مطیع سید: عبد اللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ ہوا توآپﷺ نے یہودیوں سے پچاس قسمیں اٹھوائیں،جسے قسامت کہا جا تا ہے۔آپ ﷺ نے غالباً ان کی دیت بھی دی۔1یہ پچاس قسمیں اٹھوانا کیا ہماری شریعت میں ہے یا یہ یہود کے قانون کے مطابق تھا؟
عمار ناصر: نہیں، یہود کے ہاں یہ قانون نہیں تھا۔جو عرب میں ایک روایت چلی آرہی تھی، اس میں یہ طریقہ موجود تھا۔
مطیع سید: کیاایسے کیس میں قسامت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں کوئی گواہ موجود نہ ہو؟
عمار ناصر:اس کی صورت یہ ہے کہ کسی جگہ کوئی آدمی مقتول ملے اور گواہ وغیرہ کوئی نہ ہو تو کیا اس خون کو ایسے ہی رائیگاں جانے دیا جائے یا اس علاقے کے لوگوں کو مجموعی طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟ عرب میں یہ رواج تھا کہ جہاں مقتول کی لاش ملی ہے، وہاں پہلے مقامی لوگوں سے قسمیں لی جائیں کہ انھوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ وہ قاتل کو جانتے ہیں، اور پھر ان پر دیت کی رقم عائد کی جائے۔ فقہاء کے مابین اس حوالے سے کافی بحث ہے۔ مالکیہ اس میں کافی شرائط لگاتے ہیں۔ان کا موقف نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں پر تب ذمہ داری عائد کی جائے گی جب کچھ ایسے قرائن موجود ہوں جو یہ بتائیں کہ اس قبیلے کے ساتھ مقتول کی کوئی دشمنی تھی، ورنہ نہیں۔ باقی فقہا کہتے ہیں کہ اس شرط کی ضرورت نہیں۔ جہاں مقتول ملا ہے، بس ان لوگوں پر دیت کی ذمہ داری عائد کردی جائے تاکہ خون رائیگاں نہ جائے۔تو یہ کافی محلِ اجتہاد بحث ہے۔
مطیع سید؛ کیا یہ مذہبی نوعیت کی چیز تھی یا محض اہل عرب کے ہاں ایک رواج تھا؟
عمار ناصر: اصل میں تو اہل عرب کا رواج ہی تھا، لیکن جب نبیﷺ نے اس کو اختیار کیا توا یک طرح کی توثیق ہوگئی،لیکن اس کے بارے میں فقہا میں بڑی بحثیں ہیں۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کا آپﷺ نے قولاً تو حکم نہیں دیا کہ ایسے مقدمات میں ایسے کیا کرو۔ لیکن ایک واقعہ میں اس طریقے کو برتا تو اس میں کئی حوالےسے بحثیں ہیں۔اس واقعہ کی تفصیلات میں بھی روایتیں بہت مختلف ہیں۔بعض میں ہے کہ آپﷺ نے ان سے قسمیں لینے کی بات کی اور اس کے بعد فرمایا کہ تم وہ آدمی بتاؤ جس پر شک ہے، میں اسے تمھارے حوالے کر دیتاہو ں۔بعض روایات میں ایسا لگتا ہے کہ آپﷺ نے قصاص کے لیے کہا،بعض میں لگتا ہے کہ صرف دیت لینے کی بات کی۔تو یہ بھی فقہا میں مختلف فیہ ہے کہ کیا قسامت کی بنیادپر ہم قصاص لے سکتے ہیں یا صر ف دیت ہی لے سکتے ہیں؟ خلفاء کے ہاں جو واقعات ملتے ہیں، ان سے لگتا ہے کہ بعض حضرا ت قصاص لینے کے بھی قائل تھے۔ تابعین کے زمانے میں اس پر کافی بحث بھی ہوئی۔ امام بخاری نے وہ پوری بحث نقل کی ہے۔ عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور میں اہل ِ علم کو جمع کیا اور قانونی نقطہ نظر سے اس طریقے پر جو سوالات پیداہوتے ہیں، وہ اٹھا کر کہا کہ میں چاہتاہوں کہ اس طریقے کو ختم کردوں اور اس پر فیصلے نہ کیے جائیں۔اس پر ابو قلابہ نے ان سے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے،ا س لیے کہ یہ پیچھے سے ایک روایت چلی آرہی ہے اور معلوم ومعرو ف ہو چکی ہے۔
پھر آگے چل کر ابن رشد کو البدایہ میں دیکھیں تو انھوں نے بعض فقہا کے حوالے سے کچھ تنقیدی سوالا ت اٹھا ئے ہیں۔ جمہور کے ہاں تو یہ مانا جاتا ہے کہ قسامت کا طریقہ ٹھیک ہے،اس اختلاف کے ساتھ کہ ان قسموں کی بنیاد پر قصاص ہو گا یا صرف دیت لی جائے گی۔ احناف کہتے ہیں کہ صرف دیت ہو گی۔لیکن بعد میں بعض فقہا نے یہ سوالا ت بھی اٹھائے کہ اصل میں نبی ﷺ نے جو قسامت کے طریقےکا حوالہ دیا تو آپ ﷺ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یہ کوئی فیصلہ کرنے کا مستند طریقہ ہے۔ آپﷺ دراصل چاہ رہے تھے کہ یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں ہم کسی پر بھی الزام عائد نہیں سکتے، کیونکہ کوئی گواہ اور ثبوت موجود نہیں ہیں۔چنانچہ آپﷺ نے انصار کو مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ دیکھو، ایسا کر لیتے ہیں کہ یہودیوں سے قسمیں لے لیتے ہیں۔مقصد یہ تھا کہ مقتول کے ورثاء خود ہی متوجہ ہوں کہ یہ تو فیصلہ کرنے کا مناسب طریقہ نہیں ہے۔یعنی آپ کا مقصد اس طریقے کی توثیق کرنانہیں تھا،بلکہ یہ اشارہ کرنا تھا کہ یہ انصاف کے معروف اصولوں کے لحاظ سے ناقابل عمل طریقہ ہے۔ ابن رشد کا رجحان بھی اسی رائے کی طرف لگتا ہے۔
مطیع سید:کچھ لوگ مدینے میں بیمار ہو گئے تھے تو آپﷺ نے انہیں اونٹوں کا پیشاب پینے کا کہا۔2 کیا اونٹوں کا پیشاب پینے کا رواج پہلے سے عرب میں تھا یا آپﷺ نے یہ مشورہ دیا؟
عمار ناصر: عرب کے ہاں یہ رواج موجود تھا۔ وہ پیٹ کی بعض بیماریوں کے لیے اونٹ کا پیشاب بطور دوااستعمال کرتےتھے۔
مطیع سید: ایک عورت کو دوسری عورت نے چوٹ لگائی تو اس کے بچے کی جان ا س کے پیٹ میں ہی ضائع ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی دیت الگ سے عائد کی۔ اس پر ایک شخص نے اعتراض کیا کہ بچے کی دیت دینے کی کیا تک ہے، وہ تو نہ بولا اور نہ چیخا نہ کوئی آواز نکالی۔ ایسے وجود کی تو کوئی دیت نہیں ہوتی۔3 بظاہر اس کی بات بڑی معقول لگتی ہے،لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کاہنوں کا بھائی لگتا ہے۔
عمار ناصر: اس نے بڑے مسجع قسم کے الفاظ بولے تھے، اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کاہنوں جیسا کلام کر رہا ہے۔
مطیع سید:گویا اس کی بات پر نہیں،الفاظ پر اعتراض تھا؟
عمار ناصر:نہیں، بات پر ہی اعتراض تھا۔آپﷺ نے فرمایا کہ ایک انسانی جان ہے جس کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ وہ پیٹ میں زندہ تھی اور جارح نے اس کو چوٹ لگا کر جان ضائع کر دیا تو اس کی دیت ہو نی چاہیے۔ اس شخص نے اس پر ایک مسجع کلام پیش کر دیا کہ جو بچہ پیٹ سے باہر ہی نہیں آیا اور نہ بولا نہ چیخا، اس کی دیت کیوں دی جائے؟ اس کی نامعقولیت پر آپﷺ نے تبصرہ کیا۔ مراد یہ ہے کہ اگرچہ وہ ایک پورا انسان نہیں بنا تھا، اس لیے پوری دیت اس کی نہیں دلوائی جائے گی،لیکن وہ ایک زندہ وجود تو تھا۔اس کو اگر کسی نے مار دیا ہے تو کچھ نہ کچھ تو سزا ہونی چاہیے۔
مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ حدود کے علاوہ دس کوڑوں سے زیادہ سز ا نہیں ہونی چاہیے4 جبکہ فقہا اس سے زیادہ کے بھی قائل ہیں۔
عمار ناصر: اس میں بڑی بحث ہے کہ فی حد من حدود اللہ سے کیا مرا د ہے؟یعنی کیا یہ حد اس معنی میں ہے جسے ہم فقہی اصطلاح میں حد کہتے ہیں؟ یا یہ مراد ہے کہ اللہ کے کسی حکم کو توڑنے پر کسی کو سزا دی جائے تو وہ دس کوڑوں سے زیادہ ہو سکتی ہے،لیکن کچھ سزائیں جو عام تادیبی نوعیت کی ہوتی ہیں، ان میں دس سے زیادہ کوڑے نہیں لگانے چاہییں۔میرے خیال میں یہاں یہ دوسرا مفہوم مراد ہے۔جب تک شریعت کا کوئی حکم کسی نے نہیں توڑا، تب تک اس کو دس سے زیادہ کوڑوں کی سزا نہیں دینی چاہیے۔ مثلاً استاد کسی کو سز ا دے رہا ہے یا غلام کو مالک تادیب کررہا ہے یا کسی بد انتظامی پر ماتحت کو سزا دی جا رہی ہے یا باپ بیٹے کو نافرمانی پر سزا دے رہا ہے تو اس کے متعلق آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے۔
مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ حد کفار ہ ہے یعنی جس شخص پر حد نافذ ہو ئی، و ہ اس کے لئے کفارہ بن گئی۔5 لیکن بالفرض کسی نے دس لوگوں کو قتل کیا،اس پر حدِ قصاص نافذ بھی ہوگئی، پھر بھی اس کی تو ایک ہی جان گئی۔ اس نے تو دس جانیں لی تھیں، یہ کیسے اس کے جرم کا کفارہ بن سکتی ہے؟ایک ستر سال کا بوڑھا ہے جس نے ایک بیس سالہ نو جوان کو قتل کردیا تو اس کی جان لینے سے نوجوان کا قصاص نہیں ہو جاتا، کیونکہ پوری طرح تلافی نہیں ہورہی۔ تو پھر نبیﷺ کا یہ فرمان کہ حد کا نفاذ کفارہ بن جاتا ہے،کس حوالےسے ہے؟
عمار ناصر: اس کو سمجھنے کے دوطریقے ہوسکتےہیں۔ظاہر ہے کہ جب روایت کوئی بڑا اشکال پیداکر ے تو اس کو حل کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ایک یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اس کو بعض چیزوں کے ساتھ مخصوص کردیتےہیں،مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ قتل کا معاملہ الگ ہے، وہ اس اصول کے تحت نہیں ہے۔دوسرے گناہ جن کے بارےمیں کوئی دوسری نص یا کوئی عقلی یاقیاسی اصول ایسی کوئی الجھن پیدا نہیں کرتا، ان کا حکم حدیث میں بیان ہوا ہے۔یا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ قتل بھی اس میں شامل ہے لیکن اس میں پھر یہ اور یہ قیود ہیں، مثلاً یہ کہ بہت زیادہ قتل کرنے والے لوگ اس میں شامل نہیں۔ گویا جو بھی فرق ہوتا ہے، اسے پھر آپ قیاساً اس طرح حل کرتے ہیں۔ یعنی قتل اس دائرے میں آئے گا تو یہ اور یہ شرطیں اس پر لاگو ہوں گی، اور یا پھر قتل کو باقی جرائم سے الگ شمار کیا جا سکتا ہے۔تو یہ دونوں طریقے ہو سکتے ہیں۔
مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے ایک گواہ اور ایک قسم سے فیصلہ کردیا۔6 احناف اس کے قائل نہیں۔ وہ کہتےہیں کہ یہ خبر ِ واحد ہے اور قرآن کے مقابلےمیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔
عمار ناصر: میرے خیال میں شہادات کے معاملے میں احناف کے موقف میں جو بنیادی کمزوری ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن میں جو نصاب بیان ہوا ہے، اس کو عدالت کے لیے ضابطہ مان لیا گیا ہے کہ اس کی پابندی ہونی چاہیے۔دومرد ہوں یا ایک مرد ہو اور دوعورتیں، قرآن میں تو عدالت زیرِ بحث نہیں ہے۔قاضی کو اللہ نے نہیں کہا کہ تم نے اس کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔اس میں تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی راہنمائی کر رہے ہیں کہ بہتر ہے کہ اس طرح سے کر لو تاکہ اگر کوئی تنازع ہو تو اس کا تصفیہ ہو سکے۔ قاضی تو کسی طرح بھی مخاطب نہیں ہے۔قاضی کے پاس کوئی بھی گواہ نہ ہو، تب بھی اس نے فیصلہ کرنا ہے۔اس لیے میرے خیال میں تو یہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا بڑی قابل فہم بات ہے۔اصل میں تو قاضی مجموعی قرائن وشواہد سے مطمئن ہوگیا ہے کہ مدعی کا دعویٰ ٹھیک ہے۔اب اگر دو گواہوں کی قانونی رسم نہیں پوری ہورہی تواس کی تلافی کے لیے مدعی کی ایک قسم کو بھی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔
مطیع سید: فدک کے حوالے سے میراثِ نبوی ﷺ کی تقسیم کے مسئلے میں حضرت فاطمہ ؑ حضرت ابو بکرصدیق کے پاس جاتی ہیں اور وہ انہیں بتاتے ہیں کہ نبی کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔7 اس پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو تو اس معاملے میں غیرمعمولی حساس ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو واضح طور پر بتا دیتےکہ میراث ِ نبی کا یہ معاملہ ہوتا ہے۔ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟
عمار ناصر: دیکھیں، مسئلہ تو ہمارے سامنے آیا ہے اور ہم توقع کرتےہیں کہ جو سوال ہمارے سامنے آیا، رسول اللہ ﷺ اس کو کیوں نہیں حل کرکے گئے۔اللہ تعالیٰ کا اور پیغمبر کا یہ انداز نہیں ہے۔ان کی ترجیحات،ان کا چیزوں کو موضوع بنانے کا طریقہ، وہ بالکل اور ہوتا ہے۔
مطیع سید: ایسا لگتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کی بات سے حضرت فاطمہ مطمئن نہیں ہوئیں۔
عمار ناصر: جی، وہ مطمئن نہیں ہوئیں اور روایات میں ہے کہ وہ اس بات پر اپنی وفات تک حضرت ابوبکر سے ناراض رہیں اور ان کے ساتھ کلام نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر کے ساتھ گفتگو میں سیدہ کا استدلال یہ تھا کہ جیسے ہر آدمی کی وراثت تقسیم ہوتی ہے، اسی طرح حضور کی وراثت بھی ہمیں ملنی چاہیے، لیکن یہ واضح نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکر نے جو ارشاد نبوی بیان کیا، اس کو سیدہ نے قبول کیوں نہیں کیا یا اس کی ان کے ذہن میں کیا توجیہ تھی۔ ابن سعد کی ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابوبکر نے یہ حدیث بیان کی تو سیدنا علیؓ نے اس پر معارضہ کیا کہ قرآن میں ہے کہ حضرت سلیمان حضرت داود کےوارث بنے اور حضرت زکریا نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں اولاد عطا کی جائے جو ان کی وارث بنے۔ حضرت ابوبکر نےکہا کہ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن جو بات میں بیان کر رہا ہوں، وہ آپ کے علم میں بھی ہے۔ اس میں بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ حضرت علیؓ اس حدیث کی کیا توجیہ کرتے تھے جو حضرت ابوبکر نے بیان کی۔
ابن سعد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر نے سیدہ فاطمہ سے کہا کہ میں نے تو حضور سے یہ بات سنی ہے، لیکن اگر آپ یقین سے یہ کہہ سکتی ہے کہ مدینہ اور خیبر اور فدک کی یہ زمینیں حضور نے آپ کو دی ہیں تو میں آپ کی بات مان لیتا ہوں۔ سیدہ نے کہا کہ مجھے ام ایمن نے بتایا تھا کہ فدک کی زمین حضور نے مجھے دی ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ اگر آپ نے حضور سے خود یہ بات سنی ہے تو میں آپ کا مطالبہ مان لیتا ہوں۔ سیدہ نے کہا کہ میرے پاس جو خبر تھی، وہ میں نے آپ کو بتا دی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ، ذکر میراث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
تو یہ اس مسئلے میں ایک مشکل سوال ہے کہ آخر حضرت علی اور سیدہ فاطمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واضح ارشاد سامنے ہوتے ہوئے بھی اس پر کیوں اصرار کر رہے ہیں کہ فدک اور خیبر وغیرہ کی زمینیں بطور وراثت ان کو دی جائیں۔ میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ شاید یہ حضرات اس کو اس پر محمول کرتے ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بطور قانون نہیں فرمائی تھی، بلکہ اپنا ایک رجحان ظاہر کیا تھا کہ آپ کو دیا گیا مال دوسرے لوگوں کی طرح بطور جائیداد تقسیم نہ ہو، بلکہ اس سے بس اہل خانہ کی ضروریات پوری کی جاتی رہیں۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ آپ کے ارشاد کی نوعیت یہ تھی تو پھر ان حضرات کا موقف کافی حد تک قابل فہم بن جاتا ہے کہ آپ ان زمینوں کے متعلق کوئی قانونی فیصلہ نہیں فرما کر گئے، بلکہ آپ نے اپنی پسند اور ترجیح بیان فرمائی ہے۔ تاہم قانونی اور شرعی طور پر اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا آپ کے وارثوں کا اختیار ہے، اس لیے اصول کے مطابق ان زمینوں کو تقسیم کیا جائے اور پھر ورثاء اپنی پسند اور اختیار سے جو فیصلہ کرنا چاہیں، کر لیں۔ میرے خیال میں یہ یا اسی سے ملتا جلتا کوئی قیاس ان حضرات کے ذہن میں تھا جس کی وجہ سے وہ اصرار کر رہے تھے اور حضرت عمر کے دور تک کرتے رہے کہ یہ زمینیں بطور ملکیت ان کے حوالے کی جائیں۔
مطیع سید: میں نے ایک معتبر عالم سے سنا، وہ فرمارہے تھے کہ حضرت فاطمہ فدک کی مالکیت مانگنے نہیں گئی تھیں بلکہ وہ یہ چاہ رہی تھیں کہ ان زمینوں کا انتظام و انصرام انہیں دے دیا جائے۔
عمار ناصر: نہیں،یہ بھی صحیح نہیں ہے۔اہلِ بیت کا موقف یہ نہیں تھا۔ ان کا اصل موقف یہ تھا کہ یہ زمینیں ہمیں بطور وراثت ملنی چاہییں،جیسے ہر مرنے والے کے وارثوں کو ملتی ہیں۔ جہاں تک انتظام و انصرام حضرت علی اور حضرت عباس کے سپرد کرنے کا تعلق ہے تو حضرت عمر نے یہ اقدام ان حضرات کو مطمئن کرنے کے لیے کیا تھا، لیکن یہ ان کا اصل مطالبہ نہیں تھا۔
مطیع سید:غلامی کو ممنوع قرار دینے کے حوالے سے قرآن میں کوئی واضح حکم تو نہیں ہے۔
عمار ناصر: قرآن نے آزاد کرنے کی عمومی ترغیب دی ہے،بعض کفاروں میں اس کو شامل کردیا ہے،زکوٰۃ کے مصارف میں بھی شمار کیا ہے، لیکن کوئی قانونی حکم نہیں دیاکہ بطور ایک سماجی ادارے کے اب غلامی ختم کی جا رہی ہے۔
مطیع سید: یہ کہاجاتا ہے کہ قرآن نے اس کو ختم کر نے کی ابتدا کی تھی،تبھی غلامی ختم ہوئی۔ لیکن اگر امریکہ کی مثال لیں توابراہام لنکن نے غلامی کے خاتمے کا جو فیصلہ کیا، اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی؟
عمار ناصر: جی یہ بھی درست بات نہیں کہ قرآن سے پہلے غلام کو آزاد کرنے کا تصور اخلاقی طور پر موجود نہیں تھا۔ مختلف تہذیبوں میں یہ تصور موجود تھا اور بعض یونانی اور ایرانی حکمرانوں نے غلامی پر باقاعدہ پابندی لگانے کی بھی کوشش کی تھی۔ مغربی تہذیب میں بھی مسیحی اخلاقیات کے زیر اثر یہ بحث موجود رہی ہے۔ جدید دور میں یورپ اور امریکا میں غلامی کے خاتمے میں کلیسا کا اور مسیحی الہیات کا بھی کافی موثر کردار ہے۔ مسلمانوں کے ہاں یہ خیال تو بظاہر پیدانہیں ہواکہ بطور ادارہ غلامی کا خاتمہ کر دیا جائے، لیکن قرآن نے غلاموں کو آزاد کرنے کی جو ترغیب دی تھی، اس سے مسلمانوں کے ہاں غلام کو آزاد کرنا ایک کار خیر کے طورپر جاری رہا اور زیادہ تر معاشروں میں غلامی عوامی سطح پر بہت محدود ہو گئی تھی۔ بعد کی صدیوں میں زیادہ تر بادشاہوں اور اشرافیہ کے مختلف طبقات میں ہی غلام باندیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
مطیع سید: بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق کی رائے بظاہر بعد میں درست نکلی8 کیونکہ ان لوگوں میں سے بہت سے لوگ بعد میں مسلمان ہوئے انہیں ہدایت نصیب ہوئی،اورانہو ں نے دین کے لیے بڑی گراں قدر خدمات بھی سرانجام دیں۔اگر وہ اس وقت قتل کر دیے جاتے تو اسلام سے بھی محروم ہو جاتے۔ لیکن قرآن کی آیات میں اس پر ایک طرح کا عتاب نظر آتا ہے اور حضرت عمر کے موقف سے زیادہ مطابقت رکھتاہے۔
عمار ناصر:ہاں، فیصلوں کے ممکنہ نتائج تو مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن قرآن مجید میں خاص اس موقع پر جو اللہ تعالیٰ کی منشا تھی، اس کو نمایاں کیا ہے۔اصل میں اللہ تعالیٰ اس موقع پر جو چاہ رہے تھے، وہ بڑا اہم تھا۔ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ بدر میں دونوں گروہوں کو آپس میں بھڑانے کا سارا بندوبست ہم نے ہی کیا تھا، ورنہ عام اسباب کے لحاظ سے شاید دونوں ہی گروہ اس لڑائی کے لیے آمادہ نہ ہوتے۔تو اللہ تعالیٰ چاہ رہے تھے کہ یحق الحق و یبطل الباطل،جب یہ معرکہ برپا ہو گیا ہے تو اس موقع پر قریش کو خوب زک پہنچائی جا ئے اور کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا جائے۔
مطیع سید: آپﷺ گدھے پر سوار جارہے تھے،مسلمان اور مشرکین اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے تو عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ آپﷺ ہمیں اپنے گدھے کی دھول سے اذیت نہ دیں۔9 بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی کہ جب مومنوں کی دوجماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو صلح کر وادو۔لیکن وہاں تو مسلمان،یہودی اور مشرکین بیٹھے ہوئے تھے، وہاں کون سی مسلمانوں کی دوجماعتیں تھیں؟
عمار ناصر: اصل میں آیتوں کا واقعات پر جو انطباق ہے وہ بعد میں لوگ قیاس سے بھی کرتےہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ آیت بعینہ اسی موقع پر آئی ہو، لیکن بات سمجھانے کے لیے اس آیت کا حوالہ دے دیا جاتا تھا۔اصلاً تو یہ آیت مومنین کے بارے میں ہے، لیکن کچھ لوگ اگر اکٹھے رہ رہے ہوں،مثلاً مشرکین اور مسلمان وغیرہ اکٹھے رہ رہے ہوں تو قرآن یہ تونہیں کہہ رہا کہ آپ وہاں کوئی صلح کے لیے کوئی کردار ادا نہ کریں۔گویا اس ہدایت کا انطباق اس صورت حال پر بھی ہوتاہے۔عبد اللہ بن ابی کے واقعے میں منافقین کو بھی اگر وسیع مفہوم میں مومنوں میں شمار کیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ اگر چہ مومنوں کی جماعت میں کچھ دوسرے لوگ بھی شریک ہیں، لیکن بحیثیت گروہ یہ مومنوں کا ہی گروہ ہے۔تو اس پر بھی آیت کا انطباق ہو سکتا ہے۔
مطیع سید: آپﷺ نے جو مختلف مواقع پر اشعار پڑھے 10 وہ آپ کے اپنے اشعارتھے یاکسی کے اشعار آپ نے پڑھے؟
عمار ناصر: زیادہ تر آپ نے دوسرے شعرا کے اشعار ہی پڑھے ہیں۔ بطور فن کے آپ نے شاعری نہ سیکھی اور نہ کی۔ البتہ حنین کے موقع پر آپ نے انا النبی لا کذب، انا ابن عبد المطلب کے کلمات پڑھے۔ اس طرح کے جو ارتجالی جملے ہیں، وہ ایک استثنائی بات ہے۔
مطیع سید: عورتوں کے لیے مالِ غنیمت نہیں تھا۔11 لیکن عورتیں ساتھ تو جاتی تھیں اور میدانِ جنگ میں خدمات بھی سر انجام دیتی تھیں۔
عمار ناصر:عورتیں بنیادی طورپر جنگ میں حصہ لینے کی مکلف نہیں تھیں اور نہ وہ بطور جنگجو، میدان میں جاتی تھیں۔ اس لیے مال غنیمت میں ان کی حیثیت ثانوی رکھی گئی۔ انھیں کچھ نہ کچھ دے دیاجاتا تھا، لیکن باقاعدہ ایک مقاتل کی حیثیت سے ان کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا، کیونکہ وہ اس حیثیت سے شریک ہی نہیں ہوتی تھیں۔
مطیع سید: نجدہ بن عامر جو خوارج کا سردارتھا،حضرت عبد اللہ بن عمر اس کے پیچھے نمازپڑھ لیتے تھے۔حالانکہ نبیﷺ نے ان کے بارے میں فرمایاکہ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرکمان سے۔
عمار ناصر:یہ ان کی مذہب حالت پر نبیﷺ نے تبصرہ فرمایا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہی شمار نہیں ہوں گے۔
مطیع سید: یہ بارہ خلفا جو لقریش سے ہوں گے،12 ان کے بارے میں راجح قول کیاہے؟کیا یہ تسلسل کے ساتھ برسراقتدار آئے یا مختلف اوقات میں وقفے وقفے سے آتے رہے؟
عمار ناصر: مجھے شارحین کا رجحان یہی مستحضر ہے کہ یہ وقفے وقفے سے برسراقتدار آئے۔
مطیع سید: نبیﷺ نے حکمرانوں کے قریشی ہونے کو شرط قرار دیا کیونکہ اس وقت عرب کی سیاسی فضا اسی کا تقاضا کر رہی تھی۔تو کیا اس بات کا انصارکو علم نہ تھا جو سعد بن عبادہ کو نبی ﷺ کے بعد خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے؟ان میں سے کسی کو بھی اس بات کا علم نہ تھا کہ نبیﷺ نے قریشی ہونے کی شرط لگائی ہے؟
عمار ناصر: نہیں، ان کے علم میں تو تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے سامنے یہ بات پیش کی گئی تھی۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ نبیﷺ کی یہ ہدایت تشریعی نوعیت کی نہیں تھی،یعنی آپ دین کا کوئی حکم بیان نہیں فرما رہے تھے جس کے خلاف کوئی رائے نہیں رکھی جا سکتی۔ساری روایات آپ جمع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺسیاسی انتظام کی ایک وجہ بیان کرکے اس حوالےسے یہ بات کہہ رہے تھے۔ مہاجرین کی طرف سے اس ارشاد کا حوالہ دیا گیا تو اس کا انداز بھی ایسا ہی تھا اور جواباً انصار کے ردعمل سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ دونوں اس کو کوئی تشریعی حکم نہیں سمجھ رہے تھے، بلکہ اس کے علاوہ دوسرے عملی امکانات کو بھی قابل غور مانتے تھے۔ مثلاً انصار کی طرف سے اس کے جواب میں یہ تجویز آئی کہ مہاجرین اور انصار، دونوں میں سے ایک ایک امیر ہو۔ لیکن یہ تجویز ناقابل عمل تھی، یوں حضرت ابوبکر کی خلافت پر عمومی اتفاق ہو گیا۔
مطیع سید:آپﷺ نے حضرت ابوذر کو ایک موقع پر فرمایا کہ تم کمزور ہو، اگر تمھیں دو آدمیوں پر بھی حاکم بنایا جائے تو نہ بننا۔13
عمار ناصر: مطلب یہ ہے کہ انتظامی ذمہ داری اٹھانا تمہارامزاج نہیں ہے۔کمزور ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم میں امانت نہیں ہے۔مراد یہ ہے کہ اس ذمہ داری کے لیے جو ایک خاص صلاحیت چاہیے ہوتی ہے، وہ تم میں نہیں ہے۔
مطیع سید: صحابہ نے نبی ﷺ سے ایک مرتبہ پوچھاکہ کیاہم برے حکمرانوں کے خلاف جنگ نہ کریں جب وہ ہم پر مسلط ہو جائیں تو آپﷺ نے منع فرمادیا۔14 روایات میں ظالم حاکموں کے بارے میں صبر کی ہی تلقین ملتی ہے15 اس کی کیا وجہ ہے؟
عمار ناصر: وجہ یہی ہے کہ اس میں جو خون بہے گا، وہ مسلمانوں کاہی بہے گا۔
مطیع سید: تو فقہا نے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کا جواز کہاں سے مستنبط کیاہے؟
عمار ناصر:اصل میں آپﷺ نے جو خروج سے منع فرمایا تو اس لیے نہیں فرمایاکہ ظالم کے ظلم کو جائز سمجھا جائے کہ جو وہ کر رہاہے، اسے اس کا اختیار ہے۔یہ اس حوالےسے تھا کہ اس سے مسلمانوں میں فساد اور خون خرابہ ہوگا اور نظام زندگی بالکل منتشر ہو جائے گا، اس لیے یہ راستہ اختیار نہ کیا جائے۔اب جو لوگ کو شش کررہے تھے،وہ اپنے فہم کے لحا ظ سے ایسی صورتِ حال دیکھ رہے تھے کہ ہمارے لیے اپنی کوشش میں کامیابی کا امکان ہے اور اگر کامیابی ہو گئی تو جابر حکمرانوں سے مسلمانوں کو نجات مل جائے گی۔ گویا وہ اس سے خروج کا جواز اخز کرتے تھے کہ اگر ان ظالموں سے جان چھوٹ گئی تو اس دوران میں جو خون خرابہ ہو گا، وہ جسٹیفائی ہو جائے گا۔ تو اس میں بھی ایک اجتہادی گنجائش موجود ہے۔
مطیع سید: آپ نے فرمایا کہ جو جماعت سے نکل گیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔16 اس طرح کی روایات بھی آتی ہیں کہ جس کے گلے میں بیعت کا قلادہ نہ ہوا، وہ بھی جاہلیت کی موت مرا۔ لیکن حضرت سعد بن عبادہ نے تو نہ حضرت ابوبکر کی بیعت کی اور نہ حضرت عمر ِ فاروق کی۔
عمار ناصر:میرے خیال میں یہ وعید اصلاً اور براہِ راست تو ان لوگوں کے لیے ہے جو بیعت نہ کریں اور مخالفانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوں اور اجتماعیت کو پھاڑنے کی کوشش کریں۔سعد بن عبادہ کا معاملہ یہ تھا کہ انہوں نے اگر چہ حضرت ابوبکر کی بیعت کو قبول نہیں کیا، لیکن عملاً کوئی مسئلہ پیدانہیں کیا۔ بس مسلمانوں کے معاملات سے الگ تھلگ ہو گئے۔
مطیع سید: بیعتِ رضوان پر کچھ صحابہ نے کمنٹس دیے کہ ہم نے موت پر بیعت نہیں کی تھی بلکہ صرف نہ بھاگنے پر بیعت کی تھی۔بعض نے کہا کہ ہم نے موت پر بیعت کی تھی۔17 کیا یہ معاملہ صحابہ کے ہاں واضح نہیں تھا؟
عمار ناصر: یہ الفاظ کا ہی فرق لگتا ہے۔ کچھ صحابہ نے یہ الفاظ کہے ہوں گے کہ ہم موت تک آپ کے ساتھ رہیں گے۔ کچھ نے یوں کہا ہوگا کہ ہم کسی حال میں بھی فرار نہیں ہوں گے۔ نتیجے کے لحاظ سے تو مطلب ایک ہی بنتا ہے۔
مطیع سید: دشمن کے علاقے میں قرآن لے جانے کی ممانعت18 کیا صرف بے حرمتی کی وجہ سے تھی؟
عمار ناصر:بظاہر یہی لگتاہے، کیونکہ اس کی وجہ روایت میں یہ بیان ہوئی ہے کہ کہیں وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ اس کے علاوہ اگر قرآن کے نسخوں کی حفاظت بھی پیش نظر ہو تو وہ بھی بعید نہیں کہ قرآن کے جتنے نسخے موجود ہیں، انھیں ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
مطیع سید: حضرت ام حرام کے ساتھ نبیﷺ کا رشتہ کس نوعیت کا تھا؟ آپ ان کے ہاں جا کر آرام بھی کر لیتے تھے اور وہ آپ کے سر کی بھی صفائی کر دیتی تھیں۔ کیا وہ بڑی عمر کی کوئی خاتون تھیں؟19
عمار ناصر: نہیں، ان کے زیادہ معمر ہونے کا تو کوئی قرینہ نہیں ہے۔ وہ آپ کی وفات کے بعد حضرت معاویہ کے عہد میں بحری سفر پر جہاد کے لیے گئی تھیں۔ شارحین یہ قیاس کرتے ہیں کہ غالباً ان کے ساتھ کوئی ایسا ایسا رشتہ تھا، شاید رضاعی رشتہ ہو، جس کی وجہ سے وہ آپ کے لیے محرم کے حکم میں تھیں۔
مطیع سید:حضرت ابو ذر کو آپﷺ نے کچھ چیزیں بتائی تھیں۔ جس بگاڑکی طرف آپﷺ نے اشارہ فرمایا تھا20 ان کے مطابق وہ حضرت عثمان کے دور میں ہی شروع ہو گیاتھا۔کیا ان کی طبیعت ایسی غصے والی تھی کہ ان کو چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس ہوتی تھیں یا اس دور میں واقعی انحراف شروع ہوگیا تھا؟
عمار ناصر:دونوں ہی چیزیں تھیں۔وہ طبعاً زہد وریاضت کا مزاج رکھتے تھے،خاص طورپر مال ودولت کے پہلو سے، اور کچھ تبدیلی بھی ظاہر ہے، آناشروع ہو گئی تھی۔دونوں ہی چیزیں تھیں۔ جو تبدیلی اس وقت رونما ہو رہی تھی، باقی لوگ بھی اس کو دیکھ رہے تھے،لیکن حضرت ابوذر کے ردعمل میں اور باقی لوگوں کے رد عمل میں فرق تھا۔
مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں یہ بات کہی گئی کہ ان کے پاس کوئی مخفی اورخاص علم ہے جو نبیﷺ نے انہیں بتایا ہے۔21 حضرت علی کے بارے میں یہ ذہنیت کب پیداہوئی؟ کسی اور صحابی کے بارے میں تو اس طرح کی بات پیدانہیں ہوئی۔
عمار ناصر:یہ ان کےدور میں ہی پیداہو گئی تھی،اسی لیے ان کو وضاحت کرنی پڑی اور اپنی تلوار کی میان سے چند لکھے ہوئے احکام انھوں نے نکال کر دکھائے اور کہا کہ میرے پاس یا تو یہ کچھ باتیں ہیں اور یا کتا ب اللہ کا فہم ہے جو اللہ کسی بندے کو دے دے۔
مطیع سید: یہ روایت ٹھیک ہے جس میں بتایا گیاہے کہ جنت میں بھولے بھالے اور شریف لو گ زیادہ ہوں گے؟
عمار ناصر: جی صحیح ہے۔دنیا میں جو ایمان وعمل کی آزمائش ہے، اس میں زیادہ وہی لوگ گرفتار ہوتے ہیں جو تیزی طراری دکھا سکتے ہیں۔جو شریف اور بھولے بھالے لوگ ہوتے ہیں، وہ سادہ سی زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں، اس لیے ان پر حساب کتاب کا بوجھ کم ہوتا ہے۔
حواشی
- صحیح مسلم،كتاب القسامۃ والمحاربين والقصاص والديات، باب القسامۃ، رقم الحدیث: 1669، جلد:3،ص:1291
- صحیح مسلم،كتاب القسامۃ والمحاربين والقصاص والديات، باب حكم المحاربين والمرتدين، رقم الحدیث: 1671، جلد:3،ص:1296
- صحیح البخاری، کتاب الطب، باب الکہانۃ، رقم الحدیث: 5758، ص:1454
- صحیح البخاری، كتاب الحدود وما يحذر من الحدود، باب كم التعزيروالادب، رقم الحدیث: 6848، ص:1667۔ صحیح مسلم،كتاب الحدود، باب قدر اسواط التعزير، رقم الحدیث: 1708، جلد:3،ص:1332
- صحیح مسلم،كتاب الحدود، باب الحدود كفارات لاهلہا، رقم الحدیث: 1709، جلد:3،ص:1333
- صحیح مسلم،كتاب الاقضیۃ، باب القضاء باليمين والشاهد، رقم الحدیث: 1712، جلد:3،ص:1337
- صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب قول النبی صلى الله عليہ وسلم لا نورث ما تركنا فہو صدقۃ، رقم الحدیث: 1758، جلد:3،ص:1379
- صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائكۃ فی غزوة بدر واباحۃ الغنائم، رقم الحدیث: 1763، جلد:3،ص:1383
- صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب فيف دعاء النبی صلى الله عليہ وسلم وصبره على اذى المنافقين، رقم الحدیث: 1798، جلد:3،ص:1422
- صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب غزوة الاحزاب وہی الخندق، رقم الحدیث: 1803، جلد:3،ص:1430
- صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب النساء الغازيات يرضخ لهن ولا يسہم، رقم الحدیث: 1812، جلد:3،ص:1444
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب الناس تبع لقريش والخلافۃ فی قريش، رقم الحدیث: 1821، جلد:3،ص:1453
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب كراہۃ الامارة بغير ضرورة، رقم الحدیث: 1826، جلد:3،ص:1455
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب وجوب الانكار على الامراء فيما يخالف الشرع وترك قتالہم ما صلوا، رقم الحدیث: 1854، جلد:3،ص:1480
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب الامر بالصبر عند ظلم الولاة واستئثارہم، رقم الحدیث: 1845، جلد:3،ص:1474
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ اکمسلمين عند ظہور الفتن، رقم الحدیث: 1848، جلد:3،ص:1476
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب استجباب مبايعۃ الامام الجيش عند ارادة القتال، رقم الحدیث: 1856، جلد:3،ص:1483
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب النہی ان يسافر بالمصحف الى ارض الکفار اذا خيف وقوعہ بايديہم، رقم الحدیث: 1869، جلد:3،ص:1490
- صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب فضل الغزو فی البحر، رقم الحدیث: 1912، جلد:3،ص:1518
- صحیح مسلم، كتاب الزکوۃ، باب الخوارج شر الخلق والخليقۃ، رقم الحدیث: 1067، جلد:2،ص:570
- صحیح مسلم،کتاب الاضاحی، باب تحريم الذبح لغير الله تعالى ولعن فاعلہ، رقم الحدیث: 1978، جلد:3،ص:1567
(جاری)