انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۵)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا آٹھواں باب)



توحید کی احیا کے لیے نیکی کی ممانعت: مسئلۂ عید میلاد النبی

انیسویں صدی کے مسلمان اہل علم کے درمیان عید میلاد النبی پر جتنے پرجوش مناظرے ہوئے ہیں، اتنے کسی اور مسئلے پر نہیں ہوئے ہیں۔ استعماری دور میں مسئلۂ میلاد پر کش مکش دور حاضر میں اس عمل کے متعلق پائے جانے والے تنازعات کی ٹھوس بنیاد ہے۔ ابتداءً گیارھویں صدی میں مقبول ہونے والا میلاد آج تقریباً تمام مسلم معاشروں میں وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ یہ اسلامی کیلنڈر کے تیسرے مہینے ربیع الاول کے بارھویں دن منایا جاتا ہے۔ یہ حضور ﷺ کا یوم ولادت ہے۔ اگر چہ عموماً یہ ایک تہوار کی شکل میں ہوتا ہے، تاہم یہ مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ البتہ میلاد کی سب سے بنیادی خاصیت یہ ہے کہ اس میں حضور ﷺ کی شان میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں، جن کا آغاز آپ ﷺ کی پیدائش کے ذکر سے ہوتا ہے، اور پھر آپ کی سیرت وفضائل بیان کیے جاتے ہیں1۔

میلاد پر مناقشہ اس کے مخالفین وموافقین دونوں کی طرف سے جذباتی ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ برصغیر کے تناظر میں میلاد میں سب سے زیادہ متنازع عمل 'قیام' ہے۔ قیام سے مراد حضور ﷺ کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہونا اور انھیں سلام پیش کرنا ہے، اور اس کے نتیجے میں آپ کی طرف سے برکات کا حصول ہے۔ اس عمل کے دوران عام طور پر نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ اس عمل کی قدر وقیمت کا دار ومدار اس اعتقاد پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ شرکاء پر برکات کے نزول کے لیے اس مجلس میں بذات خود حاضر ہوتے ہیں۔ قیام کے مخالفین کہتے ہیں کہ بیک وقت میلاد کے مختلف اجتماعات میں حضور ﷺ کے حاضر ہونے کے اعتقادمیں رسول اللہ ﷺ کو خدا کے مرتبے پر فائز کیے جانے کا خطرہ ہے ۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس عمل میں خدا کے حاضر وناظر اور مختار کل ہونے کی صفات سے پیغمبر کو متصف کرنے کا خدشہ  ہے۔ مزید برآں حضور ﷺ کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہونا ایک ایسا تعظیمی عمل ہے جو آپ کی بشری حیثیت کو کمزور کرتا ہے۔

اس کے برعکس، جیسا کہ میں اگلے دو ابواب میں تفصیل سے بتاؤں گا، قیام کے حامی اسے ایک انتہائی متبرک عمل سمجھتے ہیں کیونکہ یہ خدا کی محبوب ترین ہستی یعنی حضور ﷺ کی تعظیم کا عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ توحید کے لیے خطرہ ہونے کے بجائے قیام رسول اللہ ﷺ کے بے نظیر روحانی مقام ومرتبے کا عملی اقرار ہے۔ قیام سے متعلق مناقشے کے علاوہ میلاد متعدد اہم کلامی اور فقہی مسائل کو یکجا کرتا ہے، جو استعماری ہندوستان میں حریف مسلمان اہل علم کے اعتقادی اختلاف میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور ان مسائل میں غیر واجب اعمال کے لیے وقت کا تعین (توقیت الوقت)، غیرمسلموں کے مذہبی اعمال جیسے کرسمس کے ساتھ مشابہت (تشبہ)، ممکنہ طور پر گناہ کے اعمال جیسے گانا بجانا، محفل موسیقی جمانا، محفل میلاد کی سجاوٹ کے لیے چراغاں کرنا، اگربتیاں جلانا، خوشبو لگانا جیسے اعمال شامل ہیں۔

ان مسلکی اور ظاہری پہلوؤں کے ساتھ مولد ایک سنجیدہ اصولی مسئلہ اٹھاتا ہے اور وہ ان نئے اعمال اور رسوم کی شرعی حیثیت ہے جو شریعت نے صراحتاً نہ تو منع کیے ہیں، اور نہ انھیں جائز قرار دیا ہے۔ میلاد ایک ایسے رسم کی مثالی صورت ہے، جو حضور ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے عمل سے ثابت نہیں، لیکن اسے حضور ﷺ کی یاد منانے کے نیک مقصد کے لیے برتا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ قرونِ وسطیٰ اور عہد جدید کے اوائل میں اسلام کی فقہی روایت میں کافی مختلف فیہ رہا ہے۔ کچھ اہل علم نے میلاد کو نیک ترین اعمال کی حیثیت سے سراہا ہے، جبکہ بعض نے اس کی شرعی حیثیت پر گہری تشکیک کا اظہار کیا ہے۔ میلاد سے متعلق امام ابن تیمیہ (م 1328) اور جلال الدین السیوطی (م 1505) رحمہما اللہ کی آرا ان متقابل رجحانات کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ فقہ شافعی کے  نامور عالم علامہ سیوطی میلاد کے پرجوش وکیل تھے۔ سیوطی کے نزدیک اگر چہ میلاد کی ابتدا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے کافی عرصے بعد ہوئی، لیکن یہ بدعتِ حسنہ ہے کیونکہ اس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی مدح اور ان کی یاد منانا ہے۔ اس رسم کے ذریعے مسلمان حضور ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اور آپ کی بعثت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ سیوطی نتیجہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ یہ مقاصد قطعاً نیک ہیں،  اس لیے میلاد کے شرعی جواز میں کوئی شک نہیں2۔

ابن تیمیہ، جو قرون وسطی کے ایک کثیر التصانیف عالم ہیں اور جو سیوطی سے کئی صدیاں پیش تر گزرے ہیں، اس بات میں سیوطی کی موافقت کرتے ہیں کہ میلاد منانا کئی نیک مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: "جو شخص میلاد مناتا ہے، وہ اپنے نیک ارادے اور رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے عظیم اجر کا مستحق ہو سکتا ہے"3۔ ابن تیمیہ نے اگر چہ مولد میں خیر کے ممکنہ پہلو کو تسلیم کیا، اس کے باوجود وہ اسے بدعت سمجھتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ میں اس کی کوئی نظیر نہیں۔ ابن تیمیہ نے نے اپنے استدلال میں بتایا کہ جب صحابہ کرام نے، جو رسول اللہ ﷺ کے عاشق زار تھے، اور نیکی کے کاموں میں سب سے آگے تھے، میلاد نہیں منایا، تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ میلاد نہیں منانا چاہیے4۔ میلاد کے بارے میں سیوطی اور ابن تیمیہ کی مخالف آرا اس عمل کی شرعی حیثیت سے متعلق ابہام کی ایک جھلک فراہم کرتے ہیں5۔ میلاد ایک ایسے رسم کی مثالی صورت ہے جو اگر چہ دینی مصالح کا حامل ہے، لیکن یہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ سے ثابت نہیں۔ پھر اس کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

اپنے ماقبل جدید پیش روؤں کی طرح استعماری ہندوستان میں مسلمان اہل علم نے اس مسئلے کو زیادہ جوش وخروش کے ساتھ موضوع بحث بنایا۔ اس کے حامیوں اور مخالفوں دونوں نے اپنے مواقف کے دفاع میں تفصیل سے لکھا۔ دیوبند کے پیش رو نے ، جیسا کہ اس کہانی میں عکاسی کی گئی جس سے یہ حصہ شروع ہوا تھا، ہندوستان میں رائج میلاد کی پرزور مخالفت کی۔ یہاں بھی مولانا اشرف علی تھانوی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے دیوبندی موقف کو اپنے ایک رسالے 'طریقۂ مولد شریف' میں سب سے زیادہ جامع انداز میں واضح کیا6۔ اس رسالے میں مولانا تھانوی نے ایک منظم فقہی استدلال ترتیب دیا جس کا مقصد میلاد کو ایک مذموم بدعت ثابت کرنا تھا۔ 

اس باب میں، میں میلاد کے مسئلے پر مولانا تھانوی کے فقہی فریم ورک کا ایک دقیق تجزیہ پیش کروں گا۔ اس تجزیے کے ذریعے میں چاہتا ہوں کہ بدعت کے موضوع پر دیوبندی آرا کے ان فکری دلائل کی ایک ٹھوس وضاحت پیش کروں جس کا ذکر پچھلے باب میں ہوا۔ وہ کون سے مخصوص طریقے ہیں جن کے ذریعے مولانا تھانوی نے مجالسِ میلاد کے عدم جواز کا دعوی کیا اور اس دعوے کے لیے عقلی ونقلی دلائل فراہم کیے۔ ان کے استدلال سے علم، زمان اور عبدیت/اطاعت کے درمیان تعلق کے حوالے سے ان کے تصور کے متعلق کیا منکشف ہوتا ہے؟  کس استدلالی حکمتِ عملی کے ذریعے وہ روایت اور اس کی حدود کے نگہبان کے طور پر اپنی حیثیت کو تسلیم کراتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں میں زیرِ بحث لاؤں گا۔

طریقۂ مولد شریف میں مولانا تھانوی نے میلاد جیسی رسم کی، جو شریعت کی رو سے نہ صراحتاً جائز ہو نہ ناجائز، لیکن اس کی نظیر آپ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ میں موجود نہ ہو، شرعی حیثیت کو متعین کرنے کے لیے پانچ اصول وضع کیے ہیں۔ مولانا تھانوی کے اصولی منہاج میں بنیادی اہمیت اس فقہی قاعدے کو حاصل ہے کہ جب کسی عمل میں حلال اور حرام دونوں پہلو جمع ہو جائیں، تو ترجیح حرام والے پہلو کو دی جاتی ہے۔ ان اصولوں میں سے ہر ایک اصول کا ایک دقیق جائزہ ہمیں اس کے فقہی تصورات اور اصولی حساسیت کی نسبتاً گہری تفہیم کا موقع فراہم کرے گا۔

اصول 1: "اگر کوئی غیر واجب عمل واجب عمل کی حیثیت اختیار کر لے، تو اسے ترک کرنا چاہیے" (46)۔

جیسا کہ میں نے اس پورے باب میں استدلال کیا ہے، تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ کا مرکزی نکتہ غیر واجب رسوم کے مقابلے میں واجبات دینیہ کی اولیت کا تحفظ ہے، جنھیں عوام بآسانی غیر واجب رسوم کے ساتھ خلط کر سکتے ہیں۔ بالذات جائز ہونے کے باوجود یہ رسوم بدعات کی صورت اختیار کر گئی ہیں، کیونکہ وہ ایسی خصوصیات کے مشابہ بن گئی ہیں، جو صرف دینی واجبات کے ساتھ مختص ہیں۔ یہ اصولی تجاوز اس وقت یقینی بن جاتا ہے جب ایک سماج ایسے شخص کو لعنت ملامت کرتا ہے اور اسے عذاب کا مستحق سمجھتا ہے، جو اپنی مرضی سے ان رسوم میں شرکت سے گریز کرتا ہے۔

مولانا تھانوی کے نزدیک میلاد ایک ایسی رسم کی مثالی صورت ہے۔ تھانوی اپنے قارئین کو بار بار یاد دہانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بالذات میلاد نہ صرف یہ کہ مباح ہے بلکہ مستحب ہے۔ تھانوی کی نظر میں محفلِ میلاد کا انعقاد اور اس میں شرکت دینی اعتبار سے مفید اعمال ہیں، لیکن یہ صرف اس صورت میں جب یہ مروجہ حدود وقیود سے آزاد ہوں۔ مثلاً‌ اگر کچھ لوگ بغیر دعوت دیے اتفاقا کہیں نشست کریں، یا وہ  میلاد کے علاوہ کسی  مقصد کے لیے جمع ہوں، اور اس مجلس میں وہ زبانی یا قرآن کی تلاوت سے رسول اللہ ﷺ کے کردار، ذاتی خصوصیات، معجزات اور فضائل کو ایسے انداز میں ذکر کریں، جو صحیح احادیث کے موافق ہوں، تو ایسی مجلس بغیر کسی تحفظ کے جائز ہے۔

تاہم مولانا تھانوی کہتے ہیں کہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عوام میلاد کو اس کی اصل اور جائز حیثیت سے اوپر اٹھا کر واجب سمجھنے لگتے ہیں۔اس صورت میں میلاد مذموم بدعت بن جاتی ہے۔ مزید برآں اگر میلاد میں شرکت پر اصرار اس جوش وجذبے کے برابر یا اس سے متجاوز ہو جائے،  جس کے ساتھ واجب اعمال کی ادائیگی ہوتی ہے، تو ایسا اصرار شریعت کی برتر حیثیت پر سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اور جیسا کہ تمام مباح اعمال کے متعلق حکم ہے کسی ایسے شخص کو ملامت کرنا جو میلاد میں اپنی رغبت سے شریک ہونے سے گریز کرتا ہے، حدود سے تجاوز کی کلیدی علامت ہے۔ تھانوی کے نزدیک جب اپنی مرضی سے میلاد میں شرکت سے گریز پر سماج کی طرف سے تنقید ہونے لگے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ عوام اسے واجب سمجھنے لگے ہیں۔

اس بحث میں مولانا تھانوی نے بار بار التزام ما لا يلزم (یعنی ایسی چیز کی پابندی کرنا جو شرعاً لازم نہ ہو) کی تعبیر استعمال کی ہے۔ اگر کسی غیرواجب عمل پر اصرار اس حد تک پہنچ جائے کہ اس سے گریز کرنے والے شخص پر لعن طعن کی جائے، تو پھر وہ لوگ جنھوں نے ایسے اعمال پر اصرار کا ماحول تشکیل دیا ہے، ایک صحیح وثابت شدہ سنت کے مد مقابل عمل کے ایجاد کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تھانوی کے نزدیک ایسے افراد بدعتی ہیں۔ ایسے لوگ اس لائق ہیں کہ انھیں سزا دی جائے، ان سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، اور انھیں قابل نفرت بنایا جائے، تاکہ وہ اپنے معاشروں دوسرے عوام کے دین کو خراب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں۔

مولانا تھانوی کے نزدیک میلاد میں حرمت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی قیود ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں۔ مثال کے طور پر سال میں ایک دن کا تعین (ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ) جس کو میلاد کا انعقاد کیا جاتا ہے، لوگوں کی اپنی طرف سے ایجاد کردہ ایک اضافی قید کی مثال ہے۔ تھانوی نے اپنے استدلال کو تقویت فراہم کرنے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا: "رات کی نماز اور دیگر عبادات کے لیے صرف جمعے کی رات کو خاص مت کرو، اور نہ ہی روزے کے لیے جمعے کے دن کی تخصیص کرو"(47)۔

اصول نمبر 2: "ہر جائز بلکہ مستحب عمل ناجائز اور حرام بن جاتا ہے، اگر اس میں کوئی ناجائز عمل یا شرط شامل ہو جائے" (47)۔

تھانوی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی تقریب کی دعوت کو قبول کرنا مستحب ہے، بلکہ احادیث مبارکہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔تاہم اگر تقریب میں کوئی ناجائز عمل سرانجام پا رہا ہو تو پھر اس میں شرکت ناجائز قرار پائے گی (48)۔ یہ اصول دینی واجبات کے خالص پن کو برقرار رکھنے کے لیے مولانا تھانوی کی فکر مندی کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید برآں یہ تشخیص پر مرتکز ایک ایسے سماجی تخیل کی بھی غمازی کرتا ہے، جو میلاد جیسے متنازعہ دینی اعمال کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے پیچھے کار فرما ہے۔ تھانوی کی نظر میں شریعت ایک انسانی جسم کی طرح ہے، جسے تمام تخریبی اور فاسد اثرات سے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اگر عید میلاد النبی جیسا نیک عمل بھی مفسدات کا شکار ہوجائے، تو اسے ترک کرنا چاہیے، تاکہ امت اجتماعی نقصان سے بچ جائے۔ تھانوی نے جو مفسدات گنوائی ہیں، وہ ان کی نظر میں عوامی دین داری کے تصور پر خوب روشنی ڈالتی ہیں۔ نوٹ کیجیے کہ ان رسموں کا سارا ارتکاز اور زور حواس کی جذباتی تربیت پر ہے:

  • خوش شکل یا خوش آواز لڑکے محفل میلاد میں نعتیں پڑھتے ہیں۔
  • شرکا نامناسب اور ناجائز ملبوسات زیب تن کرتے ہیں۔
  • جب ایک خوش شکل مرد یا عورت گاتی ہے ، تو محفل میں موسیقی اور گانے بجانے کی وجہ سے جنسی کشش کا امکان ہوتا ہے ۔
  • محفل میلاد کو سجانے، چراغاں کرنے اور تزئین وآرائش کے دیگر ذرائع پر کافی اسراف کیا جاتا ہے۔
  • محفل کو خوشبو کی بھاری مقدار سے مہکایا جاتا ہے۔
  • شرکا میں شیرینی کی تقسیم کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔
  • لوگوں کو جمع کرنے میں انتہائی مبالغے سے کام لیا جاتا ہے، اور اس حد تک اہتمام کیا جاتا ہے، جتنا اہتمام فرض نمازوں اور تبلیغی جلسوں کے لیے بھی نہیں کیا جاتا۔
  • ہر محفل میں حضور ﷺ کو حاضر وناظر سمجھا جاتا ہے۔
  • بانئ مجلس کا مقصد اسراف اور نمود ونمائش ہوتا ہے۔

دو بنیادی اخلاقی اصول جو میلاد میں شامل فاسد اثرات کی تنقید میں مولانا تھانوی کی فکر پر حاوی ہیں، سادگی اور سنجیدگی ہیں۔ دراصل سادگی اور سنجیدگی ان انتہائی اہم دینی اقدار میں سے ہیں جس پر دیوبندی مسلک استوار ہے۔ دیوبند کے پیش رو بشمول مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا تھانوی متفقہ طور پر دینی اعمال کی ایسی تمام صورتوں کے مخالف تھے جو مسلمانوں کے درمیان غیر ضروی جوش وجذبے اور خواہشات کو ابھارتی ہوں۔ ان کی نظر میں ایسا اخلاقی نظام جو جذباتی اسراف کو برداشت کرتا ہو، عوام میں سنت وبدعت کے درمیان امتیاز کی صلاحیت کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔

دیوبندیوں کے وسیع تر اصلاحی بیانیے سے ہم آہنگ ہو کر مولانا تھانوی نے ایسے نیک اعمال کی وکالت کی، جن میں مسلمان سادگی اور سنجیدگی پر کار بند رہیں، اور جو انھیں اس قابل بنائیں کہ وہ اسراف، شان وشوکت کے عوامی اظہار اور عیش پرستی کو عیب اور باعث عار سمجھنے لگیں7۔ اس لیے مولانا تھانوی جیسے مصلحین کی اخلاقی اصلاح کے پروجیکٹس کو 'نجی دائرے' کی طرف واپسی کے سفر کے طور پر سمجھنا، جس کا مقصد صرف اور صرف پاکیزہ بندوں کی تربیت ہے، غلط ہے۔ اس کے برعکس بدعت پر مولانا تھانوی کی فکر کی امتیازی خصوصیت فرد کی اخلاقی اصلاح اور سماج کے سیاسی نظام کے درمیان ربط ہے۔ اُن کی فکر میں نجی اور عوامی دائرے کے درمیان کسی امتیاز کا کوئی ذکر  نہیں۔ میں اس باب کے اختتام میں اس نکتے کی طرف واپس آؤں گا۔

اصول نمبر 3: "یہ علماے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ  عوام کے دین وایمان کی حفاظت کریں" (48)۔

مولانا تھانوی نے بتایا کہ چونکہ لوگ علما کے پیچھے چلتے ہیں، اس لیے علما کو عوامی دائرے میں دین پر عمل کے حوالے سے انتہائی حزم واحتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مولانا تھانوی کی راے میں یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی اخلاقی و دینی تربیت اور حفاظت کریں۔ اس لیے اگر کسی مباح عمل کو عوام کی طرف سے فرض سمجھنے کا خطرہ پیدا ہو جائے، تو علما پر لازم ہے کہ وہ اس عمل کو ترک کریں۔ دوسروں کے لیے مثال ہونے کی بنا پر علما سے تقاضا ہے کہ وہ اپنے ان اعمال کے حوالے سے محتاط رہیں، جو معاشرے میں عام لوگوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی تسلیم کرتے ہیں کہ علما اپنے وسیع علم کی بدولت واجب اور غیر واجب اعمال میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم چونکہ عوام ان کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے عوام کے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر انھیں ایسے مستحب اعمال سے بھی دست بردار ہونا چاہیے، جنھیں عوام غلطی سے فرض سمجھ سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا کہ علما کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کو اعتقادی اور اخلاقی فساد سے تحفظ فراہم کریں۔

مولانا تھانوی نے اپنے استدلال کی وضاحت میں اپنی بنائی ہوئی دو اصطلاحات  پیش کیں۔ ان میں سے ایک اصطلاح کو وہ 'ضررِ لازمی' اور دوسرے کو 'ضررِ متعدّی' کہتے ہیں۔ مولانا تھانوی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لازمی ضرر سے مراد ایسی صورت ہے جہاں ایک ضرر رساں عمل میں شرکت کی وجہ سے صرف  اس میں شریک شخص کو نقصان پہنچتا ہو۔ اس کے برعکس متعدی ضرر سے مراد ایسا ضرر ہے جس کا نقصان صرف اس شخص تک خاص نہیں ہوتا، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ تھانوی نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح کوئی جائز عمل انفرادی ضرر کا باعث بننے کی وجہ سے ممنوع قرار پاتا ہے، ، اسی طرح ایک عمل تب بھی ممنوع ٹھہرتا ہے، اگر وہ متعدی ضرر کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر "ایک شخص بیمار ہے، اور ڈاکٹر نے اسے اجازت دی کہ وہ روزہ توڑے۔ اس صورت میں اس کا کھانا پینا اصلاً جائز ہوگا۔ تاہم اگر اس اجازت سے یہ امکان ہو کہ کوئی دوسرا شخص اس کی صورتِ حال کو دیکھ کر روزہ توڑ دے گا، تو پھر یہ بظاہر جائز عمل بھی ناجائز قرار پائے گا (57)۔

اس لیے علما کو چاہیے کہ وہ ایسے غیر واجب اعمال پر کڑی نظر رکھیں، جو ایسی شرعی حدود کے ساتھ گھل ملنے کا امکان رکھتے ہوں، جو مباح اعمال کو واجب اعمال سے الگ کرتے ہیں، اور نتیجتاً لازمی یا متعدی ضرر کا سبب بنتے ہوں۔ مزید برآں علما کو چاہیے کہ ایسے اعمال کو لازماً ترک کریں، جو کسی بھی مرحلے پر اپنی شرعی حیثیت کو پھلانگ کر برتر حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا تھانوی بتاتے ہیں کہ وفات کے دن میت کے خاندان سے تعزیت کرنا مسنون اعمال میں سے تھا۔ تاہم جب سے لوگوں نے اس رسم کو واجب عمل کی حیثیت دی ہے، علما نے اسے ممنوع اور واجب الترک قرار دیا۔ اسی طرح خدا کے سامنے شکر کی خاطر سجدہ ریز ہونا ایک روایت تھا اور رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جائز تھا لیکن جب لوگوں نے اسے سنتِ مقصودہ سمجھنا شروع کیا، تو اسے ناجائز قرار دیا گیا۔

تاہم تھانوی نے اس اصول میں ایک اہم قید کا اضافہ کیا: اگر کوئی واجب شرعی عمل کئی غیرشرعی رسوم کی شمولیت سے فاسد ہو جائے، پھر اس عمل کو بالکلیہ ترک کرنے کے بجاے فاسد اعمال سے اس کی تطہیر اور اصلاح کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر کسی جنازہ میں نوحہ کرنے والی عورت شامل ہوجائے، تو جنازہ یا تدفین کے عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نوحہ کرنے والی عورت کو خاموش کرنا چاہیے۔  لیکن جہاں تک غیر ضروری یا غیر واجب عمل کی بات ہے، جیسے کسی مجلس میں شرکت کی دعوت قبول کرنا، تو ایسی دعوت سے انکار لازم ہے، جس میں مکروہ یا فاسد سرگرمیاں ہو (49)۔ مولانا تھانوی کے نزدیک مباح اور واجب اعمال کے متعلق اصول میں یہ ایک اہم فرق ہے۔  جیسا کہ مجھے اگلے باب میں واضح کرنے کا موقع ملے گا، یہ بعینہ وہی نکتہ ہے، جس پر دیوبند کے پیش رو اپنے بریلوی مخالفین سے واضح اختلاف رکھتے ہیں۔

لیکن اس اصولی پہلو سے قطع نظر، یہ بحث عوام کے بالمقابل طبقۂ علما کے ایک فرد کی حیثیت سے مولانا تھانوی اپنے کردار کو جس طرح تصور کرتے تھے، اس سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ ان کے سماجی تخیل میں علما پر مسلسل یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود کو ایک قابل تقلید نمونے کی حیثیت سے پیش کریں۔اگر علما عوام کے سامنے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، تو اس سے عوام کے دینی رجحانات پر ضرر رساں اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر وہ اپنی اس صلاحیت کو کہ لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں، سنجیدگی سے لیں تو وہ اخلاقی طور پر ایک مضبوط اور صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس سیاق میں مولانا تھانوی اور دیگر متعدد ہندوستانی مسلمان مصلحین (دیوبندیوں اور بریلویوں دونوں) نے ایک خطیبانہ تعبیر استعمال کی ہے جس کی رو سے وہ عوام کو  مال مویشی کے ایک گلے کے برابر قرار دیتے ہیں۔ اس احساس کا اظہار وہ عربی کے ایک مشہور کہاوت 'العوام کالانعام' (یعنی عوام جانوروں کی طرح ہیں) سے کرتے ہیں، اور برصغیر کے مختلف الخیال علما یہ کہاوت بار بار استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں عوام سادہ اور کم فہم ہیں، اور انھیں مستقل طور پر  گلہ بانوں کی ایک جماعت کی ضرورت ہے، جو انھیں دینی رہ نمائی اور اخلاقی ہدایات فراہم کریں۔ لیکن یہ بڑا عجیب رویہ ہے کیونکہ مولانا تھانوی جیسے علما جس قسم کے انداز فکر کو فروغ دے رہے ہیں وہ تو کافی پیچیدہ اور لسانی اعتبار سے مشکل ہے۔ پھر حیرت ہےکہ یہ مباحث اور ان میں موجود پیچیدہ افکار ان 'عوام کالانعام'  کے لیے کیسے قابل فہم ہو سکتے ہیں، جن کی اصلاح اور اخلاقی تطہیر کے لیے وہ کوشاں ہیں۔ شاید اور کسی بھی چیز سے زیادہ عوام کو جانوروں کے برابر قرار دینا دراصل ان علما کے دینی استناد کو سہارا فراہم کرتا ہے، جنھوں نے اس کہاوت کا استعمال کیا۔ گلہ بان اور اس کے ریوڑ سے علما اور عوام کے درمیان تعلق کی تصویر کشی کرکے یہ کہاوت علما کے شرعی استناد اور عوام کے مزعومہ تقلیدی رجحان اور انحصار کو باہم جوڑتی ہے۔

اصول نمبر 4: "زمانی، مکانی اور تجربی مشاہدات ان معاملات میں مختلف نتائج پیدا کرتے ہیں، جو عارضی طور پر مکروہ (مکروہِ عارضی) ہوں" (49)۔

جیسے پہلے ذکر ہوا کہ قرون وسطی اور عہد جدید کے اوائل میں نامور مسلمان فقہا جیسے علامہ سیوطی نے میلاد کو مطلقا جائز اور مثالی رسم قرار دیا ہے۔ اس حقیقت نے مولانا تھانوی کے لیے ایک شرعی چیلنج پیدا کیا، کیونکہ میلاد کے حوالے سے ان کی مخالفت ان اکابر اہل علم کی مخالفت پر محمول کیا جا سکتا تھا۔ مولانا تھانوی نے اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ اصول وضع کیا۔ مولانا تھانوی پوری قطعیت سے بتاتے ہیں کہ ان متقدمین علما نے میلاد کو اس لیے مستحب قرار دیا تھا، کیونکہ ان کی زندگی میں اس میں وہ مفسدات نہیں تھے جو بعد میں شامل ہو گئے۔  جیسا کہ وہ  لکھتے ہیں: "اگر ان فقہا کو آج میلاد کا حکم بتانا پڑے، تو وہ بھی اسے حرام قرار دیں" (49)۔ اس لیے تھانوی کے نزدیک کسی عمل کا حکم ہر زمان ومکان میں ایک جیسا یا ابدی نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہے کہ آج مکروہ قرار دیا جانے والا ایک عمل گزشتہ دور میں مباح قرار دیا گیا ہو۔

 مولانا تھانوی نے رسوم کے حوالے سے اسی انداز استدلال کو جغرافیائی اختلافات پر بھی منطبق کیا: یعنی کوئی عمل ایک علاقے میں (وہاں پر رائج حالات کی مناسبت سے) جائز ہو سکتا ہے، جب کہ وہی عمل کسی دوسرے علاقے میں ناجائز ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دو ماہر فقہا  کسی ایک مسئلے کے متعلق اپنے تجربے اور مشاہدے میں اختلاف کی بنیاد پر دو مختلف مواقف اختیار کر سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے اپنے استدلال میں بتایا کہ اگر کوئی فقیہ کسی مباح عمل کے ساتھ جڑے اخلاقی فسادات سے آگاہ نہیں ہے تو اسے اس عمل کو جائز بتانے میں کوئی اشکال نہیں ہوگا۔ تاہم ایک دوسرے فقیہ کا تجربہ اور مشاہدہ اسے اس عمل کو مکروہ قرار دینے پر آمادہ کر سکتا ہے، اور اس لیے وہ اس عمل کو ناجائز قرار دے سکتا ہے۔

مولانا تھانوی نے اپنے مخالفین کے اعتراضات کا قلع قمع کرتے ہوئے باصرار بتاتے ہیں کہ "یہ اختلاف محض ظاہری ہے نہ کہ حقیقی۔ یہ صرف صوری نہ کہ معنوی" (49)۔  اس طرح مولانا تھانوی میلاد کی حرمت والے موقف پر قائم رہنے میں کام یاب ہوگئے، اور اس کے ساتھ انھوں نے قرونِ وسطی کے نامور عالم علامہ سیوطی سے اپنی وفاداری بھی برقرار رکھی، جن کا موقف اس موضوع پر ان سے مختلف ہے۔ 

مولانا تھانوی کے تعبیری منہاج کے مطابق کسی عمل کی اخلاقی حیثیت ان حالات سے مشروط ہے، جن میں یہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ آخر کار اضافیت پر مبنی اس منہاج نے ایک مصلح عالم کی حیثیت سے مولانا تھانوی کے استناد کو بڑھاوا دیا، اس طرح کہ کسی مخصوص زمان ومکان میں کسی عمل کی شرعی حیثیت کے تعین کا اختیار ان کے پاس رہا۔ کار اصلاح سرانجام دیتے ہوئے مولانا تھانوی نے ایک ایسے اخلاقی نظام کی سرپرستی کی کوشش کی، جو الٰہی شریعت کی توقعات اور حدود کا محافظ ہو۔ لیکن یہ توقعات اور حدود ہیں کیا؟ اس کے تعین کا دار ومدار مولانا تھانوی اور حال کے متعلق ان کے جائزے پر رہا۔ انھوں نے خدا کی مرضی کو معلوم کرنے کے لیے اپنی مرضی کا استعمال کیا۔ 

مزید برآں مولانا تھانوی کا تعبیری اسلوب پوری گہرائی کے ساتھ زمان کی ایک مبہم تفہیم اور اس تفہیم کا سماج کی اقدار کی تشکیل کے ساتھ تعلق سے جڑا تھا۔ ایک طرف مولانا تھانوی کا فقہی منہاج زمان کے ایک متحرک تصور میں پیوست  تھا۔اس متحرک تصور کی رو سے اختلافی رسوم واعمال کے شرعی احکام بدلتے زمانے اور سماجی حالات کے مطابق تبدیل ہوئے اور ہونے چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر چہ علامہ سیوطی جیسے بزرگ عالم نے میلاد کو مستحب قرار دیا تھا، لیکن جب وہ حالات تبدیل ہوئے جن میں میلاد سرانجام دیا جاتا تھا، اس لیے اس کی شرعی حیثیت بھی بدل گئی۔ کسی عمل کی شرعی حیثیت ان حالات کے مطابق متحرک اور تغیر پذیر رہتی ہے، جن کے تحت وہ سرانجام پاتا ہے۔

اس صورت میں شریعت ایک لچک دار استدلالی فضا ہے، جو ان بدلتے زمانی حالات سے خود کو ہم آہنگ کرتی ہے جن میں وہ فعال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خواہش کہ حضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ تمام ازمنہ وامکنہ میں قابل عمل رہے (یہ خواہش مولانا تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے)،  زمان کو غیر متغیر اور مستقل فرض کرتی ہے۔

تھانوی کی فکر میں زمان کے مسئلے پر ابہام کو ایک اور پہلو مزید واضح کرتا ہے۔مخصوص زمانی اداوار میں پائے گئے خارجی حالات کے مطابق فقہی آرا اختیار کرنے کی ضرورت کے بارے میں اپنے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے تھانوی بتاتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت تھی، کیونکہ مرد وعورت کے درمیان کشش کا امکان نہ تھا۔ تاہم بعد میں بدلتے حالات کی بنیاد پر صحابہ کرام نے اس عمل کو ممنوع قرار دیا" (50)۔

اس مثال میں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ایک بنیادی زمانی منہاج کا کام دیتا ہے، جس کے مطابق حال کو ڈھلنا چاہیے۔  اس احساس کی تہہ میں کار فرما زمنیت کے ماڈل میں تاریخ کا ایک ایسا الہامی اسلوب جان ڈالتا ہے، جس میں حال کی زندگی ساتویں صدی کے ایک الہام (عہد نبوی) کی تصویر میں منکشف ہوتی ہے۔ تاریخ کا ایسا الہامی تصور تبدیلی اور حرکیت کا مخالف ہے؛ یہ زمان کے ایک ایسے تصور کو فرض کرتا اور اس سے پرورش پاتا ہے، جو مستقل اور غیر متبدّل ہو۔ تاہم اگر چہ تھانوی تاریخ اور زمان کی ایک الہامی تفہیم کو قبول کرتے ہیں، لیکن زمان کے ایک متحرک تصور کو اختیار کرنے سے بھی انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔صحابہ کرام کی طرف سے خواتین کی مسجد میں آنے کی ممانعت سے، جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے عمل سے ایک واضح تبدیلی اور انحراف ہے، یہ امر بالکل بدیہی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ اس مثال میں مولانا تھانوی نے ایک طرف فقہی لچک کی حمایت کی، اور بدلتے سماجی حالات کے مطابق  احکام کی تبدیلی کی گنجائش کی تائید کی۔ الہامی ماڈل کے برعکس قانون کے بارے میں اس لچک دار اور متحرک رویے نے حال کو ایک ایسے زمانی تناظر کی حیثیت عطا کی، جو کسی سماج کے لیے شرعی و اخلاقی پروگرام کی تشکیل کے لیے سب سے زیادہ مناسب تھا۔ نتیجتاً قانون اور تاریخ کے الہامی تصور کے برعکس جو زمان کو مستقل ہونے پر مجبور کرتا ہے، یہ بعد والا رویہ زمان کی حرکیت کی تائید کرتا ہے۔ تب یہ امر واضح ہے کہ مولانا تھانوی نے بدعت کے حوالے سے اپنا پسندیدہ استدلال وضع کرنے کے لیے اپنے افکار میں زمان کے استقلال اور تحرک کو حکمتِ عملی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ان کی فکر میں مستقل اور متحرک زمان دونوں بیک وقت موجود اور باہم معاون ہیں، جو ایک لاینحل لیکن تعمیری ابہام کی غمازی کرتے ہیں۔ 

صحابہ کرام کے عہد میں مساجد کے اندر خواتین کی موجودگی کی ممانعت کی جو وضاحت مولانا تھانوی نے کی ہے، اس کے اندر ایک اور ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ کون سے تاریخی اسباب ہیں، جن کی بنا پر وقت گزرنے کے ساتھ انسانی فطرت میں ایسی جوہری تبدیلیوں کو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ مثلاً مولانا تھانوی کس بنیاد پر یہ استدلال کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں مرد وزن کے درمیان کشش موجود نہ تھی، اور آپ علیہ السلام کی وفات کے فورًا بعد پیدا ہوئی؟ مولانا تھانوی ان ابہامات کو نہیں چھیڑتے۔ تاہم ان کے استدلال کے منطقی ربط سے زیادہ دل چسپ تاریخ اور زمان کا وہ تصور ہے جو یہ استدلال فرض کرتا اور تشکیل دیتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے دینی عروج وزوال کا جو بیانیہ مولانا تھانوی کے استدلال میں کار فرما ہے، اس یقین کے ساتھ نتھی ہے کہ ایک شخص تاریخ میں جتنا پیچھے کی طرف سفر کرتا ہے، اتنا ہی اسے اسلام اپنی خالص شکل میں ملے گا۔ اس میں عہد نبوی ایک غیر فاسد اخلاقی نظام کے ایک حتمی ماڈل کا کام دیتا ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنے حال میں زمان کے منفی تجزیےنے دین کی اخلاقی پاکیزگی کے نگہبان کی حیثیت سے مولانا تھانوی کی اپنی حیثیت کو استناد عطا کیا۔ حال کے ایک یاس انگیز تصور نے ایسے پیغمبری مصلحین کے استناد کی ضرورت پیدا کی، جو عوام کو بدعات سے ہٹا کر سنت کے رستے پر ڈال سکیں۔ حقیقت میں مولانا تھانوی کے دینی فرائض کی کڑی علمیاتی تحقیق کا پورا پروجیکٹ بالکل اہم نہ ہوتا، اگر یہ ایک عالم گیر اخلاقی زوال کے بیانے میں ملفوف نہ ہوتا۔

المختصر مولانا تھانوی نے ماضی کے ایک مثالی معاشرے کے تصور اور حال اور مستقبل کی ایک مکروہ تصویر کے درمیان تقابل پیدا کرکے اپنے دینی استناد کو تقویت پہنچائی۔ مولانا تھانوی کی فکر میں مثالی معاشرہ (نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کا عہد) ہمارے پیچھے ہے؛ یہ تاریخ کا ایک ایسا عہد ہے جسے سماج کی عادت (habitus) کو تبدیلی کے ایک جامع اور مسلسل پروگرام کے ذریعے واپس لایا جا سکتا ہے،اور اسی طرح سے ماضی کی گم شدہ میراث کو حال میں پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن واپسی کی یہ خواہش ہمیشہ ناآسودہ رہی۔ یہ عدم امکان کبھی بھی وقوع سے ہم کنار نہ ہوا۔

یہاں میں یہ اضافہ کرتا چلوں کہ عہد نبوی کو زمانۂ موجود میں واپس لانے کی ناآسودہ خواہش اخلاقی بحران کی اس الہامی ضرورت کو ایندھن فراہم کرتی ہے، جو 'فسادِ زمان' کے مقبولِ عام اصلاحی استدلال میں پایا جاتا ہے۔ یہ  ایک ایسا استدلال ہے جسے مولانا تھانوی نے بدعت سے متعلق اپنے افکار میں بار بار پیش کیا ہے۔ اس تصور میں زمان کی علامت مجازی طور پر عوام کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو ایسی عادات واطوار کو بڑھاوا دیتے ہیں، جو ہر آنے والے عہد میں فساد کے شماریے (index) میں معتد بہ اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ مزید برآں مولانا تھانوی کے افکار میں بیک وقت مثالی اور مکروہ زمنیتوں کے لاینحل تناقض کی موجودگی ہی سنتِ نبوی کے ایک سرپرست اور احیا کے علم بردار کی حیثیت سے ان کے استناد کو تقویت فراہم کرتی ہے۔

اصول نمبر 5: "ایک ناجائز عمل اس بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا کہ سماج کے لیے متعدد مصالح اور بہبود کا حامل ہے۔ اگر اس عمل کے ساتھ جڑے مصالح شریعت کی رو سے ضروری نہ ہوں، تو پھر وہ عمل ناجائز رہتا ہے" (50)۔

اس اصول کو وضع کرنے کا بنیادی مقصد میلاد کے حامیوں کے اس استدلال کا جواب دینا تھا کہ اس رسم میں موجود کچھ مفید مصالح  ہیں جیسے غریبوں کو کھانا کھلانا، غیرمسلموں میں اسلام کی تبلیغ اور دینی طبقے کا پھلنا پھولنا، جن کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ مولانا تھانوی نے اس کے جواب میں بتایا کہ میلاد سے پیدا ہونے والے اجتماعی مصالح اس سے جڑے  مضر اثرات کا ازالہ نہیں کرتے۔ مولانا تھانوی کے مطابق اگر میلاد کے ساتھ جڑے مجوزہ مصالح شرعاً ضروری نہیں، یا ان کے حصول کے لیے دیگر ذرائع موجود ہیں، تو پھر یہ مصالح میلاد کے لیے وجۂ جواز نہیں بن سکتے۔ مثلاً ایک شخص یہ استدلال کر سکتا ہے کہ میلاد جیسی رسم سماج کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ مولانا تھانوی کی نظر میں یہ مصلحت میلاد کے جواز کے لیے کافی نہیں۔ اس کے سماجی تخیل میں ایک متحرک سماج کی تشکیل سے زیادہ اہم فوری اور قابل توجہ حکم شریعت کی مستقل حدود کا تحفظ ہے۔

قانون الٰہی کی سالمیت برقرار رکھنا دیگر تمام مصالح پر فوقیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ مولانا تھانوی نے تعلیق کی ہے: "اچھی نیت سے ایک مباح عمل عبادت کا درجہ حاصل کر سکتا ہے، لیکن ایک مکروہ عمل کبھی مباح نہیں بن سکتا، اگر چہ اس میں ہزار مصالح اور مفید مقاصد ہوں" (50)۔ 

وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مثلا کوئی ظلم وناانصافی سے مال جمع کرتا ہے، اس نیت سےکہ  وہ اسے غریبوں میں بانٹے گا۔ اس صورت میں ظلم وناانصافی جائز نہیں قرار پائے گی، اگر چہ اس بظاہر نیک عمل سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ملنے کی امید ہو" (50)۔

مولانا تھانوی احکامِ الہی کے ایک وکیل کی حیثیت سے

یہ پانچ اصول وضع کرنے کے بعد مولانا تھانوی نے ان اصولوں کی روشنی میں میلاد کا جائزہ لیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے اس بات کی تعیین ضروری ہے کہ لوگ میلاد میں شرکت کو فرض سمجھتے ہیں یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس بات کا یقین حاصل کرنا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر رائج میلاد مختلف فاسد رسوم کی وجہ سے بگڑ گیا ہے یا نہیں۔ مولانا تھانوی ان دونوں سوالوں کا جواب قطعی طور پر اثبات میں دیتے ہیں۔جیسا وہ لکھتے ہیں:

جس بات کا یقین ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے زمانے میں یہ مباح اعمال فساد کا سبب بن رہے ہیں؟ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ان اعمال میں فساد ہے، تو پھر انھیں ناجائز ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ جائز رہیں گے۔ اور یہ یقین تجربے اور مشاہدے کی رو سے بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔میلاد کے بارے میں اپنے سالہا سال کے تجربے کی روشنی میں بلا جھجھک یہ کہہ سکتا ہوں کہ عوام کے اندر تقریباً ہر فرد اس رسم کو شرعی فریضہ سمجھتا ہے، اور ان تقریبات میں اس طرح شرکت کرتا ہے کہ گویا یہ شریعت کے فرائض یا مرتبے میں اس سے بھی برتر ہیں (51)۔

مولانا تھانوی نے میلاد کو علی الاطلاق یعنی اپنے جوہر کے اعتبار سے اور بالذات ناجائز قرار نہیں دیا۔  وہ اس بات پر قائم رہے کہ اصلاً میلاد جائز ہے۔ تاہم انھوں نے اس کے جواز کے لیے نہایت کڑی شرائط مقرر کیں۔ ان کے مطابق اگر اس محفل کے شرکا اپنے قول وفعل سے یہ ظاہر کریں کہ وہ میلاد کو ایک غیر واجب رسم سمجھتے ہیں، تو پھر یہ جائز رہے گا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ مولانا تھانوی تجویز کرتے ہیں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ محفل میلاد سے جڑی قیود میں کچھ تنوع پیدا کریں- ایسی قیود جن پر شدت کے ساتھ کاربند ہونے کی وجہ سے وہ شریعت کی طرح بن گئی ہیں۔ 

میں چاہتا ہوں کہ تھانوی کے اپنے الفاظ میں وہ طریق کار واضح کروں، جس کے ذریعے وہ میلاد کو ایک غیر واجب رسم بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں:

اگر مٹھائیوں کی تقسیم محفل میلاد کا ایک مستقل جزو ہے، تب متعدد مواقع پر شرکا کو اس عمل میں تبدیلیاں کرنی چاہیے، مثلاً‌ انھیں چاہیے کہ وہ فقرا کو تنہائی میں نقدی یا کپڑے یا گندم دیں۔ اور بعض اوقات انھیں اس موقع پر صدقہ خیرات دینے مکمل گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح جب محفل میلاد میں رسول اللہ ﷺ کے ذاتی فضائل وخصوصیات کا بیان ہو، اور کوئی وفورِ جذبات کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہو، تو اس قیام کے لیے کسی وقت کی تخصیص بالکل معقول نہیں۔ جب کسی شخص پر وجد طاری ہو جائے تو وہ کھڑا ہو جائے، چاہے یہ ابتدا میں ہو یا درمیان یا محفل میلاد کے آخر میں۔ اس کے ساتھ بعض اوقات اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بیٹھے رہنا چاہیے۔ مزید برآں صرف محفل میلاد کے مقام پر جذبات سے مغلوب ہو کر قیام نہیں کرنا چاہیے۔ میلاد کے علاوہ ایسے دیگر مواقع پر بھی اس وجد اور قیام پر عمل کرنا چاہیے، جہاں نبی اکرم ﷺ کے فضائل وخصائص بیان ہوتے ہوں (52)۔

یہاں پر مولانا تھانوی کی بحث میں ایک نکتے کے حوالے سے دلچسپ تبدیلی سامنے آتی ہے جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ سادگی پر تمام زور کے باوجود ان کے مسلکی تصور میں پھر بھی جذبات کی کچھ گنجائش ہے۔ وہ جذبات کے بالکلیہ استیصال کے قائل نہیں،بلکہ ان کے درست استعمال اور تصرف کو اخلاقی اعتبار سے راست باز اور ثابت قدم بندے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ مولانا تھانوی یہ بتانے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ایسے کسی بندے کو تلاشنا تقریبا ناممکن ہے جو ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہو، یعنی وہ شخص جو میلاد کو سرانجام دیتے وقت اسے ایک فرض عمل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرے۔ وہ طنزیہ انداز میں بتاتے ہیں: "ایسا شخص عنقا سے بھی زیادہ نایاب ہے" (51)۔

مولانا تھانوی کے تعبیری منہاج کا دار ومدار ایک ایسے تصور پر جسے اخلاقیات کے اضافی اسلوب (relativistic mode of ethics) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مولانا تھانوی کے مطابق کسی عمل کی شرعی حیثیت ان خارجی عوارض سے طے پاتی ہے جن کے تحت وہ سرانجام پاتا ہے۔ یہ تعبیری اسلوب بھی ان کے اپنے دینی استناد کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ کسی عمل کے ذاتی اور جوہری حسن وقبح سے صرف نظر کرکے بحث کا رخ ان احوال وظروف کی طرف موڑ دینے سے جن کے تحت یہ عمل انجام پاتا ہے، تھانوی نے  ایک عالم کی حیثیت سے اپنی قانون سازی کے اختیار کو تقویت دی۔ یعنی آخر الامر وہ ہی ہیں جو اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ خارجی عوارض مثبت ہیں یا منفی، صالح ہیں یا فاسد۔

اپنی کتابJustice Miscarried: Ethics, Aesthetics and the Lawمیں قانونی مفکرین کوستاس دوزیناس (Costas Douzinas) اور رونی وارنگٹن (Ronnie Warrington) بتاتے ہیں کہ انسانوں کی قانون سازی کے اختیارات میں تدریجی توسیع جدیدیت میں قانونی پیش رفت کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جدیدیت کے زیر اثر "جدید شعور اور آزاد ارادہ قانون ساز بن گئے ہیں: ماتحت بذات خود قوانین کا جائزہ لیتے ہیں، اور انھیں رد کر سکتے ہیں، اور ان کو دوسرے قوانین سے بدل سکتے ہیں، اگر وہ ان معیارات پر پورا نہ اترتے ہوں، جو حالات اور عقائد کے مطابق تغیر پذیر ہوتے ہیں"8۔  بعینہ طریقۂ مولد شریف میں مولانا تھانوی نے مخصوص قانونی معیارات وضع کیے ہیں، جو دینی فرائض کو استدلال کے ایک انتہائی منظم طریقے سے بنیاد فراہم کرتے ہیں، اور جس کے وضع کرنے میں انسانی عقل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جو اعمال صراحتاً جائز نہ ہوں نہ ہی قطعاً حرام ہوں، ان کی شرعی حیثیت کے تعین کو خارجی عوارض پر منحصر کرنے سے مولانا تھانوی نے خود کو مجتہد کے درجے پر فائز کر دیا۔ الٰہی منشا اور اختیار کے ترجمان کی حیثیت سے مولانا تھانوی نے خود کو ایک سادہ حقیقت کو معنی عطا کرنے والے کی حیثیت دی۔

دیوبند کو 'باطنی اصلاح' کی تحریک سمجھنے کی غلطی

خلاصہ یہ کہ آخری دو ابواب میں میں نے دکھایا کہ بدعت سے متعلق شاہ محمد اسماعیل اورمولانا اشرف علی تھانوی کے مباحث کو تقویت پہنچانے کے لیے شریعت کے تصور میں مرکزی نکتہ شریعت کی متعین کردہ علمیاتی حدود اور روزمرہ کی عادات واطور کی سمت متعین کرنے والے وجودیاتی نمونوں کے درمیان ہم آہنگی کے حصول کی خواہش تھی۔ ان علما کی نظر میں کوئی عمل اس وقت بدعت بنتا ہے جب یہ شریعت کی عطا کردہ 'حلال'، 'مباح'، 'واجب'، 'مکروہ' یا 'حرام' حیثیت سے تجاوز کر جاتا ہے، وہ حیثیت جو کسی عمل کو شریعت کی مخصوص تعبیر وتشریح کے نتیجے میں دی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شریعت کی مستقل اقدار علم کا ایک جامع منہج ہیں، اور چاہیے کہ انفرادی عادات اور اعمال کو ان کے مطابق ڈھلیں اور ان سے ہم آہنگ ہوں۔ جب شریعت کے علم اور اکتسابی عادات کے درمیان یہ ہم آہنگی ٹوٹ جاتی ہے، تو بدعات رونما ہوتی ہیں۔ علمیاتی انتشار وجودیاتی اور سماجی پراگندگی کا سبب بنتا ہے۔ یہاں یہ ملاحظہ کرنا مفید ہوگا کہ علم وعمل کی یہ الجھن بوردیو کے نظریۂ عادت (habitus) میں مرکزی نکتے کی حیثیت رکھتی ہے، جیسا کہ مائیکل دی سرتیو (Michel De Certeau) نے واضح کیا ہے۔

دی سرتیو بتاتا ہے کہ بوردیو کے ماڈل میں کسی سماج کی عادات کو اس کے معروضی عقائد سے جوڑے رکھنے کے لیے کلیدی متغیر (variable) اکتسابی علم ہے۔ دی سرتیو کے مطابق بوردیو کا نظریہ "اعمال کا عقائد سے ان کی اصل کے ذریعے ہم آہنگی کی وضاحت کی کوشش کرتا ہے۔ 'اصل' سے مراد عقائد کو (اکتساب کے ذریعے) باطن کا حصہ بنانا اور اعمال کے حاصلات (جس کو بوردیو 'عادات' کہتا ہے) کو خارج کا حصہ بنانا ہے۔ اس طرح ایک زمانی پہلو سامنے آتا ہے: اعمال (جو تجربے کا اظہار ہیں) حالات (جو عقائد کا مظہر ہیں)سے  صرف اس صورت میں مکمل طور پر ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، اگر عقائد باطن/خارج کا حصہ بننے کے عمل کے دوران مستحکم (stable) رہیں9۔

عقائد اور اعمال کے درمیان تعلق کی تقریباً یہی صورت مسلمانوں کے ان اصلاحی مباحث میں دیکھی جا سکتی ہے، جن کا مقصد شرعی احکام کی ایک بالادست ساخت کی حیثیت سے شریعت کی اولیت کا تحفظ ہے۔ شریعت کی طے کردہ علمیاتی حدود اور معیارات کی بقا اور استحکام کو صرف ان اکتسابی میلانات کو خارجی صورت عطا کرنے کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے جو عوامی سطح پر ان حدود اور معیارات کی تنفیذ اور تصدیق کرتے ہیں، لیکن یہ حدود اور معیارات کبھی ایک طے شدہ امر نہیں رہے۔ 'شرعی میلانات' کے حوالے سے کس کا موقف سماج کی عادت (habitus) کا رخ متعین کرے، اس پر اختیار حاصل کرنےکی  کش مکش ہمیشہ سے ایک جاری رہنے والا عمل ہے، جس پر نہ ختم ہونے والے اختلافات رہے ہیںَ۔ بالفاظ دیگر ایک معیاری عقیدے پر اختلاف اس عقیدے کی عدم موجودگی پر دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ ایسے عقیدے کی موجودگی میں متبادل ترجیحات ناقابلِ تصور اور شعور کے خانے سے محو ہو جاتے ہیں۔ میری رائے میں حریف عقائد پر یہ کش مکش  بدعت کے مفہوم اور دائرۂ کار پر بین المسالک اختلافات کے رزمیوں میں کار فرما بنیادی بیانی پلاٹ (narrative plot) کا کام دیتا ہے۔

ان آخری دو ابواب میں جو تجزیہ کیا گیا ہے اس سے باربرا مٹکاف (Barbara Metcalf) کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ بانیانِ دیوبند نے دینی اصلاح کا ایک ایسا پروجیکٹ شروع کیا تھا جس کا بنیادی زور نجی دائرے میں شخصی پاکیزگی پر تھا۔ دیوبند مدرسے کے ابتدائی دور سے متعلق اپنی شان دار کتاب میں مٹکاف نے یہ موقف اپنایا کہ دیوبندی نظریے کی بنیادی خصوصیت 'داخلی تبدیلی' ہے، یعنی ایک مسلمان کی حیثیت سے فرد کی اصلاح پر از سرِ نو زور دینا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں علماے دیوبند نے "ریاست اور سماج کی تشکیل کے مسائل سے اک گونہ پہلو تہی کرکے انفرادی مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کی طرف اپنا رخ موڑ دیا"10۔

دیوبند سے متعلق اپنی بلند پایہ تحقیق میں محمد قاسم زمان نے مٹکاف کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ "بیسویں صدی میں علماے دیوبند کی سرگرمیوں کی عوامی اور سیاسی پہلو کی وضاحت نہیں کر سکتا"11۔  قاسم زمان کا نکتہ تسلیم ہے، لیکن یہاں پر میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ باربرا مٹکاف کے موقف میں اس سے بھی زیادہ ایک بنیادی مشکل ہے اور وہ یہ مفروضہ ہے کہ عوامی یا نجی دائرہ  زندگی کے الگ میدانوں کی حیثیت سے بنے بنائے طور پر ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ مٹکاف کا فکری دائرۂ کار ایسے کرداروں کے سر داخلی/خارجی اور اجتماعی/انفرادی جیسے لبرل سیکولر تقابلات منڈتی ہے جنھوں نے نہ تو اپنی زندگیاں ان تقابلات کی حدود کے تحت گزاریں، اور اپنے اصلاحی تصورات ان کی روشنی میں ترتیب دیے۔

جیسا کہ میں نے اس حصے میں بار بار بتایا ہے کہ بدعت کے حوالے سے دیوبندیوں کے مباحث بیک وقت فقہ، کلام اور روزمرہ کے اعمال کے سنگم پر واقع ہیں۔ ایک مسلمان کی اخروی نجات کا امکان ایک ایسے عوامی دائرے کی نگرانی پر منحصر ہے جو یک سر اور مطلق خدائی حاکمیت (توحید) کے عقیدے کا اعتراف کرے۔ کسی مسلمان کے انفرادی تزکیے کے لیے ایک ایسے سماج کی تعمیر کی ضرورت ہے، جو روزمرہ زندگی میں قانونِ الہی کی حدود کو عملی شکل دینے کے لیے ہمہ تن یک سو ہو۔ دیوبند کی اصلاحی تحریک کی بنیادی خصوصیت اسلام کو باطن کا حصہ بنانا یا 'سماج کی تنظیم سے رخ پیرنا نہیں' جیسا کہ مٹکاف نے موقف اپنایا ہے۔ اس کے برعکس دیوبند کے پیش رو سماج کو اس انداز میں بدلنا چاہتے تھے، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی تخیل میں خدائی حاکمیت کی اولیت بحال ہو۔ فرد کی اصلاح کے ہدف کو سماج کی تنظیمِ نو کے مقصد سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا تھانوی جب شمالی ہندوستان میں رائج شادی بیاہ کے رسوم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تو اس سے ان کے علمی تراث میں ایک قابل ذکر اور واضح انداز میں فرد، سماج اور عقائد کا ربط معلوم ہوتا ہے۔ روزمرہ کے عوامی رسموں کی ایک جامع تنقید کے طور پر اپنی مقبول عام تصنیف 'اصلاح الرسوم' میں مولانا تھانوی نے ان رسموں کا ایک تفصیلی شجرہ بیان کیا ہے12۔ وہ شادی بیاہ سے متعلقہ رسموں کی مقررہ ترتیب اور سماجیاتی پہلؤوں کو موسوعی اور تصویری تفصیلات کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور ان سینکڑوں مراحل کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں، جو صرف شادی میں پیش آتے ہیں۔ ان رسموں کی جزئی تفصیلات سے مولانا تھانوی کی واقفیت سے ایک آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شادی بیاہ کی رسموں کی تحقیق ان کا اگر مستقل پیشہ نہ بھی تھا، لیکن ایک پسندیدہ مشغلہ ضرور تھا۔ تاہم جہاں مولانا تھانوی ان رسموں کا شجرہ بیان کرنے میں باریک بین ہیں، وہیں وہ بمشکل اپنے پیروکاروں سے ہم دردی کا کوئی اظہار کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو شادی بیاہ جیسی تقریبات کو علی الترتیب 'قیامتِ صغری' اور 'قیامتِ کبری' جیسے اخروی نام دیتے ہیں۔ شادی میں سر انجام دیے جانے والے 'خوف ناک رسموں' کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا تھانوی نے پرزور لیکن دلچسپ اناز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ہے، جو یہاں پر میرا بنیادی نکتہ ہے۔ وہ طنز بھرے لہجے میں شکایت کرتے ہیں: "پہلے پہل ایک قبیلے کے مرد اکٹھے ہو جاتے اور ایک مقامی نائی کو شادی کی تاریخ طے کرنے کے لیے دلہن کے گھر والوں کے نام خط پہنچانے کے لیے دیتے۔ اب لوگوں میں یہ رسم اس قدر پختہ ہو گئی ہے کہ اگر شدید بارش ہو، سڑکیں سیلاب کی وجہ سے بند ہوں، اور نائی کے مستقل ڈوب جانے کا بھی خطرہ ہو، تو بھی وہ اس رسم سے باز نہیں آتے۔ آپ بتائیں کہ یہ ایک ایسی چیز کو خود پر لازم کرنا نہیں ہے، جسے خدا نے لازم نہیں کیا ؛ یہ سنت کے مخالف ایک نئے عمل کی بنیاد رکھنا نہیں، جو شریعت کو چیلنج کرتا ہے؟"13

مولانا تھانوی کےاگلے فقرے میرے لیے سب سے زیادہ دل چسپ ہیں: "یہ لوگ کس قدر احمق ہیں۔ وہ ایک شخص کو پیغام پہنچانے کے لیے ایک روپیہ اور چار آنے دیتے ہیں، حالانکہ یہی کام وہ پچاس پیسوں میں ایک لفافہ اور ڈاک ٹکٹ خرید کر کر سکتے ہیں۔ وہ یہ خط  سیدھا ڈاک سے کیوں نہیں بھیجتے؟ اور اگر وہ خواہ مخواہ خط کو ایک واسطے کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں، تو پھر انھیں اس کے لیے مقامی نائی کے بجاے سماج کا کوئی زیادہ معزز فرد کیوں نہیں ملتا"14۔ یہ احساسات عمدگی سے کلام، قانون اور دین دار عوام کے درمیان ربط کی تصویر  کشی کرتے ہیں۔شادی بیاہ کی رسمیں شریعت کی حاکمیت کے لیے خطرہ ہونے سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔  یہ اس نظام اور مراتب ودرجات میں بھی خلل ڈالتا ہے، جو دین دار عوام کی تشکیل اور تحفظ کا کام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اخراجات اور وقت دونوں کی بچت کرنے والے ڈاک کے نظام کی افادیت پسندانہ حمایت سے مولانا تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ اور استعمار کے استدلالی اور ادارتی نظام کی فراہم کردہ ساز وسامان کے درمیان حیرت انگیز تعامل کا بھی پتا چلتا ہے۔ تاہم مولانا تھانوی کے افادیت پسندانہ اقدام کا وزن اس حد تک نہ بڑھایا جائے کہ اسے ان کے علمی مزاج کے لیے ایک تشکیلی عنصر کے طور پر مانا جائے۔ ان کے افادیت پسندانہ اقدام کو عوام کی روزمرہ زندگی اور اخروی نجات کے حوالے سے ان کی جذباتی اصلاحی فکر سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ عوام کی دین داری سے جذباتی محبت اور عوام کی دینی وابستگی کو قائم رکھنے کی افادیت پسندانہ عقلیت ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں15۔ جذباتیت اور عقلیت دونوں باہم یک جا اور ناقابل علیحدگی تھے۔

اس مختصر بحث کو سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ علماے دیوبند کی دینی فکر کی تصور سازی کرتے وقت داخلی/خارجی، شخصی پاکیزگی/عوامی مذہب، فرد/سماج یا عقلی/جذباتی جیسی تقسیمات بنانا درست نہیں ہے۔ یہ تقسیمات روایت اور اس کی حدود کے تصورات کی حد بندی کرنا چاہتی ہیں، تاہم انھیں ان بنے بنائے خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ اگلے باب میں بالخصوص بدعت کے مسئلے پر دیوبندی مسلک کی ایک کاٹ دار تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے میں روایت اور اصلاح کی ایک ایسے متقابل تفہیم سے بحث کروں گا، جس کی وکالت دیوبند کے بنیادی حریف مولانا احمد رضا خان بریلوی  نے کی۔ فاضل بریلوی نے سنتِ رسول کے معتمد نگہبانوں کی حیثیت سے دیوبند کے پیش رؤوں کی ثقاہت کو غیر مستند ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مزید برآں انھوں نے ان کی اصلاحی تحریک کو بدعت قرار دیا، جو روایت کے سابقہ اور موجودہ مستند نمائندوں کی آرا کے برعکس ہے اور اس طرح انھوں نے ان کے تسلسل میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ اگلا باب پوری وضاحت سے اس پر بحث کرتا ہے کہ فاضل بریلوی نے کس طرح اپنے دیوبندی مخالفین کو بدعتی قرار دیا، جو ہندوستان میں اسلام کے لیے ایک نیا خطرہ تھے۔


حواشی

  1. دیکھیے: ماریون کاٹز، The Birth of Prophet Muhammad: Devotional Piety in Sunni Islam (لندن: روٹلیج، 2007)۔
  2. جلال الدین السیوطی، حسن المقصد في عمل المولد، الحاوي للفتاوى کے اندر (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1975) 1: 192۔
  3. تقی الدین ابن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقيم في مخالفة أصحاب الجحيم (قاہرہ: المکتبۃ التوفیقیۃ، 2000)، 2 : 123۔
  4. ایضاً
  5. میلاد کے جواز پر ماقبل جدید مسلم اہل علم کے فقہی مباحث کے لیے دیکھیے: راکوئل یوکیلیس، Innovation or Deviation: Exploring the Boundaries of Islamic Devotional Law (پی ایچ ڈی مقالہ، ہاورڈ یونیورسٹی، 2006)، 200 – 239۔
  6. اشرف علی تھانوی، طریقۂ مولد شریف (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 1976)۔ آنے والے حوالہ جات اسی اشاعت سے ہیں، اور متن میں بین القوسین دیے گئے ہیں۔ یہ رسالہ اصلاً 1899 میں بدعت کے موضوع پر مولانا تھانوی کی مفصل کتاب 'اصلاح الرسوم' کے ایک باب کے طور پر چھپی۔  میلاد سے متعلق یہ حصہ بعد میں طریقۂ مولد شریف کے نام سے علاحدہ چھپا۔ میں نے بعد والی اشاعت سے اصلی متن کا تقابل کیا ہے، اور مجھے اس میں کوئی تغیر وتبدیلی نہیں دکھائی دی۔
  7. 'عیش پرستی' سے میری مراد چراغاں کرنا، حد سے زیادہ تزئین وآرائش کرنا، مرد وزن کے اختلاط کی اجازت دینا، خوش شکل لڑکوں کو گانے کی اجازت دینا جیسے اعمال ہیں، جس کی وجہ سے سماج ایسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے، جو اپنی بُنت میں ایک سادہ شخصیت کے فروغ اور بعد میں ایک ایسے سماج کی تربیت سے، جو روزمرہ کے اعمال میں سادگی کی مثالی صورت اپنائے، کے ضد میں ہے۔
  8.  کوستاس دوزیناس اور رونی وارنگٹن، Justice Miscarried: Ethic, Aesthetics and the Law (نیو یارک: ہارویسٹر ویٹشیف، 1999)، 83۔
  9. مایکل دی سرتیو، The Practice of Everyday Litfe (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1984)، 50۔
  10. باربرہ مٹکاف، Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1982)، 351۔
  11. محمد قاسم زمان، The ‘Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2002)، 13۔
  12. اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1958)، 10 – 40۔
  13. ایضاً، 48۔
  14. ایضاً۔
  15. مولانا تھانوی کی فکر میں جذباتی اور افادیت پسندانہ دونوں پہلؤوں کے یک جا اظہار کے بارے میں غور وفکر کے لیے میں نے کافی حد تک علی میاں اور مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) کی بات چیت سے استفادہ کیا ہے، جیسا کہ میں نے مولانا تھانوی کی فکر اور خدمات کے مختلف پہلؤوں پر ان کی ذاتی کاوشوں سے استفادہ کیا ہے۔

(جاری)

آراء و افکار

(اپریل ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter