیں ہوتے، بلکہ ان کا مقصد حکومت وسلطنت کو اس کے حق داروں تک واپس لوٹانا ہوتا ہے"16۔ سید احمد نے انتقالِ اقتدار کی اس مدت کو غیرحتمی اور مبہم چھوڑ دیا۔ تاہم ایک امام کی حیثیت سے اپنے مذہبی وسیاسی اقتدار کو سیاسی حکم رانوں کے اقتدار سے ممتاز کرنے کی کوشش سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطے کے بااثر افراد کی تائید حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ ان کے دعوی اقتدار کو چیلنج نہ کریں۔

ابتدا میں بظاہر یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔ کچھ عسکری فتوحات کے بعد، جس کے نتیجے میں خطے سے سکھوں کی پسپائی ہوئی، 1827 میں سید احمد کو مقامی سیاسی اور مذہبی عمائدین کی تائید سے امیر المؤمنین بنایا گیا۔ پشاور میں یوسف زئی قبیلے نے بطور خاص انھیں خوش آمدید کہا۔ اپنے خطوط اور تقریروں میں سید احمد اور شاہ اسماعیل دونوں اپنے نئے ماحول  کو بلاد/دیار/اوطانِ یوسف زئی سے یاد کرتے ہیں17۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت وتائید میں اضافہ ہوتا گیا اور دیگرعلاقوں جیسے سوات، ننگرہار، بونیر اور پکھلی سے مختلف قبائل جیسے آفریدی، خٹک، مہمند، خلیل کے لوگ بھی شامل ہونے لگے۔ تاہم جس انداز سے سید احمد اپنے خطوط میں اپنی تحریک اور کردار کا دفاع کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دائرۂ کار کے حوالے سے مسلسل شکوک وشبہات جنم لے رہے تھے۔ مثال کے طور پر پشاور کے ایک بااثر قبائلی رہ نما یار محمد خان تھے  جن کے ساتھ سید احمد کے تعلقات میں کئی نشیب وفراز آئے اور بالآخر شدید تلخی میں بدل گئے۔ ان  کے نام1827 سے لے کر 1830 کے درمیان اپنے ایک خط میں اس نمائشی التجا کو ملاحظہ کریں: "میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں"، سید احمد نے پرزور انداز میں کہا: "میری دعوتِ جہاد اور کفر وفساد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہونا پوری سچائی اور دیانت کے ساتھ دولت، مقام ومرتبہ، شہرت، سیاسی طاقت، اقتدار، نام ونمود اور دوسروں پر برتری کی خواہش سے آلودہ وداغ دار نہیں"۔ ایک دل نشیں استدلالی انداز میں سید احمد نے مزید واضح کیا ہے کہ انھیں اس مشن کے لیے "خدائی الہام اور غیبی اشارات کے ذریعے مامور کیا گیا ہے"18۔ اس لیے اس مشن کو آلودہ کرنے کے لیے "کسی شیطانی سرگوشی اور نفسانی خواہش کی کوئی گنجائش نہیں"19۔

سید احمد کی یقین دہانیوں کے باوجود اقتدار کے کھیل میں شریک ہو کر بھی اپنی شرکت کو ظاہر نہ کرنا ایک ایسا نازک کام تھا جس کا زیادہ دیر تک چلنا مشکل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک جہاد کو حاصل مقامی پشتونوں کی تائید کم ہوتی گئی اور بالآخر وہ کھلی مخالفت میں بدل گئی۔ تعلقات کی اس تدریجی لیکن جوہری تبدیلی میں عُشر کے ادارے کے قیام اور زیادہ مہر دینے پر پابندی جیسے قوانین کے نفاذ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے پشتون قبائلی سرداروں نے سید احمد کے پسندیدہ لقب "امیر المؤمنین" کے استعمال کو ناپسند اور مسترد کیا۔ ان کے خیال میں یہ ان کی حاکمیت کے لیے براہ راست خطرہ تھا۔

شمالی ہندوستان کے مصلحین کے لیے ان اقدامات کا مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل تھا جو قانون الہی پر کار بند ہو۔ لیکن مقامی پشتونوں کے لیے یہ قوانین عرصۂ دراز سے رائج قبائلی اقدار کے خلاف تھے، اور انھوں نے اس طرزِ حیات میں خلل پیدا  کر دیا تھا جس کے ساتھ وہ عادی تھے۔ قانون اور سماج آپس میں کس طرح تعامل کرے؟ اس سوال کی تہہ میں کار فرما فلسفیانہ اختلاف ایک نہ ختم ہونے والی دشمنی میں بدل گیا۔ یہ دشمنی اس حد تک بڑھ گئی کہ متعدد طاقت ور پشتون قبائلی سرداروں نے جب سید احمد اور ان کے پیروکاروں کو خطے سے نکالنے کے لیے ایک ہمہ گیر مہم کا آغاز کیا تو سکھوں کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیے ۔ اس کا نتیجہ سیاسی اور عسکری تباہی تھا۔ چند افراد کو چھوڑ شمالی ہندوستان کے مصلحین سکھوں اور پشتونوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس مہم میں سید احمد کے ساتھ شاہ اسماعیل بھی دسمبر 1831 میں پشاور سے کچھ دو سو پچاس کلومیٹر دور قصبے بالا کوٹ میں مارے گئے۔ عبد الحی تین سال قبل 1828 میں اس وقت وفات پا چکے تھے جب تحریک جہاد کے راستے میں شدید رکاوٹیں پیدا ہو گئی تھیں۔ طُرفہ یہ کہ ہندوستان میں سید احمد کے بہت سے پیروکاروں نے ان کی موت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ اپنی مافوق الفطرت صلاحیتوں کو بروے کار لا کر کہیں چھپ کر جی رہے ہیں۔ یہ بعینہ وہ رویہ تھا جس کے خلاف وہ اور شاہ اسماعیل آخری دم تک لڑتے رہے!20

تحریکِ جہاد اور اس میں بدلتی وفاداریوں اور اتحادوں کی داستان ایک اثر انگیز جاسوسی فلمی منظر نامے کے طور پر پیش کیے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ منظرنامہ پنجابیوں، پشتونوں، شمالی ہندوستان کے باسیوں، علما، جنگ جؤوں اور عامیوں کے کرداروں اور جاسوسی مشنوں، سازشی تحریکوں، سیاسی ساز باز، خیالی توقعات، خوف ناک اندیشوں اور ایکشن سے بھرپور عسکری جھڑپوں کے پلاٹوں سے بھرپور ہے۔ تحریک جہاد کی علمی اور سیاسی تاریخ، جو اہم عربی فارسی وعربی مآخذ کی روشنی میں پوری تفصیلات بالخصوص ان پانچ سالوں کے دوران سید احمد اور اسماعیل کے خطوط کے ذخیرے کو سامنے لائے، ابھی لکھا جانا باقی ہے۔ یہ تفصیلات اس کتاب کا موضوع نہیں، لیکن میں اختصار کے ساتھ اندرونی تنازعات اور اختلافات کے ساتھ ان حریف مذہبی تصورات کا کچھ حصہ دکھانا چاہتا ہوں جو تحریکِ جہاد کی بنیاد بنے اور تحریک کے دوران کئی بار باہم ٹکرائے۔ اس مقصد کے لیے میں بالاختصار ایک ایسی دل چسپ کتاب کو موضوع بحث بنانے جا رہا ہوں جو ایک ایسے شخص نے لکھی ہے  جو تحریکِ جہاد میں بھرپور شرکت کے بعد اسے بیچ راستے میں چھوڑ کر دلی واپس ہو گیا، اور اپنے ذاتی مشاہدات خود قلم بند کیے۔

ایک منحرف کی دلچسپ داستان

سید محبوب علی دہلوی (متوفی 1864۔ اس کے بعد انھیں محبوب علی لکھا جائے گا) دہلی کے ایک ممتاز حنفی عالم تھے جو اپنے عہد کے دیگر سر برآوردہ علما کی طرح شاہ عبد العزیز اور شاہ عبد القادر کے تربیت یافتہ تھے۔ محبوب علی نے 1815 کے آس پاس سید احمد سے بیعت کی جب سید صاحب دہلی میں تھے۔ وہ جون 1927 میں لگ بھگ چار سو آدمیوں کی فوج لے کر تحریکِ جہاد میں شامل ہوئے21۔ پشاور کے قریب پڑاو کے دوران محبوب علی نے سرحدی علاقے کے طول وعرض کا سفر کیا اور پوری جاں فشانی سے تحریکِ جہاد میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

اپنے قیام کے تقریباً چھ ماہ کے دورانیے میں انھیں سید احمد کی جنگی حکمت عملی اور طریقِ کار سے شدید اختلاف پیدا ہوا۔ ان کی نظر میں یہ خوف ناک حد تک سخت گیر ہونے کے ساتھ غیر محتاط طریق کار پر مبنی تھی۔ ان  کی نظر میں سید احمد کا سخت گیر اندازِ قیادت، جس میں اختلاف، تنقید اور مشورے کے لیے بہت کم گنجائش تھی، معکوس نتائج پیدا کر رہا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ محبوب علی سید احمد کے اختیار کردہ لقب امیرالمؤمنین کو شرعی اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے، کیونکہ شرعی اعتبار سے اس لقب کا تقاضا یہ تھا کہ سید احمد کی بیعتِ امارت سے انکار کرنے والے ہر شخص پر سزاے موت نافذ کی جائے۔  بظاہر سید احمد کو (مخالفین کے لیے) یہ سزا تجویز کرنے میں کوئی  تردد نہیں تھا۔ محبوب علی نے اپنے استدلال میں کہا: اس لقب پر پورا اترنے کے لیے ضروری ہے کہ سید احمد امیرالمؤمنین کا منصب سنبھالنے سے پہلے جنوبی ایشیا کی علما برادری سے اتفاق راے حاصل کریں۔ مزید برآں جنگی کمک کے نقطۂ نظر سے اقتدار کا ایسا بڑا دعویٰ تحریک جہاد کے لیے نہ صرف یہ کہ غیر ضروری بلکہ اس مقصد سے توجہ ہٹانے والا بھی ہے۔ پشاور میں اپنی آمد کے ایک سال بعد 1828 میں محبوب علی نے بالآخر یہ واضح کیا کہ سید احمد کے ساتھ ان کے اختلافات لاینحل ہو گئے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ دہلی واپس آگئے22۔ اہم بات یہ ہے، اور یہ ایک ایسا نکتہ ہے جسے میں اس کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر ایک بار پھر دہراؤں گا، کہ تحریکِ جہاد کے انتظامی امور پر سید احمد کے ساتھ بھرپور اختلاف کے باوجود وہ اس کی کامیابی کے شدید خواہاں تھے۔ سید احمد پر ان کی ذاتی تنقید تحریکِ جہاد کے سیاسی اور اخلاقی دائرۂ کار سے مجموعی وابستگی پر اثر انداز نہ ہو سکی، اور وہ سید احمد اور شاہ اسماعیل کی مشن کی کامیابی کے لیے دعا گو رہے۔

تاہم دہلی واپسی پر محبوب احمد کو سید احمد کے پرجوش حامیوں کی طرف سے زبردست ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جو انھیں غداری اور بے وفائی کا طعنہ دے رہے تھے ۔ کچھ لوگوں نے براہ راست میدان جنگ سے اس کی واپسی کو مسلکی رنگ دیا۔ ان کی نظر میں چونکہ وہ ایک حسینی سید تھے، اس لیے سید احمد کے مشن سے ان کی وابستگی مضبوط نہیں تھی۔ اسی ردعمل اور طنز وتشنیع کے تناظر میں محبوب علی نے ایک یادگار اور ضخیم کتاب لکھی (جو اصلاً‌ فارسی میں ہے، لیکن اس کے کچھ حصے عربی میں ہیں، اور اس کی تقریباً ایک ہزار لوحات ہیں) لکھی جس کا نام "تاریخ الائمۃ فی ذکر خلفاء الامۃ" ہے23۔

اس نایاب کتاب میں، جو آج تک قلمی نسخے کی شکل میں ہے، محبوب علی نے کوشش کی ہے کہ تاریخ میں مسلمان علما پر کیے جانے والے انواع واقسام کے حملوں اور مزاحمت کی ایک علمی تاریخ لکھ کر خود اپنی تاریخ قلم بند کریں۔ انھوں نے اپنی اس کتاب کا تعارف، جسے لکھنے میں انھیں 1828 سے لے کر 1836 تک آٹھ سال کا عرصہ لگا، کچھ اس انداز میں کروایا ہے: "اس کتاب میں خدا کے خلفا کے واقعات تفصیل سے لکھ کر بتاؤں گا کہ ان کے مخالفین اور دشمنوں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ یہ کتاب لوگوں کے لیے آخرت کی یاد دہانی کا کام بھی دے گی، اور ان کے دلوں کو اُخروی ثواب کے حصول پر آمادہ کرے گی"24۔ یہ اقتباس کتاب کے مقصد کو بالکل ٹھیک ٹھیک بیان نہیں کرتا، کیونکہ کتاب کا ایک بڑا حصہ فقہ اسلامی کی روشنی میں متنازعہ رسوم اور بالخصوص اولیاء اللہ کے مزاوروں پر حاضری (زیارت قبور) کے محاکمے کے لیے وقف ہے25۔ بہر صورت کتاب کے آخر میں محبوب علی نے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے تحریک جہاد کے دوران اپنے تجربات ومشاہدات خاصی طوالت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ ذیل میں محبوب علی کے اپنے الفاظ میں ان واقعات کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ میں نے کتاب کے مختلف حصوں سے انھیں نقل کیا ہے، تاکہ قارئین کو ان کے براہ راست تجربات اور مشاہدات کا ایک منتخب لیکن معلوماتی اور نمائندہ اقتباسات فراہم کیا جا سکے۔ ذیل میں نسبتاً ایک لمبی عبارت دی جا رہی ہے، لیکن میں قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ اسے آخر تک پڑھنے کی زحمت کریں۔ محبوب علی اس داستان کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

"میں 17 شعبان 1242 ہجری (اندازاً‌  15 مارچ 1827) کو چار سو آدمیوں کو لے کر کفار سے جہاد کے ارادے سے دہلی سے روانہ ہوا۔ چند مہینے سفر کے بعد ہم بہاول پور کے رستے سے پشاور کے قرب وجوار میں واقع کھنڈ میں پہنچے۔ اس وقت مجاہدین کے امیر سید احمد پنجتار (پشاور سے تقریباً‌  130 کلومیٹر کے فاصلے پر) تھے، جبکہ عسکری کارروائیوں کے امیر ابوعمر26 اسماعیل پکھلی (جسے آج ہزارہ کہا جاتا ہے) میں تھے۔ شمالی ہندوستان، سندھ اور خراسان کے متعدد مجاہدین بھی ان کے ساتھ تھے۔ پشاور کے مقامی سردار یار محمد خان اور ان کے بھائی، سید احمد کے شدید مخالف تھے۔ ان کی مخالفت سے نمٹنے کے لیے سید احمد انھیں مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے بجائے انھیں بزور بازو اطاعت گزار بنانا چاہتے تھے۔

مجھے مسلمانوں کے دو برسرپیکار گروہوں کے درمیان فتنہ کھڑا ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جہادی اُمور الہامات کے ذریعے نمٹائے جا رہے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کے لیے شرعی طریقِ کار مشورے کا ہے۔ ایک شخص جس کا نام سید شاہ (جس نے سید احمد سے انتہائی قربت حاصل کی تھی) تھا، کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ درانی کا جاسوس ہے۔ انھی کے مشورے پر سید احمد نے اسماعیل کو (پشاور میں اپنے پاس رکھنے کے بجاے) پکھلی بھیجا، جو حکمتِ عملی کے اعتبار سے ایک بڑی غلطی تھی۔

جب میں نے یہ صورتِ حال دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آدمی (سید احمد) معاملات پر اپنی گرفت کھو رہا ہے۔ اس لیے جب میں (پنجتار میں) ان سے ملا تو میں نے انھیں خلوت میں بتایا: "اے سید! جہاد دین کا سب سے اہم ترین فریضہ ہے، اور اسے مشورے ہی سے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ اور جنگ (اپنے مخالفین) کے ساتھ چال چلنے کا نام ہے۔ لیکن آپ تو کسی کے ساتھ بھی چال نہیں چل رہے، اس کے بجاے آپ کے ساتھ چالیں چلی جا رہی ہیں۔ اب یہ نہ کہنا کہ میں امیر المؤمنین یا زمین پر خدا کا خلیفہ ہوں جس کی اطاعت ہر فرد پر واجب ہے۔ صبر سے کام لیں، اور مقامی لوگوں سے نفرت نہ کریں، نہ ہی اپنے منصوبے ان پر ظاہر ہونے دیں۔ اس وقت تک انتظار کریں جب ہندوستان سے بارہ ہزار مزید فوجی آپ کے ساتھ آکر شامل نہ ہو جائیں، اس وقت پوری طرح اپنے اختیارات کو بھرپور انداز میں استعمال کریں۔ میری رائے سننے کے بعد سید احمد نے مجھے جواب میں کہا: "تم میرے مقصد کو ایک ایسے وقت میں برباد کر رہے ہو جب وہ تکمیل کے قریب ہے۔ تمھیں میری اطاعت میں اس طرح خاموش رہنا چاہیے جیسے کہ یہ پہاڑ میرے سامنے خاموش کھڑا ہے"۔

میں نے انھیں التجا کی: "پشاور کے سرداروں کو مطمئن کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپ دیجیے تاکہ وہ لوگوں کو آپ کی بیعت سے نہ روکیں، اور آپ کی فوج میں شامل ہونے والے مجاہدین کا رستہ نہ روکیں"۔ انھوں نے میری درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا: "یہ ممکن نہیں۔ یار محمد کے دل میں رتی برابر بھی ایمان نہیں۔ وہ تمھیں اسی وقت قتل کر دے گا"۔ میں نے جواب میں کہا: "اگر وہ مجھے قتل کرے پھر تو اچھا ہے۔ اس کی وجہ سے بغیر کسی شک وشبہے کے آپ کا ان کے خلاف جنگ لڑنا جائز ہو جائے گا"۔ انھوں نے جواب میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس لیے میں نے دوبارہ ان سے درخواست کی: "اچھا پھر مجھے 'لاہوری کتے' (رنجیت سنگھ) کے پاس نمائندہ بنا کر بھیج دیجیے۔ میرے ذریعے انھیں یہ پیغام بھجوا دیں کہ "مسلمانوں کے اصولوں کے مطابق ہم اپنے دشمنوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ یا تو اسلام قبول کریں یا (اطاعت گزاری کے ثبوت کے طور پر) جزیہ دینا قبول کریں۔ میرے ذریعے سے اس کو  یہ پیغام بھیجیں"۔ اس تجویز کے جواب میں سید احمد نے کہا: "میں ایسا نہیں کروں گا۔ وہ (رنجیت سنگھ) ہمارا مذاق اڑائے گا، اور کوئی کافر مسلمانوں کا مذاق اڑائے یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے"۔ جب میں نے معاندانہ رویہ دیکھا تو مجھ پر کھل گیا کہ یہاں پر میرا مزید قیام اختلاف وانتشار کو بڑھاوا دے گا، اس لیے میں نے سید احمد (اور تحریکِ جہاد) کو خدا حافظ کہا اور واپس دہلی لوٹ آیا27۔

ایک طرف محبوب علی شمال مغرب میں ایک ناکام عسکری تحریک سے پریشان تھے، تو دوسری طرف دہلی واپسی پر انھیں عوام کی طرف سے غدار اور واجب القتل قرار دیے جانے کی پھبتیوں نے رنجیدہ کر دیا ۔ انھوں نے پریشانی کے عالم میں لکھا ہے: "علما وحکم رانوں سے جاہلوں کی اندھی عقیدت نے دنیا کو بگاڑ کر رکھا ہے"28۔ اہم بات یہ کہ محبوب علی صرف ان لوگوں کے شاکی نہیں جنھوں نے ان پر طنز وتشنیع کی اور ان کی جان کے درپے ہوئے، بلکہ وہ ان لوگوں کے بھی شاکی ہیں جنھوں نے سید احمد پر ان کی موت سے پہلے اور بعد میں طنز وتشنیع کی اور فتوے لگائے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: "کچھ جاہل لوگوں نے مجاہدین کے امیر (سید احمد) سے بھی اپنی نفرت کا اظہار کیا، اور مجاہدین کو مفسدین سمجھا۔ ایسے تمام الزامات لگانا حرام ہے، کیونکہ یہ ملت کے سیاسی نظم کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں"29۔ وہ ذرا تلخ لہجے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے  ، جس سے جہاد کے متعلق ان توقعات پر افسوس اور خوش گمانی کا اشارہ ملتا ہے جو شرمندۂ تکمیل نہ ہو سکیں، لکھتے ہیں: "اس معاملے میں لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مجاہدین کی کام یابی کے لیے ہمہ وقت دعاے خیر کریں، وہ جیسے بھی ہوں اور جہاں کہیں بھی ہوں۔ انھیں چاہیے کہ سید احمد رحمہ اللہ کے لیے دعاے رحمت کریں، کیوں کہ وہی پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند کیا اور کافروں کا سامنا کرنے میں کام یاب ہوئے"30۔

سید احمد سے محبوب علی کے قطع تعلق اور ان کی عسکری اور سیاسی بصیرت پر تحفظات کے باوجود تحریک جہاد کے برتر مقاصد اور توقعات سے متعلق ان کا حسن ظن آخر دم تک قائم رہا۔ محبوب علی کی نظر میں جنگ کا مقصد سیاسی اعتبار سے فتح یا شکست کا حصول نہیں تھا۔ اس کے بجاے ایک منصفانہ سیاسی نظام کی خواہش وجد وجہد ان کا مطمح نظر تھا۔ اپنی کہانی میں محبوب علی بظاہر تمام کرداروں میں سب سے زیادہ متاثر کن نظر آتے ہیں۔ وہ ایک دور اندیش عسکری منصوبہ ساز، علمی طور پر پختہ اور سیاسی لحاظ سے سمجھ دار تھے۔ وہ طرح طرح کی انتہا پسندانہ حملوں کا شکار ہوتے ہیں، لیکن کسی کو بھی ان کی کہانی میں پیش کردہ اندرونی تنقید کی شان دار مثال کو جاننے کے لیے پاسبانِ عقل کو رخصت دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ محبوب علی کی داستان سے پوری وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص بیک وقت کسی شخصیت یا تحریک کا شدید ناقد ہوتے ہوئے بھی  اس کے برتر اخلاقی اور سیاسی امکانات کے ساتھ جُڑا ہوا اور اس کا ثنا خواں ہو سکتا ہے۔

مزید برآں مسلکی اعتبار سے محبوب علی ان لوگوں کے شدید ناقد ہیں جو ایسے علما پر وہابی کا لیبل لگاتے ہیں جو شفاعتِ نبوی اور زیارتِ قبور جیسے عقائد واعمال سے روکتے ہیں۔ ان کی کتاب کا باقی حصہ شمالی ہندوستان میں "مخالف وہابی" مناظروں کی ایک کاٹ دار تنقید پر مبنی ہے۔ محبوب علی ان لوگوں کی تنقیدات پر بھی اتنے ہی برافروختہ ہیں جتنا وہ خط تقسیم کی دوسری  جانب ان لوگوں سے نالاں ہیں جو سید احمد سے میدان جہاد میں غداری کے الزام پر ان کے قتل کا مطالبہ کر رہے تھے۔ محبوب علی اپنے غصے کا رخ ان لوگوں کی طرف پھیرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ لوگ الزامات لگانے میں بہت بے دھڑک واقع ہوئے ہیں۔ "فلاں اولیا کی ولایت کا منکر ہے، یا وہ وہابی ہو گیا ہے"۔ ان کی اس طرح کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے  خود کو اولیاء اللہ سمجھنا شروع کر دیا ہے اور کسی جگہ بیٹھ کر جو بھی ان کی جی میں آتا ہے، بک دیتے ہیں۔ انھیں احساس تک نہیں کہ افترا پردازی اور بہتان تراشی ایک بُری بلا ہے، جس کی وجہ سے دین اور دنیا دونوں برباد ہو سکتے ہیں۔ وہ روافض (شیعوں کے لیے بولا جانے والا توہین آمیز لفظ جس کا لفظی معنی "منکرین" ہیں) کی طرح اپنے تمام مخالفین پر تبرّا کرتے ہیں، اور انھیں ائمۂ دین کے منکر قرار دیتے ہیں"31۔

اگر چہ محبوب علی کو حضرت فاطمہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے نسبی تعلق پر ناز ہے، لیکن ان کی مسلکی رواداری شیعہ کی تائید نہیں کرتی۔ شیعہ ان کے لیے  مسلمانوں میں  شامل ایک گروہ ہے  جو ان کی  رواداری کی حدود سے خارج ہے۔ یہ تمام نکات ایک واضح لیکن عموماً نظر انداز کردہ رائے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ علما دیگر انسانی کرداروں کی طرح پیچیدہ اور مشکل لوگ ہیں جنھیں آسانی سے بنے بنائے خانوں تک محدود اور تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

"خدائی مددگاروں" کا قابل اعتراض بیانیہ

اس طرح کی پیچیدگی تاریخ دان عائشہ جلال کی معلوماتی لیکن بڑی حد تک مسائل سے بھرپور کتاب Partisans of Allah میں بالکل مفقود ہے۔ ان کے نزدیک سید احمد اور شاہ محمد اسماعیل کی تحریکِ جہاد نے "مذہب بطور ایمان وعقیدہ " اور "مذہب بطور امتیازی شناخت" کو خلط ملط کر کے  "جہاد کے ساتھ جڑے اعلیٰ اخلاقی اقدار" اور عملیت پر مبنی افہام وتفہیم کو  کمزور کر دیا32۔ یہ درجہ بندیاں جو سیکولر لبرل الٰہیات کی پیداوار ہیں، مبہم ہونے کے ساتھ ساتھ نامناسب بھی ہیں۔ اس الہیات کی رو سے اچھا مذہب یا "مذہب بطور ایمان وعقیدہ" ایک ہمہ گیر داخلی واردات سے عبارت ہے۔ اس کے برعکس برا مذہب عوام کی رسوم و عبادات، امتیازی علامات اور ان علامات کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے تشدد کے استعمال سے سروکار رکھتا ہے۔

عائشہ جلال کے نزدیک سید احمد اور شاہ اسماعیل دونوں مسلم کرداروں کا وہ تسلسل ہیں جنھوں نے قرآن میں بیان کردہ جہاد کے "اعلیٰ اخلاقی اقدار" کو تج کر جہاد کو "داخلی وروحانی" مقاصد کے بجاے مادی اور عملی نتائج کے لیے استعمال کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مادیت وروحانیت اور عملیت وتصوریت کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن ہے؟ عائشہ جلال اس علیحدگی کے ممکن ہونے پر غور کرنا بھی گوارا نہیں کرتیں۔

اچھا مذہب یعنی "مذہب بطور ایمان وعقیدہ" وہ ہے جو پرامن انداز میں روحانی تزکیے کے حدود تک محدود ہو، اور ایسے مذہب کے ہنگاموں سے بالکل دور ہو جو مذہبی اعمال کی اساس پر دوسروں سے امتیاز کا داعی ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے نظریۂ مذہب کا اطلاق نظریۂ جہاد پر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اچھا جہاد، جہاد بالقلب یا اعلی اخلاقی اقدار کا جہاد ہے۔ اس کے برعکس برا جہاد توسیع پسندی، عملی منصوبہ بندی، مذہبی امتیازات کی تحدید اور تشدد کے استعمال کا نام ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد اکبر، یعنی دنیوی خواہشات اور بندھنوں سے جسم کی حفاظت وتربیت اور جہادِ اصغر یا مسلح جنگ کے درمیان فرق مسلمانوں کی علمی تراث میں موجود ہے33۔ لیکن فقہ اسلامی اور تصوف کے درمیان تعلق کی طرح جہاد اکبر واصغر کا باہمی  تعلق بھی تقابل اور تقسیم (binary) کے بجاے درجہ بندی  (hierarchy) کا  تعلق ہے۔

عائشہ جلال نے سید احمد کی تحریک جہاد کی ناکامی اور مسلمانوں کے روحانی زوال کی جو وجوہات بیان کی ہیں، ان کا تعلق مسلمانوں کی تاریخ کے عروج وزوال کے ایک مشہور عام بیانیے کے ساتھ ہے۔ اس بیانیے کے مطابق قرآن میں عدل وانصاف پر مبنی اور اخلاقی طور پر جہاد کا جو ایک ترقی یافتہ تصور دیا گیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کم زور ہو گیا۔ یہ اس لیے ہوا کہ مسلمان علما سیاسی فوائد اور سیاسی اشرافیہ کے اقتدار کے کھیلوں پر فریفتہ ہو گئے، جس نے جہاد کے اخلاقی تصورات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اور اسے سیاسی اور مادی مقاصد کے لیے ایک دنیوی ہتھیار میں بدل دیا۔ عائشہ جلال کے اپنے الفاظ میں: "مسلمان معاشرے کی نمائندہ شخصیات نے اسلامی عقیدے کے ایک فطری جُز کی حیثیت سے اخلاقیات کو حاشیے کی طرف دھکیل دیا۔ اس طرز عمل کے مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوئے جب اسلامی قانون نے خود کو ان اخلاقی تصورات سے بالکل الگ کردیا جو قرآن میں بیان کیے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ جہاد کا وسیع قرآنی تصور غائب ہو گیا، اور اسلام کی فقہی روایت میں اس نے ایک محدود مفہوم اختیار کر لیا۔ قدیم فقہی مصادر جہاد کے روحانی اور اخلاقی مفاہیم سے پہلو تہی کرکے جنگ کے مادی پہلوؤں پر زیادہ زور دیتے ہیں"34۔

اخلاقی اور مادی امور کے درمیان تفریق اور خالص مذہب کے بنیادی ماخذ کے طور پر قرآن کریم کی ظاہری تکریم، جسے بعد میں آنے والی نسلوں کے فقہا نے آلودہ کر دیا- یہ وہ مواقف ہیں جن سے  کسی انتہائی متشکک پروٹسٹنٹ کے چہرے پر بھی خوشی سے  مسکراہٹ بکھر جائے گی۔ اسلامی تاریخ کے حوالے سے بھی عائشہ جلال کا مطالعہ ان کے اپنے الفاظ میں "اسلام کی فارسی اور عربی شکلوں" کے درمیان لسانی ونسلی کش مکش کے ایک سراسر محل نظر موقف پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق "فارسی اثرات عام ہوئے، اور آج تک موجود ہیں، جب کہ عربوں کے اثرات نے شدت پسند مذہبی تحریکوں کی شکل اختیار کر لی35"۔ یہ ایک مضحکہ خیز رائے ہے۔ شدت پسند مذہبیت اور فارسی رواداری کے درمیان ایک دوگانہ (binary) تقابل تاریخی اور علمی اعتبار سے بے سروپا ہے36۔

عمومی طور پر عائشہ جلال کا علمی منہج بھی سید احمد اور شاہ اسماعیل کی تحریک جہاد کے تجزیے کی بنیاد ہے۔ تحریک جہاد کے حوالے سے غلام رسول مہر (سید احمد کے سوانح نگار) کے کام کا بڑی محنت کے ساتھ ایک مفید خلاصہ پیش کرنے کے بعد عائشہ جلال ایک الٰہیات دان کا لبادہ اوڑھ کر سید احمد اور شاہ اسماعیل کو "جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے شعور کو آلودہ کرنے" پر لعنت ملامت کرتی ہیں37۔ وہ مزید دعویٰ کرتی ہیں کہ: "انھوں نے اپنی تعلیمات کے روحانی پہلو کو خیرباد کہا، اور اپنے گرتے مقصد کو سہارا دینے کے لیے انسانی دل کے بدترین جذبات کو مخاطب بنایا"38۔ اس دوران وہ شارحین میں سب سے زیادہ ماہر اور غیر جانب دار ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر(م 1900) کے، جو استعماری دانش کا نچوڑ ہے، بے کم وکاست حوالے دیتی ہیں! جی ہاں، کوئی اور نہیں، بلکہ  ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر!

مناظرے کے اَکھاڑے میں باضابطہ اترنے کے اعلان کے بعد عائشہ جلال سید احمد اور شاہ اسماعیل کے "مداحوں کے جھرمٹ" کو چیلنج کرتی ہیں کہ وہ "ہنٹر کے چبھتے ہوئے الزامات کا جواب دیں"39۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجھے سید احمد کی تحریکِ جہاد کے دفاع یا قرآن کریم کے "اعلی اقدار" سے اس کی اخلاقی ہم آہنگی یا انحراف میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسی کوئی کاوش مذہب کے علمی مطالعے کے ساتھ بالکل میل نہیں کھاتی۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ میرے پاس وہ دینی مہارت نہیں جو اس طرح کی کسی سرگرمی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بجاے میری دلچسپی مخصوص کرداروں کو یک رُخے افراد  کے طور پر پیش کرنے، جن کے پیش نظر صرف سیاسی مقاصد تھے،  اور ان کی فکر، کتابوں اور علمی زندگی کی تفصیلات یا باریکیوں کو توجہ نہ دینے کی علمی اور تاریخی کمزوری کی نشان دہی کرنے سے ہے۔ اس طریقِ کار سے جہاد اور بطورِ خاص برصغیر کے اسلام کی کوئی گہری اور درست  تصویر پیش کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ قاری حیرت میں ڈوبا رہتا ہے کہ اس کتاب میں "خدائی طرف دار" سے آخر کون لوگ مراد ہیں: مصنفہ کے زیرِ تحقیق لوگ یا خود مصنفہ؟

جہاد وتشدد اور سیاسیات سے ان کے قریبی تعلق کے ایک نسبتاً زیادہ عمیق اور مفید تصور کے لیے بجا طور پر طلال اسد کی بصیرت افروز کلاسیک On Suicide Bombing کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس پوری تحریر میں طلال اسد ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسیات اور تشدد کے بارے میں عام طور پر فرض کردہ تضاد کے بارے میں تنقیدی سوچ سے کام لیں اور اس پر سوال اٹھائیں۔ یہ فرض کردہ تضاد مغرب کی لبرل سیاسیات کی معقولیت اور خود کش بمبار کی شکل میں پرتشدد غیر لبرل کرداروں کی نامعقولیت کے موازنے کو جائز قرار دیتا ہے۔ On Suicide Bombing خود ستائی پر مبنی ایسے لبرل بیانیے کے خلاف ایک زبردست فردِ جرم ہے40۔ طلال اسد نے جس طرح سے جہاد اور سیاست کے ناقابلِ علیحدگی تعلق کے بارے میں سیاسی مفکّرہ روزین یوبن (Roxanne Euben) کے تجزیے کو استعمال کیا ہے، یہاں پر وہ میرے لیے بہت اہم ہے۔

وہ لکھتی ہیں: "جہاد نہ تو دنیوی طاقت کے حصول کی ایک اندھی اور خونی ذہنیت کی جد وجہد ہے، نہ ہی اُخروی زندگی میں داخل ہونے کا کوئی دروازہ ہے۔ اس کے بجائے یہ سیاسی کارروائی کی ایک صورت ہے، جس میں، حنہ ارنت (Hannah Arendt) کی اصطلاح میں، ابدی زندگی کا حصول پوری گہرائی کے ساتھ ناگزیر طور پر ایک دنیوی جدوجہد سے جڑا ہوتا ہے- اور وہ زمین پر ایک منصفانہ معاشرے کا قیام یا بحالی ہے"41۔ اسد اور یوبن، سید احمد اور اسماعیل کی تحریکِ جہاد میں کار فرما اخلاقی اور سیاسی پروجیکٹ کے لیے ایک انتہائی مفید علمی منہج فراہم کرتے ہیں۔ "شدت پسند" اسلام کی عینک سے یا اس کے اخلاقی پہلوؤں سے اس تحریک پر کلی انداز میں تنقیدی حکم لگانا اس کے سیاسی کردار اور ثمرات کے نسبتاً زیادہ گہرے مطالعے کی راہ میں رکاوٹ میں پیدا کرتا ہے۔

مابعد نوآبادیاتی تشریحات

ایک بار پھر شاہ اسماعیل کی طرف واپس آتے ہیں۔ تحریک جہاد، جس کے لیے انھوں نے اپنی جان قربان کی، ان کی زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح متضاد تشریحات کا موضوع بن چکی ہے جن کے لیے مسلکی اختلافات اور مابعد نوآبادیاتی قومی بیانیے ایندھن کا کام دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک سکھوں کے خلاف شمالی ہندوستان کی تحریکِ جہاد دینی اصلاح کا ایک اہم دور تھا، جو صرف مقامی پشتون قبائل اور ان کے سرداروں کی غداری کی وجہ سے ناکام ہوئی  جو اپنے "نجات دہندگان" کے درپے ہو گئے تھے42۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق "شہداے بالاکوٹ" نے، باوجود اپنی عسکری ناکامی کے، جنوبی ایشیا میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مستقبل میں کی جانے والی تمام کوششوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔ بیسویں صدی کے مشہور ہندوستانی-پاکستانی اسلام پسند سیاسی مفکر اور جماعت اسلامی کے بانی سید اَبوالاعلی مودودی (م 1979) نے ایک مقام پر لکھا ہے: "جنوبی ایشیا میں اسلام کی بارہ سو سالہ تاریخ میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی برپا کردہ تحریک کو صحیح معنوں میں جہاد کہا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمان حکم رانوں نے متعدد جنگیں لڑیں، لیکن ان میں سے کوئی حکم الٰہی کی اساس پر نہیں تھی۔ یہ محض جنگیں تھیں نہ کہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد۔ بس یہی دو شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے تمام ذاتی اور سیاسی مقاصد کو بالاے طاق رکھا اور خدا کی زمین پر خدا کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے جنگ لڑی"43۔

تاہم یہی کہانی جب شاہ اسماعیل کے مخالفین مثلاً بریلوی حضرات بیان کرتے ہیں تو یہ مکمل طور پر ایک مختلف بیانیے میں بدل جاتی ہے۔ اس بیانیے کے مطابق شاہ اسماعیل اور ان کے رفقا نے سیاسی طاقت کے حصول کے لیے ایک ایسے سماج میں، جس میں دیگر مسلمان بس رہے تھے، خون ریزی اور فتنہ وفساد برپا کرنے کی ایک افسوس ناک نظیر قائم کی۔ مزید یہ کہ اگر وہ حقیقت میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کی حکومت سے نجات دلانا چاہتے تھے تو انھوں نے سکھوں سے لڑنے کے لیے سینکڑوں میل کا سفر کرنے کے بجاے شمالی ہندوستان کے اندر ہی برطانوی استعمار کے فوری خطرے کو ٹالنے کے لیے اپنی توانائیاں کیوں صرف نہیں کیں44۔ اس کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت تحریکِ جہاد کے اصل بانی برطانوی ایجنٹ تھے جن کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں میں فکری اور مسلکی اعتبار سے پھوٹ ڈالنا تھا۔

جواب میں سید احمد اور شاہ اسماعیل کے حامی ان کی تحریروں سے ایسے حوالے دینے میں پھرتی دکھاتے ہیں جو انگریزوں کی مخالفت میں ہوتے ہیں۔ سید احمد کے خطوط وخطبات دونوں کے مجموعوں کے تعارف میں ان لمحات کا ذکر ہوتا ہے جس میں انھوں نے انگریزوں کو برا بھلا کہا ہوتا ہے، یا ان سے لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا ہوتا ہے۔ سید احمد انھیں گاہے گاہے "کفار فرنگ" یا "ذلیل عیسائیوں" سے یاد کرتے ہیں۔ مثلاً اگست 1827 میں امیرِ بخارا نصر اللہ خان (م 1860) کے نام کچھ طویل خط میں سید احمد نے انگریزوں کا کئی بار نسبتاً ناگواری کے انداز میں ذکر کیا ہے، اور ایک مقام پر لکھا ہے: "فرنگی کافر جنھوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہے، اور انتہائی تجربہ کار، ہوشیار، فریبی اور مکار ہیں"45۔

لیکن انگریزوں سے شاہ اسماعیل اور سید احمد کے تعامل سے متعلق الزامی اور دفاعی دونوں قسم کے بیانیوں کا حاصل ان کرداروں پر قوم پرستانہ خواہشات اور اندیشوں کو تھوپنا ہے جنھوں نے سیاسیات کو جدید ریاست کی محدود عینک سے کبھی دیکھا نہیں۔ مثلاً اَمیرِ بُخارا کے نام اپنے خط میں انگریزوں پر سید احمد کی کاٹ دار تنقید میں ایک سامراج مخالف غصہ کم اور امیر کو برطانوی اقتدار کے منڈلاتے خطرے کے بارے میں تنبیہ زیادہ نمایاں ہے۔ یہ دراصل ایک ماوراے سرحدات تحریک جہاد کو سندِ جواز فراہم کرنا تھا جس کی قیادت سید احمد خود کر رہے تھے اور جس کا پہلا مرحلہ سکھوں سے لڑائی تھی۔ اس تحریک پر "انگریز کے ایجنٹ" یا "سامراج مخالف" کی باہم متقابل سیاسیات (binary politics) کا بآسانی اطلاق نہیں ہو سکتا۔ بہر صورت شاہ اسماعیل کے موافقین ومخالفین دونوں اپنے اُن فکری رجحانات مثلاً سامراج مخالف قوم پرستانہ سیاسیات کی روشنی میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں جن کے وہ قائل نہ تھے۔ ان کا تذکرہ دو حریف بیانی مناہج کے درمیان معلق رہتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ جب "شاہ محمد اسماعیل" کا نام مختلف بیانی تصورات میں داخل کیا جاتا ہے تو بعض لوگوں کے ہاں وہ "دیوبندی فکر کے پیش رو"، "جنوبی ایشیا کی اسلامی تاریخ کے پہلے حقیقی شہید" (جیسا کہ مودودی صاحب کا نقطۂ نظر ہے)، اور بعض کے ہاں "اولین ہندوستانی وہابی" وغیرہ بن جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تعریف وتوصیف اور کچھ مذمت وتردید کے پل باندھتے ہیں، لیکن ان دونوں میں جو بات مشترک ہے، وہ یہ بیانی خواہش ہے کہ تاریخ کے ہنگامے سے شاہ اسماعیل کے ورثے کی ایک متعین تفہیم اخذ کی جائے۔ آنے والی بحث میں مجھے اس تراث کے لیے تاریخیت (historicity) پر مبنی حل کی تلاش یا اس کی تفہیم کے لیے کوئی دوسرا بیانیہ تشکیل دینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ درحقیقت شاہ اسماعیل کی شخصیت سے جڑے کثیف مناظرانہ تناظرات کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ تاریخی طور پر اس تنازع کا حل نکالا جائے جو ان کے ذکر چھیڑتے ہی کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے بجاے یہ زیادہ نتیجہ خیز ہوگا کہ ان کی تراث کا اس طرح سے جائزہ لیا جائے جو ان کے اپنے سماجی تصورات کو واضح کرے، اور ان کی زندگی سے متعلق انواع واقسام کے خود ساختہ مفروضوں کی کمزوری کو نمایاں کرے۔ اس طریق کار کی روشنی میں جن اہم ترین موضوعات پر بحث کی ضرورت ہے، ان میں سے ایک خدائی حاکمیت (توحید) سے متعلق ان کے نظریات ہیں، جن پر میں اگلے صفحات میں بحث کروں گا۔


حواشی

    1. حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) پر ان کی بے حد مقبول اور خوف ناک حد تک متنازع کتاب تقویۃ الایمان کے علاوہ اسماعیل کی دیگر نمایاں کتابوں میں عبقات، جو (وحدت الوجود کے موضوع پر) شاہ ولی اللہ کی کتاب لمعات  کی شرح ہے؛ منصبِ امامت، جس کا موضوع سیاستِ شرعیہ ہے (جس پر باب چہارم میں تفصیلی بحث آ رہی ہے)؛ اور ایضاح الحق، جو بدعت کے تعبیری اصولوں اور فقہی قواعد سے متعلق ہے، شامل ہیں۔

    2. بانیانِ دیوبند کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل کے پرجوش حامیوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان اور بیسویں صدی کے نامور عالم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (م 1999) بھی شامل ہیں۔ مولانا ندوی نے ان کی کتاب تقویۃ الایمان کا عربی ترجمہ کیا اور انھیں مشرق وسطی میں مقبول عام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

    3. بحوالۂ سید محمد نعیم الدین، اطیب البیان فی رد تقویۃ الایمان، (بمبئی: رضا اکیڈمی، 1998)، 206۔

    4. شاہ اسماعیل پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان اٹھارھویں صدی عیسوی کے عرب مصلح محمد بن عبد الوہاب کی معروف کتاب التوحید سے سرقہ کی ہے۔ تاہم اس دعوے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا، جو اسماعیل کو محمد بن عبد الوہاب کے متبعین یا فکر سے جوڑتا ہو۔

    5. نعیم الدین، اطیب البیان فی رد تقویۃ الایمان، 38۔

    6. تھانوی، ارواح ثلاثہ، 74۔

    7. ایضاً، 75۔

    8. ایضاً۔

    9. ایضاً۔

    10. شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر (لاہور: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، 2014)، 21۔

    11. ایضاً، 37۔

    12. اس خط کا تعلق سید احمد کے (اور شاہ اسماعیل کے چند) خطوط، تقاریر اور خطبات کے اس مجموعے سے ہے جسے مولانا غلام حسین نامی شخص نے سید احمد کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد 1883 میں اپنے ہاتھ سے نقل کیا۔ غلام حسین کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تھا، اور وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، جس کا سید صاحب کے علمی شجرے سے قریبی تعلق تھا۔ ایک کامل عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے  بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے اس طرح کی دیگر کئی نایاب کتب نقل کیں۔ ان کا کتب خانہ، جس کی حفاظت کا اہتمام ان کے جانشین نہ کر سکے، لاہور کے ایک تاجرِ کتب عبد الرشید نے خریدا اور پھر 1975 میں انھی کے اشاعتی ادارے مکتبہ رشیدیہ سے غلام حسین کے نقل کردہ نسخے کا قلمی نسخہ چھپا۔ اس بحث میں، میں نے قلمی نسخے کی صورت میں چھپنے والی کتاب پر انحصار کیا ہے۔

    13. فسادی باغیوں سے سید صاحب کی مراد افغانستان اور خراسان کے "باغی" قبائل اور گروہ ہیں۔ یہ ایک نعرہ تھا جس کے ذریعے انھوں نے تحریکِ جہاد کو علاقائی طور پر مقبول بنانے کی کوشش کی۔

    14. سید احمد شہید، مکاتیبِ سید احمد شہید (لاہور: مکتبہ رشیدیہ، 1975)، 18۔

    15. ایضاً۔

    16. ایضاً۔

    17. مثال کے طور پر دیکھیے: ایضاً، 18؛ شاہ محمد اسماعیل، مکتوباتِ شاہ اسماعیل دہلوی، غیر مطبوعہ قلمی نسخہ، ایم ایس 102، ص 26، پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے قلمی نسخوں کا سیکشن، لاہور۔

    18. سید احمد، مکاتیب، 13۔

    19. ایضاً۔

    20. پشتونوں کے شمال مغربی خطے میں سید احمد اور ان کی تحریک کے آثار کے لیے ثنا ہارون کی عمدہ تحقیق بعنوان: Frontier of Faith: Islam in the Indo-Afghan Borderland ملاحظہ فرمائیں۔ پشتون قبائل کے نقطۂ نظر سے تحریکِ جہاد کی ایک دل چسپ تاہم بعض مقامات پر دستاویزی تحقیق کے لیے ملاحظہ فرمائیں: الطاف قادر، Sayyid Ahmad Barailvi: His Movement and Legacy from the Pakhtun Perspective (نیو دلی: سیج پبلی کیشنز، 2015)۔

    21. خوشتر نورانی، برٹش گورنمنٹ اور تحریک جہاد: ایک تحقیقی مطالعہ (دہلی: ادارۂ فکر اسلامی، 2014) 55-152۔

    22. ایضاً، 155-56۔

    23. یہاں پر کیے گئے تجزیے کے لیے میں نے اس کتاب کے دو نسخوں کے مختلف حصوں سے استفادہ کیا ہے۔ پہلا نسخہ تقریباً دو سو لوحات پر مشتمل ہے جس میں محبوب علی نے زیادہ تر بحث زیارتِ قبور پر کی ہے۔ اور دوسرا نسخہ معاصر محقق خوشتر نورانی کی کتاب "برٹش گورنمنٹ اور تحریک جہاد" میں عربی میں محبوب علی کے عینی مشاہدات کی تدوینِ جدید ہے۔ خوشتر نورانی کی تحقیق کا مقصد سید احمد کی تحریک جہاد کو برطانوی استعمار کو ایک سہولت کار کے طور پر ثابت پیش کرنا ہے، اور اس سے بظاہر اس تحریک کے ایک منحرف کے آنکھوں دیکھے حال میں ان  کی دل چسپی کی وجہ واضح ہوتی ہے۔ تاہم محبوب علی کی یاد داشتیں علی الاطلاق نورانی صاحب کے پراجیکٹ کے حق میں نہیں۔ بہر صورت میں نے بنیادی طور پر نورانی صاحب کے کام سے استفادہ محبوب علی صاحب کی کتاب کے چیدہ مباحث تک رسائی کے لیے کیا ہے جو بد قسمتی سے اس قلمی نسخے میں شامل نہیں تھے جو میرے پیشِ نظر تھا۔ جس وقت یہ کتاب اشاعت کے لیے پریس میں جا رہی تھی، اس وقت یہ قلمی نسخہ میری رسائی سے باہر تھا۔ میں پروفیسر جاوید مجددی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے تاریخ ائمہ کی دست یابی اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا۔

    24. دیکھیے خوشتر نورانی کی کتاب تحریک جہاد میں: سید محبوب علی، تاریخ الائمۃ فی ذکر خلفاء الامۃ، ص 157۔

    25. سید محبوب علی، تاریخ الائمۃ فی ذکر خلفاء الامۃ، قلمی نسخے کی تصویر 319، پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا ذخیرۂ مخطوطات، لاہور۔

    26. ابو عمر بیٹے کی نسبت سے شاہ اسماعیل صاحب کی کنیت تھی۔

    27. سید محبوب، تاریخ الائمۃ، نورانی کی تحریک جہاد کے ضمن میں، ص 183-196۔

    28. ایضاً، 194۔

    29. ایضاً۔

    30. ایضاً، 195۔

    31. سید محبوب، تاریخ الائمۃ، لوحات 2-3۔ (ترجمے میں فارسی متن کو بنیاد بنایا گیا ہے، مترجم)

    32. عائشہ جلال، Partisans of Allah: Jihad in South Asia (کیمبرج ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2008)، 16۔

    33. جہاد پر مسلمانوں کی ماقبل جدید اور جدید علمی کاوشوں کے لیے ملاحظہ فرمائیں: جوناتھن بروکوپ (مرتب)، Islamic Ethics of Life: Abortion, War and Euthanasia (کولمبیا: یونیورسٹی آف ساوتھ کیرولینا پریس، 2003)۔ نیز دیکھیے: پال ہِک، “Jihad” Revisited، جرنل آف ریلیجیس ایتھکس 32، نمبر 1 (بہار 2004): 95-128۔

    34. عائشہ، Partisans of Allah، 8 -9۔

    35. ایضاً، 36۔

    36. اسلامی فکر وتاریخ کے اس طرح کے نسلی ولسانی مطالعے میں موجود مسائل کے لیے دیکھیے: گریگَری لپٹن، Rethinking Ibn Arabi (نیو یارک: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2018)۔ عربی شدت پسندی/فارسی رواداری کے باہمی تضاد (binary) تصور بالخصوص برصغیر کے تناظر میں موجود چند فکری اور تاریخی نقائص کے لیے دیکھیے: سیما علوی، Sher Ali Tareen, Review of Muslim Cosmopolitanism in the Age of Empire، انٹرنیشنل جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈیز 15، نمبر 1 (جنوری 2018): 126-31۔

    37. یہاں پر ان تقابلات: عقیدہ/ایمان، اندرونی/بیرونی، تصوراتی/عملی، دینی/دنیوی، کلی/جزئی اور جہاد کے تناظر میں سب سے زیادہ مناسب: تشدد/سیاسیات میں کار فرما سیکولر لبرل تصورات پر ایک نظر ڈالیں۔ عام طور پر یہ بالکل ایک سادہ انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔

    38. ایضاً، 106۔

    39. ایضاً۔

    40. طلال اسد، On Suicide Bombing (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009) 7-64۔

    41. روزین ایل یوبن، Jihad and Political Violoence، کرنٹ ہسٹری 101 (نومبر 2002): 365۔

    42. اس نقطۂ نظر کی بہترین ترجمانی کے لیے دیکھیے: شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر۔

    43. عبد اللہ بٹ، شاہ اسماعیل شہید (لاہور: تعمیر پرنٹنگ پریس، 1974)، 19 پر سید ابوالاعلی مودودی کا پیش لفظ۔

    44. اس قسم کے بیانیوں کی ایک عمدہ مثال کے لیے ملاحظہ کیجیے: غلام راجا، امتیازِ حق: فضل حق خیر آبادی اور شہید دہلوی کے سیاسی کردار کا تقابلی جائزہ (لاہور: مکتبۂ قادریہ، 1979)۔

    45. سید احمد، مکاتیب، 28۔


آراء و افکار

(مئی ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter