بعض پوسٹیں نظر سے گزریں جن میں مسجد گرانے کے فعل کی شدّ و مدّ سے تائید کی گئی تھی اور اس حکم کی تعمیل کو امیر کی اطاعت قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ زمین غصب کر کے مسجد بنائی گئی ہے۔
اس موقف پر چار اصولی سوالات پیدا ہوتے ہیں:
- حقیقی فرد/شخص (انسان) کی ملکیت اور فرضی شخص (ریاست) کی ملکیت کو یکساں کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
- اگر کسی حقیقی فرد کی ملکیت پر کسی اور نے مالکانہ تصرف کیا اور عشروں تک وہ خاموش رہا، تو کیا بعد میں وہ عدالت میں دعویٰ دائر کر سکتا ہے؟
- کیا ریاست نے دعویٰ کیا بھی ہے؟
- ریاست کے کسی محکمے نے اگر ایسا دعویٰ کیا بھی ہو، تو کیا صرف اس کے دعوے پر ہی اسی محکمے کو یہ اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ جس عمارت کو وہ ناجائز سمجھتا ہے، اسے راتوں رات گرا دے؟
پہلا سوال یہ معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کیا واقعی مذکورہ زمین کو غصب شدہ زمین کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ زمین کسی حقیقی فرد/افراد کی ملکیت تھی یا ریاست کی ملکیت تھی؟
اتنا تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ پہلا امکان نہیں ہے، اس لیے دوسرے امکان پر غور کریں۔
اگر آپ اسے ریاست کی ملکیت قرار دیتے ہیں، تو آگے بڑھنے سے قبل اس پر سوچیے کہ ریاست کیا ہے؟ ایک فرضی شخص؟ کیا اسلامی قانون کی رو سے فرضی شخص کا تصور قابلِ قبول ہے بھی، یا ویسے ہی آپ نے فرض کر لیا ہے کہ چونکہ یہ تصور رائج ہے تو بس جائز ہے؟ کیا اسلامی قانون کی رو سے ایسی زمین جو کسی حقیقی فرد کی ملکیت میں نہ ہو، ریاست نام کے فرضی شخص کی ملکیت میں شامل سمجھی جاتی ہے، یا اسے ”مباحات“ میں شمار کیا جاتا ہے، اور کیا ”مباح مال“ پر قبضے کو ”غصب“ کہا جاتا ہے؟
چلیں، ان مشکل سوالات سے جان چھڑانے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ اسلامی قانون کی رو سے فرضی شخص کا تصور قابلِ قبول ہے۔ لیکن یہیں سے تو وہ سوال اٹھا جو اوپر پہلے سوال کے طور پر ذکر ہوا ہے: حقیقی فرد (انسان) کی ملکیت اور فرضی شخص (ریاست) کی ملکیت کو یکساں کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہ سوال بھی مشکل ہے تو چلیں اس سے بھی جان چھڑانے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ دونوں کی ملکیت یکساں ہے اور مان لیتے ہیں کہ جس نے ریاست نامی فرضی شخص کی ملکیت پر اس کی اجازت کے بغیر قبضہ کیا، اس نے غلط کیا۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مالِ غیر منقول کو ”غصب“ کیا جا سکتا ہے؟ لیکن اس مشکل سوال کو بھی پیپر سے نکال لیتے ہیں کیونکہ پھر ’دانشور‘ احتجاج کریں گے۔ چنانچہ ہم اس پہلے سوال کے جواب میں فرض کر لیتے ہیں کہ ریاست کی زمین غصب کر لی گئی ہے اور ریاست کو حق ہے کہ غاصب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
اب یہاں سے وہ دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے جو اوپر ذکر کیا گیا: جب آپ حقیقی فرد اور فرضی شخص کی ملکیت کو یکساں مانتے ہیں، تو اگر کسی حقیقی فرد کی ملکیت پر کسی اور نے مالکانہ تصرف کیا اور مالک عشروں تک خاموش رہا، تو کیا بعد میں وہ عدالت میں دعویٰ دائر کر سکتا ہے؟ واضح رہے کہ یہاں بات اس کی نہیں ہو رہی کہ کیا مالک کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیت میں تصرف کرنے والا اس مال کا مالک بن جاتا ہے، بلکہ اس کی ہو رہی ہے کہ کیا مالک کے پاس عدالتی چارہ جوئی کا حق ہے؟ یہاں اصل میں بات قانونِ تحدید میعادِ سماعت (Limitation Act) کی ہو رہی ہے۔
اب اگر آپ حقیقی فرد اور فرضی شخص کی ملکیت کو یکساں مانتے ہیں، تو اس سوال کا جواب واضح طور پر نفی میں ہے لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ریاست کے پاس چارہ جوئی کا حق ہے، تو آپ فرضی شخص کی ملکیت کو حقیقی فرد کی ملکیت سے زیادہ اہم اور زیادہ مقدس مانتے ہیں۔
گویا پہلے آپ نے ایک فرضی شخص گھڑا، پھر اس فرضی شخص کے لیے ملکیت فرض کی، پھر اس ملکیت کو حقیقی شخص کی ملکیت پر فوقیت بھی دے دی!
چلیں، بحث کی خاطر ہم آپ کے ساتھ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ریاست نامی فرضی شخص کی ملکیت کو حقیقی فرد کی ملکیت پر فوقیت حاصل ہے اور اس وجہ سے قانونِ تحدیدِ سماعت کا اطلاق ریاستی املاک پر نہیں ہوتا اور یہ کہ ریاست جب چاہے دعویٰ دائر کر سکتی ہے، خواہ اس دوران میں وہ 40 سال تک خاموش رہی ہو۔
لیکن یہیں سے تو اوپر ذکر کردہ تیسرا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے: کیا ریاست نے دعویٰ کیا بھی ہے کہ اس کی ملکیت پر کسی اور نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے؟ اس وقت تو آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک محکمے کا موقف یہ ہے کہ اس مسجد کی تعمیر غیر قانونی تھی۔
اگر گھوم پھر کر بالآخر آپ اصل مسئلے تک پہنچ ہی گئے ہیں، تو یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”ریاست“ کی جانب سے دعوے کا اختیار کس کے پاس ہے اور دعوے کے بعد مدعی اور دوسرے فریق کا موقف سننے اور پھر فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ کیا یہاں صرف سرکاری رپورٹس پر انحصار کرنا کافی تھا یا دوسرے لوگوں کو بھی سننا چاہیے تھا، بالخصوص ان کو جن کے متعلق آپ کا الزام ہے کہ انھوں نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے؟ اور کیا فیصلے کا اختیار اسی محکمے کے پاس ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کام غیر قانونی تھا؟ اور اگر یہ غیر قانونی تھا، تو اس غیر قانونی کام کو روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟ کیا اسی محکمے کی؟ تو اس محکمے نے ان افراد کے خلاف کیا کارروائی کی جو اس غیر قانونی کام کو نہیں روک سکے اور کئی عشروں تک انھوں نے اس سے صرفِ نظر کیے رکھا؟
سوالات تو اور بھی ہیں، جیسے کسی مسجد کا شارعِ عام میں رکاوٹ بننے کی صورت وہاں سے ہٹا دینا اور کسی مسجد کو ہٹا کر اس کی جگہ درخت لگانا، کیا ایک ہی نوعیت کے کام ہیں؟ یا یہ کہ اس محکمے کی نظر صرف مسجدوں پر ہی کیوں پڑی ہے اور اسے شاہراہِ دستور اور اس کے ارد گرد بلند و بالا اور وسیع و عریض غیر قانونی عمارات کیوں نظر نہیں آرہیں؟ لیکن ان پر بحث اگلے مرحلے میں ہوگی، ان شاء اللہ۔
facebook.com/share/p/19GUNGnjYK
مسجد گرانے کے متعلق سوالات کی مزید توضیح
کل مسجد گرانے کے حکم نامے کے پس منظر میں چند سوالات اٹھائے تھے لیکن بعد کی بحث سے معلوم ہوا کہ وہ سوالات بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکے۔ اس لیے ایک دفعہ پھر ان سوالات کی توضیح کر رہا ہوں تاکہ ان کے ذریعے جن امور کی طرف توجہ دلانی مقصود تھی، وہ امور سامنے آجائیں۔
سوالات یہ تھے:
- حقیقی فرد (انسان) کی ملکیت اور فرضی شخص (ریاست) کی ملکیت کو یکساں کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
- اگر کسی حقیقی فرد کی ملکیت پر کسی اور نے مالکانہ تصرف کیا اور عشروں تک وہ خاموش رہا، تو کیا بعد میں وہ عدالت میں دعویٰ دائر کرسکتا ہے؟
- کیا ریاست نے دعویٰ کیا بھی ہے؟
پہلے سوال کے اصل مخاطب وہ علماے کرام تھے جنھوں نے فرضی شخصیت (Fictitious Personality) کے جواز کا فتوی دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ تصور اسلامی اصولوں کی رو سے جائز ہے، بلکہ اسلامی تراث میں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ انھی علماے کرام کو مخاطب کر کے یہ سوال قائم کیا گیا تھا تاکہ انھیں معلوم ہو کہ فرضی شخصیت ماننے کے بعد کون سے نتائج ماننے لازمی ہیں؟ ان نتائج میں ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ پھر ”سب کی مشترک ملکیت“ اور ”مباحات کی ملکیت“ جیسے تصورات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جب آپ نے فرض کر لیا کہ ریاست ایک شخص ہے تو اس فرضی شخص کی ملکیت کو وہی قانونی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے جو کسی حقیقی شخص کی ملکیت کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ مان لیا تو پھر یہ بھی ماننا ہوگا کہ اس فرضی شخص کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف اسی طرح ناجائز ہے، جیسے کسی حقیقی شخص کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف ناجائز ہوتا ہے۔ یہ بھی مان لیا، تو پھر یہ بھی ماننا ہوگا کہ ریاست کی اجازت کے بغیر ریاستی ملکیت میں شامل زمین پر قبضہ کرنا غلط ہے، خواہ یہ قبضہ مسجد کی تعمیر کے لیے کیا جائے۔
اس کے بعد دوسرا سوال اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ بتایا جا سکے کہ معاصر قانونی نظام میں نہ صرف یہ کہ ریاست نامی فرضی شخص کو ملکیت کا حق اسی طرح دیا گیا ہے جیسے کسی حقیقی شخص کے لیے تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ اس نظام میں اس فرضی شخص کی ملکیت کو حقیقی شخص کی ملکیت سے زیادہ تقدس عطا کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے اسے زیادہ تحفظ حاصل ہے۔ چنانچہ مثلا اس ملکیت پر قانونِ تحدیدِ سماعت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ ریاست جب چاہے دعویٰ دائر کر سکتی ہے، خواہ اس دوران میں وہ 40 سال تک خاموش رہی ہو۔
یہیں سے تیسرا سوال پیدا ہوا تھا کہ چلیں، ریاست کسی بھی وقت دعویٰ کر سکتی ہے لیکن کیا موجودہ معاملے میں وہ مدعی ہے بھی؟ اس کے بعد میں نے واضح کیا تھا کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے، لیکن اگر آپ سی ڈی اے کی رپورٹ کو ریاست کی جانب سے دعویٰ قرار بھی دیں، تو اس کے بعد وہ نیا سوال پیدا ہوتا ہے جو میں نے مضمون کے آخر میں ذکر کیا تھا لیکن کچھ معلوم اور بہت سی نامعلوم وجوہات کی بنا پر ناقدین نے اس سوال پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ وہ سوال یہ تھا: ”کیا یہاں صرف سرکاری رپورٹس پر انحصار کرنا کافی تھا یا دوسرے لوگوں کو بھی سننا چاہیے تھا، بالخصوص ان کو جن کے متعلق آپ کا الزام ہے کہ انھوں نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے؟ اور کیا فیصلے کا اختیار اسی محکمے کے پاس ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کام غیر قانونی تھا؟ اور اگر یہ غیر قانونی تھا، تو اس غیر قانونی کام کو روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟ کیا اسی محکمے کی؟ تو اس محکمے نے ان افراد کے خلاف کیا کارروائی کی جو اس غیر قانونی کام کو نہیں روک سکے اور کئی عشروں تک انھوں نے اس سے صرفِ نظر کیے رکھا؟ “
مجھے حیرت ہے کہ اس پہلو پر بھی ناقدین کی توجہ کیوں نہیں ہو سکی؟ (اس حیرت کو بے شک آپ تجاہلِ عارفانہ کہہ دیں۔)
تو ناقدین کی آسانی کے لیے میں صورتِ مسئلہ آسان کر کے یوں پیش کر دیتا ہوں:
- مان لیا کہ ریاست نامی فرضی شخص کو ملکیت کا حق حاصل ہے؛
- مان لیا کہ ریاست نامی فرضی شخص کی ملکیت کسی حقیقی شخص کی ملکیت سے زیادہ مقدس اورمحفوظ ہے اور اس وجہ سے اس پر قانونِ تحدیدِ سماعت کا اطلاق بھی نہیں ہوتا؛
- مان لیا کہ ریاست نے اپنی ملکیت پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف دعویٰ بھی کیا ہے؛
لیکن یہ سب کچھ ماننے کے بعد سوال یہ ہے کہ دوسرے فریق کو پوری طرح سنے بغیر، جس پر غاصبانہ قبضے کا دعویٰ ہے، کیا مدعی خود ہی اپنے حق میں فیصلہ کرنے کا مُجاز تھا؟ سی ڈی اے کی کارروائی کو غلط قرار دینے کے لیے تنہا یہی سوال کافی ہے، اگرچہ پچھلے مضمون کے آخر میں اس سوال کا بھی اضافہ کیا گیا تھا: ”کسی مسجد کا شارعِ عام میں رکاوٹ بننے کی صورت وہاں سے ہٹا دینا اور کسی مسجد کو ہٹا کر درخت لگانا، کیا ایک ہی نوعیت کے کام ہیں؟“ یہ سوال اس لیے ضروری تھا کہ ناقدین اسلامی شریعت کا ناقص ہی سہی حوالہ دے رہے ہیں، تو پھر بات پوری کیوں نہ کی جائے؟
اب جب نیا مضمون لکھ ہی لیا ہے، تو ایک سوال کا مزید بھی اضافہ ہو جائے۔
جن معاصر علماے کرام نے قرار دیا ہے کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں نہ صرف فرضی شخص کا تصور جائز ہے بلکہ اس کی مثالیں بھی اسلامی قانون میں ملتی ہیں، ان کے نزدیک مسجد، بلکہ وسیع مفہوم میں وقف، بھی فرضی شخص ہے۔ چنانچہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک فرضی شخص ایک اور فرضی شخص کی ملکیت پر اس کی اجازت کے بغیر قبضہ کر لے، تو اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے گا؟ کیا بڑا فرضی شخص (ریاست) چھوٹے فرضی شخص (مسجد) کو قتل کر لے گا؟
نوٹ: جو لوگ مسجد گرانے کے لیے ”شہید کرنے“ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، یہ محض شاعرانہ استعارہ ہے۔ اس کا قانون کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن مسجد یا ریاست کو شخص ماننا محض شاعرانہ استعارہ نہیں، بلکہ قانونی اصول ہے اور اس کے قانونی اثرات ہوتے ہیں۔ کاش کوئی سمجھے!
facebook.com/share/p/1LnT8L7im7
ریاست کی ملکیت نہیں، تو لٹ ہی مچ جائے گی؟
ایک تو ہمارے اہلِ دانش کا بھی عجیب مسئلہ ہے۔ جس صندوق میں ان کے ذہنوں کو اغیار نے بند کردیا ہے، اس سے باہر نکل کر سوچنا ان کےلیے ناممکن ہوگیا ہے۔
تازہ مثال مسجد کے انہدام کی ہے، وہ مسجد جس کے متعلق ان کا دعویٰ تھا کہ یہ قبضہ شدہ زمین پر تعمیر کی گئی تھی۔
ان سے پوچھا کہ قبضہ شدہ زمین کیسے آپ کہہ سکتے ہیں، کیا یہ زمین کسی کی ملکیت تھی؟
جواب ملا، ریاست کی ملکیت تھی۔
پوچھا، کیا ریاست بھی مالک ہوسکتی ہے؟
کہا، ہاں، کیوں نہیں؟
پوچھا، کیا ریاست شخص ہے؟
کہا، ہاں، کیوں نہیں؟
پوچھا، کیا اسلامی شریعت میں ایسے فرضی شخص کا کوئی تصور پایا جاتا ہے؟
اب کے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، اور پنجے جھاڑ کر، جھپٹ پڑے: ریاست کی ملکیت کا انکار کریں گے، تو لٹ ہی مچ جائے گی، پھر تو ہر کوئی اپنی مرضی سے یہ کرے گا، وہ کرے گا، پھر تو تاجروں اور دکانداروں کی "تجاوزات" بھی جائز ہوجائیں گی، وغیرہ وغیرہ۔
یہ اہلِ دانش ایسا کہتے ہوئے ایک لمحے کےلیے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جس قیامت کا منظر آپ پیش کررہے ہیں، وہ قیامت آخر کیوں آئے گی؟ ریاست کےلیے فرضی شخصیت اور اس فرضی شخصیت کےلیے حقِ ملکیت مانے بغیر صدیوں تک آپ کا نظام کیسے چلتا رہا؟ اب کیوں نہیں چل سکتا؟ مجال ہے کہ یہ اہلِ دانش آقاؤں کے دیے گئے صندوق سے باہر نکل سوچنے کی جرات کرسکیں۔
بہرحال، جو لوگ سمجھنا چاہتے ہیں، ان کےلیے مختصر اشارات پیش ہیں:
ایک یہ کہ جو زمین کسی کی ملکیت نہیں، وہ "مباحات" میں ہے۔ ان مباحات پر جس نے پہلے تسلط حاصل کیا، یہ اس کی ہوجائیں گی، لیکن حکومت عوام کے وکیل اور ولی کی حیثیت سے ان مباحات کے استعمال کو مقید کرسکتی ہے اور اس مقصد کےلیے باقاعدہ قانون سازی کرسکتی ہے جس کی پابندی حکومت سمیت سب پر لازم ہوگی، بشرطے کہ اس قانون میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو شریعت سے متصادم ہو۔
اگر حکومت نے ایسی کوئی قانون سازی کی جس کے ذریعے مباحات میں شامل زمینوں کو اپنے تسلط میں لے لیا، تو وہ ریاست نامی فرضی شخص کی ملکیت میں نہیں ہوں گی، بلکہ تمام لوگوں کی مشترک ملکیت میں ہوں گی۔ اس سے نتائج پر کیا قانونی اثرات مرتب ہوں گے، ان پر خود ہی غور کیجیے۔
یہ امر البتہ طے شدہ ہے کہ جو احکام فرد کی ملکیت کےلیے ہیں، وہی احکام تمام لوگوں کی ایسی مشترک ملکیت کےلیے بھی ہوں گے اور "ریاست نامی شخص" کو اختصاصی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔
اگر حکومت نے قانون سازی کے ذریعے ایسی زمینوں کو مشترک ملکیت قرار نہیں دیا، تو یہ مباحات کے حکم میں ہی رہیں گی اور ان کےلیے وہی حکم ہوگا جو اوپر مباحات کےلیے ذکر کیا گیا۔
تاہم حکومت ایک درمیانی راہ بھی نکال سکتی ہے، اور وہ یہ کہ ان کو اپنے تسلط میں لیے بغیر، انھیں مباحات کے دائرے میں چھوڑتے ہوئے، ان کے استعمال کے حق پر اسلامی شریعت کی حدود کے اندر کچھ قیود لگا دے۔ اس پہلو پر یہ اہلِ دانش غور کریں، تو ان کے چودہ طبق روشن ہوسکتے ہیں۔