اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا مقدمہ)
تعارف
ستمبر 2006 میں عابد علی نے، جس کا تعلق شمالی ہندوستان کے شہر مراد آباد سے تقریبًا بارہ میل کے فاصلے پر واقع گاؤں احرار اللہ سے ہے، کئی دہائیوں سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے باوجود اپنی پچھتر سالہ بیوی اصغری علی کے ساتھ تجدیدِ نکاح کی۔ ۔ چند ہفتے پہلے ان نکاح ٹوٹ گیا تھا، کیوں کہ انھیں ایک مقامی مسلمان مولوی عبد المنان کریمی نے دیگر دو سو افراد سمیت کافر قرار دیا تھا۔ کریمی نے یہ انتہا پسندانہ فتوی اس وقت صادر کیا جب اسے پتا چلا کہ حال ہی میں اس کے گاؤں میں وفات پانے والے ایک بزرگ شخص کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ نماز جنازہ میں شرکت کوئی قابل اعتراض امر نہیں تھا۔ تا ہم کریمی کے خیال میں گاؤں کے لوگوں نے مخالف مسلک کے امام کے پیچھے نمازِ جنازہ ادا کرکے ایک سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا1۔
کریمی اور وہ دو سو لوگ جنھیں اس نے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا، دونوں کا تعلق سنی اسلام کے معروف بریلوی مسلک سے تھا۔ جنازے کی امامت کرنے والے مولوی ابو حفیظ محمد کا تعلق تاریخی مسلکِ دیوبند سے تھا۔ جنازے کے دن چونکہ مقامی مولوی موجود نہیں تھا، اس لیے ابوحفیظ نے قائم مقام امام کی حیثیت سے نماز جنازہ پڑھا دی۔ کریمی کے نزدیک ایک دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کا عقیدہ باطل ہو گیا تھا اور اسی وجہ سے ان میں سے شادی شدہ افراد نکاح ٹوٹ گیا تھا۔کریمی کا پرزور اصرار تھا کہ دائرہ اسلام میں واپسی کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ توبہ کریں، از سرِنو کلمہ پڑھیں، اور عقدِ نکاح کی تجدید کریں۔ اس کے الفاظ یہ تھے: "توبہ کرو، کلمہ پڑھو اور نکاح پڑھواؤ"۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک عوامی تقریب میں سو سے زیادہ جوڑوں نے نکاح کی تجدید کی۔ فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے کریمی نے بڑے پرجوش انداز میں کہا: "یہ شادیاں ہر قسم کی نمود ونمائش سے پاک ہیں۔ صرف دوگواہوں کی موجودگی کی شرط پوری کی گئی ہے"2۔
شمالی ہندوستان میں رونما ہونے والے اس عجیب وغریب واقعے کے چند سال بعد، سرحد پار پاکستان میں واقعات کے ایک غیر مربوط سلسلے نے دیوبندی بریلوی مخاصمت کو غیر معمولی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ اگلا قصہ اس جاری کش مکش کے فریقوں اور علم برداروں کی مزید وضاحت کرتا ہے۔
10جنوری 2011 کو پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مظفر گڑھ کے ایک مقامی امامِ مسجد محمد شریف اور اس کے بیٹے محمد اسلم کو توہینِ رسالت کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔ دراصل انھیں 2010 میں اپنے خاندان کے ایک کریانہ سٹور پر عید میلاد النبیؐ کی تقریب سے متعلق اشتہاری پوسٹر کو ہٹانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس تقریب کے منتظمین کے مطابق، جنھوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا، شفیع اور اسلم نے پوسٹر کو پھاڑا تھا اور اسے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ باپ اور بیٹے دونوں پر پاکستان کے متنازعہ قانونِ توہینِ رسالت کے تحت مقدمہ بنایا گیا۔ نظری اعتبار سے یہ قانون کسی بھی معروف مذہب کی توہین کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ تاہم عملاً اس کا اطلاق اکثر وبیتر ان افراد پر ہوتا ہے جو توہینِ رسالت کے جرم میں ملوث پائے گئے ہوں۔ جرم کی سزا تعزیری جرمانوں سے لے کر سزائے موت تک ہے۔
شفیع اور اسلم کے خلاف عدالتی فیصلہ پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کے ہیجان انگیز قتل کے چھ دن بعد صادر ہوا۔ سلمان تاثیر کو اس کے ذاتی محافظ ممتاز قادری نے گولی مار دی تھی جس کے خیال میں گورنر نے قانونِ توہینِ رسالت کی مخالفت کرکے سنگین گناہ کا ارتکاب کیا تھا3۔اس سنسنی خیز واقعے کے بعد پاکستان میں متعدد سیاستدانوں، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے توہینِ رسالت کے قانون کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت میں کہا کہ یہ فرقہ وارانہ تشدد کو ابھارتا ہے، اور اسے ذاتی انتقام کی تسکین کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان احتجاجی جلسوں میں شفیع اور اسلم کے وکیل صفائی عارف گورمانی بھی شریک تھے۔
گورمانی کا دعویٰ تھا کہ اس کے موکلوں کو سزا دیتے وقت عدل وانصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ اس کے خیال میں اس کے موکل سنیوں کے درمیان موجود بین المسالک چپقلش کی زد میں آ گئے ہیں۔ گورمانی نے کہا: "دونوں (مدعی اور مدعیٰ علیہ) مسلمان ہیں۔ یہ کیس سنی مسلمانوں کے درمیان دیوبندی بریلوی اختلاف کا شاخسانہ ہے۔ میں ان کی وکالت اس لیے کر رہا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ توہینِ رسالت کے جرم میں ملوث نہیں ہیں"4۔ اس کے موکلوں کا تعلق دیوبندی مکتبِ فکر سے تھا۔
سنی اسلام کے دیوبندی اور بریلوی مسالک میں فرقہ وارانہ چپقلش، جس کی طرف گورمانی نے اشارہ کیا، مسلمان علما کے درمیان مناظرانہ بحثوں کے اضطراب انگیز لیکن اہم سلسلے سے تعلق رکھتی ہے جس کا آغاز انیسویں صدی کے شمالی ہندوستان میں ہوا۔ شفیع کی طرف سے عید میلاد النبیؐ کے اشتہار کی بے حرمتی سے جنم لینے والے تنازع کی طرح انیسویں صدی کے اس مباحثے نے جنوبی ایشیائی اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی مقام اور حیثیت کے حوالے سے متصادم تصورات کو جنم دیا تھا۔ اس نے ایک ایسے پیچیدہ شرعی مسئلے کو موضوعِ فکر بنایا جو کئی صدیوں تک مسلمانوں کے دماغوں پر حاوی رہا، یعنی یہ کہ مسلمان معاشرہ کس طریقے سے حضور ﷺ کی یاد کو تازہ رکھے اور آپ کے اسوہ پر عمل کرے؟
زیر نظر کتاب بریلوی دیوبندی اختلاف کا پہلا جامع مطالعہ ہے۔ یہ ایک مناظرانہ جنگ ہے جس نے جنوبی ایشیا میں اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو انتہائی گہرے انداز میں تشکیل دیا ہے۔ اس مناظرانہ جنگ کو شروع ہوئے لگ بھگ دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے، تاہم اس کی گرفت مابعد استعمار دور میں بھی جنوبی ایشیا کے مقامی مسلمانوں اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تارکین وطن کی مذہبی حساسیتوں پر آج بھی قائم ہے5۔ اس تنازع کے استدلالات، تحریری سرمایے اور ماحول نے ناقابل تنسیخ طریقے سے اس نہایت اہم سوال کی تشکیل کی ہے کہ جدید دنیا میں، جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں کس چیز کو حقیقی اسلام کا اور ایک معیاری مسلم شناخت کا درجہ حاصل ہے۔
جیسا کہ ان دو واقعات سے، جن سے میں نے بات کا آغاز کیا ہے، معلوم ہوتا ہے، دیوبندی بریلوی اختلاف محض ایک علمی چپقلش کا معاملہ نہیں۔ اس مباحثے کے فریقوں اور علمبرداروں کے درمیان اختلاف کا سلسلہ اسلام کے روزمرہ معمولات کو محیط ہے اور توہینِ رسالت کی تعریف سے لے کر اس سوال تک پھیلا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اخلاقی اور روحانی زندگی کی تشکیل کس نمونے پر کی جائے۔ تاہم عموماً عوامی اور علمی مباحثوں میں بریلوی دیوبندی اختلاف کا مطالعہ ا بعض بظاہر بہت مضبوط لیکن درحقیقت سطحی موازنوں کے فریم ورک میں کیا جاتا ہے، مثلا فقہی اسلام اور صوفی اسلام، خالص اسلام اور عوامی اسلام، تحدید پسند اسلام اور شمولیت پسند اسلام، روایتی اسلام اور احیائی اسلام وغیرہ۔ ان باہم دگر جُڑے موازنوں میں بالعموم جس موازنے کو بریلوی دیوبندی اختلاف کی توضیح کے طور پر شاید سب سے زیادہ پیش کیا جاتا ہے، وہ فقہی/صوفی موازنہ ہے۔ اس اختلاف کو، جیسا کہ میں اس تعارف میں واضح کروں گا، بکثرت اسلام کی صوفی اور فقہی روایات یا فقہ وتصوف کے درمیان ایک دائمی اختلاف کا ایک مظہر سمجھا جاتا ہے۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کے داخلی استدلالات کی گہری تحقیق کی روشنی میں، زیر نظر کتاب ایسے تقابلی تشریحات وتوضیحات کی فکری کم مایگی اور کجی سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ تقابلی موازنے انسانی زندگی اور مذہب کے دائرۂ کار کی تحدید کے کے حوالے سے لبرل سیکولر ازم کے انداز فکر کی غمازی کرتے ہیں جس کی ناکامی طے شدہ ہے۔ سادہ فکری پر مبنی اور سیاسی طور پر نقصان دہ اور گمراہ کن ہیں۔
میں ایک ایسے متبادل فکری منہج کی وکالت کرتا ہوں جو مذہب کے حدود کی تعیین کے لیے پیش کیے گئے ان متصادم بیانیوں کو روایت اور تجدید ے دو حریف فکری سانچوں (competing rationalities)کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان سانچوں کو تشکیل دینے والے فریق یہ کوشش کرتے ہیں کہ خاص حکمت عملی کے ذریعے سے دینی روایت کی تعیین وتحدید کے اختیار پر اپنا استحقاق ثابت کر سکیں۔ وہ اپنے مد مقابل بیانیوں کی اہمیت کو گھٹانے کی جدوجہد کرتے ہیں تا کہ قطعیت سے یہ بتا نے کا اختیار صرف ان کے پاس ہو کہ کس چیز کو مذہب سمجھنا چاہیے اور کس کو نہیں۔ اس عمل میں حکمت عملی کے طور پر تکفیر وتضلیل (exclusion) کی کئی صورتیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر مخالفین کے دلائل کی داخلی بے ربطی کو واضح کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے ماضی کے مستند دلائل کے ساتھ ان کا تضاد دکھا کر ان عناصر کی ثقاہت کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے، جنھوں نے مخالف دلائل تشکیل دیے ہیں، اور سب سے اہم یہ کہ ان کے مقابلے میں معیاری اسلام (normative)کا ایک متبادل اور متوازی تصور پیش کیا جاتا ہے۔
بحث ونزاع کے اس ماحول کو، جس میں برتری حاصل کرنے کے لیے مختلف استدلالی حکمت عملیوں سے کام لیا جا رہا ہو، کبھی بھی تقابلی خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ اس کے بجاے یہ فکر ونظر کے ایک انداز کا تقاضا کرتا ہے، جو بہت قریب سے ان متقابل استدلالات کو جانچے جن کے ذریعے سے ایک علمی واستدلالی روایت کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعینہ یہی منہج ہے جس کو اس کتاب میں برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ روایت اور تجدید کے حوالے سے انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمانوں کے مابین زیر بحث فکری سانچوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کتاب ان مناہج کو سامنے لاتی ہے جن کے ذریعے سے جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کی حدود کا تعین کیا گیا، ان کو توجہ کا مرکز بنایا گیا، اور ان پر بحث ومباحثہ کیا گیا6۔
معاشرتی تشکیل کا مذہبی نظام فکر (Political Theology)
یہ کتاب خاص طور پر یہ نقطہ نظر پیش کرتی ہے کہ بریلوی دیوبندی تنازع کی اساس معاشرتی تشکیل کے مذہبی نظام فکر کا سوال ہے۔ معاشرتی تشکیل کے مذہبی نظام فکر سے میری مراد مذہبی مباحثوں اور سیاسی و سماجی تصورات کا گہرے طورپر باہم وابستہ (interlocking) ہونا ہے۔ان تنازعات کا مرکزی سوال یہ تھا کہ نوآبادیاتی دور میں، جب مسلمان اپنی سیاسی حاکمیت کھو بیٹھے تھے، خدائی حاکمیت اور حضرت محمد ﷺ کے مقام ومرتبہ کے مابین تعلق کو کس طرح سمجھا جائے؟7 خدا اور پیغمبر کے درمیان تعلق کی متخالف تفہیمات نے مذہبی رسوم اور عوام کی روزمرہ زندگی کی شکل وصورت کے بارے میں متوازی تصورات کو جنم دیا۔ بالفاظ دیگر بریلوی دیوبندی تنازع نے خدائی حاکمیت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی مقام اور حیثیت اور روزمرہ کی مذہبی رسوم کے درمیان شرعی تعلق کے حوالے سے متوازی تصورات پیش کیے۔ اس تنازع میں زیرِ بحث سوال یہ تھا کہ ایک غیر معمولی اخلاقی اور سیاسی بے چینی کے دور میں خدا، پیغمبر اور معاشرے کے درمیان تعلق کو کیسے سمجھا جائے۔ علم کلام، فقہ اور روزمرہ کے اعمال کے درمیان تعلق وہ فکری دھاگا ہے جو اس کتاب کے مباحث کی شیرازہ بندی کرتا ہے، اور میں اسے مسلمانوں کے مابین داخلی مناقشے اور استدلال کی روایات کی تحقیق کے لیے ایک منہج کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس کتاب کا ایک مرکزی موضوع یہ سوال ہے کہ کس طرح سیاسی اقتدار کا خاتمہ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور کسی گروہ کی روزمرہ معاشرتی زندگی کے ساتھ اس کے تعلق پر مناقشوں میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ جب برطانوی نوآبادیاتی نظام کے آغاز سے برصغیر پاک وہند کے اکثر حصوں پر مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، تو اکابر مسلمان علما کے لیے اس سے زیادہ فوری نوعیت کا مسئلہ اور کوئی نہیں تھا کہ وہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے دینی سرحدات کو محفوظ کریں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کس طرح دو متخاصم گروہ، جن میں انیسویں صدی کے سب سے زیادہ نامور اور کثیر التصانیف علما شامل تھے، اس فوری مسئلے سے نبرد آزما ہوئے۔ یہ کتاب بریلوی دیوبندی چپقلش کی مابعد استعمار باقیات سے زیادہ اس کے دور استعمار کے تناظر سے بحث کرتی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ نئی پیش رفت کی اہمیت کو گھٹانا نہیں، اور نہ ہی اس کا مقصد اس مسئلے کی تاریخی جڑوں کی تلاش ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد یہ تیقن ہے کہ صرف نوآبادیاتی تناظر کے ایک مسلسل اور محتاط مطالعے سے ہی مابعد استعمار دور میں اس کش مکش کی باقیات کو ٹھیک طرح سے سمجھا جا سکتا اور ان کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے8۔ ان متون، کرداروں اور بیانیوں کی ایک گہری تحقیق سے، جو اس مباحثے کے دور آغاز میں موجود تھے، میں اس بات کی تفصیلی تصویر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ استعماری جدیدیت کے دور میں کس طرح ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی حدود بحث ومناقشہ کا موضوع بنیں۔
بڑی تصویر
اس کتاب کا ارتکاز جنوبی ایشیا میں اسلام کی دو متوازی تحریکوں اور مذہبی تصورات پر ہے جن کی ابتدا انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی۔ ان حریف تجدیدی سلسلوں کے کرتا دھرتا وہ ممتاز علما تھے، جن کی حیات اور علمی مساعی نے جنوبی ایشیا کے مسلم ورثے پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ باوجود شدید اختلافات کے، ان میں بہت سے مشترکات بھی موجود تھے۔ وہ بالعموم مشترکہ علمی شجروں، حوالہ جاتی مصادر، مطالعہ وتشریح کے طور طریقوں اور یکساں جغرافیوں (یعنی دہلی اور شمالی ہندوستان) سے وابستہ تھے۔ علوم اسلامیہ کے ماہر یہ علما ایک جیسے ادارتی مراکز یعنی مدارس میں بیٹھتے تھے جہاں اعتقادی علومِ، اخلاقیات اور خدا پرستی کی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں بہت سے مسلمان علما بشمول انیسویں صدی کے ان کرداروں کے جن کی فکر سے اس کتاب میں بحث کی جائے گی، درس نظامی کے تعلیم وتربیت یافتہ تھے۔ یہ بھاری بھرکم (عموما چھ سالہ) نصاب علوم اسلامیہ کے مختلف پہلؤوں (تفسیرِ قرآن، علومِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور منطق) پر مشتمل ہے، البتہ کسی مدرسے کے مخصوص رجحانات کے لحاظ سے مختلف مضامین کو مختلف سطح کی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ درسِ نظامی سترھویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مشہور عالم ملا نظام الدین (م 1677) کے نام نامی سے منسوب ہے۔
مسلمانوں کے جن حریف فکری دھاروں کو اس کتاب میں زیرِ بحث لایا گیا ہے، اگر انھیں آج کے رائج نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ اس اعتبار سے بھی ایک جیسے ہیں کہ دونوں کو باہر سے ایک ہی طرح کے دقیانوسی انداز میں دیکھا جارہا ہے۔ مغربی، مسلم اکثریتی، اور غیر مغربی اور مسلم اقلیتی تناظر میں یکساں طور پر مدارس اور ان کے کارپرداز علما کو عام طور سے ایک پُراسرار روایت کے ماہرین کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو عہد جدید سے بالکل لاتعلق ہے۔ سب سے بدتر یہ کہ انھیں انتہا پسند علم دشمنی کے نمائندوں کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کی آگ بھڑکاتے ہیں9۔ مدرسہ کا خوف اب ایک ایسا عالمگیر مظہر ہے جس میں مختلف اور باہم متضاد نظریاتی وابستگیاں اور دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے گروہ مشترک طور پر مبتلا ہیں۔ ان میں طاقتور نوسامراجی تھنک ٹینکس سے لے کر صہیونی اور مسیحی قوم پرست، بہت سے لبرلز، تجدد پسند اور حتی کہ بعض صورتوں میں مسلم اکثریتی ممالک کے اسلام پسند بھی شامل ہیں۔ اگر چہ مدارس اور علما کی بھونڈی تصویر کشی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، تاہم نائن الیون کے بعد ان میں ایک غیرمعمولی شدت اور اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب مدارس کو تقریبا طالبان اور دہشت گردی کے ہم معنی قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے ایک سرگرم صنعت معرض وجود میں آ گئی ہے، جس میں خود ساختہ ماہرین براجمان ہیں جنھوں نے مدارس اور علما کی تحقیر اور بدنامی کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے۔
ہر چند کہ یہ ایک نسبتاً پرپیچ بین المسلکی تنازع پر ایک اختصاصی علمی کتاب ہے، تاہم جنوبی ایشیا کے مسلمان علما اور ان کے علمی مباحثوں کے بارے میں اس مریضانہ بیانیے کی تصحیح اس کتاب کے نمایاں اہداف میں سے ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس کا مقصد مدارس کی تقدیس یا اس سے کوئی رومان وابستہ کرنا نہیں۔ جیسا کہ مدارس سے وابستہ بہت سے اہل علم کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ تسلیم کریں گے کہ ایک شخص مدرسے کی علمی روایات کے بہت سے پہوں بالخصوص صنفی انصاف کے سوالات اور غیر مسلم اقلیتوں سے متعلق رویے کا ناقد ہو سکتا ہے10۔ تاہم جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی روایات کی ایک پیچیدہ اور پُرکار تصویر پیش کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے داخلی تنازعات کی گہرائیوں، تفصیلات اور ابہامات کو زیرِ غور لایا جائے۔ یہ کتاب اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے اور جدید جنوبی ایشیائی اسلام میں علما کے درمیان جنم لینے والے غالبا سب سے طویل المدت اور علمی اعتبار سے عمیق ترین مناظرانہ معرکہ آرائی یعنی بریلوی دیوبندی اختلاف کی بہت قریب سے جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس اختلاف کے گہرے مطالعے سے میرا مقصد جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کے علمی پس منظر کے ایک اہم اور معتد بہ حصے (fragment) کی تفصیلی تصویر کشی ہے۔ سو اصل میں یہ مناقشہ کس چیز کے بارے میں ہے، اور کن مرکزی کرداروں نے اس کی صورت گری کی ہے؟ میں اگلے مرحلے میں ان سوالات کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، تاکہ اس پروجیکٹ کے مقصد اور بنیادی استدلال کی توضیح وتشریح کر سکوں۔
روایت اور اصلاح کی متقابل عقلیات
اس پوری کتاب میں، میں ہندوستانی مسلمانوں کی علمی اشرافیہ کے دو مدمقابل دھڑوں کی طرف سے پیش کی جانے والی روایت اور اصلاح کی حریف عقلیات توضیح کروں گا۔ ان میں سے ایک گروہ ان علما کا تھا، جن کے تصور دین کا دار ومدار اس پر تھا کہ خدا کی مطلق طور پر امتیازی حاکمیتِ اعلیٰ کا اثبات کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے حضرت محمد ﷺ کی ایک ایسی تصویر پیش کی جس میں آپ کی بشریت پر اور مختار کل وحاکم مطلق خدا کے حضور آپ کی عبدیت پر بہت زیادہ زور تھا۔ انھوں نے ان رسوم ورواج اور روزمرہ کی عادات واطوار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی اہمیت کو گھٹا رہے تھے، یا حضور ﷺ کی تقدیس ایسے انداز میں کررہے تھے جس سے آپ کی بشریت میں شک پیدا ہو۔ اس اصلاحی منصوبے کے بڑے کرداروں میں سے ایک، انیسویں صدی کے ابتدائی عہد کے ہندوستانی مسلمان مفکر شاہ اسماعیل شہید (م 1831) تھے۔ ان کے اس اصلاحی ایجنڈے کو انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں دیوبند کے پیش رووں نے آگے بڑھایاجو ایک دینی مدرسہ اور مسلک تھا جو شمالی ہندوستان کے شہر دیوبند میں 1866 میں قائم کیا گیا ۔
شمالی ہندوستان میں مسلمان علما کے ایک دوسرے گروہ نے اس اصلاحی تحریک کو شدت سے چیلنج کیا۔ انھوں نے اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کیا کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو پیغمبر علیہ السلام کے دائرۂ اختیار سے الگ نہیں کیا جا سکتا، جو مخلوقِ خدا میں سب سے زیادہ کرشماتی اور خدا کی محبوب ترین ہستی ہیں۔ ان کی نظر میں خدا اور پیغمبر کے خصوصی مقام اور اختیار میں باہم کوئی تضاد نہیں، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تائید وتوثیق کرتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے استدلال کیا کہ نبی کو، جن پر وحی الہی کا نزول ہوا، محض ایک انسان کی حیثیت سے پیش کر کے ان کی امتیازی حیثیت کو گھٹانا ہے انتہائی قابل اعتراض ہے۔ نتیجتاً ان علما نے ان مذہبی رسوم اور روزمرہ کے اعمال کا دفاع کیا جن کا مقصد حضور ﷺ کی یاد اور کرشماتی شخصیت کی تعظیم تھا۔ شش جہت مفکر مولانا احمد رضا خان اس اصلاح مخالف تحریک کے سرخیل تھے۔ وہ بریلوی مسلک کے بانی تھے، جو ایک دوسرا مسلکی گروہ تھا جو شمالی ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کی طرف منسوب ہے جہاں مولانا احمد رضا خان کی ولادت ہوئی تھی۔ بریلوی مسلک کئی معنوں میں انیسویں صدی کے عالم فضل حق خیر آبادی (م 1861) کا جانشین تھا، جنھوں نے پرزور انداز میں شاہ محمد اسماعیل کی مخالفت کی تھی۔
اس کتاب کے بڑے مقاصد میں سے ایک مقصد ان مسلکی رجحانات اور تنازعات کا بیان ہے جنھوں نے ان علما کی فکری زندگی کی تشکیل کی، جو بیک وقت عربی، فارسی اور اردو میں قادر الکلام اورتحریر کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ جیسے جیسے ہم اس کتاب میں ہم آگے بڑھیں گے، میں موقع بموقع ان علما کا تعارف تفصیل سے پیش کروں گا۔ سردست اتنی بات کافی ہے کہ یہ جدید جنوبی ایشیائی اسلام میں سب سے زیادہ کثیر التصانیف، بڑے پیمانے پر پیشوا مانے جانے والی اور متنازع شخصیات تھیں، جو بیک وقت نامور فقیہ اور صوفی شیوخ تھے۔ ان کے متضاد اصلاحی پروگراموں نے جدید اسلام کے بیانیے میں سب سے زیادہ تیز وتند اور شدت سے لڑی جانے والی مناظرانہ جنگوں کے ابھارنے میں کردار ادا کیا۔ ان کے تنازعات سے کئی زبانی اور تحریری مناظروں، تردیدات اور جوابی تردیدات، فقہی واعتقادی فتاوی ہائے تکفیر اور حکایت گوئی کی ایسی روایات نے جنم لیا جو بعض علما کی تعظیم کرتی ہیں، اور بعض کا تمسخر اڑاتی ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں اپنے "دیوبندی بریلوی مناظرے" کی اصطلاح کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں جو اس کتاب میں تسلسل سے استعمال کی جائے گی۔ یہ کتاب اٹھارویں صدی کے اواخر سمیت انیسویں صدی کے اوائل واواخر چند اہم تاریخی گوشوں سے بحث کرتی ہے۔ اس لیے جب میں بریلوی دیوبندی مناظرے کی بات کرتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ وسیع تر تناظر ہوتا ہے، اگر چہ بریلوی ودیوبندی مسالک انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں پیدا ہوئے۔ میرا مُدَّعا کسی غائی (Teleological)بیانیے کی تائید نہیں، جس کی رو سے ان گروہوں کا ظہور ناگزیر تھا۔ اس کی بجائے میں اس اصطلاح کو ایک جامع تعبیر کے طور پر استعمال کر رہا ہوں تاکہ خدائی حاکمیتِ اعلی، نبوی اختیار اور رسومیاتی اعمال کے درمیان تعلق پر انیسویں صدی کے اوائل میں جنم لینے والے اور اس صدی کے نصف آخر میں مسلکی اور گروہی شکل اختیار کر لینے والے مناقشے وضاحت کر سکوں۔
اس مناقشے کی استدلالی فضا بے شمار باہم دگر جُڑے متعدد سوالات سے معمور ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مذہبی گروہ کو کن خطوط پر اپنی زندگی کو استوار کرنا چاہیے جس سے خداے مطلق کے سامنے اس کی اطاعت کا اظہار ہو؟ خدا اور انسانوں کے درمیان واسطہ ہونے اور روز قیامت شفیع ہونے کی حیثیت سے پیغمبر کے اختیار کی نوعیت کیا ہے؟ پیغمبر کو کس قسم کا علم حاصل تھا؛ کیا ان کے پاس علمِ غیب تھا؟ ایسے مذہبی رسوم، عقیدت مندانہ اعمال اور روز مرہ کے معمولات کی شرعی حیثیت کیا ہے جن کی نظیر رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کے عمل میں موجود نہ ہو؟ کن حالات میں ایسے اعمال بدعت قرار پاتے ہیں؟ ایک اور نزعی سوال جو اس اختلاف کا سبب بنا، خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان (امکانِ کذب) اور پیغمبر علیہ السلام کی طرح کے کسی دوسرے شخص کی تخلیق کے امکان (امکانِ نظیر) کا سوال ہے۔ یہ سوالات فقہ، علم کلام اور روزمرہ کے دینی اعمال کے ساتھ مشترک طور پر تعلق رکھتے ہیں۔ میں اپنے موقف کا اعادہ کروں گا کہ بریلوی دیوبندی اختلاف، مذہبی شناخت کی تشکیل کے دو متصادم بیانیوں کا اظہار تھاجن میں سے ہر ایک فقہ اور رسومیاتی اعمال کے حدود وقیود کے متعلق متوازی تصورات پیش کیے۔
اس کتاب کا نام Defending Muhammad in Modernity رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ جس مسلکی کش مکش کی تفصیل پیش کرتی ہے، وہ حضرت محمد ﷺ سے متعلق متقابل تصورات پر مرکوز ہے۔ نبی ﷺ کا کون سے تصور کو ایک مسلمان کی معیاری دینی وابستگی اور روزمرہ زندگی کی بنیاد بننا چاہیے؟ بریلوی دیوبندی نزاع کا مغز یہ سوال ہے، جس نے جدید استعماری دور میں غیر معمولی اہمیت حاصل کر ل۔ استعماری حالات نے جہاں شدید بے چینی پیدا کی، وہیں مثالی مسلمان عوام کی تشکیل کی توقع اور ارادے کو بھی جنم دیا۔ دیوبندی بریلوی اختلاف میں نمایاں ہونے والے حضرت محمد ﷺ کے متوازی تصورات مثالی مسلمان فرد اور مثالی معاشرہ، دونوں کو محیط ہیں جو (ایک لحاظ سے) دو الگ الگ دائرے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کی شخصیت وہ مرکزی حوالہ تھا جس کے ذریعے سے اصلاح کا تصور تشکیل دیا گیا ۔ یہ سارا مباحثہ حضرت محمد ﷺ ہی پر مرکوز تھا۔
وہ تمام اختلافی نکات جن سے اس کتاب میں بحث کی گئی ہے، حضرت محمد ﷺ پر مرکوز ہیں: (قیامت کے دن) آپ کا شفاعت کرنے کا اختیار، بدعات کی صورت میں ان کے اُسوۂ حسنہ سے انحراف، آپ کے علمِ غیب کی نوعیت وحیثیت اور خدا کے لیے ایک دوسرے محمد کو پیدا کرن۔ ایک خاص مفہوم میں یہ کتاب اس داستان کو بیان کرتی ہے کہ کیسے جدید جنوبی ایشیا کے اکابر علما نے حضرت محمد ﷺ کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کی کوشش کی، اور معیاری اسلامی تصورات کے دائرے میں آپ کی شخصیت اور اوصاف وخصائص کے متعلق متوازی تصورات پیش کیے۔ اگرچہ ان کے مابین شدید ترین اختلاف موجود تھا، لیکن یہ تمام ہندوستانی علما جن کی داستان اس کتاب میں بیان کی گئی ہے، دینی اصلاح کے لیے حضرت محمد ﷺ سے متعلق اپنے پیش کردہ معیاری اور درست دینی تصور کو بیان اور رائج کرنے اور اس کا دفاع کرنے پر قطعی طور پر متفق تھے۔ جدیدیت میں حضرت محمد ﷺ کا مقام اور حیثیت کیسے سمجھی جائے، اس حوالے سے پرجوش تنازعات میں صرف دیوبندی اور بریلوی تحریکوں کے قائدین ہی شریک نہیں تھے، بلکہ، جیسا کہ کیشیا علی نے ایک اہم استدلال کیا ہے، انیسویں صدی میں حضرت محمد ﷺ کی زندگی سے متعلق مغربی انداز فکر پر بھی مستند اور تاریخی طور پر قابل تصدیق محمد کی تلاش کا پہلو غالب ہے۔ کیشیا علی مزید کہتی ہیں کہ ان کی (یعنی مغربی مصنفین کی) دلچسپی اور جستجو میں اور مسلمان مذہبی مفکرین، روایتی علما اور مغربی تعلیم یافتہ مسلم مصلحین کی جستجو میں ایک اشتراک پایا جاتا ہے11۔
بریلوی دیوبندی مناقشے کا آغاز کرنے والے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ سوالات اور اختلافات جو انیسویں صدی کی ان شخصیات کے دل ودماغ پر حاوی رہے، تقریبا دو سو سال بعد آج بھی پرجوش بحث ومباحثہ کا موجب ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں اس مناظرانہ کش مکش کے موضوعات اور دلائل
نہ صرف دینی تعلیم گاہوں میں، جیسا کہ ارشد عالم کی تحقیق سے واضح ہوتا ہے، بلکہ عام میل جول کے ماحول، مساجد اور عوامی کتب خانوں جیسے روزمرہ کے مقامات میں بھی سرایت کیے ہوئے ہیں، جیسا کہ نویدہ خان نے اس کی تفصیلات جمع کی ہیں12۔ ڈیجیٹل دور کے آغاز نے اس تنازع کی شدت اور جغرافیائی وسعت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کئی ویب سائٹس پر اور مختلف مناظرانہ چیٹ رومز میں - جو جنوبی ایشیا کے مقامی اور اسی طرح امریکا، برطانیہ اور جنوبی افریقا جیسے ممالک میں رہنے والے مہاجر مسلمانوں سے آباد ہیں – حریف نظریات اور آرا مستقلاً بحث ومناقشہ، ، تنقید وتجزیہ اور انکار وتردید کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں13۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ اختلاف دھندلانے کی بجائے مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔
یہ کتاب بریلوی دیوبندی مباحثے یعنی اس کے کلیدی ادوار، استدلالات، بیانیوں اور ابہامات کی پہلی باضابطہ تحقیق ہے جو اٹھارویں صدی کی اہم نظیروں کے ساتھ ساتھ انیسویں صدی کے پورے منظرنامے کو غور وفکر کا موضوع بناتی ہے۔ میرے مصادر میں عربی، فارسی اور اردو کے ایسے مخطوطات جنھیں اس سے پہلے مطالعہ وتحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا، نیز مطبوعہ مآخذ شامل ہیں جن کا دائرہ مناظرانہ متون سے لے کر اصلاحی ادب، خطبات ومکاتیب کے مجموعے، بیانیہ (narrative)تاریخیں، فقہی و کلامی متون، فتاوی جات کے مجموعے اور سوانحی تذکروں تک وسیع ہے۔ فقہی اور کلامی دلائل کی گہری تفہیم پیش کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے جنوبی ایشیا کے نامور علما کی شخصیت کا بھی واضح خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ان حساسیتوں، اضطرابات اور باہمی کشمکش کو دل چسپ بنا سکوں، جو ان علما کی فکری زندگی اور سفر میں جاری وساری تھے۔ یہ پروجیکٹ متعدد مربوط لیکن کسی حد تک مختلف النوع فکری موضوعات ومسائل سے بحث کرتا ہے۔ چنانچہ میں نے نسبتًا مختلف النوع نظری آلات کے مجموعے سے کام لیا ہے، جس کا سلسلہ سیاسی کلامیات کی تحقیقات سے لے کر سیکولر ازم کے مطالعات، عباداتی رسوم کی تحقیقات، قانونی تعبیر وتشریح کے اصولوں، اور نیریٹو تھیوری تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پوری کتاب میں، میں نے کوشش کی ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کی فکر کو مغربی فلسفیانہ اور ادبی مناقشوں کے ساتھ تقابلی انداز میں پیش کروں۔ میں نے یہ کوشش ایسے انداز میں کی ہے جس سے اول الذکر کی گہرائی، علمی ودینی اہمیت اور خصوصیات واضح ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی متون اور تناظرات کو مطالعات مذہب اور وسیع تر علوم انسانی (ہیومینیٹیز) کے مسائل ومباحث سے مربوط کیا جا سکے۔ ایک مخصوص معنی میں یہ کتاب علوم اسلامیہ اور مغربی علوم انسانی (ہیومینیٹیز) کے مخصوص اجزا میں باہمی مکالمے کی نمائندگی کرتی ہے ایک ایسا مکالمہ جس سے دونوں کی تعمیر وترقی ممکن ہو سکے۔
فکری منہج
فکری اعتبار سے یہ کاوش ان مبنی بر استناد مباحثوں (authoritative discourses) کی تحقیق کرتی ہے جن کا مقصد خاص حکمت عملی کے ساتھ مذہب کے حدود پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ طلال اسد نے واضح کیا ہے، مبنی بر استناد مباحثے سے مراد وہ "مباحثہ ہے جو تسلسل کے ساتھ اپنے یکسر مخالف مواقف کی پیش بندی کرنا چاہتا ہے، اور اس طرح ان مواقف کے اظہار کو روکنے کی کوشش کرتا ہے "14۔ یہ کتاب ان اقدامات اور حکمت عملیوں کو نمایاں کرتی ہے جن کے ذریعے دینی روایت کے باہم حریف پاسبانوں نے ایک دوسرے کی مذہبی حیثیت اور مستند ترجمانی کی اہلیت کی نفی کرتے ہوئے اپنے مذہبی استناد کو تقویت فراہم کی ۔ ان کا مذہبی اقتدار – یعنی ان کا یہ دعوی کہ و ہی مستند راے کی نمائندگی کرتے ہیں –ان کی مناظرانہ چپقلش کی موجودگی اور حالات پر منحصر تھا۔ خاص تاریخی حالات میں رونما ہونے والی اس چپقلش میں ، جس کے نتائج کی پیش بینی ناممکن تھی، باہم فریق بننے نے دونوں کے لیے اس کا موقع پیدا کیا کہ وہ روایت اور اس کی حدود کی تعیین وتحدید کے سوال پر مستند حیثیت کا حامل ہونے کے دعوے کے ساتھ کلام کریں۔ طلال اسد نے بہت عمدہ طریقے سے اسے یوں بیان کیا ہے: " استناد کے دعووں میں مخاصمت کو، نہ کہ باہمی افہام وتفہیم کو، مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے"15۔
مبنی بر استناد مباحثے کے حوالے سے طلال اسد کے پیش کردہ تصور کا گہرا تعلق ان کی اس مشہور رائے سے ہے کہ اسلام کا مطالعہ ایک "استدلالی روایت" (discursive tradition) کی حیثیت سے کیا جائے، جو کہ مغرب میں اسلام کے علمی مطالعے میں سب سے زیادہ مستعمل تصورات میں سے ہے16۔ استدلالی روایت کا تصور اسلام جیسی معیاری روایت میں مذہبی متون، زمان اور روزمرہ زندگی کے باہمی تعامل کے تعقل وتفہیم کے لیے بارآور مواقع فراہم کرتا ہے۔ استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کے مطالعے سے مراد یہ ہے کہ استدلال، دلیل اور حوالے کے طریق کار کی ان مختلف صورتوں پر غور کیا جائے جن کے ذریعے اس سوال پر مبنی بر استناد بحث ومناقشہ کیا جاتا ہے کہ ایک سماجی گروہ کی عملی زندگی کیسی ہونی چاہیے ۔۔ ماضی کی کون سی روایات اور نظائر کو حال اور مستقبل میں ایک سماجی گروہ کی منظم زندگی کو تشکیل دینا چاہیے؟ استدلالی روایت کے تصور میں یہ سوال بنیاد کا پتھر ہے۔ اور چونکہ اس سوال کے مختلف اور عموما متضاد جوابات ہو سکتے ہیں، اس لیے ایک استدلالی روایت اپنی فطرت میں تنازع اور کشمکش کا مظہر ہوتی ہے۔
طلال اسد نے حال ہی میں چند نکات کی صورت میں، جو بیک وقت فکر انگیز اور مسحور کن ہیں، استدلالی روایت کے حوالے سے اپنے موقف کے اس نہایت اہم پہلو کی توضیح ہے۔ وہ لکھتے ہیں : "روایت، واحد بھی ہے اور جمع بھی۔ کے فعال کرداروں کے لیے روایت میں نہ صرف تسلسلات ہوتے ہیں، بلکہ دخول وخروج کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں۔ روایت غلطیوں کے ساتھ ساتھ بے وفائی کو بھی برداشت کرتی ہے؛ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ (انگریزی میں) روایت (tradition) اور غداری (treason) دونوں کا ماخذ اشتقاق ایک ہے"17۔ اس کتاب اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے طلال اسد کی اس دعوت کا عملی انطباق ہے کہ اسلام کا مطالعہ استدلالی روایت کی حیثیت سے کیا جائے۔ یہ ان مناہج کی تحقیق کرتی ہے جن میں ایک استدلال روایت یعنی جدید جنوبی ایشیا میں اسلام
مبنی بر استناد مباحثوں کے ایک مخصوص ماحول میں حریف افکار اور نظریاتی منصوبوں سے نبرد آزما ہوئی۔ یہ اس ماحول کا جائزہ لیتی ہے جس میں متخاصم نظریات، عقیدہ اور عمل کی معیاری اور مستند مآخذ سے جواز یافتہ صورتوں کے دائرے سے ایک دوسرے کو نکال باہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب جنوبی ایشیا میں اسلام کی تاریخ کے ان نازک لمحات کا جائزہ لیتی ہے، جن میں اس کی حدود کی تعیین کے حوالے سے نہایت نمایاں انداز میں بحث ومباحثہ ہو رہا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حالیہ عرصے میں استدلالی روایت کے بارے میں اسد کا نظریہ بد قسمتی سے بعض انتہائی غلط تعبیرات کی زد میں ہے۔ اس کی متعدد مثالوں میں سے ایک مثال شہاب احمد کی شاندار کتاب: What is Islam: The Importance of Being Islamic (پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2015) ہے۔ شہاب احمد استدلالی روایت کو بالکل غلط طور پر ایک واجب الاتباع (prescriptive) اور طبقاتی تصور سمجھتے ہیں، جس كا مقصد ایک مستند راسخ الاعتقادی کو محکم کرنا ہے۔ شہاب احمد کے الفاظ میں: "اسد کے، اسلام کو ایک 'استدلالی روایت' کی حیثیت سے پیش کرنے میں ایک دقیق لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک استدلالی روایت کی قطعی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صحیح (correct) بات کو دعوائے استناد کے ساتھ بیان کرنے کی حرکیات کام کر رہی ہوتی ہیں۔"(272)۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ روایت کا ایسا واجب الاتباع اور دعوائے استناد پر مبنی تصور روایت کے اندر ایسے مباحث اور اعمال کے شامل ہونے کی توضیح نہیں کرتا جو واجب الاتباع یا مبنی بر استناد ہونے کا دعوی ٰ نہیں کرتے یا، شہاب کے الفاظ میں، تفتیش ودریافت کا انداز لیے ہوتے ہیں۔ شہاب احمد اس سے یہ اہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسد کی استدلالی روایت کے تصور سے " راسخ الاعتقادی اور غیر راسخ الاعتقادی/تجدد پسندی کی ایک نئی ثنویت (binary)" جنم لیتی ہے جو اسلام کے طاقتور بیانات کو راسخ العقیدہ اور نسبتا کم طاقتور بیانات کو تجدد پسند قرار دیتی ہے(274)۔
یہ طلال اسد کی فکر کی ایک نادرست تفہیم ہے۔ اس میں کئی الجھنیں ہیں۔ میں ان میں سے کچھ کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
اول یہ کہ زیادہ طاقتور یا بااختیار ہونا راسخ الاعتقادی کو یا کم طاقتور ہونا تجدد پسندی کو مستلزم نہیں۔ اسد کے نزدیک راسخ الاعتقادی کوئی ایسی شے یا حالت نہیں، جو تجرباتی معیار پر اور بڑے واضح انداز میں موجود ہو۔ جیسا کہ اسد نے واضح کیا ہے، کہ ستدلالی روایت میں سرگرم افراد راسخ الاعتقادی اور ربط وتوازن کے حصول کی شدید خواہش رکھتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اسے حاصل بھی کرلیں۔ مباحثے ومناقشے کے ذریعے سے ربط وتوازن کے حصول کی یہی خواہش وامنگ ایک سماجی گروہ کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کو ممکن بناتی ہے۔ایک استدلالی روایت نہ ختم ہونے والے تنازعات کا اکھاڑہ ہوتی ہے، جنھیں تجرباتی معیارات پر یا تنظیمی انداز میں، سرکاری طور پر مستند درجہ دینا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ راسخ الاعتقادی کا تجرباتی سطح پر قابل پیمائش تصور، جس کے ذریعے زیادہ طاقت زیادہ راسخ الاعتقادی کو جنم دیتی ہے اور کم طاقت، کم راسخ الاعتقادی کو، یہ ایک ایسا اضافہ ہے جو شہاب احمد نے اسد کے نظریاتی منہج پر اپنی طرف سے شامل کیا ہے۔
دوسرا یہ کہ اسد کا استدلالی روایت کے تصور میں قطعیت یا عمودی تسلسل شامل نہیں۔ استدلالی روایت کے تصور کو راسخ الاعتقادی کے فروغ کا ایک آلاتی وسیلہ قرار دینا اس نظریے کو اس کی اہم ترین بصیرت سے محروم کر دینا ہے۔ ایک استدلالی روایت طاقت کے ان رشتوں کو اپنے اندر سموتی ہے، جن کے ذریعے ایک سماجی گروہ عملی زندگی بسر کرتا اور اس پر بحث ومناقشہ کو جاری رکھتا ہے۔ یہ ایک، عملی زندگی میں پیوست اخلاقی استدلال ہوتا ہے "جس میں طاقت کی پشت پناہی کے ساتھ، کچھ منفرد نظریات نہ صرف تصورات کے مربوط مجموعے اور ان کے مفاہیم میں تبدیلیاں لاتے ہیں، بلکہ ایسی منفرد حساسیتیں، جذبات اور رجحانات بھی پیدا کرتے ہیں جن کی رو سے ایک شخص کچھ مخصوص طریقوں پر عمل کرتا اور ان کے علاوہ دیگر طریقوں پر عمل نہیں کرتا "18۔ استدلالی روایت کو تشکیل دینے والے دلائل میں معیاری اور واجب الاتباع طریقوں کو تحقیق وتفتیش کی نوعیت رکھنے والے عمل سے الگ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسد کی فکر میں صحیح ہونے کا تصور ایک متعین اور مشخص راسخ الاعتقادی کو واجب الاتباع قرار دینے کو مستلزم نہیں ۔ اور اسی خاص وجہ سے استدلالی روایت تو عمودی تسلسل پر مبنتی ہوتی ہے اور نہ وہ طبقاتی ہوتی ہے، کیوں کہ کسی روایت کے زمان کے ساتھ وابستہ اور بحث ونزاع کی خصوصیت سے متصف ہونے کے باعث اس کو کبھی بھی معروضی تسلسل یا استحکام کے سانچے میں سکیڑا نہیں جا سکتا۔ آخری بات یہ کہ طلال اسد کے تصور کی تفہیم میں شہاب احمد کی بنیادی غلط فہمی کا باعث روایت اور طاقت کا نسبتاً ایک سادہ تصور ہے۔ جیسا کہ میشل فوکو نے بہ تکرار واضح کیا ہے، طاقت اور فکری بحث ومباحثہ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لیے بحث ومباحثہ کی کوئی بھی صورت، چاہے وہ تحقیق وتفتیش کی نوعیت رکھتی ہو یا نفی وتضاد کی یا کوئی اور، طاقت سے یا اختیار کے ساتھ تعامل سے دامن نہیں بچا نہیں سکتی۔ شہاب احمد غلط طور پر یہ فرض کرتے ہیں کہ تحقیق وتفتیش کی نوعیت کا بحث ومباحثہ طاقت سے مقدم ہوتا ہے، بلکہ کسی بھی قسم کی تحقیق وتفتیش جیسے ہی معرض اظہار میں آتی ہے، فورا طاقت میں پیوست ہو جاتی ہے، اور ہمیشہ اسے ایک منفرد استطاعت اور حساسیت کا درجہ پہلے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ در اصل غیر مبنی بر استناد بحث نزاع کا تصور ہی یہ فرض کرتا ہے کہ ایک مبنی بر استناد بحث ومباحثہ کا سلسلہ پہلے سے موجود ہے۔
اسد کے استدلالی روایت کے تصور کے ساتھ ساتھ ایک اور فکری کلید جو اس کتاب کے مقاصد میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، "مباحثہ کے عارضی ظروف وحالات" ہیں۔ میں نے یہ تصوّر بدھ مت کے عالم اَنَندا اَبِیسیکارا (Ananda Abesekara) سے اخذ کیا ہے۔ چند سال پہلے سری لنکا کے معاصر بدھ مت پر اپنی شاندار تحقیق میں ابیسیکارا نے مذہب، روایت اور اصلاح کے پہلے سے بنے ہوئے (a priori) تصورات کو ان اشخاص پر تھوپنے کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کیا جو کسی دینی روایت کے حدود کو کنٹرول کرنے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس کے بجائے ان ہنگامی اور عارضی حالات کی تحقیق کرنی چاہیے، جن میں مخصوص مادی، اداراتی اور علمیاتی حالات مل کر یہ طے کرتے ہیں کہ کون سی چیز مذہب ہے اور کون سی نہیں۔19
باَلفاظِ دیگر بین المسالک (یا بین المذاہب) مذہبی تنازعات میں ظاہر ہونے والی مذہب کی مختلف صورتوں کو واضح طور پر موجود کچھ خانوں میں بانٹ کر، ایک معیار کی حیثیت نہیں دی جا سکتی، بلکہ ان عارضی حالات کی تحقیق کی جانی چاہیے، جو ان تنازعات کو ممکن بناتے ہیں، اور جن میں وہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس پراسس کو محیط عارضی احوال کو نمایاں کرنے سے جس میں کسی مذہب کے حدود کے بارے میں بحث ونزاع کی جا رہی ہوتی ہے، یہ طریق فکر کا نتیجہ مآل کار یہ سامنے آتا ہے کہ مذہب کو قطعی ممتاز اور واضح خانوں میں بانٹنا ناممکن ہے۔ مجھے مذہب اور مذہبی زندگی کی تحقیق کے لیے ابیسیکارا کا یہ، احوال وظروف کو اہمیت دینے والا منہج بے انتہا دل کش معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک استدلالی روایت کی منطق اور تنازعات کی تحقیق کے لیے ایک ایسا طریق کار فراہم کرتا ہے، جو مذہب کی تعریف وتحدید کی لبرل سیکولر خواہش کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا۔ ابیسیکارا بالکل طلال اسد کی طرح (جن کے افکار سے وہ بے انتہا مستفید ہوئے ہیں) اصرار کرتے ہیں کہ مذہب، بالکل زندگی کی طرح، ہمیشہ تعریف وتحدید کی گرفت سے آزاد رہتا ہے۔
اس کتاب میں، میں نو آبادیاتی جنوبی ایشیا میں اسلام کی کہانی میں بحث واختلاف کے بہت اہم احوال وظروف کی تحقیق پیش کروں گا۔ میں روایت اور اصلاح کی ان حریف عقلیات کی تفصیل سامنے لاؤں گا جو ان مخصوص حالات میں نمایاں ہوئیں، اور جن میں اس سوال پر مبنی براستناد مجادلہ کیا گیا کہ کون سی چیز اسلام ہے اور کون سی نہیں۔ اس کاوش کے ذریعے میری کوشش ہوگی کہ یہ واضح کر سکوں کہ ان عقلیات کو اصلاح پسند/غیر اصلاح پسند، فقہی/صوفی اور روایتی/جدید جیسی محدود دوگانہ تقسیمات کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ متبادل منہج کے طور پر میں تجویز کروں گا اور دکھاوں گا کہ مسلمانوں کے درمیان بریلوی-دیوبندی جیسے بین المسالک تنازعات کے سلسلے کو، جو حاکمیتِ اعلیٰ کے بدلتے تصورات اور حالات سے اثر پذیر تھے، تشکیل معاشرہ کے حریف بیانیوں کی ایک مثال کی حیثیت سے سمجھا جائے۔ یہ حریف بیانیے فقہ، عقائد اور روزمرہ اعمال کے باہمی تعامل کی باہم متضاد تفہیمات کی عکاسی اور اظہار کرتے ہیں۔ ان کی بنیاد خدا، پیغمبر اور سماج کے درمیان تعلق کے متخالف تصورات پر ہے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ یہ اس کتاب کا مرکزی استدلال ہے۔
حواشی
- ایک فتوے کے بعد اترپردیش میں 200 شادیاں دوبارہ ہوئیں۔ ٹائمز آف انڈیا، 5ستمبر، 2006۔
- ایضًا۔
- ممتاز قادری کو حکومتِ پاکستان نے فروری 2016 میں سزا دی۔ لیکن وہ توہینِ رسالت اور انتہا پسندی کے سے متعلق بحث مباحثے میں اب تک ایک انتہائی متنازعا شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ انھیں عدم برداشت اور انتہا پسندانہ تشدد کی علامت سمجھتے ہیں، جب کہ کئی لوگوں کی نظر میں، بالخصوص شہروں، میں وہ شہیدِ ناموس رسالت ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی نے سیاسی تنظیم تحریکِ لبیک یا رسول اللہ (اے اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں) کی شہرت اور اٹھان میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ کیا، جس کی قیادت اس وقت شعلہ انگیز خطیب مولوی خادم رضوی کر رہے ہیں۔ تحریک لبیک 2018 کے عام انتخابات میں پانچویں بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی، اور زیادہ تر قانونِ توہینِ رسالت کے تحفظ کے نام پر بیس لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ (مولانا خادم حسین رضوی 19 نومبر 2020 کو وفات پا گئے۔ تحریکِ لبیک کے موجودہ امیر مولانا سعد حسین رضوی ہیں۔ از مترجم )
- عدالت نے امام اور اس کے بیٹے کو توہین رسالت کے جرم میں سزا سنائی۔ ڈان، 11 جنوری، 2011۔
- مہاجر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے مناظروں کے سیاق -جیسے جنوبی افریقا- کے لیے ملاحظہ کریں برانن انگرام کی عمدہ تحقیق: Revival from Below: The Deoband Movement and Global Islam (برکلے: یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس، 2018)۔
- اس کتاب میں ذکر کیے گئے کرداروں کا تصورِ اصلاح ہمیشہ بنیادی انقلاب کے ہم معنی نہیں۔ اس کے بجاے ان کے نزدیک اصلاح ایک طرح کی رفوگری و پیوند کاری کا عمل ہے، اور عقائد وطرزِ حیات کے غلط رویوں کو راہ راست پر لانا ہے۔اصلاح کے عمل میں دین کی حفاظت اور تقویت دونوں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے علمی افکار اور تاریخ میں اصلاح کے اس تصور کی مزید وضاحت کے لیے Islamic Political Thought میں ملاحظہ ہو: ابراہیم موسیٰ اور شیر علی ترین، Revival and Reform in Islam، تدوین گرہارڈ باورنگ (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس)، 202-219۔
- اس پوری کتاب میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (Divine Sovereignty) کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے، جن میں اس کتاب میں مذکور شخصیات نے اسے استعمال کیا ہے، یعنی یہ کہ یہ صرف خدا کی قدرتِ مطلقہ اور اختیارِ کامل ہے جس پر اس کی توحید اور یکتائی قائم ہے۔ اس پروجیکٹ کے سیاق میں توحید کے علاوہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے قدرۃ (اردو اور فارسی میں قدرت) یا قدرتِ الہٰی اور اختیار کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ماقبل جدید اور جدید اسلامی فکر میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے تصور کو جن متنوع اور عموما مختلف مفاہیم میں بیان کیا جاتا ہے، ان کی ایک مختلف زاویے سے عمدہ تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: محمد زمان، The Sovereignty of God in Modern Islamic Thought ، جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی 25، نمبر 3 (جولائی 2015)، 389-418؛ اینڈریو مارچ، Genealogies of Sovereignty in Islamic Political Theology، سوشل ریسرچ 80، نمبر 1 (بہار: 2013): 293-320؛ احمد عبد المجید، Reserving Schmitt: The Sovereign as a Guardian of Rational Pluralism and the Peculiarity of the Islamic State of Exception in al-Juwayni’s Dialectical Theology، یورپین جرنل آف پولیٹیکل تھیالوجی، جس کی اشاعت 12 ستمبر 2017 کو آن لائن ہوئی۔
http://doi.org/10.1177%2F147885117730672
اس کتاب میں جن علما کی فکر زیرِ بحث ہے، بنیادی طور ان کا تعلق پر دہلی/ہندوستان کے شمالی خطے میدانِ گنگا سے ہے۔ 'ہندوستانی مسلمانوں' کی اصطلاح محدود بھی ہے اور تاریخی اعتبار سے نا مناسب بھی، تاہم اسے میں سہولت اسلوب کی خاطر استعمال کر رہا ہوں، کیوں کہ 'ہندوستانی بولنے والے مسلمان' اور 'شمالی ہندوستان کے مسلمان' زیادہ ثقیل لگتا ہے، یا ان علما کے تصور کردہ مخاطبین کے اعتبار سے کافی محدود ہے۔ میں تعبیری تنوع کی خاطر 'ہندوستانی مسلمانوں' اور 'جنوبی ایشیائی مسلمانوں' کی تعبیرات بھی ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال کروں گا۔ - پاکستان میں بریلوی دیوبندی تنازع کی مفید تحقیق وتجزیے کے لیے ملاحظہ ہو: محمد وقاص سجاد، For the Love of Prophet: Deobandi-Barelvi Polemics and the Ulama in Pakistan (پی ایچ ڈی کا مقالہ، گریجویت تھیالوجیکل یونین، 2018)۔
- جنوبی ایشیا میں مدارس کی علمی روایت اور تاریخ کے لیے ملاحظہ کریں: ابراہیم موسی، What is a Madrasa? (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2015)۔ مزید دیکھیں: رابرٹ ہیفنر اور محمد قاسم زمان، مدونین، Schooling Islam: The Culture and Politics of Modern Muslim Education (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2007)۔
- جنوبی ایشیا اور اس سے ہٹ کر داخلی تنقید کے ان چند ادوار کے ایک عمدہ تجزیے کے لیے دیکھیے: محمد قاسم زمان، Modern Islamic Thought in a Radical Age: Religious Authority and Internal Criticism (نیو یارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)۔
- کیشیا علی، The Lives of Muhammad (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2014)، 43۔
- ارشد عالم، Inside a Madrasa: Knowledge, Power, and Islamic Identity in India (نیو دلی، روٹلیج، 2011)؛ نویدہ خان، Muslim Becoming: Aspiration and Skepticism in Pakistan (ڈرہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2012)۔
- مثال کے طور پر دیکھیے: سنی فورٹ (www.Sunniport.com)، فلاح ریسرچ فاؤنڈیشن (www.falaah.co.uk) اور اہل السنہ فورم (http://ahlussunnah.boards.net)۔
- طلال اسد، Anthropology and the Analysis of Ideology، مین، این ایس، 14 (1979): 607-627۔
- ڈیوڈ سکاٹ اور چارلس ہرش کائنڈ، مدونین، Powers of the Secular Modern: Talal Asad and His Interlocuters ميں ديكهيے: طلال اسد، Responses (سٹينفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 212۔
- طلال اسد، The Idea of an Anthropology of Islam (واشنگٹن، ڈی: سنٹر فار کانٹیمپرری عرب سٹڈیز، جارج ٹاؤن یونیورسٹی، 1986)۔
- طلال اسد، Thinking about Tradition, Religion and Politics in Egypt Today، کریٹیکل انکوائری 42، شمارہ 1 (خزاں 2015): 169۔
- انندا ابیسیکارا، Thervada Buddhist Encounters with Modernity: A Review Essay، جرنل آف بدھسٹ ایتھکس 25 (2018): 333-371۔
- انندا ابیسیکارا، Colors of the Robe: Religion, Identity, and Difference (کولمبیا: یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا پریس، 2003)۔
(جاری)