یہ مذاکرہ بنیادی طور پر آسٹریلیا کی حالیہ سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی صورتحال کے اہم پہلوؤں پر مرکوز ہے۔ اس میں حکومت کی ٹیکس پالیسی، معیشت کی اصلاحات، نوجوان نسل کے مسائل، اور عوامی توقعات جیسے داخلی موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر غزہ کی صورتحال، اسرائیل و فلسطین تنازع، یوکرین جنگ، امریکہ و آسٹریلیا کے تعلقات، اور آکس (AUKUS) معاہدے کے اثرات پر بھی بات کی گئی ہے۔ ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کے خطرات، گھروں سے کام کرنے کے بدلتے رجحانات، اور سماجی انصاف کے معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ساری گفتگو ایک ایسے جامع مکالمے کی شکل میں سامنے آتی ہے جو آسٹریلیا کے اندرونی و بیرونی چیلنجز اور پالیسی فیصلوں کی سمت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
غزہ کا بحران اور مغربی دنیا کا بدلتا ہوا رجحان
اس مذاکرے میں اس پہلو پر بھی گفتگو کی گئی کہ مغربی دنیا میں اسرائیل کے بارے میں عوامی رائے تیزی سے بدل رہی ہے۔ غزہ کی صورتحال اور بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب اسرائیل کو حمایت کی بجائے تنقید مل رہی ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل اور سول سوسائٹی میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ مغربی ممالک کی حکومتیں ایک طرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن دوسری طرف اپنے عوام کے دباؤ کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی قیادت کو ایک نازک توازن قائم رکھنا پڑ رہا ہے تاکہ وہ نہ صرف بین الاقوامی تعلقات کو سنبھال سکیں بلکہ اندرونی سطح پر عوامی جذبات کا بھی احترام کریں۔
آسٹریلیا نے اسرائیل کے غزہ سے متعلق منصوبوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس راستے پر نہ بڑھا جائے۔ تاہم یہ سوال موجود ہے کہ کیا محض بیانات اور مذمتی الفاظ کسی بڑی تبدیلی کا باعث بن سکیں گے۔ دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد اسرائیل اب غزہ میں اپنی کارروائیوں کو وسعت دینے جا رہا ہے۔ وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر ہونے والی تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے پورے غزہ پر کنٹرول، باقی ماندہ حماس کو ختم کرنے، اور پھر یہ علاقہ کسی عرب قوت کے حوالے کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ آسٹریلیا، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ملکوں کو خدشہ ہے کہ اس سے انسانی بحران مزید بگڑے گا اور یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی، مگر اب تک یہ بیانات اسرائیلی حکومت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ سب سے زیادہ اثر رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی واضح کیا ہے کہ فیصلہ اسرائیل نے خود کرنا ہے۔
نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل پورے غزہ پر عسکری کنٹرول حاصل کرے گا، لیکن ان کے مطابق مقصد اسے رکھنا نہیں بلکہ کسی عرب انتظامیہ کے سپرد کرنا ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے، حالانکہ فوجی قیادت خود کو پہلے ہی دباؤ میں محسوس کر رہی ہے۔ بین الاقوامی دباؤ بڑھنے کے ساتھ نیتن یاہو کے منصوبے میں کچھ نرمی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ کئی ممالک نے اس اقدام کو غلط قرار دیا ہے۔ جرمنی نے مزید اسلحہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور آسٹریلوی وزیرِخارجہ پینی وونگ نے بھی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اس فیصلے سے گریز کرے کیونکہ اس طرح کے قبضے سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
سڈنی ہاربر برج پر گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑا مظاہرہ ہوا جسے آسٹریلوی سیاست کے لیے ایک انتباہ قرار دیا جا رہا ہے۔ عوام اور بین الاقوامی برادری غزہ میں جاری تباہی سے شدید پریشان ہیں۔ کئی سیاست دان اسرائیل کی حمایت کے باوجود سوال کر رہے ہیں کہ اس جنگ کا آخری ہدف کیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر دنیا نے بروقت اقدام نہ کیا تو فلسطین کے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ آسٹریلیا رفتہ رفتہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے کیونکہ اس کے نزدیک بھی مشرقِ وسطیٰ میں امن و سلامتی کا دارومدار دو ریاستی حل پر ہے۔
ادھر اسرائیل میں یرغمالیوں کے اہلِ خانہ تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹرز کے سامنے جمع ہو گئے اور جنگ کے پھیلاؤ کے خلاف احتجاج کیا، انہیں ڈر ہے کہ کارروائیوں میں ان کے اپنے لوگ مارے جائیں گے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے وزرائے اعظم نے بھی مشترکہ بیان میں خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگا۔ جرمنی، جو اسرائیل کو اسلحے کا بڑا سپلائر ہے، نے ہتھیاروں کی ترسیل روک دی ہے۔ دوسری طرف یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنی زمین روس کو دینے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے، حالانکہ صدر ٹرمپ نے امن کے لیے زمین کے تبادلے کی تجویز دی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نیتن یاہو کے منصوبوں میں اس وضاحت کی کمی ہے کہ قبضہ کب شروع ہوگا، کب ختم ہوگا اور بعد ازاں کن قوتوں کے سپرد کیا جائے گا۔ یہ مزید ایک فوجی حکمتِ عملی تو ہے لیکن اس کے پیچھے کوئی واضح سیاسی منصوبہ نہیں دکھائی دیتا۔ بین الاقوامی ردعمل میں جرمنی جیسے ملکوں کی جانب سے اسلحے کی فراہمی روکنے جیسے اقدامات شاید کچھ اثر ڈال سکیں لیکن اب تک بیانات یا قراردادیں اسرائیل کے طرزِعمل میں تبدیلی نہیں لا سکیں۔
آسٹریلوی سیاست میں بھی اس مسئلے پر تقسیم نظر آتی ہے۔ حکومت اسرائیل کی مذمت کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن کے کئی رہنما اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم بعض قدامت پسند سیاست دان بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا۔ افغانستان کی طویل جنگ کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ بغیر کسی اختتامی حکمتِ عملی کے ایسی کارروائیاں نہ ختم ہونے والی جنگ میں بدل جاتی ہیں۔
اس دوران آسٹریلوی حکومت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے پر غور کر رہی ہے۔ وزیرِخارجہ پینی وونگ نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا نے وقت پر قدم نہ اٹھایا تو فلسطین کے وجود کو ہی شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لیکن مجموعی طور پر یہ واضح ہے کہ جنگ بندی کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور اسرائیل اور حماس دونوں اپنی ایسی شرائط پر قائم ہیں جنہیں دوسرا کبھی قبول نہیں کرے گا۔ نتیجتاً یہ تنازعہ جمود کا شکار ہے اور کوئی عملی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔
فرانس اور عرب لیگ کی جانب سے موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن اس کے بعض غیر ارادی نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ یہ اقدامات بظاہر نیتن یاہو کو اس سمت دھکیل رہے ہیں جس کے برعکس ان ممالک کی امیدیں تھیں۔ موجودہ حالات میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ جمود خطرناک حد تک مضبوط ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان اس جمود کو توڑ سکے گا؟ اس کا امکان تو کم ہے، لیکن آسٹریلیا یہ سمجھتا ہے کہ ستمبر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے یہ قدم ایک وسیع تر عالمی دباؤ کا حصہ بن سکتا ہے۔
اسی دوران آسٹریلوی سیاست میں بحث چھڑ گئی ہے کہ محض تسلیم کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، پابندیاں زیادہ مؤثر ہو سکتی ہیں۔ جرمنی نے اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت روکنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ آسٹریلوی وزیراعظم پابندیوں کے سوال پر محتاط ہیں کیونکہ آسٹریلیا کے پاس جرمنی جیسی عملی طاقت نہیں۔ البتہ آسٹریلیا کچھ پرزے ضرور فراہم کرتا ہے جو امریکی ایف-35 جنگی طیاروں میں استعمال ہوتے ہیں، لیکن حکومت کہتی ہے کہ یہ ایک وسیع تر سپلائی چین کا حصہ ہے اور اسرائیل کو براہِ راست ہتھیار فراہم نہیں کیے جا رہے۔
اسی دوران یہ بھی کہا گیا کہ فرانسیسی صدر میکرون کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد حماس نے سیز فائر مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے الزام لگایا کہ ایسے اقدامات حماس کو مزید حوصلہ دیتے ہیں کہ وہ جنگ بندی نہ کرے کیونکہ اس کے بغیر بھی اسے سیاسی فائدہ مل رہا ہے۔
آسٹریلیا کے قائم مقام وزیراعظم اور وزیردفاع رچرڈ مارلز نے اس خیال کو مسترد کیا۔ ان کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت ایک دو ریاستی حل کی پالیسی کا حصہ ہے، اور کسی بھی پائیدار امن کا انحصار اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ ساتھ رہنے پر ہے۔ تاہم آسٹریلوی مؤقف یہ ہے کہ مستقبل کی کسی بھی فلسطینی ریاست میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حماس کی کارروائیوں نے ہی ریاست کے قیام کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے۔ آسٹریلیا نے ہمیشہ حماس کی مزاحمتی سرگرمیوں اور یرغمالیوں کے اغوا کی مذمت کی ہے اور اسے امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
مارلز نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر قبضے کا منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے، انسانی امداد کو غزہ تک پہنچنے دیا جائے اور یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔ ان کے مطابق خوراک اور طبی امداد کو روکنا براہِ راست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اسی لیے آسٹریلیا اس فیصلے کی مخالفت کرتا ہے۔
جہاں تک اسلحے یا دفاعی سازوسامان کی فراہمی کا تعلق ہے، آسٹریلوی حکومت نے واضح کیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہیں کر رہی۔ ایف-35 پروگرام میں شامل ہونا ایک بین الاقوامی انتظام ہے جس کی سپلائی چین امریکہ سے منسلک ہے اور آسٹریلیا کا اس میں براہِ راست اختیار نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بعض حلقوں میں پھیلائی جانے والی معلومات درست نہیں۔ آسٹریلیا کا بنیادی مؤقف یہی ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی ہو، انسانی امداد پہنچے اور یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔ ہم اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہیں کر رہے اور نہ ہی ہمارے پاس ایسا کوئی قدم ہے جو جرمنی جیسے اثرات مرتب کر سکے۔ جو بکتر بند اسٹیل آسٹریلیا سے اسرائیل کی کمپنی کو جاتا ہے، وہ بکتر بند گاڑیوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی اقدام نہیں جو اسرائیل کی سرگرمیوں پر نمایاں اثر ڈال سکے۔ جرمنی کی صورتحال بالکل مختلف ہے کیونکہ وہ اسرائیل کو براہِ راست دفاعی سامان فراہم کرتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو ختم کیا جائے اور اس کے لیے ہم اپنی بین الاقوامی آواز استعمال کر رہے ہیں۔
روس اور یوکرین کے تنازع پر آسٹریلیا کا مؤقف واضح ہے۔ یہ تنازع روسی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے شروع ہوا۔ اس جنگ میں اصولوں پر مبنی عالمی نظام داؤ پر لگا ہوا ہے اور اسی لیے آسٹریلیا یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہمارا مؤقف ہے کہ یہ تنازع یوکرین کی شرائط پر حل ہونا چاہیے۔ ہم جنگ کے خاتمے کے لیے ہر مثبت اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امریکہ و برطانیہ کی ان کوششوں کی حمایت کرتے ہیں جو امن کے راستے ہموار کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
آسٹریلیا کے داخلی و خارجی مسائل
امریکہ اور آسٹریلیا کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ سالانہ اوسمین مذاکرات ہوں گے، وقت اور طریقہ کار پر بات چیت جاری ہے اور اس میں لچک رکھی جاتی ہے۔ جہاں تک دفاعی اخراجات بڑھانے کا سوال ہے، آسٹریلوی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ اخراجات کسی ہدف کی بنیاد پر نہیں بلکہ تزویراتی خطرات اور ضرورتوں کو دیکھ کر طے کیے جائیں۔ اسی پالیسی کے تحت آسٹریلیا نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی دفاعی سرمایہ کاری کی ہے۔
آکس (AUKUS) معاہدے کے جائزے پر آسٹریلیا نے کہا کہ یہ جائزہ ایک فطری عمل ہے اور نئی امریکی حکومت کا حق ہے کہ وہ اس بڑے دفاعی منصوبے کو پرکھے۔ امریکہ اور آسٹریلیا مسلسل رابطے میں ہیں اور اس معاہدے کو دونوں ملکوں کے اسٹریٹجک مفاد میں سمجھا جاتا ہے۔ سابق وزیرِاعظم کی تجویز کے برعکس آسٹریلیا نے واضح کیا کہ یہاں غیر ملکی فوجی اڈے قائم نہیں ہوں گے، البتہ امریکی افواج کی موجودگی مشترکہ انتظامات کے تحت بڑھ رہی ہے جیسے ڈارون میں میرین فورس کی موجودگی اور 2027ء سے سب میرین روٹیشنل فورس کا قیام۔ آسٹریلیا میں کسی بھی غیر ملکی فوجی سرگرمی کے لیے حکومت کی پیشگی منظوری لازمی ہے۔
پاپوا نیو گنی کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس ملک کے فوجی بھی مستقبل میں آسٹریلوی دفاعی فورس کا حصہ بن سکیں گے۔ پہلے یہ موقع نیوزی لینڈ اور دیگر اتحادی ممالک کے شہریوں کو دیا گیا تھا اور اب پیسفک خطے کو بھی شامل کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ اس سے آسٹریلوی دفاعی فورس کی وسعت بڑھے گی۔
آئندہ ہفتے کے وسط میں ہونے والے راؤنڈ ٹیبل پر تو ہم پہنچیں گے ہی، لیکن فی الحال بات دوبارہ پینل پر لوٹتی ہے جہاں اسرائیل کے حوالے سے گفتگو جاری ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر نیتن یاہو اپنے اعلان اور سیکیورٹی کابینہ کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ رچرڈ مارلز کے بیانات سے ایسا نہیں لگتا کہ آسٹریلیا مزید دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی نیا قدم اٹھانے والا ہے۔ حکومت کا مؤقف بار بار یہی رہا ہے کہ آسٹریلیا مشرق وسطیٰ میں کوئی مرکزی کردار ادا نہیں کرتا اور اس کی صلاحیتیں محدود ہیں۔ دوسری طرف دوسرے ممالک جیسے فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور عرب لیگ کی کوششیں اہم ہیں۔ تاہم امریکہ کی طرف سے کسی دباؤ کے بغیر نیتن یاہو کو پالیسی بدلتے دیکھنا مشکل ہے، خاص طور پر جب وہ اپنے فوجی کمانڈرز کی اپیلوں پر بھی کان نہیں دھرتے۔ دراصل یہ اقدامات اسرائیل کے لیے کم اور امریکہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے زیادہ دکھائی دیتے ہیں، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو حرکت میں لانے کے لیے۔
رچرڈ مارلز نے کہا کہ حماس کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب عملی طور پر کیا ہے؟ وزیر ٹونی برک نے توجہ دلائی کہ دنیا میں کئی ملکوں کے کچھ حصے دہشت گرد گروہوں کے قبضے میں رہے ہیں لیکن پھر بھی ان ممالک کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے، جیسا کہ شام اور عراق میں داعش کی موجودگی کے باوجود۔ تو اگر فلسطین کو تسلیم کرنے کی بات ہے تو حماس کے کردار سے انکار کا مطلب کیا ہوگا؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اسرائیل یا آسٹریلیا جیسے ممالک حماس کو کسی صورت قبول کرنے پر تیار نہیں، اسی لیے کچھ حلقے فلسطینی اتھارٹی کی اصلاح کی بات کرتے ہیں لیکن وہ بھی اسرائیل کے لیے قابلِ قبول حل نہیں بنتا۔ یوں معاملہ جمود کا شکار ہے اور سب اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ شاید بہترین حل نہیں بلکہ کم سے کم نقصان والا حل تلاش کرنا پڑے گا۔ آسٹریلیا بھی یہی سوچ رہا ہے کہ کچھ تلخ فیصلے قبول کیے بغیر کوئی وسیع تر سمجھوتہ ممکن نہیں۔
اب توجہ اس راؤنڈ ٹیبل کی طرف ہے جو مصنوعی ذہانت کے ضابطوں پر ہوگا۔ اگرچہ ابھی یہ ٹیکنالوجی ہمارے درمیان موجود ہے لیکن یہ سوال زیادہ اہم ہوتا جا رہا ہے کہ اس کو کیسے قابو میں رکھا جائے اور اس کے لیے کون سے اصول بننے چاہئیں۔ فنکاروں، لکھاریوں، موسیقاروں اور میڈیا کے نمائندوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کو اجازت دی گئی کہ وہ ان کے کام سے سیکھے اور اس پر مبنی نیا مواد تخلیق کرے تو یہ کاپی رائٹ قوانین کو بے اثر کر دے گا۔ ایک متعلقہ کمیشن کا خیال ہے کہ اگر AI کو یہ آزادی ملے تو معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن آرٹس کمیونٹی اور لیبر پارٹی کے اندر کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فنکاروں اور مقامی مواد کے لیے خطرناک ہوگا۔ خودکار آوازیں پہلے ہی Spotify جیسے پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ ہو رہی ہیں، جہاں AI انسانی فنکاروں کی آوازوں کی نقل بنا رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف آسٹریلیا تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ قوانین کافی ہیں یا ایک نیا جامع AI قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ حزبِ اختلاف کا مؤقف ہے کہ حکومت کو مضبوط حفاظتی اصول وضع کرنے چاہییں تاکہ مقامی مواد محفوظ رہے، لیکن خود اپوزیشن کے اندر بھی اختلاف ہے کہ زیادہ قوانین بنانا درست حل ہے یا نہیں۔
لیبر پارٹی اور کولیشن دونوں کے اندر اس بات پر اختلاف ہے کہ کیا ہمیں ایک علیحدہ AI قانون بنانا چاہیے یا صرف موجودہ قوانین جیسے پرائیویسی ایکٹ اور ہیومن رائٹس ایکٹ کو جدید بنانا کافی ہوگا۔ بعض ماہرین اور حکومتی ادارے کہتے ہیں کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض مستقبل کا خدشہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ AI نے پہلے ہی فنکاروں کے کام سے سیکھ کر نئی تخلیقات شروع کر دی ہیں۔ ٹریژری کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین میں ترمیم ہی کافی ہوگی، لیکن کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ بالکل نیا قانون بنایا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ بڑی ٹیک کمپنیاں تیزی سے دنیا کو بدل رہی ہیں اور حکومتوں کے لیے مشکل ہے کہ وہ ان کے ساتھ قدم ملا سکیں۔ جس وقت پارلیمنٹ قوانین پر غور کرے گی، AI کے نئے ورژن آ چکے ہوں گے۔ اس دوران حزبِ اختلاف سمجھتی ہے کہ یہ ایک اہم سیاسی موقع ہے جس سے وہ لیبر کو یونینز اور فنکاروں کے دباؤ کے درمیان پھنسا سکتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک بڑھتا ہوا عالمی چیلنج ہے جس سے اب حکومتیں آنکھ نہیں چرا سکتیں۔
گزشتہ ہفتے ایک برطانوی رکنِ پارلیمنٹ نے اپنی ایک AI شکل بنا کر اسے عوام کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے پیش کیا۔ یہ ٹیکنالوجی جدت کی ایک مثال ہے جو روایتی حدود سے آگے نکل جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے لیے کون سا فریم ورک بنایا جائے۔ کیا موجودہ قوانین اور ریگولیٹر کافی ہیں یا پھر ایک نیا AI ایکٹ بنانا ہوگا؟ اگر پارلیمنٹ اس پر فیصلہ نہ کرے تو معاملہ عدالتوں میں جا سکتا ہے اور پھر یہ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوگا۔
ٹیکس پالیسی پر بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں مختلف تجاویز سامنے آئیں جیسے نیگیٹو گیئرنگ، کیپیٹل گین ٹیکس، فرنج بینیفٹس ٹیکس، اور جی ایس ٹی۔ پروڈکٹیویٹی کمیشن نے کمپنی ٹیکس پر بھی بات کی۔ مگر وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ اس راؤنڈ ٹیبل سے کسی بڑے ٹیکس ریفارم کی توقع نہ رکھی جائے کیونکہ یہ کابینہ کے اختیارات کی جگہ نہیں لے گا۔ فی الحال حکومت صرف وہی ٹیکس پالیسی نافذ کرے گی جو انتخابی مہم کے دوران وعدہ کی گئی تھی۔ ہاں، مستقبل کے انتخابات کے لیے نئی تجاویز پر غور ممکن ہے۔
وزیراعظم اور خزانہ کے وزیر میں فرق زیادہ تر اندازِ نظر اور اہداف کا ہے، نہ کہ پالیسی کا۔ وزیرِ خزانہ زیادہ پرجوش ہیں کہ اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھا کر اہم فیصلے کیے جائیں۔ لیکن وزیراعظم احتیاط برت رہے ہیں، وہ عوامی اعتماد کو ترجیح دیتے ہیں اور اچانک فیصلے کرنے کے بجائے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے موجودہ بحث مستقبل کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے، فوری عمل درآمد نہیں۔
ٹریژری نے جاری کردہ اعدادوشمار میں دکھایا ہے کہ مستقبل میں آمدنی پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا جائے گا اور موجودہ ٹیکس رعایتیں زیادہ تر امیر طبقے کو فائدہ دیتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریفارم کی ضرورت ہے تاکہ نظام زیادہ منصفانہ ہو۔ نوجوانوں کے حوالے سے بھی بحث تیز ہو رہی ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ موجودہ ٹیکس اور تعلیمی قرضوں کا نظام ان کے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے، جبکہ پچھلی نسلوں کے لیے حالات بہتر تھے۔ اسی تناظر میں حکومت کے حالیہ اقدامات، جیسے تعلیم کے قرضوں میں نرمی، عوام میں مقبول ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر بھی حالات پیچیدہ ہیں۔ غزہ میں بڑھتے مظاہروں نے رائے عامہ کو متاثر کیا ہے اور کارٹونوں کے ذریعے اس صورتحال کو طنز و مزاح کے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف احتجاج کرنے والوں کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے تو دوسری طرف لاکھوں لوگ امن کے لیے مارچ کرتے ہیں۔ وزیراعظم کی پوزیشن بھی ایک نازک توازن ہے جہاں انہیں فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے درمیان محتاط رہنا پڑتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے بارے میں بھی گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ کارٹونوں اور تبصروں میں دکھایا گیا ہے کہ بڑی ٹیک کمپنیاں فنکاروں اور لکھاریوں کی محنت سے مواد لے کر بغیر اجازت اس سے کمائی کر رہی ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ضابطے نہ بنے تو یہ معاملہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ یہ نہ صرف ملازمتوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ ماحولیات، دانشورانہ حقوق اور معاشرتی توازن پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
گھروں سے کام کرنے کے کلچر پر بھی مزاحیہ انداز میں تبصرے سامنے آئے ہیں، جیسے دفتر کے بجائے گھر بیٹھے میٹنگز میں شریک ہونا، روزمرہ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا یا توجہ بٹنے کے مسائل۔ یہ سب اشارہ کرتا ہے کہ کام کرنے کا طریقہ تیزی سے بدل رہا ہے اور اس پر بھی پالیسی کی بحث جاری ہے۔
آخر میں، آسٹریلیا کے اندرونی معاملات جیسے چائلڈ کیئر کے نظام پر نظر ڈالی گئی ہے جہاں لیبر پارٹی میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ موجودہ منافع پر مبنی نظام بچوں کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی مقامی آبادی کے حقوق اور انصاف کے نظام میں خامیوں پر بھی توجہ دی گئی ہے، جسے اقوامِ متحدہ تک نے نوٹ کیا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں بھارت اور امریکہ کے درمیان کشیدگی نے بھی آسٹریلیا کے لیے خدشات بڑھا دیے ہیں کیونکہ اگر کواڈ (Quad) اتحاد کمزور پڑتا ہے تو آسٹریلیا کا عالمی سطح پر اثر بھی گھٹ سکتا ہے۔ یہ ایک اور چیلنج ہے جس سے حکومت کو نمٹنا ہوگا۔