حالیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر بعض مذہبی تنظیموں کی طرف سے سوشل میڈیا پر یہ مہم چلائی گئی کہ
’’تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ سی اور عدالتی نظائر قادیانیوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے اور نہ ہی شعائر اسلامی کا استعمال کر سکتے ہیں جس کی خلاف ورزی قابل دست اندازی جرم ہے اور سزا تین سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ لہذا اگر کوئی قادیانی قربانی یا عید کی نماز کا اہتمام کرے تو معززین علاقہ کے ساتھ پولیس انتظامیہ کو اطلاع دیں۔“
راقم الحروف نے اس پر یہ وضاحت جاری کی کہ
’’اہل اسلام یہ ذمہ داری ضرور ادا کریں، لیکن یہ سمجھ لیں کہ آئین اور قانون میں دراصل پابندی کس بات کی ہے۔ سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں قادیانیوں کے خود کو مسلمان ظاہر کرنے یا اسلامی شعائر کے اظہار سے لوگوں کو یہ تاثر دینے پر قانونی پابندی ہے، لیکن وہ اپنی چاردیواری میں ہر وہ مذہبی عمل کر سکتے ہیں جو ان کا مذہب انھیں سکھاتا ہے۔ اس لیے ان کی چار دیواری کے اندر مداخلت کرنے یا اس پر ہنگامہ کھڑا کرنے کا، آئین مسلمانوں کو حق نہیں دیتا، بلکہ قادیانیوں کو مذہبی تحفظ دیتا ہے۔ اس وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرور یہ ذمہ داری ادا کریں۔“
اس وضاحت میں قانون کی جو تشریح پیش کی گئی ہے، وہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ سال جاری ہونے والے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی تلخیص الشریعہ کے ایک گزشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپنی عبادت گاہ اور چار دیواری کے اندر احمدی اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں اور اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں دیا گیا جس میں بعض مذہبی تنظیمیں یہ مقدمہ لے کر عدالت میں گئی تھیں کہ قادیانیوں کا اپنے گھر میں قرآن رکھنا قانون کے خلاف اور توہین قرآن کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ وہ مسلمان نہیں، تاہم سپریم کورٹ نے اس پر آئینی اور قانونی پوزیشن واضح کر دی کہ عبادت گاہوں یا گھروں کے اندر متعلقہ آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ فیصلے کی شق نمبر ۱۰ میں فاضل عدالت نے کہا ہے:
To deprive a non-Muslim (minority) of our country from holding his religious beliefs, to obstruct him from professing and practicing his religion within the four walls of his place of worship is against the grain of our democratic Constitution and repugnant to the spirit and character of our Islamic Republic. It also deeply bruises and disfigures human dignity and the right to privacy of a non-Muslim minority, who like all other citizens of this country enjoy the same rights and protections under the Constitution. Bigoted behaviour towards our minorities paints the entire nation in poor colour, labelling us as intolerant, dogmatic and rigid. It is time to embrace our constitutional values and live up to our rich Islamic teachings and traditions of equality and tolerance. (Crl. P. 916-L/2021)
’’ہمارے ملک کی ایک غیر مسلم (اقلیت) کو اپنے مذہبی عقائد رکھنے کے حق سے محروم کرنا اور اسے اپنی عبادت گاہ کے حدود کے اندر اپنے مذہب کا اظہار کرنے یا اس پر عمل کرنے سے روکنا ہمارے جمہوری آئین کی اساسات کے منافی ہے اور ہمارے اسلامی جمہوریہ کی بنیادی روح اور اوصاف سے متصادم ہے۔ یہ شرف انسانی کو اور ایک غیر مسلم اقلیت کی نجی زندگی کے تحفظ کو بھی بری طرح مجروح اور پامال کرتا ہے ، جو آئین کی رو سے اس ملک کے دیگر تمام شہریوں کی طرح یکساں حقوق اور تحفظات سے بہرہ ور ہیں۔ اپنی اقلیتوں سے متعلق تعصب اور نفرت پر مبنی رویہ پوری قوم کی ایک منفی تصویر بنا دیتا ہے اور ہم پر ایک غیر روادار، غور وفکر سے نفور اور بند ذہن رکھنے والی قوم کے القاب چسپاں کرنے کا موجب بنتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی دستوری اقدار کو دل وجان سے اپنائیں اور برابری اور رواداری کی پر ثروت اسلامی تعلیمات اور روایات کا نمونہ پیش کریں۔“
یہ واضح رہنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے میں پہلی دفعہ یہ نہیں کہا گیا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کا اطلاق چاردیواری کے اندر احمدیوں کے مذہبی حقوق پر نہیں ہوتا۔ دراصل جب امتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف انسانی حقوق کے منافی ہونے کی بنیاد پر عدالتی چارہ جوئی کی گئی تھی تو وفاقی شرعی عدالت نے اسی فیصلے میں یہ واضح کر دیا تھا کہ آرڈیننس احمدیوں کے نجی حدود میں حق عبادت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی شرعی عدالت کے اس فیصلے کا متعلقہ اقتباس نقل کیا گیا ہے۔ یہ قانونی تشریح اس نئی مہم کی اجازت نہیں دیتی جس کو فروغ دینے کی کوشش بعض مذہبی تنظیموں نے کی، یعنی یہ کہ قادیانیوں کو ان کی نجی حدود میں بھی نماز عید کی ادائیگی یا قربانی وغیرہ سے روکا جائے۔
اعلیٰ عدلیہ کی یہ تشریح اس بنیادی نکتے پر مبنی ہے کہ ہمارے آئین اور قانون میں دو چیزوں کی ضمانت موجود ہے:
ایک یہ کہ احمدی کمیونٹی، مسلمانوں سے الگ ایک مذہبی گروہ ہے جو خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتا اور نہ اسلامی شعائر کے اظہار سے عام مسلمانوں کو دھوکے اور اشتباہ میں ڈال سکتا ہے۔ اسی مقصد سے تعزیری قانون سازی بھی کی گئی ہے۔
دوسری یہ کہ بطور ایک مذہبی اقلیت کے احمدیوں کو بھی دیگر تمام اقلیتوں کی طرح اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کے احکام ورسوم بجا لانے کا حق حاصل ہے، یعنی ان کو غیر مسلم قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اپنے عقیدے کے مطابق جو اعمال وشعائر ان کے مذہب کا حصہ ہیں، ان پر عمل کے حق سے وہ محروم ہیں۔
ان دونوں آئینی ضمانتوں پر بیک وقت عمل کی صورت یہی ہے کہ احمدیوں کو اپنے نجی دائرے میں مذہبی آزادی حاصل ہو اور ان کے مذہبی اعمال ورسوم میں کوئی مداخلت نہ کی جائے، جبکہ عام مسلمانوں کے سامنے یعنی پبلک ڈومین میں ان شعائر کے اظہار سے وہ اپنے مسلمان ہونے کا التباس پیدا نہ کر سکیں۔ یہی آئینی تشریح وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے بھی کی ہے اور یہ بالکل واضح اور معقول تشریح ہے۔
البتہ احمدیوں کو دی گئی اس آزادی سے اگر ضمناً پھر بھی مسلمانوں کے لیے اشتباہ والتباس کے کچھ امکانات نکلتے ہیں تو یہ دائرہ علماء اور مذہبی اداروں یا تنظیموں کے کردار ادا کرنے کا ہے۔ وہ پہلے بھی مسلمانوں پر واضح کرتے چلے آ رہے ہیں کہ احمدیوں کو مسلمان امت، مسلمان شمار نہیں کرتی اور اب بھی یہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے آئین اور قانون میں دی گئی ضمانتوں کی نفی کرنا درست نہیں ہے اور نہ احمدیوں کی عبادت گاہوں یا ان کی اپنی خاص بستیوں میں جا کر انھیں اسلامی شعائر سے روکنے کی مہم چلانا کوئی معقول یا قابل عمل طریقہ ہے۔
علماء اور مذہبی تنظیموں کا کردار اس کے بغیر بھی موثر ہے اور مثال کے طور پر انڈیا یا انڈونیشیا جیسے ممالک میں جہاں احمدیوں کی تکفیر کے حوالے سے کوئی ریاستی قانون سازی موجود نہیں، یہ مقصد سماجی سطح پر مذہبی اہل علم اور اداروں کے کردار ہی کی بدولت کامیابی سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس اصرار یا خوف کی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں علماء سماجی سطح پر یہ ذمہ داری ادا کریں تو وہ موثر نہیں ہوگی اور اس کے لیے آئینی ضمانت کی ہی نفی کرنا ضروری ہے۔
تقریباً پانچ سال پہلے قادیانی معیشت دان عاطف میاں کی کسی حکومتی کمیٹی میں شمولیت کے مسئلے پر اسی نوعیت کی ایک بحث اٹھی تھی تو اس موقع پر ہم نے اس حوالے سے کچھ معروضات مذہبی حلقوں کے سامنے پیش کی تھیں کہ ۱۹۷۴ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد جو آئینی فیصلہ دینی حلقوں کے مطالبے پر کیا گیا تھا اور جسے بجا طور پر ریاستی قانون سازی کی سطح پر ایک اہم کامیابی شمار کیا جاتا ہے، کیا مذہبی طبقوں کا اس کے بعد کا طرز عمل اور حکمت عملی اس فیصلے کو تقویت پہنچانے کا موجب رہی ہے یا اسے کمزور کرنے اور مشتبہ بنانے کا باعث بن رہی ہے۔ ان معروضات کی اہمیت موجودہ تناظر میں بھی برقرار ہے، اس لیے یہاں انھیں نقل کرنا مناسب ہوگا۔
سعدیہ سعید نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس سوال کا سوشیولاجیکل تناظر میں مطالعہ کیا ہے کہ پاکستانی ریاست نے احمدی مسئلے میں تدریجاً اپنی پالیسی کیوں اور کن عوامل کے تحت تبدیل کی ہے۔ سعدیہ نے اس کے تین مراحل متعین کیے ہیں اور انھیں accommodation, exclusion and criminalization کا عنوان دیا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کی ریاستی پالیسی، مسلم لیگ کی قبل از تقسیم چلی آنے والی پالیسی کے تسلسل میں، احمدیوں کو مسلم شناخت میں شامل کرنے کی تھی اور قائد اعظم نے نہ صرف احمدیوں کو مسلمان قرار دیا بلکہ سرظفر اللہ کو اپنی کابینہ میں بھی شامل کیا۔ یہ صورت حال ۱۹۵۳ تک برقرار رہتی ہے جب احمدیوں کی تکفیر کا مسئلہ عدالتی سطح پر زیر بحث آیا اور عدالت نے علماء کے موقف کو رد کر دیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۴ میں قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا آئینی فیصلہ کیا گیا اور پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس حوالے سے بعض تعزیری اقدامات کو کتاب قانون کا حصہ بنایا گیا۔ مصنفہ نے اس سوال کا جواب بھی پیش کیا ہے جس کی تفصیل ہمارا موضوع نہیں۔
یہ یقیناً صورت حال کا ایک منظر ہے۔ تاہم صورت حال میں ہونے والی پیش رفت کے صرف یہی ایک پہلو نہیں، بلکہ کچھ اور پہلو بھی ہیں جن سے اہل مذہب دانستہ یا نادانستہ صرف نظر کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ان کا موقف دیرپا مضبوطی اور حفاطت کے حصار میں ہے، جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ آئینی یا قانونی اقدامات کو جب تک علمی وفکری اور اخلاقی سطح پر جواز حاصل رہے، ان کی معنویت اور قدر وقیمت ہوتی ہے۔ جب علمی اور اخلاقی تائید سے وہ محروم ہو جائیں تو بتدریج ان کی ساکھ ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ احمدی مسئلے کے ضمن میں اہل مذہب نے جو انداز فکر اختیار کیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اسے اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے جسے جذباتیت اور غلط فہمیوں کی شدید دھند میں وہ دیکھ نہیں پا رہے اور ہمارے نزدیک ایک انتہائی بنیادی اعتقادی مسئلے میں ایک متفقہ دینی موقف کا اس صورت حال سے دوچار ہونا مذہبی قیادت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
۱۹۷۴ سے اب تک احمدی مسئلے میں مین اسٹریم مذہبی موقف کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، ان کا ذکر اوپر کیا گیا ۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی ایام میں احمدی معیشت دان عاطف میاں کی تقرری کا فیصلہ واپس لینے کے حکومتی فیصلے سے اس فہرست میں ایک اور اضافہ ہوا جس پر اہل مذہب نے اطمینان اور خوشی محسوس کی۔ البتہ ہم صورت حال کے دوسرے پہلو کو واضح کرنا چاہ رہے ہیں جو مذہبی موقف اور حکمت عملی، دونوں کا ازسرنو جائزہ لینے کا تقاضا کرتا ہے۔
۱۹۷۴ کا فیصلہ، جیسا کہ سب جانتے ہیں، اس وقت کی مذہبی وسیاسی قیادت کے باہمی اتفاق سے ایک آئینی فورم پر کیا گیا تھا اور ایک بہت اہم سوال کے حوالے سے متفقہ قومی فیصلے کی حیثیت سے اس پر عمومی اطمینان پیدا ہو گیا تھا۔ سیکولر اور لبرل ناقدین کی تنقید سے قطع نظر، مین اسٹریم مذہبی وسیاسی قیادت، جدید تعلیم یافتہ طبقات اور فکری رجحان ساز عناصر (اہل دانش، اہل صحافت وغیرہ) اس فیصلے کے ساتھ کھڑے تھے اور اسے مسلم معاشرے کے ایک بڑے داخلی خلفشار کے قابل عمل اور پائیدار حل کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کم وبیش نصف صدی کے بعد بھی صورت حال کیا یہی ہے اور اگر نہیں تو اس کے عوامل کیا ہیں؟
یہ سامنے کی بات ہے کہ اجتماعی فیصلے جس طرح فکری یکسوئی اور مضبوط اخلاقی جواز کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتے، اسی طرح انھیں اپنے تسلسل اور جواز کو برقرار رکھنے کے لیے بھی فکری واخلاقی تائید کا حاصل رہنا ضروری ہوتا ہے۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ چوالیس سال میں جو پیش رفت ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں اس فیصلے کو حاصل فکری واخلاقی تائید اور اس کے نتیجے میں قومی فکری یکسوئی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے یا کم سے کم اسی سطح پر برقرار ہے یا اس میں کمزوری آئی ہے؟ اگر اسے کسی فکری چیلنج کا سامنے ہے تو وہ کیا ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں؟
آئیے، اس پہلو سے دیکھتے ہیں کہ ہمارے سامنے منظر نامہ کیا ہے؟
منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ
- بین الاقوامی فورم پر اس فیصلے اور اس پر مبنی بعد کے اقدامات نیز احمدیوں کے ساتھ ہونے والے برتاو کے اخلاقی یا قانونی جواز کی تفہیم کے حوالے سے ہمیں مکمل ناکامی کا سامنا ہے۔ احمدیوں کی اس شکایت کو کہ پاکستان میں ان کے بنیادی انسانی ومذہبی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں، کسی دوسری رائے یا اختلاف کے بغیر عالمی رائے عامہ درست تسلیم کرتی اور ان کی تائید اور حمایت کے لیے حکومت پاکستان پر دباو ڈالنے کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتی ہے۔ اس محاذ پر ہماری سفارت کاری کے پاس سوائے شرمندگی اٹھانے اور لاجواب ہونے جبکہ اہل مذہب کے پاس سوائے نظریہ سازش کا حوالہ دے کر جذباتی تقریریں کرنے کے، اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
- ہماری مین اسٹریم سیاسی قیادت اعلی ترین سطح پر بحیثیت مجموعی مذہبی موقف کے حوالے سے نہ صرف بے اطمینانی رکھتی ہے، بلکہ باقاعدہ اس کا اظہار بھی کر چکی ہے۔ میاں نواز شریف، الطاف حسین، عمران خان، آصف زرداری اور بلاول وغیرہ، یہی ہماری سیاست کے نمائندے ہیں اور سب کے سب مختلف مواقع پر احمدیوں کے ساتھ ہونے والے برتاو پر اپنے تحفظات ظاہر کر چکے ہیں، بلکہ عمران خان اور الطاف حسین تو غالباً خود تکفیر کے فیصلے کو ہی ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے۔
- اہل صحافت اور اہل دانش میں سے بہت سے راسخ العقیدہ مذہبی رجحانات رکھنے والے حضرات تکفیر کے فیصلے اور کلیدی مناصب سے احمدیوں کو دور رکھنے کے مطالبے سے سے اتفاق رکھتے ہیں، لیکن اہل مذہب کے عمومی رویے، خاص طور پر احمدیوں کو بطور گروہ ملک دشمن قرار دینے اور ایک مذہبی حکم کے طور پر ان کا سماجی بائیکاٹ کرنے سے اختلاف کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
- دینی مدارس کے ان گنت فضلاء اور جامعات میں اسلامیات کے اتنی ہی تعداد میں اساتذہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو مین اسٹریم مذہبی بیانیے کو غیر معقول اور حد اعتدال سے متجاوز سمجھتے ہیں اور اپنی نجی گفتگووں میں کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
- پرنٹ میڈیا میں مذہبی موقف کی تائید کی صورت حال جناب آصف محمود ایڈووکیٹ نے اپنے ایک کالم میں بیان کی تھی اور گنتی کے دو تین ناموں کے علاوہ من حیث الجماعت سب کو ’’گونگے شیطان“ قرار دیا تھا۔ نوائے وقت جیسے اخبار نے کچھ سال قبل ایک اہم قومی دن کے موقع پر جماعت احمدیہ کا اشتہار شائع کیا اور اگلے دن صرف مذہبی غیظ وغضب سے بچنے کے لیے، ایک معذرت نامہ پیش کر دیا ۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ احمدیوں کے حوالے سے کوئی تنقیدی تحریر شائع نہ کرنے کی باقاعدہ ادارتی پالیسی بھی وضع کی گئی ہے۔
- اور اب اس فہرست میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس میں مروجہ مذہبی بیانیے اور طرز عمل پر یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ ’’ اپنی اقلیتوں سے متعلق تعصب اور نفرت پر مبنی رویہ پوری قوم کی ایک منفی تصویر بنا دیتا ہے اور ہم پر ایک غیر روادار، غور وفکر سے نفور اور بند ذہن رکھنے والی قوم کے القاب چسپاں کرنے کا موجب بنتا ہے۔ “
آئینی فیصلے اور اس پر مبنی اقدامات کے حوالے سے بے اطمینانی پیدا ہونے کی کئی توجیہات ہو سکتی ہیں اور یقیناً مذہبی ذہن ایسی توجیہات کو زیادہ پسند کرے گا جس سے اس کے اختیار کردہ موقف پر نظر ثانی کی ضرورت کم پیش آئے، مثلاً یہ کہ بے اطمینانی رکھنے والے طبقات تک اس موقف کی تفہیم اور ابلاغ میں کوتاہی ہو رہی ہے، یا اسلامی عقائد اور مذہبی حساسیت ایک عالمی فکری یلغار کی زد میں ہیں، یا یہ کہ یہ بے دینی اور دینی بے خبری کے عمومی ماحول کا اثر ہے، وغیرہ۔ لیکن ہماری رائے میں ان توجیہات کا جزوی طور پر تو وزن ہو سکتا ہے، لیکن یہ پوری طرح صورت حال کی عکاسی نہیں کرتیں۔ خاص طور پر تفہیم اور ابلاغ میں کمی کا عذر تو بداہتاً غلط معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ پچھلی پوری ایک صدی میں اگرکوئی ایسا اعتقادی مسئلہ بتایا جائے جس پر اعلی ٰ ترین مذہبی اسکالرشپ نے استدلال وبیان کی انتہائی صلاحیتیں صرف کی ہوں، اس پر کم وبیش ہر معروف مذہبی عالم نے کچھ نہ کچھ لکھا ہو اور مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نیز خطباء اور اہل قلم کی طرف سے اس پر تقریروں اور تحریروں کا ڈھیر لگا دیا گیا ہو تو وہ صرف ختم نبوت کا عقیدہ اور احمدی مسئلہ ہے۔ (اس پر صرف بلند پایہ اہل علم کی لکھی گئی علمی تحریروں کا مجموعہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ساٹھ کے لگ بھگ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے اور غالباً ابھی مزید کام جاری ہے)۔
تعلیم یافتہ طبقات کیا، ایک معمولی پڑھا لکھا مسلمان بھی اس بحث میں اہل مذہب کے بنیادی مقدمے اور استدلال سے واقف ہے۔ اس لیے یہ عذر کوئی وزن نہیں رکھتا کہ اہل مذہب کی طرف سے مسئلے کی نوعیت اور حقیقت سمجھانے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے اور اس کوتاہی کو اگر دور کر لیا جائے تو مذہبی موقف کے حوالے سے پائی جانے والی بے اطمینانی ختم ہو جائے گی۔ لازمی طور پر خود موقف اور اس کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال میں مسئلہ ہے جو عقل ومنطق کو اپیل نہیں کرتا اور اسی کی وجہ سے مختلف سطحوں پر فہیم اور سنجیدہ ذہنوں میں مذہبی موقف کے حوالے سے بے اطمینانی یا کم سے کم بے اعتنائی کی ایک کیفیت پیدا ہو رہی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔
چنانچہ لازم ہے کہ پلٹ کر خود مذہبی موقف کے دروبست کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کمزوری کہاں ہے، اور خاص طور پر یہ کہ ۱۹۷۴ء میں ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد صورت حال میں کون سے ایسے پہلو شامل ہوئے ہیں جنھیں موجودہ بے اطمینانی کا موجب کہا جا سکتا ہے۔