ڈاکٹر محی الدین غازی

کل مضامین: 123

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۳)

(۱۰۱) أنفسکم کا ترجمہ۔ قرآن مجید میں بعضکم بعضا کی تعبیر متعدد مقامات پر آئی ہے، اور حسب حال مختلف ترکیبوں کے ساتھ استعمال ہوئی ہے، بعضکم بعضا کا ترجمہ ہوتا ہے ’’ایک دوسرے کو‘‘ اور ’’آپس میں‘‘ اور ’’کوئی کسی کو‘‘ جیسے: ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضاً(العنکبوت:۲۵) کبھی فعل کے ثلاثی مجردکے بجائے باب تفاعل سے ثلاثی مزید میں استعمال ہونے سے بھی بعضکم بعضا کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے یقتل بعضھم بعضا کا مفہوم وہی ہے جو یتقاتلون کا ہے۔ اس کے علاوہ ایک تعبیر أنفسکم کی بھی آئی ہے، بہت...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۲)

(۹۸) مدّہ اور مدّ لہ میں فرق۔ قرآن مجید میں فعل مد یمد براہ راست مفعول بہ کے ساتھ بھی آیا ہے اور حرف جر لام کے ساتھ بھی آیا ہے۔ ان دونوں اسلوبوں میں کیا فرق ہے؟ اس سلسلے میں عام طور سے علماء لغت اور مفسرین کے یہاں کوئی صراحت نہیں ملتی، بلکہ ان کے بیانات سے لگتا ہے کہ دونوں اسلوب ہم معنی ہیں، البتہ علامہ زمخشری نے اس فرق کوصراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، ان کے نزدیک مد اگر مفعول بہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی بڑھانے اور اضافہ کرنے کے ہیں، اور اگر حرف جر لام کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ڈھیل دینے اور مہلت دینے کے ہیں۔ سورہ بقرۃ آیت نمبر ۱۵؍ کی تفسیر میں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۱)

(۹۷) افتری علی اللہ الکذب کا ترجمہ۔ افتری کے معنی گھڑنا ہوتے ہیں، افتری الکذب کا مطلب ہوتا ہے جھوٹ بات گھڑنا، اور افتری علی اللہ الکذب کا مطلب ہے اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا، اور اللہ کی طرف بے بنیاد بات منسوب کرنا۔ قرآن مجید میں یہ تعبیر بہت زیادہ مقامات پر آئی ہے،بہت سے مترجمین کے یہاں دیکھا جاتا ہے کہ اس کا ترجمہ کرتے وقت کبھی کبھی بہتان باندھنے یا تہمت لگانے کا ترجمہ کردیتے ہیں، لیکن یہ درست نہیں ہے، افتری علی اللہ الکذب میں اللہ پر بہتان لگانے یا تہمت لگانے کا مفہوم ہوتا ہی نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جو مترجم بعض جگہوں پر بہتان باندھنے کا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۰)

(۹۱) ’’وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ‘‘ کا ترجمہ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَسْجُدُ لَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ۔(الحج: ۱۸)۔ اس آیت کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، بطور مثال ذیل میں ایک ترجمہ پیش کیا جاتا ہے: ’’تو نے نہ دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے، اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)

(۸۷) ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالاَعْنَابِ کا ترجمہ۔ نخیل کا مطلب کھجور کا درخت ہوتا ہے، اور ثمرات النخیل کا مطلب کھجور ہوتا ہے، جبکہ اعناب کا اصل مطلب انگور ہوتا ہے، کبھی انگور کی بیلوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے، اس وضاحت کی روشنی میں ذیل میں مذکور آیت کے مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں: وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِیْلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْہُ سَکَراً وَرِزْقاً حَسَناً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون ۔ (النحل: ۶۷)۔ ’’اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۸)

(۸۵) سقی اور اسقاء کے درمیان فرق۔ سقی یسقي ثلاثی مجرد فعل ہے، جس کا مصدسقي ہے، اور أسقی یسقي ثلاثی مزید فعل ہے جس کا مصدر اِسْقَاء ہے، قرآن مجید میں دونوں کا استعمال متعدد مرتبہ ہوا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے دونوں کے درمیان یہ فرق بتایا ہے کہ سقی میں محنت شامل نہیں ہوتی ہے، اور اِسْقَاء میں محنت شامل ہوتی ہے، بعض لوگوں نے بتایا کہ سقی منہ سے پانی پلانے کے لیے اور اسقاء کھیتیاں وغیرہ سیراب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔راغب اصفہانی نے قرآن مجید کے استعمالات کی روشنی میں دونوں کے درمیان بہت بلیغ فرق بیان کیا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۷)

(۸۲) بأیمانھم کا مطلب۔ یمین کی جمع أیمان ہے۔ یمین کے معنی داہنے ہاتھ کے بھی ہیں اور داہنی جانب کے بھی ہیں۔ قرآن مجید میں یمین بھی آیا ہے اور أیمان بھی آیا ہے۔ یمین کا لفظ قرآن مجید میں دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اپنے افادات میں ایک قیمتی نکتہ ذکر کیا ہے کہ اگر یمین سے پہلے حرف (باء) ہو تو مطلب ہوگا داہنے ہاتھ میں اور اگر یمین سے پہلے حرف (عن) ہو تو مطلب ہوگا داہنی جانب۔ ذیل کی قرآنی مثالوں سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے: وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوسَی۔ (طہ: ۱۷)۔ ’’اور اے موسیٰ تمہارے داہنے ہاتھ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۶)

(۸۰) تنازع کے دو مفہوم۔ قرآن مجید میں تنازع کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے، فیروزآبادی نے لکھا ہے کہ اس لفظ کے دو مفہوم ہیں، باہم جھگڑا کرنا اور ایک دوسرے کو کچھ پیش کرنا۔ والتَّنازُعُ: التَّخاصُمُ والتَّناوُل. (القاموس المحیط، ص: ۷۶۶)۔ زبیدی کا خیال ہے کہ حقیقی مفہوم جھگڑا کرنا اور مجازی مفہوم ایک دوسرے کو پیش کرنا ہے، زبیدی نے مثالیں دے کربتایا ہے کہ قرآن مجید میں دونوں مفہوم کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ والتَّنازُعُ فِی الأصلِ: التَّجاذُبُ، کالمُنَازَعَۃِ، ویُعَبَّرُ بِھِمَا عَن التَّخَاصُمِ والمُجَادَلَۃِ، ومِنہُ قَوْلُہُ عَزَّ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۵)

(۷۵) سعر کا مطلب۔ قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کے لیے لفظ سعیر متعدد مقامات پر آیا ہے، البتہ سورہ قمر میں دو جگہ لفظ سعر آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ یہ لفظ ضلال کے ساتھ آیا ہے۔ مترجمین ومفسرین میں اس پر اختلاف ہوگیا کہ ان دونوں مقامات پر سعر کا کیا مطلب لیا جائے، کیونکہ لغت کے لحاظ سے سعر سعیر کی جمع بھی ہوسکتا ہے، اور واحد کے صیغے میں بطور مصدر جنون کا ہم معنی بھی ہوتا ہے ہم ذیل کی سطور میں دونوں آیتوں کے مختلف ترجمے پیش کریں گے۔ (۱) کَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ۔ فَقَالُوا أَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُہُ إِنَّا إِذاً لَّفِیْ ضَلَالٍ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۴)

(۷۴) امداد کا ترجمہ۔ عربی میں لفظ ’امداد‘ کا مطلب مدد بہم پہونچانا بھی ہوتا ہے، اور محض عطا ونوازش کے لیے بھی لفظ ’امداد‘ آتا ہے۔ فیروزآبادی لکھتا ہے: والاِمْدادُ: تأخیرُ الأجَلِ، وأَن تَنْصُرَ الأجْنادَ بِجَماعَۃٍ غیرَکَ، والاِعْطاءُ، والاِغاثَۃُ. (القاموس المحیط.)۔ فیروزآبادی کی اس بات پر یہ اضافہ مناسب ہوگا کہ تطویل وتوسیع کے معنی میں دراصل ’مدد‘ ثلاثی مجرد آتا ہے، اور ’امداد‘ ثلاثی مزید اس معنی میں ’فی‘ کے ساتھ آتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ دونوں معنوں میں آیا ہے، موقع ومحل سے مفہوم متعین ہوتا ہے، لیکن مترجمین سے اس لفظ کے مفہوم...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۳)

(۷۱) تاثیم کا مطلب۔ لفظ تاثیم قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے، جبکہ لفظ اثم کئی جگہ آیا ہے۔ اثم کا مطلب گناہ ہے۔ اکثر ائمہ لغت نے تاثیم کو بھی اثم کا ہم معنی بتایا ہے۔ (والتَّأثِیمُ: الاثم) مزید برآں انہوں نے باب افعال سے ایثام کا مطلب کسی کو گناہ میں ڈالنا، اور باب تفعیل سے تاثیم کا مطلب کسی پر گناہ کو چسپاں کرنا بتایا ہے، (وآثمہ بالمد: أوقعہ فی الاثم. وأثمَہُ بالتشدید،أی قال لہ:أَثِمْتَ) جبکہ ایک جدید لغت معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں تاثیم کا مطلب لکھا ہے: ایسا کام جو گناہ کا موجب بنے (عمل یوجب اثمًا)۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲)

(۶۹) سَحَر کا مطلب۔ سحر رات کے آخری پہر کو کہتے ہیں، امام لغت ازہری کہتا ہے: سحر رات کا ایک ٹکڑا ہے، والسَّحَرُ قِطْعَۃٌ مِنَ الْلَّیْلِ۔ تہذیب اللغۃ۔جوہری لکھتا ہے: سحر صبح سے کچھ پہلے کا وقت ہے،والسَّحَرُ: قُبَیْلَ الصُّبحِ۔الصحاح۔ لسان العرب میں ہے:صبح سے پہلے رات کا آخری حصہ، ایک اور قول ہے کہ رات کے آخری تہائی سے طلوع فجر تک کا وقت۔والسَّحْرُ وَالسَّحَرُ: آخِرُ اللَّیْلِ قُبَیْلَ الصُّبْحِ، وَالْجَمْعُ أَسْحَارٌ۔۔۔ وَ قِیْلَ: ھُوَ مِنْ ثُلُثِ اللَّیْلِ الآخِرِ اِلیٰ طُلُوْعِ الْفَجْرِ۔ چونکہ سحر کا وقت طلوع فجر تک جاتا ہے، اس لئے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱)

(۶۸) مَقَام اور مُقَام میں فرق۔ مَقَام (میم پر زبر کے ساتھ) کی اصل قیام ہے، یہ فعل قام ثلاثی مجرد لازم سے اسم ظرف ہوتا ہے یا مصدر میمی ہوتا ہے۔ مُقَام (میم پر پیش کے ساتھ) کی اصل اقامۃ ہے، یہ فعل أَقَامَ کا ظرف ہوتا ہے یا مصدر میمی یا اسم مفعول ہوتا ہے۔ قیام کا صلہ اگر باء ہو تو اس کے معنی کسی کام کو کرنایا کسی سرگرمی کو انجام دینا ہوتاہے، جبکہ اقامۃ اگر فی کے صلے کے ساتھ لازم ہو تو اس کے معنی کسی جگہ رہائش اختیار کرنا ہے۔ اور اگر مفعول بہ مراد ہو تومتعدی ہوتا ہے جیسے أقام الدین اور فأقامہ۔ اس وضاحت کی روشنی میں لفظ مَقام اور لفظ مُقام کے مفہوم میں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰)

(۶۵) ترجمہ میں تفسیری اضافہ۔ قرآن مجید کے مختلف ترجموں کو پڑھتے ہوئے کہیں کہیں معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے ترجمہ کرتے ہوئے بعض ایسے اضافے کردئے جن کا محل ترجمہ نہیں بلکہ تفسیر ہے، ایسے اضافے اگر قوسین کے اندر کئے جاتے ہیں تو قابل اعتراض نہیں ہوتے ہیں کیونکہ قاری یہ سمجھتا ہے کہ قوسین کے اضافے دراصل تفسیری اور توضیحی نوعیت کے ہوتے ہیں، البتہ جب قوسین کے بغیر ایسے اضافے ہوں تو وہ قابل اعتراض ٹھہرتے ہیں، کیونکہ قاری ان کو عین الفاظ قرآنی کا ترجمہ سمجھتا ہے۔اس کو حسب ذیل مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔ ’’اور اے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹)

(۶۱) فعل ’’کاد‘‘ کا درست ترجمہ۔ جب کسی فعل سے پہلے کاد فعل آتا ہے تو مطلب ہوتا ہے کہ وہ کام ہونے کے قریب تو ہوگیا لیکن ہوا نہیں، کیونکہ ہوجانے کی صورت میں کاد نہیں لگتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے: وَأَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْْہِ لِبَداً۔(الجن :۱۹)۔ ’’اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)۔ ’’اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اُس کو پکارنے کے لئے کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو گئے‘‘۔(سید مودودی۔ اس ترجمے میں ’’تیار...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸)

(۵۹) جُندٌ مَّا ہُنَالِکَ کا ترجمہ۔ جُندٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَاب۔ (ص:۱۱)۔ اس آیت میں ایک لفظ (ہُنَالِکَ)ہے، جس کاترجمہ لوگوں نے ظرف مکان یا ظرف مکان سے کیا ہے، کسی نے اسی جگہ اور کسی نے اس وقت کا ترجمہ کیا۔ اس آیت میں ایک دوسرا لفظ ( مَا)ہے ، جس کا ترجمہ بعض لوگوں نے چھوٹا اور بعض لوگوں نے بڑا کیا ہے۔ ’’یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اِسی جگہ شکست کھانے والا ہے‘‘۔ (سید مودودی)۔ ’’یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے یہ بھی ایک لشکر ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)۔ ’’یہ بھی (بڑے بڑے) لشکروں میں سے شکست پایا ہوا (چھوٹا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷)

(۵۶) أَلَدُّ الْخِصَامِ کا مفہوم۔ لفظ خصومۃ کے معنی ہوتے ہیں بحث ومباحثہ کے، جس میں جھگڑے کی کیفیت بھی کبھی شامل ہوسکتی ہے۔ فیروزآبادی نے لکھا ہے، الخُصومَۃُ: الجَدَلُ۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے متعدد مشتقات استعمال ہوئے ہیں، جہاں مترجمین نے جھگڑنے کے لفظ سے ترجمہ کیا ہے، خود لفظ خصام کا ترجمہ بحث مباحثہ اور جھگڑے سے کیا ہے، جیسے: أَوَمَن یُنَشَّأُ فِیْ الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِیْ الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْنٍ۔ (الزخرف :۱۸)۔ ’’کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟‘‘۔...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶)

(۵۰) لفظ أمثال کے قرآنی استعمالات۔ لفظ أمثال قرآن مجید میں کئی جگہ آیا ہے اور مختلف معنوں میں آیا ہے، سیاق وسباق سے یہ طے ہوتا ہے کہ کس جگہ کیا مفہوم مراد ہے، جیسے: أمثال جب مَثَل کی جمع ہوتا ہے تو مثالوں کے معنی میں آتا ہے جیسے: کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَہُمْ۔ (محمد:۳)۔ ’’ اس طرح اللہ لوگوں کے لئے ان کی مثالیں بیان کررہا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)۔ ’’ اسی طرح خدا لوگوں سے ان کے حالات بیان فرماتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)۔ أمثال جب مِثل کی جمع ہوتا ہے تو ’’ اسی طرح‘‘کے معنی میں آتا ہے، جیسے: إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵)

(۴۶) حال کا ایک خاص استعمال۔ عربی زبان میں حال کا عام استعمال تو فعل کی انجام دہی کے وقت ذو الحال کی حالت بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے، جیسے جاء زید راکبا یعنی زید سوار ہوکر آیا۔ لیکن حال کا ایک استعمال اس وقت بھی ہوتا ہے جب ایک فعل کے فورا بعد دوسرا فعل شروع ہوتا ہے، ترجمہ میں اس کی رعایت سے ترجمہ کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ بعض مترجمین نے کچھ مقامات پر اس استعمال کے مطابق ترجمہ کیا ہے، جبکہ بعض دوسرے مقامات پر اس طرح ترجمہ نہیں کیا گیا، حالانکہ وہاں بھی اسی طریقہ پر ترجمہ کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے، مثالیں حسب ذیل ہیں: (۱) فَکَیْْفَ إِذَا أَصَابَتْہُم...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴)

(۴۱) ایقن اور استیقن کے درمیان فرق۔ ایقن کا مطلب ہے یقین کیا، یہ ایمان سے قریب لفظ ہے، اور قرآن مجید میں اس کا استعمال بھی اس طرح کے مقامات پر ہوتا ہے جہاں ایمان کا استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے استعمالات بتاتے ہیں کہ ایقان مومنوں کی ایک قابل تعریف صفت، بلکہ ایمان کا مترادف ہے، اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، جیسے: والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُون۔ (البقرۃ : ۴)۔ اور جو لوگ ایقان کی روش اختیار نہیں کرتے ہیں ان کی قرآن مجید میں مذمت کی گئی ہے، ذیل کی آیت اس کی ایک مثال ہے: فَاصْبِرْ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳)

(۳۴) تَبَیَّنَتِ الجِنُّ کا مطلب۔ تَبَیَّنَ کامطلب ہوتا ہے کسی چیز کا واضح ہوجانا۔ جو چیز واضح ہوتی ہے، وہ تَبَیَّنَ فعل کا فاعل بنتی ہے، اور جس شخص پر وہ چیز واضح ہوتی ہے، اس کے لیے لام کا صلہ آتا ہے۔ جیسے: وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۷)۔ ’’اور کھاؤ پیو، یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری (شب کی) سیاہ دھاری سے تمہارے لئے نمایاں ہوجائے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)۔ قرآن مجید میں تَبَیَّنَ زیادہ تر لام کے صلہ کے ساتھ آیا ہے، جو اس پر داخل ہوتا ہے جس پر کوئی بات...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲)

(۲۲) أَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ کا ترجمہ: قرآن مجید میں کئی مقامات پر اعمال کا بدلہ دینے کی بات بڑے زور اور تاکید کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے بعض مقامات پرقرآن مجید میں جو اسلوب اختیار کیا گیاہے، اسے سمجھنے میں بعض مترجمین سے غلطی ہوئی ہے۔ جزی کا فعل عربی زبان میں کسی چیز کا بدلہ دینے یا کسی کا بدل بننے اور کام آنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ اس فعل کے بعد وہ چیز ذکر ہوتی ہے جسے بطور بدلے کے دیا گیا اور وہ چیز بھی ذکر ہوتی ہے جس کا بدلہ دیا گیا۔ کبھی دونوں ساتھ ذکرہوتے ہیں اور کبھی کسی ایک پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ دونوں کے ذکر کی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱)

اس مضمون میں اس کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ قرآن مجید کے ترجمہ کا اہم اور عظیم کام کرنے والوں کی تحسین میں کچھ رقم کیا جائے کہ اتنی عظیم خدمت مختلف شخصیات کے ذریعہ جس قدر ہمت واہتمام سے انجام دی گئی، وہ محتاج بیان وستائش نہیں ہے۔ پیش نظر تحریر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کے ترجمہ کا کام بہت ضروری مگر نازک عمل ہے، اس میں غلطی کے امکانات کو کم سے کم کرتے رہنے کی مسلسل کوشش ضروری ہے، قرآن اللہ کا کلام ہے، تاہم اس کلام کا ترجمہ ایک انسانی کوشش ہوتی ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے، اسی لئے جو ترجمہ جتنا زیادہ مشہور ومتداول...
< 101-123 (123)🏠