(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Modernity کا نواں باب)
نواں باب: مذہبی اصلاح کے دیوبندی تصور پر بریلوی علماء کی تنقید
جنوری 1906 میں جب مولانا احمد رضا خان اپنے دوسرے حج کے سفر پر تھے، انھوں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تیس نامور فقہا کی خدمت میں اپنا ایک فتوی پیش کیا۔ اس فتوے میں خان صاحب نے چند نامور ہندوستانی علما کی تکفیر کی تھی۔ خان صاحب نے علماے حرمین سے تقاضا کیا کہ وہ ان کے فتواے تکفیر کی تائید کریں1۔ وہ ایک اشتعال انگیز مخبر کا کردار ادا کرتے ہوئے حرمین کے علما کو 'گمراہوں' اور 'کافروں' کی نئی قسموں کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے جو اس وقت ہندوستان میں افزائش پا رہے تھے۔ اپنے عرب مخاطبین سے ہم کلام ہوتے ہوئے خان صاحب نے لکھا: "مجھے واضح انداز میں بتائیں کیا آپ ان ائمۂ ضلال کے بارے میں میرے موقف سے اتفاق کرتے ہیں؟ کیا آپ میرے فتواے تکفیر سے متفق ہیں؟ یا ہم انھیں صرف اس بنا پر کافر نہ کہیں کہ نام نہاد علما اور مولوی ہیں، اگر چہ وہ وہابی ہیں، اور خدا اور رسول کی توہین کرتے ہیں؟ کیا ہمیں عوام کو ان لوگوں سے نہیں بچانا چاہیے جو ضروریات دین سے انکار کرتے ہیں، اور جو علی الاعلان اپنے گستاخانہ افکار کی نشر واشاعت کرتے ہیں؟2"
احمدی تحریک کے بانی مرزا غلام احمد کے ساتھ ساتھ ان 'ائمۂ ضلال' (مولانا احمد رضا خان کے الفاظ میں) میں اکابر دیوبند بشمول مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے براہ راست جانشین مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا اشرف علی تھانوی شامل تھے۔ یہ فتوی جو عربی زبان میں لکھا گیا تھا، بعد میں 'حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین' کے عنوان کے تحت کتابی صورت میں چھپا3۔ مولانا احمد رضا خان حرمین میں اپنے معاصر علما کی تائید حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ ان کی رائے میں یہ تائیدات سنی اسلام کے مرکز سے تعلق رکھنے والے علما کی ہیں، اور ان کی وجہ سے ان کے دیوبندی مخالفین کو شکست فاش ہوگئی۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دیوبندی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ یہ مسلم جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔
ہندوستانی علما کے درمیان جارحانہ مناظروں اور مباحثوں کا میدان کارزار گرم ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ تاہم اپنے معاصر نامور حنفی علما کو کافر قرار دینے سے خان صاحب نے ایک نئی مثال قائم کی۔ دیوبندی علما پر خان صاحب کی طرف سے کفر کا فتوی ان دو مکاتبِ فکر کے اکابرین کے درمیان دو دہائیوں پر محیط مناظرانہ سرگرمیوں کا نقطۂ عروج تھا۔ اس جلتی پر تیل چھڑکنے میں ایک ایسے نئے استعماری عوامی فضا نے بھی کردار ادا کیا جس میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث تحریری مواد کی نشر واشاعت پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گئی۔
دیوبندی اور بریلوی علما دونوں ایک دوسرے کے خلاف کاٹ دار تنقیدوں اور جوابی تنقیدوں کے گھونسے رسید کرتے تھے۔ اس اختلاف کی معیاری مثالوں میں 'انوارِ ساطعہ در بیانِ مولود وفاتحہ' اور 'براہینِ قاطعہ علی ظلام الانوار الساطعہ' کے عناوین سے یہ دو کتابیں بہت اہم ہیں4۔ مولانا عبد السمیع نے انوار ساطعہ 1885 میں لکھی (1890 میں یہ دوسری بار چھپی)۔ انھوں نے یہ کتاب شمالی ہندوستان میں رائج میلاد اور فاتحہ کی رسم کی تردید میں لکھے جانے والے دو مختصر فتووں کے جواب میں لکھی۔ مطبع ہاشمی سے 1885 کے اوائل میں چھپے ان فتووں کے دست خط کنندگان میں مولانا رشید احمد گنگوہی سرفہرست تھے۔ 'انوار ساطعہ' میں مولانا عبد السمیع نے عقیدے اور رسمی اعمال کے متعدد مسائل کے حوالے سے دیوبندی آرا پر زبردست تنقید کی۔ اس تنقید میں ان کی توجہ زیادہ تر علمِ نبوی، عید میلاد النبی اور مردوں کے لیے ایصال ثواب جیسے مسائل پر مرکوز رہی، اس لیے تکنیکی طور پر انھیں 'بریلوی عالم' کہنا درست نہیں ہوگا۔ تاہم عقیدے اور رسوم کے بنیادی متنازع مسائل، جو دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان تقسیم کا سبب بنے، تقریباً وہی تھے جن پر مولانا احمد رضا خان نے بھی علماے دیوبند سے اختلاف کیا تھا۔
مولانا عبد السمیع ہندوستان کے شہر رام پور (اسی وجہ سے وہ عبد السمیع رام پوری کے نام سے بھی معروف ہے) کے ایک معروف سنی حنفی عالم تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مولانا رحمت اللہ کیرانوی (م 1891) سے حاصل کی جو انیسویں صدی کے ایک ممتاز عالم اور تقابل ادیان کے مشہور مناظر تھے۔ یہ مدرسہ مولانا کیرانوی نے اپنے علاقے کیرانہ میں قائم کیا تھا5۔ 1847 میں مولانا عبد السمیع دہلی وارد ہوئے جہاں انھوں نے نامور علما اور شعرا بشمول مفتی صدر الدین الدین آزردہ (م 1854) اور اردو کے معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب (م 1869) کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ ان کا شاعرانہ تخلُّص بے دل تھا، اور اسی وجہ وہ عوام میں عبد السمیع بے دل سے بھی جانے جاتے تھے۔ کچھ عرصہ غزل اور اردو شاعری کی دیگر اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے بعد وہ پوری یکسوئی کے ساتھ دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری بیالیس سال میرٹ کے لال کرتی بازار میں گزارے جہاں وہ ایک معروف امیر شخصیت شیخ الہی بخش (م 1883) کے بنگلے سے ملحق ایک جامع مسجد کے پاس رہائش پذیر رہے۔ شیخ الہی بخش کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انھوں نے مولانا بے دل کو اپنے بھتیجوں کا اتالیق مقرر کیا۔ ان کی وفات کے بعد انھیں شیخ صاحب کے بھتیجوں میں سب سے زیادہ معروف شخصیت خان بہادر (تاریخ وفات معلوم نہیں ہوئی) کے خاندانی مقبرے میں دفن کیا گیا۔ دلچسپ یہ کہ دیوبند کے اکابر علما بشمول دیوبندی مکتب کے بانیوں کے، جن میں مولانا قاسم نانوتوی، اکابر دیوبند کے صوفی شیخ حاجی امداد اللہ اور حدیث کے نامور عالم مولانا خلیل احمد سہارن پوری (م 1880) شامل ہیں، ان کے ابتدائی اساتذہ میں سے تھے۔ بلکہ وہ حاجی امداد اللہ کے ان خاص مریدوں میں تھے جو حاجی صاحب کے مجاز بیعت بھی تھے6۔ مولانا بے دل کے علمی شجرے پر اہم دیوبندی علما کے اثرات کے باوجود وہ دیوبندی مسلک کے ایک شدید اور بے لچک ناقد کی حیثیت سے سامنے آئے7۔
دیوبندی علما میں سے مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے، جو مولانا رشید احمد گنگوہی کے جلیل القدر شاگردوں میں تھے، مولانا عبد السمیع کی 'انوار ساطعہ' کا ایک دندان شکن جواب تحریر کیا۔ مولانا سہارن پوری کئی سال تک دیوبند کی سرپرستی میں قائم شمالی ہندوستان کے شہر سہارنپور کے مدرسے مظاہر العلوم کے مہتمم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دیوبندی مکتب فکر اور تبلیغی جماعت کے درمیان ایک بنیادی رابطے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اصلاً علوم حدیث کے ماہر تھے۔ ان کی مشہور ترین کتابوں میں 'بذل المجہود فی سنن ابی داؤد' ہے جو امام ابوداؤد کی مرتب کردہ 'السُنَن' کی ایک تفصیلی شرح ہے۔
نامور محدث ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا سہارن پوری نے بریلوی دیوبندی کش مکش میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1887 میں اپنے شیخ مولانا گنگوہی کے حکم پر مولانا سہارن پوری نے مولوی عبد السمیع کی 'انوار ساطعہ' کی نکتہ بہ نکتہ تردید لکھی جسے انھوں نے بجا طور پر 'براہین قاطعہ لظلام الانوار الساطعۃ' کا عنوان دیا۔ یہ کتاب پہلی بار 276 صفحات میں سادھورا (آج کے ہریانہ) میں بلالی سٹیم پریس سے چھپی8۔ آج کل بہت سی طباعتوں میں یہ دونوں کتابیں ایک ساتھ چھپی ہوتی ہیں، جس میں اوپر 'انوار ساطعہ' کا اور نیچے 'براہینِ قاطعہ' کا متن دیا گیا ہوتا ہے، جس میں مؤخر الذکر کتاب اول الذکر کتاب کے مضامین کی مسلسل تردید پر مشتمل ہوتی ہے۔ مولانا عبد السمیع اور مولانا سہارن پوری فارسی اور عربی زبان میں مرتب کردہ فقہی روایت (بالخصوص حنفی فقہی روایت) کی متقابل اور عموماً دقیق اور پیچیدہ تفہیمات سامنے لاکر اور اس کش مکش سے ایک دوسرے کو غیر معتبر ٹھہرا کر شریعت کی حدود کو کنٹرول کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔
مولانا احمد رضا خان بھی مناظروں کی اس ترقی پذیر صنعت میں بھرپور طریقے سے اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ مزید برآں وہ دوسروں کو تحقیر آمیز القابات دینے میں کسی سے پیچھے نہ تھے، بلکہ مولانا احمد رضا نے علماے دیوبند اور شاہ محمد اسماعیل کے خلاف اپنی مناظرانہ کتابوں کے لیے جو عنوانات چنے ہیں، ان سے ان کی نفرت کا کچھ اندازا ہوتا ہے: مسلمانوں کی قبروں کی توہین پر وہابیوں کی سرکوبی (اہلاک الوہابیین علی توہین قبور المسلمین)، وہابیوں کے باپ کی کفریات کے بارے میں ایک چمکتا ستارہ (الکوکبۃ الوہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ)، نجدی پیشواؤں کی کفریات پر لٹکتی ہندوستانی تلواریں (سل السیوف الہندیۃ علی کفریات بابا النجدیۃ)، کافروں کے کفر پر قہار کے تیروں کی برسات (رماح القہار علی کفر الکفار)9۔
جیسا کہ ان عنوانات اور محولہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے، مولانا احمد رضا خان نے یہ حکمت عملی اس لیے اختیار کی کہ اپنے دیوبندی مخالفین کو 'ہندوستانی وہابی' قرار دے کر بد نام کریں۔ خان صاحب نے بتایا کہ علمائے دیوبند اگر چہ بظاہر حنفی مسلک سے منسوب ہیں، لیکن درحقیقت وہ بعینہ اٹھارویں صدی کے عرب مصلح محمد بن عبد الوہاب کی طرح ان شرعی اعمال وعقائد کو نشانہ بنا رہے ہیں جو حنفی مسلک میں مسلمہ ہیں۔
مزید برآں علماے دیوبند ہندوستان میں غیر مقلد اہل حدیث مکتب فکر کے شدید مخالف تھے، جو اپنی فکر کے اعتبار سے وہابیوں کے سب سے زیادہ قریب تھے، بلکہ دیوبندی بریلویوں سے کہیں زیادہ غیر مقلدین کے ساتھ مخالفت اور دشمنی رکھتے ہیں۔
دیوبندی فکر کے مطابق بریلوی اگر چہ بدعات ورسومات کا ذوق رکھتے ہیں، اور حضور ﷺ کو خدا کے درجے پر فائز رکھنے کا رجحان رکھتے ہیں، تاہم پھر بھی ان کا تعلق حنفی مسلک کی علمی روایت سے ہے۔ کم از کم وہ ان مصادر اور شخصیات کو حجت تسلیم کرتے ہیں جنھیں دیوبندی بھی مانتے ہیں۔ لیکن اہل حدیثوں کا مسلک اس سے مختلف ہے۔ وہ تو سنی فقہ کے چاروں مسالک کی تقلید سے انکار کرتے ہیں، اور اس بنیادی منہج کو مسترد کرتے ہیں جسے بریلوی اور دیوبندی دونوں مانتے ہیں۔
مولانا تھانوی دیوبندی نقطۂ نظر سے بریلویوں اور اہل حدیث میں فرق کا خلاصہ چند واضح موازنوں کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "بریلوی اپنے ہی گھر کے افراد ہیں، جو گمراہ ہو گئے۔ جب کہ اس کے بالمقابل اہل حدیث اور غیر مقلدین اس گھر کے افراد ہیں ہی نہیں۔ بریلوی بے دین لیکن باادب ہیں۔ اس کے برعکس اہل حدیث بادین لیکن بے ادب ہیں"10۔
جدید جنوبی ایشیا کی مذہبی تحریکوں کے وسیع تر تناظر کو واضح کرنے کے لیے مولانا تھانوی اپنا قیاس جاری رکھتے ہوئے ہندوستانی حنفیوں اور غیرمقلدین کے درمیان ٹکراو کو ہندوستان میں آریا سماج اور سناتن دھرمیوں کے درمیان اختلاف سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بظاہر آریا موحد نظر آتے ہیں، جب کہ سناتن دھرمی غیر موحد۔ تاہم مولانا تھانوی دعوی کرتے ہیں کہ زیادہ چھان بین سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سناتن دھرمیوں نے ہندو مذہب کے مسلمات کی تقدیس میں آریا سماج سے زیادہ احترام کا اظہار کیا ہے۔ وہ آگے بتاتے ہیں: "بلکہ آریا کا دعواے توحید بھی محل نظر ہے۔ وہ تین چیزوں -مادہ، روح اور پرمیشور- کو قدیم بالذات مانتے ہیں۔ اس میں توحید کہاں سے آگئی؟11"
بہرصورت مولانا احمد رضا خان نے اپنے دیوبندی مخالفین پر 'وہابیت' کا لیبل چسپاں کرنے پر اصرار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے اوائل میں، ہندوستان اور عالم عرب دونوں میں یہ اصطلاح بڑی خوف ناک سمجھی جاتی تھی۔ اٹھارویں صدی کے اواخر کے حجاز میں علمائے احناف اور ان کے غیر مقلد حریفوں کے درمیان نظریاتی جنگیں زوروں پر تھیں12۔ ان جنگوں نے خان صاحب کو ایک سنہرا موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے مسلکی ایجنڈے کو کافی واضح انداز میں استناد فراہم کریں۔ دراصل یہی وہ وقت تھا جب مخصوص ادارتی، سیاسی اور مادی حالات نے مل کر مولانا احمد رضا کو سامنے کے محاذ پر آنے اور 'حسام الحرمین' میں علماے دیوبند کی تکفیر کا موقع فراہم کیا۔ 1933ء میں سعودی بادشاہت کے قیام کے بعد خان کی دینی تفہیم اور اختلاف کی تائید میں کوئی فتوی سامنے نہیں آیا۔
مولانا احمد رضا خان نے اکابر دیوبند پر کفر کا فتوی کیوں صادر کیا؟ ان کے نزدیک اس عداوت کی بنیاد کیا تھی؟ علماے دیوبند نے خان صاحب کے تکفیری الزامات کے مقابلے میں اپنا دفاع کس طرح کیا؟ اور سب سے بنیادی بات یہ کہ وہ کون سے اساسی علمی اختلافات ہیں جن کی وجہ سے روایت اور اس کی حدود کے بارے میں دیوبندی اور بریلوی مسالک میں علیحدگی ہوئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں میں زیر نظر اور آئندہ ابواب میں زیر بحث لاؤں گا۔ میں دو بنیادی مقاصد پر اپنی توجہ مرکوز کرکے ان سوالات کو موضوعِ بحث بناؤں گا: (1) ان بنیادی طریقہ ہائے استدلال وضاحت جن سے خان صاحب نے دیوبندی مخالفین کے مقابلے میں اپنے تصورِ بدعت کو پیش کیا، اور (2) علم، حاکمیتِ اعلیٰ اور نبوی تصرفات پر ان کے مقابل آرا کی پیش کش۔
میں گیارھویں باب میں حضور ﷺ کے علم غیب کے مسئلے کا، جو اکابر دیوبند کے خلاف خان صاحب کے فتواے تکفیر کا براہ راست سبب ہے، ایک گہرا جائزہ لینے کے ساتھ اس دوسرے ہدف کی تکمیل کروں گا۔ چلیے، مولانا احمد رضا خان اور ان کی علمی شخصیت کے ایک مختصر تعارف سے آغاز کرتے ہیں۔
مولانا احمد رضا خان: عہد جدید میں روایت کے زبردست مُدافع
شمالی ہندوستان کے شہر بریلی میں 1856ء میں، برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی سے ایک سال پہلے، پیدا ہونے والے مولانا احمد رضا خان اپنے عہد کے ایک کثیر التصانیف، کرشماتی اور متنازع علما میں سے تھے۔ ایک متصلب حنفی فقیہ ہونے کے ساتھ وہ سلسلۂ قادریہ کے ایک صوفی شیخ کی تمام اسناد سے بہرہ ور تھے۔ خان صاحب جنوبی ایشیا میں بریلوی مسلک کے بانی مبانی تھے۔ ان کے پیروکار انھیں جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کے ایک مجدد کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کا تعلق سترھویں اور اٹھارویں صدی میں شمالی ہندوستان (روہیل کھنڈ کے خطے میں) کی طرف ہجرت کرنے والے ایک افغان خاندان سے تھا۔ ان کے براہ راست آبا واجداد مغلیہ سلطنت کی افسر شاہی میں سپاہیوں یا منتظم سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے13۔
دراصل خان صاحب کے جد امجد حافظ کاظم علی خان اودھ لکھنو کے نواب بھی رہے، اگر چہ ان کے خاندان کے بیش تر افراد کا تعلق مقامی جاگیردار اشرافیہ سے تھا، جنھیں ان کی فوجی خدمات کے عوض میں مغلیہ سلطنت نے جاگیریں دی تھی14۔ انیسویں صدی کے وسط میں ان کے دادا رضا علی خان (م 1866) نے فوجی خدمات فراہم کرنے کی خاندانی روایت ختم کی، اور وہ ایک مفتی اور قادری سلسلے کے صوفی بن گئے۔ انیسویں صدی کے دوران میں مسلمان جاگیر دار اشرافیہ کی طاقت کے تدریجی خاتمے نے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی مسلمان فوجیوں کی بے روزگاری نے اس تغیر کے لیے راہ ہموار کی۔
علم فقہ میں کمال اور علوم حدیث میں مہارتِ تامہ کے ساتھ ساتھ مولانا احمد رضا خان منطق، فلسفہ، لسانیات اور فصاحت وبلاغت جیسے مضامین میں بھی خاصی دست گاہ رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو میں قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر بھی مرتب کیا۔ خان صاحب نے فتاوی کی تربیت درس نظامی کی تعلیم کے دوران ہی اپنے والد مولانا نقی علی خان (م 1880) سے حاصل کی جو خود بھی ایک طبقۂ علما میں ایک نامور عالم کی حیثیت سے مشہور تھے۔ مولانا نقی علی خان بھی شاہ محمد اسماعیل کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ وہ ان کئی علما میں سے تھے جنھوں نے شاہ اسماعیل کی وفات کے بعد تقویۃ الایمان کی تردید میں کتابیں لکھیں15۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سے شہ پاکر اور ان کے زیر اثر شاہ اسماعیل اور وہابی فکر سے مولانا احمد رضا خان کی دشمنی میں شدت آئی۔
خان صاحب نے درس نظامی کی تعلیم 13 سال کی قلیل عمر میں مکمل کی۔ اس کے بعد وہ مدرسہ مصباح العلوم میں، جنھیں ان کے والد نے 1872ء میں بریلی میں قائم کیا تھا، منصب افتاء پر متمکن ہو گئے16۔ اپنے گہرے فقہی فتاوی کی وجہ سے بہت وہ بہت جلد معروف ومقبول ہوئے۔ 1880ء تک انھوں نے خود کو ہندوستان کے ایک نامور فقیہ اور مفتی کی حیثیت سے تسلیم کرا لیا تھا۔ ہر روز ان کی میز پر ہندوستان بھر سے بلکہ حجاز، چین، وسطی ایشیا، افریقہ اور حتی کہ امریکا سے پانچ سو سے زیادہ سوالات موصول ہوتے تھے17۔ خان صاحب اپنے مدرسے منظر اسلام میں، جسے انھوں نے 1904 میں قائم کیا تھا، مسلسل فتاویٰ لکھنے کی مشق کرتے رہے۔
اپنے والد کے علاوہ مولانا احمد رضاخان کی علمی زندگی پر اثر انداز ہونے والے دوسرے فرد ان کے پیر ومرشد شاہ علی رسول (م 1879) تھے، جو شمالی ہندوستان کے شہر مارہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک کرشماتی بزرگ تھے۔ علی رسول صوفی مشائخ کے ایک انتہائی قابل احترام خاندان برکاتیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سادات کا خاندان تھا۔ 1878 میں پہلے حج پر جانے سے پہلے مولانا احمدرضا خان علی رسول کے مرید بن گئے، اور اس کے ایک سال بعد ہی علی رسول وفات پاگئے۔ لیکن نسبتاً تھوڑے عرصے کے لیے علی رسول کی ارادت میں رہنے کے باوجود انھوں نے تصوف اور نبوت پر مولانا احمد رضا خان کے نقطۂ نظر کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔
1878 اور 1905 میں حج کے لیے حجاز مقدس کے دو اسفار خان صاحب کی علمی زندگی کے تشکیلی ادوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اسفار کے دوران میں انھوں نے حجاز کے نامور علما سے قریبی تعلقات استوار کیے۔ ان میں سے کچھ ان کے اساتذہ بھی رہے۔ مثلاً مشہور شافعی عالم احمد زینی دحلان مکی (م 1886) کا خان صاحب کی شخصیت پر گہرا اثر ہوا۔ خان صاحب نے 1878 میں اپنے پہلے حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ خان صاحب کے والد کی طرح وہ بھی وہابی فکر کے پرجوش مخالفین میں سے تھے، اور محمد بن عبد الوہاب کی فکر کی تردید میں انھوں نے کئی رسالے لکھے تھے18۔ جیسا کہ میں اس باب میں بتاؤں گا، خان صاحب نے شاہ محمد اسماعیل اور اکابر دیوبند پر تنقید کے لیے بار بار زینی دحلان کے افکار کا حوالہ دیا۔
عالم عرب میں خان صاحب کے ایک اور اہم مربی شیخ عبد الرحمان سراج مکی (م 1883) تھے، جو ایک معروف حنفی عالم اور انیسویں صدی کے اواخر میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مفتی اعظم تھے۔ شیخ دحلان کی طرح، جن سے ان کا قریبی تعلق تھا، شیخ سراج مکی بھی اس وہابیت مخالف مہم میں براہ راست شریک رہے جس میں اس دور میں حجاز کے متعدد حنفی علما سرگرم رہے۔ ان عرب علما سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے ان پر بھی اپنی علمی لیاقت کی دھاک بٹھا دی تھی۔
مثلاً نبی اکرم ﷺ کے علم غیب کے حوالے سے مکہ کے نامور حنفی عالم شیخ صالح کمال کی درخواست پر ہی خان صاحب نے اپنی معروف کتاب الدولة المکية بالمادة الغیبية سپرد قلم کی جس پر ہم آگے گیارھویں باب میں بحث کریں گے19۔ فروری 1906 میں وہابی علما کی طرف سے ایک جارحانہ پمفلٹ شائع ہوا، جس میں نبی اکرم ﷺ کے علم غیب کے حوالے سے حنفی علما کے سامنے پانچ سوالات رکھے گئے تھے، اور انھیں چیلنج دیا گیا تھا کہ ان کے جوابات دیں۔ شیخ کمال نے اس سلسلے میں مولانا احمد رضا خان سے تعاون طلب کیا۔ آپ نے ان کی درخواست قبول کی اور چند دنوں کے اندر الدولية المکية تحریر کی۔ علماے حجاز نے نبی اکرم ﷺ کے علم کے بارے میں وہابی آرا کی فیصلہ کن تردید کی حیثیت سے اس کتاب کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس کتاب کو اس وقت کے شریفِ مکہ علی پاشا بن عبد اللہ (م 1932) کی خدمت میں پیش کیا گیا اور اس کے دربار میں بآواز بلند پڑھا گیا۔ کتاب کے مضامین سن کر شریفِ مکہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "خدا (نبی ﷺ کو علم غیب کی نعمت) عطا کرتا ہے، اور یہ (وہابی) اسے منع کرتے ہیں (الله يُـعطِي وهم يـمنعون)20۔
خان صاحب کی تحریریں متعدداہم علوم اور مضامین کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان میں تفسیرِ قرآن، نقد رجال، فقہ، علم الکلام، فلسفہ اور منطق شامل ہیں۔ تقریباً آپ کی تمام تحریریں 2006 میں 32 جلدوں میں الفتاوی الرضویۃ کے نام سے ہندوستان کے شہر گجرات کے بریلوی پریس مرکز اہل سنت سے شائع ہوئیں۔ ان میں سے ہر جلد پانچ سو سے لے کر سات سو صفحات پر اور 10 سے 15 رسائل پر مشتمل ہے۔ اگر چہ خان صاحب بنیادی طور پر اردو میں لکھتے تھے، لیکن انھوں نے عربی اور فارسی میں بھی متعدد کتابیں لکھیں۔
عہد حاضر میں خان صاحب کے دینی استناد کو کیسے یاد اور تصور کیا جاتا ہے، اس کی عمدہ عکاسی فتاوی رضویہ کے ہر جلد کے سرورق پر موجود تصویری خاکے سے ہوتی ہے جسے 9.1 نمبر تصویر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصویر ایک جھلک فراہم کرتی ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت کی کرشماتی شخصیت پر استوار اپنی روایت کو خود کیسے تصور کرتے ہیں۔
تصویر 9.1: بریلوی مسلک کی بنیادیں۔ مولانا احمد رضا خان کے فتاویٰ کی 32 جلدیں کو مختلف مستند مصادر سے ماخوذ دکھایا گیا۔ یہ مصادر حدیث سے مستنبط ہیں، اور حدیث قرآن کریم پر انحصار کرتی ہے۔ تصویر کے اندر مختلف اندراجات میں نے اپنی طرف سے کی ہیں۔
پروفیسر ابراہیم موسیٰ نے روایت کے تصور کے بارے میں کیا عمدہ بات کہی ہے:
روایت بیک وقت ایک وضعی تصور اور عہد/میثاق ہے۔ روایت کے ساتھ علمی اور روحانی قربت رکھنے والوں سے تعامل کے لیے باریک قواعد وضوابط ہی وہ شے ہے، جسے میں 'وضعی تصور' کہتا ہوں۔ ماہرین بشریات اور سیاحوں کے برعکس وہ لوگ جو روایت کو اپنی شناخت بتاتے ہیں، فیلڈ ورک نہیں کرتے، نہ ہی وہ ماضی کے اندر سفر کرتے ہیں۔ روایت سے جڑے لوگ وجودیات (ontology) پر بحث کا دعوی کرتے ہیں، یعنی وجود (being) کی حیثیت/سرشت پر تحقیق۔ لیکن اس تحقیق سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ اس وجود (being) کے سلسلے سے کیسا تعلق رکھتے ہیں۔ میثاق یا معاہدہ 'کیسے' کو سادہ بناتا ہے: عقائد واعمال کی مخصوص شکلیں زندگی کی خاص صورتوں سے جڑنے کی علامات ہیں21۔
تصویر 9.1 روایت کے بارے میں پروفیسر موسی کے بیان کی وضاحت ہے۔ یہ تصویر ہمیں ان مصادر اور درجات کے بارے میں بتاتی ہے جنھوں نے ایک سنی حنفی عالم کی حیثیت سے مولانا احمد رضا خان کے دینی استناد کو ممکن بنایا۔ اس نظام میں یقیناً سب سے اونچا درجہ قرآن کا ہے (اور یہی وجہ ہے کہ تصویر میں قرآن کو سب سے اوپر رکھا گیا ہے، اور اس کے نیچے سنیوں کے ہاں مستند صحاحِ ستہ کی تصویر رکھی گئی ہے)۔ اس کے بعد ہمیں روایتی مصادر نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل اس تعبیری منہج کی نمائندگی کرتے ہیں جو مستند انداز میں عہد نبوی کو زمانۂ حال سے جوڑتے ہیں۔ یہ مختلف ادوار، علوم اور علاقوں میں لکھے جانے والے مستند مصادر ہیں جن میں امام غزالی کی الـمُستصفیٰ، علامہ تفتازانی کی شرح المقاصد، امام مرغینانی کی الهداية، شیخ جامی کی نفحات الانس اور فضل امام خیر آبادی کی المرقاۃ شامل ہیںَ۔ یہ سب مصادر مل کر 'مسلکِ اعلیٰ حضرت' (جسے تصویر میں اینٹوں کے اندر کندہ کیا گیا ہے) کی تشکیل کرتے ہیں۔
انھی مصادر سے 32 جلدوں پر مشتمل ان کے فتاویٰ ایک ایسے علم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے جو ماضی کو حال سے جوڑتا ہے، اور شریعت سے ثابت شدہ "وجودیاتی لوازم/اثاثوں (ontological belongings) کے سلسلے" کو استحکام بخشتا ہے۔ درحقیقت خان صاحب کی کسی بھی تحریر کے مطالعے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ روایت کی پرشکوہ عمارت میں محو سفر ہیں۔ مولانا احمد رضا خان تھوک کے حساب سے حوالہ جات پیش کرنے کے بے تاج بادشاہ تھے۔ تقریباً وہ اپنی ہر تحریر میں اپنے دعوی کو تقویت فراہم کرنے کے لیے مختلف زمان ومکان اور شعبہ ہاے علم میں لکھے گئے متعدد مآخذ ومصادر سے حوالہ جات کی بھرمار کر دیتے ہیں جس سے قارئین مبہوت ہو جاتے ہیں۔
خان صاحب کے تصور روایت کی بنیادی خاصیت تمام مخلوقات میں سب سے برتر ہستی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہے۔ خان صاحب کا نبی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے تقدس کی حفاظت کا جذبہ ایک بے لچک نظام مراتب (hierarchy) پر مبنی تصورِ جہاں سے ماخوذ تھا اور یہ نظام ایک وسیع تر سیاسی تصور سے گہرے انداز میں مربوط تھا بلکہ سماجی اور مذہبی نظام کا مراتبی (hierarchial) تصور خان صاحب کے نظریۂ روایت کے امتیازات میں سے ہے22۔ انبیا و اولیا کے توسل سے ہی خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو استحکام مل سکتا ہے۔ مزید برآں اخروی سرگرمی کے نظام میں ہر شخص کا اپنا ایک مرتبہ ہے۔ خان صاحب کے اعتقادی تصور نے ان کے سماجی تصور کو بھی متاثر کیا۔
سماجی دائرے میں خان صاحب نے سادات اور دیگر 'شریف اقوام' جیسے مغلوں، پٹھانوں، انصاریوں، صدیقیوں، فاروقیوں کو دیگر ہندوستانی مسلمانوں پر برتری اور فوقیت دی23۔ لیکن یہ واضح رہے کہ خان صاحب اشراف کو کسی بھی دینی فریضے سے مستثنی نہیں سمجھتے تھے، اور نہ ہی فقہ وقضا کے دائرے میں ان کے لیے کسی مخصوص رعایت کے قائل تھے24۔ تاہم خان صاحب کے نزدیک شریف لوگ اور نسبی شرافت کسی سماج کی تشکیل اور روزمرہ کی عادات واطوار کی حد بندی کے لیے اہم عناصر ہیں۔ مثلاً سلام دعا، عوامی مجالس میں اٹھک بیٹھک، بازار اور عوامی میل ملاپ کے دیگر مقامات کے آداب میں یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا جمالیاتی ذوق یا اخلاقی حس پروان چڑھایا جائے جو ایک ایسے معاشرتی تصور پر مبنی ہو، جس میں چند مخصوص حدود، اعزازات اور مراتب کو برقرار رکھا جاتا ہو۔
اس کے ساتھ خان صاحب نے بتایا کہ شرفا کی خواتین کے لیے خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ کسی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے نسبی برابری اور ہم آہنگی (کفاءت) کو یقینی بنائیں۔ مثلاً اپنی ایک کتاب إراءة الأدب لفاضل النسب میں، جو بطورِ خاص نسبی شرافت کی شرعی حیثیت کے موضوع پر ہے، خان صاحب نے واضح کیا: "ایک مغلانی یا پٹھانی لڑکی کے لیے، جو ابھی شادی کی عمر کو نہیں پہنچی، جائز نہیں کہ وہ ایک مسلمان جولاہے سے شادی کرے25"۔ یہاں کوئی شخص اس بات پر زور دے سکتا ہے کہ خان صاحب شریف النسب لوگوں میں بے دینی یا اخلاقی بے راہ روی کے بالکل روادار نہیں تھے۔ تاہم انھوں واضح کیا کہ نسبی شرافت نیک اعمال کی جگہ نہیں لے سکتی۔ مزید برآں وہ ان لوگوں کے شدید ناقد تھے جو اپنے نام ونسب یا قبائلی نسبت پر فخر کرتے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ ان لوگوں کا یہ رویہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے اسوۂ حسنہ سے مکمل جہالت کا غماز ہے۔
ایسے ہی کسی موقع پر خان صاحب سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ ان لوگوں کا کیا حکم ہے جو کسی کے خاندانی پیشے کی بنیاد پر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جو اس وقت شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں بہت عام تھا۔ سائل کچھ اس طرح پوچھتا ہے: "کیا فرماتے ہیں علما اس بارے میں کہ کسی شخص کی توہین کے واسطے اسے اس کے آبائی پیشے، جیسے جولاہا، کاشت کار، ماہی فروش، نور باف سے پکارا جائے، جس سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، اور اس کی دل شکنی ہو؟26" خان نے پوری قطعیت سے جواب دیا: "ان ناموں سے پکار کر کسی کی دل شکنی کرنا نہ صرف مسلمانوں کے حق میں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے ذمیوں کے حق میں بھی حرام ہے، اگر چہ ان ناموں کے مصداق بھی درست ہوں۔ کیوں کہ ہر درست بات سچ ہوتی ہے، لیکن ہر سچی بات درست نہیں ہوتی (فإن كل حق صدق وليس كل صدق حق)"27۔
ایک اور موقع پر ایک سائل نے خان صاحب سے پوچھا: "ہمارا امام حافظِ قرآن ہے، اور وہ پورے اہتمام سے پنج وقتہ نماز کی امامت کراتا ہے۔ تاہم وہ پیشے کے لحاظ سے قصائی ہے۔ کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟" خان نے جواب میں کہا: "ہاں جب تک وہ وہابی، دیوبندی یا کوئی ایسا شخص نہ ہو جو اس طرح کے فاسد عقائد کا حامل ہو، اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیںَ۔ قصائی ہونا کسی کو امامت کے لیے نااہل نہیں قرار دیتا۔ سلف صالحین میں متعدد حضرات اس پیشے سے وابستہ تھے"28۔
جیسا کہ ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے، خان صاحب کسی طرح بھی نسب کی بنیاد پر اخلاقی برتری کے قائل نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنے اس دعوے پر قائم تھے کہ تفاضلِ انساب سماجی رکھ رکھاو کے لیے ناگزیر ہے۔ انھوں نے بھرپور انداز میں اس جدید تصور کو رد کیا کہ سلسلہ ہائے نسب اور ان پر مبنی سماجی امتیازات غیر ضروری یا فضول ہیں۔ خان صاحب نے بتایا: "نسب کو مطلقاً محض بے قدر برباد جاننا مردود و باطل ہے"29۔ یہاں پر نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ خان صاحب کے نزدیک نبوی تصرف کی وسعت اور سماج میں عمومی انسانی تعلقات کے لیے مثالی اقدار کے درمیان کافی قربت ہے۔ اُخروی نجات اور سماجی دائرے دونوں میں طاقت کے ایک نظام مراتب (hierarchial) کا بندوبست ضروری ہے۔ مزید برآں ایک عظیم ترین کونی اور وجودی حقیقت کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کی تعظیم وتقدیس اس طرح کی مبنی بر مراتب سیاسی الہیات کے لیے حتمی قالب ہے۔ اور سیاست کا بعینہ یہی وہ پہلو ہے جو علماے دیوبند کے ساتھ خان صاحب کی مخاصمت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
شریعت میں تحریف: دیوبندی تصور بدعت کی تردید
مولانا احمد رضا خان نے رسمی اعمال کے حوالے سے علمائے دیوبند اور شاہ محمد اسماعیل کے تصور بدعت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسلام میں بدعت کے تصور پر ان کی سب سے زیادہ تفصیلی بحث ان کی کتاب إقامة القيامة على طاعن القيام لنبي تهامة میں ہے30۔ اس کتاب میں خان صاحب نے عید میلاد النبی کے موقع پر آنحضور ﷺ کے احترام میں قیام کی شرعی حیثیت پر بحث کی۔ خان صاحب نے اپنی نظر میں اپنے مخالفین کے مغالطہ آمیز تصورِ بدعت پر مفصل تنقید کی۔ آنے والی بحث میں، میں اس تنقید کے چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا۔
خان صاحب کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر تھی کہ ان کے مخالفین ایسی رسموں مثلاً عید میلاد النبی کو کیوں ناجائز قرار دے رہے ہیں، جو رسول اللہ ﷺ کی سنت وسیرت کو یاد کرنے اور منانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ خان صاحب نے ایک ایسے عوامی ماحول کو پروان چڑھانے کی وجہ سے ان پر طنز وتشنیع کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کی تعظیم وتقدیس کو تقریباً جرم قرار دیا گیا ہے۔ انھوں نے اصول کے طور پر اپنے استدلال میں بتایا کہ کوئی عمل اس وقت ناجائز یا حرام ہو سکتا ہے جب اس کی حرمت یا عدم جواز پر کوئی قطعی نص موجود ہو۔
ہر ایسا عمل جسے شریعت نے صراحتاً حرام قرار نہ دیا ہو، اصلاً مباح ہے۔ اس اصول کی وضاحت میں خان صاحب نے سولھویں صدی کے ایک فقیہ محمد القسطلانی کا حوالہ دیا جو اپنی معروف کتاب المواهب اللدنية میں واضح کرتے ہیں: "(رسول اللہ ﷺ کی سنت میں موجود) کوئی عمل اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے، لیکن کسی عمل کی عدم موجودگی اس کی حرمت/ممانعت پر دلالت نہیں کرتی (الفعل يدل على عدم الجواز وعدم الفعل لايدل على المنع)31۔ یہ اصول کہ وہ تمام اعمال جو ناجائز قرار نہیں دیے گئے ہیں، اصلاً جائز ہیں، خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک حدیث میں بیان کیا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: "حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں سکوت اختیار فرمایا ہے، اس سے عفو ودرگزر فرمایا ہے" (الحلال ما أحلَّ الله في كتابه، والحرامُ ما حرَّم اللهُ في كتابه، وما سكت عنه فهو مـمّا عُفي عنه)32۔ فقہی اصطلاح میں اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ شریعت جب تک کسی عمل کو صراحتاً ممنوع قرار نہ دے، وہ جائز رہتا ہے۔
خان صاحب نے اپنے دیوبندی مخالفین کو الزام دیا کہ وہ اصلاً مباح اعمال کو ناجائز قرار دے کر شریعتِ الہی میں تحریف کے مرتکب ہو رہے ہیںَ۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ شریعت ابدی ہے۔ اس لیے جب کوئی عمل اپنے اصل کے اعتبار سے مباح ہو، تو اسے ناجائز کہنا ایک نئے اور خود ساختہ شرعی حکم کی ایجاد ہے۔ خان صاحب کے نزدیک شریعت کی طرف سے مقرر کردہ حکم میں تغیر وتبدل شریعت کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔
ان کی نظر میں علماے دیوبند اور شاہ اسماعیل کا ناقابل معافی جرم مباح اعمال کو بے باکی سے ناجائز قرار دینا تھا، جس سے شریعت کے بنیادی اصول میں بدل گئے33۔ خان صاحب اپنے دیوبندی مخالفین (جیسے مولانا تھانوی) سے شاید اس بات پر اتفاق کرتے کہ مفسدات کے شامل ہونے کی وجہ سے مباح اعمال بھی بدعت بن جاتے ہیں۔ تاہم ان کے درمیان جس مقام پر واضح علیحدگی ہوتی ہے، وہ حال اور اس کی اخلاقی حالت کے حوالے سے ان کا تجزیہ ہے۔ خان صاحب کی نظر میں ایسی کوئی ہنگامی ضرورت یا اخلاقی انتشار نہیں جو لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کی تعظیم وتقدیس کی خاطر کی جانے والی رسوم سے باز رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بلکہ وہ بتاتے ہیں کہ جب تک خدائی حاکمیت/توحید کے لیے خطرہ نہ ہو، تو کسی بھی ایسے عمل کو بدعت قرار دے کر منع کر دینا، جو رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے ہے، بذات خود بدعت ہے۔ خان صاحب کے نزدیک میلاد منانا اور آپ ﷺ کے احترام میں کھڑا ہونا (قیام) کوئی معمولی عمل نہیں جسے اپنی مرضی سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ چونکہ اس رسم کا مقصد نبی اکرم ﷺکا ذکر اور ان کی تکریم ہے، اس لیے یہ دین کے لیے ناگزیر ہے34۔
زمان اور روایت کے حریف تصورات
نظریاتی طور پر خان صاحب کی بنیادی شکایت دین اور زمان کے درمیان تعامل کی اس تفہیم سے تھی جس کے حامل ان کے مخالفین تھے۔ خان صاحب کے نزدیک علماے دیوبند خیر القرون کے بارے میں ایک بہت محدود اور غلط نظریے کے قائل تھے۔ جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں: "یہ سب زمان کو حاکمِ شرعی بنانے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ صرف اسی بات سے سروکار رکھتے ہیں کہ کوئی عمل تاریخ کے ایک مخصوص دور (نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے زمانے) میں موجود تھا یا نہیں۔ اگر کوئی عمل اس دور میں موجود تھا تو وہ اسے جائز کہتے ہیں، بصورت دیگر وہ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں"35۔
زمان پر مبنی تعبیری منہاج کے مخالف نقطۂ نظر کے طور پر خان صاحب نے بتایا کہ کسی عمل کا شرعی جواز اس میں خیر کی موجودگی یا عدم موجودگی پر منحصر ہے، نہ کہ اس بات پر کہ وہ تاریخ کے کس دور میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ ایک اچھا عمل اچھا ہوتا ہے، جس وقت بھی اسے سرانجام دیا جائے۔ اسی طرح ایک برا عمل برا رہتا ہے، چاہے وہ جب بھی وقوع پذیر ہو۔ خان صاحب شکوہ کناں ہیں کہ ان کے مخالفین کسی عمل کی اصلی حیثیت جانچنے کے بجاے اس بات میں پوری دلچسپی رکھتے ہیں کہ کیا وہ اسلام کی ابتدائی تین صدیوں (قرونِ ثلاثہ) میں وقوع پذیر ہوا ہے یا نہیں۔
خان صاحب نے بتایا کہ تعبیر کا ایسا منہج جو چند صدیوں کو مقدس مانتا ہو، لازماً دین کی ایک بڑی سطحی تفہیم کو پروان چڑھائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین سب سے زیادہ مثالی اور مقدس ہستیاں تھیں۔ لیکن، اور یہ سب سے اہم نکتہ ہے، خیر القرون کے تقدس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی ادوار- یعنی ماقبل اسلام، زمانۂ حال اور مستقبل- کے بارے میں یہ طے شدہ ہے کہ وہ اخلاقی زوال میں ڈوبے رہیں گے۔ خیر کسی بھی مخصوص دور کو محدود نہیں، یہاں تک کہ خیر القرون کو بھی نہیں۔ یہاں پر خان صاحب ایک حدیث کا برمحل حوالہ دیتے ہیں: "میری امت کی مثال بارش کی سی ہے، کسی کو پتہ نہیں کہ بارش کی ابتدا میں خیر ہوگا یا اس کے آخر میں (مثل أمتي مثل المطر لا يُدرى أولُه خيرٌ أم آخرُه)36۔
خان صاحب کی نظر میں اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر کسی خاص دور کے ساتھ مخصوص نہیں۔ عہد نبوی کے مثالی دور کی یاد ممکنہ طور پر ان لوگوں کی اخلاقی صلاحیت کو تحریک دے گی جو زمانۂ حال میں رہ رہے ہیں، نہ کہ انھیں ایک ناقابل واپسی ماضی کے سائے میں رہنے کے اضطراب سے اپاہج کرے گی۔ خان صاحب کے نزدیک اصلاح میں قوت تب آتی ہے جب آنے والے ہر نئے عہد میں رسمی اعمال کے اندر متشکّل مستقل خیر کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔ وہ لوگ جو ان اعمال کو بدعت کہتے ہیں، ایسے اعمال کو روکنے کی وجہ سے بذات خود بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیںِ جنھیں موقر علما اور اکابرین امت کئی صدیوں تک جائز قرار دیتے آئے ہیں۔
اس پہلو سے خان صاحب کا تصورِ اصلاح علما دیوبند کے تصور اصلاح سے یک سر مختلف ہے۔ جیسا کہ میں نے سابقہ ابواب میں بتایا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی جیسے دیوبندی اہل علم کا اصلاحی پروجیکٹ مسلسل اخلاقی زوال کے ایک ایسے بیانیے میں ملفوف تھا، جو علماے کرام سے ایک انتہائی اقدام کا تقاضا کر رہا تھا۔ اس صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بعض نیک اعمال جیسے عید میلاد النبی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ زمانۂ حال جس اخلاقی بحران سے دو چار تھا، اس نے ایسے متعدد رسمی اعمال کو جڑ سے اکھاڑنے کے شعوری فیصلے کا تقاضا کیا، جو اگر چہ ماضی میں پھلے پھولے تھے، لیکن اب وہ حتمی طور پر فاسد ہو گئے ہیں۔
زمان، خیر، عملی زندگی
چونکہ یہ نکتہ بہت اہم ہے- یعنی زمان اور شریعت کے درمیان تعامل کے دیوبندی اور بریلوی تصورات کا موازنہ- اس لیے میں اپنے تجزیے کی مزید تشریح وتوضیح کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے میں خان صاحب کی فکر کو چھوڑ کر زمنیت کے بارے میں دیوبندی موقف کی مزید وضاحت کرتا ہوں، تاکہ بریلوی موقف کے ساتھ اس کا دقیق موازنہ ہو۔ اس مقصد کے لیے میں دیوبندی عالم مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی مناظرانہ کتاب براہین قاطعہ میں ان کے بھرپور مباحث کو زیر غور لاؤں گا۔ (ذہن میں رہے کہ یہ مناظرانہ کتاب دیوبندیوں کے نقطۂ نظر کے خلاف مولانا عبد السمیع کی لکھی ہوئی کتاب انوارِ ساطعہ کی تردید ہے)۔
مولانا عبد السمیع نے اپنے استدلال میں خان صاحب کی پیروی کرتے ہوئے ایک مقام پر اکابر دیوبند کے خلاف یہ الزام لگایا کہ وہ خیر القرون کو غلط طور پر رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی ابتدائی تین صدیوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ انھوں نے شکایت کی کہ یہ نقطۂ نظر مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے یہ امکان چھین لیتا ہے کہ وہ خیریت کا عملی نمونہ بن سکیں، یا اس تک رسائی پالیں۔
اپنے جواب میں مولانا سہارن پوری نے مولوی عبد السمیع پر یہ تنقید کی کہ انھوں نے خیریت کے تصور کو عام بنا دیا ہے۔ کیسے؟ اس طرح کہ وہ ابتدائی تین صدیوں کی کلی فضیلت (فضل کلی) اور بعد کی صدیوں کی جزئی فضیلت (فضل جزئی) کے درمیان امتیاز نہیں کرتے۔ ابتدائی تین صدیوں کے اہل ایمان خدا اور عہدِ نبوت سے قربت کی وجہ سے کلی فضیلت سے سرفراز تھے۔ اس کے برعکس وہ پاکیزہ لوگ جو اس دور کے بعد آئے، رسول اللہ ﷺ پر اپنے ایمان بالغیب کی بدولت جزئی فضیلت کے حامل ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ خیریت یا فضیلت کی یہ دو قسمیں دو مراتب ہیں نہ کہ یہ باہم ایک دوسرے کی ضد ہیں37۔
اس نکتے کو آشکارا کرنے کے لیے سہارن پوری اپنے قارئین کی ضیافت ایک دلچسپ غذائی قیاس سے کرتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ جزئی فضیلت پر کلی کی برتری ایسے ہے جیسے خوش ذائقہ قورمہ پلاو کی فضیلت پاخانے پر ہے38۔ صاف ظاہر ہے کہ قورمہ پلاو میں کھاد کے فوائد نہیں، نہ ہی وہ کھاد کا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ تاہم کھاد پلاو میں موجود کلی فضیلت کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی تین صدیوں کی خیریت کو آنے والی تمام نسلوں کی خیریت کے برابر قرار دینا، جیسا کہ مولانا عبد السمیع نے کیا ہے، ایسا ہی ہے جیسے پلاو اور پاخانے کو مساوی بتایا جائے۔ "مؤلف کو فضل کلی اور جزئی کے درمیان فرق معلوم ہی نہیں، اور اسی وجہ سے وہ کمزور توجیہات کرتا ہے۔ اگر اس کو اس بابت کچھ بھی معلوم ہوتا تو وہ ایسی لایعنی بات نہ لکھتا"، مولانا سہارن پوری نے اپنی تنقید کا ترکش خالی کرتے ہوئے کہا39۔
چلیے کچھ لمحوں کے لیے مولانا سہارن پوری کے قیاس کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ ان کے استدلال کا ایک نازک پہلو بھی ہے، جسے یہاں ضرور زیر بحث لانا چاہیے۔ خیر القرون کو دیگر زمانوں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے، وہ نہ صرف ان کے دور کی خیریت وبرکت ہے، بلکہ جس خیر کے وہ حامل تھے، اس کی اقسام میں فرق بھی اس دور کو امتیازی حیثیت عطا کرتا ہے۔ خیر القرون کے نیک اعمال میں جو خیریت پنہاں تھی، وہ آنے والی تمام نسلوں کے لیے فقہی احکام اور رسمی اعمال کے جواز کی بنیاد تھی۔ بالفاظ دیگر یہ خیریت ایک 'حکمِ اتباع' سے مربوط تھی۔ اس نے آنے والی نسلوں کو وہ شرعی قالب فراہم کیا جس میں وہ ڈھلیں اور اس کی اتباع کریں۔ اس کے برعکس قرون ثلاثہ کے بعد کیے جانے والے نیک اعمال کی خیریت میں یہ طاقت اور حجت نہیں۔ اس لیے ایسے اعمال جیسے اپنی بیوی سے حسن سلوک کرنا یا ایک سماج کا دوسرے سماج کو فائدہ پہنچانا اگر قرونِ ثلاثہ کے بعد ہوں تو وہ فقہی وشرعی احکام کے لیے بنیاد کا کام نہیں دے سکتے۔
ان اعمال کی خیریت، قرونِ ثلاثہ کے نیک اعمال کے برعکس 'حکم اتباع' سے مربوط نہیں، وہ مستقل نہیں تھے40۔ جیسا کہ میں نے ساتویں باب میں واضح کیا ہے دیوبندی موقف یہ نہیں کہ قرون ثلاثہ میں واقع ہونے والا ہر عمل اچھا ہے، اور اس کے بعد ہونے والا ہر عمل برا ہے، اگر چہ ان کے مخالفین جیسے مولانا احمد رضا خان اور مولوی عبد السمیع بعض اوقات ان کے موقف کو انھی معنوں میں لیتے ہیں۔ تاہم خان صاحب نے واضح کیا کہ دیوبندی فکر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے قرونِ ثلاثہ کے بعد انسانیت کو زوال ہوا ہے، جیسا کہ مولانا سہارن پوری کی فکر سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
اب میں خان صاحب کی طرف لوٹتا ہوں۔ ان کا تصور زمان اس کے بالکل برعکس تھا۔ فلسفے کی اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے کہ انھوں تاریخ کو مسلسل زوال پذیر لمحات کی حیثیت سے دیکھنے پر تنقید کی۔ اس یاس نے ایک جامد تصورِ زمان کو جنم دیا، جس کی روسے تاریخ ایک اصلی مقدس زمان اور اس کے بعد آنے والے تدریجاً ناپاک زمان میں منقسم ہے۔ یہ ثنویت خود رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے اسوۂ حسنہ سے میل نہیں کھاتی۔ انھوں نے زور دے کر بتایا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم زمان کے متحرک تصور کے قائل تھے41۔
وہ کسی نئے عمل کے شرعی حکم کا جائزہ لیتے وقت اس کی ذاتی خصوصیات پر توجہ مرکوز رکھتے تھے، نہ کہ اس زمان پر جس میں وہ عمل واقع ہوا۔ مولانا احمد رضا نے مثال کے طور پر متن قرآن کی تدوین پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان ہونے والی ایک بحث کی روایت نقل کی۔ 632ء میں جنگ یمامہ کے دوران کئی حفاظ صحابۂ کرام شہید ہوئے۔ اس واقعے کے بعد حضرت عمر کو فکر لاحق ہوئی کہ جس تیزی سے حفاظ قرآن جنگوں میں شہید ہو رہے ہیں، خطرہ ہے کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے۔
انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تقاضا کیا کہ قرآن کریم حفاظت وتدوین کا فوری بندوبست کیا جائے۔ ابتدا میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تردد ہوا۔ انھوں نے استفسار کیا: "ہم ایسا کام کیوں کریں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟" حضرت عمر رضی اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا: "اللہ کی قسم اس کام میں خیر ہی خیر ہے" (هو والله خير)۔ بہرحال کچھ بحث ومباحثے کے بعد حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی تجویز مان لی۔ آخر کار وہ قائل ہوگئے کہ یہ ایک ضروری امر ہے جو فوری توجہ کا طالب ہے۔ اس کے بعد جلد ہی قرآن کریم کی تدوین کا منصوبہ شروع ہو گیا42۔
خان صاحب کے نزدیک اس روایت کا سب سے قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جب ایک نئے کام میں، جو رسول اللہ ﷺ کی سنت میں موجود نہ تھا، حضرت ابوبکر کو ابتدا میں تردد ہوا تو ان کے جواب میں حضرت عمر نے صحابۂ کرام کو غلطی سے تحفظ فراہم کرنے والے کسی مخصوص زمانے کی تقدیس بیان نہیں کی۔ مثلاً انھوں نے یہ نہیں کہا کہ حضور ﷺ کی طرف سے کسی نئے کام (بدعت) کی ممانعت تھی، لیکن قرون اولیٰ کے صحابۂ کرام ان قدغنوں سے مستثنی ہیں۔ اس کے بجاے وہ جس بات کے قائل تھے، انھوں نے اس عمل کی ذاتی اچھائی کی بنیاد پر حضرت ابوبکر کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عمر نے اپنے استدلال میں کسی عمل کے ایک مخصوص زمانے میں موجودگی یا عدم موجودگی سے قطع نظر کرکے اس کی ذاتی خصوصیت پر بات کی۔
بالفاظِ دیگر، مولانا احمد رضا نے زور دے کر کہا، شریعت اور اس کی حدود کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تصور ایسے کسی مخصوص تحکمانہ زمان میں جکڑا ہوا نہیں تھا جو آنے والی تمام نسلوں کے دینی رجحانات پر حاوی رہے گا۔ اس کے برعکس وہ دیگر تمام صحابہ کرام کی طرح دین کو ایک مسلسل پھلنے پھولنے والے باغ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے جو ایک ارتقا پذیر اخلاقی پروجیکٹ کے طور پر مضبوطی سے اپنی مقدس جڑوں میں پیوست ہے۔ خان صاحب نے زمنیت اور دین کے درمیان تعلق کی واضح تصویر کشی کے لیے باغ کی تشبیہ استعمال کی ہے۔
ان کے قیاس میں اسلام حضرت محمد ﷺ کا باغ ہے، ایک ایسا باغ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شان وشوکت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس باغ کے اولین رکھوالوں نے ابتدا میں اس کے لیے زمین تیار کی، جس نے شروع کے چند سالوں میں اس کی بقا کی صلاحیت کو یقینی بنایا۔ تاہم ان کے پاس وقت یا موقع نہ تھا کہ اس کو مزید بڑھاوا دے سکیں۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ باغ پھل پھول رہا تھا۔ حتی کہ یہ سرسبز وشاداب ہو گیا، اور اس میں رنگ برنگے پھول اور پتے کھلنے اور چشمے ابلنے لگے، کیونکہ علما اور اولیا کی ہر نئی آنے والی نسل نے جس طرح اسے اپنے اسلاف سے وراثت میں حاصل کیا تھا، اس کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کیا۔
اعلیٰ حضرت نے بتایا کہ دین ایک کھلتے ہوئے باغ کی طرح مختلف زمنیتوں (temporalities) اور متنوع مناہج فکر کی آماج گاہ ہے جسے اخلاقی خیر کا ایک مشترکہ بیانیہ جوڑے رکھتا ہے۔ مزید برآں جس طرح ایک باغ میں نئے پھولوں کی کئی انواع واقسام اپنے اصل پودوں سے کھلتی ہیں، اسی طرح نئے اعمال جو اپنی اصل میں خیر/نیک ہیں، وہ بھی رسول اللہ ﷺ کی سنت سے لازمی طور پر مربوط ہیں۔ جو کوئی کسی نیک عمل پر صرف اس لیے تنقید کرتا ہے کہ یہ اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں موجود نہیں تھا، اس احمق کی طرح ہے جو باغ میں کھلنے والے نئے پھولوں کی خوب صورتی سے انکار کرتا ہے۔ خان صاحب نے کہا: "نتیجتاً ایسا احمق باغ کے پھلوں اور پھولوں سے محروم رہے گا"43۔
خان صاحب کے نزدیک رسمی اعمال اپنی شکل وصورت کے اعتبار سے نئے ہیں، لیکن اپنے جوہر کے لحاظ سے باغ کے پھولوں کے مشابہ ہیں۔ ان کے جواز کو متنازعہ بنانا حماقت ہے۔ مزید برآں ان رسوم میں سب سے زیادہ مقدس وہ ہیں، جو حضور ﷺ کے مقام ومرتبے کو بڑھاتے ہیں جیسا کہ عید میلاد النبی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ کوئی ایسا نیا عمل جو حضور ﷺ کے مرتبے کو بڑھاتا ہے، وہ اصلاً مستحب اور اس وقت تک تنقید سے بالاتر ہے جب تک وہ خدائی حاکمیت (توحید) کے منافی نہ ہو۔ اپنے اس موقف کو استناد فراہم کرنے کے لیے خان صاحب نے سولھویں صدی کے شافعی عالم حافظ ابن حجر الہیتمی (م 1667) کا حوالہ دیا۔ وہ لکھتے ہیں: "نبی کریم ﷺ کی تعظیم کے وہ تمام ذرائع جن میں باری تعالیٰ کی الوہیت میں شرک کا خطرہ نہ ہو، ایک قابل تعریف امر ہے" (تعظيم النبي بجميع أنواع التعظيم التي ليس فيها مشاركة الله تعالى في الألوهية أمر مستحسن)44۔
خان صاحب نے واضح کیا ہے کہ حافظ ہیتمی نے جو شرط عائد کی ہے، اس سے مراد وہ افعال ہیں جو صراحتاً اور قطعاً مشرکانہ ہیں، جیسے رسول اللہ ﷺ کو سجدہ کرنا، یا ذبیحہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے بجائے نبی ﷺ کا نام لینا وغیرہ۔ تاہم ان کے علاوہ تمام ایسے اعمال جن کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہے، جیسے ان کے احترام میں کھڑا ہونا، بلند مرتبت پاکیزہ اعمال ہیں۔ خان صاحب نے اپنے مخالفین کو للکارا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے کی جانے والی ان رسوم کو ناجائز ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت سے کوئی صریح دلیل پیش کریں۔ ایسی کسی دلیل کی عدم موجودگی میں اپنی اصل کے اعتبار سے کسی نیک عمل کو ناجائز قرار دینا، جو شریعت کی نظر میں جائز ہے، شریعت کی بالادستی کو چیلنج کرنا ہے۔ اس لیے وہ علما، بشمول ان کے دیوبندی مخالفین کے، جو عید میلاد النبی منانے کی مخالفت کرتے ہیں، شریعتِ الٰہی سے کھلواڑ کر رہے ہیں45۔ وہ ایسی رسموں کو ناجائز قرار دے رہے ہیں جنھیں خدا نے ناجائز نہیں قرار دیا۔ توحید کا تحفظ کرنے کے بجاے شریعت الہی میں یہ الٹ پھیر اسے مزید کمزور کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں یہ علما ایسی رسموں کو جو رسول اللہ ﷺ اور دیگر مقدس دینی شخصیات کی یاد کے لیے ہیں، بدعت کہنے سے ایک نئی شریعت ایجاد کر رہے ہیں جو ادب واحترام کے گزشتہ معیارات کی ضد میں ہے۔ خان صاحب کی نظر میں یہ بحث جتنی شریعت سے متعلق تھی، ادب واحترام کا موضوع بھی اس میں اس قدر اہم تھا۔
علماے دیوبند نے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے رائج رسموں کو جس جوش وجذبے سے ممنوع قرار دیا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کا ادب واحترام نہیں کرتے۔ مولانا احمد رضا کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شاہ محمد اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیروکار عوام کو بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو اسی انداز میں مخاطب کریں جس میں وہ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کو اپنا بھائی پکارنے سے نہ ہچکچائیں۔ وہ ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو اپنے بچوں کا نام نبی بخش (نبی ﷺ کی طرف سے تحفہ) رکھتے ہیں۔
ان عجیب وغریب اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت کا احترام نہیں کرتے۔ وہ نبی ﷺ کو صرف ایک عام آدمی کی روپ میں پیش کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کے حوالے سے یہ رویہ سلف صالحین کے طرز عمل سے قطعاً مختلف ہے۔ صحابۂ کرام نے کبھی رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو نہیں گھٹایا۔ بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اپنی پوری زندگی اس رنگ میں رنگ دی جس سے رسول اللہ ﷺ سے عشق ومحبت کا اظہار ہو۔
مولانا احمد رضا خان نے آٹھویں صدی عیسوی کے شہرۂ آفاق عالم اور فقہ مالکی کے بانی امام مالک بن انس (م 795) کی مثال کو بطور حوالہ پیش کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب امام مالک کے پاس طلبہ پڑھنے کی نیت سے آتے تو ان کی ایک باندی ان کا استقبال کرتی، اور ان سے پوچھتی: "شیخ پوچھتے ہیں آپ کیا پڑھنا چاہتے ہیں: فقہی مسائل یا حدیث؟ اگر وہ جواب میں 'فقہ' کہتے تو امام مالک فورًا باہر آجاتے اور درس شروع کرتے۔ تاہم اگر ان کا جواب 'حدیث' ہوتا تو امام مالک اس کی تیاری میں وقت لیتے۔ وہ وضو کرتے، نیا لباس زیب تن کرتے، خوش بو لگاتے، اور پگڑی پہنتے۔ پھر ان کے لیے ایک مخصوص نشست لائی جاتی جس پر وہ رونق افروز ہوتے۔ تب درس کا آغاز ہوتا۔ اگر کوئی ان سے اس اہتمام کے بارے میں استفسار کرتا تو وہ جواب میں فرماتے: "میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کی تعظیم کو پسند کرتا ہوں۔ اس لیے میں یہ الفاظ اس وقت تک اپنی زبان پر نہیں لاتا جب تک میں مکمل طہارت اور جسمانی نشاط میں نہیں ہوتا"46۔
رسول اللہ ﷺ کی تعظیم میں سلف صالحین کی روش یہی تھی جو ان علما میں یکسر ناپید ہے جو عید میلاد النبی کو ناجائز کہتے ہیں، خان صاحب نے دعویٰ کیا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خان صاحب کی نظر میں دیوبندیوں کی اصلاحی تحریک نہ صرف یہ کہ فقہی اعتبار سے غلط تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ یہ ادب واحترام کے قدیم متوارث معیارات کے بھی خلاف تھی۔
(جاری)
حوالہ جات و حواشی
- مسلمانوں کی علمی فکر اور تاریخ میں جس طرح تکفیر کا تصور اور استعمال اور اس پر پائے جانے والے اختلافات کے لیے دیکھیے: کاملہ اڈنگ، حسن انصاری اور ماریبل فیرو (مدونین)، Accusations of Unbelief in Islam: A Diachronic Perspective on Takfir (لائیڈن: بریل، 2016)
- احمد رضا خان، حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین (لاہور: مکتبۂ نبویہ، 1975)، 11۔
- یہاں پر حرمین سے مراد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں، جو دین اسلام میں سب سے زیادہ مقدس شہر ہیں۔
- عبد السمیع، انوار ساطعہ در بیانِ مولود والفاتحہ، اعلیٰ حضرت نیٹ ورک، تاریخ اشاعت ندارد، رسائی بتاریخ 16 فروری، 2018،www.alahazratnetwork.org، خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعہ علی ظلام الانوار الساطعہ (کراچی: دارالاشاعت، 1987)۔
- مولانا کیرانوی اپنے مناظروں اور عیسائی مشنریوں کے خلاف چھ جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب إظهار الحق کے لیے مشہور ہیں۔ 1857 کے ہنگامے کے بعد علامہ کیرانوی مکہ مکرمہ چلے گئے، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کا نصف آخر گزار دیا۔ ان کی حیات، فکر اور سرگرمیوں کے حوالے سے مزید معلومات کے لیے دیکھیے: ارول پاول، Muslims and Missionaries in Pre-Mutiny India (ریکمونڈ، سرے: کرزن پریس، 1993)، اور سیما علوی،Muslim Cosmopoltanism in the Age of Empire (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2015)۔
- عبد السمیع، انوار ساطعہ در بیان مولد والفاتحہ میں محمد چریاکوٹی کا مضمون "صاحب انوارِ ساطعہ" (چریاکوٹی: ادارۂ فروغ اسلام، 2010)، 11 – 13۔
- اس کا مطلب یہ نہیں کہ مولوی سمیع ایک برے یا باغی طالب علم تھے، بلکہ دیوبندی آرا پر ان کی تنقید اس امر کا عکاس ہے کہ (i) جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے تمام نظریاتی اختلافات کے باوجود علمی سلسلوں میں توسع تھا، اور (ii) یہ کہ دیوبندی مکتبِ فکر کے اندر اندرونی اختلافات اور مزاج ومذاق کا تنوع موجود تھا (جس پر میں بارھویں باب میں تفصیل سے بحث کروں گا)۔ مولوی سمیع اپنے آپ کو مولانا گنگوہی اور مولانا سہارن پوری جیسے سخت گیر دیوبندی اکابر کی بنسبت مولانا قاسم نانوتوی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے قریب سمجھتے تھے۔
- یہ وہی پریس تھا جس نے پھر 1905 میں مولانا اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور کو شائع کیا۔
- احمد رضا خان، الفتاوی الرضویۃ (گجرات: مرکز اہل سنت، 2006) جلد 15۔
- اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، تاریخ اشاعت ندارد) 4: 58-59۔
- ایضاً، 6: 83۔ آریہ سماج کے بانی دیانندا سرسوتی (م 1883) اور اکابرِ دیوبند کے درمیان مناقشوں کے لیے میرا مضمون دیکھیے: Polemic of Shahjahnpur: Religion, Miracles, History، اسلامک سٹڈیز 51، نمبر 1 (2012): 49 – 67۔ نیز دیکھیے: فواد نعیم، Interreligious Debates, Rational Theology and the ‘Ulama in Public Sphere: Muhammad Qasim Nanutvi and the Making of Modern Islam in South Asia (پی ایچ ڈی مقالہ، جارج ٹاون یونیورسٹی، 2015)۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں آریا کے بین المسالک اور بین المذاہب مناظروں کے لیے ملاحظہ کیجیے: کینتھ جونز، Arya Dharm: Hindu Consiousness in 19th-Century Punjab (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1976)۔
- دیکھیے: نتانا ڈی لانگ باس، Wahhabi Islam: From Revival and Reform to Global Jihad (نیویارک: آکسفرڈ یونیورسٹی، 2004)؛ ڈیوڈ کامنز، The Wahhabi Mission and Saudi Arabia (لندن: آئی بی ٹورس، 2006)؛ اور سمیرا حاج، Reconfiguring Islamic Trdition: Reform, Rationality and Modernity (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 2009)۔
- اوشا سانیال، Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Riza Khan Barelwi and His Movement, 1870 – 1920 (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1996)، 49 – 68۔
- محمد مسعود احمد، حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی (سیالکوٹ: اسلامی کتب خانہ، 1981)، 83- 97۔
- ایضاً، 51۔
- اس مدرسے کا اصل نام مصباح التہذیب تھا۔
- محمد احمد، حیاتِ مولانا، 122۔
- دیکھیے: احمد زینی دحلان، الدرر السنية على الوهابية (استانبول: دار الشفقہ، تاریخ اشاعت)۔
- احمد رضا خان، الدولة المکية بالمادة الغیبية (لاہور: نذیر سنز، 2000)۔
- نسیم بستوی اور محمد صابر، اعلی حضرت بریلوی: حالاتِ مجدد (لاہور: مکتبۂ نبویہ، 1976)، 47 – 51۔
- ابراہیم موسیٰ، The Deoband Madrasa کا تعارف، مدون: ابراہیم موسی، خاص نمبر، مسلم ورلڈ جرنل 99، شمارہ نمبر 3 (جولائی 2009): 427۔
- مسلمانوں کی فکر اور سماجی تاریخ میں طبقاتی مسلکی تصورات کے ظہور وافزائش کے لیے دیکھیے: لوئس مارلو، Hierarchy and Egalitarianism in Islamic Thought (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2002)۔
- جنوبی ایشیا کے تناظر میں شریف (جمع شرفا) کی اصطلاح کا واضح اسلامی مفہوم 'سادات' ہے، یا اس کا سیدھا سادہ مطلب وہ قبائل ہیں، جو زمین دار اشرافیہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیا کرتے۔ استعماری اور مابعد استعماری دور کی سیاست میں ان کے کردار کے لیے دیکھیے: ڈیوڈ گلمارٹن، Empire and Islam: Punjab and the Making of Pakistan (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1988)۔
- احمد رضا خان، إراءة الادب في فاضل النسب، الفتاوی الرضویہ، 9 : 201 – 77۔
- ایضا، 206۔
- ایضا، 202۔
- ایضاً، 204۔
- ایضا، 255۔
- ایضاً، 253۔
- احمد رضا خان، إقامة القيامة على طاعن القيام لنبي تهامة ، الفتاوی الرضویۃ میں، جلد 26۔
- محمد القسطلانی، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (بیروت: المکتب الاسلامی، 1991)، بحوالہ احمد رضا خان، اقامۃ القیامۃ۔
- ابو عیسی الترمذی، جامع الترمذي، جلد 1 (دلہی: امین، اشاعت ندارد)، 206۔
- احمد رضا خان، إقامة القيامة ، 525 – 31۔
- ایضا، 546 – 50۔
- ایضاً، 532۔
- ایضاً، 537۔
- سہارن پوری، البراہین القاطعہ، 39۔
- پاخانہ عام طور پربیت الخلا کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات بول وبراز پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ بظاہر یہاں مولانا سہارن پوری اسے مؤخر الذکر معنی میں لے رہے ہیں۔ اس جملے کا ممکنہ طور پر دوسرا مطلب : 'جانوروں کا گوبر جسے بیت الخلا میں رکھا جاتا ہے' زیادہ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ یہاں پر مولانا سہارن پوری کو زیادہ دل چسپی اس میں موجود کھاد کے فائدے یا خیر میں ہے، نہ کہ اس کے ثانوی فوائد میں۔
- سہارن پوری، البراہین القاطعہ، 39۔
- ایضاً۔
- احمد رضا خان، إقامة القيامة ، 539 – 43۔
- ایضاً، 540 – 42۔
- ایضاً، 544 – 44۔
- ابن حجر الہیتمی، الجوهر المنظم مقدمة في أدب السفر (لاہور: المکتبۃ القادریۃ، فی الجامعۃ النظامیۃ)، 12، بحوالہ ایضا، 531۔
- احمد رضا خان، إقامة القيامة ، 504 – 34۔
- ایضاً، 547۔