ردِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت

ایک دفعہ سقراط اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لیے ایک بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک شخص نے اچانک راستہ روک کر اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ سقراط نے اس کی طرف دیکھا، مسکرایا اور آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ جب سقراط آگے بڑھا تو اس شخص نے پیچھے سے گالیاں دینی شروع کر دیں، بہت بدزبانی کرنی شروع کر دی، لیکن سقراط چلتا رہا۔

جب کافی دور تک آگے چلے گئے تو شاگرد نے پوچھا کہ وہ آپ کو گالیاں دے رہا تھا، بہت برا بھلا کہہ رہا تھا، آپ مسکرا کر آگے چلتے گئے، تو آپ نے کوئی جواب نہیں دیا؟ اچھا، اس بات کا بھی سقراط نے کوئی جواب نہیں دیا اور شاگرد کو اپنے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا، وہ اپنے گھر لے گیا، اور سقراط نے اپنے سٹوڈنٹ کو کہا کہ بس میں دو منٹ میں آیا۔ اندر سے سقراط نے میلے کچیلے کپڑے اور ایک بہت ہی میلا سا تولیہ باہر لا کر اس اپنے شاگرد کو تھمایا اور کہا کہ تم اپنے کپڑے بدل لو، نہا لو، اس تولیے سے اپنا جسم پونچھنا اور یہ کپڑے پہن لینا۔

ان کپڑوں سے اور تولیے سے بہت ہی بری بدبو آرہی تھی، بہت ہی گندے تھے۔ اس سٹوڈنٹ نے اپنی ناک کو بند کیا اور ان کپڑوں کو اور تولیے کو دور پھینک دیا، اور کہنے لگا کہ یہ بات تو مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی کہ میں انہیں کیوں پہنوں؟ یہ تو پہلے ہی بڑے میلے کچیلے ہیں، اور میرے تو بڑے صاف ستھرے سے کپڑے ہیں۔

سقراط نے کہا کہ بس یہی ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے صاف ستھرے، اجلے مزاج، اجلے رویے، صاف ستھرے اور ایک چمکتے ہوئے روحانی state (کیفیت) کے ساتھ ہوتے ہیں تو کوئی دوسرا آتا ہے پراگندہ خیال، کوئی ایسا شخص جس کے اندر جذبات کی بو ہوتی ہے، ناخوشگوار تجربات کی گندگی سے وہ بھرا ہوتا ہے اور وہ آپ پر اپنی وہ گندگی انڈیلنا چاہتا ہے، آپ کو بھی اپنی طرح خراب کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم اس وقت اس کی باتوں میں آ جائیں، اگر ہم اس کی بات کا اثر لے لیں، تو ہم بھی اسی کی طرح گندے ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا کسی کو، جو کہ غصے میں ہو، negative thoughts (منفی خیالات) کے ساتھ ہو، جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ آپ کو اپنے جیسا کرنا چاہے گا۔ لیکن آپ کا اس جیسا ہو جانا بنتا نہیں ہے کیونکہ آپ تو اجلی شخصیت کے مالک ہیں نا۔ تو آپ نے اپنے جذبات کو کسی کے ہاتھ کا کھلونا نہیں بننے دینا۔ آپ نے یہ نہیں کرنا کہ کوئی بھی آپ کے پاس سے گزرے، آپ کے جذبات میں ہلچل مچا دے، اور آپ اس مچلی ہوئی ہلچل کو بعد میں ڈسکس کرتے رہیں، پہلے سوچتے رہیں پھر دوسروں کو بتاتے رہیں، وہ تو آپ کو برا بھی بنا گیا، جذبات بھی خراب کر گیا، آپ کا ٹائم بھی capture کر گیا اور آپ کے گزر جانے کے باوجود آپ کی سوچوں پر اس نے قبضہ سا کر لیا ہے۔

چنانچہ کبھی بھی دوسروں کے ہاتھ میں اپنے جذبات نہ دیں، کوئی دوسرا برے جذبات کے ساتھ ہے، اپنے آپ کو بچانا ہے۔ کوئی دوسرا منفی خیالات کے ساتھ ہے، اپنے آپ کو اس کے منفی خیالات کی لہروں سے خراب نہیں ہونے دینا۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ آپ کو اپنے جذبات کی ماسٹری عطا کر دے، اور آپ اپنے جذبات کو اس درجہ بہترین انداز سے چینللائز کرنا اور استعمال کرنا سیکھ جائیں کہ جدھر جائیں جس سے ملیں جس سے بات کریں اس پر آپ کی شخصیت کا بہت اچھا پیارا سا influence ہو۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔

www.facebook.com

کوئی ایگریسولی، اونچی ٹون میں، لاؤڈر سکیل پر بات کرتا ہے تو دوسرے اس کی بات کو حق مان لیتے ہیں۔ دیکھیں اس کی اگر ہم ریزنز پر بات کریں، تو جو کسی کا کانفیڈنس سے بات کرنا ہے نا، ہم کانفیڈنس کو بھی سچائی سے کنفیوژ کرتے ہیں۔ اس کے کانفیڈنس کی وجہ سے ہمیں یہ لگنے لگتا ہے کہ یہ جو اتنے کانفیڈنس سے اونچا ہو کر بول رہا ہے تو سچ ہی کہہ رہا ہو گا۔

اچھا، کئی دفعہ ہم کسی خوف کی وجہ سے اس کی بات کو سچ مان لیتے ہیں۔ کیونکہ ہم تمام انسانوں کو یہ خدشہ ہوتا ہے یا خوف ہوتا ہے کہ اگر اُس کا رخ ہماری طرف ہو گیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں بھی روند دے۔ تو یہ بھی ایک اس کے پیچھے ریزن ہے۔ کئی دفعہ اس کی طرف سے اتھارٹی ہونا، اس کی کسی پوزیشن کا ہونا، یہ بھی ہمیں مجبور سا کر دیتا ہے کہ ہم اس کی غلط بات کو بھی بجا سمجھنے لگیں اور مان لیں۔

اچھا، اسی طرح سے ہمارے دماغ کا ایسا سسٹم ہے کہ ہم جب کسی کے پریشر سے اوورلوڈ ہوتے ہیں تو ہم جلدی سے اس کو فکس کرنا چاہتے ہیں، اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ انسان زیادہ دیر تک اس طرح کی کیفیت کو سہہ نہیں پاتا، چنانچہ وہ اس سے نکلنا چاہتا ہے۔

میری دانست میں اس میں آپ کا calm رہنا، آپ کا بالکل اطمینان سے، اس کی ٹون سے اپنی ٹون کا نہ ملانا، سب سے پہلا ٹول تو یہ ہو گا۔ اگر کوئی دوسرا agressive ہے، اگر آپ بھی ایگریسو ٹون میں چلے جائیں گے تو کانفلکٹ بڑھے گا۔ آپ نے جلتی پر تیل ڈال دیا۔ چنانچہ آپ کو یہ کرنا ہے کہ آپ کو اپنی ٹون کی ذمہ داری خود رکھنی ہے۔ آپ نے اس سے اپنی ٹون کو میچ نہیں ہونے دینا۔

اچھا، پھر اس پر بہت ممکن ہے کہ اس کی انڈرسٹینڈنگ، کسی وجہ سے اس کا بلڈ فلو اس وقت ایموشنل برین کی طرف ہو، جس کی وجہ سے اس کا لاجیکل برین اتنا کام ہی نہ کر رہا ہو۔ اس کو بیدار کرنے کے لیے، اگر وہ آپ سے کوئی براہ راست تعلق رکھتا ہے، کوئی فیملی ممبر ہے یا کوئی کولیگ ہے یا فیلو ہے، تو اس کے ساتھ آپ کو جو چیز مدد دے گی وہ questioning ہے۔ بہت اچھے طریقے سے کیے ہوئے سوالات جو کہ دراصل اس کی توجہ مبذول کروا رہے ہوں گے اس جانب کہ جو وہ بات کہہ رہا ہے اس میں لاجک کہاں ہے؟ تو جب آپ لاجک کی طرف اس کی بات کا رخ موڑیں گے تو آہستہ آہستہ تھوڑی دیر میں بلڈ فلو ایموشنل برین سے نکل کر لاجیکل برین کی طرف جائے گا، اور لاجکس آن ہونے لگیں گی۔

لہٰذا آپ نے جوابی طور پر وہی انداز نہیں اپنانا ایگریسو بندے کے ساتھ، جو اس نے اپنا رکھا ہے۔

www.facebook.com


اصلاح و تربیت

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۹

مدنی مسجد اسلام آباد کا معاملہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

مسجد گرانے کے متعلق چند اہم اصولی سوالات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اکیسویں صدی میں تصوف کی معنویت اور امکانات
مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

خطبہ حجۃ الوداع اغیار کی نظر میں
مولانا حافظ واجد معاویہ

شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

خادمۂ رسول ؐحضرت امِ رافع سلمٰیؓ
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتائج
مولانا مفتی عبد الرحیم

خواتین کا مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

خطبہ، تقریر اور نمازِ جمعہ میں لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال
مفتی سید انور شاہ

کُل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینار: اعلامیہ، سفارشات، قراردادیں
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان

غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ: فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

East and West: Different Futures for Different Pasts
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۳)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۴)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۷)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

بونیر میں امدادی سرگرمیاں اور مدارس کے طلباء
مولانا مفتی فضل غفور
مولانا عبد الرؤف محمدی

اسلام ایک عالمی مذہب کیسے بنا؟
ایپک ہسٹری

پاکستان اور عالمِ اسلام: فکری و عملی رکاوٹیں کیا ہیں؟
عبد اللہ الاندلسی
پال ولیمز

ردِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت
محسن نواز

غزہ کو بھوکا مارنے کے اسرائیلی اقدامات کو کیسے روکا جائے؟
الجزیرہ

گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کی جانب انسانی ہمدردی کا سمندری سفر
ادارہ الشریعہ

صمود (استقامت) فلوٹیلا میں پاکستان کی نمائندگی
مولانا عبد الرؤف محمدی

فلسطینی ریاست کی ممکنہ تسلیم کا برطانوی فیصلہ اور اس کی مخالفت
ادارہ الشریعہ

فلسطین کے متعلق آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کا بدلتا ہوا رجحان: ایک مذاکرہ کی روئیداد
اے بی سی نیوز آسٹریلیا

’’سیرتِ مصطفیٰ ﷺ (۱)‘‘
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
مولانا ڈاکٹر حافظ ملک محمد سلیم عثمانی

’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ : تاریخی ترتیب سے‘‘
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمٰن

’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیرمطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘
ڈاکٹر زاہد منیر عامر

’’فہمِ اقبال — کلامِ اقبال کا موضوعاتی انتخاب‘‘
رانا محمد اعظم

مطبوعات

شماریات

Flag Counter