’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیرمطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘

(’’اکبر بنام اقبال‘‘ سے منتخب خطوط)

۲۷ مارچ ۱۹۱۲ء

الٰہ آباد ۲۷ مارچ ۱۲ء

عزیز مکرم، سلمہ اللہ تعالیٰ!

میں نے اس سے پہلے آپ کو ایک نیاز نامہ لکھا ہے۔ یاد نہیں کہ [کیا خیالات] ظاہر کیے تھے۔ امید ہے کہ کوئی غلط فہمی نہ ہوئی ہو۔ بلحاظ حالات موجودہ میں خیال کرتا ہوں کہ اب آپ کے حدِ امکان میں باہمی مصالحت نہ رہی۔ بہ ہر کیف دعا ہے کہ خدا اپنا فضل کرے۔ ذاتی کدوکاوش سے گزر کر اس ہنگامے نے ایک وہ بحث پیدا کر دی ہے جو مسلمانوں کی گزشتہ پالیسی کے ترک سے متعلق ہے۔ اور جس کی نسبت بڑے بڑے دماغ حرکت میں آئے ہیں۔ اگر زمانے نے کوئی نہایت غیر معمولی اور شدید انقلاب نہ پیدا کر دیا تو مغربی دانشمندانہ اور خاموش لیکن نہایت زبردست اور با اثر پالیسی بتدریج اس مذاق ہی سے ہم کو بے گانہ کر دے گی۔ لوکل معاملات اور پراونشل بجٹ پر نظر رہ جائے گی۔ غریب غربا پیٹ کے دھندے میں لگے رہیں گے۔ لیکن ابھی تو ہسٹری اور لٹریچر کی جھلک سامنے ہے اور جب تک یہ ہے زندگی سوہانِ روح ہے۔

میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تصادم دونوں صاحبوں کو دانشمند تر بنا دے گا۔ بنانا چاہیے۔ نہ بنیں تو افسوس ہے۔ لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اٰذان لا یسمعون بھا ۱۳۷۔

اللہ کوئی ایسی جماعت ہم میں پیدا کر دے جو اللہ ہی کے واسطے آپس میں محبت رکھیں اور جن کا مقصود یہ ہو کہ ذوق و شوق سے اللہ کو یاد کرتے رہیں۔

اپنی خیریت سے مطلع فرمائیے

نیازمند

اکبر حسین

۱۷ دسمبر ۱۹۱۶ء

الٰہ آباد ۱۷ دسمبر ۱۹۱۶ء

مکرمی، السلام علیکم!

کل ملک محمد دین صاحب۲۲۹ منیجر ریاست کرنال مجھ سے ملے۔ غالباً‌ یہ وہی بزرگ ہیں جن کی نسبت آپ نے مجھ کو تحریر فرمایا تھا۔ میں اُن سے مل کر بہت خوش ہوا۔ گریجوایٹ ہیں۔ باوجود اس کے مذاق مذہبی سے اُن کا دل لبریز ہے۔ بہت خوش عقیدہ ہیں۔ آپ کی بہت مدح کرتے تھے اور مجھ کو شگفتگی ہوتی تھی۔ فرماتے تھے کہ اقبال کو قرآن پڑھتے اور زار زار روتے دیکھا۔ منشاء مثنوی یہ ہے کہ مسلمان اپنی ابتدائی اور اصلی حالت پر رجوع کریں۔ سبحان اللہ! سچ یہ ہے کہ صرف تفصیل ہی کرنے میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ خدا کرے آپ سے ملاقات ہو سکے۔ مرا حال تو مرے اس شعر سے ظاہر ہوگا۲۷۰:

جان مردہ ہے، بدن افسردہ ہے مانندِ خاک
میں رہا ہوں گا کبھی، لیکن اب اپنی قبر ہوں

اپنی خیریت لکھیے۔

خاکسار دعا گو

اکبر حسین

۷ا مئی ۱۹۱۷ء

الٰہ آباد ۷ا مئی ۱۹۱۷ء

مکرمی، زاد لطفہ! آپ کے اشعار کی لذت اب تک لے رہا ہوں۲۹۲۔

؏ عشق ہے مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

ایک جہانِ معنی اس مصرعے کے اندر آباد ہے۔

اپنے والد ماجد صاحب کی خدمت میں مرا سلام شوق عرض کر دیجیے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو مدتِ دراز تک زندہ رکھے۔

عشرت سلمہ نے کل میرا ایک مطلع بہت پسند کیا۔ سرسری طور پر کہہ دیا تھا۲۹۳۔

زباں سے دل میں صوفی ہی خدا کا نام لایا ہے
یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لایا ہے

غنیمت ہے کہ عشرت کو مذاقِ تصوف ہے۔

بحث کی کوئی حد نہیں۔ الفاظ بے شمار ہیں۔ خیالات کے پہلو لاتعد و لاتحصیٰ۲۹۴ ہیں جس کے ذہن میں کافی قوت ہوئی اُس نے ایک سسٹم بنا لیا۔ حقیقت وہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں۔ ’’الصوفی لا مذہب لہ‘‘۲۹۵۔ میں اس کی تصدیق کروں گا۔ لیکن مذہب کی تعریف و تشریح کروں گا۔ بہ ہر حال اللہ پر نظر اور خودداری بڑی نعمت ہے۔ خدا جس کو نقیب (کذا، نصیب) کرے۔ آپ کو یہ نعمت عطا ہوئی ہے۔

یہاں میں اسلامی سوسائٹی میں نہایت غفلت اور ابتری پاتا ہوں۔ نہ علما کے شاگرد نہ مشائخ کے مرید۔ پھر کیا ہوگا۔ غور کیجیے۔ شیعہ کا مرکز مجتہدین سے قائم تھا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ وہ برائے نام رہ جائیں گے۔ پروفیسر مرکز بن جائیں گے۔

اکبر حسین

۲۵ جنوری ۱۹۱۸ء

الٰہ آباد ۲۵ جنوری ۱۹۱۸ء

ڈیر ڈاکٹر صاحب، سلمہ اللہ تعالیٰ! مجھ سے تو وہ صاحب بہ وثوق بیان فرماتے تھے کہ پندرہ سو کی منظوری ہو گئی۔ اور آپ دکن جا رہے ہیں ۔ پندرہ سو نہ سہی۔ ہزار بارہ سو بھی منظوری کے لائق ہے۔ میں خوش ہوں گا اگر آپ کو یہ تعلق ہو جائے۴۰۵۔ زر کا فائدہ ہے لیکن اصلی بات یہ ہے کہ آپ ایک شغل میں مشغول ہو جائیں۔ اور آپ کے علم و حکمت کا صَرف صحیح ہو سکے۔

میں تو خوش ہوا کہ ظفر علی خاں صاحب نے اڈیٹری کی کشمکش سے نجات پائی۔ اور خدمتِ سابقہ پر بحال ہو گئے۴۰۶۔

آدمی خود خوش نہیں رہتا تو مشکل ہے کہ اوروں کو خوش رکھ سکے۔ بڑی مصیبتوں کا کام ہے کہ باوجود مغموم ہونے کے فراغِ خاطر و سکونِ طبع حاصل رہے۔ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں۴۰۷۔ اس کے سوا آپ کی عمر، آپ کی ضرورتیں، ان کا اقتضا نیچرل ہے۔ بہ ہر حال اگر وہاں متعلق ہو جائیے۔ نہایت خوشی۔ شکرِ خدا۔ اگر نہ ہو یا کوئی امر آپ کو اعراض پر مجبور کرے۔ جب بھی شکرِ خدا۔ اقبال بہ ہر حال اقبال ہیں۔

لسانُ العصر آپ نے بنا رکھا ہے۔ لیکن میں بنا نہیں۔ آپ لسان القدم ہو جائیں گے۔ وقت گزرنے دیجیے۔ ’’لترکبن طبقًا عن طبق‘‘۴۰۸

اکبر حسین

۱۶ مارچ ۱۹۲۰ء

الٰہ آباد ۱۶ مارچ ۱۹۲۰ء

برادرم! نظموں کی فرمائشوں پر مجھے طویل معذرت کرنا پڑتی تھی۔ پرسوں ایک امرتسری بزرگ جو امراؤتی ملک برار میں کہیں ہیڈ ماسٹر ہیں مجھ سے ملنے آئے تھے انھوں نے فرمایا کہ ڈاکٹر اقبال صاحب نے ایک موقع پر کہہ دیا تھا۵۵۶۔

I am not a poet to order

میں نہایت خوش ہوا۔ بہت مختصر فقرہ ہاتھ آیا۔ اطلاعاً لکھتا ہوں۔

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں۔ اس مہینے کی جنون انگیز ہوا کا سامنا اور یادِ رفتگاں کچھ نہ پوچھیے دل پر کیا گزرتی ہے۔ آئے دن کی علالت الگ۔

دعا گوئے شما

اکبر

زمانے کا عجیب رنگ ہے۵۵۷ ؎

گائے کا تو بھائی گاندھی نے کیا کچھ بندوبست
شیخ جی کا اونٹ کس کل بیٹھتا ہے دیکھیے

۱۸ اپریل ۱۹۲۰ء

الٰہ آباد ۱۸ اپریل ۱۹۲۰ء

قدر افزائے اکبر، سلمہ اللہ تعالیٰ! میرے خط کا جواب نہیں آیا۔ جس میں ’’کعبے کو پھر شریف نے بت خانہ کر دیا‘‘۵۵۸ پر داد دی گئی تھی۔

بڑا انقلاب سامنے ہے۔ اللہ فضل کرے۔ آپ سکرٹری ہوئے ہیں۔ خدا مبارک کرے۵۵۹۔ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ ملت پر شفقت اور درگزر کی نظر رہے۔ بمرور ایام طرح طرح کے طریقے نکل آئے ہیں۔ مناسب و ملائم نصیحت کے ساتھ چلنے دیجیے۔ حریفوں ہی کے مقابلے میں حفظِ ایمان کی فکر ضروری ہے۔ طریقِ تعلیم کی اصلاح فرض ہے۔ قناعت کا سبق ضروری ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ ممدوح انام ہیں۔ آپ کے دوست حضرتِ ظفر ہیں۔ امید ہے کہ وہ بھی حلم سے کام لیں۔

میں پرتاب گڑھ گیا تھا۔ لکھنؤ کا ارادہ تھا۔ ضعف و ناتندرستی سے نہ جا سکا۔ معلوم نہیں زندگی کس وقت ختم ہو جائے۔ آپ کی محبت اور دعا سے دلی قوت کی امید ہے۔

نیازمند

اکبر


ماجد صاحب مصنف فلسفہ جذبات مجھ سے ملنے پرتاب گڑھ آئے تھے۔ ہنوز وہ نماز و دعا تک نہیں پہنچے۔ ہندو فلسفہ دیکھ رہے ہیں۵۶۰۔




(’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیر مطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘۔ ناشر: ادارہ تالیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی، قائد اعظم کیمپس، لاہور۔ بار اول: ۲۰۲۴ء۔ zahidmuniramir@gmail.com)



(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۹

مدنی مسجد اسلام آباد کا معاملہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

مسجد گرانے کے متعلق چند اہم اصولی سوالات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اکیسویں صدی میں تصوف کی معنویت اور امکانات
مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

خطبہ حجۃ الوداع اغیار کی نظر میں
مولانا حافظ واجد معاویہ

شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

خادمۂ رسول ؐحضرت امِ رافع سلمٰیؓ
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتائج
مولانا مفتی عبد الرحیم

خواتین کا مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

خطبہ، تقریر اور نمازِ جمعہ میں لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال
مفتی سید انور شاہ

کُل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینار: اعلامیہ، سفارشات، قراردادیں
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان

غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ: فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

East and West: Different Futures for Different Pasts
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۳)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۴)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۷)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

بونیر میں امدادی سرگرمیاں اور مدارس کے طلباء
مولانا مفتی فضل غفور
مولانا عبد الرؤف محمدی

اسلام ایک عالمی مذہب کیسے بنا؟
ایپک ہسٹری

پاکستان اور عالمِ اسلام: فکری و عملی رکاوٹیں کیا ہیں؟
عبد اللہ الاندلسی
پال ولیمز

ردِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت
محسن نواز

غزہ کو بھوکا مارنے کے اسرائیلی اقدامات کو کیسے روکا جائے؟
الجزیرہ

گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کی جانب انسانی ہمدردی کا سمندری سفر
ادارہ الشریعہ

صمود (استقامت) فلوٹیلا میں پاکستان کی نمائندگی
مولانا عبد الرؤف محمدی

فلسطینی ریاست کی ممکنہ تسلیم کا برطانوی فیصلہ اور اس کی مخالفت
ادارہ الشریعہ

فلسطین کے متعلق آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کا بدلتا ہوا رجحان: ایک مذاکرہ کی روئیداد
اے بی سی نیوز آسٹریلیا

’’سیرتِ مصطفیٰ ﷺ (۱)‘‘
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
مولانا ڈاکٹر حافظ ملک محمد سلیم عثمانی

’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ : تاریخی ترتیب سے‘‘
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمٰن

’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیرمطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘
ڈاکٹر زاہد منیر عامر

’’فہمِ اقبال — کلامِ اقبال کا موضوعاتی انتخاب‘‘
رانا محمد اعظم

مطبوعات

شماریات

Flag Counter