انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۰)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا گیارہواں باب)



امکانِ کذب یا امکانِ نظیر؟

دین کے بنیادی عقائد کے دفاع کے حوالے سے گہری بے چینی نے مولانا احمد رضا خان کو مجبور کیا کہ وہ علماے دیوبند کی تکفیر کریں۔ یہ بے چینی اس وقت مزید وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے، جب امکانِ کذب (خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) اور امکانِ نظیر (خدا کا نبی اکرم ﷺ کی طرح ایک اور نبی پیدا کرنے کے امکان) کے بارے میں شاہ محمد اسماعیل اور علماے دیوبند کے موقف پر خان صاحب کی عائد کردہ فرد جرم پر غور کیا جائے۔ ضروری پس منظر جاننے کے لیے تیسرے باب کو ذہن میں لائیے، جہاں شاہ محمد اسماعیل کا استدلال امکان اور وقوع کے درمیان امتیاز پر مبنی تھا۔

اگر چہ خدا استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہے، اور اسی طرح وہ استثنائی حادثات کو وقوع میں لاکر اپنی قدرتِ کاملہ کا استعمال کر سکتا ہے، لیکن وہ حقیقت میں ایسا نہیں کرتا۔ یہ وہ امکان ہے جو کبھی وقوع پذیر نہیں ہوگا ، اور شاہ اسماعیل کے نزدیک یہ توحید کی کسوٹی ہے۔ شاہ اسماعیل پر اس موقف کی وجہ سے ان کی زندگی اور بعد میں بھی تنقید ہوتی رہی، لیکن علماے دیوبند بالخصوص مولانا گنگوہی اور مولانا سہارن پوری ان کے دفاع میں پیش پیش رہے۔ یہ واضح رہے کہ انھوں نے اس امر کی وضاحت کی کوشش کی کہ کوئی بھی بشمول شاہ اسماعیل اور وہ بذات خود اس بات سے اختلاف نہیں کرتے کہ جو کوئی یہ کہے کہ خدا نے فی الواقع جھوٹ بولا ہے، وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک اور اختلاف ہے ہی نہیں۔ مولانا گنگوہی نے واضح کیا کہ جس نکتے کو شاہ اسماعیل کے مخالفین سمجھ نہیں پا رہے، وہ یہ ہے کہ ان کا سارا زور اس امر کے اثبات پر تھا کہ خدا استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہے، اس بات پر نہیں کہ خدا کی طرف جھوٹ جیسی صفت کی نسبت کی جا سکتی ہے۔ مولانا گنگوہی نے شاہ اسماعیل کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر چہ خدا نے بتایا ہے کہ وہ فرعون، ابولہب اور ہامان کو جہنم میں بھیجے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کو جنت میں بھیجنے سے عاجز ہو چکا ہے1۔

مولانا سہارن پوری نے اس مسئلے پر دیوبندی موقف کو وسعت دی، اور بریلوی موقف سے اس کا تقابل پیش کیا۔ انھوں نے اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان اختلاف کا ذکر کیا۔اپنے بریلوی مخالفین کو غیر مستند ثابت کرنے کےلیے مولانا سہارن پوری نے بتایا کہ بریلوی جدید معتزلی ہیں۔ انھوں نے اپنے قارئین کو یاد دلایا کہ بریلوی خدا کے حق میں یہ ناممکن سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس کسی نافرمان شخص کو سزا کے بدلے میں جزا دینے، یا ایک فرماں بردار بندے کو جزا کے بدلے میں سزا دینے کی قدرت نہیں۔ اسی طرح معتزلہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ خدا بالذات اور ضرور بالضرور عادل ہے، اور عدل اس پر واجب ہے۔ بالکل بریلوی جس طرح اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ خدا بالذات یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے وعدے سے پھر جائے، یا ایک اور محمد کو پیدا کرے۔ اس کے برعکس اشاعرہ نے، جو جمہور اہل سنت کے اعتقادی پیشوا ہیں، اس موقف کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے کہ خدا ایک ناپسندیدہ کام مثلاً‌ بے انصافی یا جھوٹ بولنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ان کی نظر میں خدا کے لیے اس امکان کے اثبات سے اس کی قدرتِ مطلقہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مولانا سہارن پوری نے واضح کیا کہ دیوبندی اپنے پیش رو شاہ اسماعیل کی طرح صرف جمہور اشاعرہ کے مذہب پر ہیں اور بس۔

لیکن مولانا احمد رضا خان کے نزدیک دیوبندی ان وضاحتوں کی آڑ میں ایک خطرناک استدلالی ایجنڈے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، جس کا مقصد اخلاقی اور اعتقادی فساد برپا کرنا تھا۔ ایک بار پھر ان کا استدلال اس نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ دیوبندیوں نے تصور کے دائرے کو خطرناک حد تک توسیع دی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچنا شروع کرے کہ خدا کے لیے جھوٹ بولنا ممکن ہے تو اس کی کسی بات یا وعدے کا اعتبار کرنا ضروری نہیں رہے گا۔ ان کے اپنے الفاظ میں: "جب خدا کا جھوٹ بولنا ممکن ہوا تو اس کا سچا ہونا ضروری نہ رہا"۔ اس کے نتیجے میں دین کا سارا نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ آخرت میں ثواب وعذاب، بعث بعد الموت، جنت وجہنم: یہ تمام خدائی وعدے اور دعوے ناقابل تردید یا قطعی عقائد نہ رہیں گے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی عقائد کی بلند وبالا عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ 

طنز پر توہین کا تڑکا لگاتے ہوئے خان صاحب نے واضح کیا کہ اگر خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان کوئی مسئلہ نہ رہے، تو پھر خدا کی طرف کسی قسم کی نفرت انگیز، توہین آمیز یا سوقیانہ صفت کی نسبت سے لوگوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ پھر خدا کے لیے ممکن ہے: "وہ زنا کرے، شراب پیے، چوری کرے، بتوں کو پوجے، پیشاب کرے، پاخانہ بھرے، اپنے آپ کو آگ میں جلائے، دریا میں ڈبوئے، جوتیاں کھائے"2۔

خان صاحب نے بتایا کہ جھوٹ بولنا ایک ایسا شنیع فعل ہے کہ جس میں معمولی سی بھی عزتِ نفس ہو، وہ اس سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔جس زبان میں خان صاحب نے ان جذبات کا اظہار کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے معاشرے کو کیسا خیال کرتے تھے۔ 'نیچ ذات' چمار کا غیر مہذب کردار ایک بار پھر ان کی بحث میں نمودار ہوتا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں: "ہر بھنگی چمار بھی اپنی طرف جھوٹ کی نسبت سے عار رکھتا ہے"3۔ تو ایک مسلمان یہ تصور بھی کیسے کر سکتا ہے کہ ناپاکی کے اس منبع کو، بداخلاقی کی اس علامت کو خدا کی طرف منسوب کرے؟ خان صاحب نے اپنے مخالفین کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے ایک بار پھر چودھویں صدی کے شش جہت فارسی عالم علامہ سعد الدین التفتازانی کی کتاب شرح المقاصد کا حوالہ دیا: "اس بات پر علما کا اتفاق ہے کہ خدا کا جھوٹ بولنا محال ہے، کیوں کہ جھوٹ بولنا تمام عقلاء کے نزدیک عیب ہے، اور خدا کی ذات میں عیب ہونا محال ہے" (الكذب محال بإجماع العلماء لأن الكذب نقص باتفاق العقلاء، وهو على الله تعالى محال)4۔ خان صاحب کے نزدیک شاہ اسماعیل اور دیوبندیوں کے مواقف کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ وہ چند فلسفیانہ موشگافیوں کی خاطر اسلام کے بنیادی عقائد کی شدید گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 

رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کے معاملے میں بھی خان صاحب کا احساس یہی ہے کہ دیوبندیوں کے استدلالی قیاسات اور اعتقادی مباحثات توہین رسالت پر منتج ہوتے ہیں۔ لیکن اکابرِ دیوبند کے نزدیک انھوں نے جو استدلالی خطرے مول لیے ہیں، وہ ان فوائد کے حصول کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، جو اخلاقی بحران اور انتشار کے اس دور میں توحید کے تحفظ سے حاصل ہوں گے۔

علم، معلومات اور مذہب کی حدود: مولانا محمد منظور نعمانی کا جواب

 یہ توقع بجا طور پر کی جا سکتی ہے کہ مسلکِ دیوبند کے بانیوں پر خان صاحب کے فتواے تکفیر کو ضرور چیلنج کیا گیا ہوگا۔ حسام الحرمین کی اشاعت سے دیوبندی اور بریلوی دونوں مسالک کے علما کی طرف سے تردیدات اور جوابی تردیدات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اوشا سانیال نے بجا کہا ہے کہ "فتووں کی ایک جنگ چھڑ گئی"5۔ اس مناظرے کے دوسرے ادوار کی طرح یہ واقعات بھی لاینحل متحارب بیانیوں میں الجھے رہے۔ بریلوی بیانیے کے مطابق عرب علما کی طرف سے حسام الحرمین کی تائیدات نے علماے دیوبند کو اس قدر سراسیمہ کیا کہ مولانا خلیل احمد سہارن پوری، جو اس وقت مکہ مکرمہ میں تھے، ہندوستان واپس بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ دوسری طرف دیوبندی بیانیے کی رو سے خان نے صریح جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر بزعم خویش جو فتح حاصل کی، وہ زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی۔ علماے حجاز نے ابتداءً ان کے فتوے کی تائید اس لیے کی تھی کہ ان کے ہاں اپنے ایک معاصر عالم کی علمی دیانت اور اخلاص پر اعتماد کرنے کی روایت تھی۔ لیکن جب انھیں علماے دیوبند کے عقائد کے بارے میں مستند ذرائع سے پتا چلا تو ان میں سے اکثر نے اپنی تائیدات سے رجوع کر لیا ۔ انھوں نے مولانا احمد رضا خان پر بھی اس لحاظ سے تنقید کی کہ اس نے انھیں گمراہ کیا تھا۔ اس رجوع میں بنیادی کردار مولانا سہارن پوری نے ادا کیا۔ انھوں نے نومبر 1907 میں المهنَّد علی الـمُفنَّد کے نام سے عربی میں ایک کتاب لکھی6۔ اس کتاب میں مولانا سہارن پوری نے ان چھبیس سوالات/اشکالات کا جواب دیا، جو علماے حجاز نے مسلک دیوبند اور ان کے عقائد کے متعلق اٹھائے تھے۔ ان سوالات کا سارا زور دیوبندی فکر میں نبی اکرم ﷺ کے علم اور مقام پر ، اور  امکانِ کذب اور امکانِ نظیر جیسے اعتقادی مسائل پر تھا۔ اس کے ساتھ حسام الحرمین میں مولانا احمد رضا خان نے علماے دیوبند کی جو متنازعہ عبارات پیش کی تھیں، ان کے بارے میں بھی متعدد اشکالات تھے7۔ یہاں اس تاریخی سوال کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ اصل میں اس پورے واقعے میں ہوا کیا تھا، اور کس فریق نے علماے حجاز کو رام کرنے میں کام یابی حاصل کی، میں دیوبندی اور بریلوی نظریات کی تشکیل کرنے والے متحارب شرعی تصورات کا ذکر کروں گا۔ میں اس مناظرے میں اہم علمی وفکری اضافہ جات کرنے والے بیسویں صدی کے دیوبندی عالم مولانا محمد منظور نعمانی کی فکر کو زیرِ بحث لا کر ایسا کروں گا۔

حسام الحرمین کی اشاعت کی چند دہائیوں کے بعد خان صاحب کے فتواے تکفیر کے خلاف مولانا نعمانی علماے دیوبند کے دفاع میں شمشیر براں بن کر سامنے آئے۔ مولانا نعمانی اصلاً علوم حدیث کے ماہر تھے، اور مابعد استعماری ہندوستان کے علما میں ایک بے حد اثر ورسوخ رکھنے والے دیوبندی عالم تھے۔ اصلاً وہ بریلی کے تھے، لیکن انھوں نے اپنی بیش تر زندگی لکھنو میں گزاری، جہاں انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ایک ممتاز استاذِ حدیث کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ اس ادارے  سے انھوں اپنی پوری علمی زندگی میں قریبی تعلقات استوار رکھے۔ ان کی مشہور ترین کتابوں میں چار جلدوں پر مشتمل معارف الحدیث اور اسلام کے حوالے سے ایک تعارفی کتاب: 'اسلام کیا ہے؟' شامل ہیں۔ یہ دونوں کتابیں انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہیں، اور دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر شائع  ہیں۔

مولانا نعمانی نے فن مناظرہ میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ 1934 میں حسام الحرمین کی اشاعت کے اٹھائیس سال بعد انھوں نے 'فیصلہ کن مناظرہ' کے نام سے اس کی ایک تردید لکھی8۔ مولانا نعمانی کے مطابق انھوں نے یہ کتاب اسی سال لاہور میں بریلوی مسلک کے نمائندوں کے خلاف زبانی مناظرے کے لیے تیار کی تھی جس میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو ثالثی کے فرائض سرانجام دینے تھے۔

جس وقت یہ مناظرہ ہونے جا رہا تھا، اس وقت لوگ سمجھ رہے تھے کہ اس سے یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ "لیکن افسوس بریلوی علما مناظرے میں آنے سے باز رہے"! اس کے بعد مولانا نعمانی نے ارادہ کیا کہ اس مناظرے کے لیے انھوں نے جو یاد داشتیں مرتب کی تھیں، انھیں 'فیصلہ کن مناظرہ' کے نام سے کتابی شکل میں چھاپ دیں۔ تاہم مولانا نعمانی کی تردید میں میری دل چسپی کی وجہ وہ دل چسپ حالات نہیں، جن میں یہ سامنے آئی۔  بلکہ دیوبندی بریلوی مناقشے میں ان کا کردار اس بابت رہنما ہے کہ انھوں نے علم اور توحید کے درمیان تعلق کو کس طرح جوڑا، اور اس کے ساتھ جدیدیت میں مذہب اور غیر مذہب کی حدود کے بارے میں بڑے اہم سوالات کو زیر بحث لایا ہے۔ میں مولانا نعمانی کی فکر کے ایک معتد بہ حصے سے استفادہ کرکے ذیل کی بحث میں بتاؤں گا کہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب پر مناقشے میں جو بنیادی مسئلہ زیر بحث تھا، وہ علم کی تعریف تھا۔ نتیجتاً علم کی تعریف مذہب کی حدود کی تحدید سے کوئی الگ عمل نہیں تھا۔ اس مناظرے کی تہہ میں یہ اہم سوال بھی زیر غور تھا کہ کون سی چیز مذہب ہے اور کون سی نہیں۔ ذیل میں، میں حسام الحرمین پر مولانا نعمانی کی تنقید کے ایک دقیق مطالعے سے اس استدلال کو آگے بڑھاؤں گا۔

مولانا منظور نعمانی نے مولانا احمد رضا خان پر الزام لگایا کہ وہ مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کی بات کو اردو سے نابلد علماے عرب کے سامنے غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں: "ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حسام الحرمین لکھتے وقت مولانا احمد رضا خان نے قسم کھائی تھی کہ وہ سچ بولنے یا دیانت کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں گے" (184)۔ مولانا نعمانی نے بتایا کہ مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی پر کفر کا فتوی لگاتے وقت خان نے دانستہ یا نادانستہ ان کی عبارات کے سیاق وسباق کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ مولانا نعمانی نے واضح کیا کہ مثلاًمولانا تھانوی کی عبارت (جو اس باب میں پہلے گزر چکی) اس سوال کا جواب تھا: "کیا رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہنا جائز ہے"؟ مولانا تھانوی کو اس سوال سے کوئی غرض نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس علمِ غیب ہے یا نہیں۔

مولانا تھانوی کا بنیادی مقصد یہ بتانا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کی صفت سے متصف کرنا جائز نہیں ہے (184)۔ ان دونوں سوالات میں کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے پاس علم غیب ہے؟ اور کیا ان کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے؟ زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے مولانا نعمانی نے ایک فلسفیانہ اصول وضع کیا اور وہ یہ تھا کہ کسی صفت کا واقع میں کسی ذات کے لیے ثابت ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ اس کا اطلاق بھی اس پر جائز ہو۔ مثال کے طور پر انھوں نے وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح کیا ہے کہ وہ تمام مخلوق کا خالق ہے۔ مزید برآں تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہے، چھوٹا یا بڑا، معمولی یا غیر معمولی، سب خدا کی پیدا کردہ ہیں۔ تاہم اس کے باوجود خدا کو بندروں اور خنزیروں کا خالق کہنا جائز نہیں۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ اس قدر خود کفیل تھے کہ وہ اپنے جوتے تک خود سیتے تھے، اور اپنی بکریاں تک خود دوہتے تھے۔ اس کے باوجود یہ انتہائی نامناسب ہوگا کہ انھیں 'خاصف النعل' (موچی) یا 'حالب الشاۃ' (بکریاں دوہنے والا) سے پکارا جائے۔

جیسا کہ مولانا نعمانی اپنے مخاطبین سے تقاضا کرتے ہیں: "میں قارئین کو جو بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس علم غیب ہونا یا نہ ہونا الگ بحث ہے، اور آپ کی ذاتِ مقدسہ پر عالم الغیب کے اطلاق کا جواز اور عدم جواز ایک الگ مسئلہ ہے۔ ان دونوں میں باہم تلازم بھی نہیں" (185)۔ مولانا نعمانی کے مطابق مولانا تھانوی 'حفظ الایمان' میں بس یہی بتانا چاہ رہے تھے کہ 'عالم الغیب' کا اطلاق رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ پر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ عالم الغیب کا لقب صرف اسے دیا جا سکتا ہے جو علم غیب کا حصول کسی واسطے کی مدد کے بغیر کرے۔ خدا کے سوا ایسی ہستی اور کوئی نہیں۔ اس لیے عالم الغیب کے لقب کا اطلاق خدا کے علاوہ اور کسی ہستی پر بشمول نبی اکرم ﷺ کے نہیں ہو سکتا، مولانا نعمانی نے واضح کیا (185)۔

مولانا نعمانی نے تفصیل سے بیان کیا کہ مولانا تھانوی کی فکر کا خلاصہ کچھ یوں ہے: اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہتا ہے، تو اس کے صحیح ہونے کی دو صورتیں ہیں: یا تو انھوں نے علمِ غیب کلی تک رسائی حاصل کی ہوگی یا بعض علمِ غیب تک۔ پہلی صورت تو درست نہیں ہو سکتی کیوں کہ علمِ غیب کلی صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ دوسری صورت بھی درست نہیں، کیوں کہ بہت سی پست مخلوقات جیسے جانوروں، چوپایوں اور پاگلوں کو بھی علم کی ایسی کچھ اقسام عطا کی گئی ہیں، جو دوسروں کے پاس نہیں۔ اس لیے اگر کوئی اس اصول کو مان لے کہ علم غیب کے کچھ حصے تک رسائی کسی شخص کو عالم الغیب بناتا ہے، پھر تو  ساری دنیا کو اس لقب سے نوازا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مولانا نعمانی نے خان صاحب کے احتجاجی طرز استدلال کو الٹتے ہوئے ایک پر تجسس استفسار کیا: ایک ایسا لقب جس کا اطلاق دنیا کی ہر چیز پر ہو سکتا ہو، کس طرح رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو بڑھا سکتا ہے؟ اس کے برعکس ساری دنیا پر قابل اطلاق یہ لقب رسول اللہ کے مقام ومرتبے کی تنقیص کرتا ہے (185 – 188)۔ مولانا نعمانی نے مولانا تھانوی کے موقف کے دفاع میں ایک اور دلچسپ قیاس پیش کیا:

تصور کریں کہ ایک ملک ہے کہ جس کا بادشاہ انسانی ہمدردی کے لیے مشہور ہے۔ وہ ہزاروں فقرا کو دن رات کھانا کھلاتا ہے۔ پھر ایک احمق شخص مثلاً زید یہ اعلان کرے کہ وہ اس بادشاہ کو رازق کہے گا۔ اسی لمحے ایک دوسرا شخص مثلاً‌ عمرو زید سے یہ سوال پوچھے: جب تم اس بادشاہ کو رازق کہتے ہو، تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کو کھانا کھلاتا کرتا ہے، یا اس وجہ سے کہ وہ کچھ انسانوں کو کھلاتا ہے؟ پہلا مفروضہ تو قطعاً غلط ہے، اس لیے کہ یہ معلوم ہے کہ بادشاہ تمام انسانوں کو کھانا نہیں کھلا رہا۔ اور اگر بادشاہ کو اس بنیاد پر رازق قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ صرف چند لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے، تو اس میں بادشاہ کی کیا خصوصیت ہے۔ کسی ملک کے مزدور بھی اپنے بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ انسانوں کو جانے دیں، پرندے بھی اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص آپ کی دلیل کو مانیں، تو اسے چاہیے کہ ہر مزدور اور پرندے کو رازق قرار دے (196)۔

مولانا نعمانی نے زور دے کر کہا کہ مذکورہ بالا قیاس میں جو اہم ترین نکتہ ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر عمرو کے بیان کو یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ وہ شریف النفس بادشاہ اور ہر مزدور یا پرندے کو مقام ومرتبے یا انسانی ہمدردی کے اعتبار سے برابر نہیں قرار دے رہا۔ مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہنے کی تردید کی، اس کی توجیہ بعینہ یہی ہے۔ ان کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا موازنہ چوپایوں، پاگلوں اور جانوروں سے کریں، چہ جائیکہ انھیں ان کے برابر قرار دیں۔ 

مولانا تھانوی کے استدلال میں کار فرما بنیادی اصول کا خلاصہ مولانا نعمانی نے کچھ یوں کیا: (1) علم غیب کلی صرف خدا کے پاس ہے اور (2) رسول اللہ ﷺ کے پاس جو علم غیب جزئی ہے، اس میں کوئی خصوصیت نہیں۔یہ کہنا کہ مولانا تھانوی نے چوپایوں اور پاگلوں کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ علم والا قرار دیا ہے، محض مولانا احمد رضا خان کے ذہن کی کارستانی ہے۔ مولانا نعمانی اس پر ہنس کر کہتے ہیں: "مولانا تھانوی کی صاف اور بے غبار عبارت کی جو سنسنی خیز تشریح خان صاحب نے کی ہے، اگر شیطان بھی اسے سن لے، تو وہ کفر سے پناہ مانگنے کے لیے دوڑے" (188)۔

وکیلِ استغاثہ کی طرح جج کے سامنے عائد کردہ فرد جرم کے حق میں شہادتیں لہراتے ہوئے مولانا نعمانی نے مولانا احمد رضا خان کی اپنی تحریروں سے متعدد مثالیں پیش کیں، جن میں انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے علاوہ دیگر شخصیات کے لیے علم غیب کا اثبات کیا ہے۔ مثلاً‌ اپنے ملفوظات کے ایک مجموعے میں خان صاحب نے اپنے والد کی ایک پیش گوئی کے ذیل میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بعض علوم غیبیہ سے نوازا تھا (193)۔ بلکہ خان صاحب بتاتے ہیں کہ تمام کائنات کی ہر چیز حتیٰ کہ درختوں کے پتے اور ریگستانوں کے ذرے بھی توحید ورسالت پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ وہ خدا کی تسبیح کرتے ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت کی شہادت دیتے ہیں9۔

خان صاحب کے ان بیانات کی روشنی میں علم غیب کے متعلق ان کے اور مولانا تھانوی کے موقف میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں علم غیب کلی صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے، علم غیب جزئی تمام انسانوں بلکہ غیر انسانوں کو بھی حاصل ہے۔ مولانا نعمانی نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ خان صاحب مولانا تھانوی کے خلاف جو شدید اختلاف برپا کیے ہوئے ہیں، حقیقت میں وہ موجود ہی نہیں۔  

علم اور مذہب کی تعریف: مولانا سہارن پوری کا دفاع

مولانا نعمانی نے خان صاحب پر یہ الزام لگایا کہ وہ دانستہ مولانا سہارن پوری کی عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹ رہے ہیں، تاکہ اسے گستاخانہ ثابت کر سکیں۔ انھوں نے بتایا کہ خان صاحب اپنے اس تجزیے میں سراسر غلطی پر ہیں کہ مولانا سہارن پوری نے شیطان کو حضور اکرم ﷺ سے زیادہ علم والا کہا ہے۔ مولانا نعمانی نے وضاحت کی کہ اصلاً مولانا سہارن پوری، مولوی عبد السمع کے اس قیاس کی تردید کر رہے ہیں کہ جب شیطان کے پاس روے زمین کا کافی علم ہے، تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اتنا علم نہ ہو10۔ مولانا نعمانی نے اس بات پر زور دیا کہ مولانا سہارن پوری اس قیاس کی اصلیت سے پردہ اٹھانا چاہ رہے تھے۔ انھوں نے واضح کیا کہ صرف اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ کا رتبہ شیطان سے برتر ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا علم بھی لازمی طور پر دوسروں سے زیادہ ہو۔ نعمانی نے بتایا کہ یہاں پر مولانا سہارن پوری کی فکر میں زیر بحث جو علم تھا، اس سے مراد علمِ کلی یا اخروی نجات اور کمالاتِ انسانی سے متعلق علم نہ تھا۔ بلکہ مولانا سہارن پوری صرف اس دنیوی علم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس کا مذہب یا اخروی نجات سے کوئی تعلق نہیں (151)۔

اس نکتے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا نعمانی نے علم اور معلومات کے درمیان ایک اہم فرق قائم کیا۔ انھوں نے بتایا کہ علم کی تعریف یہ ہے جو بندے کو اخروی نجات اور خدا سے قریب کرتا ہے۔ علم کا براہ راست تعلق دینی معاملات سے ہے۔ اس کے برعکس معلومات کا اخروی نجات سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں تو وہ لوگوں کی اخروی نجات کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ مولانا نعمانی نے زور دے کر بتایا کہ سب سے اہم بات یہ ہے جب ایک شخص کو دوسرے کے مقابلے میں بڑا عالم کہا جاتا ہے، تو یہ صرف اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس کو دینی یا اخروی اعتبار سے مفید علم میں برتری حاصل ہے۔  

علم کی دیگر تمام اقسام کا حصول، جن کا تعلق دین سے نہیں، کسی شخص کو اعلم (دوسروں سے زیادہ علم والا) نہیں بناتا۔  یہی وجہ ہے کہ اگر معمولی اور ثانوی درجے کی چیزوں سے متعلق ایک ناخواندہ شخص کی معلومات مثلاً‌ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ہوں، تو اسے اس بنیاد پر رسول اللہ ﷺ سے زیادہ علم والا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مولانا نعمانی نے علم اور معلومات کے درمیان فرق کی وضاحت کے لیے کئی موازنے کیے، جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ علم اور مذہب کی حدود کے حوالے سے ان کا تصور کیا تھا۔

انھوں نے لکھا:

مثلاً آج کی مادی ایجادات اور صنعتی اختراعات کے متعلق جو معلومات یورپ کے ایک ملحد کو حاصل ہیں، یقیناً وہ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک کو حاصل نہ تھے۔ گرامو فون بنانے کا علم جو اس کے غیر مسلم موجد کو تھا، وہ یقیناً حضرت غوثِ پاک کو نہ تھا۔ لیکن کون احمق ہے جو ان مادی اور دنیوی علوم کی وجہ سے یورپ کے ان ملحدین کو حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک اور شیخ عبد القادر جیلانی سے اعلم (زیادہ علم والا) کہنے کی جرات کرے۔ سینما اور تھیٹر کے متعلق جو معلومات ایک فاسق وفاجر بلکہ ایک کافر ومشرک تماش بین کو ہیں، وہ یقیناً ایک بڑے متقی عالم کو نہیں۔ تو کیا کوئی تاریک دماغ ہر تماش بین کو اس عالم سے اعلم کہہ سکتا ہے (185)۔

درج بالا اقتباس مولانا نعمانی کے سماجی تصور کے بارے میں اہم سراغوں کا پتا دیتا ہے۔ مولانا نعمانی نے سینما کے فاسق وفاجر تماش بینوں کی جو مثال پیش کی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے اخلاقی نظام سے غیر مطمئن تھے۔ ان کی نظر میں ہندوستانی مسلمان حقیر اور نقصان دہ 'غیر دینی' سرگرمیوں میں اس قدر منہمک ہو گئے ہیں کہ اسلام اور اس کے علمی ورثے سے ان کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ مولانا نعمانی کی فکر میں دینی اور غیر دینی دنیاؤں میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ دینی دنیا میں دینی لوگ مثلاً نامور علماے دین بستے ہیں۔ غیر دینی دنیا جدید پیش رفتوں جیسے یورپی ایجادات، غیر اسلامی زبانوں جیسے انگریزی اور سنسکرت کے علم اور عوامی تھیٹر اور سینماؤں کی کثرت سے آلودہ ہے۔ مولانا نعمانی کے سماجی تصور میں علم اور معلومات کے درمیان فرق فکر وعمل اور عوامی زندگی کے دینی اور اخروی دائروں کے ساتھ متعلق ہے۔ 

سب سے اہم بات یہ کہ دینی اور غیر دینی دنیاؤں کے درمیان مولانا نعمانی کے قائم کردہ فرق کا گہرا تعلق ان کے اس استدلال سے تھا کہ خارجی دنیا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے علم کی کمی ان کے مقام ومرتبے کو گھٹاتا نہیں۔ انسانِ کامل کی حیثیت سے آپ ﷺ کے مقام ومرتبے کا دار مدار دینی واخروی علوم کی وسعت پر ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے مقام ومرتبے کا انحصار ان غیر دینی علوم پر بالکل بھی نہیں، جن میں قابل اعتراض اخلاقی کردار کے حامل لوگ دل چسپی لیتے ہیں۔

مولانا نعمانی کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کا امتیازی مقام اس علم پر منحصر ہے، جس کا تعلق انسانی اور دینی کمالات سے ہے۔ اس لیے کسی مخصوص دنیوی معاملے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ناواقفیت ان کی کامل شخصیت اور رتبے کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ مولانا نعمانی نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی سیرت سے زیادہ بہتر اس بات کی وضاحت کسی اور چیز سے نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے مومنوں کو واشگاف انداز میں بتایا: "تم اپنی دنیا کے امور (مجھ سے) بہتر جانتے ہوں" (أنتم أعلم بأمور دنياكم

علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں انھیں اپنے آس پاس کئی واقعات کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً مدینہ میں آپ نے کئی منافقین کو غلط فہمی سے اہل ایمان سمجھ لیا۔ صرف وحی کے ذریعے آپ کو ان منافقین کے اصلی کرتوتوں کا علم ہوا (40)11۔ اسی طرح مولانا نعمانی نے قرآن کریم کی اس آیت سے استدلال کیا: "اور ہم نے انھیں (نبی اکرم ﷺ) کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کے لیے مناسب ہے"12۔ مولانا نعمانی نے بتایا کہ اس آیت سے یہ واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شاعری کا علم حاصل نہیں تھا، باوجود یکہ بہت سے 'فاسقوں' اور کافروں کو فن شاعری میں کمال حاصل تھا۔ لیکن صرف فن شعر میں مہارت کی وجہ سے وہ اعلم نہیں قرار دیے جا سکتے۔ اس سے ان کی معلومات میں ایک حقیر سا اضافہ ہوا۔ مولانا نعمانی کے الفاظ میں: "امرؤ القیس (جاہلی شاعر، م 575) بدترین کافر تھا، اور ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کا شاعر بھی تھا۔ فردوسی (م 1020) فاسد العقیدہ شیعہ تھا، اور فارسی کا بہترین شاعر بھی۔ پس جب کہ فاسقوں اور کافروں تک کو یہ فن حاصل ہے، تو رسولِ خدا ﷺ کو، جو افضل المرسلین سید الاولین والآخرین ہیں، ضرور حاصل ہوگا۔ بلکہ اگر شاعری کا علم کسی طرح بھی مقام ومرتبے اور دینی برتری کی علامت ہوتی، تو پھر تو ہر نیک مسلمان کو امرؤ القیس اور فردوسی سے بہتر شاعر ہونا چاہیے (153)۔

دینی علم اور غیر دینی معلومات کے درمیان یہ تفریق اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ اس کے ذریعے مولانا نعمانی نے مولانا سہارن پوری کے اس اعتراض کا جواب دیا کہ وہ شیطان کو رسول اللہ ﷺ سے اعلم سمجھتے ہیں۔ مولانا نعمانی نے دعوی کیا کہ مولانا سہارن پوری کا استدلال اس اعتراض کے بالکل الٹ ہے۔ مولانا نعمانی کے نزدیک سہارن پوری نے اصل میں یہ بتایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے برتر دینی علم اور شیطان کے غیر دینی اور دنیوی معلومات کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے۔

جیسا کہ مولانا نعمانی نے واضح کیا ہے:

درحقیقت خدا نے شیطان کو ہر قسم کی وہ معلومات عطا کی ہیں، جن سے وہ انسانوں کو گمراہ کر سکے، اور اس کا مقصد انسانوں کے ایمان کا امتحان ہے۔ مثلاً‌ شیطان کو انسانی خواہشات اور مزاج کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ انھیں دھوکا دے سکے۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ فلاں فلاں مقام پر بے حیائی اور ناچ گانے کی محفل منعقد ہو رہی ہے، تاکہ وہ بھولے بھالے لوگوں وہاں جانے کے لیے بھٹکائے، اور فسق وفجور میں شرکت کرے۔ شیطان کو معمولی دنیوی معاملات کے بارے میں وسیع معلومات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے شیطانی مقاصد کی تکمیل کر سکے۔ لیکن انبیا اور اللہ تعالیٰ کی دیگر مقرب ہستیوں کو ان معمولی اور فحش معمولات سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کا کام گمراہی نہیں بلکہ ہدایت اور دینی رہ نمائی ہے۔ اس لیے خدا نے اس مقصد کے لیے انھیں وسیع اور لامحدود علم عطا کیا ہے (159)۔

یہاں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مولانا نعمانی نے مولانا سہارن پوری کے دفاع کے لیے دینی علم اور غیردینی معلومات کے درمیان ایک واضح فرق وضع کیا ہے۔ مولانا نعمانی کے نزدیک جب مولانا سہارن پوری یہ کہتے ہیں کہ شیطان کے خارجی دنیا کا علم نبی اکرم ﷺ سے زیادہ ہے، تو اس سے مراد غیر اخروی اور دنیوی معلومات ہوتی ہیں، جن کے ساتھ اہل دین کا کوئی سروکار نہیں۔ بلکہ اہل دین خاص طور پر انبیاء اس قسم کی معلومات اور ان معلومات کے حاملین سے دور رہتے ہیں۔ اس لیے خان کے اعتراض کے برعکس کہ مولانا سہارن پوری نے شیطان کو رسول اللہ ﷺ سے اعلم کہہ کر آپ ﷺ کی گستاخی کی ہے، مولانا سہارن پوری نے شیطان کی غیر مذہبی معلومات پر رسول اللہ ﷺ کے دینی واخروی علم کی قطعی برتری کا اثبات کیا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ مولانا نعمانی کا استدلال اس دعوے پر مبنی ہے کہ ان معاملات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا علم جو اخروی نجات اور کمالات انسانی کے فروغ کے لیے نہ ہو، ایک غیر نبی، ایک کافر اور حتی کے شیطان سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ تاہم دنیوی معاملات اور حوادث میں رسول اللہ ﷺ کے علم کی  کمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ سب سے بڑے عالم نہیں ہیں۔ مولانا نعمانی نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا: مولانا سہارن پوری پر الزام لگانے سے پہلے خان نے اس بنیادی اصول پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

یہاں پر مولانا نعمانی کے استدلال میں مجھے جس چیز سے سب سے زیادہ دل چسپی ہے، وہ ان کا تشکیل دیا ہوا تصورِ علم اور دین اور ان کے ماخذات ہیں۔ مولانا نعمانی کے نزدیک علم کا تصور صرف مذہبی علم تک محدود ہے۔ زیادہ واضح الفاظ میں مذہبی علم ہی وہ علم ہے، جو خدا کی نظر میں اخروی نجات کے لیے ضروری ہے۔ ان علوم میں قرآن وحدیث اور شریعت شامل ہیں، اگر چہ انھوں نے ان علوم کی کوئی فہرست مہیا نہیں کی، جو ان کی نظر میں دینی تھے۔ مولانا نعمانی نے علم کی شعوری تعریف کی جو کوشش کی، اس سے ان کی نظر میں مذہب کی حدود کی تحدید بھی ہوتی ہے۔

کس چیز کو علم کہا جائے گا، اس بارے میں ان کے اجتہاد سے یہ بھی متعین ہو گیا کہ کس چیز کو مذہب سمجھا جائے گا اور کس کو نہیں۔ مزید برآں علم اور مذہب کی حدود طے کرنے کے عمل نے ان دونوں کا نمایاں طور پر ایک محدود تصور پیدا کیا۔ مثلاً‌ مولانا نعمانی نے جس انداز میں ماقبل جدید ممتاز مسلمان علماے دین اور مجتہدین کے علم کا موازنہ دیگر روایتی علوم کے حامل اہل علم سے کیا ہے، وہ کافی قابل غور ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:

امام ابوحنیفہ کو شریعت کے لاکھوں کروڑوں مسائل کا علم تھا، اور ابن رشد کو بھی علوم شرعیہ میں خاصی دست گاہ حاصل تھی، لیکن ان کا علم امام ابوحنیفہ کے علم کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھا۔ لیکن فلسفۂ یونان کے متعلق جو 'معلومات' ابن رشد کو حاصل تھے، وہ یقیناً حضرت امام ابوحنیفہ کو حاصل نہ تھے۔ کیوں کہ ان کے زمانے میں فلسفۂ یونان عربی زبان میں ترجمہ ہو کر آیا ہی نہ تھا، لیکن اس کی بنیاد پر ابن رشد کو امام ابوحنیفہ سے اعلم نہیں کہا جا سکتا۔ علی ہذا القیاس حضرت امام شافعی، امام احمد، امام بخاری اور امام مسلم کو کتاب وسنت کا بیش بہا علم حاصل تھا، مگر تاریخ وسیر میں جو معلومات ابن خلدون اور ابن خلِّکان کے تھے، وہ بحیثیتِ مجموعی ان حضرات کو یقیناً حاصل نہ تھے، کیوں کہ ابن خلکان کے علم میں تو بہت سے وہ تاریخی واقعات بھی تھے، جو ان حضرات ائمہ کی وفات کے بعد پیش آئے۔ لیکن اس کی وجہ سے ابن خلدون اور ابن خلکان کو یا آج کل کے کسی مؤرخ کو ان ائمۂ دین سے اعلم نہیں کہا جا سکتا (150)۔

مولانا نعمانی نے علم کو معلومات پر جو فوقیت دی ہے، اسے ایک ایسے استدلالی پروگرام نے استناد بخشا جو 'مذہبی' سمجھے جانے والے علم کی حدود کو کنٹرول کر رہا تھا۔ انھوں نے 'مذہبی علم' کی تعریف سے تاریخ، فلسفے، شاعری اور متعدد دیگر علوم خارج کر دیا۔ مولانا نعمانی کے نزدیک یہ تمام علوم محض معلومات تھے۔ فرد کی اخروی زندگی کے لیے اگر یہ مضر نہیں، تو کم از کم اسے فائدہ بھی نہیں پہنچاتے۔ مولانا نعمانی کی فکر میں علم اور مذہب کی حدود باہم بلکہ بیک وقت متصور ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو اس فیصلے کے قابل بناتا ہے کہ کس چیز کو علم اور مذہب سمجھا جائے۔ اہم ترین بات یہ کہ علم اور مذہب دونوں کی تقسیم، تعریف، نمائندگی (representation) اور انتقال (translation)بآسانی ممکن تھا۔

انسانی زندگی میں مذہب کو غیر مذہب سے اور علم کو معلومات سے اجتہادی انداز میں جدا کرنا بآسانی ممکن تھا۔ آخر کار مولانا نعمانی ہی وہ شخصیت تھی، جنھوں نے مجتہدِ مطلق کی طرح علم کی تعریف کا تعین کیا، اور اس تعریف کو توسیع دے کر مذہب کا بھی۔ ابھی جو اقتباس پیش کیا گیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اس مجتہدانہ موقف نے مذہب کے ایک محدود تصور کو جنم دیا، ایک ایسا تصور جو صرف قانون تک محدود تھا۔ علوم میں قانون سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں تھا۔ اس کے علاوہ باقی سب غیر مذہبی، غیر اخروی اور ممکنہ طور پر غیر دینی معلومات تھے۔

مولانا نعمانی کی فکر کے ایک مفید تناظر پر مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) کا یہ دقیق نکتہ بہت اہم ہے، جو انھوں نے انیسویں صدی کے اواسط کے متعلق پیش کیا ہے: "علما کا تصور صرف ان اہل علم کا مفہوم اختیار کر گیا، جو علوم دینیہ میں اختصاص رکھتے ہیں"13۔ اس کے بالمقابل انیسویں صدی کے اوائل اور اٹھارویں صدی میں "دینی اور غیر دینی علوم میں اختصاص رکھنے والوں میں کوئی خاص امتیاز نہیں تھا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی اور مفتی صدر الدین آزردہ جیسے علما کی علمیت انھیں استعماری انتظامیہ میں کسی عہدے، کسی نواب کے دربار میں کسی منصب اور یا کسی مدرسے میں تدریس کی اسامی کے لیے برابر اہل بناتے تھے"14۔ علم اور مذہب کے بارے میں مولانا نعمانی کی محدود فکر سے پرناؤ کے تجزیے کی تصدیق ہوتی ہے۔ جس قدر علما کی طاقت اور مہارت مذہبی علم تک محدود ہوتی چلی گئی، اسی قدر مذہب اور علم دونوں کا تصور بھی محدود ہوتا چلا گیا۔

   مولانا نعمانی کا استدلالی منہج کئی پہلوؤں سے متناقض تھا۔ اگر چہ انھوں نے 'خالص مذہبی' علم کے تحفظ کی کوشش کی، تاہم ان کے پروجیکٹ کے پیچھے یہ جدید مفروضہ کار فرما تھا کہ انسانی زندگی کو مذہبی/غیر مذہبی اور علم/معلومات کے بنے بنائے خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس جدید تصور کے مطابق فرد زندگی کے حدود کے اندر نہیں جیتا، بلکہ وہ اپنی اجتہادی صلاحیت کے بل بوتے پر خود اپنے لیے زندگی کی حدود متعین کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ان حدود کا مسئلہ، جو مذہب کو غیر مذہب سے اور علم کو معلومات سے جدا کرتا ہے، اب غیر یقینی یا مشکوک نہ رہا۔ بلکہ ان حدود کا انتقال، نمائندگی اور تعیین بآسانی ممکن تھا۔

ظاہراً‌ تو مولانا نعمانی کا مناقشہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کی حیثیت اور حدود تک محدود نظر آتا ہے،لیکن فی الواقع یہ بحث ایک بہت زیادہ بنیادی مسئلے کے متعلق تھا اور وہ یہ اجتہادی فیصلہ تھا کہ کون سی چیز مذہب ہے، اور کون سی نہیں۔ وہ مقام علم تھا، جس کے متعلق انھوں نے اپنا یہ فیصلہ صادر کیا۔ علم کی حدود متناسب انداز میں مذہب کی حدود سے ملتی ہیں۔ جس دم وہ علم اور معلومات میں تفریق کر رہے تھے، اس دم وہ مذہب کے مقام کی تحدید بھی کر رہے تھے۔

المختصر علم اور مقام نبوی کے درمیان تعلق پر مولانا نعمانی کی فکر کو ایسی 'مذہب سازی' کی سیاسیات سے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا، جس کا مقصد مذہب کی اعتقادی حدود کی تحدید تھی۔ علاوہ ازیں جس طرح مولانا نعمانی نے مذہب کی حدود کو ایک قابل تحدید وتعیین چیز بنایا، اسی طرح انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے علم کو بھی قابل تحدید وتعیین بنایا، اور اس کے نتیجے میں نبی کے تصور کو شرعی رہ نمائی کے ایک سرچشمے کی حیثیت سے پیش کیا۔ مذہب  کی تحدید وتعیین کے ذریعے سے مولانا نعمانی نے نبی کے علم کی بھی تحدید وتعیین کر دی۔15۔

روایت و اصلاح کے متحارب تصوّرات

رسول اللہ ﷺ کے علم کے متعلق مولانا تھانوی اور مولانا سہارن پوری کی عبارات سے جس تنازعے نے جنم لیا تھا، اس سے واضح طور پر ان متضاد نکات اور استدلالات کا علم ہوتا ہے، جو روایت کی دیوبندی اور بریلوی تفہیمات کی تشکیل کرتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کی نظر میں اکابر دیوبند اپنے مبہم اور بھونڈے دلائل سے رسول اللہ ﷺ کی شان کو گھٹا رہے ہیں۔ انھوں نے آخری اقدام کے طور پر ان کی تکفیر کی کہ ان کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے وہ ضروریاتِ دین کو پامال کرنے کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ اس کے جواب میں متقدمین ومتاخرین علماے دیوبند مثلاً‌ مولانا منظور نعمانی نے خان صاحب پر یہ الزام لگایا کہ وہ علماے دیوبند کی عبارات کو قصداً مسخ کرکے ان پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔

اس سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے خان صاحب پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تقدیس کی آڑ میں خدا کی حاکمیتِ اعلی (توحید) کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جیسا کہ ایک بار مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا: "حق تعالیٰ کا شان گھٹاتے ہیں، اوراس  کا نام حبِّ رسول رکھتے ہیں"16۔ مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی حریفوں کے لیے علم اور حاکمیت ایک دوسرے کے ساتھ گہرے انداز میں مربوط تھے۔ تاہم جس انداز میں انھوں نے اس تعلق کو سمجھا اور اپنے اصلاحی پروگراموں میں اسے برتا، وہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا۔

گزشتہ صفحات میں اس مناظرے کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی حریف کئی پہلوؤں سے ایک ہی طرح کے مسائل پر متضاد مواقف رکھتے تھے۔ ان کے اختلافات کے باوجود کافی حد تک ان کے اعتقادی تصورات کئی حوالوں سے ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ علم غیب کلی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ اس بات پر بھی متفق تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ دیگر مخلوقات بشمول نبی اکرم ﷺ کو علم عطا کیا ہے۔ علاوہ ازیں نظری اعتبار سے مولانا احمد رضا خان کو مولانا تھانوی کی اس بات سے اتفاق ہوگا کہ اگر 'عالم الغیب' کا مطلب علم غیب کلی کا حامل ہونا ہے، تو اس کا اطلاق رسول اللہ ﷺ پر نہیں ہو سکتا۔

ان واضح نکاتِ اتفاق کی روشنی میں یہ نوٹ کیا جا سکتا ہے، اور جیسا کہ میں نے اس پوری کتاب میں کیا بھی ہے کہ یہ تنازع بڑی حد تک رسول اللہ ﷺ سے متعلق گفتگو کے آداب اور آپ کی حیثیت کے متوازی تصورات کے بارے میں ہیں۔ خان صاحب کے نزدیک جس انداز میں علماے دیوبند رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات کرتے ہیں، وہ غیر ضروری طور پر اشتعال انگیز اور صراحتاً گستاخانہ ہے۔ عقلی اعتبار سے ان کے دلائل درست بھی ہوں، تو بھی جس انداز سے وہ اپنے دلائل پیش کرتے ہیں، وہ قابل مذمت ہے۔ خان کی نظر میں انھوں نے جس ڈھٹائی سے رسول اللہ ﷺ کا موازنہ شیطان، پاگلوں اور چوپایوں کے ساتھ کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کی شکل بگاڑ رہے ہیں۔ خان صاحب سمجھتے تھے کہ یہ موازنے اور فرضی مثالیں روایت کے لیے ایک فوری خطرہ ہیں، کیونکہ یہ خوف ناک حد تک تصور کی حدود کو وسعت دیتی ہیں۔ دیوبندی فکر سے خان صاحب کو جو شدید مسئلہ تھا، اس میں آداب گفتگو کی اہمیت الدولة المکية میں ان کی اس عبارت سے معلوم ہوتی ہیں: "ہم یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ خدا نے رسول اللہ ﷺ کو صرف بعض علم عطا کیا۔ لیکن ان کے 'بعض' اور ہمارے 'بعض' میں اتنا فرق ہے، جتنا دن اور رات میں۔ وہابیوں کا 'بعض' نفرت اور توہین کا  ہے، اور ہمارا 'بعض' عزت واحترام کا ہے"(فبعض الوهابية بعض بغض وتوهين وبعضنا بعض عز وتمكين)17۔ جیسا کہ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ خان صاحب نے دیوبندی اور بریلوی مواقف کے درمیان کافی ہم آہنگی کو تسلیم کیا، لیکن وہ جس بات سے سراسیمہ ہیں، ان کی نظر میں وہ دیوبندی فکر کا گستاخانہ رویہ ہے۔ اس کے برعکس اکابر دیوبند جہاں خان نے ان کی جو تصویر کشی کی ہے، اس سے اختلاف کرتے ہیں، وہیں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ توحید کے تحفظ کے لیے چند استدلالی خطرات مول لینا مناسب ہے۔ صورتِ حال کی نزاکت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کسی قدر استدلالی بے باکی سے کام لیا جائے۔

 نتیجتاً جو مناظرانہ دور پچھلے ابواب میں ذکر ہوا، وہ ان اخلاقی بھلائیوں کے دو بنیادی متوازی تصورات کو سامنے لاتا ہے، جو روایت کی ہم آہنگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ مزید برآں یہ حریفانہ کش مکش کی وہ ہنگامی صورتِ حال تھی جس کے اندر مولانا احمد رضا خان اور اکابرِ دیوبند نے روایت کی حدود پر اپنے متخالف نظریات پر بحث ومباحثہ کیا، اور اس طرح سے انھیں بنیادی طور پر نمایاں کیا۔ یہی مخالف استدلال وہ چیز تھا، جس کے ذریعے ان دو مکاتبِ فکر کی شناختوں نے ایک استدلالی فکر صورت اختیار کی۔ ان کے مناظروں میں شناخت اور اختلاف ایک دوسرے کی تشکیل کر رہے تھے۔ اس لیے اسلام کے متعلق پہلے سے قائم کردہ تصورات کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس مناظرے میں داخل نہیں ہوا جا سکتا۔بلکہ اسلام کی حدود سے متعلق مخصوص سوالات اور ان کے جوابات اسی مناقشے کی مخاصمانہ فضا میں پیدا ہوئے۔ بریلوی اور دیوبندی مسلک کے اکابر نے اپنے اپنے زاویۂ نظر کے مطابق روایت واصلاح کے مربوط اور مستند حریف تصورات تشکیل دیے۔ روایت کے متعلق ان کے حریف بیانیوں کو فقہ/تصوف، اصلاحی/غیر اصلاحی، یا روایتی/جدت پسند جیسے تقابلات کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ تقابلات روایت واصلاح کی سرحدوں پر واقع شرعی افکار سے متعلق نظریاتی دائرے تشکیل دیتے ہیں، اس سے پہلے کہ ان مناقشوں کی ہنگامی صورتِ حال کو زیر غور لائیں، جن میں یہ حدود بنیادی طور پر نمایاں ہوئیں۔ اس کے بجاے بریلوی دیوبندی مناقشہ ایک ایسے تجزیاتی طریق کار کا تقاضا کرتا ہے، جو اس مفروضے پر مبنی نہ ہو کہ کون جیتا اور کون ہارا، بلکہ وہ اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہو کہ وہ کون سی فکری یا غیر فکری نسبتیں تھیں، جن کے ذریعے روایت کی وسعت اور حدود تشکیل دی گئیں، پھر ان کو سامنے لایا گیا، اور اس پر بحث ومباحثہ کیا گیا18۔

حواشی

  1. مولانا رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ (کراچی: محمد کارخانۂ تجارت اسلامی کتب، 1987)، 234 – 38۔
  2. ایضاً، 454۔
  3. ایضاً۔
  4. ایضاً، 453۔
  5. اوشا سانیال، Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Riza Khan Barelwi and His Movement, 1870 – 1920 (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1996)، 233۔
  6. مہند عربی زبان کا لفظ ہے،جس کا معنی ہے ہندوستانی لوہے کی بنی تلوار۔ اور یوں یہ ایک ہندوستانی عالم کی جانب سے ہندوستانی علما کے دفاع میں لکھی گئی کتاب کا کوئی اتفاقی نام نہیں۔
  7. خلیل احمد سہارن پوری، المهند على المفند(لاہور: المیزان، 2005)، 22 – 73۔
  8. منظور نعمانی، فیصلہ کن مناظرہ (کراچی: دارالاشاعت، تاریخ ندارد)، 61 – 95۔ آنے والے تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے لیے گئے ہیں،اور متن میں بین القوسین درج کیے گئے ہیں۔
  9. مولانا نعمانی نے یہ عبارت علم غیب سے متعلق خان کی مشہور کتاب الدولة المكية سےمستعار لی ہے۔ بحوالہ نعمانی، فیصلہ کن مناظرہ، 194۔
  10. یاد کریں کہ یہ مسئلہ اس محفل میلاد کے دوران متعدد مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی موجودگی سے شروع ہوا تھا۔
  11. مولانا نعمانی نے قرآنی آیت کا حوالہ دیا: "تمھارے ارد گرد جو اعراب کے لوگ ہیں، وہ منافق ہیں، اور مدینے کے کچھ باسی تو اور تمھارے گردونواح کے بعض دیہاتی بھی منافق ہیں اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انھیں نہیں جانتے ہم جانتے ہیں (قرآن 9: 101)۔
  12. قرآن 36 : 69۔
  13. مارگریٹ پرناو، Ashraf into Middle Classes: Muslims in Nineteenth-Century Delhi(نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2013)، 271۔
  14. ایضاً۔
  15. مولانا نعمانی کا منہج یہاں پر عبد القادر طیب کی عالمانہ تحقیق بعنوان Religion in Modern Islamic Discourse (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)مین کیے گئے دعوے کو پھیلاتی ہے، اور اس کی ایک اہم وضاحت پیش کرتی ہے کہ انیسویں صدی کے بعد "وقتا فوقتاً دین اور دینی کلیدی اصطلاحا ت بن گئے، جن کے ارد گرد اسلام کے نئی معانی کی بنیاد اور تشکیل کی گئی(16)۔  اگر چہ طیب نے اپنے تجزیے میں بڑی حد تک جدیدیت پسند، اسلام پسند اور تانیثیت پسند علما پرانحصار کیا ہے، تاہم مولانا نعمانی اور مولانا تھانوی کی مثالیں بھی  (جیسا کہ ساتویں باب میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کے فیصلے کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے)وہ تخلیقی پہلو سامنے لاتی ہیں، جہاں روایتی مسلمان اہل علم نےزندگی کے ایک ممتاز دائرے کی حیثیت سے  مذہب کی جدید فکری تشکیلات میں اپنا کردار کیا۔
  16. رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ (لاہور: مکتبۂ رحمانیہ، تاریخ ندارد)، 225۔
  17. ا۔ خان، الدولة المكية، 277۔
  18. یہاں پر میرا نظری موقف انندا ابیسیکارا کے مرہونِ منت ہے۔Identity for and against Itself: Religion, Criticism, and Pluralization، جرنل آف دی امیریکن اکیڈمی آف ریلجن 72، نمبر 4 (2004): 973 – 1001۔

(جاری)

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter