یہ ایک ویڈیو کی گفتگو ہے جو اسلام کی تاریخ، اس کے ارتقاء، اور دنیا پر اس کے اثرات کے حوالے سے ایک جامع جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس میں آغازِ اسلام یعنی حضرت محمد ﷺ کی دعوت، خلفائے راشدین کے ادوار، اموی اور عباسی سلطنتوں کے عروج، علمی و تہذیبی ترقی، صوفیانہ تحریکوں؛ اور اسلام کے افریقہ، ایشیا، اور یورپ تک پھیلاؤ کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی منگولوں کی یلغار، صلیبی جنگوں، عثمانی اور صفوی سلطنتوں، برصغیر کے ماضی اور بعد میں یورپی نوآبادیاتی دور تک کے مراحل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ گفتگو واضح کرتی ہے کہ اسلام محض ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر تہذیبی اور سیاسی قوت رہا ہے جس نے علم، فنون، معاشرت اور سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔ جدید دور میں بھی یہ مذہب نہ صرف مسلم دنیا کی تشکیلِ نو کا ذریعہ ہے بلکہ مغرب میں بھی اپنی موجودگی اور اثرات کے باعث عالمی مکالمے کا حصہ بن چکا ہے۔
اسلام آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ مانا جانے والا مذہب ہے جو ساتویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے صحرائی خطے سے ابھرا۔ اس کے بانی حضرت محمد ﷺ تھے، جو غالباً 570 عیسوی میں مکہ میں پیدا ،ہوئے اور 610 عیسوی میں غارِ حرا میں حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے وحی کا آغاز ہوا جو قرآن مجید کی صورت میں مرتب ہوئی۔ یہ وحی روحانی اعتبار سے ایمان کا معاملہ ہے مگر اس کا تاریخی اثر بہت گہرا ثابت ہوا۔ ابتدا میں آپ ﷺ نے خفیہ طور پر قریبی لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس میں توحید، اخلاقی اصلاح اور خدا کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا پیغام شامل تھا۔ آہستہ آہستہ آپ ﷺ نے علی الاعلان دعوت دینا شروع کی تو صحابہ کرامؓ نے آپ کی حمایت کی، مگر قریش کی مخالفت نے کشمکش اور پھر جنگ کی صورتحال بنا دی۔ اسی دور میں جہاد کا تصور سامنے آیا جس کے دو معانی تھے: ایک، نفس اور اخلاقی تقاضوں کے ساتھ جدوجہد؛ اور دوسرا، اللہ کی اجازت سے مسلح جدوجہد۔ طویل کشمکش کے بعد مسلمانوں کو غلبہ ملا اور آپ ﷺ کی وفات تک بیشتر عرب اسلام کے دائرے میں آچکے تھے۔
آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ پہلے خلیفہ منتخب ہوئے اور ان کے بعد کے خلفاء نے اسلام کو عرب سے باہر پھیلایا۔ ساسانی اور بازنطینی سلطنتیں صدیوں کی لڑائیوں سے اتنی طاقتور نہ رہی تھیں۔ مسلمان لشکروں نے شام، مصر اور ایران کو فتح کیا۔ ان علاقوں کے زیادہ تر لوگ مسیحی، یہودی اور زرتشتی تھے جنہیں جزیہ دینا پڑتا مگر انہیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کی آزادی تھی۔
اسلام کا پھیلاؤ ابتدا میں سست تھا اور زیادہ تر زبانی روایت پر مبنی تھا، یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کے دور میں قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں مرتب کیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں پہلا خانہ جنگی کا فتنہ شروع ہوا جس سے شیعہ اور سنی مذاہب کی بنیاد پڑی۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اموی خاندان نے اقتدار سنبھالا اور دارالحکومت دمشق منتقل کیا۔ کربلا میں حضرت حسینؓ کی شہادت نے شیعیت کو ایک الگ مذہبی شناخت مہیا کر دی۔
اموی خلافت کی توسیع نے شمالی افریقہ اور اندلس تک اسلام کو پھیلا دیا۔ طارق بن زیاد نے اسپین فتح کیا اور اموی سلطنت کا دائرہ وسیع ہو کر پاکستان تک پہنچ گیا۔ غیر عرب نومسلم (موالی) امتیازی سلوک کا شکار رہے جس سے بغاوتیں ہوئیں۔ 750 میں عباسیوں نے امویوں کو شکست دے کر بغداد کو دارالخلافہ بنایا۔ یہ اسلام کا سنہری دور تھا جس میں علم و فنون، طب، فلکیات اور ریاضی میں بڑی ترقی ہوئی۔ اس دور میں شیعہ و صوفی تحریکیں بھی ابھریں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسلام افریقہ، وسطی ایشیا، اور جنوبی ایشیا میں تجارت اور صوفیاء کے ذریعے پھیلا۔ سلجوق ترکوں نے اسلام قبول کیا اور خلافت کے عملی حکمران بن گئے۔ صلیبی جنگوں کے باوجود صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس واپس لیا۔ بعد میں منگولوں کی یلغار نے بغداد کو تباہ کیا مگر بالآخر انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کے اثر سے ملایہ اور انڈونیشیا میں مسلم سلطنتیں قائم ہوئیں۔
چودھویں صدی میں عثمانی سلطنت ابھری جس نے بازنطینی دارالحکومت قسطنطنیہ فتح کیا اور یورپ تک اپنے اقتدار کو بڑھایا۔ اس دوران ایران میں صفوی سلطنت نے اثنا عشری تشیع کو سرکاری مذہب قرار دیا۔ جبکہ برصغیر میں مغل سلطنت نے ہندو اکثریت پر حکومت قائم کی۔ لیکن رفتہ رفتہ مسلم طاقتیں اندرونی تقسیم اور بیرونی حملوں سے کمزور ہوتی گئیں۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپی نوآبادیات نے مسلم دنیا پر قبضہ کیا۔ اس کے خلاف مزاحمت میں اسلام اہم قوت بن کر ابھرا۔ اسی دوران وہابی اور سلفی تحریکیں بھی سامنے آئیں جنہوں نے ابتدائی اسلام کی طرف واپسی پر زور دیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد خلافتِ عثمانیہ ختم ہوئی۔ بیسویں صدی میں آزادی کی تحریکوں، ایران کے انقلاب اور مسلم دنیا میں نئی ریاستوں کے قیام نے نقشہ بدل دیا۔
جدید دور میں اسلام نے مغربی دنیا کے اندر بھی بڑی آبادیوں کے ذریعے نمایاں حیثیت حاصل کی ہے، مگر نائن الیون کے حملوں جیسے واقعات نے اسے مغرب میں شکوک و شبہات اور خوف کے تناظر میں پیش کیا۔ اس کے باوجود اسلام اپنی 1400 سالہ تاریخ میں بار بار یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ معتدل، پائیدار اور تہذیبوں کی بنیاد بننے والا مذہب ہے۔ آج تقریباً دو ارب مسلمان دنیا بھر میں اس کی میراث کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔