اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Modernity کا چوتھا باب)
سیاست شرعیہ
شعائر دین کے تحفظ کی سیاست
شاہ اسماعیل نے منصبِ امامت (فارسی میں) اس وقت لکھی جب وہ سکھوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے جس میں بالآخر ان کی شہادت واقع ہوئی۔ ان کی وفات کتاب کی تکمیل میں حائل ہو گئی، اگر چہ وہ اس کا معتد بہ حصہ تحریر کر چکے تھے۔ منصبِ امامت اگر چہ ایک ایسے زمانے میں تحریر کی گئی جب وہ اور ان کے شیخ سید احمد سرحدی علاقے میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم عمل تھے، تاہم یہ کتاب اس تجربے سے براہ راست متعلق نہیں۔ البتہ اس سیاق کو کتاب کے پس منظر میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ کتاب کا مطبوعہ نسخہ تقریباً ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے اور یہ اپنی زبان وبیان کے لحاظ سے تقویۃ الایمان سے یکسر مختلف ہے۔
یہ عوام کے لیے لکھی جانے والی کوئی عام فہم کتاب نہیں، بلکہ سیاست کے مقاصد اور سیاسی نظاموں اور حکمرانوں کی مختلف اقسام اور درجات کا ایک گہرا فلسفیانہ مطالعہ ہے۔ اس کتاب کی زبان میں مناظرانہ انداز واضح طور پر کم ہے، اس کے بجائے یہ نسبتاً فلسفیانہ ہے۔ کتاب کو اردو کے بجاے فارسی میں (اگر چہ بعد میں اس کا اردو ترجمہ ہوا) مرتب کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہ اسماعیل کے ذہن میں اس کے مخاطب علما تھے۔ اس کتاب میں کئی مقامات پر شاہ اسماعیل نے مُسَجَّع مُقَفّٰی نثر لکھی ہے جس کے کچھ نمونے قارئین اس باب میں میری نقل کردہ عبارات میں ملاحظہ کر سکیں گے۔ ذیل میں میری کوشش ہوگی کہ اس انداز میں منصبِ امامت کے مرکزی ابحاث اور استدلالات کو نمایاں کر سکوں جس سے شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر کی نمایاں خصوصیات کا ایک نقشہ سامنے آ جائے1۔
اس بحث کا مقدمہ اور خلاصہ یہ ہے کہ مثالی ریاست کا ایک جامع خاکہ پیش کرنے کے بجاے شاہ اسماعیل کی توجہ ایسی سیاسی قیادت اور نظاموں کی تفصیلات پیش کرنے پر ہے جو اخلاقی اصلاح اور اُخروی نجات کے مقاصد کے لیے زیادہ مناسب ہیں۔جیسا کہ میں عنقریب بتاؤں گا، شاہ اسماعیل کی توجہ سیاسی قیادت کے تقویٰ وتدیُّن کے بجاے ان اثرات پر تھی جو وہ معاشرے پر مرتب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے بنیادی چیز شعائرِ اسلام کے تحفظ کا فریضہ تھا، ایک ایسا فریضہ جس کی کے لیے وہ اخلاقی طور پر ایک کمزور قیادت کو بھی برداشت کرنے کے روادار تھے۔
دل چسپ اور اہم بات یہ ہے کہ شاہ اسماعیل نے اسلامی حاکمیت کے زوال کو اسلامی ریاست یا سیاسی طاقت کے بجاے شعائر اسلام کے زوال کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک شعائرِ اسلام کی حیثیت سے رائج اعمال کا خاتمہ غلبۂ کفار کی ناقابل برداشت صورتِ حال کے مترادف ہے۔ اس لیے تمام مسلمانوں پر فرضِ عین ہے کہ وہ موجودہ سیاسی نظم اور قیادت کے خلاف ایک براہ راست بغاوت اور کھلی جنگ برپا کریں، اگر چہ وہ قیادت بظاہر مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، تو پھر کسی اور علاقے کی طرف ہجرت کرنا ان پر فرض ہے، شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں واضح کیا۔
اگر ایک غیر مسلم حکمران مسلمانوں کے دینی شعائر کو تحفظ دے تو کیا وہ اسماعیل کے لیے قابل قبول ہوگا؟ شاہ اسماعیل کی گفتگو میں اس سوال کا جواب ابہام کا شکار ہے۔ ان کی سیاسی فکر میں ریاست کے کسی مربوط تصور کی تفصیلات کو اس قدر اہمیت حاصل نہیں جس قدر روز مرہ کے اعمال پر سیاست کے اثرات کو حاصل ہے۔ اور اُخروی نجات کے لیے اخلاقی اِصلاح پر شدید زور ہی وہ نکتہ ہے جو موضوعات ومضامین کے اختلاف باوجود تقویۃ الایمان اور منصبِ امامت میں شاہ اسماعیل کے پروجیکٹ کو مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجتاً ان کی نظر میں سیاسی اور اعتقادی حاکمیتِ اعلیٰ کا بنیادی مقصد فرد اور معاشرے کی اخلاقی اصلاح ہے۔
منصبِ امامت میں شاہ اسماعیل کے نقطۂ نظر کے اس مختصر خلاصے کے بعد میں ان کے استدلال میں کار فرما مفروضوں کی مزید وضاحت کرنا چاہوں گا۔ اگر چہ انھوں نے کسی حد تک قرونِ وسطی کی سنی سیاسی فکر کے بنیادی تصورات سے، بالخصوص بغاوت وخروج سے احتراز کے معاملے میں، اخذ واستفادہ کیا ہے، تاہم ان کی فکر کا بیش تر حصہ طبع زاد اور صرف ان کے ساتھ خاص ہے2۔ علاوہ ازیں میں کچھ تفصیل کے ساتھ ابھی جو کچھ پیش کرنے والا ہوں، وہ شرعی/ایمانی سیاست کی ایک ایسی تعبیر ہے جسے بآسانی نہ تو جدید قومی ریاست اور نہ عہد جدید سے ماقبل نظامِ خلافت کے فکری تصور اور زمانے کے نقطۂ نظر سے جانچا جا سکتا ہے۔شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر مکمل طور پر مسلمانوں کے غلبے کے دور کے سیاسی عقائد سے متاثر ہے، لیکن اصلاً اس میں ایک متعین ریاست کی خواہش کم اور روزمرہ کے رسم ورواج کے دائرے میں مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے احیا اور تحفظ کی جستجو زیادہ ہے۔ اس طرح شاہ اسماعیل کا سیاسی تصور ایک مخصوص معنی میں، جس کی تفصیلات میں عنقریب ذکر کروں گا، مسلمانوں کی سیاسی فکر کا ایک غیر لبرل ماڈل ہے جو ایک کلیدی سیاسی ادارے کی حیثیت سے جدید ریاست کے خوش کن لبرل تصور کو للکارتا ہے۔
شاہ اسماعیل کی کتاب منصبِ امامت میں غوطہ زن ہونے سے پہلے ایک آخری گذارش یہ ہے کہ استعماری جدیدیت کے آغاز میں مرتب کی جانے والی اس فارسی کتاب کے متعلق، جو پوری وضاحت کے ساتھ اُخروی نجات اور روزمرہ کے معاملات میں تقوی اور پاکیزگی پر بحث کرتی ہے، یہ مضمون اس انداز فکر کے حوالے سے ہماری تفہیم کو مزید متنوع اور پیچیدہ بناتا ہے جو امتیازی طور پر مغلیہ حکومت کے عہد شباب سے متعلق ہے، اور جو اساسی طور پر اخلاقیات اور بادشاہت کے تصورات کے زیر اثر ہے3۔
نبوی کمالات اور شفقت کی سیاسی تعبیر
شاہ اسماعیل کے مطابق سیاست کا اولین مقصد انسانوں کی اصلاح ہے، ایک ایسی اصلاح جو ان کی دنیا کو سدھارے، اور آخرت میں بھی ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ سیاست، کمالاتِ نبوی میں سے ہے4۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کی سیاسی فکر سیاستِ ایمانی اور سیاستِ سلطانی کے درمیان ایک اہم تفریق پر منحصر ہے5۔ سیاستِ ایمانی کا تعلق کمالاتِ نبوی سے ہے۔ یہ دنیوی امور کی تنظیم کے ساتھ ساتھ اخروی نجات کو بھی یقینی بناتی ہے۔ سیاستِ ایمانی کے پیچھے کار فرما بنیادی طاقت اور محرک انبیا کا اپنی امتوں کے لیے وفورِ شفقت ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ اپنے متبعین کی اخلاقی اصلاح میں لگے رہتے تھے۔ اس کے بالمقابل سیاستِ سلطانی ہے، جو حکمران کے شخصی فوائد اور مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ اپنی رعیت کے دین کی فکر کے بجاے صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا سلطانی سیاست کا خاصا ہے (ص 30)۔ شاہ اسماعیل لکھتے ہیں: "ایسے حکمرانوں کا اصل مقصد اپنے رعایا کی اخلاقی اصلاح نہیں ہوتا، بلکہ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ رعایا کی اطاعت سے اپنی ذاتی خواہشات کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں" (پس مقصودِ ایشان از سیاستِ افرادِ انسان مجرد اصلاحِ حالِ ایشان نیست، بلکہ اصلی مقصد ہمیں است کہ ایشان اطاعت ورفاقت اختیار کنند تا باعانتِ ایشان اغراضِ نفسانیۂ خود بدست آید) (ص 30)۔
سلطانی سیاست کے پیچھے اصل محرک نفسِ اَمّارہ ہوتا ہے، جو کسی حکمران کے اعمال اور فیصلوں کی سمت متعین کرتا ہے۔ نفسِ امارہ جتنا طاقت ور ہوگا، سلطانی سیاست اسی قدر فاسد اور ایمانی سیاست سے دور ہوگی۔ سیاست کی تعریف کچھ اس طرح سے کی گئی کہ وہ نفس امارہ کا اسیر بننے اور کمالات نبوی کے ذریعے اخروی نجات حاصل کرنے کے درمیان ایک مسلسل کشمکش کا نام ہے۔ اس طرح اگر چہ منصبِ امامت اور تقویۃ الایمان دونوں کتابیں اپنے اسلوب اور موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے مختلف ہیں، تاہم وہ ایک ہی وسیع تر فکری ڈھانچے کا حصہ ہیں، یعنی ایک ایسی سیاست جو نفس کی حاکمیت اور خدا کی حاکمیت کے درمیان کشمکش سے عبارت ہے۔ ان دونوں کا مرکزی موضوع اور مقصد انسانی تجاوزات اور خواہشات کے مقابلے میں خدائی حاکمیت کا تحفظ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تقویۃ الایمان میں روزمرہ کے اعمال ورسومات پر توجہ مرکوز رکھی گئی، جبکہ منصبِ امامت میں سارا زور سیاسی نظم اور قیادت پر رہا۔ لیکن جیسا کہ ذیل کی گفتگو سے معلوم ہوگا، منصبِ امامت میں شاہ اسماعیل نے ایک جائز سیاسی نظم کے کم سے کم تقاضوں کا ذکر کیا ہے۔ اگر چہ ان کی نظر میں سلطانی سیاست اور ایمانی سیاست کے درمیان تضاد ہے، تاہم وہ کسی بھی ایسے سلطانی نظم کو قبول کرنے کے روادار تھے جو شعائر اسلام کو مٹانے سے گریز کرے۔
کمالاتِ نبوی
شاہ اسماعیل کے سیاسی فلسفے میں اس تصور کو مرکزی حیثیت حاصل تھی کہ متنوع اور قابل قبول سیاسی نظاموں کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ کوئی سیاسی ہیئت اس وقت مثالی سمجھی جاتی ہے جب وہ کمالاتِ نبوی سے بھرپور ہو۔ ان کمالات میں (1) وجاہت یعنی فرشتوں اور عباد الرحمان کی نظر میں انبیا کا بلند مقام ومرتبہ (2) ولایت، یعنی انبیا کا علم ودانش اور وجدان وبصیرت (3) بعثت یعنی وہ تعلیم وتربیت جو انبیا اپنی امتوں کو دیتے ہیں – زیادہ گہرے معنوں میں ایک ایسا کمال جو انبیا کے وفورِ شفقت ومحبت سے عبارت ہے (4) ہدایت، جس کا تعلق انبیا کے ان معجزات اور فصاحت وبلاغت کی غیر معمولی صلاحیتوں سے ہے جن کی وجہ سے لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں (5) سیاست، جو ان تمام کمالات کو یکجا کر کے ان کے ذریعے ایک دین دار سماج تشکیل دیتی ہے۔
جتنا زیادہ کوئی سیاسی قائد اور اس کا سیاسی نظم ان نبوی کمالات کو اختیار کرے گا، اتنا زیادہ ان کے نبوی کمالات میں اضافہ ہوگا۔ درحقیقت کامل ترین امام وہی ہے جو ان نبوی کمالات کو پوری طرح اختیار کرے۔ شاہ اسماعیل جرات آمیز انداز میں کہتے ہیں کہ ایسے شخص میں نبی کی تمام صفات آ جاتی ہیں۔ اس کے نبی ہونے میں صرف یہ مانع ہوتا ہے کہ ختم نبوت کی وجہ سے یہ دروازہ بند ہو چکا ہے۔ (54) "وگرنہ اگر حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ یہی شخص ہوتا"۔ (در حق مثل ایں شخص تواں گفت کہ اگر بعد خاتم الانبیاء کسے بمرتبۂ نبوت فائز می شد ہر آئینہ ہمیں اکمل الکاملین فائز می گردد) (ص 54)۔
جو شخص تمام کمالات نبوی کو دل وجان سے اختیار کرے، اس کے اور حضور کے درمیان یہی فرق باقی رہتا ہے کہ حضور ﷺ پر مقام نبوت سے سرفراز تھے، اور یہ شخص اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتا (درمیان ایں امام اکمل ودرمیانِ انبیاء اللہ امتیازے ظاہر نخواہد شد الا بنفسِ مرتبۂ نبوت) (ص 54)۔ اس کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے چچا زاد/داماد حضرت علی کرم اللہ وجہہ (م 666) کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے جو الفاظ فرمائے: "تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھا، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا" ان کا مطلب یہی تھا6۔
یہاں ایک اہم نکتہ ذہن میں رہے کہ کمالاتِ نبوی صرف انبیا تک محدود نہیں، بلکہ یہ غیر انبیا بلکہ عام مسلمانوں میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ غیر نبی کبھی بھی کمالاتِ نبوی کے اس مقام پر نہیں پہنچ سکتا جس تک انبیا پہنچے ہیں، شاہ اسماعیل نے محتاط انداز میں واضح کیا۔ تاہم کمالات نبوی میں نبی اور غیر نبی کے درمیان معنوی مماثلت ہو سکتی ہے (ص 52)۔ سیاسی قیادت کے مختلف مناصب اور درجات کا دار ومدار کمالات نبوی میں مماثلت کے درجے کے اعتبار سے ہے۔ ایک سیاسی حکمران میں یہ مماثلت جتنی مضبوط اور جتنے وسیع پیمانے پر ہوگی، اتنا ہی زیادہ وہ نبوی رنگ میں رنگا ہوا ہوگا۔ امامتِ حقیقیہ کی خاصیت یہی تھی کہ تمام کمالاتِ نبوی سے اس کی کامل مشابہت تھی۔
ایسی مثالی قیادت کی بہترین مثال نبی اکرم ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا زمانہ ہے۔ شاہ اسماعیل کے مطابق یہ ایک ایسا عہد تھا جس میں "شمعِ امامت شیشۂ خلافت میں جلوہ گر تھی" (چراغِ امامت در شیشۂ خلافت جلوہ گر گردید) (ص 74)۔ یہی وہ حالت ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی تربیت کے باب میں خدا کا احسان اپنی انتہا کو پہنچ گیا (نعمتِ ربانی در بابِ پرورشِ نوعِ انسانی بہ تمام رسید) (ص 74)۔ خلیفۂ راشد ایک مثالی حکمران ہوتا تھا، قطع نظر اس کے کہ وہ عوام کی نظر میں مقبول یا قابل قبول تھا یا نہیں۔ بعض اوقات ایک خلیفۂ راشد کو اپنے عوام کی مکمل تائید حاصل نہیں ہوتی تھی، جیسا کہ حضرت علی کے زمانۂ خلافت میں تھا۔ ایک منتشر حکومت اگر چہ ایک مُنَظم حکومت کے مقابلے میں کم تر تھی، تاہم وہ پھر بھی خلیفہ کی حکومت واقتدار سے منحرف نہ ہوئی (ص 75)۔
شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ بعض خلفا نے بعض دیگر خلفا کے مقابلے میں زیادہ عوامی تائید حاصل کی، بالکل اسی طرح جس طرح بعض انبیا اپنا پیغام لوگوں کو پہنچانے میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ کام یاب رہے، لیکن اس فرق سے ان کے منصبِ امامت میں کسی قسم کی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی۔ تاہم خلافتِ راشدہ مستحکم تھی اور ایمانی سیاست کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے درکار تمام صفات سے متصف تھی۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مثالی نظام کی ایک بنیادی مثال ہیں۔ یہاں آکر شاہ اسماعیل ایک اہم اور ممکنہ طور پر دور رس اثرات کی حامل توجیہ بیان کرتے ہیں: "خلافتِ راشدہ کسی مخصوص عہد یعنی آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد کی تین دہائیوں سے خاص نہیں"۔ یہ مقدمہ قائم کرنے کے لیے شاہ اسماعیل نے "خلیفۂ راشد" کی تعریف اس طرح کی ہے: "خلیفۂ راشد وہ شخص ہے جو منصبِ امامت پر فائز ہو، اور اس کی وجہ سے ایمانی سیاست کے ابواب کا ظہور ہو" (خلیفۂ راشد عبارت است از شخصے کہ صاحبِ منصبِ امامت باشد، وابوابِ سیاستِ ایمان از او ظاہر شود) (ص 77)۔ اسماعیل کے مطابق یہ نمایاں خصوصیت صرف چار خلفاے راشدین یا حضور اکرم صلی اللہ کے زمانے تک محدود نہیں۔ (خواہ در زمانِ سابق ظاہر شود، خواہ در زمانِ لاحق، خواہ در اولِ امت باشد خواہ در اواخرِ آں) (ص 77)۔
مزید برآں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ خلیفۂ راشد کا سابقہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لگایا جائے گا جو کوئی مخصوص شجرۂ نسب یا خاندانی پس منظر مثلاً رسول اللہ ﷺ کے قبیلے قریش سے تعلق رکھتے ہوں۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو خلافت راشدہ کو تیس سال کے عرصے تک محدود کرتی ہیں، تو شاہ اسماعیل نے ان کی توجیہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے مراد مسلسل اور غیر منقطع زمانۂ خلافت کے تیس سال ہیں۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ایسی مسلسل خلافتیں صرف تیس سال تک رہیں، اس لیے مزید خلافتوں کا امکان ختم نہیں ہوا۔ ایک فرضی قیاس کی صورت میں شاہ اسماعیل نے خلیفۂ راشد کے سایے میں کی جانے والی سیاستِ ایمانی کا موازنہ رات کے ایک طویل اور گھپ اندھیرے کے بعد دن کی نا قابلِ تبدیل روشنی کے ظہور سے کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دونوں سیاسی نظام گردشِ لیل ونہار کی طرح آتے جاتے ہیں کہ رات کے بعد دن کی روشنی ظاہر ہوتی ہے (تبدل قسمین خلافت را تبدُّلِ لیل ونہار قیاس باید کرد کہ بعد از زمانۂ لیل ونہار آشکارا می گردد) (ص 80)۔ اسی طرح اہل ایمان کو ہمیشہ خلافتِ راشدہ کے الٰہی تحفے کے حصول کی امید اور جد وجہد کرنی چاہیے۔ "انھیں ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے" (ہرگز مایوس نباید شد) (ص 80)۔
سلطانی سیاست اور اس کے اثرات
اگر چہ سیاستِ ایمانی میں داخل خلافتِ راشدہ ایک مثالی تصور تھا، تاہم یہ واحد قابل قبول صورت نہ تھی۔ شاہ اسماعیل نے اپنے مثالی تصور کو ایک حقیقی تجویز سے ملا کر کہا کہ اگر چہ سیاستِ سلطانی پر مبنی نظام خلافتِ راشدہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، پھر بھی اس کی نصرت وتائید ضروری ہے۔ اس اصول میں صرف ایک صورت کی استثنا ہے کہ جب کوئی سیاسی قائد یا نظام صراحتاً کفر کی وکالت کرے، اور ڈھٹائی سے سنتِ نبوی کی مخالفت کرے؛ اس وقت حکمران کے خلاف بغاوت جائز ہو جاتی ہے۔ اسماعیل نے سنتِ نبوی اور انسانی جسم وحواس کے درمیان ایک مماثلت قائم کرکے اس بات کی وضاحت کی۔
وہ کہتے ہیں کہ انسان ظاہری اعضا جیسے پٹھے ہڈیاں وغیرہ اور ان کے مقابلے میں ذرا باطنی حواس جیسے باصرہ، شامہ، سامعہ اور تخیل سے مرکب ہے۔ اسی طرح شرعی قوانین اور احکام کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے، اور ایک باطنی حقیقت جو اصل مقصد سے جڑی ہوتی ہے۔ اس صورت میں شریعت ایک مُجَسم انسان کی طرح ہے (شریعت را بمشابہِ یک شخصِ مجسم باید فہمید) (ص 56)، شاہ اسماعیل نے دعوٰی کیا۔ سیاست کی ساخت بھی بعینہ یہی ہے۔ سیاستِ ایمانی پر مبنی مثالی سیاسی نظام، جو خلیفۂ راشد کے زیرِ سایہ قائم ہو، سیاست اور امامتِ حقیقیہ کے باطنی حقائق کی نمائندگی اور تنفیذ کرتا ہے۔ ایسا حکمران زمین پر نبی کا سایہ ہے جو قانونِ الٰہی کے اساسی تقاضوں کی تنفیذ کرے (ص 56)۔
اس کے بالمقابل سیاستِ سلطانی قانون وسیاست کے ظاہری جسم کی طرح ہے جو قانون وسیاست کی داخلی روح اور گہرے مقاصد سے لاتعلق ہے۔ شاہ اسماعیل نے سیاستِ ایمانی اور سیاستِ سلطانی کے درمیان تعامل کی وضاحت صاف اور میٹھے پانی کے گدلے اور گندے پانی کے ساتھ ملنے اور خلط ہونے سے کی ہے۔ جتنا آلودہ پانی صاف پانی میں ملتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ ناقابل استعمال ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح سیاستِ سلطانی نے سیاستِ ایمانی کو بھی بگاڑ دیا ہے۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ اول الذکر نے آخر الذکر پر غلبہ حاصل کیا اور غالب سیاسی نظام کی حیثیت سے ابھرا (ص 89)۔ لیکن سیاستِ ایمانی اور سیاستِ سلطانی میں سادہ فرق کیا تھا؟ اور اس فرق کی بنیاد کیا تھی؟
شاہ اسماعیل بتاتے ہیں کہ اگر سیاستِ ایمانی کا بنیادی مقصد امت کی اخلاقی اصلاح ہے، تو سیاستِ سلطانی کی غرض وغایت حکمران کی نفسانی اغراض اور خواہشات ہیں۔ خلفاے راشدین، جنھوں نے سیاستِ ایمانی کی کشتی چلائی، کسی بھی پہلو سے خواہشاتِ نفسانی کی تسکین میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اپنی رعیت کی اخروی تربیت کا نبوی مشن ہی ان کا واحد مقصد تھا۔ وہ اطاعتِ الٰہی کے مقابلے میں خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کو شرک کی ایک قسم سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس سلطانی حکمران صرف خواہشاتِ نفسانی کی تسکین میں لگا رہتا ہے۔
اس طرح سے نفس کے تقاضوں کا اسیر بن جانے کی کئی صورتیں ہیں۔ کچھ حکمران فتوحات کے پیاسے ہوتے ہیں، اور کچھ اپنے دوستوں اور معاونین سے اپنے لیے وفاداروں کا مجمع اکٹھا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کچھ دولت جمع کرنے میں رغبت رکھتے ہیں، اور کچھ جسمانی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کی عادت سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ اگر چہ علامات مختلف ہیں لیکن جس بیماری سے یہ نظم سیاست پیدا ہوتی ہے، وہ ایک ہے: خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اگر چہ سلطانی سیاست میں سیاسی طاقت اور غلبہ زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ طرزِ سیاست مجموعی طور پر شریعت کی بنیادوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ شاہ اسماعیل کہتے ہیں: "اس قسم کی سیاست مقام عبودیت کے لیے نقصان دہ ہے" (تخم ایں خار نقصان است در مقامِ عبودیت)(ص 91)۔
لیکن اس کے باوجود کہ سیاستِ سلطانی سیاستِ ایمانی کو دبانے کے تباہ کن عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے، پھر بھی مؤخر الذکر کی کھلی تردید یا اس کے خلاف بغاوت لازم نہیں۔ اصل میں کسی بھی سیاسی حکمران کے خلاف ایسا باغیانہ رویہ صرف انتہائی حالات میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔ شاہ اسماعیل کے استدلال میں ایک اہم پہلو حکمرانوں کی خواہشاتِ نفسانی کی اتباع کی سطح پر غور وفکر کرنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس مسئلے کی سطح کو ناپنا ضروری ہے۔انھوں نے حکمرانوں کو چار علیحدہ طبقات میں تقسیم کرکے ان کے متعلقہ سیاسی نظام پیش کیے جن میں سے ہر ایک مختلف معاملہ اور رد عمل چاہتا ہے۔ میں شاہ اسماعیل کے کھینچے گئے خاکے کے مطابق ان طبقات کے نمایاں خد وخال کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ جس طرح وہ ان میں سے ہر طبقے کو دیکھتے اور اس کی خصوصیات بیان کرتے ہیں، وہ ان کی سیاسی فکر پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ سیاسی دائرے میں کیے جانے والے اس تجاوز کی حدود کیا ہیں جو ان کے نزدیک قابل قبول تھا۔
سلطنتِ عادلہ
سیاستِ سلطانی کی پہلی قسم وہ ہے جسے شاہ اسماعیل سلطنتِ عادلہ کا نام دیتے ہیں۔ سیاست کی یہ قسم بہت زیادہ خراب اور محل نظر نہیں۔ تاہم اس کے باوجود عادل سلاطین سلطانی سیاست سے جڑی تمام بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ اقتدار کے بھوکے، عیاش، جاہ پرست اور جسمانی لذتوں کے دل دادہ ہوتے ہیں۔ وہ بڑی یادگاریں تعمیر کرنے، عمدہ گھوڑے پالنے، اسلحہ جمع کرنے اور شان دار باغات لگانے کو اپنی بڑی کامیابیاں تصور کرتے ہیں۔ مزید برآں انصاف کی فراہمی کے وقت ان کے فیصلے پر ان کی ذاتی پسند وناپسند اثر انداز ہوتی ہے اور وہ ایک ہی جرم کے مرتکب بعض مجرموں کو اوروں کے مقابلے میں زیادہ رعایت دیتے ہیں (ص 94)۔
تاہم ان کی تمام تر نادانیوں کے باوجود وہ اہل ایمان وتقوی کے عوامی تشخص کو برقرار رکھتے ہیں، اور مذہب کے حدود کے اندر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی کی تسکین کے وقت وہ اتنا لحاظ کرتے ہیں کہ شریعت کی حدود کو پامال نہ کریں۔ انھوں نے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہو کر خود کو لگام دی ہوتی ہے۔ ان کا نفس انھیں برائیوں پر ابھارتا ہے، لیکن ان برائیوں کے رستے میں خوفِ خدا حائل ہو جاتا ہے۔ شاہ اسماعیل نے ایک دل چسپ مثال سے اس رویے کی وضاحت کی ہے: "مثلاً اس حکمران کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے، اور اس سے جنسی مباشرت کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے۔ پھر بھی وہ اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو عقد نکاح کے ذریعے ہی پورا کرتا ہے۔ وہ شادی کی خواہش میں مکمل دیوانا ہوجاتا ہے، اور اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت اور پیسے کو پانی کی طرح بہاتا ہے۔ لیکن شادی تک انتظار کرکے وہ ایک صریح حرام عمل کے ارتکاب سے خود کو بچاتا ہے، اور حلال کے دائرے کے اندر رہتا ہے" (ص 99)۔ شاہ اسماعیل لکھتے ہیں کہ "ایمان کا شعلہ اس کے دل کے اندر فروزاں رہتا ہے۔ لیکن اس پر خواہشِ نفس کے اندھیروں کا دبیز پردہ پڑا رہتا ہے۔ اور جوں ہی یقین کی بجلی اس کے دل کو روشن کرتی ہے تو وہ روشنی نیت کی خرابی سے جنم لینے والے اندھیروں میں چھپ جاتی ہے" (اصلِ شعلۂ ایمان در دلِ او افروختہ است، فاما دودِ ہواء وہوس بہ او آمیختہ، وبرقِ یقین بر دلِ او درخشندہ فاما ظلماتِ تغیرِ نیتِ او پوشیدہ (ص 100)۔
اگرچہ وہ اپنے ماتحتوں کی اخروی نجات کی کوشش نہیں کرتے، تاہم سلطانی حکمران دیگر امور ریاست مثلاً جنگیں لڑنے، بغاوتوں کو کچلنے اور امن وامان کے قائم کرنے میں چابک دست ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر چہ ایسے حکمران اپنی قوم کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کم ہی کچھ کرتے ہیں، لیکن وہ (مسلمانوں کی سیاسی برتری کو قائم رکھ کر) شریعت کے خارجی مظاہر کا تحفظ کرتے ہیں۔ اسی لیے، شاہ اسماعیل نصیحت کرتے ہیں کہ ایسے حکمرانوں کے ماتحتوں کو ان کی مکمل تائید کرنی چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سے سرزد ہونے والے بعض خلافِ سنت اعمال سے چشم پوشی کرنی چاہیے، اور دل وجان سے اس کی خیر خواہی کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کی معمولی کوششوں کو بہت کچھ سمجھنا چاہیے، اور اس کے چھوٹے اعمال کو بڑے اعمال کی نظر سے دیکھنا چاہیے (بعضے امور خلافِ سنت از او ظاہر می گردد، واز آں چشم باید پوشید، ودر خیر خواہی او بجان ودل باید کوشید۔ سعی قلیل او را بجاے کثیر باید شمارد، واعمال صغیر او را بجاے اعمال کبیر) (ص 104)۔ وہ اپنے نقطۂ نظر کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ: "انھیں ایسا سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ رب العالمین کے دین کی خدمت بھی کر رہا ہے" (حساب باید کرد کہ ہر چند باستیفاے لذتِ نفسانیہ مشغوف است اما بخدمت گزارئی دینِ رب العالمین موصوف) (ص 104)۔
سلطنتِ جابرہ اور سلطنتِ ضالّہ
شاہ اسماعیل کے مطابق سیاست کے سلطانی نظام کی اگلی دو قسمیں "سلطنتِ جابرہ" اور "سلطنتِ ضالّہ" (گم راہ سلطنت) ہیں۔ جابر حکمران سراپا نفسِ امارہ کے اسیر ہوتے ہیں۔وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کا نفس کہتا ہے، یہ پروا کیے بغیر کہ ان کے اعمال شریعت کے دائرے کے اندر ہیں یا باہر۔ وہ عوام کے سامنے اپنے آپ کو ایک اخلاقی مثال کی صورت میں پیش کرنے کی ذمہ داری سے بھی بے پروا ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کی طرح جابر حکمرانوں کی اخلاقی کمزوریاں کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں جس کا دار ومدار کسی مخصوص حکمران کے مزاج اور رجحانات پر ہے۔ شاہ اسماعیل نے مغل اشرافیہ کی طرف ایک واضح اشارہ کرتے ہوئے ان کمزوریوں میں سے چند کو بیان کیا ہے، مثلاً نشہ کرنا، عمدہ ملبوسات اور غذاؤں کا خوگر ہونا، ناچ گانے کی محفلوں اور شطرنج جیسے کھیلوں کی سرپرستی کرنا۔ ان عادات کے لیے صرف ایک ہی مہارت چاہیے ہوتی ہے اور وہ ہے اسراف۔ نتیجتاً ان عادات نے سوائے اسراف کے اور کسی چیز کو فروغ نہیں دیا (ص 104–7 )۔
حکمران کی جانب سے آرام وآسائش اور خواہشات کی تسکین کو اہمیت دینے کے رجحان نے مملکت کی اخلاقی حالت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں ظلم واستحصال میں اضافہ اور شدت آئی ہے۔ شاہ اسماعیل نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کہ اسراف کے لیے مسلسل دولت کے حصول کی ضرورت ہے اور دولت جمع کرنے کی نہ ختم ہونے والی ضرورت نے ناانصافی کے متعدد دروازے کھول دیے ہیں، جیسے غریبوں کا استحصال کرنا اور تاجروں اور صنعت کاروں کے مفادات کو بالکل خاطر میں نہ لانا۔ مزید برآں چونکہ سیاسی اشرافیہ کھیل کود اور آرام وآسائش میں مگن ہے، اس لیے سلطنت کا امن وامان اور انصاف کا نظام ناکارہ ہو گیا ہے۔ حکمران کے لحاظ اور نگرانی سے بے پروا رعایا ایک دوسرے کے ساتھ ظلم اور ناانصافی پر اتر آئے ہیں۔ اس طرح سے حکمرانوں کے اسراف وعیاشی نے پوری امت کی اخلاقی عمارت کو متزلزل کر دیا ہے۔ شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ ایسی سلطنت ایک "بڑی مصیبت (بلاے عظیم)" ہے (ص 107)۔
لیکن ان حکمرانوں کی طرف سے دیے گئے تمام مصائب کے باوجود ان کی رعایا کو چاہیے کہ ان کی تائید اور اطاعت کریں۔ شاہ اسماعیل علی سبیل التنزل بتاتے ہیں کہ ان تمام تر تباہ کن رجحانات کے باوجود جابر حکمران "خود کو مسلمانوں میں سے شمار کرتا ہے" (جانِ خود را از مسلمین شمارد) (ص 116)۔ شاہ اسماعیل اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، "اس لیے کبھی کبھی دین متین کی حمایت اور شرع مبین کی غیرت اس کے دل میں جوش مارتی ہے، اور اس کی بنا پر وہ رب العالمین کے کلمے کی سربلندی کی کوشش کرتا ہے (گاہ گاہ حمایتِ دینِ متین وغیرتِ شرعِ مبین از دلِ او می جوشد، وبنا بر آں اعلاے کلمۂ رب العالمین می کوشد) (ص 116)۔
شاہ اسماعیل کے استدلال میں مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اگر چہ حکمران مذہب کے مقرر کردہ حدود سے بےپروا اور علماے دین کے مشورے سے غافل ہے، تاہم وہ پھر بھی اسلام کو کچھ فائدہ اور غیرمسلموں کو کچھ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وہ کئی پہلوؤں سے ایسا کر سکتا ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ جابر حکمران اگر چہ خدا سے دور ہے، پھر بھی مسلمان ہونے کی اساس پر اس سے یہ توقع ہے کہ وہ اہل ایمان کو کافروں کے مقابلے میں ترجیح دے گا۔ مثال کے طور پر جب وہ وزیروں مشیروں اور افسر شاہی کے اہم افراد کی تعیناتی کرے گا تو وہ ہمیشہ مسلمانوں کو غیر مسلموں پر ترجیح دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر چہ وہ خدا کا سب سے پسندیدہ شخص نہیں ہے، پھر بھی اس نے مسلمانوں کے معاشرتی مقام کو بڑھانے اور کفار کے مقام کو گھٹانے میں اپنا کردار ادا کیا (ص 115)۔ اس بادشاہ کو "ایک اندھے مشعل بردار (کور مشعل دار)" کی طرح سمجھنا چاہیے (ص 116)۔
دوسری بات یہ ہے کہ بسا اوقات ان حکمرانوں کے تجاوزات بھی نیک نیتی پر مبنی ہوتے ہیں، یا اس کی مناسب توجیہ کی جا سکتی ہے۔ مثلاً حکمران فضول خرچ ہے، اور اپنے خزانے کو عالی شان تعمیرات میں صرف کرتا ہے۔ لیکن خدا سے اپنے تعلق کے اظہار کے لیے عالی شان، خوب صورت اور شان دار مساجد کی تعمیر میں بھی بار بار خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ شاہ اسماعیل اعتراف کرتے ہیں کہ یہ فضول خرچی اور اسراف شریعت کے اعتبار سے غیر مطلوب اور خدا کی نظر میں ناپسندیدہ ہے، لیکن اسے ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حکمران مساجد کی تعمیر جیسی عبادات میں بے تحاشا اس لیے خرچ کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اخروی ثواب حاصل کر سکے۔ شاید اس کی دلیل یہ ہو کہ "جتنا میں (ان نیک کاموں) میں خرچ کروں گا، اتنا زیادہ مجھے آخرت میں ثواب ملے گا" (ص 115)۔ اس لیے اگر چہ ایسی فضول خرچی غیر مطلوب ہے، لیکن اس کی رعیت کو چاہیے کہ اس کے اخلاص کو مد نظر رکھے۔ اس کی رعیت بالخصوص مذہبی اشرافیہ کو سمجھنا چاہیے کہ جابر حکمران ان کی اخلاقی رہ نمائی اور ہدایت کا عمدہ امیدوار ہے، اور اس کے سامنے حق کا اظہار افضل عبادات میں سے ہے (سلطانِ جابر بلا ریب محتاجِ امر بالمعروف است، واظہارِ حق بحضورِ او افضلِ عبادات)7 (ص 116)۔ تاہم شاہ اسماعیل فورًا ایک تنبیہ کا اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "یہ رہ نمائی اور ہدایت کبھی بھی ایسی کشمکش یا مخالفت میں نہیں بدلنی چاہیے جو بغاوت کی حد تک پہنچے۔ امام جابر کے خلاف خروج کرنا شریعت کی رو سے ناجائز ہے (خروج بر امامِ جابر شرعًا جائز نیست)" (ص 117)۔
شاہ اسماعیل کی ذکر کردہ تیسری قسم سلطنتِ ضالّہ میں سلطنتِ جابرہ کی تمام بری صفات موجود ہوتی ہیں، لیکن ذرا زیادہ واضح اور بے لچک انداز میں۔سلطنتِ جابرہ میں موجود تمام خرابیوں اور کمزوریوں کو سلطنتِ ضالّہ میں ریاستی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے، اور وہ سیاسی اور معمول کی زندگی کی بنیاد میں جگہ پکڑ لیتی ہیں۔ زندگی کے تمام پہلوؤں میں خدائی اور نبوی نظام کے مقابلے میں ایک حریف اخلاقی نظام بسیرا کر لیتا ہے۔ خدا نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا، ان کا ارتکاب علی الاعلان کیا جاتا ہے، اور جسے اس نے فرض قرار دیا ہے، اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ شرعی احکامات اور حدود کی ایسی شدید الٹ پلٹ کا اظہار سیاسی حکمرانوں کو "شہنشاہ" جیسے القابات سے پکارنے، سونے اور چاندی کے برتنوں کو استعمال کرنے اور نوروز، دیوالی اور ہولی جیسے غیر اسلامی تہواروں کو منانے سے ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ غلط رسمیں عام ہو گئی ہیں تو جو اعمال صرف اسلام کے ساتھ خاص ہیں جیسے کسی کو سلام کہنا، حج بیت اللہ کرنا، علم وذکر کی مجلسوں میں شریک ہونا اور ان سے استفادہ کرنا، وہ اس قدر مٹ گئے ہیں گویا وہ حرام ہیں (ص 116 – 20)۔
لیکن اس تمام تر اخلاقی بدحالی کے باوجود شاہ اسماعیل ایک بار پھر ان حکمرانوں کو رعایت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ کم از کم خود کو مسلمان تو پکارتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ "باوجود یکہ ان جیسے حکمران بد تر کفار اور جہنمی لوگوں میں سے ہیں، لیکن یہ اپنی زبان سے ایمان کا دعوٰی تو کرتے ہیں، اس لیے ان کا کفر مستور اور ایمان ظاہر وباہر ہے (ہر چند امثالِ ایں سلاطین فی الحقیقت از قبیلِ کفارِ اشرار اند، و از جنسِ اہلِ النفرہ، فاما از بس کہ بزبانِ خود دعواے اسلام می کنند پس کفرِ ایشان مستور است وایمانِ ایشان ظاہر وشاہد) (ص 120)۔
پس نتیجہ یہ ہے کہ سلطنت میں واقع اخلاقی انتشار کے باوجود مسلمانوں کے کم سے کم دینی شعائر جیسے "اسلامی احکام کے مطابق لڑکیوں کی شادی کرانا، عید منانا اور تدفین کی اسلامی رسموں پر عمل کرنا" عوامی دائرے میں بغیر کسی تعطل کے قائم ہیں (ص 120)۔ ان بنیادی اعمال کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ امت نے ابھی شریعت کو مکمل طور پر خیر باد نہیں کہا ہے۔ کیا اس صورتِ حال میں امت کو سیاسی قیادت کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے؟ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ یہ سوال بحث کے لیے کھلا ہے۔ اس بغاوت کے حق اور مخالفت دونوں کے بارے میں معقول علمی دلائل موجود ہیں۔
اس سوال کے جواب میں ان کا ذاتی موقف اس امر پر منحصر ہے کہ ایسے کسی اقدام کے نتائج کیا ہوں گے۔ وہ اس اقدام کے عملی نتائج کو مد نظر رکھ کر استدلال کرتے ہیں کہ اگر اس سے سیاسی انتشار اور خلا پیدا ہوتا ہے تو یہ غیر مطلوب ہے، لیکن اگر یہ یقینی ہے کہ اس طرح کی بغاوت سے خلافتِ راشدہ یا سلطنت عادلہ کا نظام جنم لے گا تو پھر یہ مطلوب ہے۔ ایک سیدھا اور بے لچک فقہی موقف دینے کے بجائے شاہ اسماعیل کا استدلال اس امر پر منحصر ہے کہ امت کی بہتری کس اقدام میں ہے۔
سیاستِ سلطانی کی پہلی تین قسموں کے خلاف بغاوت کی سخت ممانعت کے مقابلے میں سلطنتِ ضالّہ کے بارے میں ان کا موقف مزید مبہم ہے۔ اس ابہام کو انھوں نے ایک اور انوکھے اور عجیب طریقے سے اور مسجع مقفی انداز میں بیان کیا ہے (اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں): "گم راہ سلطان مفسدین کا سردار اور بدعتیوں کا امام ہوتا ہے۔ اس کی سربراہی دین کے لیے سم قاتل اور اس کی حکومت کتاب وسنت کی رو سے باطل ہوتی ہے۔ لیکن جب تک وہ خود کو اسلام سے منسوب کرتا ہے، اس وقت تک اس کے کفر میں شک ہے۔ اور اس بنا پر اس کے خلاف بغاوت اور کی اطاعت سے خروج دونوں اختلافی مسائل میں سے ہیں (سلطانِ مضل ہر چند رئیسِ المفسدین است وامام المبتدعین، وریاستِ او بہ نسبتِ دین سمتے قاتل وامامتِ او بحکمِ کتاب وسنت و ہمے است باطل، اما از آنجا کہ راہِ معاملۂ اسلام بہ او مسلوک است تکفیر مشکوک بناءً علیہ اظہارِ بغا بر وے وخروج از اطاعتِ او نیز از مسائلِ اختلافیہ است) (ص 122)۔ لیکن شاہ اسماعیل آگے بتاتے ہیں کہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ نہ تو بغاوت برپا کرنے میں جلدی کرنی چاہیے اور نہ ہی اس شخص پر لعنت ملامت کرنا چاہیے جو بغاوت برپا کرے۔
سلطنتِ کفر
شاہ اسماعیل کے مطابق سلطانی سیاست کی چوتھی اور بدترین قسم "سلطنتِ کفر" کے خلاف اقدام کرنے میں کوئی ابہام، اختلاف، تنبیہ یا غور وکفر کی ضرورت نہیں۔ شاہ اسماعیل نے احتیاط سے واضح کیا کہ سلطنتِ کفر سے مراد ایک ایسا سیاسی نظام نہیں جو کفار کے ماتحت ہو۔ اس میں بھی حکمران مسلمان ہوتا ہے، لیکن وہ پوری ڈھٹائی اور بے پروائی سے احکامِ شریعت کو پامال کرتا ہے۔ دنیوی خواہشات ولذات میں ڈوبا ہوا ایسا حکمران اور اس کے ماتحت بنیادی عقائد جیسے توحید الہی، نبوت اور آخرت پر ایمان سے ہاتھ دھو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلسل ان لوگوں کا تمسخر کرتے ہیں اور انھیں بے وقوف کہتے ہیں جو دنیوی لذتوں اور آسائشوں کا اسیر بننے میں ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں بنتے۔ ان کے اپنے الفاظ میں "وہ سنتِ نبوی کی پروا کرنے کو حماقت، روزمرہ کی عادات واطوار میں دین کی حدود کی پابندی کو کمینگی اور خدا پر توکل کو کم زوری اور بے عملی سمجھتے ہیں" (124ص )۔
اور یہ وہی نکتہ ہے جس پر شاہ اسماعیل نے جارحانہ انداز میں اپنی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وہ نوحہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ستم بالاے ستم یہ کہ اس استہزائی رویے سے اس کے پیروکاروں اور ماتحتوں کی نظر میں خدائی شریعت کا مقام ومرتبہ گھٹ جاتا ہے۔ نتیجتاً تمام دنیوی معاملات میں سلطانی قانون خدائی قانون پر غالب آ جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بدحواسی تب پیدا ہوتی ہے جب سلطانی نظام کے احکامات پر عمل کرنے کو ذہانت ونکتہ رسی جبکہ شریعت کی نظر میں مطلوب امور کی اتباع کو بے کار اور احمقانہ قرار دیا جاتا ہے (ص 124)۔
ایسے حکمرانوں کو ان کا تکبر اور خود ستائی ناگزیر طور پر اس حد تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ نبوت اور بالآخر خدائی کا دعوٰی کر بیٹھتے ہیں۔ اس طرح خدائی حاکمیت کے لیے ان کی بے لگام خواہش نکتۂ عروج کو چھو لیتی ہے اور کفر میں لت پت اور اخروی نجات کے تصور سے بالکل عاری ایک متبادل اخلاقی اور سیاسی نظام وجود میں آ جاتا ہے۔ ایسی سلطنت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ شاہ اسماعیل اس سوال کے جواب میں کسی ابہام سے کام نہیں لیتے۔ اس صورت میں پوری امت پر فرضِ عین ہے کہ بغاوت کرے، یا اگر ان میں بغاوت کی استطاعت نہیں تو کسی دوسرے مسلم ملک کی طرف ہجرت کریں۔ اس صورتِ حال میں مسلم امت کے سامنے بغاوت یا ہجرت کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں، اس کو ثابت کرنے کے لیے شاہ اسماعیل نے جو استدلال کیا ہے، وہ ان کی سیاسی فکر کی طرف ایک اہم دریچہ وا کرتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک ایسی مسلمان سلطنت جس میں تمام کفریہ شعائر کا اظہار ہو، ایسے ہی ہے جسے کافروں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے (بمشابہۂ غلبۂ کفار است) (ص 125)۔ ایسی سلطنت کا فرمانروا عوامی دائرے میں کفریہ شعائر کو معمول بنا دیتا ہے۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک یہی وجہ ہے کہ "ایسے حکمران کے خلاف مزاحمت کرنا اور اسے قتل کرنا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے" (ص 125)۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر لوگوں کو چاہیے کہ کسی ایسی جگہ کی طرف ہجرت کر جائیں جہاں اسلامی شعائر موجود ہوں (ص 125)۔ یہ استدلال شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر اور تصور کے ایک انتہائی اہم پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔
سیاسی قیادت کی اہلیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ اسماعیل کی نظر میں حکمرانوں کے عزائم یا انفرادی تقوی کے بجاے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ عوامی دائرے میں اسلام کی طاقت اور کردار پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی حکمران اخلاقی برائیوں میں ڈوبا ہوا ہو، تب بھی وہ ان کے لیے قابل قبول ہے، جب تک کہ وہ اسلام کے سیاسی غلبے کو قائم رکھ سکتا ہو اور عوامی دائرے میں دینی شعائر کا تحفظ کر سکتا ہو۔ ایک مسلمان حکمران بغیر قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے، جب اس کی سلطنت کفار کے ماتحت سلطنتوں کے مشابہ بننا شروع ہو جائے۔ شاہ اسماعیل کے تجزیے کی رو سے کسی حکمران کی اخلاقی پستی اس صورت میں محلّ نظر ہے جب وہ سیاسی طاقت پر نقصان دہ اثرات مرتب کرے، اور لوگوں کی نظر میں شرعی اعمال کی بے توقیری کا سبب بنے۔ شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر کی بنیادیں ایک ایسے سلطانی سیاسی عقیدے پر استوار تھیں جو اسلام کے سیاسی غلبے کو دیگر تمام امور پر فوقیت دیتا تھا۔ جب تک یہ مقصد حاصل تھا، وہ ایک مثالی خلافتِ راشدہ سے سنگین انحرافات کو بھی برداشت کرنے کے روادار تھے۔ ان کی برداشت صرف اس صورت میں جواب دیتی تھی جب ایک سیاسی حکمران یا نظام مکمل طور پر کفر کی حاکمیت سے ہم آہنگ ہو جائے۔
سلطانی سیاسی عقائد
اب اس سوال کی طرف مڑتے ہیں جو میں نے اس باب کے آغاز میں اٹھایا تھا: شاہ اسماعیل کی نظر میں سیاست کی مثالی شکلیں کیا تھیں؟ جیسا کہ سابقہ تجزیے سے ثابت ہوتا ہے، ان کی سیاسی فکر میں مثالی سیاست سے لے کر کم از کم قابل قبول سیاست تک وسیع امکانات کا ایک سلسلہ ہے۔ لیکن ان تمام صورتوں میں وہ امت کی اخلاقی اصلاح کے بارے میں غیر معمولی فکر مند نظر آتے ہیں۔ سیاست کا مقصد اخلاقی اصلاح اور نبوی اوامر کی روشنی میں امت کی اخروی نجات کی کوشش کرنی ہے۔ شاہ اسماعیل کہتے ہیں کہ اصل سیاسی حکمران وہ ہے جو امت کو اخروی نجات کی طرف بلاتا (صاحبِ دعوت) ہو۔ تاہم اس کے اندازِ دعوت میں غیرمعمولی تنوع پایا جا سکتا ہے۔ یہ کمالاتِ نبوی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش سے لے کر روحانی پاکیزگی کے لیے بنیادی اعمال کی ادائیگی تک پھیلا ہوا ہے۔ جب تک سیاسی حکمران اس دعوت کو کسی بھی شکل میں سر انجام دیتے رہیں گے، وہ جائز اور قابلِ اطاعت رہیں گے۔ جب اخلاقی اصلاح اور اخروی نجات کی دعوت کی توقع مکمل طور پر ختم ہو جائے تو اس کے بعد کسی سیاسی نظام یا حکمران کو مشکل سے ہی جواز دیا جا سکتا ہے۔
آخر میں سیاسی قیادت سے متعلق شاہ اسماعیل کے خیالات میں چند بنیادی ابہامات قابلِ ذکر ہیں۔یہ امر بہت قابل غور ہے کہ ان کی بحث کے نظریاتی پہلوؤں کو ان کی اپنی زندگی میں موجود سیاسی حالات اور کرداروں سے مربوط کرنا مشکل ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اشرافیہ کے عادات واطوار پر ان کی تنقید، جس میں پرشکوہ تعمیرات اور شطرنج سے محبت کی مثالیں بار بار دی گئی ہیں، کا رخ مغل اشرافیہ کی طرف تھا۔ تاہم ٹھیک سے یہ بتانا مشکل ہے کہ ان کی اپنی درجہ بندی کے مطابق انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان میں رائج سیاسی نظام کی شرعی حیثیت کیا تھی؟ ہندوستانی مسلمانوں سے کسی اور جگہ ہجرت کر جانے کا علی الاعلان مطالبہ نہ کرنے سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں ہندوستان "سلطنتِ کفر" نہیں تھا۔ لیکن پھر ہندوستان تھا کیا؟ مسئلہ اس وقت مزید الجھ جاتا ہے، جب شاہ اسماعیل ایسی سلطنت کی حیثیت کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں جو کسی غیر مسلم کے زیرِ تسلط ہو، اور اس میں شریعت کے تقاضوں پر عمل در آمد کیا جا رہا ہو۔ کیا کوئی بھی غیر مسلم حکمران ناقابلِ قبول ہے، یا صرف وہی جو غیر علانیہ کافر ہو، یا وہ جو علی الاعلان شریعت کی مخالفت کرتا ہو؟
ایک اور دل چسپ ابہام ان کے شیخ اور سکھوں کے خلاف تحریکِ جہاد کے قائد سید احمد شہید کی حیثیت کے حوالے سے ہے جو بظاہر اس کتاب کے پس منظر میں غالب کلیدی کرداروں میں سے ہیں۔ کیا شاہ اسماعیل کے خیال میں وہ ایک خلیفۂ راشد تھے یا صرف ایک سلطانِ عادل (جو سلطانی سیاست کی پہلی قسم ہے)؟ صاف ظاہر ہے کہ سید احمد کی قیادت وامامت کو، جس نے سکھوں کے خلاف تحریک جہاد سے جنم لیا تھا، جواز عطا کرنا اس کتاب کے لیے ایک اہم پس منظر کی حیثیت رکھتا تھا۔
لیکن اس کتاب کے فکری تصورات کا اطلاق سید احمد پر کیسے کیا جا سکتا ہے، یا بالفاظ دیگر اس کا حقیقی "منصبِ امامت" کیا ہے؟ یہ بتانا مشکل ہے۔ شاید یہ کتاب کا وہ حصہ تھا جس کو لکھنے کا شاہ اسماعیل کو موقع نہیں ملا۔ شاہ اسماعیل کی فکر میں برطانوی استعمار کا تقریباً عدم ذکر ایک اور چبھتا ہوا سوال ہے۔
بہر صورت منصبِ امامت سے سامنے آنے والا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ شاہ اسماعیل کی فکری عمارت کی بنیاد ایک سلطانی اسلامی سیاسی عقیدہ ہے جو سیاسی طاقت اور غلبے کو تقوی اور اخروی نجات سے مشروط کرتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی صورت حال، جو تیزی سے ایک نوآبادی سماج میں بدلنے جا رہے تھے، بظاہر ان کی فوری توجہ اور فعال استدلال کے لیے اس قدر اہم نہ تھی۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر منصبِ امامت اور تقویۃ الایمان کی تہہ میں کار فرما توقعات یکساں ہیں، باوجودیکہ ان دونوں کتابوں کے اسلوب اور اہم نکات میں معتد بہ اختلافات ہیں۔ اگر تقویۃ الایمان کا زور خدائی حاکمیت اور مذہب کے روز مرہ کردار پر ہے، تو منصبِ امامت اسی سوال کو سیاسی طاقت وقیادت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دونوں کتابوں کا بنیادی موضوع روزمرہ کی مذہبی زندگی کو اس انداز میں منظم کرنا ہے جس سے خدائی قانون کی حاکمیت کا تحفظ ہو۔
اور آخر میں ان دونوں کتابوں کو آمنے سامنے رکھنے سے شاہ اسماعیل کے فکری رجحان اور مسلک میں لچک کا اندازہ ہوتا ہے۔ تقویۃ الایمان میں انھوں نے واضح طور پر ایک انتہائی نقطۂ نظر اپنایا ہے جس میں الہامی عجلت کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کی دنیا میں برپا شورش کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے برعکس منصبِ امامت میں ان کا رویہ نہ صرف یہ کہ اپنے اسلوب کے اعتبار سے نَپا تلا اور نسبتاً کم معاندانہ ہے، بلکہ واضح طور پر اپنے بہت سے مواقف میں معتدل بھی ہے۔ اس اختلاف کو تناقض کی نظر سے دیکھنے کے بجاے شاہ اسماعیل کی اس قابلیت کے پہلو سے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ متنوع مخاطبین اور اغراض کے حساب سے اپنا موقف پیش کرتے تھے۔ اگر ایک طرف عوام کے لیے لکھی جانے والی کتاب تقویۃ الایمان میں تنبیہی اور جلالی انداز مناسب تھا، تو دوسری طرف منصبِ امامت میں پوری احتیاط سے ترتیب دیے گئے سیاسی نظریے کے بیان کے لیے اسماعیل نے دانش مندی سے اپنا اسلوب بدلا ہے۔ تاہم جیسے میں نے واضح کیا، وہ غالب علمی منہج اور پروجیکٹ ایک ہی تھا جو ان بظاہر متنوع کتابوں پر اثر انداز ہوا۔
اگلے باب میں، میں شاہ اسماعیل کی فکر کے ایک انتہائی متنازع حصے یعنی شفاعتِ نبوی کی حدود پر ان کے نظریے کو زیر غور لا کر ان کے سیاسی عقائد پر بحث جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے میں تقویۃ الایمان کی طرف واپس لوٹتا ہوں۔
حواشی
- قرون وسطیٰ اور عہد جدید کے اوائل کے ہندوستان میں بالخصوص اہم فارسی مصادر کی روشنی میں، مسلمانوں کی سیاسی فکر کے ایک مفید جائزے کے لیے دیکھیے: مظفر عالم، The Languages of Political Islam: India, 1200-1800، (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2004)، خاص طور پر ص 35 – 80۔
- اسلامی تاریخ کے اوائل اور قرونِ وسطیٰ میں سنیوں کی سیاسی فکر کے لیے دیکھیے: عُوَیمر انجم، Politics, Law, and Community in Islamic Thought: The Taymiyyan Movement (نیو یارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)، 1 – 136۔
- دیکھیے: مظفر عالم، Languages of Political Islam، 35 – 80۔
- یہ حاشیہ انگریزی متن کے قارئین کے لیے تھا جسے اردو قارئین کے لیے غیر ضروری سمجھ کر حذف کیا گیا۔ مترجم
- شاہ محمد اسماعیل، منصبِ امامت (دلی: مطبعِ فاروقی، 1899)، 29 – 30۔ اس کتاب کے تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے لیے گئے ہیں، اور متن کے اندر قوسین میں درج کیے گئے ہیں۔
- بحوالۂ ایضاً، 55۔
- یہاں پر شاہ اسماعیل کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف کا مشہور ترجمہ "اچھائی کا حکم دینا" ہمیشہ کافی یا درست نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اس صورت میں اچھائی کے حکم کا مفہوم یہ نہیں کہ کوئی شخص طاقت کے مقام پر کھڑا ہو کر دوسرے کو ایک مطلق حکم دے، بلکہ اس کے مفہوم میں سیاسی طور پر طاقت ور شخص کی رہ نمائی، خیر خواہی اور اصلاح بھی شامل ہے۔ یہاں پر (اور دیگر بہت سے مقامات پر) امر بالمعروف کے مفہوم میں نصیحت کے ذریعے نیکی کی طرف رغبت پیدا کرنے کا تصور "اچھائی کا حکم کرنے" سے زیادہ راجح ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اچھائی کا حکم دینے کا ایک فوری فیصلہ یا مطلق حکم کی بہ نسبت اخلاقی تشکیل کا ایک عمل ہے۔