تعمیرِ کعبہ اور آپ ﷺ کی تحکیم
ابتدائے عالم سے اس وقت تک خانہ کعبہ کی تعمیر پانچ مرتبہ ہوئی۔
اول بار حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔ دلائل بیہقی میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس تعمیرِ بیت اللہ کا حکم دے کر بھیجا۔ جب آدم علیہ السلام اس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو حکم ہوا کہ اس گھر کا طواف کرو۔ اور یہ ارشاد ہوا کہ تم پہلے انسان ہو اور یہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے۔ (ابن حجر فتح الباری ۶ ص ۲۸۵)
(کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلاً)
جب نوح علیہ السلام کے زمانے میں طوفان آیا تو بیت اللہ کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک یہی حالت رہی۔ اسی وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی دوبارہ تعمیر کا حکم ہوا کیونکہ بنیادوں کے نشان بھی باقی نہ رہے تھے۔ جبرئیل علیہ السلام نے آ کر بنیادوں کے نشان بتلائے تو حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے حضرت ذبیح اللہ علیہ السلام کی اعانت و امداد سے تعمیر شروع کی۔ مفصل قصہ کلام اللہ میں مذکور ہے۔ زیادہ تفصیل اگر درکار ہو تو فتح الباری، ابن کثیر اور تفسیر ابن جریر کی جانب مراجعت کریں۔ (ابن حجر فتح الباری ج ۶ ص ۲۸۴، ۲۹۲)
تیسری بار بعثتِ نبویؐ سے پانچ سال قبل جب آپؐ کی عمر شریف پینتیس سال کی تھی، قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ بناء ابراہیمیؑ میں خانہ کعبہ غیر مسقّف (بغیر چھت کے) تھا، دیواروں کی بلندی کچھ زیادہ نہ تھی۔ قدِ آدم سے کچھ زائد نو ہاتھ کی مقدار میں تھی۔ مرورِ زمانہ کی وجہ سے بہت بوسیدہ ہو چکا تھا، نشیب میں ہونے کی وجہ سے بارش کا تمام پانی اندر بھر جاتا تھا، اس لیے قریش کو اس کی ازسرِنو تعمیر کا خیال پیدا ہوا۔
جب تمام روساء قریش اس پر متفق ہو گئے کہ بیت اللہ کو منہدم کر کے ازسرِنو بنایا جائے تو ابو وہب بن عمرو مخزومی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کے ماموں) کھڑے ہوئے اور قریش سے مخاطب ہو کر یہ کہا کہ دیکھو بیت اللہ کی تعمیر میں جو کچھ بھی خرچ کیا جائے وہ کسبِ حلال ہو اور زنا، چوری اور سود وغیرہ کا کوئی پیسہ اس میں شامل نہ ہو، صرف حلال مال اس کی تعمیر میں لگایا جائے۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک ہی کو پسند کرتا ہے، اس کے گھر میں پاک ہی پیسہ لگاؤ۔ اور اس خیال سے کہ تعمیرِ بیت اللہ کے شرف سے کوئی محروم نہ رہ جائے، اس لیے تعمیرِ بیت اللہ کو مختلف قبائل پر تقسیم کر دیا کہ فلاں قبیلہ بیت اللہ کا فلاں حصہ تعمیر کرے اور فلاں قبیلہ فلاں حصہ تعمیر کرے۔
دروازے کی جانب بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے حصہ میں آئی، حجرِ اسود اور رکنِ یمانی کا درمیانی حصہ بنی مخزوم اور دیگر قبائل قریش کے حصہ میں آیا، بیت اللہ کی پشت بنی جمح اور بنی سہم کے حصہ میں آئی، اور حطیم بنی عبد الدار بن قصی، بنی اسد اور بنی عدی کے حصہ میں آیا۔
اسی اثناء میں قریش کو یہ خبر لگی کہ ایک تجارتی جہاز جدہ کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا ہے۔ ولید بن مغیرہ سنتے ہی جدہ پہنچا اور اس کے تختے خانہ کعبہ کی چھت کے لیے حاصل کر لیے۔ اس جہاز میں ایک رومی معمار بھی تھا جس کا نام باقوم تھا۔ ولید نے تعمیرِ بیت اللہ کے لیے اس کو بھی ساتھ لے لیا۔ قال الحافظ فی الاصابۃ رجالہ ثقات مع ارسالہ۔ (ابن حجر الاصابہ (۸۵۳) ج ۱ ص ۱۳۷)
ان مراحل کے بعد جب قدیم عمارت کے منہدم کرنے کا وقت آیا تو کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ بیت اللہ کے ڈھانے کے لیے کھڑا ہو۔ بالآخر ولید بن مغیرہ پھاؤڑا لے کر کھڑا ہوا اور یہ کہا کہ (اللھم لا نرید الا الخیر) ’’اے اللہ! ہم صرف خیر اور بھلائی کی نیت رکھتے ہیں‘‘۔ معاذ اللہ ہماری نیت بری نہیں۔ اور یہ کہہ کر حجرِ اسود اور رکنِ یمانی کی طرف سے ڈھانا شروع کیا۔
اہلِ مکہ نے کہا کہ رات انتظار کرو کہ ولید پر کوئی آسمانی بلا تو نازل نہیں ہوتی، اگر اس پر کوئی بلائے آسمانی اور آفتِ ناگہانی نازل ہوئی تو ہم بیت اللہ کو پھر اصلی حالت پر بنا دیں گے، ورنہ ہم بھی ولید کے معین و مددگار ہوں گے۔ صبح ہوئی تو ولید صحیح و سالم پھر پھاؤڑا لے کر حرم محترم میں آ پہنچا۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے اس فعل سے اللہ راضی ہے اور سب کی ہمتیں بڑھ گئیں اور سب مل کر دل و جان سے اس کام میں شریک ہو گئے اور یہاں تک کھودا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادیں نمودار ہو گئیں۔ ایک قریشی نے جب بنیادِ ابراہیمیؑ پر پھاؤڑا چلایا تو دفعتاً تمام مکہ میں ایک سخت دھماکہ ظاہر ہوا جس کی وجہ سے آگے کھودنے سے رک گئے اور انہیں بنیادوں پر تعمیر شروع کر دی۔ تقسیمِ سابق کے مطابق ہر قبیلہ نے علیحدہ علیحدہ پتھر جمع کر کے تعمیر شروع کی۔
جب تعمیر مکمل ہو گئی اور حجرِ اسود کو اپنی جگہ پر رکھنے کا وقت آیا تو سخت اختلاف ہوا۔ تلواریں کھنچ گئیں اور لوگ جنگ و جدال اور قتل و قتال پر آمادہ ہو گئے۔ جب چار پانچ روز اسی طرح گزر گئے اور کوئی بات طے نہ ہوئی تو ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی نے، جو قریش میں سب سے زیادہ معمر اور سن رسیدہ تھا، یہ رائے دی کہ کل صبح کو جو شخص سب سے پہلے مسجدِ حرام کے دروازے سے داخل ہو، اسی کو اپنا حَکم بنا کر فیصلہ کروا لو۔ سب نے رائے کو پسند کیا۔ صبح ہوئی اور تمام لوگ حرم میں پہنچتے ہی سب کی زبانوں سے بے ساختہ یہ لفظ نکلے ھذا محمد الامین رضینا ھذا محمد الامین ’’یہ تو محمدؐ امین ہیں، ہم ان کے حَکم بنانے پر راضی ہیں، یہ تو محمدؐ امین ہیں۔‘‘
آپؐ نے ایک چادر منگوائی اور حجرِ اسود کو اس میں رکھ کر یہ فرمایا کہ ہر قبیلہ کا سردار چادر کو تھام لے تاکہ اس شرف سے کوئی قبیلہ محروم نہ رہے۔ اس فیصلہ کو سب سے پسند کیا اور سب نے مل کر چادر اٹھائی۔ جب سب کے سب اسی چادر کو اٹھائے اس جگہ پہنچے جہاں اس کو رکھنا تھا تو آپؐ بہ نفسِ نفیس آگے بڑھے اور اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھ دیا۔ (زرقانی، شرح مواہب، ج ۱: ص ۲۰۳ تا ۲۰۶۔ سیرۃ النبویہ ج ۱ ص ۲۰۱۔ ابن ہشام، سیرۃ النبی، ج ۱: ص ۲۱۰۔ سہیلی، روض الانف، ج ۱: ص ۱۲۷۔ طبری، تاریخ الامم والملوک، (۱/۱۱۳۹) ج ۲: ص ۲۹۰)
چوتھی بار عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں بیت اللہ کو شہید کر کے ازسرِنو تعمیر کرایا۔
پانچویں بار اس کو حجاج بن یوسف نے بنایا کہ اولین اور آخرین میں جس کے جور و ستم اور ظلم و تعدی کی نظیر نہیں۔ تفصیل کے لیے کتبِ تاریخ ملاحظہ ہوں۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ الفیۃ السیر میں فرماتے ہیں:
واذ بنت قریش البیت اختلف
مــــلاھم تنــــازعا حتی وقــف
امــرھــم فیمـن یکون یضــع
الحجر الاســود حیث یوضـع
اذ جـــاء قالوا کلھم رضیـنـا
لوضــعہ مـحــــمـــــد الامینا
فحـط فی ثـوب و قال یرفـع
کل قبـیــــل طــرفـا فرفعــوا
ثمۃ اودع الامین الحـــجــرا
مکانۃ وقد رضوا بما جرٰی (عراقی، الفیۃ السیرۃ)
’’اور جب قریش نے بیت اللہ کو بنایا تو ان کا اختلاف شدت اختیار کر گیا یہاں تک کہ وہ متفق ہو گئے اس شخص کے متعلق کہ حجرِ اسود کو جب رکھنے کا وقت آئے تو کون رکھے۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سب نے یک زبان کہا ہم سب راضی ہیں آپؐ کے رکھنے پر جو کہ امین ہیں۔ آپ علیہ السلام نے حجرِ اسود کو ایک کپڑے میں رکھا اور فرمایا ہر قبیلے کا سردار اس کی ایک طرف کو تھام لے تو سب نے پکڑ کر اٹھایا حجرِ اسود کے مقام تک۔ تو آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے حجرِ اسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ جو طریقہ آپ علیہ السلام نے اپنایا اس پر سب راضی ہو گئے۔‘‘
’’سیرتِ مصطفیٰ ﷺ‘‘
از افاضات: حضرت العلامہ مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ
مفید اضافہ و جدید ترتیب: مولانا ڈاکٹر حافظ ملک محمد سلیم عثمانی
ناشر: مکتبہ عمر فاروقؓ، بالمقابل صدف پلازہ، اردو بازار، محلہ جنگی قصہ خوانی، پشاور