انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۸)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا پانچواں باب)


باب پنجم: مسئلۂ شفاعت


شفاعت نبوی کے موضوع کو حاکمیت (توحید) کے سوال سے جدا کرنا ناممکن ہے۔ کسی گناہ گار کو معاف کرنے کی قدرت، جو کہ عمومی قاعدے سے انحراف ہے، استثنا کو قانون کی شکل دینے کی استعداد پر دلالت کرتی ہے۔ حاکمِ اعلیٰ، یاد کریں، کم از کم کارل شمٹ کے تصور کے مطابق وہی ہے جو استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہو۔ سفارش کرنے والے کا کردار اس عمل میں کسی حد تک خلل انداز ہو سکتا ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ سفارش کرنے والے کی حیثیت محض ایک وکیل کی ہے جو گناہ گار اور حاکم مطلق کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ایسے سفارش کرنے والا  کا کیا جائے جس کی سفارش کبھی رد نہیں ہوتی اور جس کی برتر حیثیت کی وجہ سے اس کی ہر درخواستِ استثنا منظور ہو جاتی ہے؟ کیا یہ ایک طرح سے حاکم اعلیٰ کی حاکمیت پر سمجھوتہ نہیں ہے؟

مسئلۂ شفاعت پر شاہ اسماعیل کی بحث میں یہ سوالات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں عوام کے اس رجحان پر سخت تشویش ہے کہ وہ انبیا واولیائے کرام جیسی انسانی ہستیوں کو حاکم اعلیٰ کی صفات سے متصف کرتے ہیں۔ انھوں نے زور دے کر بتایا کہ شفاعت کی بابت عوام کا جو نظریہ ہے، اس میں خدائی حاکمیت (توحید) کی استثنائی حیثیت کو غیر اللہ کے سفارشی کردار سے الجھا دیا گیا ہے۔ ان کی نظر میں شفاعت ان بنیادی مسائل میں سے ہے جن سے خدائی حاکمیت (توحید) کی مطلق یکتائی کو خطرہ لاحق ہے۔ آئندہ گفتگو میں میری دل چسپی شاہ اسماعیل کے استدلال کے روایتی اسلامی عقائد سے ہم آہنگ ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ اس اسلوبِ نگارش میں زیادہ ہوگی جس میں انھوں نے اپنا استدلال پیش کیا۔ مثلاً‌ یہ کہ ان کی گفتگو میں کس قسم کی علامات، تمثیلات اور تشبیہات پائی جاتی ہیں؟ اس بظاہر اعتقادی بحث سے ہم کس طرح کے سیاسی نظریات اور اظہارات اخذ کر سکتے ہیں؟ ان کا انداز استدلال اس کے سماجی تصور کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟

شفاعت پر شاہ اسماعیل کی بحث تقویۃ الایمان میں ان کے عمومی طرز استدلال سے ہم آہنگ ہے، اور اس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اخروی فلاح ونجات کے دائرے میں نبی سمیت تمام غیر الہی ہستیوں کے کردار پر کاری وار کیا جائے۔کارل شمٹ کی اصطلاحات میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں واضح کیا کہ خدا ہی وہ حاکم اعلیٰ ہے جس کے پاس کسی ایسے گناہ گار کو مغفرت اور اُخروی نجات عطا کرنے کی استثنائی قدرت ہے جس کا ٹھکانا عام قاعدے کی رو سے جہنم تھا۔ اپنے موقف کے اثبات میں شاہ اسماعیل نے متعدد احادیث پیش کی ہیں جن میں حضورِ اکرم ﷺ نے ایک انسان کی حیثیت سے بذاتِ خود اپنے عجز وقصور کا اعتراف کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک روایت میں حضور اکرم ﷺ کا ارشادِ گرمی ہے: "خدا کی قسم! اگر چہ میں خدا کا رسول ہوں، لیکن مجھے کچھ پتہ نہیں کہ (آخرت میں) میرے ساتھ کیا ہوگا"1۔ ایک اور موقع پر آپ نے اپنے خاندان کے افراد کو جمع کیا، اور ان کے سامنے یہ اعتراف کیا: "خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ میں دربارِ الٰہی میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا"2۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی امت کے بارے میں اس حوالے سے شدید بے چینی تھی کہ وہ انھیں خدا کے مقام پر فائز نہ کرے، یا انھیں ایسی مافوق الفطرت صفات سے متصف نہ کرے جن سے خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی نفی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساہ اسماعیل نے یہ بھی بتایا کہ نبی اکرم ﷺ کی عزت وعظمت کا دار ومدار اس بات پر نہیں کہ ان کے پاس اُخروی نجات عطا کرنے کی غیر معمولی قدرت ہے، بلکہ اس کی اساس آپ کا انسانِ کامل ہونا ہے۔ بالفاظ دیگر خدائی حاکمیت پر غیر متزلزل ایمان واطاعت کا اسوۂ حسنہ ہی وہ صفت ہے جس نے پیغمبر کی ذات کو غیر معمولی مقام عطا کیا ہے۔

اس استدلال کی تائید میں شاہ اسماعیل نے متعدد قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے جن میں خدا نے نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی امت پر یہ واضح کریں کہ وہ کسی کو اخروی نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ مثلاً: "اے محمد! آپ فرما دیں کہ میں تمھارے لیے نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ آپ فرما دیں کہ مجھے کوئی اللہ تعالیٰ سے ہرگز نہیں بچا سکتا، اور میں اس کے سوا کہیں بچاو نہیں پاتا"3۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ اسماعیل اپنے قارئین کو توجہ دلاتے ہیں کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ بارگاہِ الٰہی میں اپنی عاجزی وانکساری کا اعتراف کرتے ہیں۔ آپ نے اس بات پر اس لیے زور دیا تاکہ امت آپ کو آپ کی اصل حیثیت سے زیادہ نہ بڑھائے۔ اس مقام پر شاہ اسماعیل حضور ﷺ کی جگہ بولتے نظر آتے ہیں: "میرے امتی ہونے کی وجہ سے تم لوگ مغرور ہو کر یہ خیال کرکے حد سے تجاوز نہ کرنا کہ ہمارا پایہ بہت مضبوط ہے، ہمارا وکیل زبردست ہے، اور ہمارا شفیع بڑا محبوب ہے، ہم جو چاہیں کریں، وہ ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لے گا، کیوں کہ میں خود ہی ڈرتا ہوں، اور اللہ کے سوا کہیں پناہ گاہ نہیں دیکھتا"4۔ شاہ اسماعیل اپنی بات جاری رکھتے  ہوئے لکھتے ہیں: "اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ جو عوام پیروں پر بھروسا کرکے اللہ کو بھول جاتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں، واقعتاً گمراہ ہیں، کیونکہ سرکارِ رسالت ﷺ دن رات اللہ سے ڈرتے تھے، اور اس کی رحمت کے سوا کہیں اپنا بچاو نہیں جانتے تھے۔ کسی اور کا بھلا کیا کہنا !"5۔

اسماعیل نے اور کئی آیات کا حوالہ دیا ہے جن میں خدائی حاکمیت کے مطلق اور یکتا ہونے پر زور دیا گیا ہے، اور اخروی نجات کے دائرے میں شفعاء کے کردار پر تنقید کی گئی ہے۔ مثلاً ان آیات میں یہ بھی شامل ہیں: "وہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پوجتے ہیں جو انھیں نہ نقصان پہنچا سکیں اور نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ آپ فرما دیں کہ تم اللہ کو وہ خبر دے رہے ہو، جسے وہ آسمان وزمین میں نہیں جانتا (یعنی جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے)۔ وہ ان کے شریکوں سے پاک و برتر ہے"6۔ اور یہ آیت: "آپ فرما دیں کہ ایسا شخص کون ہے، جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا تصرف واختیار ہے، اور وہ پناہ دینے والا بھی ہو، اور اس کے مقابلے میں کوئی اور پناہ بھی نہ دے سکے، اگر تمھیں علم ہے (تو جواب دو)"7۔

لیکن جب شفاعتِ نبوی کی حد بندی کے حق میں ساہ اسماعیل جوش وخروش سے استدلال کر رہے تھے تو انھیں ایک شدید الجھن کا سامنا بھی تھا۔ ان کی اعتقادی فکر کے برعکس قرآن سمیت اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر میں متعدد ایسے حوالے موجود ہیں جو اخروی نجات کے دائرے میں انسانی شفعاء کے کردار کو اصولی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً قرآنِ کریم کی آیت ہے: "اس دن سفارش کام نہیں آئے گی مگر جسے رحمان نے اجازت دی اور اس کی بات پسند کی"8۔ اور "اور اس کے ہاں سفارش نفع نہ دے گی مگر اسی کو جس کے لیے وہ اجازت دے گا9"۔ اس اشکال کے حل کے لیے ایک ایسا تاویلی منہج درکار تھا جس کے ذریعے ایک طرف تو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی یکتائی ثابت ہو جائے، اور دوسری طرف روایتی اسلامی مصادر میں اللہ کے علاوہ دیگر ہستیوں کے لیے ثابت اذنِ شفاعت سے انکار بھی لازم نہ آئے۔

شاہ اسماعیل نے یہ معرکہ کیسے سر کیا؟ شفاعت کے سوال کے بارے میں شرعی معیارات کو بروے کار لانے کے لیے انھوں نے کس قسم کی حکمتِ عملی اختیار کی؟ ذیل میں میں اس وسیع تر سیاسی پروگرام کا جائزہ لے کر، جس پر شاہ اسماعیل کی الہیات کی اٹھان ہوئی، اختصار کے ساتھ ترتیب وار بتاؤں گا کہ شاہ اسماعیل نے اس سوال کے جواب میں کیا تاویل اختیار کی۔ ذیل میں اس انداز پر غور کیجیے جس کے ذریعے اپنے الہیاتی استدلال کو پیش کرتے وقت شاہ اسماعیل نے سیاسی کرداروں اور علامات کا ذکر کیا۔ جیسا کہ میں عنقریب دکھاؤں گا، خدائی حاکمیتِ مطلقہ (توحید) کے لیے ان کا استدلال شاہی سیاست اور طرزِ زندگی پر ایک شدید تنقید سے گہرے انداز میں جڑا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں وہ خدائی حاکمیت اور دنیوی حاکمیت کے درمیان ایک واضح تقابل قائم کرکے اول الذکر کی برتری اور یکتائی ثابت کرنے کی کوشش کرنا چاہتے  تھے۔ ان کے استدلال کے کچھ اہم پہلووں  پر غور وفکر اس نکتے کی وضاحت میں مدد دے گا۔

شفاعت کی اقسام

تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے شفاعت کی تین اقسام ذکر کی ہیں۔ یہ تین قسمیں شفاعتِ وجاہت، شفاعتِ محبت اور شفاعت بالاذن ہیں۔ شفاعتِ وجاہت سے مراد ایسی صورت ہے جب بادشاہ کا کوئی انتہائی مقرب وزیر یا مشیر کسی مجرم کی بابت سفارش کرے اور بادشاہ بغیر کسی پس وپیش کے اسے قبول کر لے۔ بادشاہ کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ اتنے اہم رکنِ سلطنت کو ناراض کرے گا تو حکومت کے نظم ونسق میں گڑ بڑ پیدا ہو جائے گی۔ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ مجرم کو معاف کر دیتا ہے10۔

شفاعتِ محبت بھی قریب قریب یہی ہے۔ اس قسم کی شفاعت میں بادشاہ کا انتہائی محبوب شخص کسی مجرم کی سفارش کرتا ہے۔ یہ شخص قریبی رشتہ دار یا ایسا دوست ہو سکتا ہے جس کے ساتھ بادشاہ کا تعلق گہرا ہوتا ہے۔ بادشاہ اس کی سفارش قبول کرتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اپنے دوست یا رشتہ دار کی ناراضی سے خود اسے تکلیف پہنچے گی۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ سفارش کی یہ دو قسمیں بارگاہِ الہی میں نہیں کی جا سکتیں، یہ صرف دنیوی بادشاہتوں میں چل سکتی ہیں۔ تاہم شفاعت کی تیسری قسم شفاعت بالاذن بارگاہِ الہٰی میں جائز ہے11۔

شاہ اسماعیل کے مطابق شفاعت بالاذن کی صورت یہ ہے کہ ایک مجرم پہلے سے توبہ تائب ہو کر یہ پختہ عزم کر چکا ہو کہ وہ دوبارہ جرم نہیں کرے گا۔ مزید برآں وہ ایک عادی مجرم نہ ہو، بلکہ کسی وقت  خواہش نفس سے مغلوب ہو کر تجاوز کر بیٹھا ہو۔ اسے اپنے کیے پر سخت ندامت اور پشیمانی ہو۔ دن رات سزا کے خوف کی وجہ سے اس کا سر شرم اور افسوس سے جھکا ہوتا ہے۔ ایسا مجرم اپنی سفارش کے لیے کسی مصاحب یا وزیر کے پیچھے بھی نہیں پڑتا، بلکہ وہ سزا ملنے پر رضا مند ہوتا ہے اور بے تابی سے بادشاہ کے فیصلے کا انتظار کرتا ہے۔ بادشاہ کو اس کی حالتِ زار پر ترس آتا ہے، اور اس سے درگزر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ آئین کی حرمت کو پیش نظر رکھنے کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا، تاکہ لوگوں کی نظر میں قانون کا احترام کم نہ ہو اور وہ بادشاہ کے عفو ودرگزر سے غلط فائدہ اٹھا کر جرائم پر جری نہ ہو جائیں۔

ایسے میں کوئی مصاحب یا وزیر اشارہ پا کر آگے بڑھتا ہے اور مجرم کی سفارش کر دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سفارش کا اصل مُحَرّک  مجرم کی مدد نہیں ہوتی، بلکہ وہ بادشاہ کی مرضی دیکھ کر سفارش کرتا ہے۔ بادشاہ وزیر کی سفارش کو قبول کرتا ہے، اور اپنی سلطنت کے ایک معزز رکن کی فرمائش پوری کرنے کے بہانے مجرم کو بری کر دیتا ہے۔ شاہ اسماعیل نے اصرار کیا کہ قرآن میں انبیا کے لیے جس شفاعت کا اثبات ہے، اس سے یہی تیسری قسم مراد ہے12۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تیسری صورت میں اگر چہ بادشاہ مجرم کو اس وقت بری کرتا ہے جب اس کے دربار کا کوئی مقرب وزیر اس سے سفارش کرتا ہے، تاہم اس میں فیصلہ کن کردار اس بات کا ہے کہ مجرم پہلے سے توبہ کر چکا ہے اور یہ عزم کر چکا ہے کہ وہ دوبارہ جرم سرانجام نہیں دے گا۔ اس میں سفارش کا کردار صرف سہولت کاری تک محدود ہے۔ حقیقت میں یہ مجرم کی براءت کی اصلی وجہ نہیں۔ بنیادی وجہ خدا کی قدرتِ کاملہ ہے، نہ کہ کسی اور فرد کی سفارش۔ یہاں پر "مجرم کا پہلے سے توبہ تائب" ہونے کی خصوصیت پر شاہ اسماعیل کا اصرار بہت اہم ہے۔

اگر چہ انھوں نے شفاعت کی ایک قسم کو جائز قرار تو دیا، لیکن شفیع کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کی کہ وہ مجرموں کے حق میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس کے بالمقابل انھوں نے استدلال کیا کہ ایک وزیر (اور قیاساً حضرت محمد ﷺ) خود مختار بادشاہ (اور قیاساً خدا) کے سامنے کسی مجرم کے حق میں سفارش صرف اس صورت میں کر سکتا ہے جب بادشاہ نے پہلے سے اسے بری کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ شاہ اسماعیل کے اپنے الفاظ میں: "وزیر مجرم کی سفارش صرف اس لیے کرتا ہے کہ وہ اپنے جرم سے توبہ تائب ہو چکا ہے، اور بادشاہ نے اسے معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیر محض بادشاہ کی مرضی دیکھ کر سفارش کرتا ہے، کیونکہ وہ بادشاہ کا وزیر ہے نہ کہ چوروں کا حمایتی۔ وہ ایسا بادشاہ کی خوشی کے لیے کرتا ہے"13۔

ایک لحاظ سے شاہ اسماعیل کا استدلال بداہت کے خلاف معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت صرف اس وقت جائز ہے جب اس کی ضرورت نہ ہو، اور جب مجرم کی براءت میں اس کا کردار بالکل ثانوی ہو۔ پھر یہ امر باعث حیرت ہے، اور بعد میں اسماعیل کے مخالفین نے بھی اس حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کسی کو شفاعت کی اجازت کیوں کر دی جا رہی ہے، جب کسی گناہ گار کی نجات کے لیے اس کی شفاعت غیر مطلوب اور براے نام ہے۔ شاہ اسماعیل ان ابہامات کو زیربحث نہیں لاتے۔ بہر حال یہاں جو اہم بات سامنے آتی ہے، وہ وسیع تر سیاسی پروگرام ہے جو شفاعت پر الہیاتی بحث کے اندر مستور ہے۔

سیاسی اور اعتقادی تصورات کی پار زیرگی (Cross-Pollination)

شاہ اسماعیل کے الہیاتی تصور میں پائی جانے والی مساوات پسندی (egalitarianism) کا گہرا تعلق شاہی انداز حکومت پر ان کی عمومی تنقید سے ہے، جو ان کی نظر میں سیاسی طاقت کے ایک طبقاتی نظام کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے الٰہیاتی پروجیکٹ کو اشرافیہ کے مسرفانہ طرز زندگی کو بے نقاب کرنے کے سیاسی مقصد سے علیحدہ کرنا ناممکن ہے۔ ان کی نظر میں اس طرز حیات نے سلطنت کے عہد زوال میں اخلاقی نظام کے اندر زہر اتار دیا ہے۔ حاکمیتِ مطلقہ کی سیاسی الہیات کے لیے سادگی پر مبنی ایک ایسا اخلاقی نظام درکار ہے جو شاہی طرز حیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

روزمرہ کی زندگی اس طرح سے تشکیل دی جائے کہ ان تمام عادات واطوار اور اقدار کی بیخ کنی کی جائے جو خدائی حاکمیت (توحید) کو کم زور کرتے ہیں۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک ایک ایسے سماج میں خدا کی قدرتِ مطلقہ کی یکتائی مسلسل زوال پذیر ہوتی ہے جو مصیبت کے وقت اولیا سے مدد مانگتا ہے، اور جس میں عوامی دائرے میں اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ فروغ پاتا ہے۔ اخلاقی اور سیاسی زوال کی اصلاح تقاضا کرتی ہے کہ مخلوق کے مقابلے میں ذات وصفات دونوں کے اعتبار سے خدا کی مطلق یکتائی اور قدرتِ کاملہ کا اثبات کیا جائے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے شاہ اسماعیل نے حاکمانہ اختیارات کے دنیوی اور خدائی استعمال کے درمیان ایک فیصلہ کن فرق قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ان کا وہ انداز بہت مؤثر ہے جس کے ذریعے انھوں نے خدا تک رسائی کا تقابل دنیوی بادشاہوں کی مخصوص متکبرانہ بے نیازی سے کیا ہے۔ جیسا کہ انھوں نے واضح کیا: "اللہ تعالیٰ کسی متکبر حکمران کی طرح نہیں، جو اپنے بندوں پر افسرانہ یا جانب دارانہ انداز میں رحم وکرم کرتا ہے۔ خدا کے دربار میں رسائی کے لیے وزیروں، شہزادوں اور نوابوں کی وکالت اور سفارش کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر چہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے، لیکن وہ دنیوی بادشاہوں کی طرح مغرور نہیں کہ اس کے بندے اس سے چاہے کتنی ہی التجا کریں، وہ غرور کے مارے ان کی طرف دھیان ہی نہ دے"14۔

شاہ اسماعیل نے بتایا کہ خدا کے دربار تک رسائی کرنے اور فریاد سنانے اور قبول کرانے کے لیے کسی کو افسروں اور سفارشیوں کے واسطے کی ضرورت نہیں۔ علاوہ ازیں ایسا بھی نہیں کہ خدا صرف اپنے بندوں کی بڑی اور اہم دعاؤں کو خود سنتا ہے، جبکہ چھوٹے معاملات اس نے اپنے وزیروں کو سونپ رکھے ہیں۔ اپنے بندوں سے معاملہ کرنے کے لیے دنیوی بادشاہوں کے برعکس خدا کبھی اپنے اختیارات کسی کو سونپتا۔ ایک مشہور حدیث کے حوالے سے شاہ اسماعیل دعوی کرتے ہیں کہ ایک شخص کو اپنے جوتے کے تسمے تک کے لیے خدا سے دعا مانگنی چاہیے (حتى يسئله شِسعَ نَعلَيه إذا انقطع)15۔ مختصر یہ کہ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ اپنے بندوں پر خدا کی رحمت وشفقت بے پایاں اور فوری طور پر دست یاب ہوتی ہے، اس لیے اولیا اور انبیا سے توسل کرنا غیر ضروری، غیر منطقی اور غیر شرعی ہے۔

اس نکتے کے اثبات کے لیے شاہ اسماعیل نے ایک طاقت ور قیاس پیش کیا: "اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک رعیتی آدمی بادشاہ کے پاس اکیلا بیٹھا ہے اور بادشاہ اس کی بات سننے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہے۔ پھر وہ رعیتی کسی امیر وزیر کو کہیں دور سے پکارے اور کہے کہ تو میری طرف سے فلاں بات بادشاہ کے حضور میں عرض کر دے، تو یا تو وہ اندھا ہے یا دیوانہ"16۔ یہ قیاس اچھی طرح واضح کرتا ہے کہ شاہ اسماعیل خدائی حاکمیت اور انسانوں کے کردار کے درمیان تعلق کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق انسان کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ خدا کی حاکمیتِ مُطلقہ پر ایمان لاکر اس کی قربت حاصل کرے۔ خدا کی اَحَدیتِ مُطلقہ کے اقرار سے ہی خدا کی قربت حاصل ہو سکتی ہے۔  

شاہ اسماعیل کے استدلال کی طرح وہ عقلی انداز فکر بھی قابل توجہ ہے جس کے اندر انھوں نے اپنا استدلال پیش کیا۔ کسی سفارشی کو مدد کے لیے پکارنا نہ صرف یہ کہ حرام اور بدعت ہے، بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص "پاگل"، بے عقل اور اندھا ہو چکا ہے، کیونکہ وہ اپنی ضرورتوں کے لیے غیر اللہ سے توسل پر انحصار کرتا ہے۔ جس کو خدا سے انتہائی قربت کی بابرکت نعمت میسر ہے، اس کے لیے کسی دور پار غیر خدائی ہستی کے پاس سفارش کے لیے جانا حماقت ہے۔

شاہ اسماعیل نے یہ بھی بتایا کہ غیر اللہ کے علاوہ کسی اور کی منت سماجت کرنا مطلق رحیم ذات کی حیثیت سے خدا کے حق کو چھین کر کسی ایسی ہستی کو دینا ہے جو اس کی مستحق ہی نہیں۔ ایک بار پھر یہاں شاہ اسماعیل نے جس انداز میں اس تصور کو بیان کیا ہے، وہ بہت چشم کشا ہے۔ مناظرانہ کرختگی اور واعظانہ تنبیہ کا امتزاج پیدا کرتے ہوئے شاہ  اسماعیل نے لکھا: "جس نے اللہ کی حاکمیتِ مطلقہ کا حق اس کی مخلوق کو دے دیا تو گویا اس نے ایک عظیم ہستی  کا حق لے کر کسی ذلیل ترین کو دے دیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بادشاہ کے تاج کو ایک چمار کے سر پر رکھ دیا جائے۔ اس سے بڑی بے انصافی کیا ہوگی؟17"

وہ اپنی بات مزید زور کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے  لکھتے ہیں: "اور یہ بات تو یقینی ہے کہ ہر مخلوق، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، اللہ کی عظمت کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے"18۔ یہ بیان طنز سے لبریز ہے۔

ایک ایسے اخلاقی نظام کا تصور جو ذات پات اور نام ونسب کے طبقات سے ماورا ہو، شاہ اسماعیل کے پروجیکٹ کی شہ رگ تھا۔ وہ نام ونسب پر فخر کے شدید ناقد تھے، اور ان کی نظر میں مغلیہ ہندوستان کے آخری دور میں یہ وبا عام تھی۔ لیکن "چمار" کی نسل پرستانہ اصطلاح کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ نام ونسب پر یہ تنقید مطلق نہ تھی۔ جیسا کہ قارئین اگلے چند ابواب میں دیکھیں گے، تمام تر اختلافات اور مناظروں کے باوجود انیسویں صدی میں مسلمان اہل علم کے باہم مخالف گروہ چمار کی تحقیر پر متفق تھے، جو ان میں سے بہت سوں کے لیے سماجی اعتبار سے بالکل نچلی حیثیت کا ایک معمولی فرد تھا19۔ حتّٰی کہ شاہ اسماعیل کے لیے بھی -جن کا عقیدہ یہ تھا کہ خدائی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بعد تمام دنیوی امتیازات اور مراعات مٹ گئی ہیں- چند ایسی بندشیں تھیں جنھیں خدا کی قدرتِ مطلقہ بھی نہیں ہٹا سکتی۔

حاکمیت اور وجودی الہیات کا لزوم

شاہ اسماعیل کی فکر میں الٰہیاتی اور سیاسی تصورات کے ملاپ کو سمجھنے کے لیے کارل شمٹ کے اس قول کی طرف لوٹنا مفید ہوگا کہ حاکم اعلیٰ (sovereign) وہی ہوتا ہے، جو استثنا کو قانون کی شکل دینے کی صلاحیت کا رکھتا ہے، ایسی قدرت جس سے وہ قانون کے دائرے میں عمومی اصول کے اطلاق کو روک سکے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، شاہ  اسماعیل کے تصورِ شفاعت کا مرکزی نکتہ اخروی نجات کے دائرے میں غیر الہی ہستیوں کے کردار کی مکمل تردید ہے۔ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کا تحفظ اس بات کو فرض کرتا ہے کہ تمام انبیا واولیا کی قدرت کو انتہائی محدود کیا جائے۔ بالفاظِ دیگر صرف خدا ہی ان تمام قوانین کو توڑ سکتا ہے جو اس نے خود بنائے ہیں، یا شمٹ کی اصطلاح میں حاکم اعلی کے پاس ہی یہ قدرت ہے کہ وہ استثنائی صورت کی تنفیذ کرے، یعنی ایک عادی مجرم کو بری کرنے کے لیے خصوصی استثنا عطا کرکے عام اصول کو معطل کر دے۔

لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے: شاہ  اسماعیل کی فکر میں کس قسم کی رعیت کا تصور اور ہیئت پیش کی گئی ہے؟ ذرا زیادہ تخصیص کے ساتھ سوال یہ ہے کہ کس طرح سے خدائی ماورائیت سے متعلق شاہ اسماعیل کی الہیات عوامی دائرے میں ایک خود مختار رعیت (sovereign subject) کی تشکیل کی خواہش سے مربوط ہے؟ خدائی حاکمیت کی مطلق انفرادیت کے لیے ان کا پیش کردہ استدلال کس طرح سے عوامی حاکمیت کے ایک مخصوص تصور کو بھی تشکیل دیتا ہے؟ ان سوالات کو زیر بحث لانے میں یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم ماورائیت (transcendence) کی اصطلاح سے مراد کیا لیتے ہیں؟ یہاں میں چاہتا ہوں کہ خاص طور پر ماورائیت پر مارٹن ہائیڈیگر کی فکر سے متعلق اروند منڈیئر (Arvind Mandair) کے شان دار مطالعے سے استفادہ کروں۔ منڈیئر کہتا ہے کہ ہائیڈیگر کے مطابق، جیسا کہ اس کی تحریر Metaphysical Foundations of Logic میں ہے، "ماورائیت" کو، جس کی خاصیت حدود سے ماورا ہونا ہے، دو مختلف طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے: (1) حضور وشہود  (immanence) کے مقابلے میں؛ (2) امکان واحتمال (contingency) کے مقابلے میں20۔

پہلی صورت میں، جسے ہائیڈیگر "علمیاتی ماورائیت" (epistemological transcendence) کہتا ہے، ماورا وہ ہے "جو اندر نہیں بلکہ باہر رہتا ہے، جو جوہر (روح) اور شعور سے باہر واقع ہوتا ہے۔۔۔ جو حدود سے اور شعور کو محیط دیوار سے باہر ہوتا ہے"21۔ ماورائیت کے اس تصور میں اندرون وبیرون کے درمیان کلیدی رشتہ ہے ، جس میں حاضر ومشہود  اندرون ہے جو جوہر/فرد کے اندر رہتا ہے، اور ماورائی وجود وہ ہے جو جوہر اور شعور سے باہر واقع ہوتا ہے۔

اس کے برعکس جب ماورائیت کا تقابل امکان واحتمال کے ساتھ کیا جائے تو یہ ایک الٰہیاتی تصور بن جاتا ہے۔ پھر اس سے مرادہ وہ ہے جو ہم سے تعلق رکھنے والی اور ہمیں محسوس ہونے والی ہر چیز سے ماورا ہے؛ "تمام حسی موجودات سے اس طرح سے ماورا ہونا جو مکمل طور پر ناقابل گرفت ہو" کے معنی میں "پَھلانگ" ہے22۔ "اس صورت میں ماورا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک لامتناہی فرق ہے"23۔ ہائیڈیگر مزید بتاتا ہے کہ الہیاتی مابعد الطبعیات (theological metaphysics) کی کم وبیش تمام صورتیں علمیاتی اور اعتقادی ماورائیت کے ان دو تصورات کے ساتھ جُڑتی ہیں، اور اس طرح سے "خارجی دنیا کے وجود کا قضیہ علمِ باری تعالی اور وجودِ باری تعالیٰ کے اثبات کے امکان میں الجھ جاتا ہے"24۔ اس قسم کے منہج فکر کو، جس میں عالمِ ظاہری سے متعلق ایک بندے کے علم کا امکان ایک ماورا خدا کے علم سے مشروط ہو جائے، ہائیڈیگر "وجودی الہیات (ontotheology)" کہتا ہے۔ یہ اصطلاح تین چیزوں سے مرکب ہے: وجود (onto)، الٰہ (theos) اور علم (logos)۔

یہ اہم ترین نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماورائیت کے لیے وجودی الٰہیات کا استدلال حاکمِ مُطلق خدا کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو ایک خود مختار رعیت کی شکل میں خود کو دوبارہ ظاہر کرتا ہے۔ خدائی حاکمیت اور عوامی حاکمیت باہم دگر جڑے ہوئے ہیں، جن میں ہر ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہے۔ مسئلۂ شفاعت کی بابت شاہ اسماعیل کی فکر اور وجودی الہیات کے منہج میں گہری مماثلت ہے۔ خدائی حاکمیت کی یکتائی کے لیے ان کا استدلال جتنا خدا سے متعلق ہے، اتنا ہی عوامی دائرے میں ایک خود مختار رعیت کی تشکیل سے متعلق ہے۔ خدا اور ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت باہم غیر متعلق نہیں، بلکہ خدائی حاکمیت سے متعلق شاہ اسماعیل کے بیانات کی استدلالی فضا میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔

تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے سیاسی الہیات کا ایک ایسا تصور پیش کیا جو عوامی دائرے میں ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کو شعوری طور پر اس مطالبے سے مربوط کرتا ہے کہ وہ تغیر وتبدل سے پاک حاکمِ مطلق خدا کی ماورائیت کا اقرار کرے۔ اس وجودی الہیاتی منہج کے اندر کسی بندے کا اپنی ذات یا دوسروں سے تعلق خدائی حاکمیت سے وفاداری پر منحصر ہے۔ سماج کے تمام افراد کی اجتماعی ذمہ داری یہ ہے کہ خدائی حاکمیت کا اقرار کریں25۔ سماجی یک جہتی کی بنیاد ہی خدائی حاکمیت کا اقرار ہے۔ سماج کے تمام افراد حاکمِ مطلق خدا سے اپنی مشترکہ وفاداری میں متحد ہیں۔ یہ یک جہتی برقرار تو رہتی ہے، تاہم خدائی حاکمیت (توحید) کی حدود سے تجاوز (شرک) کا مستقل خدشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ ہر فکر، عمل اور روزمرہ کے نظامِ حیات کی مسلسل نگرانی ضروری ہے تاکہ حاکمِ مطلق خدا کے تمام ممکنہ حریفوں کو حاکمیت کے دائرے تک رسائی سے روکا جائے۔

ایسی شدید نگرانی اور بے چینی کے ماحول میں وجودیات (ontology) ہمیشہ عقائد (theology) سے بندھے ہوتے ہیں۔ زندگی کی حدود اور شناخت کی حدود حاکمِ مطلق خدا کی ہستی سے اس طرح جڑی ہوتی ہیں کہ انھیں علیحدہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ شناخت کے اس تصور کے مطابق فکر وعمل کی ان تمام صورتوں کو جو اس طرح کی رعیت کی تشکیل کے لیے خطرہ ہوں یا اس کی تشکیل کو کمزور کرتی ہوں، مٹانا چاہیے۔ شاہ اسماعیل نے شرک کی جن اقسام کو خدائی حاکمیت (توحید) کی ضد قرار دیا ہے، اس میں یہی وجودی الہیاتی استدلال کار فرما ہے۔ ان کی نظر میں یہ تجاوزات خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسے تعلق کو کمزور کرتے ہیں، جس میں انسانی زندگی کا ہر لمحہ اس فریضے کے لیے وقف ہے کہ وہ خدائی حاکمیتِ مطلقہ کا اقرار کرے۔

مزید برآں شاہ اسماعیل کے الٰہیاتی تصور میں کسی کا ذاتی اختیار حاکمِ مطلق خدا کے دربار میں فوری رسائی کے امکان کے ذریعے قائم ہے۔ خدا کو تمام اختیارات سپرد کرنے کے عمل کے نتیجے میں بندے کو یہ آزادی دے دی گئی ہے۔ خدا اور اس کی انسانی رعیت کے درمیان تعلق کے لیے انبیا واولیا کی ثالثی کی کوئی ضرورت نہیں۔ خدا اپنے بندوں کی الحاح وزاری اور دعاؤں کے سننے اور قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت موجود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ نے انفرادی طور پر ہر فرد اور نتیجتاً اجتماعی طور پر تمام عوام کو غیر اللہ پر انحصار سے آزادی فراہم کی ہے۔

انفرادی اور اجتماعی نجات کا مکمل دار ومدار حاکمِ مطلق خدا سے عہدِ وفا پر منحصر ہے لیکن، اہم نکتہ یہ ہے کہ  یہ نجات مشروط ہے۔اسے صرف وہی لوگ پا سکتے ہیں جو شعوری اور ارادی طور پر خدائی حاکمیت کے تمام مزعومہ حریفوں سے دور رہیں۔ جو کوئی بھی اپنے اعمال وعقائد کے ذریعے حاکمِ مطلق خدا کے حریفوں کے اختیار کو تقویت فراہم کرتا ہے، وہ اخروی نجات نہیں پا سکتا۔

ایسا شخص جو خدائی حاکمیت کی مطلق یکتائی کو کمزور کرتا ہے، اعتقادی بغاوت کے ارتکاب کا مجرم ہے۔ خدائی حاکمیت کی سالمیت کو برقرار رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ سماجی زندگی کے ہر ہر لمحے میں خدائی حاکمِ اعلیٰ کے ساتھ مکمل وفاداری نبھائی جائے۔ خدائی حاکمیت کی کوئی معقولیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب وہ مطلق ہو۔ خدائی حاکمیت کی یہ تفہیم حیرت انگیز طور پر اس منہج کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے جس میں جدید ریاست اپنی حاکمیت شہریوں سے منواتی ہے۔

جس طرح جدید ریاست اپنے شہریوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اس کی حاکمیت سے مکمل وفاداری کا عہد کریں، اس طرح سے شاہ اسماعیل کے سیاسی عقیدے میں خدا کی حاکمیت کا تحفظ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وہ مطلق ہو، اور وہ کسی بھی حریف کے خطرے سے دوچار نہ ہو۔ اور جس طرح ریاست کی حاکمیت کو چیلنج کرنے کا نتیجہ شہریت سے محرومی اور غداری کے الزام کا سامنا کرنا ہے، بالکل اسی طرح شاہ اسماعیل کی نظر میں خدائی حاکمیت کو چیلنج کرنا آدمی کو ایمان کی سرحد سے باہر کر دیتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کی حدود، چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، خدائی ماورائیت کے عقیدے میں وجودی الہیاتی انداز میں پیوست تھیں۔ لیکن یہ وجودی الہیاتی بندوبست ایک شدید تضاد کا شکار تھا۔

ایک جانب شاہ اسماعیل نے ایک انتہائی جمہوری انداز  کی الٰہیات تشکیل دی۔ الہیات کے اس تصور کے مطابق ایک سماج تمام اختیارات کو صرف  خدا کے لیے مانتا ہے، اور اس طرح اس اختیار کو تمام انسانوں اور غیر خدائی ہستیوں سے دور رکھتا ہے۔ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کے ساتھ اس وفاداری کے بدلے میں انھیں خدا کی کامل قربت کی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن خدا کی کا قربت کے حصول کے لیے شرط یہ ہے کہ بندہ خدا کی مطلق یکتائی کا اقرار کرے۔ خدا بیک وقت سماج کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ وہ سماج کے سب سے زیادہ قابل رسائی فرد کی حیثیت سے سماج کے اندر ہے۔ تاہم وہ ایسا قادر مطلق ہونے کی حیثیت سے باہر بھی ہے، جو کسی بھی لمحے تمام موجودہ قوانین کو تبدیل کرکے استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہے۔

استثنا کو قانون کی شکل دینے کا مرحلہ خدا سے اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ سماج کی حدود سے باہر قدم رکھے تاکہ وہ اپنے جاری کردہ اصول وقوانین کو معطل کرے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے بندوں سے تعلق کے حوالے سے خدا بیک وقت بے حد قریب بھی ہے اور بے حد دور بھی۔ وہ حیرت انگیز طور پر حاضر ومشہود  (immanent) ہے، تاہم وہ حیرت انگیز طور پر ماورائی بھی ہے۔ خدا ہر جگہ ہے، اور وہ کہیں بھی نہیں۔ حاکمیت کا کوئی تصور، چاہے اس کا تعلق  مذہبی خدا (اللہ تعالیٰ) سے ہو یا لامذہبی خدا (ریاست) سے، اس لا ینحل تناقض سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ شاہ اسماعیل کی سیاسی الہیات بھی اس متناقض استدلال میں الجھی ہوئی ہے کہ خدائی حاکمیت کا تحفظ ایسے عوام کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے جن کا فرض اس حاکمیت کا مسلسل اقرار اور تحفظ ہو26۔  یہ ایک ناممکن عمل تھا۔

شفاعتِ نبوی پر شاہ اسماعیل کی متنازعہ آرا اور مغلوں کے عہد حکومت کے آخری دور میں شاہی حکومت پر ان کی کاٹ دار تنقید کو شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں شاید کسی بھی ہندوستانی مسلمان مفکر کے خیالات کو اس قدر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، ان کے دینی افکار وعقائد برصغیر میں اور اس سے باہر برطانیہ، جنوبی افریقہ اور امریکا میں مقیم ہندوستان سے تعلق رکھنے والے  سنی مسلمانوں کے مابین مباحثوں پر کئی دہائیوں سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ تاہم ان کی اپنی زندگی میں ان کے شدید ترین اور زبردست علمی مخالف دلی کے مشہور فلسفی، شاعر اور معقولی علامہ فضل حق خیر آبادی تھے۔ انھوں نے فارسی میں "تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوٰی" کے نام سے خدائی حاکمیت پر شاہ اسماعیل کے افکار کی ایک جارحانہ تردید لکھی جس پر اب ہم بحث کریں گے۔


 حواشی

  1.  شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور: مطبع احمدی، تاریخ اشاعت ندارد)، 18۔
  2.  ایضاً، ص 24۔ اس حدیث کا شان ورود قرآن (26 : 214) کی وہ "تنبیہ" ہے، جو اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو کی ہے: "اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ"۔
  3.  القرآن 72 : 21 – 22۔ بحوالۂ شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی: صدیقی ٹرسٹ، تاریخ اشاعت ندارد)، 95۔
  4.  ایضاً۔
  5.  ایضاً، 5۔
  6.  القرآن 10 : 18۔ بحوالہ اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور)، 4۔
  7.  القرآن 23 :88، بحوالہ ایضاً، 5۔
  8.  القرآن 20 : 109۔
  9.  القرآن34 : 23۔
  10.  اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 100۔
  11.  ایضاً، 101 – 2۔
  12.  ایضاً، 102 – 103۔
  13.  ایضا، 103۔
  14.  ایضاً، اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور)، 122۔
  15.  ایضاً، 23۔
  16.  اَیضاً، 23۔
  17.  ایضاً۔
  18.  ایضاً، اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 68۔
  19.  اس بات کا ذکر مفید ہوگا کہ انیسویں صدی میں مسلمانوں کے درمیان مناقشوں کے تناظر میں ایک حقیر فرد کی حیثیت سے لفظ چمار کا استعمال بالکل عام ہے، جبکہ اٹھارھویں صدی میں ایسے حوالے، اگر ہوں بھی تو بہت کم ہیں۔ چمار جیسی ذات پات کی اصطلاحات کا برطانوی استعمار کی جانب سے تشکیل نو اور شمالی ہندوستان کے مسلمان اہل علم اشرافیہ کے درمیان ان اصطلاحات سے جڑے منافرانہ تصورات کے درمیان تعامل ایک ایسا موضوع ہے جس پر مزید گہری تحقیق اور غور وفکر کی ضرورت ہے۔ ذات پات کی استعماری اور معاصر سیاسیات، بالخصوص سابقہ اچھوت/شودروں کے حوالے، سے مزید دیکھیے: رام نارائن راوَت اور کے ستیانارائنہ (مدَوِّنین)، Dalit Studies، (درہم: این سی، ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2016)؛ انوپاما راو، The Caste Question: Dalit and the Politics of Modern Indial، (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2009)؛ روپا وِسواناتھ، The Pariah Problem: Caste, Religion, and the Social in Modern India، (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2014)؛ اور ناتھانیل روبرٹس، To Be Cared For: The Power of Conversion and the Foreignness of Belonging in an Indian Slum، (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2016)۔
  20.  اروند منڈیئر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک، کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)، 234؛ ہائیڈیگر، Metaphysical Foundation of Logic (بلومنگٹن: انڈیانا یونیورسٹی پریس، 1984)، 160۔
  21.  ہائیڈیگر، Metaphysical Foundation of Logic، 160۔
  22.  ایضاً، 161۔
  23.  ایضاً، 162۔
  24.  ایضاً۔
  25.  یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ شاہ اسماعیل کی سیاسی الہیات سے متعلق یہ میری ذاتی تفہیم ہے؛ انھوں نے کہیں بھی اسلامی قانون میں موجود انفرادی یا اجتماعی ذمہ داری کی اصطلاحات میں اپنے استدلال کو بیان نہیں کیا ۔
  26.  اگلے حصے میں جو ابواب میں ہیں، ان میں نسبتاً‌ زیادہ گہرائی سے سیاسی الہیات، قانون اور مثالی عوام کے درمیان تعامل پر بحث کی گئی ہے۔


آراء و افکار

(اگست ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter