انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۷)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا نواں باب)



شرعی حکم اور عرف وعادت کے درمیان امتیاز

بدعت کی حدود پر دیوبندی اور بریلوی مواقف ایک اور دقیق لیکن نمایاں نکتے پر بھی مختلف تھے، یعنی  کسی سماج کی شرعی حدود کی تعیین میں عرف وعادت کا کردار۔ جیسا کہ ہم گزشتہ ابواب میں دیکھ چکے ہیں، دیوبند کی اصلاحی پروجیکٹ کا بنیادی مقصد ایسی رسموں اور عادتوں کا قلع قمع تھا جو شرعی فرائض وواجبات کا روپ دھار چکے تھے۔  علماے دیوبند کی نظر میں اچھے اعمال کو بھی ترک کر دینا چاہے، جب وہ کسی سماج کی زندگی میں اس حد تک دخیل ہو جائیں کہ جو کوئی اپنی مرضی سے انھیں چھوڑنا چاہتا ہے، اسے اجتماعی طور پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ اس لیے مسلکِ دیوبند کا سارا زور اس بات پر تھا کہ سماج کی روزمرہ زندگی میں دخیل رسموں کو یک سر بدل کر انھیں قانونِ الٰہی کی حدود کا پابند بنائیں۔

اگر ہم زیادہ باریکی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نقطۂ نظر اس مفروضے پر مبنی تھا کہ شرعی احکام اور معمول بہ عادات دونوں باہم جدا ہو سکتے ہیں، اور اس میں مؤخر الذکر کو ہمیشہ اول الذکر کے مقرر کردہ حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس مولانا احمد رضا خان نے شریعت اور عرف وعادت کے درمیان تعلق کی ایک بہت مختلف تشریح وضع کی۔ خان صاحب نے بتایا کہ سماج کے لیے وضع کردہ قانون کو سماج کی عادات سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ان کی نظر میں ایسی عادات اور رسموں کو باضابطہ بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں، جو اپنی اصل میں نیک ہیںِ اور جو کئی نیک مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتی ہیں، باوجودیکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ثابت نہ ہو۔

جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا ہے، خان صاحب کے لیے کسی عمل کے شرعی جواز کے تعین کے لیے فیصلہ کن عامل یہ تھا کہ وہ اپنی اصل کے اعتبار سے نیک ہے یا نہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ کب ایجاد ہوا، اور سماج کی روزمرہ زندگی میں کب متعارف ہوا۔ مزید برآں اگر کوئی سماج کچھ مخصوص اعمال کو باضابطہ بنانے پر متفق ہو، اس انداز سے کہ وہ ان کے مزاج اور عملی ضروریات سے ہم آہنگ ہو، تو بجائے حوصلہ شکنی کے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اکابر دیوبند کے بالکل برعکس خان صاحب کو مختلف رسموں (مثلاً عید میلاد النبی یا اولیا کے عرس وغیرہ) کی ادائیگی کے لیے وقت یا تاریخ کے تعین (توقیت الوقت) سے کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں پر مناسب ہے کہ ہم ان کے استدلال کو ذرا تفصیل سے پیش کریں، کیوں اس سے بطور خاص یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا فقہی تصور ان کے دیوبندی مخالفین سے کس طرح مختلف تھا۔

مولانا احمد رضا خان نے واضح کیا کہ رسموں کی ادائیگی کے تعلق سے دو قسم کی زمانی تخصیصات ہیں: پہلی وہ جو شرعاً مطلوب ہیں (توقیتِ شرعی)، دوسری وہ جو شرعاً مطلوب نہیں (توقیتِ عادی)۔ پہلی قسم میں وہ اعمال شامل ہیں جو شریعت کے مطابق صرف مخصوص اوقات میں سرانجام دیے جا سکتے ہیں، مثال کے طور پر پنج وقتہ نماز کو ان کے مخصوص اوقات میں پڑھنا، قربانی عید الاضحی کے تین دنوں (ایام النحر) میں کرنا، اور مناسکِ حج کو اسلامی کلینڈر کے مطابق شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ میں ادا کرنا۔ اس کے برعکس غیر شرعی زمانی تخصیصات واجب نہیں ہوتیں، اور یہ رسموں کی ادائیگی اور باضابطگی کے لیے صرف ایک وسیلے کا کام سرانجام دیتی ہیں۔ خان صاحب نے بہت سادہ لفظوں میں اسے بیان کیا ہے: "کسی بھی کام کی انجام دہی کے لیے وقت کی تخصیص ضروری ہے"1۔ اس لیے اولیا اور صالحین کا عرس ہر سال یا ہر چھ ماہ بعد منایا جاتا ہے۔ اسی طرح میت کے ایصال ثواب کے لیے تیجے یا چہلم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان رسموں میں اوقات کی تخصیص شرکا کو ان کی ادائیگی کا موقع یاد دلانے کا ذریعہ ہے۔ مولانا احمد رضا واضح کرتے ہیں کہ "جب کسی عمل کے لیے وقت متعین کیا جائے، تو اس کو سرانجام دینا آسان ہو جاتا ہے"2 ۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے وضاحت سےمتنبہ کیا کہ ان رسموں کے وقت کی جو تخصیص کی جاتی ہے، انھیں شرعی طور پر مطلوب تخصیصات (جیسے کہ پنج وقتہ نمازوں کے لیے اوقات کی تخصیص) سے گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں پر وہ اپنے دیوبندی مخالفین سے مکمل طور پر متفق ہیں۔ تاہم خان صاحب کی نظر میں جب تک لوگ غیر شرعی تحدیدات کو واجب نہیں سمجھتے، تب تک ان میں کوئی حرج نہیںَ۔ بلکہ انھوں نے بتایا کہ تاریخ کا تعین وقت گزرنے کے ساتھ روحانی طور پر مفید اعمال کے تسلسل کے لیے ضروری ہے3۔ خان صاحب نے مزید بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے طرز عمل میں نیک اعمال کے لیے اوقات کی تخصیص کی کافی مثالیں موجود ہیں۔

مثلاً حضور ﷺ ہر سال کے آغاز میں شہدا کی قبروں کی زیارت کرنے جاتے، اور اس عمل کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے بھی جاری رکھا۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے قریبی صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (م 650) نے اپنے خطبات کے لیے جمعرات کا دن متعین کیا تھا۔ مولانا احمد رضا خان نے اپنے قارئین سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تخصیصات کو کبھی بھی شرعی واجبات کے درجے تک نہیں پہنچایا گیا۔ یہ بس عرف وعادت کی حد تک رہے۔ ایسا نہیں تھا کہ حضرت ابن مسعود اپنے خطبات کے لیے جمعرات کے علاوہ باقی تمام دنوں کو ناجائز، نامناسب یا کم مناسب سمجھتے تھے۔ خطبات کے لیے جمعرات کے دن کے تعین کے پیچھے ان کا مقصد یہ تھا کہ ایک پسندیدہ عمل کو باضابطہ بنایا جائے۔ دینی اعتبار سے کسی مفید عمل کے لیے تاریخ کا تعین کرکے اسے باضابطہ بنانے میں کوئی نقصان یا حرمت نہیں۔

خان صاحب اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: مزید برآں اگر کسی نیک عمل کے لیے تاریخ کے تعین کا کوئی ظاہری فائدہ یا مقصد نہ ہو، پھر بھی اس تعین کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا ۔ فرد کو اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو تاریخ کا تعین کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے۔ تمام غیر شرعی تخصیصات (تعیناتِ عادیہ) کی تعیین یا عدم تعیین کا مکمل اختیار ہر فرد کو حاصل ہے، اور تعیین یا عدم تعیین کی صورت میں اسے کوئی ثواب یا عذاب نہیں ملتا۔ خان صاب کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا یہی مفہوم ہے: "روزے کے لیے ہفتے کے دن کے تعین میں نہ آپ کے لیے ثواب ہے نہ عذاب" (صيام السبت لا لك ولا عليك)4۔ اس حدیث نبوی کا مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے لیے ہفتے کے دن کی تخصیص ایک مباح عمل ہے، جس پر کوئی مثبت یا منفی شرعی نتائج مرتب نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں روزہ رکھنے کے لیے ہفتے کے دن کی تخصیص یا باضابطگی ہر فرد کا ذاتی استحقاق ہے۔

اس لیے مولانا احمد رضا  کے مطابق جائز رسمی اعمال کے لیے تاریخ کے تعین پر ان کے دیوبندی مخالفین جو اعتراض کرتے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ اس بابت علماے دیوبند کی غیرمعمولی فکرمندی کہ تاریخ کے تعین سے جائز اعمال دینی واجبات کا روپ دھار لیں گے، ایک ایسا خدشہ ہے جو حضور ﷺ کو لاحق نہیں تھا۔ اس کے برعکس حضور ﷺ نے مذہبی اعمال کی ادائیگی میں عام مسلمانوں کی صلاحیتوں پر غیرمعمولی اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ مزید برآں خان صاحب نے نصیحت کی کہ بالفرض عوام میں سے کوئی ان تخصیصات کو شرعی یا واجب سمجھتا ہے، تو ہر صورت کی مناسبت سے اس رویے کی اصلاح کرنی چاہیے۔ کسی جائز عمل کو صرف اس ممکنہ خطرے کے پیش نظر بالکلیہ ترک نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی اسے واجب سمجھنا شروع کر دے گا۔

خان صاحب کی راے میں دیوبندی بجائے اس کے کہ پاکیزہ رسموں میں در آنے والی خرابیوں کے سد باب کے لیے ایک محتاط طریق کار اختیار کرتے، انھوں نے ان رسموں کو ہی ممنوع قرار دیا۔ نتیجتاً وہ لوگ جن کے عقائد فاسد نہیں ہیں، وہ بھی ان رسموں میں شرکت نہیں کرتے، جو قانونِ الٰہی کی رو سے مفید یا جائز ہیں۔ یہاں پر ہمیں خان صاحب اور علماے دیوبند کے درمیان ایک دقیق لیکن نمایاں فرق نظر آتا ہے۔

علماے دیوبند مثلاً‌ مولانا اشرف علی تھانوی کے لیے غیرواجب رسوم کے لیے وقت کا تعین ان کو واجب اعمال کا روپ عطا کرتے ہیں، اور اس وجہ سے یہ دینی واجبات کی اولیت کو کم زور کرتا ہے۔ اس لیے اس تعین کی وجہ سے جائز اعمال بدعت بن جاتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس مولانا احمد رضا خان کے نزدیک نیک اعمال کے لیے تاریخ کا تعین انھیں رسم کی شکل دینے کو یقینی بناتا ہے۔ نتیجتاً یہ اس نیکی کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے میں مدد کرتا ہے، جو ان اعمال میں جوہری طور پر موجود ہے۔ خان صاحب کے خیال میں نیکی کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنا کوئی معقول بات نہیں، تاآں کہ ایسا کرنا فوری طور پر ضروری ہو۔

چوں کہ قانون الٰہی ابدی ہے، اس لیے کسی سماج میں اس قانون پر عمل درآمد علما اور فقہا سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ وہ اس پر مسلسل علمیاتی پہرہ (epistemological policing) دیں۔  ایک عالم کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ اس قانون الہٰی کی متوقع خیریت کو ممکن بنائے، جو رسم کی شکل اختیار کرکے سماج کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔خان صاحب کے نزدیک قانون کا اصل کام یہ ہے کہ وہ  کسی سماج کی جمالیاتی حساسیت سے ہم آہنگ اور دینی اعتبار سے مفید رسموں کو جاری رکھے، نہ کہ انھیں ممنوع قرار دے۔ انھوں نے بتایا کہ حضور ﷺ کا یہ فرمان: "لوگوں کی نیکیوں میں ان کی موافقت کرو، اور ان کی برائیوں میں ان کی مخالفت کرو" (خالقوا الناس بأخلاقهم وخالفوهم بأعمالهم) اس نقطۂ نظر کو پایۂ ثبوت تک پہنچاتا ہے5۔

مولانا احمد رضا خان نے گیارھویں/بارھویں صدی کے بلند پایہ اور متبحر  عالم امام ابوحامد الغزالی (م 1111) کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے استدلال کو سمیٹا۔ وہ اپنی شاہ کار کتاب إحیاء علوم الدین میں لکھتے ہیں: "ہر سماج کی اپنی رسمیں ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ لوگوں سے معاملہ ان کے نیک کردار کے مطابق کیا جائے (جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا)، بالخصوص ایسے اعمال کے تعلق سے، جو حسن عمل یا تطہیر قلب کو ممکن بناتے ہیں۔ اور جو کوئی ان اعمال کو بدعت کہتا ہے اس وجہ سے کہ صحابہ کرام نے ان کا ارتکاب نہیں کیا، وہ غلطی پر ہے۔ صحابۂ کرام نے تمام جائز اعمال کو بالکلیہ ہم تک منتقل نہیں کیا۔ صرف اس عمل کو بدعت کہا جا سکتا ہے، جو رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کے اسوۂ حسنہ کے مخالف میں ہو"6۔

'فاتحہ' کے جواز وعدم جواز پر حریف انداز ہاے فکر

میں چاہتا ہوں کہ فقہ اور عادت کے متعلق اس بحث کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان اصولی طریق ہاے کار اور حوالہ جات کی روایت کا ذرا گہرائی کے ساتھ جائزہ پیش کروں جن کے ذریعے دیوبندی اور بریلوی اکابر نے روایت کی حدود پر مناقشہ کیا۔ اس مقصد کے لیے میں مخصوص اختلافی مسائل پر بریلویوں اور دیوبندیوں کے الگ الگ مواقف کی وضاحت کرتا ہوں۔ یہاں پر میں چاہتا ہوں کہ قارئین کو روایت/دین کے ان حریف استدلالات اور تفہیمات کی ایک متعین مثال سے متعارف کراؤں جو مناظرانہ سیاق وسباق کی ایک مخصوص صورتِ حال میں سامنے آئی۔ ذیل میں پیش کی جانے والی بحث کو ایک براہ راست تحریری مناظرے کی جھلکیوں کے طور پر دیکھیے۔ اس مقصد کے لیے میں دوبارہ مولوی عبد السمیع کی کتاب 'انوار ساطعہ' اور مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی طرف سے اس کے دندان شکن جواب 'براہین قاطعہ' کی طرف لوٹتا ہوں۔

میت کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ سے متعلق ان کی باہم مخالف آرا کو آمنے سامنے رکھوں گا۔ میں نے ان کی مناظرانہ جھڑپ کی جھلکیاں پیش کرنے کے لیے اس مخصوص مسئلے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ  یہ مؤثر انداز میں ان کی متنوع فکری گتھیوں اور تجزیاتی مسائل کو سامنے لاتی ہے۔ ان میں مادیت اور جذبے کے درمیان تعامل،  قانون، رسم اور عادت کے درمیان تعلق اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے، نبی اکرم ﷺ کی شخصیت کا مقام ومرتبہ اور برکت شامل ہے۔

ذیل میں مجھے نہ صرف مولانا عبدالسمیع اور مولانا سہارن پوری کے استدلال کی بنت اور تہوں میں دلچسپی ہے، بلکہ بطور خاص ان تفسیری مناہج میں بھی، جن کے ذریعے انھوں نے مستند دینی مصادر بالخصوص حنفی فقہی روایت سے استفادہ کیا۔ اس تجزیے کے بعد میں واپس مولانا احمد رضا خان کو لوٹوں گا کہ انھوں نے کس طرح دیوبندی مسلک کو اہل سنت سے خارج کیا، اور خود کو سنی مسلک کا نمائندہ ثابت کیا۔ البتہ میں ہندوستان میں رائج فاتحہ کے فوائد اور شرعی حیثیت سے متعلق مولانا عبد السمیع کے جوشیلے دفاع سے شروع کرتا ہوں۔ انوارِ ساطعہ میں دیوبندی تنقید کے حملے سے فاتحہ کا دفاع کرتے ہوئے مولانا عبد السمیع نے بتایا ہے کہ میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا  کھلانا یا مٹھائی تقسیم کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں بدنی اور مالی عبادات دونوں ہیں7۔

 بدنی عبادت اس طرح سے کہ کھانے پر یا تو سورۂ فاتحہ یا دیگر مسنون دعائیں اس نیت سے پڑھی جاتی ہیں کہ اس کا ثواب ایک فوت شدہ شخص کو بخش دیا جائے۔مولانا عبد السمیع نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس رسم میں پائے جانے والے اس عمل کی وجہ سے اسے فاتحہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے جب عوام کہتے ہیں کہ آج فاتحہ ہے تو اس کا مطلب ایصال ثواب کی خاطر فاتحہ کی تلاوت ہوتا ہے۔ مولانا عبد السمیع ایک ایسے مقرر کے انداز میں جو اپنے سامعین کو گرمانا چاہتا ہے، اپنی بات جاری رکھتے ہیں کہ اس رسم میں مالی عبادت بھی ہے کیوں کہ اس میں خوراک یا مٹھائی کے حصول کے لیے مالی وسائل بھی خرچ کیے جاتے ہیں۔ مولانا عبد السمیع نے بتایا کہ ان میں سے ہر جز چاہے مالی ہو یا بدنی شریعت کی رو سے جائز ہے۔ اپنے دعوے کو ترتیب دیتے ہوئے انھوں نے چودھویں صدی کے شش جہت فارسی عالم علامہ سعد الدین التفتازانی کا حوالہ دیا۔ بارھویں صدی کے ایک اور متبحر عالم نجم الدین النسفی (م 1142)8 کی کتاب 'العقائد' پر اپنی  شرح میں انھوں نے پوری صراحت سےکہا ہے: "سواے معتزلہ کے اس بات میں اور کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ مُردوں کے لیے دعا کرنے اور ان کی طرف سے صدقہ کرنے سے انھیں ثواب ملتا ہے" (وفي دعاء الأموات وصدقتهم عنهم نفع لهم خلافا للمعتزلة)9۔ اسی طرح وہ اپنے موقف کے اثبات میں سترھویں صدی کے حنفی عالم محمد الہروی (م 1656؛ جو ملا علی قاری کے نام سے مشہور ہیں) سے استدلال کرتے ہیں۔ وہ امام ابوحنیفہ کی شہرۂ آفاق کتاب الفقه الأكبر پر اپنی عربی شرح میں لکھتے ہیں: "امام ابوحنیفہ اور دیگر جمہور اہل علم کی راے ہے کہ میت کو ثواب پہنچتا ہے" (ذهب أبوحنيفة وجمهور السلف إلى وصولها)10۔

قاضی ثناء اللہ پانی پاتی کا حوالہ بھی دیا۔ وہ اپنی فارسی کتاب تذکرۃ الموتی میں لکھتے ہیں: "تمام فقہا نے حکم دیا ہے کہ ہر عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے" (جمیع فقہاء حکم کردہ اند کہ ثوابِ ہر عبادت بمیت می رسد)11۔

مولانا عبد السمیع نے بتایا کہ حنفی مذہب کے ان عظیم اکابر کی راے اس مسئلے میں ایک جیسی ہے۔ چوں کہ بدنی اور مالی عبادت الگ الگ سے جائز ہیں، اس لیے ان کا واضح تقاضا یہ ہے کہ ان دو اجزا سے تشکیل پایا جانے والا عمل بھی مباح ہو۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی رسم دو شرعی اجزا سے مل کر بنتی ہے، تو اس صورت میں ان دو اجزا سے مرکب رسم کی شرعی حیثیت پر سوال اٹھانے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ اپنی دلیل کی وضاحت میں مولانا عبد السمیع نے ایک غذائی قیاس پیش کیا، جیسا کہ ان کے پرجوش مدمقابل مولانا سہارن پوری نے پہلی مثال میں پیش کیا تھا، جسے میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ اگر مولانا سہارن پوری کو پلاو قورمہ عزیز تھا، تو ان کے مقابلے میں مولانا عبد السمیع نے بریانی کا انتخاب کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ فاتحہ کو ممنوع قرار دینا اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ بریانی کھانے پر پابندی لگانا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں کیا نسبت ہے؟ اس کے جواب میں وہ بتاتے ہیں کہ جس طرح فاتحہ مالی اور بدنی دونوں عبادات سے مرکب ہے، اسی طرح بریانی بھی بشمول چاول، گوشت اور بعض صورتوں میں زعفران جیسے متنوع اجزا سے بن کر تیار ہوتی ہے۔ "اب ایک احمق یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ جی یہ اجزا تو الگ الگ سے جائز ہیں، لیکن مجھے قرآن وحدیث سے کوئی اصل بتاؤ جس میں ان سے بنی بریانی کا جواز بھی معلوم ہوتا ہو"12۔ مولانا  عبد السمیع نے ادعا کیا کہ فاتحہ سے روکنے والے علماے دیوبند کی علمی وذہنی سطح کا اندازہ اس مضحکہ خیز استدلال سے لگائیں۔ خلاصہ یہ کہ مولانا  عبد السمیع کا استدلال دو جائز عبادتوں سے مرکب پانے والے عمل (جمع بین العبادتین) کے جواز کے اثبات سے عبارت تھا۔ 

مولانا عبد السمیع نے اپنے استدلال کو وسعت دیتے ہوئے حنفی مذہب کے مصادر کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سیرت وسنت سے بھی ایک مثال دلیل میں پیش کی۔ (630 میں) غزوۂ تبوک کے دوران رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی درخواست پر کھانے دعا پڑھی تھی۔ جیسا کہ ہزاروں لوگوں نے مشاہدہ کیا، رسول اللہ ﷺ کی اس دعا کی وجہ سے کھانے میں اس قدر برکت ہوئی کہ تمام حاضر لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ یہ حدیث نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں موجود برکت کی دلیل ہے، بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کھانے پر فاتحہ پڑھنا عملِ عبادت ہے، مولانا عبد السمیع نے خود اعتمادی سے بتایا۔ اگر حضور ﷺ کو کھانے پر دعا کرنے میں کوئی تردد نہیں تھا، تو علماے دیوبند کون ہوتے ہیں جو اس عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اس میں تردد کرتے ہیں؟ مولانا عبد السمیع نے اس خاص مسئلے میں علماے دیوبند پر اپنی تنقید کو اس طنز بھری کہاوت پر ختم کیا: "مجھے تم سے کسی خیر کی توقع نہیں، لیکن کم از کم میرے ساتھ برا نہ کرو (مرا بہ خیر تو امید نیست، بد مہ رسان)13۔

اس تنقید کے جواب میں مولانا سہارن پوری کا جواب اس تنبیہ کے ساتھ شروع ہوتا ہے کہ علماے دیوبند کو صدقات مثلا کھانے کے ذریعے میت کے لیے ایصالِ ثواب پر کوئی اعتراض نہیں۔ ان کا اعتراض اس رسم کی اس مخصوص ہیئت پر ہے جو ہندوستان میں رائج ہے، جس میں دعا کرنے والے کے سامنے کھانا رکھا جاتا ہے اور وہ اس کے اوپر فاتحہ پڑھتا ہے۔ بالفاظ دیگر علماے دیوبند جس چیز کے خلاف تھے، وہ صرف اس مخصوص انداز میں فاتحہ پڑھنے پر اصرار تھا، اس عقیدے کے ساتھ کہ اس طریقے کے علاوہ اس عمل کا ثواب میت تک نہیں پہنچتا۔  اس رسم کی یہ مخصوص ہیئت اور اس پر اصرار بدعت ہے جس کی کوئی نظیر قرونِ ثلاثہ میں نہیں ہے۔ بلکہ اس میں قباحت کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اس میں ہندؤوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے کیوں کہ وہ بھی دعا کرنے والے کے سامنے کھانا رکھتے ہیں۔ بلکہ ہندؤوں میں رائج اور مقبول ہونے کے باعث یہ ہندوستانی مسلمانوں میں رائج اور جاری وساری ہو گیا ہے14۔

لیکن بریانی کی اشتہا انگیز قیاس کا کیا کیا جائے جو مولانا عبد السمیع نے بڑے غور وفکر کے ساتھ فاتحہ کے جواز میں پیش کیا کہ دو جائز اعمال سے مرکب رسم بھی جائز ہونی چاہیے؟ مولانا سہارن پوری نے اس قیاس کو کیسے غلط ثابت کیا؟ سہارن پوری نے جواب میں کہا کہ اگر چہ ان اجزا کی حلت میں کوئی اشکال نہیں لیکن باورچی پر لازم ہے کہ انھیں استعمال کرنے سے پہلے ان کا اچھی طرح جائزہ لے۔  مثال کے طور پر اگر زعفران میں کوئی زہریلا مادہ موجود ہو، اور اسے بریانی میں ڈالا جائے تو جائز بریانی بھی ناجائز بن جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی جائز رسم ناجائز یا مکروہ اجزا کی وجہ سے فاسد ہو جائے تو پھر وہ جائز نہیں رہتی۔ فاتحہ کی رسم میں ہندؤوں کے ساتھ مشابہت اور ایک ایسے عمل کو ضروری قرار دینے سے، جس کی کوئی نظیر آنحضرت ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے عہد میں نہیں، کراہت اور حرمت پیدا ہو جاتی ہے۔

مولانا سہارن پوری کی فکر میں کار فرما وسیع تر تعبیری اصول یہ تھا: اباحتِ اصلی صرف اس صورت میں برقرار رہتی ہے، جب کوئی ایسی نص موجود نہ ہو، جو اس سے منع کرے۔ لیکن فاتحہ کے سلسلے میں یہ احادیث: "ہر بدعت گم راہی ہے، اور ہر گم راہی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے" اور "جو کوئی دوسرے لوگوں کی مشابہت اختیار کرے، وہ انھی میں سے ہے" ایسی نصوص ہیں۔ سہارن پوری کے مطابق ان احادیث نبویہ نے پوری صراحت کے ساتھ ہندوستانی عوام میں رائج اس رسم کی مخصوص صورت کو ممنوع قرار دیا15۔

لیکن شاید مولانا سہارن پوری اور مولوی عبد السمیع کے درمیان رسا کشی کا سب سے دل چسپ پہلو اس روایت پر مولانا سہارن پوری کی بحث ہے، جس میں غزوۂ تبوک کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے کھانے کے اوپر دعا پڑھی۔ یہاں رسول اللہ ﷺ، خوراک کی مادیت، اور فقہی مسلک اور زمانۂ حال کے درمیان تعلق پر مولانا سہارن پوری کا نقطۂ نظر مولوی عبد السمیع سے واضح طور پر الگ ہے۔ مولانا سہارن پوری کا مولوی عبدالسمیع سے اختلاف اس بات پر نہیں تھا کہ حضور ﷺ کے سامنے غزوۂ تبوک کے موقع پر کھانے پر دعا پڑھی یا نہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ یہ تھا کہ سیرت کے کسی واقعے سے استدلال کا اہم پہلو یہ ہے کہ کس تعبیری منہاج کے مطابق اس کی تعبیر وتشریح کی جا رہی ہے۔

اس امر سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھانے کے اوپر قرآن یا کوئی اور دعا پڑھی، کیوں کہ تلاوت اور دعائیں تو آپ کی روزمرہ زندگی کے ہر لمحے کا معمول تھا۔ اس لیے یہ کوئی قابل ذکر امر نہیں16۔ سہارن پوری اپنے قارئین کو یاد دلاتے ہیں کہ دیوبندی یہ نہیں کہتے کہ حضور ﷺ نے کبھی خوراک کے اوپر دعائیں نہیں پڑھیں، بلکہ ہندوستان میں رائج اس عمل کی مخصوص ہیئت اسلام کے قرون ثلاثہ میں موجود نہیں تھی۔ 

لیکن یہاں جو اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنےکھانا رکھ کر اس پر دعا پڑھنا ہندوستانی مسلمانوں کی اس رسم میں بنیادی مسئلہ ہے، تو اگر بعینہ یہی کام حضور ﷺ نے بھی کیا ہے، تو پھر ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ ان بظاہر ایک جیسے اعمال کے حکم میں اس قدر تضاد کیوں ہے؟ اس اساسی سوال کے جواب میں سہارن پوری کا موقف بیک وقت دل چسپ بھی ہے، اور انکشافی بھی۔

انھوں نے بتایا کہ مولوی عبد السمیع نے حوالے کے طور پر غزوۂ تبوک کا جو واقعہ پیش کیا ہے اس سے اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے طعام میں برکت کی خاطر اس پر دعا پڑھی۔ مزید برآں طعام میں برکت کے لیے دعا کی اس وقت کی فوری ضرورت تھی۔ اگر حضور ﷺ طعام پر دعا نہ پڑھتے، تو اس میں برکت نہ پیدا ہوتی اور نتیجتاً مسلمانوں کی فوج فاقہ کرتی۔ اور چوں کہ اس تناظر میں رسول اللہ کا بنیادی مقصد طعام میں برکت پیدا کرتا تھا، اس لیے یہ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے انھوں نے اپنے سامنے رکھے طعام پر دعا پڑھی17۔

سہارن پوری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے اس واقعے کو ہم ہندوستان میں رائج فاتحہ کے لیے قطعی دلیل کے طور پر پیش کریں۔ مولانا سہارن پوری کے استدلال میں یہ نکتہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ مولوی عبد السمیع کی پیش کردہ مثال میں دعا کا بنیادی مقصد طعام میں برکت ڈالنا تھا، جب کہ فاتحہ کا مقصد یہ نہیں ہوتا، اس لیے یہ قیاس مع الفارق ہے۔ کیوں؟ مولانا سہارن پوری نے بتایا: اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے فعل کا مقصد اصلاح تھا، اس کا مقصد طعام کی کمی کا ازالہ کرنا تھا، تاکہ وہ سب لوگوں کے لیے کافی ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ کو اولین اور بزرگ مصلح کی روپ میں پیش کرتے ہوئے مولانا سہارن پوری نے استدلال کیا کہ ان کی دعا بہت زیادہ دنیوی اصلاح کے ایک عمل کے مشابہ تھا، جس کا مقصد فساد کا خاتمہ اور ضرر کا ازالہ تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعا سے طعام کی صورتِ حال کی اصلاح اور تصحیح کی کوشش کی18۔

اس کے بالمقابل فاتحہ ایک ایسا عمل ہے جو طعام کی خرابی کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ کھانے کی تیاری کے بعد اس پر تلاوت ودعا پڑھنے کے مرحلے میں وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مجمع اور قاری دونوں کی نظریں کھانے پر جمی ہوتی ہیں۔  اس لیے یہ عمل کھانے والوں کی نیت اور اخلاص پر فاسد اثر ڈالتا ہے۔مولانا سہارن پوری نے نتیجے کے طور پر کہا: یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طعام میں برکت ڈالنے کے لیے دعا کا جو عمل اختیار کیا تھا، اپنی اصل کے اعتبار سے فاتحہ کے فاسد عمل کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ "فعل مصلِح کو فعلِ مفسد کا مقیس علیہ بنانا مولوی عبد السمیع کا ذاتی فہم ہے۔ کوئی علم والا شخص ایسی فضول بات نہیں کہہ سکتا"19۔

مولوی عبد السمیع سے واضح فرق کے ساتھ مولانا سہارن پوری کے تعبیری منہج نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مصلح اعظم میں کے روپ میں پیش کرکے ان کی ذاتی کرامت کی حیثیت بدل ڈالی۔ مزید برآں انھوں نے طعام جیسی مادی چیز کو رسول اللہ ﷺ کے اصلاحی مشن کے تابع بنایا۔ طعام کا سواے اس کے اور کوئی کردار نہیں کہ وہ نبوی اصلاح کے لیے آلے کا کام سرانجام دے۔ یہ بھی طعام کے کردار اور مقام کے حوالے سے عبد السمیع کے سماجی تصور سے واضح طور پر الگ ہے۔ مولوی عبد السمیع کی نظر میں فاتحہ جیسی اجتماعی رسم تب ممکن ہے، جب خوراک ناگریز طور پر موجود ہے۔ خوراک ہی وہ چیز ہے جو انسانوں کی جانب سے اس رسم کی صورت گری کو ممکن بناتی ہے۔ لیکن مولانا سہارن پوری کا موقف یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور ﷺ نے خوراک پر جو دعا پڑھی تھی، اس میں خوراک بنیادی طور پر امت سے استعارہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا کام ہی اصلاح تھا، اور اس غرض سے انھوں نے خوراک کی اصلاح کی، بالکل اسی طرح جس طرح وہ اپنی امت کی دینی اور اخروی کام یابی کے لیے ان کی اصلاح وتربیت کی کوشش کرتے تھے۔

لیکن ملا علی قاری، سعد الدین التفتازانی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی جیسے اکابر حنفی فقہا کا کیا جائے، جن کی آرا سے مولوی عبد السمیع نے استدلال کیا ہے، اور جو واضح طور پر مولانا سہارن پوری اور دیگر اکابر دیوبند کی راے سے متصادم ہیں؟ اس عدم ہم آہنگی کا جواب دینے کے لیے مولانا سہارن پوری نے جو طرز استدلال اختیار کیا ہے وہ بعینہ وہی ہے جو مولانا تھانوی کا تھا، جسے گزشتہ باب میں بیان کیا جا چکا ہے۔ اس میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ علماے دیوبند انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہندوستان میں رائج رسوم کو اپنی تنقید واصلاح کا ہدف قرار دے رہے ہیں۔ تھانوی نے میلاد کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہی مولانا سہارن پوری نے فاتحہ کے متعلق کہا: اگر ان اہل علم کو ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے عائد کردہ ان مخصوص شرائط کا علم ہوتا، تو وہ بھی ان رسموں پر وہی حکم صادر کرتے، جو علماے دیوبند صادر کرتے ہیں۔

اس سے یہ اہم سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیوں کر علما کے دو گروہ، جو ایک ہی طرح کی متون اور شخصیات کو مقدس مانتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں، ایسے دو متضاد اصلاحی ایجنڈوں کے قائل ہیں۔ آخر کار اتنا بڑا تضاد کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کے جواب میں کلیدی نکتہ یہ ہے کہ بریلویوں اور دیوبندیوں میں سے کسی ایک کے متعلق بھی یہ تجزیہ یا موقف اختیار نہ کیا جائے کہ ان میں سے کون حنفی مسلک کا زیادہ وفادار تھا۔ اس سے کہیں زیادہ مفید یہ ہے کہ ان متنوع اور عام طور پر متضاد تعبیری مناہج پر توجہ دی جائے، جن کے ذریعے انھوں نے ایک مشترکہ علمی سلسلے کو سمجھا اور موضوع بحث بنایا۔ مولوی عبد السمیع اور مولانا احمد رضا خان کی نظر میں متن کی صورت اور رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور مقام ومرتبے میں وحدت ہے، اور ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر علامہ تفتازانی جیسے علما نے کسی مخصوص عقیدے یا روایت پر ایک واضح تحریری موقف کے ذریعے مہر تصدیق ثبت کی ہے، تو پھر اس کو متنازع بنانا یا اس کی متبادل تفہیمات پیش کرنا حد درجے کی زیادتی ہے۔ دین کی سالمیت ایک ایسے تعبیری منہج اور مزاج پر منحصر ہے، جو متن کے استحکام کا تحفظ کرے۔ متن کا استحکام ہی رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور بلند مرتبے کے دیرپا ہونے کو یقینی بناتا ہے۔

اس کے برعکس علماے دیوبند زمانی ومکانی سیاقات کے مطابق متون کی تشریح کے قائل تھے۔ حنفی اکابر کی آرا محترم ہیں، لیکن ان تغیر پذیر زمانوں اور حالات کے مطابق ان کی تطبیق کی جائے گی، جو حال کے اخلاقی (یا دیوبندیوں کے تصور کے مطابق غیر اخلاقی) پس منظر کی تشکیل کرتے ہیں۔ اہم بات یہ کہ اکابر دیوبند مثلا مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی اس تعبیری منہج کو حنفی یا جمہور امت کے اصولی منہج میں بدعت یا انحراف کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، بلکہ ان کے خیال میں یہ اپنے مقصد، روح اور مطابقت کے اعتبار سے اسی کا جزو لاینفک ہے۔ لیکن باوجود یہ کہ وہ خود کو جیسا سمجھتے اور ظاہر کرتے تھے، مختلف رسموں اور اعتقادی معاملات پر حنفی روایت کے قدیم اور بنیادی مآخذ سے ثابت شدہ مسائل کے ساتھ ان کے مواقف کی عدم ہم آہنگی کی وجہ سے وہ اس الزام کی زد میں رہے کہ وہ مسلکِ اہل سنت پر نہیں ہیں۔ یہی وہ زدپذیری تھی جس کی اساس پر مولانا احمد رضا خان نے انھیں مسلک اہل سنت سے خارج کیا۔ لیکن انھوں نے ایسا کیا کیسے؟ یہ دیوبند کی مسلکی تحریک پر چوٹ لگانے کے لیے ان کی حکمت عملی کا ایک اہم اور مفید پہلو ہے۔ مولانا احمد رضا خان اور ان کی فکر کی طرف واپس لوٹتے ہوئے میں اب اس حکمت عملی کے چند کلیدی نکات کا جائزہ لوں گا۔

اجماع امت کی مخالفت

مولانا احمد رضا خان نے کوشش کی کہ اپنے دیوبندی مخالفین کو ہندوستانی مبتدعین کے ایک گروہ کے روپ میں پیش کریں  جن کے نظریات تمام اسلام کے گزشتہ اور موجودہ علما کے خلاف ہیں۔ خان صاحب کی نظر میں اکابر دیوبند اکابر اہل سنت کے اجماع کے مخالف ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ علماے دیوبند ایسی رسموں کو ناجائز کہتے ہیں جنھیں نہ صرف نامور علماے امت نے پسندیدہ اعمال قرار دیے ہیں، بلکہ ان میں بلاجھجھک خود بھی شریک ہوئے ہیں۔ مثلاً دیوبندی موقف کے برعکس مسلمان اہل علم کی غالب اکثریت عید میلاد النبی ﷺ اور قیام (میلاد میں حضور ﷺ کی آمد کے وقت احتراما کھڑے ہونا) کو جائز سمجھتی ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں خان  صاحب نے متعدد اکابر کے حوالے دیے ہیں۔

مثلاً اٹھارویں صدی میں مدینہ منورہ کے نامور عالم سید جعفر البرزنجی (م 1766) لکھتے ہیں: "تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قیام ایک مستحب عمل ہے۔ جو کوئی رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی خاطر اس عمل کو سرانجام دیتا ہے، اسے  اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر وثواب ملے گا"20۔ انیسویں صدی میں مکہ کے ممتاز شافعی عالم احمد زینی دحلان، جو اعلیٰ حضرت کے اساتذہ میں سے بھی تھے، کی تحریروں میں یہی صدا گونجتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "میلاد النبی کی رات خوشی کا اظہار کرنا، نعتیہ قصائد پڑھنا، شرکاے محفل کو کھانا کھلانا اور اس طرح کی دیگر تمام رسموں کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہے۔ یہ اعمال نیکی کی مختلف اقسام ہیں۔ متعدد علما نے اپنی کتابوں میں بے شمار شواہد ودلائل کی روشنی میں ان اعمال کا استحباب ثابت کیا ہے۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں"21۔

خان صاحب نے متنوع علمی رجحانات، مختلف علاقائی پس منظر اور تاریخ کے متعدد ادوار سے تعلق رکھنے والے دیگر اہل علم کا بھی حوالہ دیا ہے جنھوں نے پوری وضاحت کے ساتھ میلاد اور قیام کو نیک اعمال قرار دیا ہے۔ ان علما میں علامہ جلال الدین السیوطی، احمد قسطلانی، علی برہان الحلبی (م 1636)، امام تاج الدین السبکی (م 1370)، محمد بن  یحییٰ التادفی (م 1556)، یوسف بن یحیی الصرصری (م 1258) اور عبد الوہاب الشعرانی (م 1565) شامل ہیں۔ خان کے نزدیک دیوبندی میلاد جیسے نیک اعمال کی جو مخالفت کرتے ہیں، یہ ان علما کے اجماع کی خلاف ورزی ہے۔ خان نے بتایا کہ اکابر دیوبند رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی حجیت کو چیلنج کرتے ہیں: "میری امت کبھی گم راہی پر جمع نہیں ہو سکتی" (لا تجتمع أمتي على الضلالة)22۔ اگر کوئی دیوبندی مسلک کے اتباع میں ان اعمال کو بدعات قرار دے، تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ تمام علما بدعتی تھے۔ خان صاحب کی نظر میں یہ نتیجہ روز روشن کی طرح صاف ظاہر ہے۔

وہ اپنے قارئین سے مخاطب ہو کر کہتے  ہیں: "فیصلہ آپ پر ہے۔ کیا مکہ، مدینہ، شام، مصر، یمن، داغستان، اندلس اور ہندوستان کے اتنے سارے علما کا اجماع ناقابل اعتبار ہے؟ یاہم یہ فرض کر لیں کہ یہ اکابرین امت بدعتی اور غلط عقائد کے حامل تھے جو صدیوں سے اپنے معاشروں کو گم راہ کر رہے تھے، کیوں کہ وہ بدعات کو پاکیزہ اور پسندیدہ اعمال قرار دے رہے تھے؟23 آگے خان نے اپنے قارئین کو ایک دل چسپ فکری مشق کی تجویز کی دی:

چند لمحوں کے لیے اسلامی ہند کے تمام حریف نظریات کی سوچ سے اپنے دل کو پاک کیجیے۔ اختلافی مسائل پر ان کے متضاد مواقف کو بھول جائیں۔ اپنی آنکھیں بند کریں، سر جھکائیں اور تصور کریں۔ سوچیں اگر ماضی وحال کے متعدد ممتاز علما زندہ ہوں، اور ایک عالی شان مکان میں جمع ہو جائیں۔ ان سے میلاد اور قیام کے جواز کے بارے میں پوچھا جائے۔ اور وہ سب بیک آواز کہہ اٹھیںَ: "اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔ کون اسے برا کہتا ہے؟ اگر اس میں جرات ہے تو سامنے آئے"۔

اب ان علما کی شان وشوکت کو دیکھیے اور پھر ان چند ہندوستانی گستاخانِ رسول (دیوبندیوں) کی حیثیت پر غور کریں۔ کیا اس وقت ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ جرات ہوگی کہ وہ اس مجلس میں آئے، اور ان نامور اہل علم کے اجتماع کا سامنا کرے؟24۔

خان صاحب نے یہ دل چسپ استدلال کیا کہ اکابر دیوبند پوری آزادی سے اپنی گستاخانہ آرا کی اظہار اس لیے کر رہے ہیں کہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں کوئی اسلامی حکومت اور حکمران موجود نہیں۔ دیوبندی اس سیاسی ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں  جہاں کوئی ایسا مقتدر طاقت نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ سے متعلق ان کے گستاخانہ نظریات پر انھیں سرزنش کرے۔ جہاں کہیں اسلامی حکومت عملا قائم ہو، وہاں کے حکمران پر لازم ہے کہ وہ اجماع امت کی کھلی مخالفت کے باعث ان پر باقاعدہ تعزیر کا اجرا کرے۔

چوں کہ ایسا کوئی حکومتی نظام موجود نہیں جو دینی افکار کی نگرانی کرتا ہو، اس لیے دیوبندیوں کے منہ میں جو آتا ہے، کہہ دیتے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ  اسلامی حکومت کے ہوتے ہوئے دیوبندیوں کا عقیدہ نہیں پنپ سکتا۔ بالفاظِ دیگر خان صاحب کی نظر میں برطانوی استعمار کی موجودگی نے دیوبندی مسلک کی نمو وافزائش کو ممکن بنایا ہے۔ لیکن خان صاحب نے زور دے کر کہا کہ اگر چہ ان کے دیوبندی مخالفین استعماری حکومت کی وجہ سے دنیا میں عذاب سے بچ گئے ہیں، لیکن آخرت میں وہ یقیناً جہنم کا ایندھن بنیں گے کیوں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے: "سواد اعظم کی اتباع کرو، کیوں کہ جو کوئی سواد اعظم سے جدا ہو جاتا ہے، وہ جہنم میں چلا جاتا ہے" (اتبعوا السواد الأعظم، فإنه من شَذَّ شُذَّ في النار)25۔ المختصر خان صاحب کے نزدیک علماے دیوبند اجماع کی شرعی حجیت کو کم زور کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ ایک ایسے اصلاحی ایجنڈے کو پیش کر رہے ہیں جو پوری ڈھٹائی نامور علما کی راے اور عمل کے خلاف ہے۔

خاندان ولی اللہی کی مخالفت

خان صاحب کی نظر میں مختلف رسموں پر تنقید ان نامور اہل علم کی زندگی اور روایت کے بھی خلاف ہے، جنھیں علماے دیوبند اپنا علمی وفکری مقتدا مانتے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ دیوبند کی اصلاحی تحریک خاص طور پر اٹھارھویں صدی کے شہرۂ آفاق عالم حضرت شاہ ولی اللہ ان کے دو مشہور صاحب زادوں شاہ عبد العزیز اور شاہ رفیع الدین کے افکار کے سراسر مخالف ہے۔ یہ ایک ایسا معزز علمی خاندان تھا کہ استعماری جنوبی ایشیا کے تمام مسلمان اہل علم اور تحریکیں اس کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ اس لیے خان صاحب کو اس نقصان کا پورا پورا اندازہ تھا جو اکابر دیوبند کو ان سے الگ ثابت کرنے میں ان کے اصلاحی ایجنڈے کو پہنچنے والا تھا۔ خان صاحب نے اپنے استدلال میں کہا کہ علماے دیوبند کا اپنا موقف یہ ہے کہ وہ ولی اللہی ورثے کے امین ہیں۔ تاہم تھوڑی سی گہرائی میں جاکر مختلف فیہ رسموں کے جواز پر شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادوں اور علماے دیوبند کے موقف کے درمیان واضح تضاد معلوم ہوتا ہے۔ مثلا خان صاحب نے واضح کیا کہ شاہ ولی اللہ ایصالِ ثواب کے لیے فاتحے کے بغیر کسی ابہام کے اس کے حق میں تھے۔ 

مولانا احمد رضا خان کے مطابق دیوبندیوں اور شاہ محمد اسماعیل کے برعکس، جو اس رسم کو بدعت قرار دیتے ہیں، ولی اللہ خاندان نے بلا جھجھک اس عمل کو سر انجام دیا، اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی۔ مثلاً شاہ ولی اللہ نے اپنے والد اور حدیث کے مشہور عالم شاہ عبد الرحیم کے تذکرے میں لکھتے ہیں کہ وہ ہر سال نبی اکرم ﷺ کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا تیار کرتے اور لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔ ایک سال معاشی مشکلات کی وجہ سے شاہ عبد الرحیم کے پاس اتنی وسعت نہ تھی کہ وہ باضابطہ کھانا تیار کریں، سواے بھنے ہوئے چنوں کے جو انھوں نے لوگوں میں تقسیم کیے۔ اس رات جب وہ سوئے تو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ مسکرا رہے تھے، اور آپ کے ہاتھوں میں چنے تھے26۔

شاہ ولی اللہ نے خود بھی دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ کسی ولی کے ایصالِ ثواب کی خاطر مالیدہ اور کھیر پکانے میں کوئی مضائقہ نہیں (اگر مالیدہ وشیرِ برنج بنا بر فاتحۂ بزرگِ بقصدِ ایصالِ بہ روے احسان پزند وبخورند مضائقہ نیست)27۔ ایک دوسرے موقع پر شاہ ولی اللہ نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کہ : سلسلۂ چشتیہ کے مشائخ کے لیے ایصالِ ثواب کی خاطر ہر روز شیرینی کے اوپر فاتحہ پڑھ کر اسے تقسیم کریں (بر قدرِ شیرینی فاتحہ بنام خواجگانِ چست بہ خوانند وہمیں طور ہر روز می خواندی باشند)28۔

اسی طرح شاہ ولی اللہ کے صاحب زادے شاہ عبد العزیز نے شیعوں کی تاریخ اور افکار پر اپنی مشہور کتاب تحفۂ اثنا عشریہ میں لکھا ہے: "تمام مسلمان حضرت علی اور ان کے بابرکت خاندان کو اپنے پیر و مرشد مانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے تکوینی امور وابستہ ہیں۔ ان کے لیے دعا کرنا، ان کی شان میں قصائد پڑھنا، ان کے نام پر صدقہ خیرات کرنا، منت ماننا اور کھانا کھلانا لوگوں کے درمیان رائج ہے، بالکل اس طرح جس طرح تمام دیگر اولیاء اللہ کے سلسلے میں یہ روایات عوام میں موجود ہیں" (حضرتِ امیر وذریتِ طاہرۂ او را تمام امت بر مثال پیران ومرشدین می پرستند، وامور تکوینیہ راوابستہ بایشان می دانند، وفاتحہ وہ درود وصدقات ونذر ومنت بنام ایشان رائج ومعمول گردیدہ، چنانچہ بجمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است)29۔

مزید برآں تفسیرِ عزیزی میں شاہ عبد العزیز صاحب نے حال میں وفات پانے والے کو ایک ایسے شخص سے تشبیہ دی ہے، جو ڈوب رہا ہو۔ "جس طرح ایک ڈوبنے والا شخص بے چینی سے مدد کے لیے چیخ پکار کرتا ہے، اسی طرح جو شخص ابھی ابھی وفات پاگیا ہو، وہ ان لوگوں کو دعاؤں اور برکتوں کے لیے  پکارتا ہے، جو اس نے دنیا میں اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔ ان اوقات میں عبادات کی تمام صورتیں، صدقہ خیرات اور کھانا کھلانے جیسے اعمال میت کے لیے زیادہ فائدے اور دل جوئی کا سبب بنتے ہیں"۔ وہ وضاحت کرتے ہیں: "یہی وجہ ہے کہ کسی کے مرنے بعد ایک سال تک اور بالخصوص ابتدائی چالیس دنوں لوگ اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں کہ نیکی کے ایسے اعمال کی ادائیگی سے میت کی مدد کریں"30۔

شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادوں نے عمومی معنوں نے ایصالِ ثواب کے لیے کھانے کے اوپر فاتحہ پڑھنے کی تائید کی، خان صاحب نے باصرار کہا۔ مزید برآں دیوبندیوں کے برعکس انھیں ان شرائط وحدود سے کوئی سروکار نہیں تھا، جو اس رسم میں شامل ہو گئی تھیں، اور جو شریعت میں موجود نہیں ہیں، لیکن مقامی عرف وعادت سے ہم آہنگ تھیں۔ مثلاً شاہ رفیع الدین (جو شاہ عبد العزیز کے چھوٹے بھائی تھے) نے واضح طور پر قرار دیا ہے کہ وہ خاص انداز، جس کے مطابق کسی رسم کو ادا کیا جاتا ہے، شرکا کے مزاج اور ان کی سہولت پر منحصر ہوتا ہے۔

شاہ رفیع الدین نے کہا کہ ان تخصیصات میں کوئی حرج نہیں، جو لوگوں میں میت کے ایصال ثواب کے لیے کھانے کی تقسیم میں رائج ہوئے ہیں31۔ ان کی نظر میں ہندوستان میں مقبول اس عام رسم میں کوئی حرج مضائقہ نہیں تھا، جس میں میت کے ایصالِ ثواب کے مخصوص کھانے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ کے پوتے حضرت حسین رضی کی روح پرفتوح کے لیے ایصال ثواب کی خاطر کھچڑی یا توشہ تقسیم کرنا سولھویں صدی کے معروف عالم شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی کی نظر میں بالکل جائز تھا۔ شاہ رفیع الدین نے بتایا کہ ان تخصیصات کا مکمل اختیار اس طرح کی تقریبات کے منتظمین کے پاس ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے واضح کیا کہ انسانوں کی وضع کردہ یہ تخصیصات ابتداءً کسی معاشرے میں اس مقصد کے لیے ہوتی ہیں کہ وہ مخصوص عملی فوائد کی تکمیل کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ رسم بن کر سماج کی روزمرہ عادات کا حصہ بن جاتی ہیں (ایں تخصیصات از قسمِ عرف وعادت اند کہ بمصالحِ خاصہ ومناسبتِ خفیہ بہ ظہور آمدہ ورفتہ رفتہ شیوع یافت)32۔ اس کے رسم بننے میں کوئی قباحت نہیں، شاہ رفیع الدین نے واضح کیا۔ اس لیے مختلف دینی رسموں میں یہ تخصیصات، جن کی وجہ سے ان رسموں کا باضابطہ ہونا ممکن ہو جاتا ہے، ناجائز یا شریعت کی نظر میں نامناسب نہیں ہیں۔

مولانا احمد رضا خان کی نظر میں دینی رسوم میں تخصیصات کے جواز پر شاہ رفیع الدین کی راے دیوبندیوں اور شاہ محمد اسماعیل کے موقف کے مکمل برعکس ہے۔ اکابر دیوبند کے برعکس غیر واجب اعمال کو واجباتِ دینیہ کے مقام تک پہنچانے میں شاہ صاحب اور ان کے صاحب زادوں کو کوئی شدید بے چینی لاحق نہ تھی۔ بلکہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ شرعی حدود کی تعیین کرتے وقت وہ بھی اپنے دیگر پیش رو سنی علما کی طرح سماج کے جمالیاتی ذوق اور عملی فلاح وبہبود کو جگہ دیں۔ مزید برآں اپنے نام نہاد دیوبندی پیرکاروں کے برعکس وہ ایسے نیک اعمال کو ناجائز نہیں ٹھہراتے، اور نہ عوام کو ایسے اعمال سے روکتے ہیں، جن کا مقصد مقدس دینی شخصیات کی عزت وتوقیر ہو۔

خان صاحب نے مزید بتایا کہ شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادے چوکیدارانہ رویے کے زیر اثر بھی نہیں تھے، جس کا مقصد فساد اور اخلاقی زوال کی علامات کی تلاش میں عوام کی روزمرہ زندگی پر مسلسل پہرہ دینا تھا۔ اس کے بجاے انھوں نے سماج کو اختیار دیا کہ وہ نیک رسوم میں موجود شرعی بھلائی کو اپنے مزاج، کردار اور عملی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر حاصل کریں۔ اس کے برعکس اکابر دیوبند اور شاہ اسماعیل نے ایک ایسے عوامی دائرے کو پروان چڑھایا جس میں ہمیشہ شرعی حدود سے تجاوز کا خوف غالب رہتا ہے۔ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی عوامی صلاحیت سے چوں کہ دیوبندی حد سے زیادہ یاس انگیز نقطۂ نظر کے حامل ہیں، اس لیے انھوں نے ایسی اچھی رسموں کو بھی جرم قرار دے دیا، جو خود ان کے شجرے سے تعلق رکھنے والے اہل علم نے صراحتاً جائز قرار دی ہیں۔ خان صاحب نے دعوی کیا کہ یہ تضاد اکابر دیوبند کی بے شرمی اور منافقت کی واضح دلیل ہے۔ میلاد یا فاتحہ میں شرکت کرنے والے کسی بھی شخص پر لعنت ملامت کرنے میں دیوبندی ذرہ برابر ہچکچاہٹ سے بھی کام نہیں لیتے۔ تاہم وہ اپنے علمی پیشواؤں پر کوئی اعتراض نہیں کرتے جنھوں نے نہ صرف ان اعمال کو جائز کہا، بلکہ خود میں ان میں شریک ہوئے۔

خان صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں: "دیوبندی عقیدے کے مطابق شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادے بغیر کسی شک وشبہے کے 'دین میں بدعت' کے مجرم اور بے اصل بدعات کے مرتکب ہیں۔ انھوں نے ڈھٹائی سے ایسی رسموں کو ایجاد کیا ہے، جو خیر القرون میں نہیں تھیں۔ لیکن دیوبندی کبھی انھیں گم راہ یا بدعتی نہیں کہیں گے۔بلکہ وہ انھیں معزز علما، دینی اکابر اور خدا رسیدہ صوفی قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب دوسرے لوگ ان رسموں میں شرکت کرتے ہیں، تو انھیں گم راہ بدعتی قرار دے کر ان پر لعنت کرتے ہیں"33۔ خان صاحب طنزیہ پیراے میں اپنی بات جاری رکھتے ہیں: "شاید ان کے علاوہ سب لوگوں کا گناہ یہی ہے کہ وہ ایسے نیک اعمال میں حصہ اس طریقے سے حصہ لیتے ہیں، جو شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ اس بے جا زبردستی کو آخر کیا نام دیا جائے (این تحکم بے جا را چہ گفتہ آید)34۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خان صاحب کے مطابق علماے دیوبند ایک نئی شریعت ایجاد کر رہے تھے، جو (بشمول ان کے اپنے پیش روؤں کے) دین کے تمام بزرگ ہستیوں کی آرا کی مخالف تھی، اور جو لوگوں کو  شریعت کی نظر میں نیک اور جائز اعمال میں شرکت پر سزا دیتی تھی۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ دیوبندی شرک وبدعت کے مقابلے کا دکھاوا کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ایک نئے اخلاقی نظام کی تشکیل کر رہے ہیں، جس نے پہلے سے چلے آنے والے تصورِ دین وشریعت کو پلٹ دیا۔

خان صاحب کی نظر میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اکابر دویوبند شرک وبدعت کے نام پر اجماع امت کو الل ٹپ طریقے سے مسترد کرتے ہیں، اور اجماع کے مقابلے میں اپنی ذاتی خواہشات کو مسلط کر تے ہیں۔ قانونِ الٰہی میں تحریف کرکے دیوبندی اس قانون کی ابدیت پر سوالات پیدا کر رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ پوری ڈھٹائی سے شریعت اور اس کی حدود کے مطلق واضع کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو للکار رہے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا: یہی وجہ ہے کہ توحید کی احیا کا نام نہاد دیوبندی جذبہ سواے ایک ڈھونگ کے اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ وہ توحید کے تحفظ کے نام پر اس پر اپنا حق جتلاتے ہیں۔ اس عمل میں انھوں نے قانون الہی کی مطلق حاکمیت کی حیثیت کو گھٹایا اور اس کے تقدس کو پاے مال کیا۔ جیسا کہ خان صاحب طنزیہ پیراے میں اپنے دیوبندی مخالفین سے تقاضا کرتے ہیں: "کیا شریعت تمھارا خانگی معاملہ ہے کہ آپ اسے جس طرف موڑنا چاہیں، موڑ دیتے ہیں" (شریعت کارِ خانگئ شما است کہ ہر چوں خواہد پہلو گردانید)35۔



حواشی

    1. احمد رضا خان، الحجة الفائحة لطیب التعین والفاتحة، الفتاوی الرضویۃ، 9 : 580۔

    2. ایضاً، 582۔

    3. ا۔ خان، إقامة القيامة ، 547۔

    4. احمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، جلد 6 (بیروت: دارالفکر، تاریخ ندارد)، 368۔

    5. الحاکم النیشاپوری، المستدرك على الصحيحين في الحديث (بیروت: دار الفکر، تاریخ اشاعت ندارد)، 513۔

    6. ابو حامد الغزالی، إحياء علوم الدين،كتاب السماع والوجد  (قاہرہ: المشہدی الحسینی، تاریخ ندارد)، 305۔

    7. سمیع، انوارِ ساطعہ، 52۔

    8. نسفی اور تفتازی دونوں آج کے دور کے وسطی ایشیا کے ملک ازبکستان کے شہر سمرقند کے رہنے والے تھے۔

    9. بحوالہ سمیع، انوارِ ساطعہ، 52۔

    10. محمد الہروی، شرح كتاب الفقه الأكبر (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 2006)، بحوالہ سمیع، انوار ساطعہ، 52۔

    11. بحوالہ ایضاً۔

    12.  ایضا، 53۔

    13. ایضاً۔

    14. سہارن پوری، البراہین القاطعۃ، 75۔

    15. ایضا، 76۔

    16. ایضاً، 78۔

    17. ایضاً۔   

    18. ایضاً، 79۔

    19. ایضاً۔

    20. سید جعفر البرزنجی، عقد الجواهر في مولد النبي الأزهر (لاہور: جامعہ اسلامیہ، تاریخ ندارد)، 67۔ دحلان، الدرر السنية، 18۔

    21.  دحلان، الدرر السنية، 18۔

    22. النیشاپوری، المستدرك، 1: 116۔

    23. ا۔ خان، إقامة القيامة ، 521۔

    24. ایضاً۔

    25. ۔ ابن ماجہ، سنن ابن ماجه (قاہرہ: دارالحدیث، 1998)، حدیث 3950، بحوالۂ ایضاً، 522۔

    26. شاہ ولی اللہ، الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين (فیصل آباد: کتب خانہ علویہ رضویہ، تاریخ ندارد)، 40۔

    27. بحوالہ ا۔ خان، الحجة الفائحة، 575۔

    28. شاہ ولی اللہ، الانتباه في سلاسل أولیاء الله (دلی: برقی پریس، تاریخ ندارد)، 100۔

    29. شاہ عبد العزیز، تحفۂ اثنا عشریہ (لاہور: سہیل اکیڈمی، تاریخ اشاعت ندارد)، 214۔ امورِ تکوینیہ سے مراد وہ خدائی اوامر ہیں، جن کی وجہ سے چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جیسی وہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں امور تکلیفیہ کا تصور ہے۔ امور تکلیفیہ کا مطلب کا وہ خدائی اوامر ہیں، جو مکلفین کے لیے شرعی احکام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دیکھیے: مائیکل کودکائیوکز، The Spiritual Writings of Amir ‘Abdul Kader (البانی: سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک پریس، 1995)، 220، اور مائکل سیلز، Mystical Languages of Unsaying (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 1994)، 250۔

    30. شاہ عبد العزیز، تفسیرِ عزیزی (دلی: لال کواں، تاریخ ندارد)، 206۔

    31.  شاہ رفیع الدین، فتاوی شاہ رفیع الدین (دلی: مطبع مجتبائی، تاریخ ندارد)، بحوالہ احمد رضا خان، الحجۃ الفائحۃ، 591 – 92۔

    32.  ایضاً، بحوالۂ احمد رضا خان، الحجة الفائحة، 592۔

    33. احمد رضا خان، إقامة القیامة، 584۔

    34. ایضاً۔

    35. ایضاً۔


آراء و افکار

(جون ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter