انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۳)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)


اب میں بدعت اور اس کی حدود کی تعیین کے لیے چند کلیدی تعبیری پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، لیکن جنوبی ایشیا کی طرف جانے سے پہلےمیں کچھ لمحات کے لیے الشاطبی کے ساتھ رکوں گا۔

بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول: بدعت بطور تقلیدی / جعلی مذہب

بدعت کی تعریف میں بنیادی نکتہ انسانی فرد کے لیے یہ گنجائش ماننا ہے کہ ایک حاکمِ مطلق ذات کی حیثیت سے اس کے الٰہی اقتدار کے مقابلے میں شریعت کے ایک متوازی نظام کو بڑھاوا دیا جائے۔دراصل  اختیار کا یہی وہ اساسی گناہ ہے جو بدعت کو وجود میں لاتا ہے: انسانی ارادے کو دین کی ایک جعلی عمارت کھڑی کرنے کے لیے استعمال کرنا ہی اسلام میں تکفیر وتضلیل کے شدید اشتعال انگیز مباحث میں سے ایک مبحث کی حیثیت سے بدعت کو علامتی شہرت عطا کرتا ہے۔

زیادہ واضح انداز میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بدعت کی اصطلاح فقہ اور عقیدے کے سنگم پر متحرک رہتی ہے؛ سنتِ نبوی کی موجودگی میں کسی نئی چیز کے ایجاد کی ممانعت کی بنیاد ایک ایسے وسیع تر اعتقادی تصور میں پیوست ہے جس کا مقصد خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی حفاظت ہے۔ مثلاً الشاطبی نے الاعتصام میں بدعت کی تعریف کچھ یوں کی ہے: "دین میں ایک ایسے عمل کو شامل کرنا جو شریعت کی طرح ہو" (طريقة في الدين مختارة تضاهي الشريعة) (23)۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں: "شریعت کی طرح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں ایسا (شریعت جیسا) نہ ہو" (تشابه الشريعة من غير أن تكون في الحقيقة كذلك) (25)۔

شرعی نظام کی مماثلت کی خواہش میں کار فرما گہری حرکیات کو سامنے لانے کے لیے الشاطبی نے بدعتی کی نفسیات کا ایک دل چسپ مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بدعتی سرتوڑ کوشش کرتا ہے کہ اپنی بدعات کو ثابت سنتوں کی طرح بنا کر پیش کرے، تاکہ بدعت اور سنت کے درمیان التباس پیدا ہو جائے (تلتبس عليه بالسنة)۔ یہ اس کی سب سے عمدہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس فکری الجھن میں مبتلا کرے کہ اس کی بدعتیں اصل میں سنتیں ہیں – یہ ایک ضروری کام ہوتا ہے، کیوں کہ کوئی شخص کسی عمل کی اتباع اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ سنت نبوی کی روشنی میں جائز قرار نہ پائے" (25)۔ بالفاظ دیگر الشاطبی کے بیان کی تشریح کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ لوگوں کو اپنا پیروکار بنانے کے لیے انھیں اپنے دام میں لانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے پیش کردہ خیالات کو سنت کی شکل میں پیش کرنا ہوگا۔ جعل سازی کی یہی وہ طاقت اور دھوکے کا یہی امکان ہی وہ وصف ہے جو بدعتی اور بدعات کو بہت خطرناک بناتے ہیں۔

اس لیے الشاطبی اور دیگر متعدد علما کے نزدیک مماثلت کی یہ صفت اسلام میں ایک ایسے فکری خط فاصل کی حیثیت سے بدعت کے فعال کردار کی اہمیت واضح کرتا ہے جو عمل کے مسنون اور بدعتی طُرُق کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ سنت کی حدود اس وقت پامال ہو جاتی ہیں، جب کوئی شخص ایسے عمل کی بنیاد رکھتا ہے جسے 'جعلی مسنون' کہا جا سکتا ہے، ایک غیر منظور شدہ عمل کو پابندی سے کرنا، ایسے جوش وجذبے اور اہتمام کے ساتھ جو کسی شرعی عمل کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ایک غیر مسنون عمل کے ساتھ اس قدر مذہبی وابستگی اس عمل کو تقدس فراہم کرتا ہے، جو خدا کی طرف سے منظور شدہ نہیں ہے۔

اس وجہ سے میں نے بدعت کا ترجمہ عام طور پر رائج innovation (ایجاد) کے بجاے heretical innovation  (مبنی بر انحراف ایجاد) سے کیا ہے۔بدعت کا ترجمہ صرف innovation  (ایجاد) سے کرنا قابلِ اشکال ہے، کیوں کہ یہ اس لگے بندھے مفروضے کو جنم دیتا ہے کہ قانون اور اصول قانون کے دائرے میں اسلام بحیثیتِ مذہب ایجاد اور تخلیقی سوچ کی تمام صورتوں کا مخالف ہے۔ بدعت کی اصطلاح سے متعلق فقہی مباحث اور سماجی تعاملات ناگزیر طور پر انسانوں کے ایجاد کردہ اور خدا کے منظور کردہ شریعت کے نظاموں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی مخاصمت کی نفسیات کے ساتھ ناگریز طور پر بندھے ہوئے ہیں۔

یہ ایک اچھا موقع ہے کہ میں نے بدعت کا جو ترجمہ  heretical innovation (مبنی بر انحراف ایجاد) سے کیا ہے، اس کی مزید تشریح وتوضیح کروں۔ 'مبنی برانحراف ایجاد' میں 'انحراف' کا لفظ مذہب سے یا اہل ایمان سے اخراج کے مترادف نہیں۔ بدعت اور کفر یا ارتداد ایک جیسے نہیں۔ خدا کی حاکمیت سے انکار یا کفر کا قریبی تعلق خدائی حاکمیت کو چیلنج کرنے سے ہے جو بدعت کے تصور کو تقویت پہنچاتا ہے۔ لیکن اخروی نتیجے کے اعتبار سے بدعت کا وہ مقام نہیں جو کفر کا ہے۔ تاہم میں نے تسلسل کے ساتھ بدعت کا ترجمہ 'قابل تنقید ایجاد' یا 'قابلِ مذمت' الزام کے بجاے مبنی بر انحراف ایجاد کیا ہے، کیوں کہ مخالفت یا انتخاب کو بدعت کے فکری قالب سے جدا کرنا ناممکن ہے۔

بدعت کی مذمت اس بنا پر کی جاتی ہے کہ یہ وہ انسانی کوشش ہے جو ایک ایسے نظامِ حیات کے انتخاب کے لیے کیا جاتا ہے جسے خدا کی منظوری حاصل نہیں ہوتی، اور اس لیے وہ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کو چیلنج کرتی ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ یہ ایک ایسے منڈلاتے خطرے کی پیش بینی ہے جو کفر کی سرحد پر سرگرم رہتا ہے، اور ہمیشہ اس سرحد کو پار کرنے کی دھمکی دیتا ہے، لیکن اسے کھل کر پار نہیں کرتا۔ اس میں کفر کا امکان ہوتا ہے، اور یہی امکان اسے اعتقادیات اور سماجیات کی رو سے تخریبی بناتا ہے۔ بدعت میں موجود تجاوز کی آفت  اس نقالانہ سرکشی پر منحصر ہوتی ہے جو انسانی ارادے کو خدا کے حاکمانہ ارادے کی مماثلت پر آمادہ کرتی ہے۔ بغاوت یا خود ساختہ مسنون طریقے کا انتخاب ہی وہ گناہ ہے جو اعتقادی اور فرقہ وارانہ اعتبارات سے بدعت کو اس کا نامبارک کردار عطا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے میں بدعت کا ترجمہ 'مبنی بر انحراف ایجاد'  کرتا ہوں۔

انیسویں صدی میں شمالی ہندوستان کی مسلم اصلاحی فکر میں بدعت کے مباحث اپنی ذہنیت کے اعتبار سے بعینہ انسانی اور خدائی طور طریقوں کے درمیان ایک کش مکش کی طرح تھے۔ مثال کے طور بدعت پر اپنی بنیادی کتابوں میں شاہ محمد اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی نے بتایا کہ ہر وہ رسم بدعت ہے جو خدا کی قانون سازی کے اختیار مطلق کو للکار کر شروع ہوتی ہے، اور اسے اس طرح سے بیان کرنا گویا کہ وہ سنتِ نبوی ہے، جب اسے اس جذبے، اہتمام اور نظم سے ادا کیا جائے، جو صرف اور صرف شرعی اعمال جیسے نماز، روزہ سے مختص ہے، اور جس کا شریعت اہل ایمان سے مطالبہ کرتا ہے، اور جو خدا سے تقرب کا ذریعہ ہیں1۔

رسم عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی نقشہ بنانا، اثر چھوڑنا، خاکہ بنانا ہے۔ بدعت پر ہندوستانی مسلمانوں کی فکر میں یہ ایک اہم اصطلاح ہے۔ اپنے اردو قالب میں رسم کا سب سے اچھا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ عادات واطوار جو بار بار عمل میں لائے جانے اور دہرائے جانے کی وجہ سے کسی سماج کی بنیادی عادات کا جزو لاینفک بن جائے۔ بالفاظ دیگر رسم ایک اجماعی (doxic) صورت کی طرح ہو سکتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک بدیہی اور مانی جانی حقیقت بن جاتی ہے، بجاے اس کے کہ وہ کئی متبادل اور ایک جیسے آزاد امکانات میں سے کوئی ایک ہو۔

رسوم: فکری تسلسلات اور تغیرات

اٹھارویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے اوائل اور اواخر تک جنوبی ایشیا کی مسلم فکر میں 'رسم' کی اصطلاح کا علمی مفہوم باریک لیکن نمایاں تبدیلیوں سے گزرا۔ اس تبدیلی  کو صحیح انداز میں تب سمجھا جا سکتا ہے، جب اس اصطلاح سے متعلق اٹھارویں صدی کے نامور عالم شاہ ولی اللہ کی عظیم شاہ کار حجة الله البالغة میں رسوم کی بحث پر کی جانے والی گفتگو کو مد نظر رکھا جائے۔  حجة الله البالغة ایک تہہ در تہہ، دقیق  اور پیچیدہ متن ہے۔ ان کے کلام کا اگر خلاصہ کیا جائے تو رسوم پر ان کی گفتگو کو ایک پاک اور اخلاقی طور پر مضبوط سیاسی نظام کی کونیاتی بنیادوں کے طور پر بیان کر سکتا ہے۔ اس کتاب کو تشکیل دینے والی ایک بنیادی اصطلاح وہ ہے جسے شاہ صاحب نے 'ارتفاقات'2 (اخلاقی اصلاح کے آلات وذرائع) کا نام دیا ہے، یا عام طور پر جس کا ترجمہ تہذیبی آسائشوں سے کیا جاتا ہے۔ اپنے فکری مواد کے اعتبار سے حجة الله البالغة بیسوی صدی کے جرمن ماہر سماجیات نوربرٹ ایلیاس (Norbert Elias) کی انتہائی مؤثر کتاب The Civilizing Process سے قریب تر ہے3۔ حیرت انگیز طور پر دونوں کتابوں کا موضوع تہذیب کا فروغ ہے، تاہم شاہ ولی اللہ کی کتاب منظم زندگی کے بارے میں ایک حریف تصور پیش کرکے ایلیاس کے یورپ مرکز (Eurocentric) بیانیے  کے لیے ایک تصحیح کنندہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔

حجة الله البالغة کے ایک باب میں، جس کا عنوان 'لوگوں میں رائج رسوم' (الرسوم السائرة في الناس) ہے، شاہ صاحب بتاتے ہیں: "رسوم ارتفاقات (یعنی تہذیبی ترقی) کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو حیثیت دل انسان کے بدن کے لیے رکھتا ہے۔ شریعت کا بنیادی اور ذاتی موضوع ومقصد ہی یہی رسوم ہیں" (الرسوم من الارتفاقات هي بمنزلة القلب من جسد الإنسان، وإياها قصدت الشريعة أولاً وبالذات)4۔ رسوم کے تصور کا شجرہ بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب نے ایسے متعدد ماخذات کی نشان دہی کی ہے، جو کسی سماج کی روزمرہ زندگی میں ان رسوم کے رائج ہونے کے لیے سبب بنتے ہیں۔ انبیا، اولیا اور بادشاہوں کے زور دینے کے ساتھ ساتھ رسوم وعادات وجدانی طور پر لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ جب رائج رسوم سچائی سے ماخوذ ہوتے ہیں تو وہ سماج کی اخلاقی تشکیل کا تحفظ کرتے ہیں، اور لوگوں کو علمی اور عملی کمالات سے بہرہ ور کرتے ہیں۔ وہ آگے بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ اقدار نہ ہوں تو لوگ جانوروں کے مانند بن جائیں (لولاها لالتحق الناس بالبهائم)۔ شاہ صاحب نے ایک دل چسپ استدلال یہ کیا کہ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی تربیت کے لیے منظم سرگرمیوں میں شرکت کے محرکات کی توضیح وتشریح کر سکیں۔ شاہ صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں:

غور کرو کتنے آدمی یہ کہتے ہیں کہ شادی کرو اور اسی طرح کے دیگر عمومی اور اقدار کو سدھارنے والے اعمال میں شرکت کرو۔ اگر تم کسی ایسے شخص سے پوچھو کہ ان جھمیلوں میں کیوں پڑ رہے ہو؟ تو اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں ہوگا کہ میں لوگوں کی موافقت میں ایسا کر رہا ہوں (لم يَجِدْ جَواباً إلا موافقة القوم)۔ زیادہ سے زیادہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے پاس اپنے اعمال کے پیچھے محرکات کا ایک اجمالی علم ہے، اگر چہ اس درجے کی بات کو بھی وہ بیان کرنے سے قاصر ہوگا چہ جائیکہ وہ اپنے اعمال کو اخلاقی ترقی کی تمہید قرار دے (100)۔

بالفاظ دیگر شاہ صاحب کے نزدیک ایک منظم زندگی گزارنے کے محرکات پہلے سے بنے بنائے اور واضح نہیں ہوتے۔ جیسا کہ طلال اسد کہتے ہیں کہ زندگی 'بالذات ضروری' ہے5۔ مزید برآں شاہ صاحب کی اس بحث میں جو چیز سب سے زیادہ میری دل چسپی کی ہے وہ عوام کے افعال کو سنت کے ماخذ کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔

انیسویں صدی کے پیش روؤں کے ساتھ ایک گہرے تقابل میں شاہ صاحب ایک پاک باز زندگی گزارنے کے لیے عوام کی وجدانی صلاحیتوں کے اعتراف میں زیادہ خود اعتماد نظر آتے ہیں۔  تاہم یہ کہنا مغالطہ آمیز ہوگا کہ وہ اپنے آس پاس رائج متعدد رسوم اور اعمال کے ناقد نہ تھے۔ وہ ایسی تعبیری وسعت کے قائلین سے بہت دور تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی سمائج میں رائج رسوم میں ہمیشہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس فساد کی سب سے بنیادی وجہ اخلاقی طور پر ایسے کمزور لوگوں کا حکومت کے منصب پر سرفراز ہونا ہے، جو کلی مصالح کو سمجھنے سے قاصر ہوں (100)۔ شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیش روؤں کی طرح شاہ صاحب بھی بالخصوص روزمرہ زندگی کے دائرے میں شاہانہ رسوم وعادات کے شدید ناقد تھے۔  ان میں لباس اور خوراک کی مسرفانہ عادتیں، فضول تفریحات جیسے شطرنج، شکار، کبوتر بازی اور موسیقی میں حد سے زیادہ وقت گزارنا وغیرہ شامل ہیں۔  ایسے رسوم کے لیے نہ صرف یہ کہ بے تحاشا دولت چاہیے ہوتی ہے (التعمُّقُ البالغُ في الأَكْسابِ)، بلکہ ان کی وجہ سے آدمی دنیا وآخرت کے معاملات سے غافل ہو جاتا ہے (إهمال أمر المعاش والمعاد) (101 – 102)۔ وہ اپنا بیانیہ جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ان فاسد رسوم کے حامل لوگ طاقت واقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو عوام، جن کے لیے ارباب حکومت کی مخالفت ناممکن ہوتی ہے، ان کی پست تقلید شروع کرنے لگتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پاک بازوں یا پاکیزہ اعمال کی طرف عوام اپنے قوی رجحان کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ وہ بس سیدھا انھی اعمال پر کاربند ہوتے ہیں جنھیں وہ اربابِ اقتدار کے درمیان رائج پاتے ہیں (101)۔ اور وہ لوگ جو ان کے اخلاقی معیارات کو قبول کرنے سے انکار کرکے پاک بازی پر ڈٹ جاتے ہیں، وہ ارباب اقتدار اور ان کے آس پاس کے لوگوں سے دوری اختیار کرکے ناراضگی سے کنارہ کش اور خاموش رہنے لگتے ہیں (ويبقىٰ قومٌ فطرتُـهم سويًّا في أُخْرَيات القوم لا يُخَالِطونهم ويسْكُتون على الغيظ) (101)۔ اس خاموشی کے ذریعے وہ اپنے اردگر اکثر لوگوں سے ناراضگی اور قطع تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح ایک بری عادت رائج اور پختہ ہو جاتی ہے (فتنعقدُ سنةٌ سيِّئةٌ وتَتأَكَّدُ) (101)۔ شاہ صاحب ایسے وسیع علم کے حامل اہل علم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انھیں لاتعلقی اور ناامیدی پر مبنی ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ "انھیں چاہیے کہ سچائی کو پھیلائیں اور سماج میں اسے رائج کریں۔ انھیں چاہیے کہ وہ برائی کے سامنے ڈٹ جائیں اور اس کے خلاف حکمتِ عملی اپنائیں۔ اس میں سخت لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آ سکتی ہے (مـُخاصَماتٌ ومقاتَلاتٌ) (101)۔

اس گفتگو سے یہ واضح ہے کہ چند دہائیاں بعد پیدا ہونے والے اپنے پوتے شاہ اسماعیل کی طرح شاہ صاحب نے ایک واضح اصلاحی ایجنڈا اپنایا جو ان عادات اور رسوم کا شدید ناقد تھا، جو مغل اشرافیے میں رائج تھیں۔تاہم شاہ صاحب کی فکر میں رسوم کی  علمی حیثیت شاہ اسماعیل کے اصلاحی ایجنڈے سے کئی حوالوں سے مختلف تھی۔ رسوم میں فساد پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، ایسا فساد جو کسی سماج کو چلانے والے سیاسی نظام اور قیادت میں پائی جانی والی اخلاقی دراڑوں سے پیدا ہوتا ہے۔ شاہ صاحب کی فکر کونیات، سیاسیات اور روزمرہ زندگی کی اخلاقی تشکیل کے تعامل پر مرتکز تھی۔ وہ نسبتاً اس بات سے لا تعلق تھے کہ عوام اپنی رسمی زندگی گزارنے کے دوران واجب اور غیر واجب اعمال کے درمیان فرق کر سکتے ہیں یا نہیں، یا یہ کہ وہ ان دونوں کو خلط کرتے ہیں یا نہیں۔

تاہم جیسا کہ میں اس حصے میں دکھاؤں گا، بدعت سے متعلق یہ فکر اور بے چینی شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیش رؤوں کے مباحثوں میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ پوری انیسویں صدی میں رسوم کی اصطلاح بتدریج بدعت کے مترادف بنتی چلی گئی۔ اٹھارویں سے لے کر انیسویں صدی اور اس کے مابعد تک جنوبی ایشیا کی مسلم اصلاحی فکر میں رسوم کی اصطلاح کے استعمال سے متعلق یہ بنیادی فکری تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک رسوم عارضی دنیا کے معاملات پر کونیاتی سانچے کا ٹھپہ لگاتے ہیں۔ اچھے رسوم وعادات کونیاتی دائرے میں ملا اعلی کے برکات وفیوضات کو سمیٹنے اور حظیرۃ القدس کے اطمینان کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے برعکس فاسد رسوم وعادات ان کی مخالفت اور ناراضگی کو دعوت دیتے ہیں (101)6۔

اب اگر چہ انیسویں صدی کے مصلحین جیسے شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی ہم نوا اپنے اصلاحی تصورات میں کار فرما وسیع تر کونیات پر  سوچتے تھے۔ تاہم ان کی فکر میں رسوم اور بدعت کے درمیان نسبتاً‌ زیادہ یک جائی پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ رسوم اور رسمی اعمال کے درمیان نسبتاً ایک زیادہ باریک فرق قائم کیا گیا ہے۔ میں اس فرق کو مزید سادگی اور وضاحت سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب کے برعکس، جن کے رسوم کی تفہیم کونیات پر مبنی تھی، انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کی مسلم اصلاحی فکر  میں رسوم نے بتدریج ایک منفی مفہوم اختیار کیا، اور سنتِ نبوی کے بالمقابل بدعات پر اس کا اطلاق ہونے لگا۔ بالفاظِ دیگر مسنون اعمال کی تحدید بدعات کی توسیع کا سبب بنی۔ روزمرہ کی رسوم و روایات کی ایک غیر معمولی تعداد کی شرعی حیثیت مشکوک اور نقد ونظر کا موضوع بن جاتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ باریک لیکن گہری تبدیلی نہ صرف یہ کہ رسم/رسوم کی اصطلاح میں پیدا ہوئی، بلکہ زیادہ وسیع تناظر میں اٹھارویں سے انیسویں صدی تک جنوبی ایشیا کے مسلم مفکرین کی علمی اور سماجی زندگی میں بھی پیدا ہوئی۔

اس تبدیلی کی ایک عمدہ مثال حجة الله البالغة کے ترجمے اور شرح میں ، جس کا نام رحمۃ اللہ الواسعۃ ہے، پائی جاتی ہے، جسے معاصر دیوبندی عالم مولانا سعید احمد پالن پوری نے تصنیف کیا ہے7۔ کتاب میں اس باب کی شرح لکھتے ہوئے، جسے میں نے ابھی موضوع بحث بنایا، مولانا پالن پوری نے 'رسوم اور بدعات' کو مرکبِ عطفی کے طور پر استعمال کیا ہے، گویا یہ دونوں ہم معنی ہیں۔

مثال کے طور پر شاہ صاحب کی درج ذیل عبارت لیجیے جس کے کچھ اقتباسات پر میں نے پہلے بحث کی ہے: "وسیع علم کے حامل اہل علم کو چاہیے کہ سچائی کو پھیلائیں اور اسے سماج میں رائج کریں، اور برائی کے سامنے ڈٹ کر اس کا رستہ روکیں۔ اس میں مخالفت اور جنگ وجدال تک نوبت جا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ نیکی کے بہترین اعمال شمار کیے جائیں گے" (101)۔ اب اس بیان کا تقابل مولانا پالن پوری کے ترجمے اور تشریح سے کیجیے:"رسوم وبدعات کی اصلاح کرنا بہترین عمل ہے۔۔۔۔ بدعات ورسوم جب کسی قوم میں جڑ پکڑ لیتی ہیں تو ان کو اکھاڑنا سخت دشوار ہوتا ہے"8۔ پالن پوری خود اعتمادی سے اپنی پوری شرح میں بدعت کے لیے 'بدعات ورسوم' کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، حالانکہ شاہ صاحب نے اس باب میں بدعت کا لفظ نہ تو آزادانہ طور پر اور نہ رسوم وعادات کی اصطلاح کے تعلق سے استعمال کیا ہے۔ اس کے باوجود بیسویں صدی میں پالن پوری جیسا عالم ان دونوں اصطلاحات کے ترادف کو تقریباً طے شدہ سمجھتا ہے۔ بدعات اور رسوم کے درمیان اس مفروضہ ترادف میں انیسویں صدی کے جنوبی ایشیا کے نامور مصلحین جیسے شاہ محمد اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی کے علمی وفکری اثرات کا نمایاں کردار ہے۔ اب میں بطور ایک نظریے اور تصور کے بدعت کی فکری عمارت کی تعمیر میں ان کے مباحثوں اور کردار کا تفصیلی جائزہ لیتا ہوں۔

بدعت کی تعریف

جنوبی ایشیائی اسلام میں بدعت کی حدود کے اردگرد کش مکش میں یہ سوال بنیادی نوعیت کا حامل ہے: کن حالات کے تحت رسوم شریعت، بالخصوص شرعی اعمال کے دائرے میں سنتِ نبوی کے پورے ڈھانچے، کی حاکمیت کے حریف یا ان کے لیے خطرہ بننے لگتے ہیں؟بالفاظِ دیگر ممکنہ طور پر وہ کون سا مقام ہے جس میں انسانوں کی ایجاد کردہ اقدار خدا کی منظور کردہ اقدار کی برتری کو للکارنے لگتی ہیں؟

مختلف علما نے اپنے مسلکی مزاج کے اعتبار سے اس مرکزی سوال کا جواب متعدد طریقوں سے دیا ہے۔ مزید برآں اس سوال کے جواب میں ایک مزید بڑے سوال کے لیے کلید بھی مل جاتی ہے کہ مذہبی اشرافیہ کے نمائندے کی حیثیت سے، جن کا کام مذہب کی شرعی حدود کو تحفظ فراہم کرنا ہے، وہ اپنے کردار کو کیسے خیال کرتے تھے۔

شاہ اسماعیل اور دیوبندی علما جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے پیروکار ایسے رسمی اعمال کے بارے میں شدید شک اور احتیاط میں مبتلا تھے جو آگے جا کر جعلی شریعت (یعنی شریعت کا ایسا مد مقابل جو خدائی حکم کے بجاے انسانی خواہش کا عکاس ہو-) میں بدل جائے۔ ان علما نے بتایا کہ مذہب کے معاملات میں عوام پر کوئی بھروسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی سرگرمیوں پر ایک مضبوط پہرہ نہ بٹھایا جائے تو وہ غیر شرعی رسوم پر کار بند ہو کر شریعت کی اولیت کو یقینی طور پر تج دیں گے۔

دیوبند کے اصلاحی پروجیکٹ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ بظاہر نیک اور روحانی اجر وثواب کے رسوم کے خلاف، جو باوجود یکہ مباح تھے لیکن واجب نہیں تھے، دینی واجبات وفرائض کی اولیت کا تحفظ کریں۔ دیوبند کے پیش روؤں کو یہ اندیشہ تھا کہ عوام بآسانی نیکی کے مباح/مستحب اعمال کو واجب اعمال کے ساتھ بدل دیں گے۔ مثال کے طور پر مولانا تھانوی نے مباح رسوم کو ایسے مٹھائیوں سے تشبیہ دی ہے، جسے کھانے سے چھوٹے بچوں کی رال بہنے لگتی ہے۔ اگر چہ کھانے کے دوران یہ متاثر کن طور پر فرحت بخش ہیں، تاہم بعد میں یہ نوجوانوں اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

مولانا تھانوی والدین اور علماے دین کے درمیان ایک موازنہ کرکے اپنا قیاس جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے  بچوں کی تربیت کریں اور انھیں ایسی خوش ذائقہ لیکن نقصان دہ مٹھائیوں کی بری لت سے بچائیں۔ اسی طرح مسلمان علما کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عوام کی دینی تربیت کریں، تاکہ وہ ایسے خوش کن رسوم سے بچاو حاصل کر سکیں، جو اس دنیا میں اگر چہ شدید اطمینان فراہم کرتے ہیں، لیکن آخرت میں صرف تکلیف اور عذاب کا سبب نتے ہیں۔ اس تشریح کے مطابق بدعت ایک ایسا ممنوع عمل ہے جس کا ارتکاب دوسروں کو غلط کام کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ فرائیڈ نے اپنے مشکل لیکن معنی خیز کلاسیک Totem and Taboo میں، جو حیران کن طور پر مولانا تھانوی کے افکار کی بازگشت ہے، لکھا ہے: "ایک فرد جو کسی ممنوع عمل کا ارتکاب کرتا ہے، وہ خود ممنوع (taboo) بن جاتا ہے، کیوں کہ اس میں یہ ترغیبی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے اس کی مثال پر عمل کرسکیں۔ اس لیے وہ واقعی 'متعدی' (contagious) ہے، کیوں کہ ہر مثال تقلید پر ابھارتا ہے، اس لیے اس سے احتراز برتنا چاہیے"9۔ بدعت کی بنیاد رکھنے والا یا مبتدع اسی طرح خطرناک ہے، کیوں کہ وہ تقلید پر ابھارنے کے ذریعے ترغیب کی وبا کا اور ممنوع عمل کو باضابطہ بنانے کے خطرے کا حامل ہے۔ ایسے وبائی عامل کو نہ صرف علمی اعتبار سے مغلوب کرنا چاہیے بلکہ اس سے سماجی فاصلہ بھی رکھنا چاہیے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں بدعت دیگر گناہوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ بدعت مذہب کا روپ دھار سکتی ہے۔ مولانا تھانوی نے دعوی کیا کہ بدعات کے مرتکبین ایسا اس مفروضے کی اساس پر کرتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے گویا وہ پاکیزہ عبادات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہی وہ وصف ہے جو بدعت کو دیگر گناہوں سے ممتاز کرتا ہے۔ دیگر بہت سے گناہوں میں گناہ گار کو کم از کم یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی خطا کا ارتکاب کر رہا ہے، جس سے وہ کبھی تو توبہ کر لے گا۔ تھانوی نوحہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے برعکس بدعت کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے مرتکبین کو کبھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ اپنی بدعات کو دینی عمل سمجھتے ہیں10۔ علاوہ ازیں چوں کہ یہ اعمال مذہب کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں، اس لیے جو شخص ان میں شریک ہوتا ہے، لوگ اس کی تقوی وپارسائی کی تعریف کرتے ہیں، اور جو کوئی ان اعمال میں سے خود باز رکھتا ہے، سب لوگ اس پر لعنت ملامت کرتے ہیں، اور اسے گمراہ سمجھتے ہیں۔

دراصل بدعت یا جعلی مذہبی رسم کی سب سے بنیادی خاصیت یہی ہے۔ ایسے کسی عمل میں شرکت پر معاشرے کا اصرار اور ہم جولیوں کا دباو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اگر کوئی رضاکارانہ طور پر اس میں شریک نہیں ہوتا تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی رسوم میں شرکت کی وجہ سماجی اخلاق واقدار کا غیر مرئی دباو ہوتا ہے، نہ کہ خدائی قانون کے تقاضوں کی اتباع۔ شاہ محمد اسماعیل نے بدعت کی جو تعریف کی ہے، اس سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوتا ہے۔ وہ رسم کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں: "ایک غیر واجب عمل جو کسی معاشرے میں اس گہرائی سے جڑ پکڑ لے کہ جو کوئی بھی اسے ترک کرتا ہے، اسے معاشرے کی طرف سے لعنت وملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں آبا واجداد کے روایات کی تقلید یا دوستوں، عزیزوں اور معاشرے کے دیگر افراد کا اس مقبولیت میں اساسی کردار ہے، جو یہ رسوم حاصل کر لیتے ہیں"11۔اس لیے غیر واجب یا سیدھا سادہ مباح عمل اس جذبے اور پابندی سے انجام پانا شروع ہو جاتا ہے، گویا یہ واجب ہے۔ لیکن ایسا کیسے ہوتا ہے؟ وہ کون سا عمل طریقہ ہے جس کے ذریعے رسوم اس قدر جڑ پکڑ لیتے ہیں؟ کس طرح انفرادی اعمال کسی سماج کی زندگی میں اس قدر پختہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا چھوڑنا پھر ناقابل تصور بن جاتا ہے؟

قانون، تاریخ اور شریعت

اپنی ایک نسبتاً کم معروف لیکن دل چسپ اور عمدہ کتاب 'ایضاح الحق' میں، جو تقریباً پوری کی پوری بدعت کے موضوع کے لیے وقف ہے، شاہ محمد اسماعیل ان سوالات میں سے کچھ کو دل آویز تفصیلات کے ساتھ زیر بحث لائے ہیں12۔ غیر شرعی اعمال کا شرعی اعمال کا روپ دھار لینے کے متعلق ان کے بیانیے میں مرکزی سوال شریعت، سماج اور تاریخ کے درمیان تعلق کا تھا۔ انھوں نے واضح کیا کہ سماج کی زندگی میں تمام رسمیں مخصوص مصالح کے حصول کے لیے داخل ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں کسی سماج کا علمی اشرافیہ ان رسموں کو مخصوص صورت دے دیتا ہے، تاکہ ان سے جڑے مصالح زیادہ ہو جائیں، اور حتی الامکان بآسانی قابل حصول بن جائیں۔ رفتہ رفتہ یہ مخصوص صورتیں عوام کے درمیان رائج اور غالب ہو جاتی ہیں۔ تاہم جیسے یہ صورتیں کسی سماج کی روزمرہ زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں، تو اصلاً جن بنیادی مقاصد ومصالح کے لیے انھیں تشکیل دیا گیا تھا، انھیں بھلا دیا جاتا ہے۔

 لوگوں کی نظر میں ان مخصوص رسموں میں کار فرما اصلی استدلال کھو جاتا ہے، جب ان رسموں کی مُروَّجہ صورت زیادہ شدت سے رائج ہو جاتی ہے13۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورت اور مقصد میں مکمل تفریق واقع ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر عوام کا سارا جوش وخروش ان رسموں کی ظاہری صورتوں کو تحفظ فراہم کرنے تک محدود ہو جاتی ہے، اگر چہ یہ صورتیں اب ان مصالح کو نہ بھی پورا  کرتی ہوں، جن کے لیے اصلاً‌ انھیں نافذ کیا گیا تھا۔ اس لیے اگر چہ رسم کا مقصد دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جا سکتا ہو، لیکن اس کی موجودہ صورت کو ترک نہیں کیا جاتا۔ اور جو بھی شخص موجودہ صورت پر اس کی جزئیات سمیت کاربند نہیں ہوتا، وہ سماج کے غیظ وغضب کا نشانہ بن جاتا ہے۔

شاہ اسماعیل نے میت کے 'ایصالِ ثواب' کے لیے خاندان اور معاشرے کے دیگر افراد کے درمیان طعام کی تقسیم کی مثال دی ہے۔ آج کے جنوبی ایشیا میں تقریباً متفقہ طور پر رائج اس رسم کو 'فاتحہ' کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اس میں عزیز واقارب، دوست، مشہور اولیا اور علما کی ارواح کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانے پر قرآن مجید کی پہلی سورت الفاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ عام طور پر فاتحہ کسی میت کی وفات کے تیسرے یا چالیسویں دن پڑھی جاتی ہے۔ ان تقریبات کو آج کل علی الترتیب سوم یا چالیسواں کہتے ہیں۔ مشہور اولیا اور علما کے ایصال ثواب کی صورت میں فاتحہ کا انعقاد عام طور پر ان کے یوم پیدائش کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات کا حجم اور کردار پڑوس کے چند خاندانوں کو جمع کرنے سے لے کر  بھاری بھر کم عوامی اجتماعات تک ہے جو  پورے کے پورے گاؤں اور قصبوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ فاتحہ کی عوامی مقبولیت کے باوجود شاہ اسماعیل اس عمل کو ایک ایسی بدعت سمجھتے ہیں کہ یہ جس طریقے اور مقصد کے لیے ادا کیا جاتا تھا، اس میں انتہائی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اصل میں اس رسم کا بنیادی مقصد میت کے یتیم ورثا کو صدقے کے طور پر کھانا کھلانا تھا۔ اس صدقے کے ثواب کو میت کی روح کو بخش دیا جاتا تھا۔ چونکہ اسلام میں یتیم ورثا ہی ہر قسم کے صدقات وخیرات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، اس لیے اس موقع پر انھیں خوراک کے سب سے زیادہ مستحق کی حیثیت سے ترجیح دی جاتی تھی۔

شاہ  اسماعیل نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس کے دور کے ہندوستانی مسلمان اس رسم کی ایک مخصوص طرز کی ادائیگی سے ایسی شدت کے ساتھ چمٹ گئے ہیں کہ اس کا اصل مقصد اور فائدہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ انھوں نے بتایا  کہ یہی وجہ ہے کہ اب جب میت کے عزیز واقارب کو خوراک دی جاتی ہے، تو کوئی بھی صراحتاً یہ نہیں کہتا: "یہ خوراک میت کے لیے صدقہ ہے" یا "یہ یتیموں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے"۔ اسماعیل نے پیشین گوئی کی  کہ اگر اس عمل کے اصل مقصد کو بیان کرنے کے لیے کوئی ایسی بات کی جائے  تو بہت سے رشتہ دار اور عزیز واقارب اس خوراک کو قبول بھی نہیں کریں گے،14 بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ اسے ایک توہین سمجھیں گے۔

 مزید برآں اس رسم کے مجوزہ مقصد یعنی میت کے ایصالِ ثواب کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے ذریعے کو مکمل ناقابل برداشت سمجھنا اس بات کو یقینی طور پر ثابت کرتا ہے کہ وہ اس مخصوص صورت کو واجب سمجھتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ اگر کوئی میت کی خاطر ہر قسم کا صدقہ وخیرات کرے تو  سماج اسے تسلیم نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ اس امر پر اصرار کرنے لگے ہیں کہ کھانا بعینہ رسم کے مطابق تقسیم ہونا چاہیے۔ اگر کھانا اس انداز میں تقسیم نہ کیا جائے تو رسم پورا کرنے والا شخص گالم گلوچ اور لعنت ملامت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ تاہم اگر یہی شخص میت کی خاطر صدقے میں کچھ بھی خرچ نہ کرے، اور صرف رائج رسم کے مطابق کھانا تقسیم کرے تو اسے کسی قسم کی تنقید یا نفسیاتی دباو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔شاہ اسماعیل نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ اس لیے میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا تقسیم کرنا اب عبادت کی سرگرمی نہیں رہی۔ اس کے بجاے اب یہ ایک رسم بن گئی ہے، جو اپنے اصل غرض اور مقصد سے ہٹ گئی ہے15۔

یہاں پر شاہ اسماعیل کے بیانیے میں شریعت کی تشکیل میں تاریخ کے کلیدی کردار کو نوٹ کرنا اہم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ تاریخ رسموں کو اس انداز میں جواز دیتی ہے کہ پھر ان کو ناجائز ٹھہرانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایصالِ ثواب کے طور پر کھانا دینے کا بنیادی مقصد زمان اور تاریخ میں دفن ہو گیا، بلکہ تاریخ نے رسم کو سنت بنا دیا، سماج کا ایک ایسا ناقابلِ اعتراض عمل، جس کے کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا۔

شاہ اسماعیل کے نزدیک اس رسم کا اصل مقصد اب غیر مرئی ہے جو تاریخ/زمان کی گرد میں دب گیا ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقصد کچھ وقت کے لیے موجود تھا۔ لیکن شاہ اسماعیل نے ہندوستان میں رائج اس رسم کا عدم جواز کیسے بتایا؟ ایسا انھوں نے تاریخ ہی کی طرف رجوع کرکے کیا۔ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال کی نیو اس بات پر اٹھائی کہ اس رسم کو "تاریخ میں لانے" کا ایک خاص مقصد تھا جو اب باقی نہیں رہا۔  تاریخیت (historicity) پر مبنی  اپنے انداز سے انھوں نے یہ کوشش کی کہ اس رسم کے وقتی جواز کو واضح کریں، تاکہ اس کی ناقابل اعتراض ضرورت کو تہہ وبالا کر سکیں۔ اس عمل میں لاینحل تضاد یہ تھا: تاریخ ہی کے ذریعے شاہ اسماعیل نے وہ ظاہر کیا جسے تاریخ نے اپنی گرد میں چھپا دیا تھا۔ تاریخ کی وجہ سے جائز بننے والے عمل کی طاقت سے نمٹنے کی کوشش میں شاہ اسماعیل نے مزید تاریخ سے کام لیا۔ شریعت اور تاریخ کی یک جائی کے خلاف احتجاج کے باوجود وہ تاریخ سے آگے نہ دیکھ سکے۔

شاہ  اسماعیل کی نظر میں اصلاحی کوشش کا تقاضا ہے کہ حال کے باسیوں کو ان کی ماضی کی ذمہ داری کی یاد دہانی کرائی جائے۔ تاہم انھوں نے اس امر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ حال پر کوئی دعویٰ جتانے کے لیے ماضی دست یاب نہیں ہوتا اور زمنیت اس قدر غیر یقینی ہے کہ وہ زندگی کو ایک ایسے مسلسل اور بے جوڑ دھاگے کی شکل میں  جو ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑتا ہو، تاریخ  میں تحقق  (historcizing) کے امکان کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ تاریخ کی شہہ پر عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنے اصلاحی پروگرام میں جو نکتہ شاہ اسماعیل کی نظر سے اوجھل رہا وہ یہ تھا، جیسا کہ زاں  لوک نانسی (Jean-Luc Nancy) نے استنباط کیا ہے، کہ تاریخ مابعد الطبیعات کے بجاے سماج یا عوام کا نام ہے۔ نانسی نے یادگار انداز میں لکھا کہ " اگر ہم تاریخ کے  لفظ کو اس کی مابعد الطبیعاتی ، اور اس بنا پر تاریخی مفہوم سے الگ کر سکیں  تو تاریخ بنیادی طور پر نہ تو زمان کے ساتھ ہے، نہ ہی تسلسل اور علیت (causality) کے ساتھ، بلکہ سماج یا  اجتماعی وجود  (being-in-common) ہے16۔

نانسی کی تنبیہ کا مقصد تاریخ کو تاریخیت سے الگ کرنا (dehistoricizing) ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کسی سماج کا اخلاقی حال (present) اس کے بیان کی جانے والی ماضی سے مربوط نہیں۔ بالفاظ دیگر کسی سماج کا ماضی سیدھے سادے انداز میں حال میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ تاہم شاہ اسماعیل کے تاریخی تخیل میں ماضی ایک مطلق اہم اور سیدھا سادہ زمرہ ہے۔ ان کے تصور کی رو سے شریعت اور تاریخ کے درمیان تعلق میں کسی سماج کی اخلاقی زندگی اس کی ماضی کی تجربی تاریخ سے ماخوذ ہونی چاہیے۔ شاہ اسماعیل اس جستجو میں تھے کہ سماج کی ایک معروضی تاریخ کی تشکیل کریں اور پھر اسے بیان کریں۔ اس ماڈل کی بنیاد پر وہ سماج کی اصلاح کے خواہاں تھے۔

 لیکن اس عمل کے تسلسل میں انھوں نے سماج کو نظریاتی طور پر خود آگاہ کرداروں کے ایک گروہ کی صورت میں معروضی بنایا، جو پہلے عملی اعمال کے چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ سماج کی مثالی تاریخ سے اپنی وفاداری کا مظاہرہ کریں۔ آج جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں ان رسموں کی مسلسل موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ سماج اور تاریخ کے درمیان تعلق کا یہ تصور نامعقول ہے، کیونکہ زندگی کو تاریخ سے متعلق اپنی ذمہ داری یاد دلانے سے عملی زندگی میں یکسر تبدیلی کبھی ممکن نہ ہو سکی۔ یہ توقع کبھی پوری نہیں ہو سکتی، اور ایک نامعلوم مستقبل تک ناقابل تکمیل رہےگی17۔

عملی زندگی کو یکسر تبدیل کرنے کی کم وبیش یہی توقع بدعت پر مولانا اشرف علی تھانوی کی فکر کی اساس بنی۔ ہندوستانی مسلمان جن اخلاقی امراض میں مبتلا تھے، ان پر مولانا تھانوی شاہ اسماعیل کے تجزیے اور ان بیماریوں کے علاج کی حکمتِ عملی سے مکمل متفق تھے۔ شاہ اسماعیل کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ عوام میں رائج رسمیں، جو بظاہر عباداتی مقاصد کے لیے ہیں، درحقیقت اپنے مال ودولت کی نمائش اور سماج کے دباو کی وجہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اس استدلال کی وضاحت میں انھوں نے میت کے چالیسویں کی مثال دی ہے۔ اگر چہ بظاہر اس کا مقصد میت کی روح کے لیے ایصالِ ثواب ہے، تاہم اس تقریب پر خرچ کی جانے والی رقم، اساسی طور پر کھانا تیار کرنے اور تقسیم کرنے، کا بنیادی مقصد مال ودولت اور سماجی حیثیت کی عوامی نمائش ہے18۔ اس رسم کے انعقاد کے پیچھے منتظمین کا اصلی مقصد معلوم کرنے کے لیے مولانا تھانوی نے ایک دلچسپ طریقہ تجویز کیا۔

انھوں نے تجویز کیا کہ اس تقریب کے منتظمین کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی برادری کے افراد کو برسر عام کھانا کھلانے کے بجاے اسے خفیہ طور پر  یتیموں کو دے دیں یا یہ رقم کسی مسجد یا مدرسے کو صدقہ کر دیں۔ کیونکہ یہ واضح ہے کہ صدقہ جس قدر ضرورت مند اور غریب لوگوں کو دیا جائے گا، اسی قدر وہ میت کے لیے زیادہ اجر وثواب کا موجب ہوگا۔ مولانا تھانوی نے پیش بینی کی کہ اگر یہ تجویز پیش کی جائے تو منتظمین جھٹ سے کہہ دیں گے: سبحان اللہ! کیا آپ ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنا پیسہ خرچ کریں اور کسی کو پتا بھی نہ چلے؟ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟19 تھانوی کے نزدیک ریا اور سماج کی طرف سے شرم دلانے کا خوف ہی ان تمام اجتماعات کے پیچھے بنیادی محرکات ہیں۔ ایصال ثواب کے لیے اس طریقے کو رد کرنا جس میں مال ودولت کی عوامی نمائش نہ ہو، اس امر کی تائید کرتا ہے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں اس صورتِ حال نے میت کے ایصالِ ثواب کی اصل روح کو مار دیا ہے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس طریقے کا بنیادی مطمح نظر یہ تھا کہ چند زندہ لوگ صحیح نیت کے ساتھ نیک اعمال کرکے اجر وثواب حاصل  کریں  اور پھر اس حاصل کردہ اجر وثواب کو میت کی روح کو بخش دیں۔ لیکن موجودہ صورت میں ان رسموں میں کار فرما بنیادی نیت خراب ہو گئی ہے، اور اس کا مقصد دکھاوا بن گیا ہے۔ اس لیے زندہ لوگ کوئی اجر وثواب کما ہی نہیں رہے کہ اسے آگے میت کو بخش سکیں۔ انھوں نے طنزیہ پیرایے میں اسے یوں بیان کیا ہے: "جب یہاں ہی صفر ہے تو وہاں کیا بخشو گے؟"20۔

یہاں ایک اہم وضاحت کا اندراج ضروری ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی میت کے ایصال ثواب جیسی رسموں کے علی الاطلاق مخالف نہیں تھے۔ اس کے برعکس ان کی نظر میں یہ پاکیزہ اعمال تھے جو اپنی اصل میں قابلِ تعریف تھے۔ لیکن انھیں ان نیتوں پر تحفظات تھے جن سے عوام ان رسموں کو ادا کرتے ہیں۔ خراب رویوں کے شامل ہو جانے  کی وجہ سے یہ جائز اعمال ناجائز بن گئے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کے استدلال میں سماج کی شرعی حدود کی تشکیل میں تاریخ کے کردار کو بھی ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

 ان علما کی نظر میں اخلاقی بگاڑ نے ان پاکیزہ اعمال پر ایک ایسی تہہ چڑھا دی ہے جسے عوام دیکھ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بنا سوچے سمجھے اس حد تک ان رسموں کی ان صورتوں سے جڑ گئے ہیں جو تاریخ کی پیداوار ہیں کہ وہ ان صورتوں کے اصلی مقاصد ان کے ذہن سے بالکل فراموش ہو گئے ہیں۔ نتیجتاً نیک اعمال کے ارتکاب کی روپ میں وہ ایک ایسی عوامی فضا تشکیل دے رہے ہیں جو اخلاقی بگاڑ کی کُشتہ ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کی نظر میں اصلاحی کاوشوں کا بنیادی مقصد عوام کو مذہب کی منظور کردہ شرعی حدود اور ان رائج رسموں کے درمیان، جو روزمرہ زندگی کی عادات سے پیدا ہوئے ہیں، بے جوڑ پن دکھا کر انھیں بیدار کرنا ہے۔ذرا  مختلف الفاظ  میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی اپنے کردار کو اس طرح دیکھ رہے تھے کہ وہ تاریخ میں مداخلت کرکے اس کے دھارے کو بدل دیں۔ وہ ان رائج عادات کو روایت کی حدود سے تجاوز ثابت کرکے انھیں یکسر بدلنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کون سا فقہی تصور اور تعبیر وتشریح کا منہج تھا جس نے سماجی اور مذہبی اصلاح کے اس پروگرام کو سہارا فراہم کیا، اور اس کی رہ نمائی کی؟


حواشی

  1.  دیکھیے: اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ اشرفیہ، 1958) اور شاہ محمد اسماعیل، ایضاح الحق (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1976)۔
  2.  میں نے ارتفاقات کا ترجمہ "تہذیب کو سہارا فراہم کرنے والے" کے بجاے "اخلاقی اصلاح کے ذرائع" کا زیادہ بامحاورہ ترجمہ کیا، تاکہ شاہ ولی اللہ کی فکر کو مغرب کی نوآبادیاتی تواریخ اور ان کی تہذیب کی اصطلاح سے الگ کروں۔ دیکھیے: طلال اسد، Conscripts of Western Civillization?، مدون سی گیلے، Dialectical Anthropology: Essays in Honor of Stanley Diamond، جلد 1 (گینس ویلے: یونیورسٹی پریسز آف فلوریڈا، 1992)، 333 – 5۔ علاوہ ازیں میرے خیال میں اس کتاب میں شاہ صاحب کے مقاصد کے اعتبار سے اخلاقی اصلاح کے لیے کونیاتی، رسمیاتی، سماجی اور معاشی عمل مرکزی حیثیت رکھتا ہے، بالخصوص جس انداز میں وہ ارتفاقات کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر چہ اس بحث میں، میں نے حجۃ اللہ البالغہ کے تراجم خود کیے ہیں، اور اگر چہ مجھے ارتفاقات کی اصطلاح کے ترجمے پر مارسیا ہرمینسن کے ساتھ معمولی اختلاف بھی ہے، تاہم میں اس کتاب کے عمدہ انگریزی ترجمے کے لیے ان کا مرہونِ منت ہوں۔ دیکھیے: مارسیا ہرمانسن، The Conclusive Argument from God: Shah Wali Allah of Delhi’s Hujjat Allah Al-Balighah (لائیڈن: ای جے برِل، 1996)۔
  3.  نوربرٹ ایلیاس، The Civilizing Process: Sociogenetic and Psychogenetic Investigations (کیمبرج: ویلے بلیک ویل، 2000)۔
  4.  شاہ ولی اللہ، حجة الله البالغة، جلد 1 (بیروت: دار الجیل، 2005)، 100۔ آنے والے حوالے بھی اس اشاعت سے ہیں، جو متن میں بین القوسین دیے گئے ہیں۔
  5.  طلال اسد، Genealogies of Religion: Discipline and Reasons of Power in Christianity and Islam (بالٹی مور: جونز ہاپکنز یونیورسٹی پریس، 1993)، 290۔ جیسا کہ اسد نے یادگار انداز میں لکھا: "میرا بنیادی اشکال یہ ہے کہ سماجی زندگی آرٹ کی کسی کاوش کے مانند نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ سماجی زندگی اپنی مجموعی حیثیت میں پہلے سے موجود مادے سے باہر تشکیل نہیں دی جا سکتی، جس طرح کہ آرٹ کے کام تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔ زندگی ضروری بالذات ہے۔ صرف اس کا وہ جز جسے بیانیے میں بدل دیا گیا، اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اسے ایک آرٹسٹ کی کہانی کی طرح 'بنایا' جا سکتا ہے"۔
  6.  ملاے اعلیٰ یا خدا کے مقرب ترین فرشتوں کی مجلس، حظیرۃ القدس یا وہ مقدس مقام جہاں فرشتوں کی مجلس میں سب سے بلند مقام والے فرشتے اور انفرادی ارواح روح اعظم (highest spirit) سے ملتے ہیں، ایسی اصطلاحات ہیں جنھیں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب میں بار بار استعمال کیا ہے۔ یہ اصطلاحات خدا کے تشریعی نظام اور انسانوں کی اخروی نجات سے متعلق تدبیر کے کونیاتی امور پر دلالت کرتی ہیں۔ ان اصطلاحات کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے: ہرمانسن، Conclusive Argument from God، 46 – 47۔
  7.  سعید احمد پالن پوری، رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ، ج 1 (دیوبند، مکتبۂ حجاز، 2000)۔
  8.  ایضاً، 509۔
  9.  سگمنڈ فرائڈ، Totem and Taboo: Resemblances between the Psychic Lives of Savages and Neurotics (نیو یارک: بارنس اینڈ نوبل، 2005)، 32۔
  10.  اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، ج 9 (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1984)، 149۔
  11.   اسماعیل، ایضاح الحق، 94۔
  12.  یہ کتاب اصلاً فارسی زبان میں لکھی گئی ہے، اور غالباً شاہ اسماعیل نے اپنی زندگی کے آخری دور میں لکھی ہے، کیونکہ یہ نامکمل رہ گئی ہے۔ بعد میں اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ مجھے اصل فارسی نسخے کا سراغ نہیں مل سکا اور اس لیے میں نے معراج محمد بارق کے اردو ترجمے پر انحصار کیا ہے۔
  13.  اسماعیل، ایضاح الحق، 93 – 95۔
  14.   ایضاً۔
  15.  ایضاً۔
  16.  جین-لوک نانسی، Finite History، مُدَوِّن: ڈیوڈ کیرول، The States of “Theory: History, Art, and Critical Discourse (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 1990)، 149۔
  17.  یہاں پر میرا تجزیہ انندا ابیسیکارا سے متاثر اور اس کی فکر کے مرہونِ منت ہے۔ دیکھیے: انندا ابیسیکارا، The Politics of Postsecular Religions: Mourning Secular Futures (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2008، 33 – 83۔
  18.  اشرف علی تھانوی، وعظُ الدین الخالص (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2001)، 25۔
  19.   ایضاً۔
  20.  ایضاً۔


آراء و افکار

(جنوری ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter