ڈاکٹر شیر علی ترین

کل مضامین: 22

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۲)

فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب نے تخلیقی انداز میں متعدد مصادر علم سے استفادہ کیا ہے۔ ان مصادر میں فقہ، تصوف اور ذاتی تجربہ شامل ہیں۔ یہ کسی صوفی کی جانب سے مصلح فقیہوں کے غیظ وغضب کے خلاف عوامی عرف اور رسوم کا دفاع نہیں، جس طرح فقہ/تصوف کی دوگانہ تقسیم کی طرف سطحی مراجعت فرض کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس متن کا ایک سرسری مطالعہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حاجی صاحب اپنے ارادت مند علما بالخصوص علماے دیوبند کے اس متشددانہ رویے کو ناپسند کرتے تھے، جس سے وہ ہندوستان میں رائج میلاد جیسی رسموں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ تاہم اپنی ناپسندیدگی...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۱)

بارھواں باب: اندرونی اختلافات: ایک بار مولانا رشید احمد گنگوہی مکہ مکرمہ میں اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر کی زیارت کرنے گئے۔ حسن اتفاق سے اس وقت حاجی صاحب کے پڑوس میں محفل میلاد جاری تھی۔ حاجی صاحب نے مولانا گنگوہی سے محفل میلاد میں شرکت کی درخواست کی۔ مولانا گنگوہی نے درخواست سنتے ہی اسے پرزور انداز میں رد کیا اور کہا: "حاجی صاحب! میں میلاد میں کیسے شریک ہو سکتا ہوں، جب کہ میں ہندوستان میں دوسرے لوگوں کو اس بری محفل میں شرکت سے روکتا ہوں"۔ یہ جواب سنتے ہی حاجی صاحب مسکرائے اور مولانا گنگوہی سے کہنے لگے: "اللہ آپ کو جزاے خیر دے۔ میں میلاد میں...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۰)

امکانِ کذب یا امکانِ نظیر؟ دین کے بنیادی عقائد کے دفاع کے حوالے سے گہری بے چینی نے مولانا احمد رضا خان کو مجبور کیا کہ وہ علماے دیوبند کی تکفیر کریں۔ یہ بے چینی اس وقت مزید وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے، جب امکانِ کذب (خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) اور امکانِ نظیر (خدا کا نبی اکرم ﷺ کی طرح ایک اور نبی پیدا کرنے کے امکان) کے بارے میں شاہ محمد اسماعیل اور علماے دیوبند کے موقف پر خان صاحب کی عائد کردہ فرد جرم پر غور کیا جائے۔ ضروری پس منظر جاننے کے لیے تیسرے باب کو ذہن میں لائیے، جہاں شاہ محمد اسماعیل کا استدلال امکان اور وقوع کے درمیان امتیاز پر مبنی...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۹)

گیارہواں باب: علم غیب: نبی اکرم ﷺ کے علمِ غیب پر بحث میں مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین اس بات پر متفق تھے کہ علم اور نبوت باہم لازم وملزوم ہیں۔ وہ اس بنیادی عقیدے پر بھی متفق تھے کہ خدا کی تمام مخلوقات میں نبی اکرم ﷺ ہی سب سے بڑے عالم، واجب الاتباع اور خدا کی محبوب ہستی ہیں۔ تاہم علم کی تعریف اور علم ونبوت کے درمیان تعلق کے سوالات پر ان کے درمیان شدید اختلاف واقع ہوا۔ ان بنیادی سوالات نے ایک ایسی کش مکش کو جنم دیا،جس کے نتیجے میں آخر کار مولانا احمد رضا خان نے دیوبندی اکابر (مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارن پوری...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۸)

دسواں باب: مشترکات: اب تک میں نے کوشش کی ہے کہ مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین کے درمیان بنیادی اختلافات کو نمایاں کروں، اور یہ کہ ان کی بدعت کی تعریف کیا ہے، اور وہ اس کے خطرے کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس باب میں، میں بتاؤں گا کہ علما کے ان دو مخالف کیمپوں کے درمیان کیا کیا مشترکات ہیں۔ یہاں میں جن بنیادی سوالات کا جواب دوں گا، وہ یہ ہیں: (۱) مولانا احمد رضا خان کا تصورِ بدعت کیا تھا؟ (۲) ان کی نظر میں شرعی حدود سے تجاوز کا مطلب کیا تھا؟ (۳) ان کا تصوّرِ اصلاح کیا تھا؟ (۴) عوام کی روزمرہ مذہبی زندگی میں کون سے امور قابلِ اعتراض ہیں،...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۷)

شرعی حکم اور عرف وعادت کے درمیان امتیاز: بدعت کی حدود پر دیوبندی اور بریلوی مواقف ایک اور دقیق لیکن نمایاں نکتے پر بھی مختلف تھے، یعنی کسی سماج کی شرعی حدود کی تعیین میں عرف وعادت کا کردار۔ جیسا کہ ہم گزشتہ ابواب میں دیکھ چکے ہیں، دیوبند کی اصلاحی پروجیکٹ کا بنیادی مقصد ایسی رسموں اور عادتوں کا قلع قمع تھا جو شرعی فرائض وواجبات کا روپ دھار چکے تھے۔ علماے دیوبند کی نظر میں اچھے اعمال کو بھی ترک کر دینا چاہے، جب وہ کسی سماج کی زندگی میں اس حد تک دخیل ہو جائیں کہ جو کوئی اپنی مرضی سے انھیں چھوڑنا چاہتا ہے، اسے اجتماعی طور پر ہدف تنقید بنایا جاتا...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۶)

نواں باب: مذہبی اصلاح کے دیوبندی تصور پر بریلوی علماء کی تنقید: جنوری 1906 میں جب مولانا احمد رضا خان اپنے دوسرے حج کے سفر پر تھے، انھوں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تیس نامور فقہا کی خدمت میں اپنا ایک فتوی پیش کیا۔ اس فتوے میں خان صاحب نے چند نامور ہندوستانی علما کی تکفیر کی تھی۔ خان صاحب نے علماے حرمین سے تقاضا کیا کہ وہ ان کے فتواے تکفیر کی تائید کریں1۔ وہ ایک اشتعال انگیز مخبر کا کردار ادا کرتے ہوئے حرمین کے علما کو 'گمراہوں' اور 'کافروں' کی نئی قسموں کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے جو اس وقت ہندوستان میں افزائش پا رہے تھے۔ اپنے عرب مخاطبین...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۵)

توحید کی احیا کے لیے نیکی کی ممانعت: مسئلۂ عید میلاد النبی: انیسویں صدی کے مسلمان اہل علم کے درمیان عید میلاد النبی پر جتنے پرجوش مناظرے ہوئے ہیں، اتنے کسی اور مسئلے پر نہیں ہوئے ہیں۔ استعماری دور میں مسئلۂ میلاد پر کش مکش دور حاضر میں اس عمل کے متعلق پائے جانے والے تنازعات کی ٹھوس بنیاد ہے۔ ابتداءً گیارھویں صدی میں مقبول ہونے والا میلاد آج تقریباً تمام مسلم معاشروں میں وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ یہ اسلامی کیلنڈر کے تیسرے مہینے ربیع الاول کے بارھویں دن منایا جاتا ہے۔ یہ حضور ﷺ کا یوم ولادت ہے۔ اگر چہ عموماً یہ ایک تہوار کی شکل میں ہوتا ہے، تاہم...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۴)

ایجاد کب بدعت بن جاتی ہے؟ بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول: شاہ محمد اسماعیل اور دیوبند کے پیش روؤں کے لیے نہ صرف نبی اکرم ﷺ کا عمل اور عہد مقدس ہے، بلکہ اس کے ساتھ سلف صالحین، یعنی تمام صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین واجب الاتباع اور تنقید سے ماورا ہیں1۔ اگر چہ سنت کا معنی رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے، لیکن جب اسے بدعت کے مقابلے میں استعمال کیا جائے تو اس کا حقیقی معنی وہ تمام اعمال واقدار ہیں جو اسلام کی ابتدائی تین نسلوں (قرونِ ثلاثہ) کی پیدا کردہ اور منظور کردہ ہیں۔ دیوبند کے پیش روؤں نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ، ان کے صحابہ کرام، ان کے تابعین اور...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۳)

اب میں بدعت اور اس کی حدود کی تعیین کے لیے چند کلیدی تعبیری پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، لیکن جنوبی ایشیا کی طرف جانے سے پہلےمیں کچھ لمحات کے لیے الشاطبی کے ساتھ رکوں گا۔ بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول: بدعت بطور تقلیدی/جعلی مذہب: بدعت کی تعریف میں بنیادی نکتہ انسانی فرد کے لیے یہ گنجائش ماننا ہے کہ ایک حاکمِ مطلق ذات کی حیثیت سے اس کے الٰہی اقتدار کے مقابلے میں شریعت کے ایک متوازی نظام کو بڑھاوا دیا جائے۔دراصل اختیار کا یہی وہ اساسی گناہ ہے جو بدعت کو وجود میں لاتا ہے: انسانی ارادے کو دین کی ایک جعلی عمارت کھڑی کرنے کے لیے استعمال کرنا ہی اسلام...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۲)

مسلم فکر میں بدعت (جس کا لفظی معنی نئی چیز ہے) بیک وقت شدید متنازع، مبہم اور لچک دار اصطلاحات میں سے ہے۔ بدعت بیک وقت دین/روایت کی حدود اور ہمیشہ ان حدود سے تجاوز کے منڈلاتے خطرے اور امکان کا اظہار ہے۔ حدود اور تجاوز، جیسا کہ مشل فوکو نے تاکید کی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے اور ایک دوسرے کے لیے تشکیلی عناصر ہیں؛ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے امکان، اور بقولِ کَسے، اِستحالہ (impossibility) کے لیے شرط ہے۔ اس نے اسے عمدگی سے یوں بیان کیا ہے: "حد اور تجاوز ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں، چاہے ان کی کمیت جو بھی ہو، کہ کوئی حد موجود ہو نہیں سکتی اگر وہ ناقابل...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۱)

1890 میں جمعہ کے روز بیرون ملک سے آئے ہوئے ایک سیاہ فام عالم (اس کے اصل وطن کے بارے میں روایت خاموش ہے) اترپردیش ہندوستان کے قصبے دیوبند میں وارد ہوا۔ مقامی سماج اور ان کے دینی اعمال میں دلچسپی کے باعث اس نے حاجی محمد عابد حسین سے، جو اس قصبے کے ممتاز مدرسے دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے نسبتاً کم معروف ہیں، درخواست کی کہ اسے جامع مسجد میں خطبہ پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ عابد حسین نے مذکورہ مہمان کی درخواست برضا ورغبت قبول کی، اسے دیوبند کی جامع مسجد میں لے آئے، اور اسے منبر پر رونق افروز کیا۔ اتفاق سے دیوبندی سلسلے کے ایک اور بانی اور نامور...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۰)

خیر آبادی کی تنقید کا تجزیہ مکمل کرنے کے لیے میں امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) اور امکان نظیر (خدا کا حضرت محمد ﷺ کی نظیر پیدا کرنے کا امکان) سے متعلق شاہ اسماعیل کے خیالات کی تردید کے لیے ان کے استدلال کے کلیدی پہلوؤں کا نمایاں کرتا ہوں۔ یاد کریں کہ اس سیاق میں شاہ اسماعیل کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ایسے واقعات کبھی وقوع پذیر نہیں ہوں گے، اور اسی وجہ سے یہ بالواسطہ ناممکن (ممتنع بالغیر) ہیں، تاہم وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ناممکن (ممتنع بالذات) نہیں۔ خدا نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، نہ کبھی وہ ایک اور محمد کو پیدا کرے گا، لیکن اگر وہ چاہے تو...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۹)

تقویۃ الایمان کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دلی میں شاہ اسماعیل کی اصلاحی سرگرمیوں نے شہر کے اہل علم اشرافیہ کے درمیان بحث ومباحثہ اور استدلالات کی ایک گرما گرم فضا تشکیل دی تھی۔ خاص طور پر کتاب کی نسبتاً زیادہ متنازعہ عبارات پر بحث ومباحثہ اور تجزیے ہو رہے تھے۔ اس وقت ماحول میں اس قدر انتشار تھا کہ 1826 میں ایک مشہور عوامی مناظرے میں شاہ اسماعیل کا اپنا چچا زاد محمد موسٰی دہلوی (م 1864) ان کے خلاف صف آرا تھا۔ جوں جوں جامع مسجد میں شاہ اسماعیل کے خطبات مزید لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے گئے، اسی رفتار سے ان کے خیالات کو دبانے کے لیے مخالف تحریک بھی زور پکڑتی...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۸)

شفاعت نبوی کے موضوع کو حاکمیت (توحید) کے سوال سے جدا کرنا ناممکن ہے۔ کسی گناہ گار کو معاف کرنے کی قدرت، جو کہ عمومی قاعدے سے انحراف ہے، استثنا کو قانون کی شکل دینے کی استعداد پر دلالت کرتی ہے۔ حاکمِ اعلیٰ، یاد کریں، کم از کم کارل شمٹ کے تصور کے مطابق وہی ہے جو استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہو۔ سفارش کرنے والے کا کردار اس عمل میں کسی حد تک خلل انداز ہو سکتا ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ سفارش کرنے والے کی حیثیت محض ایک وکیل کی ہے جو گناہ گار اور حاکم مطلق کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ایسے سفارش کرنے والا کا کیا جائے جس کی سفارش کبھی رد...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۷)

سیاست شرعیہ۔ شعائر دین کے تحفظ کی سیاست۔ شاہ اسماعیل نے منصبِ امامت (فارسی میں) اس وقت لکھی جب وہ سکھوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے جس میں بالآخر ان کی شہادت واقع ہوئی۔ ان کی وفات کتاب کی تکمیل میں حائل ہو گئی، اگر چہ وہ اس کا معتد بہ حصہ تحریر کر چکے تھے۔ منصبِ امامت اگر چہ ایک ایسے زمانے میں تحریر کی گئی جب وہ اور ان کے شیخ سید احمد سرحدی علاقے میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم عمل تھے، تاہم یہ کتاب اس تجربے سے براہ راست متعلق نہیں۔ البتہ اس سیاق کو کتاب کے پس منظر میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ کتاب کا مطبوعہ نسخہ تقریباً ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۶)

حاکمیت الہیہ اور عقیدہ توحید کا احیا: شاہ محمد اسماعیل کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی تصورات میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کا احیا ہے۔ حاکمیتِ اعلیٰ کے بارے میں ان کی بحث تباہ کن اخلاقی زوال کے ایک بیانے میں ملفوف ہے۔ شاہ اسماعیل کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستانی مسلمانوں نے خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تقریباً بھلا دیا ہے۔ انھوں نے اس اپنے تجزیے کی اساس اس مشاہدے پر رکھی ہے کہ انبیا، اولیا اور دیگر غیر خدائی ہستیاں عوام کی مذہبی زندگی میں رچ بس گئی ہیں۔ "ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہم دنیا میں جو چاہے کریں، کوئی...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۵)

اصلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل نے انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان کی انتہائی اہم کتابیں سپرد قلم کیں۔ انھوں نے فقہ، کلام، منطق، سیاسیات اور تصوف کے متعدد موضوعات اور علوم پر کتابیں لکھیں1۔ مزید برآں انھیں عوام کے لیے سہل ومقبول اور خواص اہل علم کے لیے مشکل اور دقیق کتابیں لکھنے میں غیرمعمولی مہارت حاصل تھی۔ اس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ شاہ اسماعیل کی کلامی، فقہی اور سیاسی فکر کو زیر بحث لاتے ہوئے ان کی تمام پیچیدگیاں قارئین کے سامنے رکھی جائیں۔ میں ان کی شدید متنازع کتاب "تقویۃ الایمان" کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ ساتھ سیاست شرعیہ...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۴)

برصغیر کی اسلامی تاریخ میں بہت کم ایسے مفکرین ہوں گے جن کا فکری ورثہ شاہ محمد اسماعیل (جو شاہ اسماعیل شہید کے نام سے بھی معروف ہیں) کی طرح متنازع اور اختلافی ہے۔ شاہ اسماعیل نے 1779 میں دلی کے ایک ایسے ممتاز گھرانے میں آنکھیں کھولیں جسے جدید ہندوستان کے یکتاے روزگار اور بااثر مسلمان اہلِ علم کی جاے پیدائش ہونے پر ناز تھا۔ ان کے دادا شاہ ولی اللہ اٹھارھویں صدی کے نہایت مشہور ومقبول مفکر تھے۔ شاہ اسماعیل کے والد شاہ عبدالغنی، شاہ ولی اللہ کے صاحب زادوں میں سے نسبتاً کم معروف تھے۔ شاہ اسماعیل نے اپنی دینی تعلیم بشمول قرآن، حدیث، فقہ، منطق اور...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۳)

انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ایک موقع پر شمالی ہندوستان کے نامور مسلمان مُصلح شاہ محمد اسماعیل دہلی کی مشہور جامع مسجد کے صحن میں بیٹھے درسِ حدیث دے رہے تھے۔ لوگوں کا ایک مجمع تبرکاتِ نبوی کو اٹھائے مسجد میں داخل ہوا اور مسجد کھچا کھچ بھر گئی۔ یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کی شان میں بآوازِ بلند درود وسلام پڑھ رہے تھے۔ شاہ اسماعیل اس منظر سے بالکل متاثر نہ ہوئے اور انھوں نے اپنا درس جاری رکھا۔ ان کی طرف سے کسی قسم کا رد عمل نہ پا کر جلوس میں شریک لوگوں کو بڑی ناگواری ہوئی۔ "مولانا! یہ کس طرح کا رویہ ہے؟" ان میں سے ایک نے اسماعیل کو طنزیہ انداز میں کہا۔...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲)

آگے بڑھنے سے پہلے اس کاوش کے بنیادی اشکالیے کو واضح کرنے کے لیے، میں ان وسیع تر نظری اور سیاسی اہداف کو واضح کرنا چاہوں جو اس سے مقصود ہیں۔ آئندہ سطور میں، میری خصوصی دلچسپی یہ واضح کرنے سے ہوگی کہ مسلمانوں کے مابین بریلوی دیوبندی جیسے اندرونی اختلافات کو کیسے مذہب سے متعلق نئی عالمی سیاسی حکمت عملی کا جزو بنایا جاتا اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اچھے مسلمانوں اور برے مسلمانوں کی تقسیم کا تنقیدی جائزہ: عہد حاضر میں علمی اور غیر علمی دونوں حلقوں میں بریلوی دیوبندی اختلاف کو عموماً اسلام کی فقہی اور صوفی روایتوں یا...

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱)

ستمبر 2006 میں عابد علی نے، جس کا تعلق شمالی ہندوستان کے شہر مراد آباد سے تقریبًا بارہ میل کے فاصلے پر واقع گاؤں احرار اللہ سے ہے، کئی دہائیوں سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے باوجود اپنی پچھتر سالہ بیوی اصغری علی کے ساتھ تجدیدِ نکاح کی۔ ۔ چند ہفتے پہلے ان نکاح ٹوٹ گیا تھا، کیوں کہ انھیں ایک مقامی مسلمان مولوی عبد المنان کریمی نے دیگر دو سو افراد سمیت کافر قرار دیا تھا۔ کریمی نے یہ انتہا پسندانہ فتوی اس وقت صادر کیا جب اسے پتا چلا کہ حال ہی میں اس کے گاؤں میں وفات پانے والے ایک بزرگ شخص کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ نماز جنازہ میں شرکت کوئی قابل...
1-22 (22)