29 جولائی 2025ء کو برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ستمبر تک غزہ میں جنگ بندی، مغربی کنارے میں قبضے سے گریز، اور دو ریاستی حل کی جانب سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو برطانیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لے گا۔ اسٹارمر نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ فلسطینی ریاست کا اعتراف ایک ناقابلِ تنسیخ حق ہے اور موجودہ حالات میں، جب غزہ میں انسانی بحران ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ چکا ہے، یہ اقدام امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ برطانیہ کی یہ پالیسی اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنائی جا رہی ہے، نہ کہ فلسطینیوں کو رعایت دینے کے لیے۔
اسرائیل کے لیے شرائط
- اسرائیل غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
- مستقل جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کرے۔
- مغربی کنارے میں مزید قبضے سے باز رہے۔
- دو ریاستی حل کی طرف سنجیدہ پیش رفت کرے۔
حماس کے لیے شرائط
- تمام یرغمالیوں کو رہا کرے۔
- جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کرے۔
- غزہ کی حکومت سے دستبردار ہو۔
- مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے۔
اس اعلان پر اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے شدید ردعمل دیا، اسے "حماس کے لیے انعام" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا۔
دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ انہوں نے اسٹارمر سے اس معاملے پر کوئی گفتگو نہیں کی، اور برطانیہ کو اس پالیسی پر عمل کرنے سے کوئی اعتراض نہیں، اگرچہ وہ خود اس میں شامل نہیں ہوں گے۔
اسٹارمر نے اپنی ٹی وی تقریر میں غزہ میں جاری انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کیا، جہاں امداد کی ناکامی کے باعث بچے بھوک سے نڈھال ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ فضائی اور زمینی راستوں سے امداد پہنچانے کی کوششیں تیز کر رہا ہے، اور اقوام متحدہ کے تحت روزانہ کم از کم 500 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونے چاہئیں۔
برطانیہ کی یہ پالیسی تبدیلی ایک تاریخی نوعیت کی تبدیلی ہے۔ ماضی میں فلسطینی ریاست کے اعتراف کو سفارتی حد تک رکھا گیا لیکن اب اسے دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگر اسرائیل اور حماس مقررہ شرائط پوری نہ کر سکے تو ستمبر میں برطانیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا، جس سے عالمی سطح پر اسرائیل پر سیاسی دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم موڑ ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں بہتری کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے لیے ایک نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔
theguardian.com
فلسطین کو تسلیم کرنے کے برطانوی عندیہ کی مخالفت
’’ٹاک‘‘ کے زیر اہتمام ایک آن لائن انٹرویو کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں برطانیہ کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ارادہ کی مخالفت کی گئی ہے:
میزبان:
یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ برطانیہ کی حکومت ایسے وقت میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہے جب اب بھی پچاس سے زائد اسرائیلی یرغمالی حماس کے قبضے میں ہیں۔ غزہ کا علاقہ مکمل طور پر ایران کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ حماس کے کنٹرول میں ہے۔ وہاں کے لوگ اب بھی دھمکی دے رہے ہیں کہ اکتوبر ۷ جیسے مزید حملے ہوں گے۔ لیکن شرائط صرف اسرائیل پر عائد کی جا رہی ہیں، حماس پر نہیں۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سر کیر سٹارمر کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
مہمان ڈینیئل برک (ڈائریکٹر، یوکے لائرز فار اسرائیل):
میں سمجھتا ہوں یہ محض اخلاقی ناکامی نہیں بلکہ قانونی ناکامی بھی ہے۔ بین الاقوامی قانون کو نظرانداز کرنا ہے۔ ۴۳ معزز ارکانِ ہاؤس آف لارڈز نے اٹارنی جنرل کو خط لکھ کر یہی کہا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا مونٹی ویڈیو کنونشن ۱۹۳۳ء کی خلاف ورزی ہے۔ اس کنونشن کے مطابق ریاست کے لیے چار شرائط ہیں: واضح سرحد، مؤثر حکومت، مستقل آبادی، اور بیرونی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت۔ فلسطینی ان میں سے کوئی شرط پوری نہیں کرتے۔ نہ مؤثر حکومت ہے، نہ واضح سرحدیں، نہ ہی وہ دنیا کے ساتھ قانونی تعلقات قائم کر سکتے ہیں، کیونکہ خود ان کے سب سے طاقتور گروہ کو دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
مزید یہ کہ پچھلے بیس برسوں میں فلسطینی قیادت نے کوئی ریاستی ڈھانچہ تعمیر کرنے کے بجائے صرف سرنگیں اور اسلحہ خانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ہولوکاسٹ سے بچنے والے افراد اور جلاوطن یہودیوں نے اپنا ملک تعمیر کیا اور آج دنیا کی سب سے ترقی یافتہ ریاستوں میں شمار ہوتا ہے۔ فلسطینیوں کو بے شمار امداد ملی مگر انہوں نے اسے ریاستی مستقبل بنانے کے بجائے جنگ میں جھونک دیا۔
میزبان:
بالکل درست کہا آپ نے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی میڈیا اسرائیل کو ملزم ٹھہرانے میں تیزی دکھاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ حماس نے شروع کی تھی۔ ہمارے سامنے ثبوت ہیں کہ امدادی ٹرک بھی حماس قبضے میں لے کر اپنی مرضی سے بانٹتی ہے جبکہ ان کے لیڈر قطر میں پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں لیکن نئی رہائش گاہیں یا معیشت نہیں بناتے، صرف اسلحے اور پروپیگنڈے پر پیسہ لگاتے ہیں۔ ایسے میں اسرائیل کو بار بار موردِ الزام ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہے۔
ڈینیئل برک:
ہمارا مطالبہ صرف یہی ہے کہ بین الاقوامی قانون کو صحیح معنوں میں لاگو کیا جائے۔ وزیرِاعظم نے فلسطینی ریاست کو "فطری حق" کہا، لیکن یہ قانونی طور پر درست نہیں۔ یہ صرف سیاسی دکھاوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کی قیادت مل کر وہی رویہ اپنا رہی ہے جو کبھی ۱۹ویں صدی کے نوآبادیاتی حکمرانوں کا تھا۔ خوشی کی بات ہے کہ امریکا نے کھل کر کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں ایسی کسی قرارداد کی حمایت نہیں کرے گا۔ اس سے کم از کم یہ پیغام ضرور ملتا ہے کہ اسرائیل اکیلا نہیں۔
میزبان:
لیکن یہاں برطانیہ میں عوام اور میڈیا کا ایک حصہ اسرائیل کے بطور اتحادی اسٹریٹجک کردار کو بھولتا جا رہا ہے۔ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی واحد جمہوریت ہے جہاں وزیرِاعظم تک کو عدالت میں لایا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حماس جیسی تنظیمیں عام شہریوں کو انسانی ڈھال بناتی ہیں۔
ڈینیئل برک:
جی ہاں، اصل مسئلہ صرف بھولنے کا نہیں بلکہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کرنے کا ہے۔ کئی بڑے فوجی ماہرین جنہوں نے اسرائیل اور غزہ کی صورتحال کا قریب سے جائزہ لیا ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حماس صرف اسرائیل کی دشمن نہیں بلکہ مغربی طرزِ زندگی کی مخالف ہے۔ اسرائیل اس جنگ کی اگلی صف پر ہے، مگر یورپ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ خطرہ سب کے دروازے پر موجود ہے۔