بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
آج ہم نے سیلابی ریلوں کی وجہ سے جو ریپ بھرا ہوا ہے گھروں میں اور دکانوں میں، مارکیٹوں میں اور بازاروں میں، اس کی صفائی کے لیے ایک خصوصی مہم کا آغاز کیا ہے، ہم نے تو ایک ہزار رضاکاروں کا بتایا تھا، لیکن ابھی تک جو ہمارے ساتھ رپورٹ ہوئے ہیں وہ ساڑھے تین ہزار تک رضاکار ہیں۔ آپ یہ سلسلہ دیکھ سکتے ہیں۔
الحمد للہ دینی مدارس طلباء کرام اور علماء کرام اور دیندار لوگ یہاں پر آئے ہیں، لوگوں کی گلیوں میں کوچوں میں گھروں میں دکانوں میں بازاروں میں مارکیٹوں میں وہ صفائی کرنے میں مصروف تھے، الحمد للہ، علماء کرام اور دیندار طبقہ کسی بھی موقع پر دکھی انسانیت کی خدمت سے پیچھے نہیں رہتا، ہم دکھ کی اس گھڑی میں اپنے پیر بابا کے عوام کے ساتھ، بچھونئے اور قدرنگر بٹئی کے عوام کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ ان شاء اللہ العزیز ہمارا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
یہاں تک کہ ہمارے یہاں پر جو اقلیتی برادری ہے ان کے گھروں بلکہ ان کی جو عبادت گاہ ہے اس کی صفائی کے لیے بھی ہم نے مولانا تاج الرحمٰن صاحب کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی ہے، ہم نے سو سو بندوں کی ایک ایک ٹیم تشکیل دی ہے، ان کے لیے کھانے کا بندوبست بھی موجود ہے، ہمارے پاس الحمد للہ مشنریاں بھی موجود ہیں، ایکسکیویٹرز بھی ہیں، ٹریکٹرز بھی ہیں، ڈمپ ٹرکس بھی ہیں، ٹرالیاں بھی ہیں، الحمد للہ، اور ساتھ ہی اپنے بیلچوں اور کدالوں سمیت وہ یہاں پر تشریف لائے ہیں، میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اور مقامی آبادی سے درخواست کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ تعاون کریں جی، جزاکم اللہ خیراً۔
(ویڈیو گفتگو: مولانا مفتی فضل غفور، نائب امیر جمعیۃ علماء اسلام خیبرپختونخوا)
پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی ملک کسی قدرتی آفت یا آزمائش سے دوچار ہوا، دینی مدارس کے طلباء اور مذہبی جماعتوں کے رضاکار سب سے پہلے میدان عمل میں اترے۔ آج بونیر کے متاثرین کی امداد کے لیے جو عظیم انسانی خدمت دیکھنے کو ملی ہے، وہ اسی تسلسل کی ایک روشن کڑی ہے۔
اطلاعات کے مطابق آج بونیر میں 3000 رضاکار پہنچے ہیں، جن میں اکثریت دینی مدارس کے طلباء کی ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم اور کتابیں تھیں آج بیلچے، کدالیں اور دیگر اوزار لیئے وہ بونیر پہنچے ہیں، انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ دین کا سچا طالب علم صرف مساجد و مدارس تک محدود نہیں رہتا بلکہ انسانیت کی خدمت کے ہر موقع پر پیش پیش ہوتا ہے۔
اس وقت بونیر کے مقامی لوگوں کے گھر اور دکانیں بارش کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی اور ملبے سے بھرے ہوئے ہیں۔ رہائش، کاروبار اور روزمرہ زندگی اس آفت کے بوجھ تلے دب گئی ہے۔ ایسی گھڑی میں متاثرین کی سب سے بڑی ضرورت ملبے کی صفائی اور گھروں کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ہے۔ یہ مشکل اور محنت طلب کام وہ ذمہ داری ہے جسے ان رضاکاروں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے۔
ان رضاکاروں کا یہ جذبہ اور قربانی دراصل اسلام کی اس بنیادی تعلیم کا عملی اظہار ہے جس میں کہا گیا ہے:
الخلق کلہم عیال اللہ، فأحب الخلق إلی اللہ أنفعہم لعیالہ
(تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔)
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی فضل غفور صاحب کی خدمات اور کردار کو خاص طور پر خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے، جو مسلسل کئی دنوں سے متاثرین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ وہ نہ صرف خود اس کارِ خیر میں عملی حصہ لے رہے ہیں بلکہ دیگر فلاحی اداروں اور رضاکاروں کو بھی رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی قیادت اور رہنمائی سے یہ کاروانِ خدمت مزید منظم اور مؤثر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ سب منظرنامہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں کے رضاکار محض عبادت گزار نہیں بلکہ ایک زندہ قوم کے حقیقی خادم ہیں۔ جب قوم پر مشکل آتی ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے وسائل، وقت اور محنت کو نچھاور کر کے میدان عمل میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
لہٰذا آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان رضاکاروں اور دینی مدارس کے طلباء کو نہ صرف خراجِ تحسین پیش کریں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں۔ ان کے کردار کو اجاگر کرنا اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
یہ نوجوان محض آج نہیں بلکہ کل بھی اس ملک کے ہر بحران میں امید کی کرن اور سہارا ہیں۔ ان کا یہ جذبہ اس بات کا اعلان ہے کہ مدارس اور مذہبی جماعتوں کی یہ کاوشیں پاکستان کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہیں۔
(مولانا عبد الرؤف محمدی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل)