انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۹)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا پانچواں باب)


فضل حق خیر آبادی اور محبتِ نبوی کی سیاست

تقویۃ الایمان کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دلی میں شاہ اسماعیل کی اصلاحی سرگرمیوں نے شہر کے اہل علم اشرافیہ کے درمیان بحث ومباحثہ اور استدلالات کی ایک گرما گرم فضا تشکیل دی تھی۔ خاص طور پر کتاب کی نسبتاً زیادہ متنازعہ عبارات پر بحث ومباحثہ اور تجزیے ہو رہے تھے۔ اس وقت ماحول میں اس قدر انتشار تھا کہ 1826 میں ایک مشہور عوامی مناظرے میں شاہ اسماعیل کا اپنا چچا زاد محمد موسٰی دہلوی (م 1864) ان کے خلاف صف آرا تھا1۔ جوں جوں جامع مسجد میں شاہ اسماعیل کے خطبات مزید لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے گئے، اسی رفتار سے ان کے خیالات کو دبانے کے لیے مخالف تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ اس تحریک کے سرخیل دلی کا بااثر اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے عالم علامہ فضل حق خیر آبادی تھے۔

خیر آبادی جو کہ شاہ اسماعیل سے عمر میں بیس سال چھوٹے تھے، برصغیری اسلام کی تاریخ میں انتہائی اہم شخصیت ہیں، تاہم ان کی فکر تاحال مغربی اہل علم کی بہت کم توجہ حاصل کر پائی ہے۔ شمالی ہندوستان کے شہر خیر آباد میں پیدا ہونے والے، فضل حق خیر آبادی کو آج انتہائی شدت سے برطانوی استعمار کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کے لیے یاد کیا جاتا ہےجس کی وجہ سے ان پر غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا اور ہندوستان سے جزائر انڈمان، جسے آج میانمار کہا جاتا ہے، جلا وطن کیا گیا۔ وہاں دو سال کا عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ 1861 میں وفات پا گئے۔ اپنی اسارت کے دوران خیر آبادی نے فصیح وبلیغ عربی میں، جس کا بیش تر حصہ مُسَجَّع ومُقَفّیٰ نثر میں ہے، " باغی ہندوستان " (الثورۃ الہندیۃ) کے نام سے کتاب لکھی۔ یہ کتاب نہ صرف خیر آبادی کی زندگی سے متعلق دل چسپ نکات پر مشتمل ہے، بلکہ اس فیصلہ کن دور کے ہندوستان کے وسیع سیاسی عہد کو بھی زیر بحث لاتی ہے2۔ کتاب کے مقدمے میں موجودہ الفاظ سے ان کے اس درد اور یاس کا اندازہ ہوتا ہے، جس میں وہ اپنی شکست اور استعماری طاقت کے سخت شکنجے کے نیچے اَسارت کے آخری ایام گزار رہے تھے۔ "میری یہ کتاب ایک دل شکستہ، نقصان رسیدہ، حسرت کشیدہ اور مصیبت زدہ انسان کی کتاب ہے، جو اب تھوڑی سی تکلیف کی بھی طاقت نہیں رکھتا، اپنے رب سے جس کے لیے سب کچھ آسان ہے، مصبیت سے نجات کا امیدوار ہے" (فإن كتابي هذا كتاب أسير كاسر خاسر، على ما فات منه حاسر، مبتلى بكل عسير لا يطاق ولو في أن يسير، منتظر لفرج على ربه يسير)3۔

خیرآبادی کی علمی شہرت کی وجہ اسلامی فلسفہ ومنطق پر ان کی تحریریں اور عربی شعر وشاعری میں ان کی نغز گوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تقریباً چار ہزار اشعار کہے۔ خیر آبادی کے تلامذہ کا متنوع اور وسیع سلسلہ نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ وسطی ایشیا، ایران اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا تھا۔ خیر آبادی مکتبِ فکر کا علمی گڑھ شمالی ہندوستان، بالخصوص خیرآباد، بدایون، رام پور اور سہارن پور جیسے شہر تھے۔ خیر آبادی کے علمی مزاج کی ایک نمایاں خصوصیت، جس کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار فضل حق کے عظیم الشان والد اور استاد فضل امام خیر آبادی (م 1829) کا تھا، یہ تھی کہ اس میں فلسفہ اور منطق جیسے غیر منقولی اور معقولی مضامین پر زیادہ زور تھا۔

فضل امام خیر آبادی، جنھوں نے دلی میں ایک نامی گرامی مدرسے کی بنیاد رکھی تھی، (دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ) منطق میں مشہور نصابی کتاب "المرقاۃ" کے مصنف تھے۔ اسی طرح فضل حق خیر آبادی نے اپنے والد کی کتابوں پر شروحات اور معقولات کے اہم موضوعات پر مشہور کتابیں لکھنے کے ساتھ وسیع پیمانے پر رائج درسی کتاب "الہدیۃ السعیدیۃ" لکھی4۔

خیر آبادیوں کا علمی ورثہ علامہ فضل حق کے شاگردوں نے آگے بڑھایا، جن میں زیادہ قابل ذکر ان کے کثیر التصانیف صاحب زادہ عبد الحق خیر آبادی اور ان کے جگری دوست اور فکری حلیف فضل رسول بدایونی (م 1872) کے بیٹے عبد القادر بدایونی (م 1901) تھے۔خیر آبادیوں کو برصغیر اور اس کے باہر اپنے غیر معمولی علمی عظمت کا احساس تھا، اور اس کے اظہار میں وہ کوئی باک محسوس نہیں کرتے تھے۔ مثلاً‌ ایک بار مولوی اکرام اللہ شہابی نامی ایک شخص نے عبد الحق خیر آبادی سے پوچھا: "بھائی! انسانی تاریخ میں کتنے لوگ ایسے ہیں جنھیں حکیم مانا جا سکتا ہے؟" عبد الحق نے خود اعتمادی سے جواب دیا: "دنیا میں ساڑھے تین حکما ہیں: پہلا معلم اول ارسطو، دوسرا (دسویں صدی کا مشہور مسلمان فلسفی) معلم ثانی الفارابی (م 951)، تیسرا میرے والد فضل حق خیر آبادی اور باقی آدھا آپ کا یہ دوست"5۔ عبد الحق کے اس خوش کُن دعوے پر بات ہو سکتی ہے، لیکن خیر آبادی مکتب بالخصوص فضل حق خیر آبادی (اس کے بعد خیرآبادی سے مراد وہی ہوں گے) کی علمی خدمات کے اثرات کا اعتراف نہ کرنا مشکل ہے۔ برصغیر کی علمی تاریخ میں ان کے مقام کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ ان کے فکری مخالفین کی طرف سے  مرتب کردہ سوانحی تذکروں میں، مثلاً عبد الحی حسنی (م 1922) کی مشہور کتاب نزھۃ الخواطر میں ان کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے: "وہ اپنے زمانے میں عربیت، فلسفہ اور منطق کے سب سے بڑے عالم تھے"6۔

آزُردہ، خیر آبادی اور بدایونی کی تکون

اپنے طلبہ اور خاندان کے افراد کے علاوہ خیر آبادی اور ان کے مکتب فکر سے انتہائی قریب جڑے ہوئے دو اور اہل علم مفتی صدر الدین آزردہ (م 1868) اور فضل رسول بدایونی تھے۔

خیر آبادی اور بدایونی کی عمر میں تقریباً ایک سال کا فرق تھا، اور وہ آزردہ سے عمر میں کوئی دس سال چھوٹے تھے۔ ان تینوں کے درمیان بہت سے مشترکات تھے۔ یہ تینوں شاعری اور معقولات کے دل دادہ تھے، ایک دور میں برطانوی استعمار کے ملازم رہے، جوش وخروش سے 1857 کی جنگِ آزادی میں شریک ہوئے، اور تینوں فضل امام خیر آبادی کے شاگرد تھے7۔ علاوہ ازیں شاہ اسماعیل سے انتہائی بے زاری میں بدایونی اور فضل حق دونوں ایک جیسے تھے۔ شاہ اسماعیل کے خلاف مناظروں اور تردیدات کے سلسلے میں کئی نام آتے ہیں، تاہم بدایونی اور خیر آبادی اس سلسلے کے بانی مبانی تھے۔ بدایونی بیک وقت عملی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے عالم بھی تھے کہ ان کی مناظرانہ پھرتیوں کی وجہ سے انھیں خدا کی شمشیرِ بَراں (سیف اللہ المسلول) کا لقب دیا گیا، ایک ایسا لقب جو عام طور پر حضور ﷺ کے چچا زاد اور داماد حضرت علی بن ابو طالب کرم اللہ وجہہ سے منسوب کیا جاتا ہے8۔ بدایونی نے شاہ اسماعیل کے نظریات کی تردید میں کئی کتابیں لکھیں، جن میں "البوارق المحمدیۃ لرجم الشیاطین النجدیۃ"، "الفوز المبین بشفاعۃ الشافعین"، "سیف الجبار المسلول علی اعداء الابرار"، "احقاق الحق وابطال الباطل" اور "المعتقد المنتقَد" شامل ہیں9۔ سواے آخری کتاب کے جو عربی میں ہے، باقی تمام کتابیں اردو میں لکھی گئیں10۔

خیر آبادی کی کاوشوں کی طرح، جن کا تجزیہ اس باب میں پیش کیا جا رہا ہے، بدایونی کی کتابوں کے موضوعات بھی شفاعتِ نبوی، علمِ نبوی اور ختم نبوت ہیں۔ ان کی تنقیدات کئی جگہ پر ایک دوسرے سے آکر مل جاتی ہیں، اور بدایونی نے عموماً خیر آبادی کی کتابوں سے اخذ واستفادہ کیا ہے، اور ان کے حوالے دیے ہیں۔ میرے پاس گنجائش نہیں کہ بدایونی کی علمی کتابوں کا تفصیلی جائزہ پیش کر سکوں، لیکن انیسویں صدی کے اوائل کے علمی تناظر میں اس کی اہمیت کے پیش نظر میں یہاں ان پانچ بنیادی فکری مقاصد اور استدلالات کا خلاصہ پیش کرتا ہوں جو ان کی مناظرانہ تحریروں میں جاری وساری ہیں:

(1) شاہ اسماعیل اور محمد بن عبد الوہاب کو روایتی سنی حنفی مسلک کے خلاف ایک مشترکہ بین الاقوامی سازش کے کرداروں کے طور پر پیش کرنا،

(2) یہ ثابت کرنا کہ بر صغیر میں شاہ اسماعیل کے مخالف اہل علم میں وہ بذات خود اور خیر آبادی، عالم عرب میں موجود خلافت عثمانیہ کے حنفی علما کے قریبی دوست اور حلیف ہیں،

(3) شاہ اسماعیل کے اصلاحی ایجنڈے کو شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادوں کی فکر کے مخالف ثابت کرکے اسے ولی اللہی خاندان کے علمی شجرے سے کاٹنا،

(4) اس تصور کی تردید کے لیے کہ بدایونی/خیرآبادی مکتب فکر محض معقولی مصادر اور طرزِ استدلال پر انحصار کرتی ہے، اپنے موقف کے اثبات کے لیے استدلال میں قرآن وسنت کے نصوص کو بکثرت پیش کرنا،

(5) شاہ اسماعیل کو ایک جدید معتزلی کے طور پر پیش کرنا، جو رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام ومرتبے مثال کے طور پر مقام شفاعت کا مخالف ہے11۔

یہ استدلالات اور اندازِ فکر، بالخصوص ان میں سے اول الذکر تین، انیسویں صدی کے اواخر میں مولانا احمد رضا خان کی کتابوں میں کثرت سے دہرائے گئے ہیں، جیسا کہ میں کچھ تفصیل سے نویں، دسویں اور گیارھویں باب میں بیان کروں گا۔ پس مناظرانہ کش مکش میں احمد رضا خان بہت سے حوالوں سے بدایونی کے فکری جانشین تھے۔ اس لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ احمد رضا خان نے بدایونی کی سب سے اہم تنقیدی کتاب "المعتقد المنتقد"12 پر "المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد" کے نام سے ایک اہم شرح لکھی۔

شاہ اسماعیل کے خلاف بدایونی کی مناظرانہ شہرت اور تصنیفات کی کثرت کے برعکس آزُردہ کے رویے کے حوالے سے تاریخی مصادر کافی حد تک مبہم ہیں۔ مثلاً‌ خیر آبادی کے اس فتوے پر، جس میں شاہ اسماعیل کو کافر قرار دیا گیا تھا، آزردہ کے دستخط تھے، تاہم امکانِ نظیر (یعنی خدا کی یہ قدرت کہ وہ حضرت محمد کا ایک مثیل پیدا کرے) کے مسئلے میں انھوں نے شاہ اسماعیل کے حق میں لکھا13۔ اور بظاہر شاہ اسماعیل کے ساتھ خیر آبادی کی دشمنی سے آزردہ بڑی حد تک بے چین رہتے تھے، اور کئی بار یہ بے چینی اپنے جگری دوست سے اختلاف اور تنقید کا باعث بھی بنتی۔ لیکن آزردہ شاہ  اسماعیل کے سخت انداز بیان کے بھی شدید ناقد تھے، باوجودیکہ وہ کئی اختلافی مسائل میں ان کے ہم نوا تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو دلی میں بڑھتے ہوئے مناظرانہ درجۂ حرارت میں بالآخر کمی لانے میں دل چسپی تھی۔

تصور کی حدود کی پہرے داری: خیر آبادی کا رد عمل

خیر آبادی کی طرف واپس لوٹتے ہوئے عرض ہے کہ اس باب کے سیاق میں ان کے حالات زندگی کا ایک اہم نکتہ انیسویں صدی کے اشرافیہ کے ایک متمول فرد کی حیثیت سے ان کا معاشی پس منظر ہے۔ خیر آبادی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس کے ہندوستان میں مغلوں کے شاہی خاندان سے گہرے تعلقات اور روابط تھے۔ اپنے والد فضل امام خیر آبادی کی طرح انھوں نے بھی مغل دربار کے ایک اعلی ترین عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سر انجام دی تھیں۔ مزید بر آں، مغل سلطنت کے زوال کے بعد بھی خیر آبادی نے برطانوی سلطنت میں ایک اہم عہدے دار کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھیں، تا آنکہ برطانیہ نے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر انھیں ہندوستان سے جلا وطن کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ استعماری انتظامیہ کی نظر میں ان کا اس قدر احترام تھا کہ دلی کے برطانوی ریزیڈنٹ افسر نے ان کی درخواست پر شاہ محمد اسماعیل کو جامع مسجد میں خطبہ دینے سے منع کردیا تھا۔ یہ درخواست اس وقت منظور کی گئی جب خیر آبادی نے بتایا کہ شاہ اسماعیل کے خطبات دلی کے اندر فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی کے لیے سنگین خطرہ بن گئے ہیں۔ یہ پابندی چالیس دن تک برقرار رہی۔ سوانحی تذکرے اس بابت خاموش ہیں کہ برطانوی استعمار سے ان کے اتنے قریبی تعلقات اس قدر تیزی سے کیوں خراب ہوئے جس کے نتیجے میں انھیں ریاست کا دشمن قرار دیا گیا اور جلاوطنی میں عمر قید کی سزا دی گئی۔جنگ آزادی 1857 کے برپا کرنے میں ان کا مُبینہ کلیدی کردار ہی شاید وہ بنیادی سبب ہے جس سے ان تعلقات نے پلٹا کھایا14۔

خیر آبادی کا اشرافی پس منظر ان کے سوانح حیات میں پوری تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ مثلاً‌ جب وہ نوجوان لڑکے تھے اور شاہ عبد العزیز کے گھر، جو اس کے حریف شاہ اسماعیل کے چچا تھے، حدیث کے اسباق پڑھنے کے لیے جاتے تھے تو ہاتھی پر سفر کرکے جاتے تھے، اور اس مقصد کے لیے خاص طور پر ایک خادم ان کے ساتھ رہتا تھا۔ خادم کی ذمہ داری تھی کہ وہ خیر آبادی کے سر پر چھتری کا سایہ رکھ کر دھوپ سے ان کی حفاظت کرے۔ بعد میں ان کے مخالفین ان کے اشرافی پس منظر کا حوالہ دے کر انھیں  تقوی وطہارت سے خالی باور کرانے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلاً‌ نزھۃ الخواطر میں ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: "ان کا لباس علما کے لباس کے بجاے شاہانہ ہوتا تھا" (كان زيه زي الأمراء دون العلماء)15۔

شاہ محمد اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی دونوں انیسویں صدی کے اوائل کے شہری اور علمی عہد میں جی رہے تھے۔ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا، شاہ اسماعیل کے نامی گرامی تایا شاہ عبد العزیز اور ان کے چچا شاہ عبد القادر (جس کا ذکر دوسرے باب میں ہوا ہے) علم حدیث میں خیر آبادی کے اہم اساتذہ تھے۔  باوجود یکہ ان کا ایک ہی علمی شجرے سے تعلق تھا، ان کے سماجی تصورات میں شدید مخالفت تھی۔ خیر آبادی کی نظر میں شاہ اسماعیل کی الہیاتی فکر گستاخانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تخریبی تھی۔ ان کی نظر میں خدائی حاکمیت کے دفاع کے بہانے سے شاہ اسماعیل نے ایک نیا دین ایجاد کیا  تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کی گستاخی اور توہین پائی جاتی تھی۔ شاہ اسماعیل کے اصلاحی ایجنڈے میں خیر آبادی کو جو چیز سب سے زیادہ خطرناک معلوم ہوئی، وہ یہ تھی کہ شاہ اسماعیل  نے ایک ایسے اخلاقی نظام کے امکان کا سوچا جس میں پہلے سے چلے آنے والے مقدس مراتب، امتیازات اور خصوصی حیثیات کی توہین پائی جاتی تھی۔ خیر آبادی کے نزدیک اگر عوام کو بہکا کر ان کے سامنے دنیا کا ایک ایسا تصور پیش کیا جائے جس میں مراتب کی توہین ہو، یا جس میں حضور ﷺ کے مرکزِ کائنات ہونے کا انکار ہو، تو دین کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

شاہ اسماعیل کی پیدا کردہ کش مکش کا مرکزی نکتہ وہ منہاج ہے جس کے ذریعے انھوں نے قابل تصور خیالات کی حدود کو چیلنج کیا۔ ایک بار جب یہ قابلِ تصور ہوگیا کہ خدا کئی لاکھ نئے محمد پیدا کر سکتا ہے یا وہ اپنے وعدے سے مکر سکتا ہے تو دین کا تصور لامحالہ مسخ ہو گیا۔ مثلاً خیر آبادی کے معاصر سوانح نگار اسید الحق بدایونی (انھیں خیر آبادی کے معاصر فضل رسول بدایونی سے گڈ مڈ نہ کیا جائے) کے دل چسپ تجزیے کو ملاحظہ کریں کہ انبیا، اولیا اور دیگر بزرک ہستیوں کے متعلق شاہ اسماعیل کی گستاخی اور بے احتیاطی  نے بعد میں (مرزا غلام احمد قادیانی کی جانب سے) "انکارِ ختم نبوت کی راہ ہموار کی"16۔ اس لیے بدایونی اور خیر آبادی کے بہت سے پیروکاروں کی نظر میں شاہ اسماعیل فتنۂ قادیانیت کے پیش رو تھے، کیونکہ انھوں نے وہ حالات پیدا کیے جن سے مرزا غلام احمد (م 1908) جیسے مدعیانِ نبوت کے لیے رستہ ہموار ہو گیا17۔ خیر آبادی کے لیے بذات خود شاہ اسماعیل کا ناقابل معافی قصور یہ مفروضہ تھا کہ نبی ﷺ کی رفعتِ شان اور خدائی حاکمیت کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن ہے۔ خیر آبادی کی نظر میں پیغمبر کی شخصیت اور خدا کی ہستی ایک ہی کونیاتی پروگرام کا حصہ ہیں۔ اس لیے کوئی ایسی کوشش جو اخروی نجات کے باب میں رسول اللہ ﷺ کے کردار کی نفی کرے، صرف انتشار پھیلا سکتی ہے۔

شاہ اسماعیل کے ساتھ خیر آبادی کی علمی نوک جھوک کا تصنیفی زمانہ اور ترتیب کچھ یوں تھی۔ 1825 میں تقویۃ الایمان کی اشاعت کے بعد خیر آبادی نے "تقریرِ اعتراضات بر تقویۃ الایمان" کے نام سے فارسی میں ایک بہت مختصر تردید شائع کی۔ ان چند صفحات کا مرکزی موضوع امکانِ نظیر تھا، جس میں شاہ اسماعیل کے اس دعوے کی تردید تھی کہ "خدا لاکھوں اور محمد پیدا کر سکتا ہے"۔ اس کے جواب میں شاہ اسماعیل نے "یک روزہ" لکھی، جس کا ذکر میں گذشتہ صفحات میں  کر چکا ہوں۔ اس کے بعد خیر آبادی نے "تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی" کے عنوان سے فارسی میں تقویۃ الایمان اور یک روزہ دونوں کی ایک اور تفصیلی تردید لکھی۔ ذیل میں میرے تجزیے کا بیش تر حصہ اس کتاب کے ایک دقیق مطالعے پر مبنی ہے18۔ یہ تمام واقعات 1825 کے ہنگامہ خیز سال میں پیش آئے، جن کے صرف چند مہینے بعد شاہ اسماعیل نے سکھوں کے خلاف عسکری تحریک برپا کی جس میں ان کی وفات ہوئی، جس کی وجہ سے یہ مختصر لیکن شدید تنازع غیر ارادی طور پر رک گیا۔

خیر آبادی نے تحقیق الفتوی کے بالکل آغاز میں شاہ اسماعیل اور ان کے عقائد سے متعلق اپنی شدید ناراضی اور تحقیر کا اظہار یوں کیا ہے:

"اس کا بے فائدہ کلام، جو جھوٹے اقوال اور عجیب وغریب باتوں پر مشتمل ہے، درستی اور سچائی کے ساتھ ذرہ برابر تعلق نہیں رکھتا [ایں کلام لا طائل از اکاذیبِ اقاویل واعاجیبِ اباطیل ہرگز از راستی مساسے وبصدق التباسے ندارد]۔ شفاعت کی اقسام بیان کرتے وقت اس نے متعدد گستاخیوں کا ارتکاب کیا ہے اور اس نے متقدمین اور متاخرین کے اجماع کے برعکس اشرف الاشراف حضور ﷺ کے بلند مقام ومرتبے کو گھٹایا ہے۔ اس عمل سے اس نے اپنے ایمان کی آبرو ضائع کی ہے، اور جاہل عوام کے تاریک دلوں میں فتنہ اور گم راہی کا بیج بویا ہے‘‘19۔

خیر آبادی نے شاہ اسماعیل پر انبیا، اولیا اور فرشتوں کی توہین کا الزام لگایا، اور ان پر "کافر اور واجب القتل" ہونے کا فتوی صادر کیا (235)۔ ذیل میں میں اس بات کا جائزہ لینے جا رہا ہوں کہ وہ اس عجیب نتیجے تک کیسے پہنچے۔ شفاعت نبوی اور امکانِ نظیر یا امکانِ کذب پر شاہ اسماعیل کے خیالات کی تردید کا جائزہ لینے سے میرا مقصد انیسویں صدی میں ہندوستان کی اسلامی فکر میں ایک حریف سیاسی عقیدے کا بیان ہے۔

محبت امتیاز کی علامت ہے

شفاعت نبوی پر فضل حق خیر آبادی کی فکر ان عناصرِ اربعہ سے مرکب تھی: (1) خدا اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان ایک امتیازی محبت وقربت کا رشتہ ثابت کرنا؛ (2) نبی اکرم ﷺ کو ایک انتہائی محبت کرنے والی، مخلص اور طاقت ور شخصیت کی صورت میں پیش کرنا، جو مسلسل گناہ گار بندوں کے گناہوں کو بخشوانے کی خاطر شفاعت کرتی ہے؛ (3) شفاعت کے ایک قطعی درجاتی ماڈل کا اثبات کرنا، جس میں خدا کی بارگاہ کی نسبت سے انبیا، اولیا اور عام لوگوں کے درمیان ایک واضح اور ناقابل سمجھوتہ حد قائم کی گئی ہو؛ اور (4) تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل کے اس دعوے کی تردید کہ بارگاہِ الہی میں صرف شفاعت بالاذن جائز ہے۔

شاہ اسماعیل پر خیر آبادی کا بنیادی الزام یہ تھا کہ اول الذکر نے مقام نبوت کی رفعتِ شان کی تنقیص کی ہے۔ خیر آبادی نے استدلال کیا کہ وہ مقام اور اعزاز جو خدا نے حضور ﷺ کو عطا کیا ہے، انتہائی خاص ہے۔ کسی بھی دوسری ہستی کو آپ کی طرح اختصاص حاصل نہیں (سبحانہ آں جناب را بہ فضل وکرامت اختصاص باشد کسے دیگر را از خلق) (283)۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شفاعت کی حیثیت میں کوئی بھی حضور ﷺ کا ہم سر نہیں، اور یہی بات حضور ﷺ کے انفرادی مقام ومرتبے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ گناہ گاروں کے لیے حضور ﷺ کے مقامِ شفاعت نے انھیں دیگر تمام مخلوقات سے امتیاز عطا کیا ہے، اور تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ خاص ہستی کی حیثیت سے آپ کے مقام ومرتبے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔شفاعت حضور ﷺ کے امتیاز کے اثبات کا ذریعہ ہے۔ یہی وہ بنیادی خاصیت ہے، جس نے حضور ﷺ کو امتیاز عطا کیا۔

خیر آبادی نے مزید بتایا کہ شفاعت وہ بنیادی مقام ہے جو آخرت میں حضور ﷺ کی رفعتِ شان کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اس دنیا میں منصبِ نبوت کے ساتھ وابستہ عظمت کا تسلسل آخرت میں شفاعت کی نعمت سے ہوگا۔ اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے خیر آبادی نے تیرھویں صدی کے مشہور مفسرِ قرآن عبد اللہ بن عمر البیضاوی (م 1826) کا حوالہ دیا ہے، جو کہتے ہیں: "دنیا میں وجاہت نبوت ہے اور آخرت میں شفاعت ہے" (الوجاهة في الدنيا نبوة، وفي الآخرة الشفاعة)20۔

خیر آبادی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ آخرت میں حضور ﷺ کا مقام ومرتبہ دنیوی مقام ومرتبہ سے کہیں زیادہ بلند وبرتر ہوگا۔ روزِ قیامت کو اللہ تعالیٰ ان کے مثالی کردار اور اطاعت کے بدلے میں انھیں یہ اختیار دیں گے کہ وہ اپنی امت کے حق میں شفاعت کریں۔ شفاعت فرائض نبوت کی ادائیگی کے بدلے میں انعام واکرام ہے؛ یہ شانِ نبوت کی تصدیق اور بدلہ دونوں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، خیر آبادی کے نزدیک شفاعت کی نعمت منصبِ نبوت کے ساتھ لازمی طور پر جڑی ہوئی ہے۔ شفاعت آخرت میں نبی ﷺ کی رفعتِ شان کی ابدیت کو ممکن بناتی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی شفاعت کے اختیار پر سمجھوتے کی کوئی کوشش نبوت کی حیثیت پر براہ راست حملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیر آبادی کی نظر میں شفاعت پر شاہ اسماعیل کا استدلال موجب کفر ہے۔

علاوہ ازیں خیر آبادی کی نظر میں شاہ اسماعیل کا اشتعال انگیز بیانیہ خاص طور سے محل نظر تھا۔ انھوں نے بتایا کہ خدائی حاکمیت (توحید) کے توہین آمیز بیانات اور خدائی حاکمیت کے بارے میں ان کے مجوزہ استدلال کے درمیان کوئی جوڑ نہیں۔ مثال کے طور پر "خدا کی یہ قدرت کہ وہ لاکھوں اور محمد پیدا کر ڈالے"، ایک غیر ضروری گستاخی ہے جس کا خدائی حاکمیت (توحید) کے احیا سے کوئی جوہری تعلق نہیں۔  خیر آبادی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، "فرض کرو، اگر کوئی اپنی بادشاہت چلانے میں کسی وزیر یا مشیر کا مکمل محتاج ہے، بادشاہ وہی کرتا ہے جو اس کا وزیر اسے کہتا ہے کہ کرو، اب اس بادشاہ کی حاکمیت کو بحال کرنے کی خاطر یہ کہنا بے مقصد ہے کہ بادشاہ لاکھوں نئے وزیر بنا سکتا ہے، یا وہ عوام کو وزارت سونپ سکتا ہے۔ یہ بادشاہ کو اپنی بادشاہت میں حکم چلانے میں کس طرح وزیر کی مداخلت کا مسئلہ حل کر سکتا ہے؟" (332)۔

خیر آبادی نصیحت کرتے ہیں کہ شاہ اسماعیل کو بس اتنا کہہ دینا چاہیے تھا: "خدا کی حاکمیت کے دائرے میں کسی کو مداخلت کی گنجائش نہیں" (بیستے گفت کہ کسے را در کارخانہ جاتِ الہی مداخلت ہیچ گونہ نیست) (333)۔ یہ سیدھا سادہ موقف اختیار کرنے کے بجاے شاہ اسماعیل نے ایک نیا راگ الاپنا شروع کر دیا جس نے ان کے استدلال کو تقویت پہنچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، اور اس عمل میں وہ حضور ﷺ کی گستاخی بھی کر بیٹھے۔ یہ بیک وقت ایک گم راہ فکر اور بے ادبی کی نشانی ہے۔

خیر آبادی کی نظر میں بے مقصد گستاخانہ اظہارات کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل نے حضور ﷺ سے خدا کے تعلق کے اعتقادی تصور میں محبت کی غیرمعمولی اہمیت کو نظر انداز کیا ہے۔ خیر آبادی کے عقیدے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ خدا اور حضور ﷺ کے درمیان مُحِب ومحبوب جیسا گہرا رشتہ ہے۔

اس نے بتایا کہ محبوب کے ناز اٹھانا محبت کے رشتے کی افزائش اور کام یابی کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس لیے جس طرح ایک سچا عاشق کبھی ایسے قول وفعل کا مرتکب نہیں ہوتا جس سے اس کے محبوب کی دل آزاری ہو، یا جس سے وہ مایوس ہو، یا جس سے اس کی توہین ہو، بالکل اسی طرح خدا اپنی محبوب ترین ہستی حضور اکرم ﷺ کی تسلی واطمینان کا بہت خیال رکھتا ہے۔

مزید برآں محبت و دل داری کا کوئی رشتہ تب قائم رہ سکتا ہے جب ہر کسی کے حق میں محب اپنے محبوب کی سفارش قبول کرے۔ اس لیے شاہ اسماعیل کے موقف کے بالکل برعکس خیر آبادی نے بغیر کسی اگر مگر کے خدا کی بارگاہ میں شفاعت وجاہت اور محبت کو جائز قرار دیا۔

چونکہ خدا نے حضور ﷺ کو اپنی محبوب ترین ہستی قرار دیا ہے، اس لیے وہ گناہ گار لوگوں کے حق میں ہمیشہ ان کی سفارش قبول کریں گے۔ حضور ﷺ اور خدا کے درمیان شدید محبت کے رشتے کو ثابت کرنے کے لیے خیر آبادی نے مشہور حدیثِ قدسی کا حوالہ دیا: "جب میں کسی بندے کو اپنا محبوب بناتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے"21۔ اس تصنیف کی بنیادی خصوصیت وہ انداز ہے جس میں یہ محبت کی بے پناہ طاقت پر زور دیتی ہے۔ خدا کا اپنے محبوب سے تعلق محض ایک ذہنی کیفیت کا نام نہیں، اس کے بجاے یہ محبت محبوب کے دل ودماغ اور ہر ادا میں رچ بس جاتی ہے۔ اس لیے، خیر آبادی کی نظر میں، حدیث قدسی سے بغیر کسی ابہام کے نہ صرف خدا کی نظر میں اس کے محبوبین کے بلند مقام ومرتبہ کا اثبات ہوتا ہے، بلکہ اس حدیث سے خدائی اور نبوی وجودیات کے درمیان بے پناہ قربت اور ناقابل تفریق تعلق کے عمومی استدلال کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔

مزید برآں خیر آبادی نے اس بات پر زور دیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کو مختلف مراتب اور مقامات دے کر پیدا کیا ہے (سبحانہ آفریدگانِ خود را بمراتبِ متفاوتہ ومدارجِ متباعدہ آفریدہ) (268)۔ تمام ہستیوں سے محبت اور تعلق کے پیش نظر بہت باریکی سے اور بغیر کسی لحاظ کے مختلف مراتب اور متفرق درجات متعین کیے گئے ہیں جن میں خدا نے اپنی بارگاہ کے مقربین کو ان کے درجات کے مطابق مقام ومرتبہ عطا فرمایا (ہر یکے از مقربانِ بارگاہِ خدا علی قدرِ تفاوتِ درجاتہم وعلی حسب مراتبھم منزلتے ومکانتے بکشیدہ) (268)۔ کسی کی سفارش کی قبولیت کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ بارگاہِ الہی میں اس کا مقام ومرتبہ کیا ہے۔ زیادہ درست الفاظ میں، سفارش کی اجازت سفارش کرنے والے سے خدا کی محبت کی دلیل ہے۔

محبت، طاقت، امتیاز

خیر آبادی کے تصور میں محبت کو طاقت سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ امتیازی رتبہ محبت کی دین ہے۔ محبت ہی اخروی مقام ومرتبے کی تعیین میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ سفارش بھی محبت ہی کی دین ہے، ایک ایسا تحفہ جو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک ہستی کے بلند مقام ومرتبے کی علامت ہے۔ اس لیے انبیاے کرام اور اولیاے عظام کی دعائیں اور سفارشیں دیگر عوام اور گناہ گار لوگوں کی بنسبت زیادہ مقبول ہوتی ہیں۔ خیر آبادی نے ان مقامات ومراتب کے اثبات کے لیے اس قرآنی آیت کا حوالہ دیا: "وہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض نے خدا سے کلام کیا ہے، اور بعض کو دیگر سے بلند درجات دیے گئے ہیں"22۔

خیر آبادی، شاہ  اسماعیل کے ساتھ اس نکتے پر متفق تھے کہ خدا قادر مطلق، وحدہ لا شریک اور ہر قسم کے تغیر وتبدل سے پاک ہے۔ اسی طرح تمام مخلوقات، چاہے وہ انسان ہوں، فرشتے، انبیا، ان پڑھ، بادشاہ یا غلام، سب پر فرض ہے کہ وہ خدا کے سامنے کامل بندگی کا اظہار کریں۔ اس بنیادی عقیدے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ خیر آبادی اس بات پر بھی اتنا ہی زور دے رہے تھے کہ خدا کی وحدانیت اور اس کی مخلوق کے مقامات ومراتب میں، جو اس نے خود ترتیب دیے ہیں، کوئی تناقض نہیں۔ خدا کی بارگاہ میں ہر ہستی کو ایک مخصوص منصب اور عالی رتبہ عطا کیا گیا ہے۔ اس نے واضح کیا کہ جیسے بعض ہستیوں کو انتہائی قربت اور عزت دی گئی ہے، اسی طرح دیگر لوگوں کو مردود وگمراہ کر دیا گیا ہے۔ بارگاہ الہی میں ہر کسی کو اس کی عزت اور مقام کے اعتبار سے درجہ دیا گیا ہے۔  خدا کے محبوب کا کبھی وہ مقام نہیں ہو سکتا جو مردود کا ہے وغیرہ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ گناہ گاروں کی خاطر سفارشیوں کے سفارش کی قبولیت اور اثر انگیزی کا دار مدار بھی خدا کے ان سے تعلق کی گہرائی پر ہے۔ بالفاظ دیگر کسی سفارشی کو سفارش کی اجازت ملنے کا انحصار خدائی محبت کے نظام میں اس کے مقام ومرتبے پر ہے۔ علاوہ ازیں، اور یہ سب سے اہم ترین نکتہ ہے، خدا کا کسی کی سفارش کو قبول کرنا اس کے مقام ومرتبے کا اعتراف ہے (263 – 265)۔

سفارش کا واضح مقصد کسی مجرم کے جرائم معاف کرانا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سفارش کا عمل خدا کی محبوب ہستیوں کے ممتاز مقام ومرتبہ کی تصدیق کرتا ہے۔ خیر آبادی کے الفاظ میں: "کسی کی سفارش کو قبول کرنا محبت کے آثار میں سے ہے" (334)۔ اس نکتے کی تائید میں انھوں نے ایک شعر نقل کیا ہے (ترجمہ): کسی نے ایک عاشق سے پوچھا: کہ فراق اور وصال دونوں میں کون سا بہتر ہے؟ عاشق نے جواب میں کہا: وہی جس سے معشوق کو خوشی ملتی ہو۔ بگفتا وصل بہ یا ہجرانہ دوست۔۔۔۔ بگفتا ہر چہ میلِ خاطرِ اوست (288)۔

خیر آبادی نے دعوی کیا کہ بارگاہ الہی میں کوئی ہستی  اس قدر معزز، بلند مرتبت اور محبوب ترین نہیں جس قدر حضرت محمد ﷺ ہیں۔ انھوں نے لکھا: "قیامت کے دن انبیا کے علاوہ کسی کو بھی بارگاہِ الہی میں بولنے کی اجازت نہیں ہوگی" (275)۔ شاہ اسماعیل کے برعکس، جن کی نظر میں نبی اکرم ﷺ کی طرف سفارش کی غیر معمولی صلاحیت کی نسبت خدائی حاکمیت کے لیے ایک خطرہ ہے، خیر آبادی کے نزدیک خدائی حاکمیت اور نبی علیہ السلام کا امتیازی مقام ایک دوسرے کے مؤید ہیں23۔

خیر آبادی نے واضح کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا اظہار ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ وہ ایک مشہور حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: "ایک ایمان دار مسلمان کے لیے رسول اللہ ﷺ کو اپنی ذات، والدین، اولاد اور تمام انسانیت سے بڑھ کر محبوب ماننا چاہیے" (400)۔ اس کے ساتھ خیر آبادی کی نظر میں خدا کی قدرت اور پیغمبر ﷺ کی عظمت کے درمیان کوئی تضاد نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی انھی کائناتی صفات کی تصدیق ہی سے ایک بندہ خدا کے حضور اپنی بندگی کا اعتراف کرتا ہے۔ خیر آبادی نے استدلال کیا کہ یہ موقف قرآن میں وہاں صاف طور پر مذکور ہے جہاں  خدا اپنے پیغمبر سے کہتا ہے: "جو لوگ سے آپ سے بیعت کر رہے، در حقیقت وہ خدا سے بیعت کر رہے ہیں، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے"24۔ خیر آبادی نے متعدد احادیث کا حوالہ بھی دیا ہے جو ان کی نظر میں ناقابل تردید انداز میں رسول اللہ ﷺ کے عالی رتبے کا اثبات کرتی ہیں: مثلاً شُرَیح بن یونس فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں گشت کرتے  ہیں اور اس گھر کی کثرت سے زیارت کرتے ہیں جس میں احمد یا محمد نام رکھنے والا کوئی شخص ہو" (295)۔ اور "قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کو صرف اپنی امت کی سفارش کے اور کسی چیز کی فکر نہیں ہوگی۔ جب تمام انبیا اپنے انجام کی خاطر پریشان ہو کر رو رو کر کہہ رہے ہوں گے: نفسی نفسی (میری جان بچ جائے)، ایسے میں رسول اللہ ﷺ رو رو کر امتی امتی ( میری امت بچ جائے) کہہ رہے ہوں گے (322)۔

خدائی قدرت اور نبوی مقام کے درمیان تعلق کے تصور کو شاید سب سے بہتر انداز میں بیان کرنے لیے ان کی نقل کردہ احادیث میں یہ موزوں ترین ہے:

"قیامت کے دن انبیاے کرام کے لیے منبر رکھے جائیں گے جن پر وہ بیٹھ جائیں گے۔ میرا منبر خالی رہے گا، میں اس پر نہیں بیٹھوں گا۔ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں کھڑا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے حبیب! تم کیا چاہتے ہو کہ تمھاری امت سے کیسا معاملہ کروں [ماتريد أن أصنع بأمتك]؟  میں عرض کروں گا: اے پروردگار! ان کا حساب جلدی فرما۔ پس انھیں بلایا جائے گا اور ان کا حساب لیا جائے گا۔ ان میں سے بعض وہ ہوں گے جو اللہ تعالی کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے، اور بعض میری شفاعت سے" (327 – 28)۔

نیز اپنی امت کی اخروی نجات کے لیے حضور ﷺ کی بے انتہا فکرمندی بھی ملاحظہ فرمائیں، جیسا کہ اس حدیث میں ہے: "اور میں شفاعت کرتا رہوں گا حتی کہ مجھے ایسے لوگوں کے ناموں کے دفتر دے دیے جائیں گے جن کے لیے جہنم کا حکم ہو چکا ہوگا، اور مجھے جہنم کا داروغہ کہے گا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنی امت میں خدا کے غضب کی کچھ بھی سزا نہیں رہنے دی" (328)۔

خلاصۂ کلام یہ کہ شفاعتِ نبوی پر خیر آبادی کی بحث میں دو بنیادی استدلالات یہ تھے: (1) اللہ تعالیٰ گناہ گاروں کے حق میں محمد ﷺ کی سفارش ہمیشہ قبول کرتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کی بارگاہ میں محبوب ترین اور بلند ومقام ومرتبے پر فائز ہیں۔ اور (2) قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ سفارش کے طلب گاروں کی مسلسل سفارش کریں گے، تا کہ ان کی مغفرت اور جنت میں ٹھکانے کو یقینی بنائیں۔

سفارش اور سینہ زوری میں فرق

خیرآبادی کے تصورِ شفاعت پر ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر خدا اپنے محبوب (نبی ﷺ) کی ہر سفارش قبول کرتا ہے تو پھر اپنی بارگاہ کے معاملات کو سنبھالنے میں خدا کی اپنی حاکمیت کا کیا ہوگا؟ دوسرے لفظوں میں اگر خدا اپنے پیغمبر کی سفارش کو رد نہیں کرتا تو پھر خدا کی تشریعی قدرت کی حیثیت کیا ہے؟ خیر آبادی اس ممکنہ اعتراض کو سفارش اور تحکم کے درمیان فرق پر زور دینے کے ذریعے زیر بحث لائے ہیں۔ "ہر دانا ونادان یہ جانتا ہے کہ سفارش ایک چیز ہے اور سینہ زوری اور۔ سفارش میں سینہ زوری نہیں ہوتی" (ہر عاقل ونادان می دانند کہ سفارش دیگر است وتحکم دیگر است۔ در سفارش تحکم نہ می باشد) (264)۔ یہ وضاحت خیر آبادی نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کی ہے، کیونکہ ان کی نظر میں اسے بالکل ایک واضح نکتے کی تشریح پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ خدا کا کسی کی سفارش کو قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے علاوہ کسی اور ہستی کو اس کے کارخانۂ قدرت میں مداخلت کا حق ہے۔ خدا اپنے مقربین اور محبوبین کی سفارش کو اس لیے قبول کرتا ہے تاکہ اپنی بارگاہ میں ان کے بلند مقام ومرتبے کو واضح کرے۔ تاہم کسی سفارش کی قبولیت یا تردید کا فیصلہ صرف اس کا ذاتی استحقاق ہے۔ مختصر یہ کہ خدا اپنے مُقَرّبین کی سفارش کسی دباو یا نقصان کی وجہ سے نہیں بلکہ محبت کی وجہ سے قبول کرتا ہے (263 – 70)۔

خدائی اور نبوی قدرت وعظمت کے درمیان ہم آہنگی پیدا  کرتے ہوئے اس مقام پر خیر آبادی کو ایک منطقی تضاد کا سامنا تھا۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ خدا اپنی بادشاہت میں حاکمِ مطلق مختارِ کل ہے جو کسی سے حکم وصول نہیں کرتا۔ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں حضور ﷺ کو ایسا بلند مقام ومرتبہ حاصل ہے کہ ان کی سفارش کبھی رد نہیں کی جاتی۔ کیا اس سے خدا اور نبی ﷺ کے اختیار میں الجھن کا خطرہ نہیں پیدا ہوتا؟ خیر آبادی کی نظر میں بالکل نہیں پیدا ہوتا۔ وہ بنیادی فرق علّیت (causality) کا ہے جو اختیار کی ان دو قسموں کو الگ کرتا ہے۔ خدا کسی کے خوف یا دباو میں آکر سفارش قبول نہیں کرتا، بلکہ سفارش کرنے والے سے محبت کی خاطر قبول کرتا ہے۔

خیر آبادی آگے دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر خدا دباو میں آکر سفارش قبول کرتا ہے پھر تو اس کے پاس اپنی بادشاہت کے لیے درکار حاکمیت ہی موجود نہیں۔ ایسی صورت میں وہ ایک بے اختیار بادشاہ ہے جو صرف براے نام حکمران ہے۔ حقیقت میں اس کے وزیر ہی حکومت کے تمام امور پر مسلط ہیں۔ سیاسی طور پر ایسا بے اختیار  بادشاہ وہی کرے گا جو اس کے وزیر مشیر اس سے کروانا چاہیں گے۔ اسے یہ خوف لاحق ہوگا کہ اگر وہ ان کے مطالبات پورے نہ کرے تو اس کے نتیجے میں اس کی کمزور اور ظاہری حکومت بھی جاتی رہے گی۔ چونکہ ایسا بادشاہ بالکل اپنے وزیروں کے تابع ہے، اس لیے اس کا کسی کی سفارش کو قبول کرنا اطاعت وفرمان برداری ہے نہ کہ سفارش قبول کرنا (فرمان برداری واطاعت است، نہ قبولِ شفاعت) (264)۔ ایسی صورت، خیر آبادی نے بتایا، بارگاہِ الٰہی میں ممکن ہی نہیں۔

خیر آبادی نے شاہ اسماعیل پر سخت تنقید کی کہ سفارش اور سینہ زوری کے درمیان اس قدر اہم فرق کی طرف ان کا دھیان کیوں نہیں گیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ سفارش کی درخواست اور سینہ زوری مکمل پر طور دو الگ چیزیں ہیں ۔ یہ خوف نہیں بلکہ کسی محبوب کے بلند مقام ومرتبہ کے اعتراف کی خواہش ہے جو کسی حاکم اعلیٰ کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ کسی سفارشی کی درخواست کو قبول کرے۔

خیر آبادی نے استدلال کیا کہ شاہ اسماعیل جس بات کے سمجھنے میں ناکام رہے، وہ یہ تھی کہ محبت سفارش کی قبولیت کی واحد وجہ ہے، جو کسی بھی خوف یا دباو سے آزاد ہوتی ہے۔ خیر آبادی نے شاہ اسماعیل کو اس بات کے لیے بطور خاص تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے گناہ گاروں کی بخشش کے واسطے رسول اللہ ﷺ کی دست گیری کو باطل ٹھہرایا، اور عوام میں ناامیدی کا زہر پھیلایا ہے۔ خیرآبادی نے نسبتاً تیکھے انداز میں لکھا: "ہم نافرمان گنہ گاروں، شفاعت کے امیدواروں کو غلط فہمی (اور جہالت) سے منسوب کرکے وہ خود غلطی میں پڑا گیا ہے، اور دوسروں کو غلطی میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، کیوں کہ ثابت ہو چکا کہ حضور ﷺ کی شفاعت اہل کبائر کے لیے یقینی ہے، لہذا سفارش کے امیدواروں کو غلط فہمی میں مبتلا اور خطاکار کہنا بہت بڑی خود فراموشی، غلط فہمی اور بد دینی ہے۔ خدا کرے جو شفاعت سے نا امید ہو، نا امید رہے" (ایں قائل امیدواری را بہ فراموش کاری نامیدہ، بہ گناہ گارانِ بے طاعت امیدوارانِ شفاعت را بغلط کاری نسبت کردہ، خود در غلط وتغلیط افتادہ۔۔۔۔ ہر کہ از شفاعت نومید باشد نومید ماند) (330)۔

خیر آبادی نے اس بات پر بھی شاہ اسماعیل کی گرفت کی کہ انھوں نے شفاعت بالاذن کے تصور کو مکمل طور پر مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ شاہ اسماعیل نے شفاعت بالاذن کی صورت کچھ یوں بیان کی تھی کہ ایک بادشاہ، سفارش کی درخواست موصول ہونے سے پہلے مجرم کو معاف کرنے کا فیصلہ کر چکا ہو۔ اس صورت میں سفارش کا مقصد صرف بادشاہ کے اصولی رجحان کی تائید ہے؛ یہ بادشاہ کے فیصلے کی علت نہیں۔ خیر آبادی نے اس استدلال کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انھوں نے بتایا کہ سفارش کو بے مقصد اور فالتو ہونے سے بچانے کے لیے لازمی ہے کہ وہ مجرم کی براءت کی اصل علت ہو (335)۔

خیر آبادی کے نزدیک شاہ اسماعیل کا یہ نکتہ کہ شفاعت بالاذن صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب بادشاہ نے پہلے سے مجرم کو معافی دینے کا ارادہ کر لیا ہو، سفارش کو بالکل لغو اور بے کار بنا دیتا ہے (در ایں صورت شفاعت لغو وباطل است)۔ خیر آبادی نے اعتراض کیا کہ سفارش کا فائدہ ہی کیا ہے اگر ایک بادشاہ نے سفارش موصول ہونے سے پہلے گنہگار پر رحم کر دیاہو؟ اس نے اپنا نقطۂ نظر سمیٹتے ہوئے کہا: "سفارش اس صورت میں کارآمد ہے، جب وہ مؤثر ہو" (335)۔ خیر آبادی نے اپنے تجزیے کو سمیٹتے ہوئے شاہ اسماعیل کی علمی حیثیت پر بالواسطہ انداز میں ایک تبصرہ داغا: "یہ قائل یا تو جاہل ہے جو اپنے آپ کو عالم ظاہر کرنا چاہتا ہے، اسے سفارش کا معنٰی ہی معلوم نہیں، یا عالم ہے جو جہالت کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ سفارش کا معنی الٹ دکھاتا ہے" (قائلِ یا جاہل متعلم است کہ معناے سفارش در فہم او نہ می آید، یا عالم متجاہل است کہ معناے سفارش واضح گونہ می نماید) (330)۔

شمٹ کے نظریات کی رو سے، خیر آبادی شاہی معاشرتی تصور کے سب سے بہترین محافظ تھے۔ وہ نہ صرف استثنائی صورت – شفاعت کے خصوصی اختیار– کے قائل تھے، بلکہ انھوں نے اسے ایک عام آدمی کے لیے بارگاہ الہی میں گناہوں کی معافی کے لیے اسے ایک ضروری شرط بھی قرار دیتے تھے۔ خیر آبادی نے کھل کر یہ واضح کیا کہ روز محشر کوئی بھی شخص حضور ﷺ کی سفارش کے بغیر بخشش کا پروانہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اس سیاق میں بطور خاص راہ نما نکتہ یہ ہے کہ نبوی اختیار کی حدود کے لیے ان کے تشکیل کردہ استدلال میں ان کی جانب داری اور سماجی مقام کا اظہار کس طرح ہوا۔ ایک بار پھر میرے مقاصد کے لیے جس قدر ان کا استدلال اہم ہے، اسی قدر اس استدلال کی زبان اہم ہے۔

شفاعت پر خیر آبادی کی فکر میں مغل افسر شاہی (bureaucracy) کی علامتیت (symbolism) سرایت کیے ہوئے ہے۔ مثلاً روز قیامت کا منظر پیش کرتے ہوئے خیر آبادی نے رسول اللہ ﷺ کی ایک واضح تصویر کشی کی ہے کہ وہ گنہ گاروں کی طرف سے سفارش کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی فائلوں (دفاتر) کی چھان پھٹک کر رہے ہوں گے۔ نبی ﷺ بذات خود تمام فائلوں کو نظر سے گزاریں گے، اور اپنے ہر درخواست گزار کو بخشش کا پروانہ عطا کریں، جس کے نتیجے میں اسے جنت میں ٹھکانہ ملے گا۔ درحقیقت خیر آبادی کا یہ تصور کہ دربارِ الہی میں نبی ﷺ کی حیثیت سب سے بلند مرتبت افسر کی ہے، گہرے طور پر ایک ایسے پروجیکٹ سے مربوط ہے جس کا مقصد نظام مراتب اور امتیازات پر قائم ایک سیاسی اور قومی مزاج کا تحفظ تھا۔

(جاری)

حواشی

  1. فضل رسول بدایونی، عقیدۂ شفاعت کتاب وسنت کی روشنی میں (بدایون: تاج الفحول اکیڈمی، 2009)، 84؛ محمد موسیٰ دہلوی شاہ اسماعیل کے چچا شاہ رفیع الدین دہلوی کے صاحب زادے تھے۔
  2. مارگریٹ پرناو نے بہت عمدہ طریقے سے اس کتاب کی تاریخ کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ جیل میں اس کتاب کی تکمیل کے بعد یہ "کاغذ اور کپڑے کے کباڑوں میں خفیہ طریقے سے ان کے بیٹے کو ہندوستان بھیجی گئی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے نے اس کتاب کے پارچوں کی از سر نو تدوین کی، اور اسے ان ہندوستانی علما کے پاس بھیج دیا جنھوں نے 1857 کے بعد مکہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ وہاں سے یہ پارچے پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر واپس آگئے۔ عوام میں اس کا ذکر پہلی بار 1914 میں ہوا"۔ پرناو اس کتاب کی تاریخ سے یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں، جس سے میں اتفاق کرتا ہوں، کہ: "کتاب کے مواد اور ساخت میں تحریفات کے وقوع سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، لیکن فی الحال ایسی کسی تحریف کا کوئی ثبوت موجود نہیں"۔ مارگریٹ پرناو، Ashraf into Middle Classes: Muslim in Nineteenth-Century Delhi (نیو دلی، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2013)، 229 – 30.
  3. فضل حق خیر آبادی، الثورۃ الہندیۃ (باغی ہندوستان) (لاہور: مکتبۂ قادریہ، 1977)، 252۔
  4. برصغیر میں اسلامی علم الکلام اور فلسفے میں خیر آبادی مکتبِ فکر کی خدمات کی ایک عمدہ تحقیق کے لیے ملاحظہ کیجیے: The Oxford Handbook of Islamic Theology، اسد احمد اور رضا پورجوادی، “Theology in Indian Subcontinent” تدوین: سَبین شمتکے (آکسفرڈ: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 606 – 24۔
  5. اسید الحق بدایونی، خیر آبادیات (لاہور: مکتبۂ اعلیٰ حضرت، 2011)، 24 – 25۔
  6. عبدالحئی حسنی، نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر، ج 5 (دار عرفات: طیب اکیڈمی،1993)، 586۔
  7. اسید الحق بدایونی، خیر آبادیات، 89 – 102۔
  8. یہ لقب عام طور پر حضرت علی سے منسوب کیا جاتا ہے۔
  9. فضل رسول بدایونی، البوارق المحمدیۃ لرجم الشیاطین النجدیۃ (لاہور: دارالاسلام، 2014)؛ فضل رسول بدایونی، الفوز المبین بشفاعۃ الشافعین، مجموعۂ رسائل بدایونی کے ذیل میں (کراچی، دارالنعمان، 2010)؛ فضل رسول بدایونی، سیف الجبار المسلول علی اعداء الابرار (لاہور: مکتبۂ رضویہ، 1973)؛ فضل رسول بدایونی، احقاق الحق وابطال الباطل (بدایون: تاج الفحول اکیڈمی، 2007)؛ فضل رسول بدایونی، المعتقد المنتقَد (استنبول: حقیقت کتابوی، 1985)۔
  10. فضل رسول بدایونی، مجموعۂ رسائل، 7 – 95۔
  11. فضل رسول بدایونی، مجموعۂ رسائل؛ البوارق المحمدیۃ؛ "الفوز المبین؛ سیف الجبار؛ احقاق الحق؛ اور المعتقد المنتقَد۔
  12. بدایونی نے یہ کتاب مکہ کے ایک عالم کی درخواست پر لکھی تھی۔
  13. ایضاً، 131۔
  14. برطانویوں کے ساتھ خیر آبادی کے تعلقات اور 1857 کی جنگ آزادی میں اس کے کردار کے ایک تفصیلی جائزے کے لیے دیکھیے: Indian Economic and Social History Review 43، نمبر 1 (مارچ 2006) میں: جمال ملک، Letters, Prison Sketches, and Biographical Literature: The Case of Fazl-e-Haq Khairabadi in the Andaman Penal Colony ، 77 – 100۔
  15. الحسنی، نزهة الخواطر، 586۔
  16. اسید بدایونی، خیر آبادیات، 107۔
  17. احمدیوں کے عقیدۂ نبوت اور اسلامی فکر میں اس کی حیثیت کے لیے دیکھیے: یوحانن فرائیڈمین کی کلاسیک، Prophecy Continuous: Aspects of Ahmadi Religious Thought and Its Medieval Background (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1989)۔ مزید دیکھیے عادل خان کی عمدہ کتاب، From Sufism to Ahmadiyya: A Muslim Minority Movement in South Asia (بلومنگٹن: انڈیانا یونیورسٹی پریس، 2015)۔
  18. خیر آبادی نے لگ بھگ 1848 اور 1853 کے درمیان امکان نظیر کی تردید ایک اور بنیادی اور معروف کتاب "امتناع نظیر" کے نام سے لکھی۔ یہ خیر آبادی کی جانب سے شاہ اسماعیل کی تردید پر سید احمد کے شاگرد حیدر علی ٹونکی (م 1865) کا جواب الجواب ہے۔ (اسید بدایونی، خیر آبادیات، 135، 162 – 71)۔
  19. فضل حق خیر آبادی، تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی (لاہور: مکتبۂ قادری، 1979)، 261؛ آنے والے حوالہ جات اسی اشاعت سے لیے گئے، اور بین القوسین متن میں دیے گئے ہیں۔ احمد دلال نے بتایا ہے کہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے احیا پسند بڑے مسلمان اہل علم میں سے محمد بن عبد الوہاب اس حوالے سے منفرد تھے کہ انھوں نے ایسے اعمال کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کی جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) پر سمجھوتے کے نتیجے میں اعتقادی نافرمانی کے مترادف  تھے (احمد دلال،”The Origins and Objectives of Islamic Revivalist Thought: 1750-1850”، جرنل آف امیریکن اورینٹل سوسائٹی 113، نمبر 3 [1993]: 341 – 59)۔ اس نکتے کی روشنی میں یہ بات مفید ہوگی کہ انیسویں صدی کے ہندوستانی تناظر میں زیر بحث مناقشے میں خیر آبادی اور بعد ازاں احمد رضا خان نے، جو ابن عبد الوہاب کے مسلکی مخالفین تھے، اپنے مخالفین پر کفر کے فتوے لگائے۔ اس کا مقصد محض یہ بتانا نہیں کہ تکفیر صرف اور صرف وہابیوں کا کام نہیں، بلکہ یہ بھی واضح کرنا ہے کہ ایسے فتووں کا سبب اعتقادی خرابی کے متنوع مفاہیم ہیں جن میں کسی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا بھی شامل ہے۔ تکفیری استدلالات اور نظریات جو تکفیر کے تیروں کا محرک بنے، بڑی حد تک متنوع تھے، اور ان کا نشانہ بننے والے اہداف غیر متوقع تھے۔
  20. بحوالہ خیر آبادی، تحقیق الفتوی، 265۔
  21. خیر آبادی، تحقیق الفتوی، 267۔ حدیث قدسی سے مراد وہ حدیث ہے، جس میں نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو روایت کرتے ہیں۔
  22. القرآن 2 : 253۔
  23. نبوات کے متعلق ایسی روایات کے ایک عمدہ جائزے کے لیے دیکھیے: کارل ارنسٹ، “Muhammad as the Pole of Existence”، کیمبرج کمپینین ٹو محمد، مدونین: جوناتھن براکپ (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2009)۔ نیز دیکھیے: اینے میری شمل، And Muhammad Is His Messenger: The Veneration of the Prophet in Islamic Piety (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 1985)۔
  24. القرآن 48 : 10۔

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter