انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۱)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا چھٹا باب)


چھٹا باب: استعماری طاقت کے سایے میں اصلاحِ مذہب

1890 میں جمعہ کے روز  بیرون ملک سے آئے ہوئے ایک سیاہ فام عالم  (اس کے اصل وطن کے بارے میں روایت خاموش ہے) اترپردیش ہندوستان کے قصبے دیوبند میں وارد ہوا۔ مقامی سماج اور ان کے دینی اعمال میں دلچسپی کے باعث اس نے حاجی محمد عابد حسین سے، جو اس قصبے کے ممتاز مدرسے دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے نسبتاً کم معروف ہیں، درخواست کی کہ اسے جامع مسجد میں خطبہ پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ عابد حسین نے مذکورہ مہمان کی درخواست برضا ورغبت قبول کی، اسے دیوبند کی جامع مسجد میں لے آئے، اور اسے منبر پر رونق افروز کیا۔ اتفاق سے دیوبندی سلسلے کے ایک اور بانی اور نامور دیوبندی عالم رشید احمد گنگوہی بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور نمازِ جمعہ میں شریک تھے۔ چونکہ یہ رسول اللہ کی ولادت کا مہینہ ربیع الاول تھا، اس لیے مہمان خطیب نے پورا خطبہ عید میلاد النبی کے فضائل پر دیا۔

مولانا گنگوہی ہندوستان میں رائج میلاد کے شدید مخالف تھے۔ ان کی نظر میں یہ ایک مذموم بدعت تھی، جس کی کوئی نظیر سلف صالحین کے عہد میں نہیں تھی۔ مزید برآں، مولانا گنگوہی کی نظر میں، میلاد میں یہ خرابی بھی در آئی تھی کہ جاہل عوام نے اس رسم کو طرح طرح کے منکرات کی محفلوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ جوں جوں مولانا گنگوہی خطبے میں میلاد کے فضائل پر دلائل سنتے گئے، میلاد کے حوالے سے اپنے موقف کی وجہ سے ان کے غصے اور اضطراب  میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک مقام پر خطبے کے دوران ہی ان کا صبر تمام ہوا اور انھوں نے خطیب کو ٹوک کر کہا: "مولانا! مہربانی کرکے اپنا خطبہ سمیٹ لیجیے"1۔

خطیب نے، جو مولانا گنگوہی سے اچھی طرح واقف نہ تھا، انھیں خطبے کے آداب سکھاتے ہوئے ڈانٹا: "خاموش! خطبۂ جمعہ کے دوران کلام کرنا حرام ہے"۔ "آپ مجھے مت سکھائیں کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام"۔ مولانا گنگوہی نے برہم ہو کر ترکی بہ ترکی جواب دیا، "آپ اس لائق ہیں کہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو منبر سے نیچے اتار دیا جائے۔ فقہ کے اصولوں کی رو سے ہونا یہ چاہیے کہ خطبہ مختصر دیا جائے اور نماز لمبی پڑھی جائے۔ آپ بالکل اس کے برعکس کر رہے ہیں"۔ "خاموش"، خطیب نے انھیں پھر ڈانٹ ڈپٹ کی۔

کچھ نمازی مولانا گنگوہی کے ساتھ خطیب کے گستاخانہ رویے پر برافروختہ ہوئے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے امامت کے لیے مولانا گنگوہی سے درخواست کی ، لیکن انھوں نے اس خدشے کی بنیاد پر انکار کردیا  کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے یہ تماشا اس لیے کھڑا کیا کہ خود خطبہ دیں اور جمعہ کی نماز پڑھائیں۔ آخر کار دیوبند کے ایک اور نامور عالم اور مولانا گنگوہی کے رفیقِ خاص محمد یعقوب نانوتوی نے جمعہ پڑھایا۔ نماز کے بعد مولانا گنگوہی جلد مسجد سے باہر چلے گئے۔ بعد ازاں بیرونی مہمان نے مولانا یعقوب نانوتوی سے کہا: "اس وہابی2 کو یہاں بلائیں جو خطبے کے درمیان کرخت انداز میں مداخلت کر رہا تھا، اور کافی دیر تک ایک مسخرے کی طرح اناپ شناپ بکتا رہا "3۔

مولانا نانوتوی چاہتے تھے کہ مہمان کو جواب دیں، لیکن خدشہ تھا کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو پہلے سے برافروختہ نمازی کسی انجام کی پروا کیے بغیر ہنگامہ نہ کھڑا کر دیں۔ اس لیے انھوں نے خود کو کسی قسم کے رد عمل سے باز رکھا اور ایسے ظاہر کیا کہ انھوں نے یہ توہین آمیز کلمات سنے ہی نہیں، اور سنتیں ادا کرنے میں مصروف رہے۔ اس طرز عمل سے انھوں نے ممکنہ طور پر پیدا ہونے  والے فساد اور بلوے کا راستہ مسدود کر دیا4۔

یہ واقعہ تلخ مناظروں کی اس فضا کی ایک واضح تصویر فراہم کرتا ہے جو انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہندوستان کے مسلمان اہل علم پر سایہ فگن تھی۔ جیسا کہ اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے، سنتِ نبوی کی حدود، بالخصوص عید میلاد النبی جیسی عوامی تقریبات کی شرعی حیثیت پر مناقشے کا نتیجہ شدید مسلکی تقسیم تھا۔ مولانا گنگوہی کے رد عمل کا تعلق نہ صرف سماجی رسوم کی شرعی حیثیت سے تھا، بلکہ اس کے ساتھ اتنی ہی اہمیت اس بات کی بھی تھی کہ رسمی عبادات کے مرکز مسجد میں، جو ایک عوامی  مقام ہونے کے  باوجود  شدید گروہی تقسیم کے بھی زیر اثر ہے، عوام کی سرپرستی اور رہ نمائی کا حق کسے حاصل ہے5۔ یہ حکایت اہل علم اشرافیہ کے علمی مناقشوں اور روزمرہ زندگی کے اعمال میں فرقہ وارانہ تناو کے درمیان قریبی تعلق کو بھی واضح کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تناو پورے شمالی ہندوستان کے مختلف مسلمان گروہوں کے درمیان باہمی تکفیر اور الزام تراشی میں بدل گیا۔

ہندوستان کے نامور علما کے لیے شرعی احکام سے متعلق متنازعہ سوالات پر گرما گرم بحث ومباحثہ کوئی نیا عمل نہیں تھا۔ حتّیٰ کہ پندرھویں اور سولھویں صدی میں، جب کہ اسلامی حکومت کا دور عروج تھا، انفرادی طور پر کئی مسلمان اہل علم تلخ اور عموماً بہت انفرادی نوعیت کے علمی تنازعات میں الجھے رہتے تھے۔ یہ رجحان انیسویں صدی کے پہلے نصف کے اوائل تک جاری رہی، جیسا کہ پچھلے حصے میں ہم نے شاہ محمد اسماعیل اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے درمیان بحث ومباحثے میں دیکھا۔ تاہم انیسویں صدی کے اواخر کا مناظرانہ جوش وجذبہ کئی حوالوں سے اہم اور سابقہ ادوار سے مختلف تھا۔

خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد (جس میں برطانیہ نے مسلمانوں کو شکست فاش سے دو چار کیا) ہندوستان کے اہل علم کی اشرافیہ دینی اصلاح کے متوازی پروگراموں کے ساتھ مخالف مسالک میں بٹ گئی۔

الٹا مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت کے خاتمے نے ایک بے مثال علمی جوش وخروش کے لیے راستہ ہموار کر دیا جس میں علما کے متحارب گروہ اس سوال سے نبرد آزما تھے کہ برطانوی استعمار کے تحت پیدا ہونے والی نئی صورت حال میں دین اور مسلمانوں کی اصلاح کیسے کی جائے۔6

2 اگست، 1858 کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے ذریعے برطانیہ کی طرف سے ہندوستانی رعایا پر حاکمیت کے باضابطہ اعلان میں یہ واضح کیا گیا کہ تمام ہندوستانی رعایا کو "قانون کا مساوی اور غیر جانب دارانہ تحفظ حاصل ہوگا۔۔۔ اور انھیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا"7۔ استعماری ریاست کی طرف سے مقامی مذہبی آبادیوں کو قانونی تحفظ دینے کی ظاہری رواداری کو اس لبرل سیکولر اقدام سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا جس میں مذہبی عقائد واعمال اور مباحث کو ریاست اور اس کے قوانین سے خارج کرنے کے باوجود انھیں اس کا تابع اور محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ ڈیوڈ گلمارٹن (David Gilmartin) نے بتایا ہے، یہ بندوبست استعماری ریاست کے مزعومہ کلی (آفاقی)، عقلی اور سائنسی دائرے اور مقامی ثقافتوں اور آبادیوں کے دائرے کے درمیان، جس کی تحدید ان کی جزئی (مخصوص) اقدار اور خصوصیات (مذہبی، قبائلی وغیرہ) کرتی ہیں، استعماری تقسیم کا نتیجہ ہے8۔

کلی (آفاقی) اور جزئی (مخصوص) کے درمیان اس فرق نے استعماری ریاست کی آفاقیت اور نتیجتاً اس کی انفرادیت کو قائم کرنے میں توقع سے بڑھ کردار ادا کیا۔ اس نے عوامی دائرے، جو قانون اور سیاسیات کے چل چلاو کی نگرانی کرتا ہے، اور نجی دائرے کے درمیان، جو مذہبی حساسیتوں اور اعمال کو جگہ دیتا ہے، ایک مصنوعی لیکن شدید انقطاع پیدا کر دیا۔ اس لیے گلمارٹن نے عمدگی کے ساتھ واضح کیا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر کے سیاق میں عوامی اور جزئی کے حوالے سے گفتگو  کرنا عوامی اور  نجی کے نسبتاً معروف فرق کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے۔ مقامی مذہبی آبادیوں کی خصوصیات کو تسلیم کرنا اور ان کے تحفظ کا دعوی کرنا ہی وہ وصف ہے جس سے استعماری ریاست کی آفاقیت اور برتری اور قانون وسیاست کے معاملات پر کنٹرول کا حصول کیا گیا9۔ لیکن جیسا کہ جولیا سٹیفنز (Julia Stephens) نے ثابت کیا ہے، قانون کے ذریعے مذاہب کی حفاظت کے امکان نے مذہبی آزادی اور قانونی تحفظ کے درمیان تعلق کے اردگرد واقع ابہامات میں صرف اضافہ کیا ہے، جو شدید نوعیت کے متنوع مناظروں اور صورتِ احوال کو جنم دے رہے ہیں10۔ اگرچہ استعمار نے زندگی کے ایک منفرد اور نجی دائرے کی حیثیت سے مذہب کا اخراج اس مقصد کے لیے کیا تاکہ وہ ریاست کے تحفظ اور نگرانی میں آ سکے، تاہم اس اقدام کا الٹا اثر یہ ہوا کہ اس سے یہ دائرہ مزید متناقض، مناظرانہ اور مسابقت آمیز بن گیا۔

کسی بھی تصور (زیر بحث معاملے میں مذہب) کی تعریف وتحدید کی جتنی زیادہ کوشش کی جاتی ہے، اتنا ہی زیادہ اس کی تعریف اور حدود میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں11۔ یہ کوئی اتفاقی امر نہیں کہ برصغیر میں انیسویں صدی میں بین المذاہب اور بین المسالک مناظرانہ تلخیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مزید یہ کہ انیسویں صدی کی مناظرانہ معرکہ آرائیاں صرف ایک مجسم حقیقت اور مسابقی تصور کے طور پر مذہب کی سیاسی اور علمیاتی تشکیلِ نو کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس میں مختلف ٹیکنالوجیز جیسے پرنٹنگ پریس، ریلوے اور ڈاک کے نظام نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ اروند منڈیر نے خوب صورتی سے واضح کیا ہے، استعماری ہندوستان میں مذہبی مناقشوں کے دو علیحدہ لیکن ایک دوسرے سے مربوط میدان بیک وقت سرگرمِ عمل تھے۔ ایک بین المذاہب مناظروں کا میدان، جس میں ہندو، مسلمان، سکھ اور مسیحی مشنریاں ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ خارجی 'غیر' کے ساتھ اس اختلاف میں انفرادی مذہبی شناختوں کی حقانیت زیر بحث تھی۔ دوسرا میدان داخلی 'غیر' کے ساتھ مکالمے کا تھا۔ یہ داخلی تعصبات استناد اور روایت کی حدود کے متعلق متخالف تصورات سے پیدا ہوئے تھے۔

پہلے دائرے کا موضوع دوسروں کے ساتھ اپنی ذات کے تعلق کا تھا، جب کہ دوسرا دائرہ مستند ذات کی خصوصیت کے گرد گھوم رہا تھا12۔ منڈیر کے نکتے پر غور کرنے سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں جنم لینے بین المذاہب مناقشوں کے واقعات کے درمیان حیرت انگیز مماثلت ہے۔ مثال کے طور پر ہندوؤں، مسلمان اور سکھوں کے بڑے مصلحین اور اصلاح مخالف بزرگوں کو لیجیے۔ یہ اگر چہ واضح طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور الگ ہیں، تاہم ان کے مباحثوں اور اختلافات کے اغراض ومقاصد، تشکیل اور لائحۂ عمل میں حیرت انگیز مماثلت ہے13۔

اگر چہ مسلمان اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے اصلاح کی خواہش ظاہر کی ، تاہم ان کے اصلاحی افکار میں کافی تنوع ہے، جس سے متعدد استدلالات، مناقشے اور مناظرے جنم لیتے ہیں14۔ ان اصلاحی تحریکوں میں سب سے ممتاز دیوبند ہے، جو ایک مدرسہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مکتب فکر بھی ہے۔ مدرسہ دیوبند1866 میں شمالی ہندوستان کے قصبے دیوبند، اترپردیش میں ہندوستان کے نامور مسلمان اہل علم نے قائم کیا۔ رشید احمد گنگوہی اور قاسم نانوتوی (م 1877) بطور خاص وہ ہردل عزیز علما تھے جنھوں نے مذہبی تعلیم کے اس ادارے کی بنیاد رکھی جس نے برصغیری اسلام کی علمی، سماجی اور سیاسی تاریخ کو گہرے طور پر متاثر کیا۔ آج لگ بھگ 150 سال بعد ہندوستان میں اپنے اولین ادارے سمیت مدرسہ دیوبند پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ ایشیا میں پڑوسی اور دور پار کے ممالک جیسے جزائرِ غرب الہند، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکا میں شاخوں کے وسیع سلسلے کے ساتھ پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے۔ صرف برصغیر میں دیوبندی مدارس کی تعداد تقریباً پچاس سے ساٹھ ہزار ہے، جن میں زیادہ تر ہندوستان میں ہیں۔

لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر چہ متعدد ممالک میں بہت سے مدارس اپنے آپ کو دیوبند سے منسوب کرتے ہیں، لیکن دیوبند کے قصبے میں ابھی تک قائم اولین مدرسے کے ساتھ ان کا تعلق براے نام یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ یہ واضح کرتا ہے کہ دیوبند کا لفظ جہاں مدرسے کی صورت میں ایک ادارے کے لیے استعمال ہوتا ہے، وہیں جدید دنیا میں اس سے سنی اسلام کا ایک مخصوص نظریہ یا طرز فکر بھی مراد لیا جاتا ہے۔ مزید برآں استعماری اور مابعد استعماری برصغیر میں دیوبندی مسلک کبھی یک رخا یا یکساں نہیں رہا۔ جیسا کہ اس کتاب کے آخری باب میں بتایا گیا ہے، فقہ اور عملی احکام کے اہم سوالات پر دیوبندی علما کے درمیان، جن میں اکابرِ دیوبند بھی شامل ہیں، بسا اوقات اختلاف بھی واقع ہوا ہے۔

علاوہ ازیں انیسویں صدی کے اواخر سے لے کر آج تک دیوبندی علما کے درمیان سیاسیات، سیاسی وابستگی اور انتخابی جمہوریت میں شرکت پر بھی اختلاف رہا ہے، جس میں بعض اوقات کافی شدت بھی آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض نامور دیوبندی علما (جیسے شبیر احمد عثمانی، م 1949) نے تحریک پاکستان کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس میں کلیدی کردار ادا کیا، جب کہ دوسروں (بطور خاص حسین احمد مدنی) نے اس کی بھرپور مخالفت کی15۔

مزید یہ کہ کچھ دیوبندی علما جیسے مولانا اشرف علی تھانویؒ شدت سے تزکیۂ نفس اور رواج ورسوم کی درستی کے ذریعے عوام کی اصلاح کے مثالی تصور کے قائل تھے، جبکہ کچھ دوسرے علماء، جیسے ان کے معاصر عبید اللہ سندھی (م 1944) کو اگر  رسم ورواج کی اصلاح میں کوئی دلچسپی تھی بھی تو بہت  کم تھی۔ مثلاً‌ سندھی اصلاح کو انقلابی سیاست اور سماجی ومعاشی انصاف کی عینک سے دیکھتے تھے۔  انھوں نے یہ نظریہ بیسویں صدی کے وسط میں افغانستان، سوویت روس اور ترکی کے اسفار کرنے کے بعد پیش کیا16۔ اس لیے دیوبندی مسلک میں متعدد اور بیک وقت متضاد نظریاتی دھارے پائے جاتے ہیں۔

انیسویں صدی کے اواخر کے ہندوستان میں اور آنے والی دہائیوں میں روایتی طرز پر تعلیم پانے والے علما میں سے دیوبندیوں کے بڑے مخالفین بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر نے پوری شدت سے ان کے استناد کو چیلنج کیا۔ ان متخالف اعتقادی مسالک – دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث – نے زندگی کی مثالی اقدار کے باہم دگر جڑے مگر متوازی بیانیے اور ان اقدار کی تعبیر وتشریح کے مناہج تشکیل دیے۔

دیوبندی اور بریلوی مکاتبِ فکر کے برعکس اہل حدیث مکتبِ فکر نے اہل سنت کے مُسلّمہ چار فقہی مذاہب کی تقلید کو مسترد کیا۔ انھوں نے احکامِ دینیہ کے مصادر کو قرآن وسنت تک محدود کرنے پر دلائل دیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چہ اہل حدیث نے فقہی مذاہب اور ائمہ کے واسطے کے بغیر قرآن وسنت تک رسائی کے مقبولِ عام دعوے کی وکالت کی، تاہم اس تحریک کی کئی بنیادی خصوصیات اس دعوے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر اہل حدیث مکتب فکر سے انتساب رکھنے والے کثیر التصانیف اور مشہور ومعروف عالم صدیق حسن خان (م 1890) کا علمی اور سماجی پس منظر لیجیے۔ واضح طور پر  شاہانہ مزاج رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی شادی بھی ریاست بھوپال کی شہزادی سے ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں انھوں نے زیادہ تر  عربی زبان کو ہی ذریعہ اظہار بنایا  تاکہ عرب دنیا میں اہل حدیث مکتبِ فکر کی علمی دھاک بٹھا سکیں۔ یہ  ایک ایسی سوچ تھی جس کی وجہ سے ان کی فکر ہندوستانی عوام کے لیے مشکل دے ہی قابل رسائی ہو سکتی تھی۔

نواب صدیق حسن خان کے ہاں تعبیر وتشریح میں تقلید سے انکار، شاہانہ معاشرت اور عربی اشرافیت (elitism) سب ایک ساتھ پائے جاتے تھے۔ تعبیر وتشریح کے مناہج میں اختلاف کے علاوہ اہل حدیث علما کا اپنے احناف معاصرین کے ساتھ پنج وقتہ نماز سے متعلق تین اعمال یعنی  ہاتھ اٹھانے (رفع الیدین)، سورۂ فاتحہ کے بعد زور سے آمین کہنے (آمین بالجہر) اور امام کے پیچھے فاتحہ کہنے (قراءت خلف الامام)  کی شرعی حیثیت پر بھی تنازع تھا۔ اس کے برعکس بریلوی اور دیوبندی علما کے درمیان مخاصمت رسول اکرم ﷺ کی شان سے متعلق حریف تصورات اور سنتِ نبوی کی حدود پر مرتکز تھی۔

جیسا کہ اگلے تین ابواب میں واضح ہوگا، ان کے تنازعات کا مرکزی موضوع یہ سنجیدہ سوالات تھے کہ عوام اپنی روزمرہ زندگی میں سنتِ نبوی پر کس طرح عمل کریں، اور دینی اعمال کو بدعات کے خطرات سے کیسے محفوظ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے علم کی حیثیت اور حدود بھی بنیادی نکاتِ اختلاف میں تھیں (اس پر گیارھویں باب میں بحث ہوگی)۔

مسلک کیا ہے؟

1866 میں دیوبند مدرسے کے ایک تحریک کی صورت میں ابھرنے اور اہل حدیث اور بریلوی مسالک کی تشکیل نے برصغیری اسلام کے علمی منظر نامے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس وقت سے علم کی تخلیق واشاعت نے ایک بے نظیر مسلکی صورت اختیار کر لی۔ اس گروہی یک جہتی اور اتحاد کی بہترین عکاسی 'مسلک' کے لفظ سے ہوتی ہے جو نوآبادیاتی برصغیر میں کسی ممتاز اصلاحی تحریک کے لیے بہت مشہور اصطلاح بن گئی ہے۔ حقیقت میں مسلک کا یہ تصور مسلم ہندوستان میں انیسویں صدی کے نصفِ آخر سے پہلے کبھی اس قدر متعارف نہیں تھا۔ پھر مسلک ہے کیا؟

مسلک ایک تغیر پذیر اور عام طور پر ایک مبہم اور کثیر المعانی اصطلاح ہے۔یہ عربی زبان کے لفظ 'سلوک' (چال چلن) سے ماخوذ ہے، اور بنیادی طور پر اس کا تعلق کسی بندے کی پرہیز گاری اور اخلاقی تعلیم وتربیت سے ہے۔ تاہم جدید برصغیر کے تناظر میں لفظ مسلک کا اخلاقی مفہوم شریعت کے متخالف نظریات کے ساتھ نہ صرف بندھا ہوا ہے، بلکہ شاید اس سے مغلوب ہو گیا ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر کے بعد مسلک واضح طور پر ایک مسابقتی تصور بن گیا ہے۔ یہ نہ صرف ایک دینی فکر پر دلالت کرتا ہے، بلکہ شریعت پر حق جتلانے والے دیگر مدعیوں کے مقابلے میں واحد مدعی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس لیے اس تصور کی بنیاد میں ہی ایک لاینحل تضاد اور ابہام ہے۔

کسی مسلک سے تعلق رکھنا یا اس کی طرف منسوب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دین کی یہی ایک تعبیر ہی حق ہے، تاہم متعدد مسالک کی موجودگی اور دوسرے حریفوں کے وجود پر مسلکی شناخت کا انحصار شریعت کی شکست وریخت اور عدم استحکام کو تجویز کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر مسلک، شریعت کے متعلق ایک ایسا ادعا ہے جو شریعت سے متعلق کسی مطلق ادعا کی غیر موجودگی اور عدم امکان کا اعلان کرتا ہے۔

مسلک کے تصور میں کار فرما تضاد کی سب سے اچھی وضاحت دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کرداروں کے درمیان مسلکی شناخت کے اخذ و رَد کے بارے میں تذبذب کی موجودگی سے ہوتی ہے۔ کسی مسلکی شناخت کو قبول کرنا اور برتنا علمی استناد اور روایت کی وہ امتیازی علامات عطا کرتا ہے جو کسی مخصوص مسلک کو اس کے حریف مسالک سے ممتاز کرتی ہیں۔لیکن بریلوی اور دیوبندی جیسے القابات کو ترک کرنا سنی مذہب کے ادعا کے لیے اس انداز میں راہ ہموار کرتا ہے جو 'مسلکی' اختلافات اور امتیازات سے بالا ہے۔ چونکہ یہ ایک دوسرے کے بالکل متضاد نہیں، اس لیے کسی مسلک کی جزئیت اور سُنّی مذہب کی کلیت بہر حال ایک تعمیری تضاد میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں، اس لیے یہ اخذ ورد کے بظاہر متضاد رویوں کے پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

لیکن اب میں مختصراً‌ اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ مسلک ہے کیا؟ دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث جیسے متخالف مسالک کے درمیان اختلافات کا خلاصہ کیا ہے؟ المختصر، مسلک علم وعمل اور تعبیر وتشریح کے اصولوں کے باہمی تعامل سے وجود میں آتا ہے۔ کسی مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسلک کا پیروکار ایک ایسے ممتاز مسلکی گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو ایسے تین بڑے سوالات پر مبنی ہے جن کے تین متغیرات (variables) ہیں:

(1) علم: بنیادی فقہی، اخلاقی اور اعتقادی مسائل سے نمٹنے کے لیے روایت کے کون سے مصادر سے استفادہ کرنا چاہیے؟

(2) تعبیر وتشریح کے اصول: فقہی روایت کے ماقبل جدید ورثے کو جدید دنیا میں کیسے اور کن تعبیری اصولوں کی بنیاد پر واضح کیا جائے؟ اور

(3) عمل: مستند علم اور تعبیر وتشریح کے اصولوں (1 اور 2) کے نظریے سے رسم ورواج اور روزمرہ زندگی کا کون سا خاکہ سامنے آتا ہے؟

علم، تعبیر اور عمل کا یہ سنگم جنوبی ایشیا کے مسلکی اختلافات اور مناظروں کی بنیاد ہے۔

بریلوی دیوبندی اختلاف کی اساس اصولِ تعبیر اور عمل کا اختلاف ہے۔ فقہی مسائل میں شدید اختلافات کے باوجود دونوں مکاتب فقہ حنفی کی تقلید پر متفق ہیں۔ تاہم اہل حدیث مکتب فکر مسلمہ فقہی مذاہب کی حجیت کو ہی مسترد کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں وہ اپنے حنفی حریفوں سے عملی احکام کے معاملے میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مسلک کی اصطلاح کو سمجھنے کے لیے ممکنہ طور پر سب سے کارگر تجزیاتی طریق کار یہ ہے کہ علم، اصولِ تعبیر اور عمل کے درمیان تعامل پر غور کیا جائے۔

انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہندوستان میں سنی اسلام کی نظریاتی تشکیل نے، جو متخالف مسالک کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی، مناظروں کی شدت میں بے تحاشا اضافہ کیا۔ تمام اصلاح پسند گروہ بشمول دیوبندیوں، بریلویوں اور اہل حدیثوں نے اس برپا شدہ مناظرانہ معرکہ آرائی میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ ان مناظروں میں سب سے زیادہ معروف مناظرے بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان ہیں، جن سے یہ کتاب بحث کرتی ہے۔اس کش مکش نے بریلوی اہل علم کے اکابر، جیسے بانئ مسلک مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی حریفوں بشمول مدرسۂ دیوبند کے بانیوں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی، اور ان کے جانشینوں جیسے مولانا خلیل احمد سہارن پوری (م 1927) اور مولانا اشرف علی تھانوی کو الجھائے رکھا17۔ باوجود یکہ یہ دونوں مسالک ایک ہی حنفی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی حدود اور عوامی دائرے میں اس کی تنفیذ پر ایک دوسرے کی مخالفت کی۔

لوئی ڈوماں (Louis Dumont) نے جدید ہندوستان میں ہندو سماج کے تناظر میں بتایا ہے کہ "بطورِ حاکمِ اعلیٰ بادشاہ کے خاتمے سے۔۔۔۔ عوام نے ایک اجتماعی فرد کی حیثیت سے، جس کا وجود ایک خطے میں تھا، دھرما کی جگہ لے لی18۔ بعینہ استعماری ہندوستان کے سیاق میں نبی اکرم ﷺ کی سنت ایک ایسے استعارے کے طور پر سامنے آئی جو پوری کلیت میں شریعت کی نمائندگی کر رہی تھی۔ شریعت کا مرکز اب شدت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی ذات بن گیا۔ کسی واضح اور معقول سیاسی طاقت کی غیر موجودگی میں نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بنیادی استدلالی مقام کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا، جہاں شمالی ہندوستان کے علما کے حریف دھڑے اپنے مذہبی استناد کے لیے استدلال اور بحث ومباحثہ کرتے، لیکن ان میں سے ہر دھڑے نے سنت کی تعریف کافی مختلف بلکہ متضاد طریقے سے کی۔ اس حوالے سے دیوبندی بریلوی مناقشے کی صورت حال بطور خاص بہت توضیحی ہے۔

دیوبندیوں کے اصلاحی پروگرام میں نبی اکرم ﷺ کے مقام کا ایک مساوات پسندانہ تخیل تھا۔ مثلاً دیوبندی علما کی نظر میں کسی کو نبی اکرم ﷺ کا بھائی کہنا کوئی گستاخانہ یا بے ادبی پر مبنی طرز عمل نہیں، بلکہ نبی اکرم ﷺ کی انسانی صفات کے اعتراف کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ دیوبندیوں نے اپنے استدلال میں بتایا کہ معروف حدیث: "میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں" کا مطلب وحی الہی کے وصول کرنے والے کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کے منفرد مقام کا اعتراف ہے۔ دیگر تمام انسانی صفات کے اعتبار سے وہ دوسرے انسانوں ہی کی طرح ہیں۔ اس لیے دیوبندی علما کے نزدیک یہ اعتقاد رکھنا ناقابل برداشت ہے کہ نبی اکرم ﷺ علم غیب کے حامل ہیں۔ جیسا کہ میں آٹھویں باب میں بتاؤں گا، عید میلاد النبی جیسی رسموں کی مخالفت میں، جس میں بیک وقت کئی محفلوں میں نبی اکرم ﷺ بذات خود حاضر ہوتے ہیں، ان کے اس اعتقادی موقف کا مرکزی کردار تھا۔ شاہ محمد اسماعیل کی طرح دیوبند کے پیش روؤں کے لیے نبی اکرم ﷺ کا کمالِ نبوت ان کے کمالِ انسانیت کے مرہونِ منت تھا۔

جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک بار دیوبندی مکتبِ فکر کا موازنہ اپنے حریفوں سے کرتے ہوئے کہا: "بدعتی حضور کو الٰہ مانتے ہیں مگر ناقص۔ ہم انھیں عبد مانتے ہیں مگر کامل۔ تو تم حضور کی تنقیص کرتے ہو، اور ہم کمال کے قائل ہیں"19۔ مولانا تھانوی نے نبی اکرم ﷺ کی بشریت سے متعلق دیوبندیوں کے موقف کے دفاع میں پنج وقتہ نمازوں میں پڑھے جانے والے تشہد سے استدلال کیا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں"۔ مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ اس تشہد میں جس امر پر غور کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی عبدیت کو ان کی رسالت پر مقدم کیا گیا ہے۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ کے مقامِ عبدیت کو آپ کے مقام رسالت پر فوقیت حاصل ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی بشریت ان کی شخصیت کا سب سے بنیادی وصف ہے20۔

اس کے برعکس بریلوی نظریے کے مطابق خدا اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان تعلق میں سب چیزوں سے بڑھ کر حیثیت محبت کو حاصل ہے۔  مولانا فضل حق خیر آبادی کی طرح، جن کی بریلوی بہت توقیر کرتے ہیں، ان کے نزدیک ایسا کوئی شرعی استدلال جو خدا کی محبوب ہستی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو کمزور کرتا ہے، مثلا گناہ گاروں کے حق میں اس کی شفاعت پر سوال اٹھانا یا میلاد کو بدعت کہنا، ناقابلِ قبول ہے۔ مزید برآں کسی کے لیے ایسا کہنا تو درکنار، سوچنا بھی نہ صرف تحقیر آمیز بلکہ گستاخی ہے کہ وہ حضور ﷺ کو اپنا بھائی سمجھے۔ کوئی ایسی بات یا طرز عمل جو صرف نظری اعتبار سے بھی نبی اکرم ﷺ کے مقام کو گھٹائے، بریلویوں کے لیے ناگوار ہے۔

مثال کے طور پر مولانا احمد رضا خان کے نزدیک حضور اکرم ﷺ کے ساتھ خدا کی قربت وحی کے زمانے اور حکمت سے مربوط ہے۔ قرآن ایک ہی قسط میں نازل ہونے کے بجائے دوعشروں سے زیادہ مدت میں آہستہ آہستہ اس لیے نازل ہوا کہ خدا اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان محبت کا رشتہ پروان چڑھے۔ سلسلۂ وحی کی تکمیل پر حضور ﷺ کا قرآن سے متعلق علم اور اس علم کے ذریعے ماضی ومستقبل (ماکان ومایکون) کے تمام واقعات کا علم خدا کا نبی اکرم ﷺ سے محبت کا ایک اظہار ہے21۔ محبت، علم اور وحی کے امتزاج نے نبی اکرم ﷺ کے علم غیب پر، جس کا جائزہ گیارھویں باب میں پیش کیا گیا ہے، اور جو مولانا احمد رضا خان اور ان کے پیروکاروں کے لیے بہت اہم اور حساس ہے، کش مکش کو جنم دیا۔لیکن جیسا کہ میں نے اس کتاب کے تعارف میں ذکر کیا ہے، یہ امر خصوصاً محل نظر ہے کہ دیوبندی بریلوی مخاصمت کو عوامی صوفی ازم کے حامیوں (بریلوی) اور فقہی قدامت پسندی کے علم برداروں (دیوبندی) کے درمیان جنگ سے تعبیر کیا جائے۔

دیوبندی اور بریلوی دونوں فقہ حنفی اور تصوف سے گہرا ربط وضبط رکھتے ہیں۔ ان کا باہمی اختلاف اس سوال پر تھا کہ استعماری صورت حال کے زیر اثر ایک سنی حنفی مسلمان کے حقیقی معنی کیا ہیں۔ ان کے اختلاف کی بنیاد سنت نبوی کے متوازی تصورات تھے، نہ کہ مخالف فقہی مذاہب سے انتساب۔ مسالک اور فقہی مذاہب کے درمیان فرق کے لیے یہ بے حد اہم ہے کہ دیوبندی بریلوی تنازع کی تہہ میں کار فرما علمیاتی قربت وتعلق کو تسلیم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں گروہ اپنے عمومی خیالات اور اپنے ان پیروکاروں کے اعتبار سے، جن کی تائید وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک دوسرے کے بہت مشابہ ہیں  جس کی وجہ سے ان کے مناظرے عموماً بہت طنز آمیز اور ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

دیوبندی بریلوی مناظرے انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوئے، جب شاہ محمد اسماعیل کی وفات پر چند دہائیاں گزر چکی تھیں۔ تاہم شاہ اسماعیل کی شخصیت ان مناظروں کا مرکزی موضوع تھی۔ دیوبند کے پیش روؤں نے خم ٹھونک کر ان کے خیالات کا دفاع کیا، اور انھیں ایک مثالی مذہبی مصلح کی روپ میں پیش کیا۔ مثلاً ایک مقام پر تقویۃ الایمان کی متنازعہ عبارات پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا رشید احمد گنگوہی نے واضح کیا: "تقویۃ الایمان ایک حیران کن کتاب ہے جو قرآن وحدیث کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس کے مصنف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ جو کوئی انھیں کافر یا گمراہ کہتا ہے، وہ خود شیطان ہے، اور اس پر خدا کی طرف سے لعنت ہے"22۔

تعبیری منہج کے اعتبار سے شاہ اسماعیل کی اصلاحی فکر دیوبند کے پیش روؤں سے زیادہ غیر مقلدین کی فکر کے مماثل ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے عوام سے مطالبہ کیا تھا کہ قرآن وحدیث جیسے دین کے مصادر سے استفادہ کے لیے انھیں علما پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر چہ شاہ اسماعیل فقہ حنفی میں خوب ماہر تھے، لیکن انھوں نے حنفی مذہب کو اپنی شناخت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ بلکہ جیسا کہ میں نے دوسری باب میں بیان کیا، متعدد متنازع مسائل جیسے رفع الیدین میں شاہ اسماعیل اپنے خاندان کے حنفی علما کی روش سے ہٹ گئے تھے، اور اس کی وجہ سے ان میں کافی بے چینی بھی پیدا ہوئی تھی۔ اس لیے بظاہر یہ عجیب معلوم ہوتا ہے کہ دیوبند کے پیش روؤں نے، جو کٹڑ حنفی تھے اور اہل حدیث مکتب فکر کے شدید مخالف تھے، شاہ اسماعیل کو اس قدر جذباتی انداز میں قبول کیا اور ان کا دفاع کیا۔ لیکن چند عوامل ایسے ہیں جو اس ظاہری تضاد کی وضاحت کر سکتے ہیں۔

پہلا یہ کہ انیسویں صدی کے اواخر کے اہل حدیث علما کے برعکس شاہ اسماعیل نے کسی فقہی مذہب کی تقلید سے انکار نہیں کیا، نہ ہی ماضی کے معتبر حنفی علما کی تنقیص کی۔ شاہ اسماعیل کی فکر میں کسی فقہی مذہب کی تقلید کے سوال پر کوئی قابل ذکر علمی رائے موجود ہی نہیں، جو دیوبندی علما کی حنفی حساسیتوں کو ان کے خلاف ابھار سکتی۔

دوسرا یہ کہ شاہ اسماعیل کی شخصیت میں دیوبند کے پیش روؤں کو اپنے اصلاحی ایجنڈے کے لیے ایک بہترین ترجمان مل گیا۔ شاہ اسماعیل کا سارا زور توحید کے احیا پر تھا اور روز مرہ کے عملی احکام میں بدعت کی حدود پر ان کے خیالات دیوبندی فکر سے بہت زیادہ مماثل تھے۔ اس لیے تعبیری ذوق میں اختلافات کے باوجود اس فکری قربت نے شاہ اسماعیل اور دیوبندی پیش روؤں کے درمیان ایک مضبوط اتحاد کو ممکن بنایا۔

دیوبندی جس قدر شاہ اسماعیل کے علمی اور سیاسی کارناموں کے دل دادہ تھے، مولانا احمد رضا خان اور ان کے بریلوی پیروکار ان سے اتنے ہی نالاں تھے۔ مولانا احمد رضا خان کے لیے شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی مداح ایک ہی علمی شجرے کا حصہ تھے، جس نے توحید کے احیا کی ایک گمراہ کن جستجو میں حضور ﷺ کے مقام ومرتبے کو گھٹایا۔ فضل حق خیر آبادی کی طرح مولانا احمد رضا خان نے شاہ اسماعیل اور اکابر دیوبند کی فکر پر تابڑ توڑ حملے کیے، اور انھیں برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک شدید خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے انیسویں صدی کے اواخر کے ہندوستان میں بریلوی دیوبندی مناظرے کئی حوالوں سے اس کش مکش کی علمی طور پر نسبتاً زیادہ منقح اور گروہی  ارتکاز کے ساتھ سامنے آنے مجادلاتی  سلسلے ہیں جو شاہ اسماعیل اور خیر آبادی کے درمیان کئی دہائیاں پہلے فکری معرکہ آرائی کی صورت میں ظاہر ہوئے۔

ان تنازعات میں ایک بنیادی دینی سوال، جو سنی مسلم مفکرین کی فکر پر حاوی تھا، یہ تھا: نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کی سنت میں نئے اضافے کی حدود کیا ہیں؟َ بالفاظِ دیگر عبادات اور رسمی اعمال کے دائرے میں اضافہ کب بدعت بن جاتا ہے، یا دوسرے الفاظ میں، اسلام میں کسی عمل پر بدعت کے اطلاق کے لیے بنیادی ضابطہ کیا ہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جن پر آئندہ باب میں بحث ہوگی۔



حواشی

  1.   اشرف علی تھانوی، ارواح ثلاثہ (کراچی: دار الاشاعت، 2001)، 209 – 10۔
  2.  وہابی کی اصطلاح کو استعماری جنوبی ایشیا میں مسلم انتہا پسندی کی علامت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے دیکھیے: الیس مارگنسٹائن فوئرسٹ، Indian Muslim Minorities and the 1857 Rebellion: Religions, Rebels and Jihad (لندن: آئی بی ٹورس، 2017)۔ اگر چہ فوئرسٹ کا سارا زور اس اصطلاح کے اس نامبارک مفہوم پر ہے، جو برطانوی مستشرقین کی کاوشوں سے رائج ہوا ہے، تاہم یہ بات دل چسپ ہے کہ ایک "سیاہ فام  بیرونی مسلمان عالم" نے اس مخصوص واقعے میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں "وہابی" اصطلاح کسی کو گمراہ قرار دینے کے لیے ایک علامت کے طور پر ہندوستان سے باہر بھی مستعمل تھی۔
  3.  یہ معلوم نہیں کہ سیاہ فام عالم کس زبان میں مقامی اہل علم سے بات کرتا تھا، تاہم اندازے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فصیح عربی ہوگی، کیونکہ یہ اس وقت بھی اور اب بھی مسلمان اہل علم اشرافیہ کے درمیان رابطے کی زبان ہے۔
  4.   اَیضاً۔
  5.  استعماری جنوبی ایشیا میں بین المسالک تنازعات کے مرکز کے طور پر مسجد کے کردار کے لیے ملاحظہ کیجیے: ثنا ہارون کا آنے والا مضمون، The Fragmentation of South Asian Mosque Practice under the Colonial State، یہ ایک غیر مطبوعہ مضمون ہے، جو مصنفہ کی ملکیت میں ہے۔
  6.  برطانوی استعمار کے خلاف مسلمانوں کے علمی ردعمل کے پیچ در پیچ سلسلے اور اس دور میں مسلمانوں کی ابھرنے والی اصلاحی، احیائی اور جدید تحریکات کے شاید سب سے عمدہ اور فیصلہ کن تجزیے کے لیے دیکھیے، محمد قاسم زمان کی حال میں چھپنے والی شان دار کتاب: Islam in Pakistan: A History (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2018)، 14-53۔
  7.   مدونین ایرک ہوبزباون اور ٹیرینس رینجر، The Invention of Tradition (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1992) 165 میں برنارڈ کوہن کے مضمون Representing Authority in Victorian India میں منقول ہے۔
  8.  ڈیوڈ گلمارٹن، Democracy, Nationalism, and the Public: A Speculation on Colonial Muslim Politics، ساتھ ایشیا 14، نمبر 1 (1991): 123-40۔
  9.  ایضاً۔
  10.  جولیا سٹیفنز، The Politics of Muslim Rage: Secular Law and Religious Sentiment in Late Colonial India، ہسٹری ورک شاپ جرنل 77 (2014): 45-64۔
  11.  جنوبی ایشیا میں ایک منقح اور مسابقتی تصور کی حیثیت سے مذہب کی استعماری تشکیلِ نو کی ایک متاثر کن تحقیق کے لیے ملاحظہ کیجیے ٹینا پوروہٹ کی شان دار کتاب: The Aga Khan Case: Religion and Identity in Colonial India (کیمبرج، ایم اے: ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 2012)۔
  12.  اروند منڈیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)۔
  13.  استعماری جنوبی ایشیا میں بین المسالک اور بین المذاہب مناظروں کے متنوع اور مماثل سلسلوں کے نسبتاً تفصیلی تجزیے کے لیے دیکھیے مجموعۂ مقالات، مدون کینِتھ جونز، Religious Controversy in British India: Dialogues in South Asian Languages  (البانی: سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک پریس، 1992)۔ مسلم مسیحی مناظروں کے تجزیے کے لیے دیکھیے: اروِل پاول، Muslims and Missionary in Pre-Mutiny India (رکمنڈ، سری: کرزن پریس، 1993)۔
  14.  اپنے فکر انگیز تحقیقی مقالے میں ایس اکبر زیدی نے ایک مفید تنبیہ کی ہے کہ ان مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ صرف بڑے اصلاحی گروہوں کے نامور علما اور قائدین تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس میں انیسویں صدی کے اواخر کے شمالی ہندوستان کے "اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں" (17) نسبتاً کم معروف اردو لکھاری اور صحافی بھی شامل تھے۔ زیدی نے بجا طور پر واضح کیا ہے کہ اس دور میں ان مناظروں کی شدت اور کثرت دونوں ایک متحدہ ہندوستانی مسلمان قومیت کی موجودگی کے تصور کے خلاف جاتی ہے۔
  15.  تحریک پاکستان میں علماے دیوبند کے کردار کے لیے دیکھیے: وینکٹ دھولیپالا، Creating a New Medina: State Power, Islam, and the Quest for Pakistan in Late Colonial North India (نیو دلی: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2015)۔ حسین احمد مدنی کی مخالفت کے لیے دیکھیے: باربرا مٹکاف، Husain Ahmad Madani: The Jihad for Islam and India’s Freedom (لندن: ون ورلڈ پریس، 2008)۔ بیسویں صدی کے اواخر میں دیوبند کی سیاسی فکر میں پیش رفت کے لیے دیکھیے: محمد قاسم زمان، The Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change (پرنسٹن این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2002)، 87 – 111، اور After September 11: 2001 Essays Archive، سوشل سائنس ریسرچ جرنل، 2001 میں بابرہ مٹکاف، ‘Traditionalist’ Islamic Activism: Deoband, Tablighis, and the Talibs۔
    http://essays.ssrc.org/sept11/essays/metcalf.htm.
  16.  دیکھیے: محمد قاسم زمان، Modern Islamic Thought in a Radical Age: Religious Authority and Internal Criticism (نیو یارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)، اور شیر علی ترین، Revolutionary Hermeneutics: Translating Qur’an as a Manifesto for Revolution، جرنل آف ریلیجئس اینڈ پولیٹیکل پریکٹس 3، نمبر 1-2 (2017): 1-24۔
  17.  یہاں یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نانوتوی اور خان ایک دوسرے کے خلاف براہ راست محاذ آرا نہیں ہوئے۔ تاہم بعد میں دیوبندی فکر پر خان کے حملوں کا محور نانوتوی کے نظریات تھے بالخصوص ان کی کتاب تحذیر الناس میں امکان نظیر کے حوالے سے ان کا موقف۔
  18. لوئس ڈیومنٹ، Religion, Politics, and History in India: Collected Papers in Indian Sociology (دا ہیگ: موٹن، 1971)، 118، بحوالہ گیانندرہ پانڈے، The Construction of Communalism in Colonial North India (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1990)، 4۔
  19.  بحوالہ محمد اقبال قریشی، بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2000)، 27۔
  20.  اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، جلد 3 (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، تاریخ اشاعت ندارد)، 235 – 37۔
  21.  احمد رضا خان، الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ (لاہور: نذیر سنز، 2000)، 289۔ میرے پیش نظر اس کتاب کی لاہور اور کراچی کی دونوں اشاعتیں ہیں، اور حوالے کے وقت متعلقہ اشاعت کے حوالے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
  22.  رشید احمد گنگوہی، فتاوی رشیدیہ (کراچی: محمد: کارخانۂ اسلامی کتب، 1987)، 423۔


آراء و افکار

(نومبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter