’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ : تاریخی ترتیب سے‘‘


تعارفِ سیرتِ طیبہ

سیرت

سیرتِ طیبہ کے موضوع کو ذاتِ رسالت مآب سے نسبت کے طفیل جو اہمیت، مقام، قدر و منزلت اور قبولیت حاصل ہے، وہ یقیناً‌ محتاجِ بیان نہیں۔ اگر ہم اپنے اس مذہبی لٹریچر کا جائزہ لیں جو کسی بھی زبان میں مسلمانوں نے اب تک پیش کیا ہے، تو اس کا ایک بہت بڑا حصہ ان مباحث، موضوعات اور عنوانات پر مشتمل ہوگا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات وصفات سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے علوم و فنون میں فنِ سیرت کو یہ ایک عجیب امتیاز اور اس اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ 

مطالعۂ سیرت کی وسعتوں کے حوالے سے سیرت کے چند پہلوؤں کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لفظ سیرت کے معانی و مفاہیم کو متعین کر لیا جائے، تا کہ پھر اس کی روشنی میں دیکھا جا سکے کہ عہدِ حاضر میں اس موضوع نے کیا کیا وسعتیں اختیار کی ہیں؟ 

لفظ سیرت ساریسیر سے مشتق ہے، جو باب ضرب يضرب  سے آتا ہے، اس کے معنیٰ چلنے پھرنے، چال چلن، کردار، سنت، طریقے، روش، شکل وصورت، ہیئت وغیرہ کے آتے ہیں۔

لفظ سیرت آغاز میں ہر ایک کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے، چناں چہ عوانہ بن حکیم کلبی (م ۱۴۷ ھ )  کی کتاب سیرۃ معاویہ و بنی اُمیہ، اور واقدی (م ۲۰۷ھ ) کی کتاب سیرۃ ابی بکر و وفاتہ اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعد میں بھی لفظ سیرت کا یہ عمومی استعمال جاری رہا، چناں چہ اُردو میں بھی اس کی روایت نظر آتی ہے، علامہ شبلی کی سیرت النعمان اور سید سلیمان ندوی کی  سیرتِ عائشہ معروف کتب ہیں، البتہ اب ہمارے عرف اور عام محاورے میں جب لفظ صرف سیرت کا استعمال ہوتا ہے، تو اس سے مراد سیرتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ فنِ سیرت کی نہایت جامع تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

سیرت کا مفہوم طریقے و مذہب، سنت، ہیئت، حالت اور کردار تک محدود نہیں، بل کہ اس سے مراد داخلی شخصیت، اہم کارنامے اور اکابر کے حالاتِ زندگی بھی ہیں۔

یہاں اگر چہ ڈاکٹر صاحب نے سیرت کے مطلق مفہوم کا ذکر کیا ہے، لیکن دوسرے مقام پر وہ اس مؤقف کو کہ سیرت سے مراد صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ ہے، بالکل واضح اسلوب میں بیان کرتے ہیں: 

تمام اشخاص کی بایوگرافی (سوانح) کو سیرت کہنا زیادتی ہے، کیوں کہ سیرت کے لفظ کو اُصولی طور پر آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات ہی سے مخصوص سمجھنا چاہیے۔

اسی مفہوم کے حوالے سے ایک بات اور بھی ہے، خود قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبویہ میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، چناں چہ قرآنِ حکیم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتہا الاولیٰ۔ (طہ: ۲۱)
’’اسے پکڑ لو، اور خوف نہ کرو، اسے ہم پھر پہلی والی ہیئت پر لے آئیں گے۔ ‘‘

یہاں پر دیکھیے سیرت سے مراد ہیئت، شکل وغیرہ ہے۔

حدیث میں اس سے بھی واضح استعمال ملتا ہے، ایک روایت میں ہے: 

قام علی رضی اللہ عنہ علی المنبر، فذکر رسول اللہ ﷺ فقال، قبض رسول اللہ ﷺ و استخلف ابوبکر رضی اللہ عنہ فعمل بعملہ وسار بسیرتہ حتیٰ قبضہ اللہ عز وجل علیٰ ذالک، ثم استخلف عمر رضی اللہ عنہ علیٰ ذٰلک فعمل بعملہما وسار بسیرتہما حتیٰ قبضہ اللہ عز و جل علیٰ ذٰلک۔
’’ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ  ﷺ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے آپ کی ہی طرح اپنے فرائض انجام دیے، اور وہ آپؐ کی سیرت پر چلے، حتیٰ کہ اللہ نے اُن کی روح کو بھی قبض کر لیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، اُنہوں نے بھی اپنے دونوں پیش روؤں کے طریقے پر عمل کیا، اور اُن کی سیرت پر چلے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی روح کو بھی قبض کر لیا۔‘‘

دیکھیے یہاں بسیرتہ اور سیرتہما دونوں الفاظ خاص وہی مفہوم دے رہے ہیں، جس مفہوم میں آج لفظ سیرت مستعمل ہے۔

سیرت نگاری کا آغاز 

فنِ سیرت کا آغاز اسلام میں مغازی سے ہوا، ابتدا میں مغازی سے مراد غزوات و سرایا سے متعلق تفاصیل ہوتی تھیں۔ لیکن بعد میں اس میں وسعت پیدا ہوگئی، اور مغازی کے عنوان کے تحت لکھی جانے والی کتب میں سیرتِ طیبہ کا بڑا حصہ بیان ہونے لگا، چناں چہ مغازی کی مشہور کتب اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں، اور مغازی عروہ بن زبیر، مغازی ابان بن عثمان، مغازی ابن شہاب زہری، موسیٰ بن عقبہ، ابن اسحاق اور واقدی وغیرہ میں سے جو کتب دست یاب ہیں، یا جو کتب دست یاب تو نہیں ہیں، لیکن ان کے حوالے قدیم کتب میں ملتے ہیں، ان سے یہی علم ہوتا ہے کہ ان تمام کتب میں محض غزوات و سرایا کا بیان نہیں ہے، بل کہ سیرتِ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حیاتِ طیبہ کا بہت سا حصہ بیان ہوا ہے۔

ابتدائی سیرت نگار

مغازی کے حوالے سے ابتدائی کتب کے مؤلفین میں عروہ بن زبیرؓ (م ۹۴ ھ )، ابان بن عثمان بن عفان (م ۱۰۵ھ )، عاصم بن عمر بن قتاده (م۱۲۰ ھ )، شرحبیل بن سعد مدنی (م ۱۲۳ھ )، ابن شہاب زہری (م ۱۲۳ھ ) اور عبداللہ بن ابی بکر بن حزم (۱۳۵ھ ) کے نام ملتے ہیں۔ ان کے بعد آنے والوں میں چار نام بڑے نمایاں ہیں اور ان چاروں نے جو کتب  مغازی کے عنوان سے تحریر فرما ئیں، اُن کا زمانۂ تحریر بھی تقریباً ایک ہی ہے، یہ چار نام ہیں : موسیٰ بن عقبہ (م۱۴۱ھ )، محمد بن اسحاق (م ۱۵۱ھ)، معمر بن را شد (م ۱۵۴ ھ ) اور ابو معشر نجیع بن عبد الرحمٰن سندی (م ۱۷۰ ھ)۔ ان میں ابو معشر زیادہ قابلِ غور ہیں، ایک تو وہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں، دوسرے ان کی کتاب کا زمانۂ تحریر موسیٰ بن عقبہ سے زیادہ دور نہیں ہے، لیکن وہ شاگر دموسیٰ بن عقبہ کے ہی تھے، اور موسیٰ بن عقبہ کو محدثین بھی تسلیم کرتے ہیں، حال آں کہ وہ عام طور پر مغازی نگاروں کو اپنے معیار کا قرار نہیں دیتے، چناں چہ امام مالک محمد بن اسحاق کے سخت ناقد ہیں۔ لیکن وہ بھی موسیٰ بن عقبہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔

ابو معشر کے سوا اس عہد کی تمام اہم ترین کتب، کسی نہ کسی صورت میں شائع ہو چکی ہیں اور ہمارے سامنے موجود ہیں۔

سیرت کے نام سے پہلی کتاب جو شائع شدہ ہمارے درمیان موجود ہے، وہ سلیمان بن طر خان التیمی (م ۱۴۳ھ) کی سیرت الرسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔

مجالسِ سیرت 

سیرت نگاری کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام کے دورِ اول میں جب کہ مسلمانوں میں قرآن حکیم اور اس سے متعلقہ علوم وفنون نیز احادیثِ نبویہ کے حوالے سے شغف اور دل چسپی بڑھ رہی تھی، اور جا بہ جا ان کے حلقے قائم تھے، خلفائے راشدین بہ ذاتِ خود ان حلقوں کو قائم اور اُن کی سر پرستی فرماتے تھے، اور ان علوم کے ماہرین کی بڑی تعداد صحابۂ کرام میں موجود تھی، اسی دور میں مغازی کے زیرِ عنوان سیرتِ طیبہ پڑھنے اور پڑھانے کا رجحان بھی موجود تھا، اور یہ رجحان مسلسل مضبوط ہو رہا تھا، جس کا ایک سبب ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلمانوں کے تعلقِ خاص کے علاوہ یہ بھی تھا کہ اسلام سے قبل بھی اہلِ عرب کے ہاں خاندانی وقبائلی فخر و مباہات کے اظہار کا خاص اہتمام تھا، اور چوں کہ ان کے ہاں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا، اس لیے وہ ان کاموں کے لیے اپنے خداداد بے مثال حافظے سے فائدہ اُٹھاتے تھے اور اس مقصد کے لیے خاص مجالس آراستہ کرتے تھے۔

خیال کیا جاسکتا ہے کہ عربوں کی یہی روایت اسلام کی آمد کے بعد غزوات وغیرہ کے بیان کی صورت اختیار کرگئی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تفسیر و فقہ کے بڑے اور جید ترین امام ہیں، آپؓ نے اپنی مجالس کے لیے مختلف ایام کے لیے مختلف موضوعات مقرر فرمائے تھے۔ ان میں وہ ایک دن صرف سیرتِ طیبہ کا درس دیا کرتے تھے، جس کے لیے اس وقت کے محاورے کے مطابق سیرت نگار مغازی کا لفظ استعمال کرتے تھے۔

اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ مغازی وغیرہ کے بیان سے صحابۂ کرام کا مقصد سننے والوں کو شوق دلانا اور انہیں ثابت قدمی، شجاعت اور جواں مردی کی تلقین ہوتا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کے صاحب زادے محمد بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ہمارے والد ہمیں غزوات و سرایا کی تعلیم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے میرے بیٹو! یہ تمہارے آبا کا شرف و افتخار ہیں، سو تم انہیں ہرگز ضائع نہ کرنا (بل کہ انہیں یا درکھنا)۔

غزوات و سرایا سے مسلمانوں کی اس دل چسپی کا اثر تھا کہ خواتین میں بھی یہ موضوع پسند کیا جا تا تھا، اور وہ بھی اس سلسلے میں خاصے ذوق وشوق کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ اُمِ سعد جمیلہ بنتِ سعد بن ربیع اپنی والدہ عمرہ بنتِ حزم بن زید کا واقعہ یوں بیان کرتی ہیں کہ میں غزوۂ خندق کے روز دو سال کی تھی، اور میری والدہ میرے ہوش سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کے غزوۂ خندق کے حوالے سے واقعات مجھے سناتی تھیں۔

اس سلسلے کے اور بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ اسلامی حکومت خصوصاً خلفائے راشدین اور اُن کے متصل بعد کے حکم رانوں نے بھی مغازی کو خاصی توجہ دی۔ ہشام بن عبدالملک نے اپنے بیٹے کے معلم سلیمان کلبی کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ اسے حلال و حرام، خطبات اور مغازی کے بارے میں صاحبِ نظر بناؤ۔

مغازی کا یہ درس دینے والے صحابہ و تابعین پھر بڑے جوش اور جذبے سے یہ درس دیا کرتے تھے، اور اس دوران اُن پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی تھی۔ سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ حضرت عکرمہ جب غزوات کا بیان کرتے تھے تو سننے والا شخص یہ کہتا تھا کہ گویا وہ خود مجاہدین کو جہاد میں مصروف دیکھ رہا ہے۔ 

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مغازی کے زیرِ عنوان مطالعۂ سیرت، صحابۂ کرام اور تابعین کے عہد میں ہی مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، جسے بعد میں مزید وسعت حاصل ہوئی، اور پہلے سیرت کے جامع انداز میں بیانات تحریری شکل میں آنا شروع ہوئے، اور بعد میں سیرت نگاری مزید وسعتیں اختیار کرتی چلی گئی۔

مطالعۂ سیرت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔ (الاحزاب : ۲۱)
یقیناً‌ تمہارے لیے رسول اللہ ( کی ذات مبارکہ) میں عمدہ نمونہ ہے۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کو عام طور پر ہم شاید وہ توجہ نہیں دے پاتے جو اس کا مقام اور اس کا حق ہے، جس کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں، لیکن ایک چیز واضح ہے کہ اس کو ہم نے کبھی سبق اور درس کے طور پر نہیں، صرف سعادت کے طور پر لیا ہے۔ پھر اس میں بھی ہمارے پیشِ نظر انتخاب ہوتا ہے اور ذہن میں یہ خیال رہتا ہے کہ اگر سیرتِ طیبہ کے کسی ایک پہلو پر بھی بات کر دی گئی، یا اس کے کچھ حصے کا مطالعہ کر لیا گیا تو شاید اس کا حق ادا ہو گیا۔ سیرتِ طیبہ کو کہیں سے بھی بیان کر دیا جائے، اس کے سعادت ہونے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں، لیکن اس کو ’’سیرت پڑھنا پڑھانا‘‘  نہیں کہہ سکتے، جب تک کہ پورے علمِ سیرت کو کم از کم ایک بار پورے تسلسل کے ساتھ نگاہوں سے نہ گزار لیا جائے۔

پھر یہ محض مطالعہ بھی کافی نہیں، بل کہ دورانِ مطالعہ چند مزید پہلو بھی پیش نظر رہنے چاہئیں:

الف : مطالعۂ سیرت کی اسانید —  مطالعۂ سیرت کے دوران اس کی استنادی حیثیت بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔ 

ب : مصادر و ماخذ شناسی  — سیرت کے بنیادی مصادر کیا ہیں، کس کا کیا مقام ہے، کون کس سے استفادہ کرتا ہے۔ 

ج: درایتی مسائل  —  اگر روایتی اعتبار سے بیان درست بھی ہو، تب بھی یہ غور و فکر کہ کیا در ایتی اعتبار سے یہ روایت قابلِ حجت ہے؟

د:  اختلافِ روایت اور مشکلاتِ سیرت۔

ھ:  اسباقِ سیرت  —  واقعاتِ سیرت سے حاصل ہونے والے اسباق اور ان کی عصری تطبیق۔ 

سیرت کا بہ طور خاص مطالعہ کیوں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ جب ہم قرآن کریم یا احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں، تو پھر علیحدہ سے سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیوں کیا جائے ؟ ان سوالات کے جوابات سے پہلے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ غور کریں کہ مطالعۂ سیرت کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے؟ آخر سیرتِ طیبہ کو پڑھنا ہمارے لیے کیوں اتنا اہم ہے؟

ذاتِ رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والتسلیم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک تعارف قرآن کریم نے رحمۃ للعالمین کروایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کی حیثیت سے ہماری نظر میں اس کی افادیت اور ضرورت کیا ہے؟ اسی طرح قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ ایک ’’مثالی نمونہ‘‘ ہیں۔ اس کی حیثیت سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو دیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا یہ بھی سیرت کی اہمیت ہے۔ رول ماڈل ایسی ذات ہوتی ہے جو عملی زندگی میں راہ نمائی کا فریضہ انجام دے۔ پھر عملی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں، انسان کو اپنی پیدائش سے لے کر وفات تک انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جس جس حوالے سے راہ نمائی کی ضرورت پیش آسکتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں وہ تمام پہلو اجمالاً موجود ہیں۔ اس لیے آپؐ کی ذات میں اسوۂ حسنہ ہونے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو مثالی نمونہ بنانے کے بعد ہمیں کسی اور جانب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو سکتی، بل کہ بہ طور مسلمان ہمیں تو کسی اور جانب دیکھنے کی اجازت بھی نہیں ہو سکتی۔

آج کے دور میں مطالعۂ سیرت کی ضرورت

قرآن کریم میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مثالی نمونہ کہا گیا ہے، اس پر غور کرتے ہوئے ایک سوال یہ ذہن میں آسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آپ کی حیاتِ مبارکہ میں کچھ مسائل موجود تھے۔ ان میں سے کچھ مسائل بعد کی دنیا میں ختم ہو گئے اور کچھ نئے مسائل پیدا ہو گئے۔

چناں چہ ان تمام مسائل کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :

ا۔ وہ مسائل جو حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی تھے اور آج بھی اسی طرح ہیں۔

۲۔ وہ مسائل جو اس وقت تھے، آج موجود نہیں۔

۳۔ وہ مسائل جو اس زمانے میں نہیں تھے، آج موجود ہیں۔

چناں چہ عام انسانی ذہن یہ کہتا ہے کہ جو مسائل اس زمانے میں تھے اور آج بھی اسی طرح موجود ہیں، ان میں تو سیرتِ طیبہ سے راہ نمائی مل سکتی ہے، لیکن وہ مسائل جو آپؐ کے زمانے میں نہیں تھے، بعد میں کسی وقت پیدا ہوئے اور آج بھی موجود ہیں، ان معاملات میں سیرت سے راہ نمائی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ رہے وہ مسائل جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تھے، اب ختم ہو گئے، اس میں ہمیں راہ نمائی کی کیا ضرورت ہے؟

غور کیا جائے تو قرآن کریم میں چند انبیاء کا ذکر بڑے تکرار کے ساتھ ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا، حضرت عیسیٰ، حضرت شعیب، حضرت ابراہیم، حضرت نوح علیہ السلام و دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر ہے۔ ہر دوسری تیسری سورت میں کہیں اختصار اور کہیں تفصیل سے، کہیں پہلا ٹکڑا اور کہیں واقعے کا آخری ٹکڑا، لیکن تسلسل کے ساتھ یہ ذکر قرآن کریم میں بار بار آتا ہے۔ 

دراصل قرآن حکیم ہمیں یہ ذہن نشین کروانا چاہتا ہے کہ جو مسائل مختلف انبیائے کرام کے زمانے میں تھے اور وہ مسائل جو آج ہمیں درپیش ہیں، حقیقت کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر انسان تبدیل نہیں ہوا۔ انسان پر مادیت کا غلبہ ہے، انسان چمک کی طرف دوڑتا ہے، انسان حاصل زیادہ کرنا چاہتا ہے اور دینا کم چاہتا ہے، انسان کے اندر حسد ہے، بغض ہے، لڑنے کا مادہ ہے اور انسان کے اندر کا ہلی ہے۔ یہی چیزیں پہلے لوگوں میں بھی موجود تھیں، اور آج ہمارے اندر بھی تھوڑے فرق سے موجود ہیں۔ گویا اس حوالے سے اس قدر زمانہ گزر جانے کے باوجود آج کے انسان اور ماضی بعید کے انسان میں کچھ فرق نہیں آیا۔

چناں چہ قرآن کہتا ہے کہ وہ کیفیتیں جو مزاج کو تعمیر کرتی ہیں یا اس کو بگاڑتی ہیں، وہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کے انسان میں موجود ہیں، ان میں تبدیلی نہیں آئی۔ انسان آسائش میں خوش ہوتا ہے، اور اگر آسائش چھین لی جائے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ یہ  فرق اُس زمانے میں بھی تھا، اِس زمانے میں بھی ہے۔ اس زمانے میں آسائشیں الگ تھیں، آج کی آسائشیں الگ ہیں۔ چناں چہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا زمانہ ہو یا آج کا عہد ہو، اس میں فرق اس لیے نہیں ہے کہ انسان وہی ہے، اس کی نفسیات اور خواہشات وہی ہیں۔ نفس کے تقاضے، شیطان کے وساوس، جذبات کے دھو کے یہ سب اُس عہد میں بھی موجود تھے، اور اِس عہد میں اسی طرح موجود ہیں، البتہ کہیں کہیں تقاضوں میں فرق ضرور واقع ہو چکا ہے، لیکن بنیادی مزاج اور انسانی تقاضے ایک جیسے ہیں۔

اس لیے قرآن کریم کو ماننے والا ہر شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں اسوۂ حسنہ کا ہونا بھی قیامت تک کے لیے ہے، اس کو کسی محدود دائرے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد سے لے کر چودہویں صدی تک مشینی زندگی کا آج والا تصور نہیں تھا۔ فضائی، ماحولیاتی آلودگی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ آلودگی کب آئی ؟ جب مشین آئی ہے۔ 

مشین آنے کے بعد وہ کام جو چند مہینوں میں ہوتا تھا، وہ چند لمحوں میں ہونے لگا۔ یہ تو اس عمل کا فائدہ ہوا، لیکن اسی مشین کے ذریعے دوسرے نقصانات بھی ہوئے کہ انسانی زندگی مصنوعیت کی طرف چلی گئی۔ انسانی زندگی کے اندر دوسرے غیر معمولی قسم کے وہ خطرات آگئے کہ انسان آج صرف اپنی بیماریاں شمار کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ یہ سب مشینی زندگی کا تحفہ ہے، اور اس کے جو دوسرے نقصانات سامنے آرہے ہیں، آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ 

چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پڑھنے اور پڑھانے والوں نے جب ماحولیات کا جائزہ لیا، حال آں کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی تک ماحولیات نام کا کوئی مضمون دنیا میں موجود نہیں تھا، پھر رفتہ رفتہ پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی سطح تک یہ مضمون وسیع ہو گیا۔

ماحولیات اور سیرتِ طیبہ کے موضوع پر درجنوں مضامین اور کتب موجود ہیں۔ یہ سیرتِ طیبہ کا اعجاز ہے، چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قیامت تک کے لیے پیغمبر و راہ نما بنا کر بھیجا گیا ہے، لہٰذا اگر اس سے ہزار گنا مشکل معاملہ بھی انسانیت کو درپیش ہو تو سیرتِ طیبہ میں اس کا بھی حل ضرور موجود ہو گا۔ صرف سیرتِ طیبہ پڑھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 

ہر شخص کو کام یابی کی تلاش ہوتی ہے، یہ ایک فطری جذبہ ہے، پھر کام یابی کے حصول کے لیے کام یاب شخصیات کی طرف نظر اٹھنا اور ایسے لوگوں کو تلاش کرنا بھی فطرت کا تقاضا ہے، جو اپنے اپنے مقام پر کام یاب قرار پائے۔ ہر دور میں انسان نے کام یابیوں کے سفر کے لیے کام یاب لوگوں کے حالات جاننے کی کوشش کی، اور ان کی خدمات اور سوانحی اشاروں کو توجہ سے پڑھا اور ان سے اپنے لیے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ ہر دور اور ہر عہد کے انسان کی ضرورت ہے، ایسی ضرورت جس میں کسی کو کلام نہیں۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات اور سیرت کے اوراق خود اس بات کی گواہی ہیں کہ کام یاب سے کام یاب ترین شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ نمائی کا محتاج ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس کس کو کہاں کہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راہ نمائی مل سکتی ہے۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں ہمارے قائدین کی کیسے راہ نمائی کرتی ہیں؟ طائف کے سفر میں جب آپ لہولہان ہو جاتے ہیں تو رحمتِ حق جوش میں آتی ہے، ملک الجبال کو بھیجا جاتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو دونوں اطراف کے پہاڑوں کو ملا کر اس شر پسند، مقامِ نبوت سے نا آشنا اور ظالم آبادی کو صفحۂ ہستی سے نابود کر دیں۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تجویز قبول نہیں فرمائی۔ 

دیکھیے ہمیں یہاں کیا درس ملتے ہیں؟ تحمل، صبر، برداشت، عفو، درگزر، انتقام کے بجائے معاف کرنا۔ مگر سب سے بڑا درس یہ ملتا ہے کہ قائدین کو ہمیشہ حوصلہ بلند اور ہمتیں جوان رکھنی چاہئیں۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ مایوسی سے نا امیدی جنم لیتی ہے اور نا امید شخص قوم کی تو کیا اپنی راہ نمائی سے بھی قاصر رہتا ہے۔ یہ نا امیدی ہی ہے جو انسان کو خود کشی جیسے انتہائی اور آخری اقدام پر مائل کرتی ہے، اور یہ امید ہی ہے جو انسان میں آگے بڑھنے کی امنگ پیدا اور کچھ کرنے کا جذبہ جوان رکھتی ہے۔ یہ وہ درس ہے جو مطالعۂ سیرت سے ہمیں حاصل ہوتا ہے۔

ایک مدبر اور سیاست کار کی حیثیت سے کسی کو راہ نمائی درکار ہے تو دیکھیے کہ حدیبیہ کے مقام پر کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کی بنیا د رکھی۔ نتائج کے حوالے سے دیکھیں تو یہ وہ لمحہ  ہے جب اسلام اپنی پوری قوت سے ابھر کر سامنے آیا۔ قریش نے اسی لمحے شکست پا لی تھی جب اہلِ مکہ کا آزادانہ میل جول مسلمانوں کے ساتھ شروع ہو گیا تھا، انہوں نے مسلمانوں کے رہن سہن کا قریب سے مشاہدہ کیا تو ان کے حسنِ سلوک وحسنِ معاشرت سے گھائل ہو گئے اور بالآخر اجنبیت نے اسلام کے رشتے میں بدل کر مودت و محبت کی عظیم مثالیں قائم کر دیں۔

 دوسری جانب یہود کی بڑھتی ہوئی سرکشی سے نمٹنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یک سوئی ملی تو مسلمانوں کو ہر محاذ پر کام یابی ملتی چلی گئی، اور بالآخر انا فتحنالك فتحا مبينا (سورة فتح، جو صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی) کا آسمانی وعدہ زمینی حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ یہ تھا نبوت کا تدبر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دور اندیشی، جو ہمارے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہے۔ 

مشکلات میں جینے کا حوصلہ درکار ہو تو دربارِ نبوت سامنے رکھیے اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کیجیے، دیکھیے دشمن چہار جانب سے حملہ آور ہے، جان لینے کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے، مگر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے سکون سے ہجرت کرتے ہیں۔ اپنے رب پر بھروسے کا یہ عالم ہے کہ جب آپ کے ہم سفر اور یارِ غار صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دشمن کو دیکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے حوالے سے تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس قدر وضاحت سے فرماتے ہیں کہ ان الله معنا (سورۃ توبہ: ۴۰ ) الله ہمارے ساتھ ہے۔

یہ ایک واقعہ نہیں، حوادث کی تسبیح ہے جو ٹوٹ چکی ہے، اور حادثات دانے دانے کی طرح گرتے چلے آرہے ہیں۔ بدر کا میدان ہو یا احد کا، خندق کی سختیاں ہوں یا خیبر کی، تبوک کا معرکہ ہو یا حنین کا عزم وثبات کے کوہ گراں، یہ ایک ایسے شجر سایہ دار ہیں، جس کے نیچے سب ہی کو پناہ ملتی ہے، سب ہی اس دامنِ رحمت کے طالب نظر آتے ہیں۔ کس قدر عمدہ وضاحت اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قول میں ملتی ہے کہ ہمیں جب کبھی جنگ کی شدت میں پناہ ملتی تو دامنِ رحمت ہی میں ملتی تھی۔  یعنی شجاعوں کے شجاع اور بہادروں کے بہادر صرف آپ تھے، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔  

انصاف کے داعیوں کو اگر ہدایت درکار ہے تو بھی دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کے سوا کوئی چارہ کا رنہیں کہ ظلم و جبر کے لیے طرح طرح کے خود ساختہ قوانین کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوں کو پہلی بار زبانِ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے یہ خوش خبری سننے  کو ملی تھی کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا، یعنی فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا فاطمہ بنت فلاں میں کوئی فرق نہیں۔ یہی اعلان زبانِ نبوت نے حجۃ الوداع میں بھی فرمایا تھا کہ لا فضل لعربی علیٰ عجمی آگاہ ہو جاؤ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔

انسانی رویوں کے لیے راہ نمائی ڈھونڈنے والوں کو بھی صحیح معنیٰ میں راہ نمائی سیرتِ طیبہ کے مطالعے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے، کیوں کہ انسانی تاریخ میں ایسا اس سے پہلے کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ کسی شخص نے اپنے غلام کو اپنا منہ بولا بیٹا قرار د یا ہو اور وہ اپنے اہلِ خانہ اور والدین کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہنے پر مصر ہو۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایسے ہی صحابی ہیں۔ 

نہ کسی نے یہ گواہی سنی ہو گی کہ گھر یلو خادم، جو نو عمر بھی ہے، یہ کہتا ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا ؟ یہ گواہی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی زبانی اوراقِ سیرت میں محفوظ ہے۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل خواتین کو وہ آزادی بھی حاصل نہ تھی، جو آپؐ کی برکت سے انہیں میسر آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل لڑکی کی پیدائش باعثِ ننگ  و عار تھی، مگر زبانِ نبوت نے اسے گھر بھر کے لیے رحمت قرار دیا۔ یہ تفصیل بھی سیرت ہی کے مطالعے سے انسان کو میسر آسکتی ہے۔ 

اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مطالعۂ سیرت انسانی ضرورتوں کی تمام ممکنہ جہتوں میں راہ نمائی کرتا ہے۔


(’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ: تاریخی ترتیب سے‘‘۔ اشاعت: دسمبر ۲۰۲۲ء۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، کراچی۔ فون: 923072446688۔ ویب سائیٹ: www.rahet.org)


سیرت و تاریخ

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۹

مدنی مسجد اسلام آباد کا معاملہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

مسجد گرانے کے متعلق چند اہم اصولی سوالات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اکیسویں صدی میں تصوف کی معنویت اور امکانات
مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

خطبہ حجۃ الوداع اغیار کی نظر میں
مولانا حافظ واجد معاویہ

شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

خادمۂ رسول ؐحضرت امِ رافع سلمٰیؓ
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتائج
مولانا مفتی عبد الرحیم

خواتین کا مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

خطبہ، تقریر اور نمازِ جمعہ میں لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال
مفتی سید انور شاہ

کُل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینار: اعلامیہ، سفارشات، قراردادیں
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان

غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ: فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

East and West: Different Futures for Different Pasts
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۳)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۴)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۷)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

بونیر میں امدادی سرگرمیاں اور مدارس کے طلباء
مولانا مفتی فضل غفور
مولانا عبد الرؤف محمدی

اسلام ایک عالمی مذہب کیسے بنا؟
ایپک ہسٹری

پاکستان اور عالمِ اسلام: فکری و عملی رکاوٹیں کیا ہیں؟
عبد اللہ الاندلسی
پال ولیمز

ردِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت
محسن نواز

غزہ کو بھوکا مارنے کے اسرائیلی اقدامات کو کیسے روکا جائے؟
الجزیرہ

گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کی جانب انسانی ہمدردی کا سمندری سفر
ادارہ الشریعہ

صمود (استقامت) فلوٹیلا میں پاکستان کی نمائندگی
مولانا عبد الرؤف محمدی

فلسطینی ریاست کی ممکنہ تسلیم کا برطانوی فیصلہ اور اس کی مخالفت
ادارہ الشریعہ

فلسطین کے متعلق آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کا بدلتا ہوا رجحان: ایک مذاکرہ کی روئیداد
اے بی سی نیوز آسٹریلیا

’’سیرتِ مصطفیٰ ﷺ (۱)‘‘
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
مولانا ڈاکٹر حافظ ملک محمد سلیم عثمانی

’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ : تاریخی ترتیب سے‘‘
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمٰن

’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیرمطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘
ڈاکٹر زاہد منیر عامر

’’فہمِ اقبال — کلامِ اقبال کا موضوعاتی انتخاب‘‘
رانا محمد اعظم

مطبوعات

شماریات

Flag Counter