(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا تیسرا باب — اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ)
حاکمیت الہیہ اور عقیدہ توحید کا احیا
شاہ محمد اسماعیل کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی تصورات میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کا احیا ہے۔ حاکمیتِ اعلیٰ کے بارے میں ان کی بحث تباہ کن اخلاقی زوال کے ایک بیانے میں ملفوف ہے۔ شاہ اسماعیل کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستانی مسلمانوں نے خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تقریباً بھلا دیا ہے۔ انھوں نے اس اپنے تجزیے کی اساس اس مشاہدے پر رکھی ہے کہ انبیا، اولیا اور دیگر غیر خدائی ہستیاں عوام کی مذہبی زندگی میں رچ بس گئی ہیں۔ "ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہم دنیا میں جو چاہے کریں، کوئی صاحبِ کرامت ولی یا نبی ہماری شفاعت کر دے گا یا ہمیں خدا کے عذاب سے بچا لے گا۔ یہ رویہ انتہائی احمقانہ اور غلط ہے۔ آخرت میں خدا کے رحم وکرم اور عفو ودرگزر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ ان عوام نے اولیا، شہدا پر اندھا اعتماد کر کے خدا کو بھلا دیا ہے۔ وہ مکمل گمراہ ہو گئے ہیں"1۔
اگر چہ ان خیالات کا اظہار شاہ اسماعیل کی کئی کتابوں میں ہے، تاہم ان کی مختصر ترین مگر سب سے زیادہ متنازع کتاب "تقویۃ الایمان" میں اس موضوع پر پوری قوت کے ساتھ بحث کی گئی ہے2۔ یہ کتاب امریکی ٹریکٹ سوسائٹی (1825) کے قیام کے ایک سال بعد لکھی گئی، جو نشر واشاعت پر انحصار کرنے والی ان متعدد تنظیموں سے ایک تھی جہاں سے نمایاں امریکی اصلاح پسندوں (evangelicals) نے اپنی جد وجہد کا آغا ز کیا3، اور جن کے ساتھ باہمی دل چسپی کے کئی امور پر یکساں موقف رکھنے کی وجہ سے شاہ اسماعیل بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ تقویۃ الایمان آج تک گرما گرم مباحثوں اور مناظروں کا باعث ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی اولین اشاعت کے بعد اس کی تردید میں اب تک 250 سے زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہیں4۔
تقویۃ الایمان کا شمار ان اولین اردو کتابوں میں ہوتا ہے جو متخصِّص اہل علم کے بجاے عامۃ الناس کے لیے سادہ اور عام فہم زبان میں لکھی گئی تھی۔یہ ہندوستان کی اسلامی تاریخ کے ایک ایسے دور میں چھپی جب اردو تدریجی لیکن فیصلہ کن انداز میں مذہبی اور ادبی اشرافیہ کے درمیان رابطے کے زبان کی حیثیت سے فارسی کی جگہ لے رہی تھی۔ تقویۃ الایمان کا تحریری انداز عوام کی ذہنی سطح کے مطابق ہے۔ کتاب کی تمام فصول کا آغاز کسی قرآنی آیت یا حدیث سے ہوتا ہے جس کے بعد اسماعیل اس کا ترجمہ اور تشریح پیش کرتے ہیں۔ عوام کے لیے کتاب کو عام فہم بنانے کی کوشش کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انھوں نے بار بار اللہ کے نام کے ساتھ عرف عام میں مستعمل "صاحب" کا لاحقہ لگایا ہے۔ اپنے تصور میں خالص اسلام کو بیان کرنے کے لیے وہ بار بار "ٹھیٹھ اسلام" کی عامیانہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں، ایسی اصطلاح جو عموماً کسی شخص کی نسلی یا علاقائی شناخت کے اصلی اور خالص ہونے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جیسا کہ "ٹھیٹھ" پنجابی۔
تقویۃ الایمان کے مقدمے میں شاہ اسماعیل واضح کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ کتاب عام فہم اردو میں اس لیے لکھی تاکہ عامۃ الناس بآسانی اس کے مطالب سمجھ سکیں۔ مزید برآں وہ اپنے قارئین سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس تصور کو رد کریں کہ قرآن وسنت تک رسائی صرف علما کے لیے ممکن ہے۔ شاہ اسماعیل اسے یوں بیان کرتے ہیں: یہ جو عوام الناس میں مشہور ہے کہ اللہ اور رسول کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے اس کے لیے بڑا علم چاہیے، ہم میں وہ طاقت کہاں کہ ان کا کلام سمجھیں، اس راہ پر چلنا بڑے بزرگوں کا کام ہے، ہماری کیا طاقت ہے کہ اس کے موافق چلیں، بلکہ ہمارے لیے یہی باتیں کفایت کرتی ہیں جن پر چلے جاتے ہیں، سو یہ بات بہت غلط ہے۔ اس واسطے کہ اللہ صاحب نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید بہت صاف وصریح ہے۔ اس کا سمجھنا مشکل نہیں۔ چنانچہ سورۃ البقرہ میں فرمایا ہے: "اور بے شک ہم نے آپ پر کھلی باتیں اتاریں، ان سے منکر وہی ہوتے ہیں، جو لوگ فاسق ہیں"5۔
عام فہم زبان میں لکھنے کی مشق دراصل اس معاصر رجحان کا حصہ بننا تھا جس کا مقصد دینی فکر کو عامۃ الناس کے لیے قابلِ فہم بنانا تھا۔ یہ رجحان "موضح القرآن" کے نام سے ان کے تایا شاہ عبد القادر کے ترجمۂ قرآن میں، جو 1790 میں لکھا گیا اور 1829 میں چھپا، زیادہ واضح طور پر نظر آتا ہے6۔ اس ترجمے کے ذریعے شاہ عبد القادر نے اپنے والد شاہ ولی اللہ کی مقامی زبانوں میں ترجمۂ قرآن کی تحریک کو جاری رکھا ، جنھوں نے باوجود شدید مخالفت کے پہلی بار قرآن مجید کو فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں عوام کے لیے لکھی جانے والی اصلاحی کتابوں میں صرف تقویۃ الایمان واحد کتاب نہیں تھی۔ اس طرح کی کتابوں کی ایک اور نمایاں مثال "نصیحۃ المسلمین" کے عنوان سے اسماعیل کے نسبتاً ایک کم معروف معاصر خرم علی (م 1855) کا کتابچہ ہے جو تقریباً 1824 میں چھپا7 اور حیرت انگیز طور پر تقویۃ الایمان کے اسلوب، فصاحت اور پیغام سے مماثلت رکھتا ہے۔
تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے احیا کے لیے موجودہ معاشرے میں اخلاقی زوال کی ایک مخصوص داستان سنا کر اپنے استدلال کو تقویت پہنچائی ہے۔ ان کے نزدیک عوام کے میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے متعدد حریف نشو ونما پا رہے ہیں۔ اس داستان کی رو سے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بھاری اکثریت، جس میں عوام اور خواص دونوں شامل ہیں، کفر وشرک کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
وہ اس پر تنبیہ کے ساتھ طنز کا تڑکا ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:
سو سنا چاہیے اکثر لوگ پیروں کو، پیغمبروں کو، اماموں کو، شہیدوں کو، فرشتوں کو، پریوں کو مشکل کے وقت پکارتے ہیں۔ ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ ان کی منتیں مانتے ہیں۔ حاجت برآنے کے لیے ان کی نذر نیاز کرتے ہیں۔ بلا کے ٹالنے کے لیے اپنے بیٹوں کی ان کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ کوئی اپنے بیٹے کا نام عبد النبی رکھتا ہے، کوئی علی بخش، کوئی حسین بخش، کوئی پیر بخش، کوئی مدار بخش، کوئی سالار بخش، کوئی غلام محی الدین، کوئی غلام معین الدین8۔
شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ ایسا نہیں ہے کہ لوگ خدا کی مطلق حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) پر ایمان سے دست بردار ہو گئے ہیں یا ملحد بن گئے ہیں۔ اس کے بجاے خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی روز مرہ زندگی میں رائج چند رویوں، اعمال اور رواجوں سے مجروح ہو رہی ہے جو کسی شرعی دلیل کے بجاے عرف ورواج پر مبنی ہیں۔ شاہ سماعیل کے نزدیک ایسے اعمال اور رسوم ورواج کی تعداد اور اقسام بہت زیادہ ہیں اور وہ عقائد سے لے کر روز مرہ کے معمولات تک میں سرایت کر چکے ہیں۔ ان تمام یا ان میں سے اکثر کا احاطہ یہاں نہیں کیا جا سکتا، تاہم ان کی چند مثالیں یہ ہیں: انبیا یا اولیا کے لیے علمِ غیب ثابت کرنا، ولی سے اولاد مانگنا، بغیر کسی شرعی جواز کے کچھ جانوروں یا پابندیوں کو مقدس ماننا، انبیا اور اولیا کے میلاد اور عرس کی تقریبات منعقد کرانا اور ان میں شریک ہونا، اور یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ ذاتی طور پر برکات کے نزول کے لیے ان اجتماعات میں تشریف لاتے ہیں، ضرورت وتکلیف کے وقت میں اولیا کو مدد کے لیے پکارنا، شطرنج اور مشاعروں جیسی لایعنی سرگرمیوں میں پوری پابندی اور اہتمام کے ساتھ شریک ہونا جیسے وہ نماز اور روزہ کی طرح دین کے فرض احکامات ہوں، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ ایک فوت شدہ ولی زندہ انسانوں کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
شاہ اسماعیل اور شاہ ولی اللہ: اصلاح کے تغیر پذیر مناہج
جس اصلاحی مشن کا آغاز شاہ اسماعیل نے کیا ، وہ انیسویں صدی کے لیے یکسر نیا، غیر متوقع یا منفرد نہیں تھا۔ اٹھارھویں صدی یا اس سے بھی قبل مسلمان اہل علم نے عوام میں رائج رسموں اور رواجوں پر بکثرت تنقید کی ہے۔ مثلاً اپنی آخری وصیت میں شاہ اسماعیل کے دادا شاہ ولی اللہ نے نکاح بیوگان سے گریز جیسی "ناپاک رسموں" کی سختی سے مخالفت کی ہے۔، وہ اسے ہندؤوں کے اثرات کا نتیجہ سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان اس سے دور رہیں۔ انھوں نے غمی وشادی کی تقریبات میں فضول خرچی کے رجحان پر بھی ہندوستانی مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ "ہماری مذموم عادات میں سے ایک عادت فضول خرچی ہے"۔9
ایک دوسری مثال اٹھارھویں صدی کے نقشبندی صوفی اور حنفی فقیہ اور شاہ ولی اللہ کے مشہورِ زمانہ معاصر مرزا مظہر جان جانان (م 1781) کے خلیفۂ مجاز قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م 1810) کی ہے10۔ فقہی مسائل کے بارے میں (فارسی میں) اپنی کتاب "ما لا بدَّ منہ" میں قاضی صاحب نے "شطرنج، پتے کھیلنا بالخصوص جب اس پر شرطیں لگائی جائیں، کبوتر بازی، کبوتروں کی لڑائی، مرغوں کی لڑائی وغیرہ" جیسے رسوم ورواجات کو واشگاف انداز میں ناجائز قرار دیا ہے جو بڑے پیمانے پر عوام میں رائج تھیں۔11 اسی سال کی عمر میں، جب ان کی موت کا وقت کا قریب تھا، قاضی صاحب نے اپنی موت کے بعد ادا کی جانے والی رسموں کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں۔ ان میں سے اپنے ورثا کے نام ایک واضح ہدایت یہ ہے: "میرے مرنے کے بعد میری دہم، بستم، چہلم، شش ماہی اور سال منانے کی دنیوی رسمیں بالکل ادا نہ کریں۔ حضور ﷺ نے واضح طور پر تین دن سے زیادہ سوگ کو منع فرمایا ہے، اور (میت پر) چیخ وپکار اور عورتوں کے نوحہ کو بھی ممنوع قرار دیا ہے"12۔
انیسویں صدی کے اوائل اور بعد ازاں اواخر میں برصغیر میں شاہ اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے مصلحین کی سرگرمیوں میں اس نوعیت کے مسائل کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اس طرح سے برصغیری اسلام کی تاریخ میں اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے درمیان ایک واضح تسلسل پایا جاتا ہے۔ عوام میں رائج رسوم ورواجات پر کاٹ دار تنقید اور ان اقدار میں شدید دل چسپی جو خدائی حاکمیت اور روزمرہ کے اعمال کے درمیان ربط کی نگرانی کرتیں ہیں، جدید استعماری دور کی پیداوار نہیں تھی۔ تاہم اس تسلسل کے باوجود شاہ اسماعیل جیسے عالم کی فکری زندگی چند بنیادی حوالوں سے اپنے پیش روؤں سے مختلف ہے۔ میں ان میں سے تین پہلووں کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔
پہلی چیز یہ ہے کہ ان کے ہاں مستند مذہبیت کے لیے روزمرہ کی زندگی اور اعمال کو ایک فیصلہ کن میدان اور معیار قرار دینے کے رجحان میں شدت آئی ہے۔ جس وسعت کے ساتھ اسماعیل نے روز مرہ کے رسوم ورواج کو اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں اپنے اصلاحی دائرے میں شامل کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ اس سے پہلے کی تاریخ میں شادی بیاہ کی تقریبات، مرغوں کی لڑائی اور پتنگ بازی جیسے اعمال پر اس طرح کی واضح بحثیں بمشکل ملتی ہیں، جس طرح کہ انیسویں صدی کی اصلاحی تحریروں میں نظر آتی ہیں۔ دوسری یہ کہ نشر واشاعت کی ٹیکنالوجی، ڈاک کا نظام اور ریل گاڑی کے عام ہونے کی وجہ سے نہ صرف اصلاحی اور اصلاح مخالف آوازیں ایک وسیع حلقے تک پہنچنے لگیں، بلکہ ایک متعین اور مشخص عوامی طبقہ کا تصور بھی ابھرا جو اصلاح اور شرعی احکام کے متوازی تصورات کے حامی اور پیروکار بن سکتے ہوں۔13 تیسری یہ کہ انیسویں صدی میں براہ راست اور بالواسطہ زبانی اور تحریروں مناظروں میں ایک غیر معمولی اضافہ اور شدت سامنے آئی۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اٹھارویں صدی سے انیسویں صدی تک کے اصلاحی مناہج میں ایک باریک لیکن انتہائی اہم فکری تبدیلی رونما ہوئی۔ اس تبدیلی کو جاننے کے لیے شاہ ولی اللہ اور ان کے پوتے شاہ اسماعیل کے اصلاحی مناہج کے درمیان موازنہ اور تقابل مفید رہے گا۔ باوجود یکہ تصوف پر ان دونوں کی تحریروں مثلاً شاہ ولی اللہ کی "لمعات" اور "سطعات" اور شاہ اسماعیل کی "عبقات" میں کافی حد تک مماثلت ہے، شاہ ولی اللہ کی افتاد طبع اپنے پوتے کی جارحانہ اور انتہا پسند طبیعت سے واضح طور پر مختلف تھی۔ میں یہاں شاہ ولی اللہ کے سوانح میں سے ایک واقعہ نقل کرنا چاہوں گا تاکہ قارئین اس تقابل کی ایک بہتر تفہیم حاصل کریں۔ یہ واقعہ مولانا عبید اللہ سندھی (م 1944، بیسویں صدی کے ایک دیوبندی عالم/انقلابی کارکن اور ولی اللہی فکر کے ایک نمایاں شارح) کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے سیاسی نظریے اور فکری ورثے پر اپنی مشہور کتاب "شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک" میں مولانا سندھی درج ذیل واقعہ بیان کرتے ہیں:
ایک بار ایک معروف عالم دین مولانا محمد فاخِر الہ آبادی (م 1760) شاہ ولی اللہ سے ملنے کے لیے دلی آئے14۔ ایک مقامی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے مولانا فخر (جو کہ ایک غیر مقلد عالم تھے) نے رفع الیدین کیا برصغیر کے احناف اور غیر مقلدین15 کے درمیان شدید متنازع فیہ عمل تھا۔ جب مسجد میں موجود احناف نے الٰہ آبادی کے اس عمل کو دیکھا تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ ہجوم تشدد پر آمادہ تھا، لیکن جب انھیں پتا چلا کہ یہ باہر سے آیا ہوا شخص شاہ ولی اللہ کا مہمان ہے تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ لوگ الٰہ آبادی کو شاہ ولی اللہ کے گھر تک لے گئے تاکہ وہ اس مسئلے میں اپنا فیصلہ سنائیں۔ جب انھوں نے شاہ ولی اللہ کی راے مانگی تو شاہ صاحب نے ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر کہا: "آرام سے! رفع الیدین کی تائید میں احادیث ملتی ہیں۔ میں خود بھی کبھی کبھار کر لیتا ہوں"۔ یہ سنتے ہی ہجوم منتشر ہو گیا۔ جب وہ چلے گئے تو الہ آبادی نے حیرت کے عالَم میں شاہ ولی اللہ سے پوچھا: "مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ بھی رفع الیدین کرتے ہیں"۔ شاہ ولی اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا: "اصل میں میں رفع الیدین نہیں کرتا، لیکن اگر آج میں نے ایسا نہ کہہ دیا ہوتا تو وہ آپ کو مار دیتے"۔ انھوں نے مزید بتایا: "حکیم وہ نہیں جو بغیر کسی وجہ کے لوگوں کو اپنے مخالفین میں بدل دیتا ہے"16۔
شاہ ولی اللہ کے نزدیک اس وقت عبادات میں باریکیوں پر زور دینے کے مقابلے میں معاشرتی نظم کو برقرار رکھنا افضل تھا اور یہی موقف بعد میں ایک صوفی شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے پیش کیا جن کے بارے میں ہم بارہویں باب میں مزید جانیں گے۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب نے ایک ہنگامے کو بہترین انداز میں رفع دفع کیا۔ اس کے برعکس ان کے پوتے اسماعیل کے نزدیک روزمرہ کی زندگی کی ایک باریک تنظیم سے ہی معاشرتی نظم کا حصول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر دنیا اخلاقی انتشار میں مبتلا رہتی ہے اور اپنے علاج کے لیے ایک ایسی جارحانہ تدبیر کی ضرورت مند ہوتی ہے جس کی ترتیب اور تنفیذ مذہبی مصلح کا کام ہے۔
میرے نزدیک اندازِ فکر کا یہ اختلاف محض دادا اور پوتے کے درمیان افتادِ طبع کا اختلاف نہیں تھا۔ اس کے بجاے یہ ان وسیع تر تبدیلیوں اور انقلابات کی پیداوار تھا جن کی وجہ سے ہلچل اور مسابقت سے بھرپور انیسویں صدی میں برصغیری اسلام کے عبوری سفر کا آغاز ہوا۔ میں کتاب کے پہلے حصے کے آخر میں اور پھر چھٹے باب کے آغاز میں ان تسلسلات اور تغیرات کی طرف واپس آؤں گا جنھوں نے برصغیری اسلام کے ماقبل استعمار سے مابعد استعمار دور میں داخلے کے اس عبوری سفر کو ممکن بنایا۔ لیکن اس سے پہلے میں اسماعیل کے سیاسی نظریات اور اصلاحی پروجیکٹ کو زیرِ بحث لانا چاہتا ہوں۔
خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کا تحفظ: مذہب کو بدعات سے لاحق خطرات
شاہ اسماعیل کے معاشرتی تخیل میں یہ مفروضہ سرایت کیے ہوئے تھا کہ انسانوں اور شریعتِ الٰہی کے درمیان ایک ہمہ وقت اور مسلسل کش مکش برپا ہے۔ جیسا کہ میں اس کتاب کے دوسرے حصے میں نسبتاً تفصیل سے بیان کروں گا، شاہ اسماعیل اور ان کے بعد دیوبند کے پیش روؤں کے تصورِ بدعت میں احکامِ الٰہیہ میں تغیر پیدا ہونے کا تصور مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔ شاہ اسماعیل نے بدعت کی تعریف اس طرح سے کی کہ ہر وہ عادت یا رسم جس کی انجام دہی شرعی حکم نہ ہو اور اس کے باوجود اسے اس التزام اور جذبے سے سرانجام دیا جائے کہ وہ شرعی عمل کا روپ دھار لے، بدعت ہے۔
اس انداز سے ایک غیر شرعی عمل کو دین کے دائرے میں شامل کر لینا بدعت ہے، کیونکہ یہ تنہا اور مطلق شارع کی حیثیت سے خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ کو چیلنج کرنا ہے ، کیونکہ وہی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ کون سا حکم شرعی ہے اور کون سا غیر شرعی۔ اس لیے شاہ اسماعیل کی فکر میں فقہ، عقیدہ، ایمان اور عمل میں تفریق ناممکن ہے۔ "بدعت اپنے جوہر کے اعتبار سے عقیدے کے مسائل میں سے ہے۔ کسی عمل کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ مفید ہے، حالانکہ خدا نے اسے مفید نہیں کہا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی عمل نقصان دہ ہے، حالانکہ خدا نے اسے نقصان دہ نہیں قرار دیا، یہ بدعتِ حقیقی کی تعریف ہے"17۔
چنانچہ عقیدہ شاہ اسماعیل کے نزدیک پختہ اعتقادات کا کوئی داخلی مسئلہ نہیں، بلکہ علم کا ایک متحرک موضوع ہے۔ عقیدہ وعلم اس طرح باہم گندھے ہوئے ہیں کہ انھیں جدا کرنا ناممکن ہے۔ کسی عمل کے نقصان دہ ہونے کا علم اس کے بارے میں یہی اعتقاد رکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ "آپ اسی چیز پر یقین رکھتے ہیں، جس کا آپ کو علم ہو" کا محاورہ شاہ اسماعیل کی فکر کی بنیاد تھا۔ مزید برآں بدعت ایک ایسی صورت حال کو ظاہر کرتی ہے جس میں علم وعقیدہ کے درمیان خدا کے مقرر کردہ تعلق میں انسان اپنی طرف سے نیا اضافہ کر کے خلل ڈالتا ہے۔ اس لیے بدعت کا مفہوم اپنی طرف سے کسی چیز کو ایجاد کرنا ہے، جس میں ایک بندہ اپنی مرضی سے شریعت میں ایک ایسے حکم کا اضافہ کرتا ہے جسے خدائی جواز حاصل نہ ہو، اور نتیجتاً اس سے شریعت اور اس کے حدود کی تعیین میں مطلق صاحب اختیار کی حیثیت سے خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی مخالفت لازم آتی ہے۔
شاہ اسماعیل نے بتایا کہ علم، عقیدہ اور عمل کے اس میدان کو خدا کی طرف سے منظور شدہ احکام وضوابط سے ہم آہنگ بنانے کے لیے یہ ناگزیر تھا کہ ایسے افراد اور پھر ایسے عوام کی تربیت کی جائے جن کے لیے کسی قسم کی ایسی فکر اور سرگرمی فیصلہ کن طور پر ناقابلِ برداشت ہو جو خدا کی حاکمیتِ مطلقہ میں کسی شک وشبہہ کا سبب بنتی ہو18۔
حاکمیتِ اعلیٰ کے خاص دائرے اور شعائر
لیکن اطاعت وبندگی کی وہ کون سی علامات ہیں جو خدا نے صرف اپنی ذات کے ساتھ خاص کی ہیں؟ فکر وعمل کے وہ کون سے مخصوص اور اعلیٰ وارفع دائرے ہیں جن کے ذریعے انسان خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کا اقرار اور تصدیق کریں، اور جو غیر اللہ کے لیے نہ بجا لائے جا سکیں؟ اس بنیادی سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہ اسماعیل نے شرک کی چار اقسام بیان کی جن میں سے ہر ایک کا تعلق کچھ ایسے مخصوص اعمال سے ہے جو صرف اور صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، اور اسی وجہ سے کسی دوسرے فرد کے لیے انھیں نہیں بجا لایا جا سکتا۔ شرک کی ان اقسام میں ۱۔ علم میں شرک، ۲۔ تصرف (فطرت کے عام قانون سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کی قدرت) میں شرک، عبادت میں شرک اور عادات (روزمرہ کے رسم ورواج اور اعمال واطوار) میں شرک شامل ہیں۔ میں شاہ اسماعیل کی تشریح کے مطابق ان کی وضاحت کرتا ہوں۔
شرک فی العلم میں وہ تمام اعمال اور اطوار شامل ہیں جو خدا کے عالم الغیب ہونے کے تصور کو کمزور کرتے ہیں۔ مثلاً کسی ولی کے نام کا مسلسل ورد کرنا، اس عقیدے سے اسے پکارنا کہ وہ سنتا ہے، یا یہ خیال کرنا کہ تمام انسانی عوارض جیسے بیماری، ناداری، زندگی اور موت سے اصحاب کشف وکرامت شخصیات واقف ہوتی ہیں۔ مختصر یہ کہ شرک فی العلم سے مراد علم کی ان اقسام کو غیر اللہ کے لیے ثابت کرنا ہے جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں19۔
شرک فی التصرف سے مراد یہ ہے کہ اپنی مرضی سے کسی کی جان لینے، دعائیں قبول کرنے، شر کو دفع کرنے، بیماری لانے اور شفا دینے کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے۔ یہ وہ صفات ہیں جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، اور اسی وجہ سے غیر اللہ کے لیے ان کا اثبات نہیں کیا جا سکتا۔
شرک فی العبادات سے مراد یہ کہ وہ عبادات، اعمال اور سرگرمیاں جو خدا نے اپنی عبادت کی علامات کے طور پر اپنے ساتھ خاص کی ہے، انھیں کسی اور کے لیے بجا لایا جائے۔ مثلاً رکوع کرنا، سجدہ کرنا، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، خدا کے نام پر صدقہ خیرات دینا، اس کے نام کا روزہ رکھنا، حج بیت اللہ کے لیے دور دراز سے سفر کر کے آنا، حاجی کا ایسا انداز اختیار کرنا جو اسے دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کرے، حرمِ مکی میں فضول گپ شپ اور شکار سے اجتناب کرنا، کعبہ کے گرد طواف کرنا، کعبہ پر غلاف چڑھانا، حجرِ اسود کو بوسہ دینا، حرم کے درختوں اور گھاس کا نہ کاٹنا، اور حرم میں جانور نہ چَرانا تمام وہ اعمال ہیں جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے شعائر کے طور پر متعین کیے گئے ہیں۔
ان اعمال اور عبادات کی بجا آوری جو صرف مخصوص مقامات میں مشروع کیے گئے ہیں، کسی ایسی جگہ میں کرنا بھی بدعت ہے جہاں پر یہ مشروع قرار نہیں دیے گئے، مثلاً اولیا کے مزاروں کی زیارت کے مواقع پر ان اعمال کو بجا لانا۔ بالفاظِ دیگر شرک فی العبادات سے مراد شاہ اسماعیل کے نزدیک خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ کے ساتھ مخصوص اعمال کو دیگر سیاقات میں بجا لانا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے یہ تمام کام صرف اپنی عبادت کے لیے خاص کیے ہیں۔ سو اس قسم کے کام کسی اور کی تعظیم کے لیے نہیں کرنے چاہییں۔ کسی کی قبر پر چلے جانا یا دور دراز سے کسی کے تھان کا قصد کرنا، سفر کی رنج وتکلیف اٹھا کر اور میلے کچیلے ہو کر وہاں پہنچنا، وہاں جاکر جانور چڑھانا، منتیں پوری کرنا، کسی قبر یا مکان کا طواف کرنا، اس کے گرد وپیش کے جنگل کا ادب کرنا یعنی وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، گھاس نہ اکھاڑنا اور اسی قسم کے دوسرے آداب بجا لانا اور ان سے کچھ دین ودنیا کے فائدہ کی توقع رکھنا، یہ سب شرک کی باتیں ہیں۔ ان سے بچنا چاہیے، کیوں کہ یہ معاملہ خالق ہی سے کیا جانا چاہیے۔ کسی مخلوق کی شان نہیں کہ اس سے یہ معاملہ کیا جائے"20۔
شرک فی العادات یعنی روزمرہ کی عادات اور معمولات میں شرک ان چار اقسام میں سب سے زیادہ عام قسم ہے۔ یہ وہی قسم ہے جو اشرافیہ کے طرز زندگی پر شاہ اسماعیل کی وسیع تر تنقید کو ان کے کلامی فکر سے زیادہ صراحت کے ساتھ جوڑتی ہے۔ اس قسم میں شامل چند اعمال میں سے روزمرہ کی گفتگو میں دوسرے لوگوں کی حد سے زیادہ تقدیس کرنا، جیسے کسی کو "جنابِ عالی" یا "قبلہ" جیسے القاب وآداب کے ساتھ پکارنا، یا اپنے نام ونسب پر فخر کرنا، جیسے کوئی پٹھان، راجپوت اور مغل خاندان سے تعلق ہونے پر فخر کرے، اور ادب واحترام کی خاطر نیک لوگوں یا بزرگوں کے ہاتھ چھومنا شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ شرک فی العادات میں روزمرہ کی زندگی میں غیر اللہ کو وہی تقدس دیا جاتا ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ شرک کی یہ تمام اقسام ہندوستانی مسلمانوں میں پنپ رہی تھیں۔
روایت بطور اصل معیاری نمونے کا اعادہ
شاہ اسماعیل کے اصلاحی بیانیے کے مطابق ابتدائے اسلام میں جس طرح آنحضرت ﷺ اور ان کے تشکیل کردہ نومسلم معاشرے اور مشرکین، یہودیوں اور عیسائی دشمنوں کے مابین ایک کشمکش تھی، بعینہ وہی صورت حال اب انیسویں صدی کے ہندوستان میں وقوع پذیر ہے۔ اگر چہ کردار بدل گئے ہیں، لیکن کہانی وہی ہے۔ مختلف لباسوں میں ملبوس اہلِ بدعت راہِ سنت کی، جو خدا کی حاکمیتِ مُطلَقہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے عبارت ہے، مخالفت کر رہے ہیں، اور بے سوچے سمجھے اپنے آبا واجداد کی پیروی کر رہے ہیں۔ کیا یہ وہی جاہلیت نہیں ہے جس کی اصلاح کے لیے اسلام اور پیغمبر اسلام کو بھیجا کیا گیا تھا؟ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اسلام کے مخالفین کی طرح انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان بھی اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ بدعات وخرافات میں مکمل ڈوبے ہوئے ہیں۔ بہت سے دعوی تو مسلمانی کا کر رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ شرک وبدعت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انبیا اور اولیا کی تعظیم کے بہانے سے یہ لوگ بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں، اور انھیں اپنے گناہوں کا احساس تک نہیں ہوتا۔ شاہ اسماعیل جاہلیت کی اس صورت حال کی ایک واضح تصویر کشی کرکے اس اضطراب انگیز صورت حال کی اصلاح کے لیے اپنا پروگرام تجویز کرتے ہیں۔ اپنی ذات پر عموماً کیے جانے والے اعتراضات کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:
"ایمان کے اکثر دعوے دار شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ان سے کہے کہ تم دعوی تو ایمان کا کرتے ہو، مگر شرک میں گرفتار رہتے ہو، کیونکہ شرک وایمان کی متضاد راہوں کو ملا رہے ہو، تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم شرک نہیں کر رہے بلکہ انبیا واولیا سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے عقیدت مند ہیں۔ شرک تو تب ہوتا جب ہم انھیں اللہ کے برابر سمجھتے۔ ہم تو انھیں اللہ کے بندے اور مخلوق ہی سمجھتے ہیں۔ اللہ نے انھیں قدرت وتصرف بخشا ہے۔ یہ اللہ ہی کی مرضی سے دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔ ان کو پکارنا اللہ کو پکارنا ہے اور ان سے مدد مانگنا اللہ ہی سے مدد مانگنا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے پیارے ہیں، جو چاہیں کریں۔ یہ ہمارے سفارشی وکیل ہیں۔ ان کے ملنے سے رب مل جاتا ہے اور ان کے پکارنے سے رب کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ جتنا ہم انھیں مانیں گے، اسی نسبت سے ہم اللہ کے نزدیک ہوتے چلے جائیں گے"21۔
شاہ اسماعیل کی طرف سے اپنے اصلاحی مشن کے خلاف پیش کیے جانے والے اس ممکنہ استدلال کی تردید سے ہمیں واضح اشارات ملتے ہیں کہ ان کی نظر میں روایت کا تصور اور زمان کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا تھی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ بالکل وہی بہانے ہیں جو ابتداے اسلام میں مشرکین اور کفار پیش کیا کرتے تھے۔وہ اپنے قارئین کو یاد دلاتے ہیں کہ عہد نبوی کے مشرکین بھی اپنے بتوں کو خدا نہیں، بلکہ خدا کی مخلوق سمجھتے تھے۔ وہ بھی خدا کا کھلا نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ ان بتوں کے لیے خدائی طاقتوں کے قائل نہ تھے۔ لیکن بتوں کے نام پر قسم کھانے اور ان کے سامنے معافی کے لیے گڑگڑانے جیسے اعمال خدائی حاکمیت اعلیٰ (توحید) کی نفی کرتے تھے۔ اس لیے کہ یہی وہ اعمال ہیں جو خدا نے اپنی حاکمیت کے شعائر کے طور پر متعین کیے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے انھیں بجا لانا اس کی حاکمیتِ اعلیٰ کو چیلنج کرنا ہے۔
شاہ اسماعیل کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے خدا نے یہود ونصاری کی سرزنش کی تھی، کیونکہ وہ اپنے انبیا اور اولیا کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے تھے، اگر چہ وہ بتوں کی طرح ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ یہ مضمون بہت عمدگی سے درج ذیل قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: انھوں نے خدا کے بجاے اپنے علما اور درویشوں کو رب بنا لیا اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک خدا کی پرستش کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور وہ مشرکوں کے شرک سے پاک اور بلند وبرتر ہے22۔
یوں شاہ اسماعیل اپنے قیاس کو وسعت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انبیا واولیا کی حد سے زیادہ تعظیم کے ذریعے معاصر ہندوستانی مسلمانوں نے ویسے ہی خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو مجروح کیا ہے جیسے مشرکین نے ابتداے اسلام میں کیا تھا۔ دونوں کا جرم ایک تھا: خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے ساتھ مخصوص اعمال کو غیر خدائی ہستیوں کے لیے بجا لانا۔ آگے شاہ اسماعیل بتاتے ہیں کہ اسی طریقے سے ہندوستانی مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی حد سے زیادہ تعظیم کرکے آپ کی بشریت کی نفی کی ہے، جیسے مسیحیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کے مقام پر فائز کر دیا تھا۔ شاہ اسماعیل کے مطابق نبی ﷺ نے خود اپنی امت کو اس بابت عیسائیوں کی پیروی کے بارے میں خبردار کیا تھا: تم میری تعظیم میں اس طرح مبالغہ مت کرنا جس طرح مسیحیوں نے عیسیٰ بن مریم کی شان میں مبالغہ کیا۔ میں تو صرف خدا کا بندہ ہوں۔ اس لیے مجھے خدا کے بندے اور اس کے پیغمبر کے نام سے پکارا کرو"23۔
ایک اور موقع پر آپ نے اپنے صحابہ کو تنبیہ کی: میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اس مرتبے سے آگے بڑھاؤ جس پر اللہ نے مجھے رکھا ہے۔ میں محمد، عبد اللہ کا بیٹا، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں"24۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک ان نبوی تنبیہات کا مقصد خدائی حقیقت (حقیقتِ اُلوہیہ) اور حقیقتِ محمدیہ کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچنا تھا، ایک ایسی حد جسے عشق نبوی کے نام پر ہندوستانی مسلمان پامال کرتے رہتے ہیں۔یہ بعینہ وہی تجاوز ہے جو مسیحیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اور مشرکین مکہ نے اپنے بتوں کو خدائی صفات سے متصف کر کے کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر شاہ اسماعیل کی نظر میں اگر چہ ان دو ادوار کے درمیان زمانی فاصلہ ہے، لیکن انیسویں صدی کے اوائل کا اسلام اور ساتویں صدی کے عرب میں حضور ﷺ کی بعثت کا وقت دونوں اخلاقی اور جمالیاتی اعتبار سے ایک ہی مقام پر ہیں۔
اس مقام کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ اس میں خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کی یکتائی کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ مزید برآں حضور ﷺ کے بعد شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کا یہ فرض ہے کہ وہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے مقابلے میں کھڑے ہونے والی دیگر حقیقی یا فرضی ہستیوں کا اپنی تبلیغی اور اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے سے قلع قمع کریں۔ اگر چہ میدان جنگ تبدیل ہو گیا ہے، لیکن معرکہ آج بھی وہی ہے۔
شاہ اسماعیل نے اپنے بیانیے میں جس طرح آنحضرت ﷺ کے دور کو اپنے اصلاحی دور کے مماثل قرار دیا ہے، اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ روایت اور زمان کے تعامل کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ جیسا کہ ہندوستانی مسلمانوں اور اوائلِ اسلام کے یہود ونصاری کے درمیان موازنے میں دکھایا گیا، شاہ اسماعیل کی نظر میں عہدِ نبوت کی کہانی نوآبادیاتی ہندوستان میں ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔ روایت کے ایک ایسے تصور میں جس میں ایک نقطۂ آغاز بار بار وقوع پذیر ہو سکتا ہو، انتقال (translation) کا کردار ملاحظہ کیجیے25۔ شاہ اسماعیل کی نظر میں عہد نبوت ان کے اپنے زمانے میں مکمل طور قابلِ انتقال ہے، (یعنی اسی جدوجہد کا آج بھی اعادہ کرنے کی ضرورت ہے)۔ ان دو زمانی ادوار کے درمیان مکمل انتقال کے امکان کا دعوی کر کے شاہ اسماعیل نے یہ کوشش کی کہ روایت کو ایک بنیادی اور معیاری نمونے کے طور پر پیش کر کے جو بار بار وقوع پذیر ہو سکتا ہے، روایت اور بدعت کے درمیان چپقلش کی ایک کہانی ترتیب دی جائے۔ شاہ اسماعیل کے تخیل میں حال کی اصلاح کا دار ومدار ایک ایسی روایت کا وارث بننے کے امکان میں ہے جس نے ایک جست میں تاریخ کا سفر طے کیا ہو۔ ان کے ہاں ماضی، میراث کے ترکے کی طرح ہمیشہ مکمل طور پر قابل انتقال ہے۔ مزید برآں قادر مُطلق خدائی ہستی نے، جو کسی تغیر وتبدل سے پاک ہے، ماضی وحال کے درمیان تفریق کو مؤثر طریقے سے مٹا دیا ہے۔ ماورا خدا کی قیومیتِ مُطلَقہ نے زمان کی حرکت پذیری کو شکست دے دی ہے۔ اس مبدا کو قادرِ مطلق خدا کی کلی ہستی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
شاہ اسماعیل نے اس تصور کو مسترد کیا کہ مذہب کے پیروکاروں کی جمالیاتی حساسیتوں اور عملی تجربات میں واقع ہونے والے زمانی تغیرات اور ملحقہ تبدیلیوں کے مطابق روایت کی حدود میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ایسی ترمیمات کی ضرورت نہیں، کیونکہ عہد نبوی اور زمانۂ حال مکمل طور پر باہم قابلِ انتقال ہیں۔ حیرت کا دھچکا اس وقت لگتا ہے جب شاہ اسماعیل پوری صراحت سے مکمل انتقال کے اس امکان کی تصدیق کے لیے عہد نبوی اور اپنے زمانے کے درمیان یکسانی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "بچے اس وقت بھی پیدا ہوتے تھے، عورتوں کو ماہواری آتی تھی، بچوں کا ختنہ کیا جاتا تھا، لوگ شادیاں کرتے تھے، وہ بیمار ہو کر مرتے تھے، قبریں بھی کھودی جاتی تھیں۔ پھر یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ ان حالات میں حضور ﷺ کیا کرتے تھے؟ اور ان کے بعد خلفاے راشدین روز مرہ کے یہ اعمال کس طرح سر انجام دیتے تھے؟"26
اس بیان سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ شاہ اسماعیل کی نظر میں روایت ماضی کی ایک تعبیر کی نمائندگی کرتی ہے جسے حال میں بآسانی از سرِ نو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انتقال کی یہ خواہش ایک لاینحل مسئلے میں الجھی ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے نبوی دور کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے کی متلاشی تھی جس کا دوبارہ وقوع پذیر ہونا عملاً ناممکن تھا۔ شاہ اسماعیل کا اصلاحی پروجیکٹ (ان کے بہت سے دیگر پروجیکٹس کی طرح؟) یہ لاینحل گتھی نہیں سلجھا سکا۔
امکانِ نظیر اور امکانِ کذب
شاہ اسماعیل کی کلامیات کا ایک انتہائی متنازعہ پہلو وہ اصطلاحات ہیں جن کے ذریعے سے انھوں نے خدائی حاکمیتِ اَعلی (توحید) کی قطعی یکتائی کے حق میں استدلال کیا۔ انھوں نے بتایا کہ قادر مطلق خدا کے مقابلے میں دیگر تمام ہستیاں، چاہے وہ انبیا ہوں یا جنات، شیاطین، بھوت پریت، پریاں، یا اولیا، سب یکساں طور پر کم تر ہیں۔ نہ صرف ان کے استدلال بلکہ ان کے طرزِ استدلال نے بھی غم وغصہ اور تنازعات کو جنم دیا۔ انھوں نے پرشکوہ انداز میں لکھا: "اگر آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے خاتمے تک تمام انسان اور جنات، جبریل امین اور حضرت محمد ﷺ کی طرح بن جائیں تو بھی خدا کی بادشاہت اور شان وشوکت میں ذرہ برابر اضافہ نہیں ہوتا، اور اگر وہ تمام شیطان اور دجال بن جائیں، تب بھی اس کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ وہ ہر حال میں قادروں کا قادر اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ کوئی اسے نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا"27۔ ایک عجیب انداز میں توحید فی الحکم کا اثبات کرتے ہوئے انھوں نے وہ بات کہی جو آج تک ان کی کتاب کا انتہائی متنازعہ موقف سمجھا جاتا ہے: خدا اس قدر طاقت ور ہے کہ ایک لمحے میں اپنے 'کُن' سے وہ لاکھوں نئے پیغمبر، اولیا، جنات، فرشتے، جبریل اور محمد ﷺ پیدا کر سکتا ہے28۔
شاہ اسماعیل کے سب سے بڑے مخالف علامہ فضل حق خیر آبادی نے اپنی کاٹ دار تنقید میں اس دعوے کو بڑی شدت سے رد کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ محمد ﷺ کے نظیر کے امکان کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا جھوٹ بول سکتا ہے، اور ختم نبوت کے دعوے سے مکر سکتا ہے۔علامہ خیر آبادی کہتے ہیں کہ اس سے خدا کی ذات میں عیب کا امکان ثابت ہوتا ہے، کیونکہ جھوٹ بولنا ایک عیب ہے۔ اس دعوے کے جواب میں شاہ اسماعیل نے اپنی ایک کتاب "یک روزہ" میں مزید ایک ایسے تنازع کا جواز فراہم کیا جس نے برصغیر کے مسلمان اہل علم اور عوام کو آنے والی کئی دہائیوں تک الجھائے رکھا۔ یہ نزاع امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) سے موسوم ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شاہ اسماعیل نے رسالہ "یک روزہ" اس وقت لکھا جب وہ جامع مسجد میں نماز پڑھنے جا رہے تھے کہ کسی نے ان کو علامہ خیر آبادی کی کتاب پکڑا دی۔ نماز ادا کرنے کے بعد شاہ اسماعیل مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے اور ایک دن میں یہ کتاب لکھ ڈالی۔ اسی وجہ سے اسے "یک روزہ" کہا جاتا ہے۔ اس کتاب میں خیر آبادی کی تنقید کے جواب میں دفاعی پوزیشن لینے کے بجائے شاہ اسماعیل نے پرزور انداز میں یہ موقف اختیار کیا کہ ہاں، خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا اپنے وعدے کے خلاف کر سکتا ہے۔ مثلاً خدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ فرعون، ابو لہب اور ہامان کو جہنم میں بھیجے گا، لیکن وہ اس وعدے کے برخلاف انھیں جنت میں بھی بھیج سکتا ہے۔ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں کہا کہ خدا کے لیے جھوٹ بولنے کے امکان کی نفی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی ایسی چیز کی قدرت نہیں رکھتا جس کی قدرت انسانوں کو بآسانی حاصل ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ انسانوں کی قدرت خدا کی قدرت سے زیادہ ہے۔
آگے چل کر شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال کو امکان اور وقوع کے درمیان فرق پر استوار کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر چہ خدا لاکھوں نئے محمد پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، یا اپنے ہی وعدے کےخلاف کر سکتا ہے، لیکن وہ فی الواقع ایسا نہیں کرتا29۔ ان کا استدلال مختصرًا کچھ یوں ہے کہ کوئی بیان یا وعدہ اسی وقت جھوٹا ثابت ہو سکتا ہے جب وہ عملاً واقع ہو جائے، اپنے وقوع سے پہلے اسے جھوٹا نہیں کہا جا سکتا۔"30
اگر ہم مفکر جیارجیو اگیمبن (Giorgio Agamben) کے مطابق ارسطو کی فکر میں امکان اور وقوع کے درمیان فرق قائم کریں تو شاہ اسماعیل کے استدلال کی تنقیح وتوضیح اچھے انداز میں ہو سکتی ہے۔ اگیمبن بتاتے ہیں کہ ارسطو کے تصور میں امکان، وقوع پر مقدم ہوتا ہے اور اس کے لیے راہ ہموار کرتا ہے، لیکن یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اساسی طور پر امکان، وقوع کے تابع ہوتا ہے۔ ارسطو امکان کے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنے کا پورا خیال رکھتا ہے۔ مثلاً باجا بجانے والے کے پاس یہ امکان رہتا ہے کہ وہ باجا بجائے، باوجودیکہ وہ اس وقت باجا نہ بجا رہا ہو۔ اسی طرح ماہر تعمیرات کے پاس یہ امکان رہتا ہے کہ وہ عمارت بنائے، اگر چہ وہ اس وقت نہ بنا رہا ہو31۔ اگیمبن نے ارسطو سے یہ دل چسپ نکتہ اخذ کیا کہ اپنے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنے کے لیے امکان میں یہ صلاحیت ضروری ہے کہ وہ وقوع میں داخل نہ ہو۔ اگیمبن نے اسے یوں بیان کیا ہے: "اگر امکان اپنا تسلسل چاہتا ہو، اور فوراً وقوع میں آ کر خود کو کھونا نہ چاہتا ہو، تو یہ ضروری ہے کہ اس میں امکان سے وقوع میں داخل نہ ہونے کی صلاحیت ہو32، یعنی اس امکان کی خاصیت ہی عدم وقوع ہو، یا ارسطو کے الفاظ میں یہ امکان ہمیشہ عدم امکان (im-potentiality [adynamia]) ہی رہے۔
اگیمبن کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ وہی مقام ہے جہاں امکانِ محض اور وقوع دونوں برابر ہیں۔ بعینہ یہی بات شاہ اسماعیل کہتے ہیں کہ "خدا لاکھوں محمد پیدا کر سکتا ہے" یا "اپنے وعدے کے خلاف کر سکتا ہے" جیسے دعووں کا مقام یہی برابری والا ہے، جہاں پر قدرت وتصرف کا امکان کبھی وقوع کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا۔ اس کے بجاے اپنی ذات پر ایک پابندی لگا کر یہ امکان خود اپنے آپ کو مُعَلّق رکھتا ہے، اور اس صورت میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے دونوں امکان برابر رہتے ہیں۔
شاہ اسماعیل کا یہ نظریہ کہ خدا اپنے وعدے کے خلاف کر سکتا ہے، یا ایک لاکھ نئے محمد پیدا کر سکتا ہے، درحقیقت ان کی فکر اور علمی سرمایے کا سب سے کانٹے دار اور متنازعہ پہلو ہے۔ اس لیے میں شاہ اسماعیل کی طرف سے "یک روزہ" میں پیش کیے جانے والے کلیدی دلائل ونکات کا بالاختصار ذکر کرتا ہوں، تاکہ اس انتہائی اہم کتاب کی چند جھلکیاں پیش کر سکوں جسے شاذ ونادر ہی موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے۔ اس سے قارئین کو علامہ خیر آبادی کی جانب سے پیش کیے گئے جواب کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی جسے میں آئندہ ابواب میں بیان کروں گا۔
شاہ اسماعیل کا استدلال اگر چہ قرآن تک محدود نہیں، لیکن اساسی طور پر انھوں نے ان قرآنی آیات کو پیش کیا ہے جن میں خدا کی قدرت کا ذکر ہے کہ وہ قیامت کے دن انسانوں اور دیگر مخلوقات کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ان آیات کو ذکر کرنے کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ چند آیات پر غور کرنے سے ہم یہ مقصد معلوم کرسکتے ہیں۔ مثلاً شاہ اسماعیل نے سورۃ یس کی آیات نمبر 81 اور 82 کا حوالہ دیا ہے: "بھلا جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں! جب کہ وہ سب کچھ پیدا کرنے کی پوری مہارت رکھتا ہے۔ اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ: 'ہو جا' تو وہ ہو جاتی ہے"33۔
شاہ اسماعیل نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ اس آیت میں روزِ قیامت کا ذکر ہے، اس لیے "ان جیسوں" کے الفاظ سے مراد انسانوں کے ساتھ ساتھ تمام اشیا ہیں جنھیں از سرِ نو زندہ کیا جائے گا34۔ اس آیت کے مطابق تمام انسانی افراد کو قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جائے گا، اس لیے یہ قدرتِ الٰہیہ میں شامل ہے35۔ اب یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے کہ پیغمبر ایک انسان تھا جسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا36۔ ان مقدمات کو ملاتے ہوئے اس آیت کے مطابق یہ خدا کی قدرت میں شامل ہے کہ وہ ایک اور محمد کو پیدا کرے37۔ اس لیے کہ خدا کی قدرت میں شامل ہے کہ وہ ان مخلوقات کی نظیر پیدا کرے جنھیں قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اسماعیل نے فاتحانہ انداز میں اپنی بات کو یوں سمیٹا ہے کہ "تقویۃ الایمان میں میرا نکتہ یہی تھا" ۔
اسی طرح انھوں نے ایک اور دل چسپ قرآنی آیت پیش کی ہے جس میں ایک بار پھر "ہو جاؤ، اور وہ ہو گیا" کا پرکشش جملہ موجود ہے۔ یہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 59 ہے: "اللہ کے نزدیک عیسٰی کی مثال آدم جیسی ہے۔ اللہ نے انھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: "ہو جاؤ، پس وہ ہو گئے"38۔ یہ آیت اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آدم علیہ السلام کی طرح بغیر باپ کے قادرِ مطلق خدا کے لفظِ "کن" سے پیدا ہوئے تھے۔ شاہ اسماعیل کے مطابق خدا کی نظر میں حضرت عیسٰی اور حضرت آدم علیہما السلام کی پیدائش میں مماثلت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی ہستی کو وجود میں لانے کی قدرت ہی اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس طرح کی ایک دوسری ہستی کو پیدا کر سکتا ہے۔
"یک روزہ" کا یہ مرکزی نکتہ ہے: نبی اکرم ﷺ کا نفس وجود ہی بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی نظیر پیدا کرنا خدا کی قدرت میں شامل ہے39۔ شاہ اسماعیل واضح کرتے ہیں: "اس دلیل کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ بہر صورت محمد کا وجود خدا کی قدرت میں شامل ہے، تو محمد کی نظیر کا وجود بھی اس کی قدرت میں شامل ہے"40۔ وہ کتاب کے فارسی متن میں ایک عربی جملہ لکھتے ہوئے اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کہ " قرآنی تصریح کے مطابق قدرتِ الہیہ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے مثلین کا حکم ایک ہے (لأن حكم المثلين واحدٌ في الدخول تحت القدرة وعدمه بمنطوق القرآن)"41۔
"یک روزہ" میں مخصوص قرآنی آیات کو پیش کرنے کے علاوہ شاہ اسماعیل کا مرکزی استدلال یہ تھا کہ خدا کا اپنے وعدے کے خلاف کرنا یا ایک اور محمد کو پیدا کرنا اصلاً ناممکن (ممتنع بالذات) نہیں، بلکہ بالواسطہ ناممکن (ممتنع بالغیر) ہے۔ یہ دو اصطلاحات یعنی ممتنع بالذات اور ممتنع بالغیر، امکان کذب اور امکان نظیر کے قضیے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ ممتنع بالذات ایک عقلی عدم امکان کی طرف اشارہ ہے، یعنی ایک ایسی چیز جو اپنی اصل اور جوہر میں ناممکن ہو۔ اس کے برعکس ممتنع بالغیر سے اشارہ ایسے عدم امکان کی طرف ہے جو اپنی اصل کے بجاے کسی اور چیز کی وجہ سے، بالفاظ دیگر بالواسطہ، ناممکن ہو۔
یہ ذہن میں رہے کہ شاہ اسماعیل اپنے مخالفین مثلاً علامہ خیر آبادی کے ساتھ اس بات پر بالکل متفق تھے کہ فی الواقع محمد ﷺ کی نظیر نہ کبھی ممکن ہوئی نہ ممکن ہے، اور نہ کبھی ہوگی۔ واقعتاً محمد کی نظیر پیدا ہونا ناممکن ہے۔ اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اصل اختلاف عدم امکان کی حیثیت میں ہے۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک امکانِ کذب یا امکانِ نظیر بالذات نہیں، بلکہ بالواسطہ ناممکن تھا۔ خدا اگر چاہے تو وہ یہ کر سکتا ہے تاہم اس نے ایسا نہیں کیا اور نہ کرے گا، کیونکہ ایسا کرنا اس کے الٰہی منصوبے کے مطابق نہیں۔ اس کے برعکس علامہ خیر آبادی کے نزدیک، جیسا کہ ہم عنقریب ملاحظہ کریں گے، یہ اعمال اصلاً اور بالذات ناممکن ہیں۔ شاہ اسماعیل کے نقطۂ نظر پر بحث کو سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ ان کے استدلال کے پیچھے مرکزی خیال یہ تھا کہ: "ہر ممتنع بالغیر ممکن بالذات ہوتا ہے، اور ہر ممکن بالذات خدا کی قدرت کے تحت شامل ہے"42۔
اس اصول کی بنیاد پر انھوں نے یہ دعوی کیا کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر کا عدم امکان اور غیر موجودگی بالذات نہیں بلکہ بالواسطہ ہے، اس لیے ان کی نظیر کا وجود اصل میں ممکن ہے۔ اور چونکہ واضح طور پر خدا اس چیز کو وجود میں لا سکتا ہے جو اصل ممکن ہو، تو اس سے ثابت ہو گیا کہ خدا کو یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ ایک اور محمد کو پیدا کرے، یا وہ اپنے وعدے کے خلاف عمل کا فیصلہ کر لے۔ شاہ اسماعیل، ایک ایسے مصنف کی طرح جو اپنی کتاب سے متعلق عمومی تاثر کی تصحیح کرنا چاہ رہا ہو، گزارش کرتے ہیں کہ یہی وہ بات تھی جو وہ تقویۃ الایمان میں کہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ان وضاحتوں سے، جیسا کہ ہم عنقریب دیکھیں گے، ان کے مخالفین کی ہرگز تسلی نہیں ہوئی، بلکہ اس سے ان کی تلخی میں مزید اضافہ ہوا کہ ان کی نظر میں یہ ایک معمولی حیثیت کے حامل مولوی کی علمی اعتبار سے فضول گستاخیاں تھیں۔
"یک روزہ " کے لکھنے کے جلد ہی بعد شاہ اسماعیل سکھوں کے خلاف جہاد کے لیے نکل پڑے۔ تاہم وہ اپنے پیچھے برصغیر کے مسلمان اہل علم اور عوام کے لیے بکثرت ایسے اعتقادی مسائل چھوڑ گئے جن کی وجہ سے لوگوں میں بحث ومباحثہ اور اختلاف وتفریق کا ماحول گرم رہا۔ اگر یہ مانا جائے کہ "یک روزہ " حقیقتاً ایک دن میں لکھی گئی تھی تو پھر ایسی کتابیں چند ہی ہوں گی جنھیں مرتب کرنے میں اتنا کم وقت لگا ہو اور انھوں نے مستقبل میں کئی نسلوں پر اس قدر دیر پا اثرات مرتب کیے ہوں۔
شاہ اسماعیل کی فکر اور سیاسی نظریے کے چند دیگر پہلوؤں پر بحث کرنے سے پہلے مجھے اجازت دیجیے کہ تفریحِ طبع کی خاطر چند لمحوں کے لیے آپ کو ہندوستان سے باہر کی دنیا کی سیر کراؤں۔
شاہ اسماعیل کا ہم مسلک مسیحی مفکر
خدائی حاکمیتِ اعلی (توحید) کے احیا کے لیے شاہ محمد اسماعیل اپنے جوش وخروش میں بڑی حد تک گیارھویں صدی کے اطالوی مسیحی مصلح پطرس دامیانی (م 1072) کے مشابہ دکھائی دیتے ہیں۔ بڑی حد تک شاہ اسماعیل کی طرح دامیانی بھی ایک زبردست مناظر تھا جو خدائی حاکمیتِ اعلی (توحید) کے سوال میں گہری دل چسپی لیتا تھا، جیسا کہ اس کی سب سے مؤثر کاوش De divina omnipotia (خدائی علمِ غیب) سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے43۔ اپنی کتاب میں دامیانی نے اپنے پیش رو متعدد مسیحی مفکرین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان میں قابل ذکر اور سب سے زیادہ نمایاں عالم مقدس جیروم (م 420) تھا، جس نے خدائی قدرت کی محدودیت پر کچھ اس انداز سے دلیل پیش کی تھی کہ خدا اپنے کیے کو واپس نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر بکارت کو لیجیے۔ اس نے دعوی کیا کہ "اگر چہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے، لیکن وہ کسی عورت کی زائل شدہ بکارت کو دوبارہ نہیں لوٹا سکتا"44۔
ایسے من موجی خدا کے تصور سے سینٹ جیروم خاصا غیر مطمئن تھا جو اپنی مرضی سے سب کچھ کر گزرتا ہو۔ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو محدود کرنے کی کوشش میں اس نے "قدرتِ مُطلقہ" اور "قدرت منظمہ" کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیا۔ قدرت مطلقہ دیگر مخلوقات سے خدا کی یکتائی کو ثابت کرتی ہے، جبکہ قدرتِ منظَّمہ سے اس کا اشارہ خدا کے قدرت کی محدودیت کی طرف تھا۔ اگر ایک طرف قدرتِ مطلقہ لامحدود ہے، تو دوسری طرف قدرتِ مُنَظمہ ایسے خدائی تعقل کے زیر اثر ہے جو قابل اعتماد اور مُرتّب ہونے کی وجہ سے انسانیت کے لیے قابلِ فہم ہے۔
لیکن دامیانی کو، جو مقدس جیروم کے سات صدیوں بعد آیا، یہ فلسفیانہ جوڑ توڑ کسی ایسی چیز کو محدود کر دینا معلوم ہوا جو اپنی اصل میں لا محدود ہے۔ اس نے مقدس جیروم کو براہ راست جواب دیتے ہوئے لکھا: "آخر ہم اس میں شک کی جرات کر کیسے سکتے ہیں کہ خدا ایک زائل شدہ بکارت کو واپس لا سکتا ہے؟ خدا ماضی کو کالعدم کر سکتا ہے تو کسی عمل کو کیوں نہیں کر سکتا کہ کوئی حقیقی تاریخی واقعہ سرے سے پیش ہی نہ آیا ہو"45۔ شاہ اسماعیل کے اس نظریے کے ساتھ کہ "خدا لاکھوں نئے محمد پیدا کر سکتا ہے" دامیانی کے اس دعوے کی حیرت انگیز مماثلت کو دیکھیے:
“God has no need of any creature and is judged by no necessity to create, out of that nothing into existence draw this natural world of ours . . . imposing upon it its customary laws. Incapable in his omnipotence and in his eternal present of suffering any diminution or alteration of his creature power, that natural order he could well replace, those laws at any moment change.”
’’خدا کو کسی مخلوق کی حاجت نہیں ہے اور اس (کی قدرت کو) تخلیق کے ضروری ہونے سے نہیں جانچا جا سکتا۔ اس نے عدم سے ہماری اس فطری کائنات کو وجود دیا اور اس کو ان قوانین کے تابع بنایا جو اس میں جاری ہیں۔ اس کی قدرت کے قدرت مطلقہ ہونے اور اس کی ذات کے زمان سے ماورا ہونے کی بدولت چونکہ اس کی تخلیقی قدرت میں کوئی کمی یا تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی، اس لیے وہ کائنات کے فطری نظام کی جگہ کسی دوسرے نظام کو وجود میں لا سکتا ہے اور ان قوانین کو کسی بھی لمحے میں تبدیل کر سکتا ہے۔“
بالفاظ دیگر دامیانی کے نزدیک خدا کی مطلق حاکمیتِ اعلیٰ کا دار ومدار اس کی اس قدرت پر ہے کہ وہ پہلے سے موجود کسی امر کو کالعدم کر سکتا یعنی پلک جھپکنے میں ماضی کو بدل سکتا ہے یا نہیں۔ شاہ اسماعیل کا عقیدہ بھی، کافی حد تک دامیانی کی طرح، حاکمیتِ اعلیٰ کی ایک ایسی تفہیم پر مبنی تھا جس کی اساس توحید فی التصرف (یعنی اپنے کیے ہوئے کسی بھی فیصلے کو بدل دینے) کی قدرتِ مُطلَقہ تھی۔
یہاں تک میں شاہ اسماعیل کے اعتقادی حاکمیتِ اعلیٰ کے تصور اور ان کے پسندیدہ معاشرتی واخلاقی نظم کی تشکیل کے لیے اس تصور کے مضمرات پر بحث کر رہا تھا۔ ان کے سیاسی نظریات کی زیادہ جامع تفہیم کی خاطر یہاں ایک سوال کو موضوعِ بحث لانا مناسب ہوگا: سیاسیات کے کس تصور کو انھوں نے پیش کیا اور اس کی تبلیغ کی؟ ان کی نظر میں مثالی سیاسی ہیئت، ڈھانچے اور سیاسی قائدین کے اَجزاے ترکیبی کیا تھے؟
اگلے باب میں، میں شاہ اسماعیل کی ایک اور یادگار کتاب "منصبِ امامت" کی روشنی میں، جسے میری معلومات کے مطابق ابھی تک تفصیلی تحقیق وتجزیہ کا موضوع نہیں بنایا گیا ، ان سوالات کا جواب دوں گا۔ اس کتاب میں انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ ایک سیاسی نظریہ ترتیب دیا ہے۔ آنے والے صفحات میں، میں ان کی سیاسی فکر کے کلیدی پہلووں کو، جیسا کہ وہ اس کتاب میں پیش کی گئی ہے، اجاگر کروں گا۔ میں ان مناہج کی طرف بھی اشارہ کروں گا جو اس کتاب کو شاہ اسماعیل کے وسیع تر اصلاحی پروجیکٹ سے جوڑتے ہیں جو ان کی دوسری کتابوں مثلاً تقویۃ الایمان میں پیش کیا گیا ہے۔ اُسلوبِ تالیف، طرز بیان، اہم مرکزی نکات، مشکل ہونے کی سطح اور مخاطبین، ان سب پہلووں سے یہ دونوں کتابیں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں، تاہم اس کے باوجود یہ ایک مربوط اصلاحی ایجنڈے کے اجزا کے طور پر ترتیب دی گئی ہیں۔ اگلے باب میں اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
حواشی
- شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی: صدیقی ٹرسٹ، تاریخ اشاعت ندارد)، 48۔
- تقویۃ الایمان دراصل اسماعیل عربی میں "رد الاشراک" کے نام سے لکھی گئی ایک کتاب تھی جس کے پہلے حصے کا شاہ اسماعیل نے بذات خود اردو میں ترجمہ کیا اور یہی ترجمہ آج تقویۃ الایمان کے نام سے معروف ہے۔ بعد میں رد الاشراک کا باقی حصہ مولوی سلطان محمد نے "تذکیر الاخوان" کے نام سے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔ غلام رسول مہر (م 1971)، جو شاہ اسماعیل کے معروف سوانح نگار ہیں، بتاتے ہیں کہ 1837 سے لے 1854 تک اس کتاب کے چار قلمی اور مطبوعہ نسخوں نے بعد والی اشاعتوں کے لیے بنیاد فراہم کی۔ ان چار میں سے دو اشاعتوں میں ایک 1847 میں مطبع دارالعلوم، دلی اور دوسری 1854 میں مطبع مُحسنی، کلکتہ سے چھپی۔ غلام رسول مہر تفصیلات دیے بغیر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ "ان اشاعتوں میں متعدد اقتباسات میں تبدیلی کی گئی تھی"۔ (تقویۃ الایمان پر غلام رسول مہر کا مقدمہ، 37- 38)۔ میں نے بنیادی طور پر تقویۃ الایمان کے دو مطبوعہ نسخوں پر اعتماد کیا ہے، ایک وہ جو صدیقی ٹرسٹ کراچی سے چھپا ہے، اور دوسرا وہ جو مطبع احمدی لاہور (تاریخ اشاعت ندارد) سے چھپا ہے۔ حوالہ جات میں متعین نسخے سے حوالہ دینے کا التزام کیا گیا ہے۔
- جان ماڈرن، Secularism in Antebellum America (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2011)، 62۔
- شمالی ہندوستان میں پریس کے ابھرنے کے بعد تقویۃ الایمان اور ان جیسی دیگر اصلاحی کتابوں کی وسیع پیمانے پر نشر واشاعت کے لیے دیکھیے: ہارلن اوٹو پیئرسن، Islamic Reform and Revival in Nineteenth Century India: The Tariqa-i-Muhammadiyah (دلی: یودا پریس، 2008)۔
- اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 44؛ قرآن 2: 99۔
- شاہ عبد القادر، موضح القرآن (کلکتہ: مطبع نامعلوم، 1829)۔
- خرم علی، نصیحۃ المسلمین، ایم اس اردو 13 بی، برٹش لائبری کا ذخیرۂ مخطوطات، لندن۔
- اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 48-49۔
- شیخ محمد اکرام، رُودِ کوثر (لاہور: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، 2005)، 572۔
- قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی فکر وحیات بالخصوص ان کے فقہی آرا کا پس منظر جاننے کے لیے Islamic Studies Presented to Charles J. Adams، تدوین: وائل حلاق اور ڈونلڈ لٹل (لائڈن: ای جے بریل، 1991) میں دیکھیے: ساجدہ علوی، “Qazi Sana Allah Panipati, an Eighteenth-Century Indian Sufi Alim: A Study of His Writing in Their Sociopolitical Context”، 11 – 26۔
- قاضی ثناء اللہ پانی پتی، ما لا بُدَّ منہ (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1956) 98 – 99۔
- ایضاً، 118۔
- جدید برصغیر میں عوام کے بدلتے تصورات پر مزید معلومات کے لیے دیکھیے: برانَن اِنگرام، بارٹَن سکاٹ اور شیر علی ترین (مدَوّنین)، Imagining the Public in Modern South Asia (لندن: روٹلیج، 2016)۔
- فاخر الٰہ آبادی برصغیر میں مسلک اہلِ حدیث کے، جس نے انیسویں صدی میں ایک زیادہ واضح گروہ کی صورت اختیار کی، اولین اور ممتاز اہل علم میں سے تھے۔ انھوں نے قرۃ العینین فی اثبات سنۃ رفع الیدین کے نام سے ایک اہم فارسی کتاب لکھی تھی جس میں انھوں نے نماز کے دوران رفع یدین کی سنیت کو ثابت کیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ شاہ محمد اسماعیل نے اسی موضوع پر اپنی کتاب میں، جس کے بعینہ یہی مقاصد اور حیرت انگیز طور پر من وعن یہی نام (تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین) ہے، الٰہ آبادی کی کتاب سے بھرپور اخذ واستفادہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ الٰہ آبادی کے ساتھ شاہ ولی اللہ کی رفاقت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نہ صرف یہ کہ اہل حدیث علما سے سماجی تعلق کے حوالے سے نرم رویہ رکھتے تھے، بلکہ اٹھارویں صدی میں رائج متنوع نظریات پر مبنی تحریکوں میں اس قدر جمود نہیں تھا۔ حنفی فقہ سے اگر چہ شاہ صاحب کا تعلق بعض اوقات مبہم تھا، اور انھوں نے یہ نقطۂ نظر بھی پیش کیا تھا کہ چاروں سنی مذاہب سے اخذ واستفادہ کرکے ایک مخلوط فقہ ترتیب دی جائے، تاہم اصولی طور پر وہ ایک حنفی عالم کی حیثیت سے اپنی اصولی شناخت سے جڑے رہے۔ لیکن یہ شناخت مخالف مسلک کے لوگوں کے ساتھ دوستی اور سماجی تعلق کے رستے میں رکاوٹ نہیں بنی۔
- غیر مقلد عالم سے مراد وہ شخص ہے جو برصغیر میں رائج فقہ حنفی سمیت اہل سنت کے چار فقہی مذاہب میں سے متعین طور پر کسی ایک مذہب کی تقلید نہیں کرتا۔ برصغیر کے تناظر میں ان مسلکی اختلافات پر تفصیلی بحث کے لیے چھٹا باب ملاحظہ کیجیے۔
- عبید اللہ سندھی، شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک (لاہور: سندھ ساگر اکیڈمی، 2008)، 82۔ مختلف کتابوں میں یہ واقعہ مختصر یا طویل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہاں میں نے تفصیلی واقعہ نقل کیا ہے۔
- شاہ محمد اسماعیل، ایضاح الحق الصریح فی احکام المیت والضریح (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1976)، 73۔
- اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 48-173۔
- دل چسپ بات یہ ہے کہ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں بتایا کہ علم کی ان مخصوص اقسام کو غیر اللہ کے لیے ماننا بدعت ہے، چاہے یہ اقسام کسی اور شخص کی ذاتی ہوں، یا خدا کی طرف سے عطا کردہ (عطائی) ہوں۔ علم اور حاکمیتِ اعلیٰ کے تعلق پر زیادہ تفصیلی بحث گیارھویں باب میں کی گئی ہے۔# اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 61۔
- اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 61۔
- ایضاً، 49 – 50۔
- قرآن 9: 31۔ اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 55۔
- ایضاً، 165۔
- ایضاً، 173۔
- یہ نکتہ میں نے استعمار اور سکھ اصلاح پر اروند مندیر کی شان دار کتاب سے لیا ہے۔ دیکھیے: اروند مندیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)۔ یہاں پر میرے تجزیے کا بیش تر حصہ مندیر کی فکر کے مرہونِ منت ہے۔
- شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور)، 38۔
- شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 101۔
- ایضاً، 100۔
- شاہ محمد اسماعیل، یک روزہ (ملتان: فاروقی کتب خانہ، تاریخ ندارد)۔ اس اختلافی بحث میں امکانِ کذب کے لیے امکانِ خلافِ وعید جیسی کم مشہور اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
- ایضاً۔
- جیارجیو اگیمبَن، Homo Sacer: Sovereign Power and Bare Life (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 1988)، 44 – 45۔
- ایضاً، 45۔
- قرآن 36 : 81 – 82۔
- اسماعیل، یک روزہ، 2۔
- ایضاً، 3۔
- ایضاً۔
- ایضاً۔
- قرآن 3 : 59۔
- اسماعیل، یک روزہ، 4۔
- ایضاً۔
- ایضاً۔
- ایضاً۔
- جین اِلشتائن، Sovereignty, Gov, and Self (نیو یارک: بیسک بکس، 2008)، 21۔
- ایضاً۔
- فرانسس اوکلے، Politics and Eternity: Studies in the History of Medieval and Early-Modern Political Thought (لائڈن: بریل، 1999)، 43 – 44۔